علامت نگاری اور فیض احمد فیض کی شعری علامتیں
(دستِ صبا کے تناظر میں)
جواداحمد

ABSTRACT
Faiz Ahmad Faiz is the most famous poet of Progressive movement. The difference between Faiz and other progressive poets is that he was not a sloganeering. His thoughts were progressive and he presented them in a classical style. He was a humanist poet and in its defence he also challenged the chamber of authorities. As a result he was called a traitor and in 1951 he was arrested in the Rawalpindi conspiracy case. He continued his poetry but his style changed. The Urdu classical poetic symbols were used with new meanings/ interpretations. This was a great achievement of  Faiz. The purpose of this paper is to point out the use of classical poetic symbols in Faiz poetry in the light of his book DAST-E-SABA .

           ادبیات اردو میں اگر مختلف نثری وشعری اصناف اور ہئیتی سانچے مغرب سے مستعار لئے گئے ہیں۔ تو فنی سطح پر ادب میں علامت نگاری کا رجحان بھی مغربی ادب کی دین ہے۔ یورپ میں علامت نگاری (Symbolism ) کی ایک توانا تحریک چلی ہے۔ فرانس اس تحریک کا باقاعدہ مرکز بنا۔ اور بادلیئر اور میلار مے اس کے سرخیل قرارپائے۔ یہ تحریک دراصل انیسویں صدی کے میکانکی وسائنسی رجحان کے خلاف ایک بغاوت تھی ۔ دراصل ادب کو فنی سطح پر جمالیاتی عناصر سے لبریز کرکے اسے حقیقی معنوں میں ادب بنانا اس تحریک کا مقصد تھا۔ بادلیئراور میلار مے علامت نگاری کے حوالے سے معتبر حوالے ہیں۔ تاہم ڈاکٹر انورسدید صاحب کا خیال ہے کہ اس کا اصلی پیغمبر ایڈگرایلن پو تھا۔ جس نے سب سے پہلے یہ دعویٰ کیا کہ ابہام شاعری کی موزونیت میں ایک لازمی جزو ہے۔ (۱)
گویا بقول ان علامت نگاروں کے شاعری براہ راست اظہار کے بجائے اخفائے حال کی متقاضی ہے۔
انگریزی زبان میں جس کو Symbolکہتے ہیں لغوی طور پر اس کے معنی نشان یا پہچان کے ہیں۔Symbolکا مآخذ یونانی لفظSymbolineہے۔ معنوی طورپر دوچیزوں کو ایک ساتھ دیکھنا علامت ہے۔(۲)
ڈاکٹر تبسم کاشمیری سید عبداللہ صاحب کے حوالے سے لکھتے ہیں۔
"خاص شے کو ذہن میں اس صورت سے منقش کیا جائے کہ وہ خود آنکھوں کے سامنے نہ ہو۔ لیکن کسی اور چیز کے ساتھ اس کا تشابہ وتجانس کے ذریعے نقش مطلوب ذہن میں پیداہوجائے"۔(۳)
جبکہ خود تبسم کاشمیری صاحب کے نزدیک علامت کسی غیر مرئی حقیقت کامرئی نشان ہے اور اس مرئی نشان کے پیچھے غیر مرئی حقیقت کے متعلق محسوسات وفکر کا ایک پیچیدہ سلسلہ ہوتاہے۔(۴)
