اردو ناول میں خواتین ادیبوں کے فکری رویے
توحید بیگم

ABSTRACT
Female writers wrote novels Side by side with men novelists. For example Ismat chughtai, Qurat ul Ain Haider, Nazar Sajjad, Bano Qudsia, Umaira Ahmad, and Rashidat Un Nisa Begum were the prominent names among them. They presented women problems most efficiently because they were themselves women. In their novels women found a way of expression for their feelings, sensations, and thoughts in the form of different characters. In this research article the novels of these women writers has been discussed .
ابتدا میں جب قصہ خواب ، طلسم، مافوق الفطرت عناصر، بے ہنگم پلاٹ اور غیر منطقی واقعات کی بھول بھلیاں میں گم تھا تو داستان کہلایا اور جب اس سے نکل کر اس نے حقیقی زندگی کا لبادہ اوڑھا، تو ناول کے نام سے یاد کیا جانے لگا۔گویاناول داستان کی ایک ترقی یافتہ ، پختہ اور منطقی حوالوں سے متوازن صورت ہے۔
زندگی کا مزاج وقت کے ساتھ ساتھ تبدیل ہوتا رہاہے اور اس کا اثر کہانی پر بھی پڑتا رہاہے ۔فراغت نہ ہونے کی وجہ سے کہانی پھیلاؤ سے سمٹاؤ کی طرف مائل ہو گئی ہے اور سائنسی دور میں داخل ہونے کی وجہ سے کہانی زیادہ عقلی اور منطقی ہونے لگی ہے ۔یہ سوال اٹھایا گیا ہے کہ کہانی کیوں کر لکھی جائے ۔یہی وجہ ہے کہ اس کا اثرکرداروں کے مزاج ، کہانی کے مواد اور واقعات کی نوعیت پر بھی پڑاہے ۔کہانی کار کا تخیل آزادانہ رو میں بہنے کی بجائے پابہ زنجیر چلنے پر مجبور ہے ۔کہانی کا مزاج معنوی حوالے سے غزل کی انتشارخیالی کی بجائے نظم کی معنوی ترتیب کے قریب تر نظرآنے لگاہے۔اور سب سے بڑی بات یہ کہ آج کی کہانی کے کردار طبقاتی اعتبار سے مختلف ہیں ۔آج کی کہانیوں کے ہیروز شہزادے اور شہزادیاں نہیں ہیں بلکہ ہم جیسے عام انسان ہیں ۔اس لیے آج کی کہانی میں عشق اور محبت کے علاوہ اور بھی بہت کچھ ہے ۔ آج کا قاری یا سامع ماضی کے قاری یا سامع سے مختلف ہے ۔آج کا قاری ہر ایک واقعے کوعقل کی کسوٹی پر پرکھتا ہے ۔ اور جو اس پر پورا نا اترے اسے رد کردیتا ہے۔اس لئے کہانی فطری ارتقاکے عمل سے گزر کر ناول کے روپ میں ڈھلتی چلی گئی ۔اردو ادب میں یہ صنف انگریزی ادب سے آیا ۔
ناول اطالوی زبان کے لفظ ’’ناویلا‘‘ سے نکلا ہے جس کے معانی ہے نیا یا نرالا ۔یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ جب انسان داستان کی صورت میں کہانی کے ماورائی مزاج سے اکتا تا چلا گیا تو ناول کا گرویدہ ہوتا چلا گیا۔اس نے ایسا قصہ سنا جس میں حقیقی زندگی کا عکس نظر آیا تو اسے ’’نیا ‘‘کے نام سے پکارا جانے لگا ۔ناول ایک نثری قصہ ہے جسمیں ہماری زندگی کے کئی حقیقی اور نئی تصویریں پیش کی جاتی ہیں۔یہ تصویریں نئی ان معنوں میں ہوتی ہیں کہ اسے اس سے پہلے کی کہانیوں میں قارئین نے دیکھا نہیں ہو تا یا دھندبھری فضا میں لپٹا ہوا دیکھا ہوتاہے ۔لہٰذا جب تخیل کی دھند چھٹنے لگتی ہے تو حقیقتیں اپنے اصل کھردرے لیکن کھرے روپ میں قاری کے سامنے آتی ہیں ۔ اور ہماری روز مرہ زندگی کا عکس اس میں نمایا ں نظر آنے لگتا ہے۔ڈاکٹر ابوللیث صدیقی ناول کے حوالے سے لکھتے ہیں :