نفس امارہ کو عام طور پر شعراء وادبا کتے کی علامت سے ظاہر کرتے ہیں۔اب ظاہری بات ہے کہ دونوں میں تشابہ وتجانس کا ایک روزن کھلا ہواہے۔ اور ایک غیر مرئی چیز کو مرئی نشان کے ذریعے پیش کیا گیا ہے۔علامتیں ذاتی یا انفرادی بھی ہوتی ہیں اور اجتماعی بھی۔ عام طور پر اجتماعی علامتوں کو سمجھناذراسہل ہوتاہے۔ کیونکہ اجتماعی علامات کسی محسوس تحریک یا دبستانِ فکر سے جنم لیتی ہیں۔(۵)لہٰذااس تحریک یادبستانِ فکر کے فکری یا نظریاتی تناظر میں انہیں سمجھنا قاری کیلئے سہل ہوتاہے۔مثلاً ترقی پسند تحریک کے زیر اثرنئی صبح ، سحر، سرخ سویرا، صیاد اور گلچیں جیسی علامات رائج رہی ہیں۔ جن کا تذکرہ تسلسل سے ہونے کی وجہ سے انہیں سمجھناآسان ہوتا ہے۔کیونکہ قاری اورتخلیق کارکے درمیان ایک ذہنی رشتہ پیداہوتاہے۔مگر دوسری طرف ان علامات کا تسلسل کے ساتھ استعمال سے فنی خامی یہ پیداہوتی ہے کہ علامت اپنی معنویت اور انفرادیت کھودیتی ہے۔
ذاتی یا انفرادی علامات کی بحث کافی گھمبیر ہے۔ کیونکہ اسے سمجھنا خاصا مشکل کام ہے ۔ یہاں شاعر ابلاغ کی زبان استعمال ہی نہیں کرتا۔ بلکہ وہ تونجی زبان میں گفتگو کررہا ہوتا ہے۔ بلکہ یہ کہنا زیادہ موزوں ہوگا کہ خود اپنے لیے چہک رہاہوتا ہے۔اگراس زبان پر اعتراض کیاجائے توان علامت نگاروں کا جواب یہ ہوتا ہے کہ ہم صرف اپنے لیے شاعری کررہے ہیں ۔ ان کا یہ دعویٰ اگردرست مان بھی لیاجائے کہ وہ صرف اپنے لئے لکھتے ہیں توپھر اپنی شاعری کو منظر عام پر کیوں لاتے ہیں؟ (۶)
بہرحال اگرذاتی علامتیں بھی مہارت سے استعمال ہوں تواسے سمجھا جاسکتا ہے۔ اورایسا تب ہوگا جب ہم شاعر کی شخصی زندگی اوراس کے لاشعورکے نہاں خانوں میں جھانک کر اسے ٹٹولنے پر قادرہوں۔ جو کہ یقینا بڑے دل گردے والوں کا کام ہے۔ اردومیں شخصی علامتوں کے نمائندہ شاعر میراجی ہیں ۔ جس کی علامتیں اس کے لاشعور کی پیداوار ہیں۔
اردو کے منجھے ہوئے نقاد ڈاکٹر سیدعبداللہ اس قسم کی شاعری پر تبصرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں :
"اصل شاعری وہ ہے جو جینے میں اعتقاد پیداکرے جینے کو سہل بلکہ خوشگوار بنائے۔۔۔ دوسرے انسانوں سے قربت پیداکرے اورانسانی طبائع کی بے اعتدالیوں میں حسن اورتوازن کی شان پیداکرے۔ علامت نگاری پر کوئی جائز اعتراض نہیں ہوسکتا ۔ اس مسلک کے متعلق اگرتشویش ہے۔۔۔تویہ کہ آزاد تلازمہ خیال کوکچھ ضرورت سے زیادہ ہی آزادی دی جارہی ہے ۔شاعری ابلاغ ہے اورجوآزادی ابلاغ کی منکر ہووہ شاعری کا دشمن ہے۔(۷)