’’ناول سے مراد سادہ زبان میں ایسی کہانی ہے، جس میں انسانی زندگی کے معمولی واقعات اور روزانہ پیش آنے والے معاملات کو اس انداز سے بیان کیا جائے کہ پڑھنے والے کو اس میں دلچسپی پیدا ہو۔ یہ دلچسپی پلاٹ ، منظر نگاری ، کردار نگاری اور مکالمہ نگاری سے پیدا کی جاتی ہے اور یہی ناول کے بنیادی عناصر ہیں۔ان میں پلاٹ اور کردار نگاری خاص طور پر اہم ہیں‘‘(۱)
اس طرح ناول میں پیدائش سے موت تک انسان کی زندگی میں جو کچھ پیش آتا ہے۔اور جن حا لات اور واقعات سے وہ گزرتا ہے،ان تمام کا ذکر ملتا ہے۔ دراصل ناول کا موضوع زندگی اور اس کے مسائل کو حقیقی اور کھردرے انداز میں اجاگر کرنا ہے۔اردو میں سینکڑوں ناول لکھے گئے لیکن ان میں سے چند ہی ادبی معیارپرپورا اترتے ہیں۔کیوں کہ ناول کے لئے صداقت کا ہونا ضروری ہے۔ اس کے علاوہ منظر نگاری اور پلاٹ کا ہونا بھی لازم ہے۔ڈاکٹر محمد حسن ناول کے ادبی مقام و مرتبہ کا تعین کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’ ادبی مرتبے کے ناولوں سے مراد وہ ناول ہیں جن میں موضوع کے اعتبار سے فکری صلا حیت اور طرزتحریر میں ادبی چاشنی موجود ہو۔ گھٹیاناول واقعات پر تو جہ مرکوز کرتا ہے۔ادبی ناول ان میں مضمر اقدار کی عکاسی کیلئے استعمال کر تا ہے ۔ گھٹیا ناول کیلئے خارج کی تصویر کشی بڑا کام ہے۔ ادبی ناول کیلئے خارج بصیرت کا وسیلہ اظہار بنتا ہے۔ ارسطو نے اعلیٰ سنجیدگی اور اعلیٰ صداقت کی انہی اقدار کی بنا پر ادب کو تاریخ پر ترجیح دی تھی۔۔۔۔یعنی اچھا ناول پڑھنے والے کو نئی بصیرت ضرور بخشتا ہے۔فکر اور جذبے کی تربیت کرتا ہے اور زندگی کو ایک نئی روپ میں دیکھنے کی صلاحیت بخشتا ہے ۔ گویا ناول کی عظمت کی بحث کا مدار اس کی جمالیاتی اقدار کے ساتھ ساتھ ان کی فکری اقدار پر بھی ہے، جو قاری کے تصورات کو نئی سمت میں لے جاتا ہے۔اور زندگی کی بصیرت کو نیا موڑ دیتا ہے۔ ‘‘(۲)
مختصر یہ کہ ناول ایک ایسا آئینہ ہے ۔جس میں زندگی کے سارے روپ دیکھے جا سکتے ہیں۔ زندگی کے نشیب وفراز اور زندگی کا عکس دراصل ناول ہی کے مرہون منت ہیں۔ یعنی حقیقی واقعات کو تحریری شکل میں لانا اور کہانی میں پیش کرنا ناول ہے۔ڈاکٹر سنبل نگار ’’اردو نثر کا تنقیدی مطالعہ ‘‘میں ناول کے بارے میں لکھتی ہیں:
’’ اردو میں ناول کا آ غاز انیسوی صدی میں سر سید تحریک کے زیر اثر ہوا۔اردو ناول داستان کی ایک ارتقائی شکل ہے۔ اور اسکی کوکھ سے ناول نے جنم لیا۔ہمارے ادب پر مغرب کا احسان ہے ، کہ ہمارے بزرگ ادیبوں کی نگاہیں ادھر اٹھیں اور انھوں نے مغربی ادب سے فائدہ  اٹھایا۔‘‘(۳)
اردو ادب میں ناول کی ابتدا ء میں نذیر احمد کا نام سر فہرست ہے۔مولوی نذیر احمد کا پہلا ناول ’’مراۃالعروس‘‘ ۱۸۶۹ میں شائع ہوئی۔یہ اردو کا پہلا باقاعدہ ناول شمار کیا جاتاہے۔’’ مراۃالعروس‘‘ کے بعد بھی مولوی صاحب کے یکے بعد دیگر ناول شائع ہوتے رہے۔مولوی صاحب کے ناولوں میں اگرچہ فنی خامیاں پائی جا تی ہیں۔لیکن فکر ی حوالوں سے ان میں نیاپن موجود ہے۔ان میں پہلی مرتبہ مقصدیت کی ایک رو موجود ہے جو اس سے پہلے کی کہانیوں میں ناپید تھی۔ ان ناولوں کا غالب فکری حوالہ بچیوں کی تعلیم و تربیت اور عورتوں کی اصلاح ہے ۔
نذیر احمد کے بعد رتن ناتھ سر شار نے ناول نگاری کی صنف کو آگے بڑھایا۔ کئی ایک ناول اس دور میں لکھے گئے۔لیکن سب سے زیا دہ مقبولیت ’’فسانہ آزاد‘‘ کو حاصل ہوئی ۔مولوی صاحب اور رتن ناتھ سرشار کے بعد اردو ناول نگاری کے میدان میں عبدالحلیم شرراور محمد علی طیب قابل ذکر ہیں۔ان کا دور تاریخی ناول کا دور ہے۔جس میں اسلام کی عظمت و شوکت کے قصوں کو دہرایا گیا ہے ۔ مرزا ہادی رسوا کا نام بھی اردو ناول نگاری کی تاریخ میں کسی تعارف کا محتاج نہیں اس کے بعد پریم چندکا زمانہ آتا ہے جو ترقی پسند تحریک کا دور تھا ۔اس دور میں اردو ادب کو بے پناہ ترقی ملی اور پہلی بار اردو ادب میں خواتیں ناول نگاروں کا دور بھی شروع ہوا اس سے پہلے اردو میں خواتین نے نثر میں بہت کم لکھا تھا۔ خواتین ناول نگاروں کی ابتدا کا زمانہ در اصل انیسویں صدی سے شروع ہوتا ہے ۔ اور گزشتہ دو دہائیوں خواتین ناول نگاروں کی ایک نئی پود جنم لے چکی تھیں۔ چنانچہ ان خواتین ناول نگاروں میں بیسویں صدی کی تمام ناول نگار خواتین شامل ہیں۔ ان کے ہاں زندگی اور ادب کے بارے میں ایک مخصوص زنانہ تصور ہے۔کبھی سیدھی سادی اور کبھی فلمی انداز کی کہانی ، نیم شاعرانہ اسلوب، نیم پختہ جذبات اور زندگی کے بارے میں خام قسم کا رومانی انداز نظر آنا ان سب کی مشترکہ خصو صیت ہے۔
قراۃ العین حیدر ، عصمت چغتائی ، کرشن چندر ، خدیجہ مستور، حاجرہ مسرور، جمیلہ ہاشمی اور دیگر ادیبوں نے بھی اس میدان میں کارہائے نمایاں انجام دیے۔ دور جدید کی ناول نگار خواتین میں عمیرہ احمد اور بانو قدسیہ کے نام بھی خواتین لکھاریوں میں کسی تعارف کے محتاج نہیں ۔ ان ناول نگار خواتین نے ناولوں میں خواتین کے فکری رویوں پر لکھا اور ان کے مسائل اور گھریلو حالات کے ساتھ ساتھ گھر کے باہر عورت کی مصروفیتوں اور مسائل کے بارے میں بھی لکھا۔
دنیا کے بیشتر معاشروں میں مرد ہی کی برتری ہے۔ دنیائے آفرینش میں آدم ؑ اور حواء ؑ کو جب اس دنیا میں بھیجا گیا اس دن سے اس خیال کو تقویت ملی کہ عورت مرد سے کم تر اور محکوم ہے۔ کیونکہ عورت مرد کے بائیں پسلی سے بنی ہے۔ علم اور سائنس جدید صنفی تحریکوں کے نتیجہ میں مغرب میں عورت کی حالت اس کے بالکل بر عکس ہے کیونکہ وہاں عورت کو مرد کے برابر حقوق ملے ہیں۔ مر د اور عورت ایک دوسرے کے شانہ بشانہ کام کرتے ہیں اور ملک کی ترقی میں سنگ میل ثابت ہوتے ہیں۔مساوی حقوق کی یہ لہر مغرب سے مشرق کے طرف بھی آگئی ہے۔ لیکن اس کے باوجود جنوبی ایشیا کے مسلم خواتین آج تک مردوں پر انحصار کرتی ہیں۔ انہیں وہ سماجی آزادی میسر نہیں جو مردوں کو میسر ہے۔ کیونکہ جنوبی ایشیا کی مسلم خواتین کا زیادہ تر وقت ان کے گھر میں گزرتا ہے۔ مشرقی معاشر ے میں تو خاص طور پر عورت قابل ستائش ہے۔ جو اپنی ہستی کو مٹا کر اپنے شوہر اور گھر بار کے لئے سب کچھ قربان کر دیتی ہے۔ ڈاکٹر بیلی نذیر احمد کے گھریلو ناول کے بارے یوں رقم طراز ہیں۔
’’ ڈاکٹر بیلی کے نزدیک نذیر احمد ایک مصلح تھے۔ ان شہرت کی بڑی وجہ ناول نگاروں کے ایک نئے دبستان اور نئے قسم کے ناولوں یعنی گھریلو ناولوں کی طرح ڈالنے میں ہے۔ انہوں نے مسلمان گھرانوں کی معاشرتی اصلاح کی وکالت کی ۔ ‘‘)۴(
یہی سماجی اور فکری رویے ہمیں اردو ادب میں دکھائی دیتے ہیں سوال یہ ہے کہ عورت صرف مجبوری اور بے کسی کا استعارہ ہے۔ یا اپنی بھی کچھ پہچان رکھتی ہے تو یہاں یہ بات اور بھی محسوس ہو جاتی ہے کہ ان ناولوں میں خارج خانہ عوامل کا کردار بہت کم ہے ۔ لیکن ڈاکٹر سید جاوید اختر نذیر احمد کے بار ے میں لکھتے ہیں:
’’ اس کے بجائے نذیر احمد کے زیر اثر ان کی تحریروں میں گھریلومسائل اور ان پر غورو فکر کا رجحان غالب ہے۔ نو بیاہتادلہنوں کو سلیقہ مندی سکھانا ، سسرال کی خدمت کرنا ، محبت ا ور صبر کی تلقین کرنا ، تعلیم کی اہمیت اجاگر کرنا اور بری رسوم اور توہمات سے نجات دلانا جیسے موضوعات اس عہد کے لکھنے والوں کے پیش نظر تھے۔جن کا تعلق صرف گھر کی چار دیواری سے تھا ‘‘(۵)
اس طرح نذیر احمد کے ہاں مشرقی اقدار اور عورت کا واضح تصور اردو کے ابتدائی ناول ’’ مر ا ۃ العروس ‘‘ میں دکھائی دیتا ہے۔ اس ناول میں مصنف نے عورت کے دو رخ دکھائے ہیں۔ایک وہ عورت جو مشرقی اقدار کی آزمائش پر پوری اترتی ہے۔ جبکہ دوسرا رخ معاشرے کا نا پسندیدہ اور اس کے بر عکس ہے۔ ناول میں نذیر احمد لکھتے ہیں۔
’’ اکبر ی خانم اس بیو قوف اور مکار عورت کا نام تھا اور سسرال سے اس کو مزاج دار بہو کا خطاب ملا تھا۔یہ اکبری بے وقوف ،بے ہنراور بد مزاج تھی۔لیکن اس کی چھوٹی بہن اصغری خانم بہت عقلمند اور نیک مزاج تھی۔چھوٹی سی عمر میں اس نے قرآن کا ترجمہ اور مسائل کی اردو کتابیں پڑھ لی تھیں ‘‘ (۶)
مشرقی معاشر ے کا ایک المیہ یہ بھی ہے کہ یہا ں عورت ذات کو حقارت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ اور یہی خفت بچی کی پیدائش پر واضح ہوکرسامنے آتی ہے۔ اس کے بارے میں عصمت چغتائی نے ناول ’’ ٹیڑھی لکیر ‘‘ میں واضح انداز میں بیا ن کیا ہے۔