علامت کو اگر فنی تقاضو ں کے مطابق استعمال کیاجائے تواس کے فوائد بہت ہیں ۔ ایہام شاعری کا حسن ہے جس میں بات براہ راست کہنے کی بجائے ذراترچھے انداز میں کی جاتی ہے جس سے ذومعنویت پیداہوجاتی ہے ۔ علاوہ ازیں جو بات شاعرسیاسی یا معاشرتی مصلحت کی وجہ سے براہ راست نہیں کہہ سکتے اسے وہ علامتی لبادہ میں اوڑھ کر کہہ ڈالتے ہیں۔ جس پر گرفت بھی نہیں ہوسکتی اورشاعرایک قسم کا سکون اورآسانی محسوس کرلیتا ہے، یعنی علامت سے اس وقت کام لیا جاتاہے جب تخلیق کار قاری پر ایک محسوس تاثر مرتسم کرنے کے لئے ابلاغ کے ذرائع کو ناکافی تصور کرتاہو۔ (۸) بالفاظ دیگرسعی ابلاغ میں ناکامی شاعر کو علامت کے استعمال پر مجبورکرتاہے۔ 20دسمبر1983؁ء کو فیض احمد فیض سے لیے گئے انٹرویو میں جب ان سے شعری علامتوں کے استعمال اور ان کے فوائدکے بارے میں پوچھا گیا توفیض صاحب نے کچھ یوں جواب دیا۔
"چاربرس ہم نے جیل میں گزارے وہاں انکشاف ہوا کہ غزل توبہت اچھی چیز ہے ۔ اس کے ذریعے آپ وہ بات دوسروں تک پہنچا سکتے ہیں ۔ جوآپ چھپاکر کہنا چاہتے ہیں۔۔۔اس سے دوفائدے ہیں ایک فائدہ تویہ ہے کہ آپ کریں گل وبلبل کی باتیں ، گلشن کی، دربان کی اورقفس کی باتیں اورلوگ سمجھ جائیں کہ ان کا مطلب کیاہے ۔ آپ نہایت گھسی پٹی ترکیب اورامیج لے کر تھوڑی سی جستجو سے بالکل اوریجنل بناسکتے ہیں دوسرافائدہ یہ ہے کہ اس پر گرفت نہیں ہوسکتی۔ آپ نے خالص سیاسی شعر لکھا ہے اس میں قاتل مقتل زنداں اورقفس کا ذکر ہے۔ اگرکوئی گرفت کرنا چاہے توآپ کہہ سکتے ہیں کہ ہم نے توروایتی انداز سے غزل لکھی ہے‘‘ (۹)
محولہ بالا عبارت سے نہ صرف یہ اندازہ ہوتا ہے کہ علامت شاعری میں کیاکرداراداکرتی ہے بلکہ یہی فیض صاحب کا نظریہ فن بھی ہے پرانی کلاسیکی علامات کو جدیددور کے سیاسی تناظر میں استعمال کرنا فیض صاحب کا خاصا ہے ۔ بقول فیض
؎جان جائیں گے جاننے  والے
فیض، فرہاد  وجم  کی بات کرو (۱۰)
فیض صاحب کی اسی خوبی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ڈاکٹر سنبل نگارلکھتی ہیں۔
"انہوں نے سیاسی شاعری اوراپنی نظموں کو اپنے پیغام کا وسیلہ بنایا ہے لیکن سہارالیا حسن وعشق کی علامتوں کا۔ اس لیے اکثر دھوکا ہوتا ہے کہ فیض کسی مجازی محبوب کا ذکر کررہے ہیں جبکہ دراصل ذکر ہوتا ہے اپنے ملک وقوم کا اپنے اہل وطن کی آزادی وخوشحالی کا "   (۱۱)

           فیض صاحب کی علامت نگاری "دست صبا "میں نکھر کر سامنے آتی ہے ۔ یہ مجموعہ حبسیاتی شاعری پر مشتمل ہے جب فیض صاحب کو راولپنڈی سازش کیس کے تحت 1951؁ء میں گرفتار کرلیا گیا ۔ مگر فیض صاحب کو باوجود متاح لوح وقلم کے چھین جانے کے ،اہل ہوس خاموش نہ کراسکے۔ کیونکہ نہ توبوئے گل ٹھہرسکتی ہے اورزبان بلبل ۔ اوراہل ہوس جو مدّعی ومنصف بنے ہوئے تھے جب بھی فیض صاحب کی نطق ولب کی بخیہ گری کرتے توفضامیں مزید نغمے بکھرنے لگتے۔ اسی طرح قفس میں فیض نے جو طرزبیان ایجاد کیاوہ پورے گلشن کی زبان ٹھہری ۔
میں سمجھتا ہوں کہ فیض صاحب کی علامتیں انفرادی کم اوراجتماعی زیادہ ہیں ۔ کیونکہ وہ شاعری اپنی قوم کے لئے کررہے تھے جن کی دادان کے لیے کافی تھی۔ اوراگردیکھا جائے توفیض صاحب کی اسی خوبی نے ایک وسیع حلقہ قارئین کو ان کے کلام کا اسیر کیاہے ۔فیض صاحب شاعری میں ابلاغ کے قائل تھے یہی وجہ ہے کہ انہوں نے علامات بھی قابل ابلاغ استعمال کیے۔