’’ ثمن اپنے ماں باپ کی دسویں بیٹی ہے۔ اس کی پیدائش پر سب کو غم ہوتا ہے۔ کہ بدبخت لڑکیوں نے بس یہی ایک گھر دیکھ لیا ہے اور ثمن بے توجہی کا شکار ہو جاتی ہے۔ بے توجہی میں اس کی پرورش ہوتی ہے جس سے وہ محرومی اور تنہائی کی کرب میں مبتلاہو جاتی ہے۔ ‘‘(۷)
مشرقی معاشرے کے مسائل بہت سے ناول نگار خواتین کے ہاں نظر آتے ہیں۔ان مسائل کو ان خواتین ناول نگاروں نے اپنے ناولوں میں خوب اجاگرکرنے کی کوشش کی ہے۔ ناول نگاروں نے گھریلو مسائل کو واضح کیا اور ان مسائل کو ناول کا موضوع بنایا ۔ ڈاکٹر سید جاوید اختر اس کے بارے میں لکھتے ہیں:
’’ اردو کی پہلی خاتون ناول نگار رشید ۃ النساء سے لیکر صغریٰ ہمایون مرزا تک سبھی خواتین میں یہی ایک مشترکہ بنیادی رجحان غالب رہا ہے۔ البتہ نذر سجاد حیدر وہ پہلی خاتون ہے جنہوں نے اپنے ناولوں میں گھر سے باہر کی زندگی کو بھی پیش کیا ہے ۔ ‘‘(۸)
اس طرح خاتون لکھاریوں میں نذر سجاد نے گھر سے باہر کے ماحول اور حالات کو ناول کا حصہ بنایا ان کے ناولوں میں پہاڑ ی مقامات ، کلب اور ریسٹورنٹ کا ذکر ملتاہے۔ اس کے بر عکس ابتدائی زمانے کے خواتین ناول نگاروں نے گھریلوماحول کو ناولوں میں زیر بحث لائے اور زیادہ تر مرد ناول نگاروں سے متا ثر ہونے کی وجہ سے ان کی پیروی کی ۔ لیکن عورتوں نے عائلی مسائل کی ترجمانی کرنے میں مرد ناول نگاروں سے سبقت لی کیونکہ گھر کے اندرونی ماحول اور رسم و رواج سے مرد ناول نگار نا آشنا ہوتے ہیں۔ اس لئے بچے کی پیدائش، شادی بیاہ ، ٹونے ٹوٹکے ، گود بھرائی ، شربت پلائی اور منگنی کی و غیرہ کی رسومات کو اتنی مہارت سے بیان کیا کہ یہ ہماری سماجی تاریخ کا ایک نا قابل فراموش باب بن گیا۔ ڈاکٹر سید جاوید اختر لکھتے ہیں:
’’ اس زمانے کے سب سے بڑے مرد ناول نگار ڈپٹی نذیر احمد اور ان کی ہم عصر خاتون ناول نگار رشید ۃ النساء ہی کے ناولوں کا تقابلی جائزہ لیا جائے تو یہ حقیقت خو د بخود ظاہر ہوجاتی ہے ۔ نذیراحمد کے ناولوں میں ایک پروپیگنڈے کی سی کیفیت جھلکتی ہے۔‘‘(۹)
جبکہ رشید ۃ النساء کے متعلق تحریر کرتے ہیں:
’’ اس کے مقابلے میں رشید ۃ النساء  کے اکلوتے ناول’’ اصلاح انساء ‘‘ کو دیکھئے تو حیرت ہوتی ہے۔ اگرچہ اس کا قصہ اور موضوع مولوی صاحب کی تقلید میں گھریلو امور پر استوار کیا گیا ہے۔تاہم اس ناول میں لیکچر اورپروپیگنڈے والی بات کہیں دکھائی نہیں دیتی اور لطف کی بات یہ ہے کہ یہ ناول اپنے عہد کا ایک یادگار تہذیبی مرقع ہے۔ ‘‘(۱۰)
تر قی پسند تحریک کے بعد جب جدیدیت کو فروغ ملا تو مرد ناول نگار وں کے ساتھ ساتھ خواتین ناول نگار بھی اپنے مخصو ص خول سے باہرنکل آئے۔ایسے موضوعات جن پر صرف مرد لکھا کرتے تھے اب عورتوں نے بھی اپنا موضوع بنایا ۔ان میں فلسفہ، جنسیات، تہذیب، سیاسیات اورسائنس شامل ہیں۔جدیدیت کے زیر اثرناول نگار خواتین کی زیادہ تر توجہ انسانی نفسیات پر ہے۔ عصمت چغتائی نے صنف نازک کی نفسیات کو بھر پور انداز میں پیش کیاہے۔
’’عورتوں کی نفسیات مردوں کے مقابلے میں عورتیں ہی بہتر سمجھتی ہیں اور اس کو خوب انداز میں بیان کرسکتی ہیں ۔ اس لیے انہیں اس شعبے میں مردوں پر فوقیت حاصل ہے۔‘‘۱۱؎
اس طرح عورت کی نفسیات کی طرف سب سے پہلے عصمت چغتائی کا رجحان پیدا ہوا۔ عصمت کے ناول ’’ ضدی‘‘ میں سے ایک چھوٹا سا اقتباس اس رجحان کی ترجمانی کے لئے درج کیا جاتا ہے۔
’’ یہ عورت ذات بھی کس قدر ڈھکو سلا باز ہے۔ اور خصوصاً وہ عورتیں جو خود کو نیک اور پاک باز کہے جانے کا آبائی حق رکھتی ہیں۔۔۔مگر ذرا میاں بیمار ، بوڑھا ہوا اور اس کے ساتھ وہی سلوک شروع ہو جاتا ہے جو دودھ سوکھ جانے کے بعد قصائی گائے کے ساتھ روا رکھتا ہے۔‘(۱۲)
عصمت نے اپنے ناولوں میں کامیاب فن کا مظاہرہ کیااس نے متوسط مسلمان گھرانوں کے نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کی دنیا کی سیر کی اور ان کے مسائل اور نفسیات کو موضوع بنایا۔ جنس کے موضوع کو بے باکی سے بیان کیا ان کے ہاں یہ احساس غالب ہے کہ جنسی جذبات پر توجہ کئے بغیر انسانی ذہن کی گرہیں نہیں کھولی جاسکتیں گویا نفسیات اور جنسیات کا آپس میں گہرا رشتہ ہے۔ جنس کی وادی پر خار میں قدم رکھنے والی پہلی خواتین فنکاروں میں عصمت چغتائی کا نام بھی شامل ہے۔ ’’ ٹیڑھی لکیر‘‘میں لکھتی ہیں:
’’اسکول میں ثمن کاایک استانی مس چرن سے واسطہ پڑ تا ہے۔ وہ ہم جنسی کے مرض میں مبتلا ہے۔ اس کے بعد رسول فاطمہ اور نجمہ سے اس کی دوستی ہوتی ہے۔ یہ دونوں بھی اس لعنت میں گرفتار ہیں۔ چھوت کو یہ مرض آخرثمن کو بھی لگ ہی جاتا ہے۔ ‘‘(۱۳)
عصمت نے عورت کو معاشرے کا ایک کمزور فر د بھی شمار کیا ہے۔ عورت کی کمزور سماجی حالت پرروشنی ڈالی ہے۔ ناول ’’ دل کی دنیا‘‘ میں اس کمزور پہلو کو اجاگر کرکے لکھتی ہیں:
’’ دل کی دنیا میں ایک ایسی لڑکی کا کردار پیش کیا ہے۔ جسے اپنے شوہر کی بے التفاتی نے بر باد کردیا ۔اس لڑکی کا نام قدسیہ بیگم ہے۔ وہ حالات کے سامنے سپر انداز نہیں ہوتی بلکہ سوسائٹی کے رسم و رواج سے بغاوت کردیتی ہے۔ وہ رشتے کے دیور شبیر حسن سے دل کی دنیا آبا د کردیتی ہے جو اس کی بد نامی کا سبب بنتی ہے۔ ‘‘(۱۴)
اردو ناول نگار خواتین میں قراۃالعین حیدر نے بھی عورت کی نفسیات پر خوب تحریر کیا۔ ان کے فن کی دنیا کافی وسیع ہے۔ جاگیردارانہ نظام ،اس کا زوال،اونچے طبقے کے مسائل و مصائب ان کا پسند یدہ مو ضوع ہیں۔جاگیردانہ نظام کے زیرِ اثر عورتوں کی زبوں حالی قراۃ العین حید ر کے ناولوں میں ملاحظہ کی جاسکتی ہے۔ڈاکٹر سنبل نگار اس کے بارے میں لکھتی ہیں۔