دست صبا کے شاعر نے جن علامات کا تسلسل سے ذکر کیاہے وہ "رات"اور"سحر"ہیں۔ اول الذکر کو جبراورظلم سے تعبیر کیاہے ۔ جبکہ سحر کو نظام نو اورپیام امن کے معنوں میں استعمال کیاہے۔ فیض ان علامتوں کے بجائے اگر راست انداز بیان اختیار کرتے توان کا موضوع محدود، کم عمر اوروقتی ہوجاتا۔ چنانچہ فیض نے ایسے علائم کواختیار کیا جو ذہن کو بہ آسانی فیض کے مافی الضمیر کی طرف موڑ سکتے ہیں۔(۱۲)
مثلاً       رات کاگرم لہو اوربھی بہہ جانے دو
یہی تاریکی توہے غازہ رخسار سحر
صبح ہونے کو ہے اے دل بے تاب ٹھہر(۱۳)
ٹھہری ہوئی ہے شب کی سیاہی وہیں مگر
کچھ کچھ سحر کے رنگ پر افشاں ہوئے تو ہیں(۱۴)
دست صبا میں شامل نظم "سیاسی لیڈر کے نام"خالصتاً سیاسی موزوں پر لکھی گئی ہے۔ اور ایک سیاسی لیڈر کو اس میں مخاطب کیا گیا ہے۔مگر اس پورے نظم کے گردفیض صاحب نے علامتوں کا ایک ایسا حسین دائرہ بُن رکھا ہے کہ یہ نظم دوآتشہ بن گئی ہے۔بات صرف اتنی سی ہے کہ ایک سیاسی لیڈر کے ہاتھ مضبوط کرنے والے قوم کے باسی ہی ہوتے ہیں۔جواُن ارادوں کی تکمیل میں اپنی زندگی صرف کرتے ہیں۔جن کی طرف ایک سیاسی لیڈر نشاندہی کرتاہے۔اور پھر یہی لوگ کبھی تنکا بن کر سمندر سے لڑتے ہیں اور کبھی تیتری بن کر کوہسار پر یلغارکرنے کے لئے پَرتولتے ہوئے نظرآتے ہیں۔
سالہاسال یہ بے آسرا جکڑے ہوئے ہاتھ
رات کے سخت وسیہ سینے میں پیوست رہے
جس طرح تنکا سمندر سے ہو سرگرمِ ستیز
جس طرح تیتری کہسار پہ یلغار کرے
اور اب رات کے سنگین وسیہ سینے میں
اتنے گھاؤ ہیں کہ جس سَمت نظر جاتی ہے
جابجا نور نے اک جال سا بُن رکھا ہے
دور سے صبح کی دھڑکن کی صداآتی ہے(۱۵)
محولہ بالا مصرعوں میں جکڑے ہوئے ہاتھوں کا رات کے سخت وسیہ سینے میں پیوست ہونا ظلم کے خلاف لڑنے کو ظاہر کرتاہے۔جب کہ تنکا ( اہل جنوں) سمندر (اہل ہوس واقتدار) سے سرگرم ستیز ہے۔لہٰذا پوری نظم میں ایک علامتی لہر ہے جو بہتی چلی جارہی ہے۔
فیض صاحب کے ہاں صبا کا قفس کی طرف رخ کرنا آزادی کا پیام کے معنوں میں استعمال کیاہواہے۔ ویسے بھی صبا کا خراماں خراماں چلنا اورگلشن میں پودوں کو گدگدانا سحر ہونے کا اعلان ہوتا ہے ۔ بقول فیض صاحب ۔
؎           صبانے پھر درزنداں پہ آکے دی دستک
سحرقریب ہے، دل سے کہو نہ گھبرائے(۱۶)
دست صبا میں شامل نظم" اگست "1952؁ء علامتی زبان کے حوالے سے ایک اوراچھی کاوش ہے ۔جو غزل کی ہیئت میں لکھی گئی ہے جس میں فیض کا جمالیاتی انداز و اسلوب ان کی نظریاتی اساس کو دبائے رکھا ہوا ہے ۔ خزان وبہاراور گلشن جیسے علامات سے فیض صاحب نے کیاکہنے کی سعی کی ہے ۔ دیکھئے۔