’’ عورت اور عورت کے مسائل ،عورت کی بدنصیبی قراۃالعین کا خاص موضوع ہے ۔انہوں نے اپنے افسانہ اور ناول میں اس حقیقت کا بہت تکلف کے ساتھ ذکر کیا کہ عورت بہرحال مرد کا سہارا لینے کے لئے مجبور ہے ۔ اور مرد ہمیشہ اس مجبوری کا فائدہ اٹھاتا ہے۔وہ عورت کو اکثر منجدھار میں چھوڑ جاتا ہے۔‘‘(۱۵)
بر صغیر میں عورت کا استحصال باقی دنیا سے زیادہ ہے۔ قراۃالعین کے عورت کے ہاں تنہائی شوہر سے دوری اور معاشرے میں ہر موڑ پر قربانی کا ذکر ملتا ہے۔ لیکن جنس کے ذکرسے اس نے کافی حد تک لا تعلقی کا اظہار کیا ہے۔ ان کے ہاں زیادہ تر نسوانی کردار بلند خیالی اور بلند کرداری کے با وجود حرماں نصیب ہے۔ وہ لکھتی ہیں۔
’’ ہمارے سماج میں زیادہ تر عورتوں کی زندگیاں ہمیشہ سے ٹریجک رہی ہیں اور انھیں مزید بیوقوف بنانے کے لئے ستی ساوتری ، وفا کی پتلی،ایثار کی دیوی کے خطاب دے دئے جاتے ہیں۔‘‘(۱۶)
قراۃالعین حیدر کے ہاں اپنوں سے بچھڑجانے کا غم ،انسانی رشتوں کے ٹوٹ کر بکھرنے کا کرب ، دربدری کی مصیبتں بڑے عمدہ انداز میں ملتی ہیں ۔اس کے علاوہ ہجرت کا کرب اور جلا وطنی کا موضوع بھی خوب انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ڈاکٹر محمد حسن لکھتے ہیں:
’’ اس میں شک نہیں کہ قراۃالعین حیدرنے عورت کو کائناتی مسائل کا ایک حصہ بنا کر دیکھا ہے۔ عورت یہا ں عورت نہیں رہ گئی بلکہ ایک وسیع تر مخلوقات کا جزو ہے ،پوری انسانی زندگی کی اکائی ہے۔جو وقت کا شکار بھی ہے۔اور شکاری بھی۔ان کے افسانوں میں یہی عورتیں محمد باغ کلب سے لے کر ہوائی اڈوں اور لندن کے محفلوں ، ایران اور ترکی کی راہ گزاروں میں ایک نا معلوم سے مبہم درد کے ساتھ بھٹکتی نظر آتی ہیں۔‘‘(۱۶)
جدید ناول نگار خواتین میں عمیرہ احمد اور بانو قدسیہ کے ناولوں کا جائزہ اگر لیا جا ئے تو دونوں مصنفین نے عورت کے فکری رویو ں کو خوب اجاگر کیا۔ ان کے ناولوں میں عورت پر ظلم و زیا دتی اور معاشرے میں بے انصافی کے حوالے گہرے ہیں۔
بانو قدسیہ نے ’’ راجہ گدھ‘‘ میں سیمی کے کردار میں واضح کیا ہے کہ کس طرح مرد کی محبت میں اسیر ہوکر سیمی اپنی زندگی اس کے نام کرتی ہے۔ جب آفتاب اس کے ساتھ دغا کر کے کسی اور کو اپنا جیون ساتھی بناتا ہے۔تو سیمی کا دل دنیا سے بھر جاتا ہے۔ اور اسے خوشی،غم،نفرت اور محبت جیسے جذبوں کی پہچان ختم ہو جاتی ہے۔اور اس کی مثال ایک پتھر کی ہو جاتی ہے۔وہ لکھتی ہیں۔
’’ عموماًمحبت میں ناکامی کے بعد لوگ اپنی ہی نفی اور ذات کی تذلیل میں مصروف ہو جاتے ہیں جب بند سیپی سے برآمد ہونے والے آبدار موتی کو اصل خریدار نہیں ملتا تو پھر موتی اپنا آپ ریت کے حوالے کر دیتا ہے۔یہاں لہروں کے ساتھ رلنے کے علاوہ اس کی کوئی وقعت نہیں ہوتی اور رفتہ رفتہ اپنے جسم کے تذلیل میں انہیں لذت محسوس ہونے لگتی ہے۔‘‘ـ(۱۷)
اس طرح عمیرہ احمد کے ناول ’’ من و سلویٰ‘‘کا بھی یہی حال ہے ۔ جب زینب کا کزن اور منگیتر ایک اچھی نوکری ملنے کے بعد اپنے منگیتر کو چھوڑ کر کسی امیر زادی کا اسیر بن جاتا ہے۔ اور اسے اپنا جیون ساتھی بناتا ہے اور زینی کو بیچ منجدھار چھوڑتا ہے تو زینی اپنی منگنی ٹوٹنے کی خبر سن کر بالکل پاگل ہو جاتی ہے۔ ناول نگار کے الفاظ میں:
’’ ’’ انہوں نے منگنی توڑدی‘‘ نفیسہ روتے ہوئے صحن کے تخت پر بیٹھ گئی زینی کو لگا کسی نے اس کی شہ رگ پر یک دم پاؤں رکھ دیا زینی پاگلوں کی طرح بیرونی دروازے کی طرف لپکی ۔‘‘(۱۸)
اسی طرح زینی اس محبت کی ناکامی کا انتقام اپنے آپ سے لیتی ہے۔ اور ہر و ہ کام کرتی ہے جو عورت کو زیب نہیں دیتا۔ آخر میں وہ ایک کامیاب ہیروئن بن جاتی ہے۔ اور بہت شہرت اوردولت کماتی ہے ۔ لیکن محبت کے مقابلے میں وہ سب چیزیں اس کے لئے بے معنی ہوتی ہیں ۔
اس طرح خواتین کی ذہنی اور فکری رویوں کو مرد ناول نگاروں کے بر عکس خواتین مصنفین نے بہت خوبی اور عمدگی سے ناولوں میں اجاگر کیا ہے۔
توحید بیگم ایم فل ریسرچ اسکالر شعبہ اردو جامعہ پشاور

 

 

 

 

 

           حوالہ جات
۱۔        ابو الاعجاز حفیظ صدیقی،(مرتب)، کشاف تنقیدی اصطلاحات،مقتدرہ قومی زبان اسلام آباد ، ص ۱۹۲
۲۔        محمد افتخار شفیع،اصناف نثر،کتاب سرائے الحمد پبلشرز لاہور ،۲۰۱۲ء ،ص۲۶تا ۲۷
۳۔       سنبل نگار،ڈاکٹر،اردو نثر کا تنقیدی مطالعہ زبیر بکس غزنی سٹریٹ لاہور،۱۹۹۷ء،ص۸۴
۴۔        افضل حق قرشی،مبا حث،نذیراحمدایک مستشرق کی نظر میں ،مکتبہ تعمیرانسانیت ،۲۰۱۲ء ۔ص،۱۰۳
۵۔       جاوید اختر،سید،ڈاکٹر،اردو کی ناول نگار خواتین ، سنگ میل پبلکیشنز لاہور،۱۹۹۷ء ، ص، ۲۱۹
۶۔        ڈپٹی نذیر احمد،مرأۃ العروس، عشرت پبلشرز انار کلی لاہور،۱۹۹۴ء ،ص، ۴۰
۷۔       عصمت چغتائی،ٹیڑی لکیر ناول ،ص۰۳
۸۔       جاوید اختر،سید،ڈاکٹر،اردو کی ناول نگار خواتین ، سنگ میل پبلکیشنز لاہور،۱۹۹۷ء ،ص ۲۱۹تا۲۲۰۔
۹۔        ایضاً،ص۲۲۰
۱۰۔       ایضاً،ص۲۲۱
۱۱۔       ایضاً،ص۲۲۲
۱۲۔       عصمت چغتائی،ضدی ،ایجوکیشنل بک ہاوٗس علی گڑھ،۱۹۹۴ء، ص، ۱۳۵
 ۱۳۔      سنبل نگار،ڈاکٹر،اردو نثر کا تنقیدی مطالعہ زبیر بکس غزنی سٹریٹ لاہور،۱۹۹۷ء،ص۱۳۳
۱۴۔       ایضاً،ص۱۳۵
۱۵۔      ایضاً،ص۱۹۱
۱۶۔       ایضاً،ص۱۹۲
۱۷۔      بانو قدسیہ،راجہ گدھ،سنگ میل  پبلشرز لاہور،۲۰۰۹ ء،ص۱۲۶تا ۱۲۷
۱۸۔      عمیرہ احمد،من و سلویٰ،علم و عرفان پبلشرز الحمد مارکیٹ لاہور ،۲۰۱۲ء،ص۱۴۱
۱۹۔       فاطمہ حسن،فیمینزم اور ہم،وعدہ کتاب گھر کراچی،۲۰۰۴ء،ص۲۱۱

 

 

 

اوپر جائیں  |   پرنٹ کیجئےِ
انگریزی ورژن ای میل چیک کریں مرکزی صحفہ پرنٹ پسندیدہ سائٹ بنائیں رابطہ کیجئے www.shahzadahmad.com www.shahzadahmad.com