؎          روشن کہیں بہار کے امکاں ہوئے توہیں
گلشن میں چاک چند گریباں ہوئے توہیں
اب بھی خزان کا راج ہے لیکن کہیں کہیں
گوشے رہ چمن میں غزلخواں ہوئے توہیں(۱۷)
دستِ صبا کا شاعر جس رخسار یار پر خزاں کا راج برداشت نہیں کرسکتا اسی کے لئے انہوں نے کبھی لیلائے وطن اور کبھی صنم کی علامتیں استعمال کی ہیں۔بظاہر ایسا لگتا ہے جیسے کسی مجازی معشوق کو مخاطب کرکے شاعر اپنے احساسات کو الفاظ کا روپ دے رہاہے۔مگر جہاں کہیں بھی یہ استعارے استعمال ہوئے ہیں وہ وطن عزیز کے لئے فیض نے استعمال کئے ہیں۔جو وطن سے اس کی شدید محبت کو ظاہر کرتے ہیں اور اسی وطن سے محبت کی پاداش میں انہیں جیل خانوں کی ہوا کھانی پڑی مگر اس لیلائے وطن کی چاہت میں کمی نہیں آئی بلکہ شاعر کا لہجہ نظم "دو عشق" میں دیکھنے سے تعلق رکھتاہے۔
؎چاہا ہے اسی رنگ میں لیلائے وطن کو
تڑپا ہے اسی طور سے دل اس کی لگن میں
ڈھونڈی ہے یونہی شوق نے آسائشِ منزل
رخسار کے خم میں کبھی کاکل کے شکن میں( ۱۸)
وطن کے لئے صنم کا استعارہ دیکھئے ۔
؎ باقی ہے لہود ل میں تو ہر اشک سے پیدا
رنگِ لب ورخسارِ صنم کرتے رہیں گے( ۱۹)
اسی لیلائے وطن کے باسیوں کے لئے فیض صاحب نے فرہاد کی علامت بھی استعمال کی ہے جو غریب اور مزدور طبقے کی نمائندگی کرتی ہے جب کہ ظالم اورجابر حکمرانوں کو جم جیسی علامت سے نہ صرف ظاہر کیا ہے بلکہ اس علامت کی اوٹ میں ان کی طاقت ، غرور، شہنشاہیت کا پردہ بھی چاک کیا ہے۔ جیسا کہ فیض صاحب کہتے ہیں ۔
؎          جان جائیں گے جاننے والے
فیض، فرہاد وجم کی بات کرو( ۲۰)
مگریہی مظلوم طبقہ غلامی کی زنجیروں میں ہرجگہ جکڑاہوانظرآتاہے۔جس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فیض نے بھی زنجیر کی علامت استعمال کی ہے۔انہی زنجیروں میں اہل ہوس نے اہل چمن کی روحوں اور جسموں کو باندھ کر رکھا ہواہے۔مگرفیض صاحب کو یقین ہے کہ ایک دن یہ زنجیریں ٹوٹ گریں گی اور اہل قفس کی آنکھ صبح چمن میں ضرور کھلے گی ۔
فیض صاحب کی نواگری دیکھئے ۔
؎          اب ٹوٹ گریں گی زنجیریں، اب زندانوں کی خیر نہیں
جو دریا جھوم کے اٹھے ہیں تنکوں سے نہ ٹالیں جائیں گے( ۲۱)
زنجیر کے ساتھ ساتھ "دریا"اور" تنکوں "جیسی علامات قابل توجہ ہیں جن سے صاف پتہ چل رہا ہے کہ اب وطن کے نام لیوا دریا کے مانند اُٹھے ہیں جو چند اہل ہوس کو بہا کر لے جائیں گے۔
فیض صاحب کہنے میں ترقی پسند ہیں مگر لکھنے میں ایک کلاسیکی شاعر کے روپ میں نظرآتے ہیں ۔جس کی وجہ یہ ہے کہ فیض صاحب نے اردواورفارسی کے تقریباً تمام شعراء کا عمیق نظری سے مطالعہ کیاتھا۔ لہٰذا قفس، گلچیں، چمن اورصیاد کے الفاظ کو فیض نے علائم کا درجہ دے کر انہیں حیات بخشی ہے ۔چمن (وطن)قفس بن گیا ہے اورصیاد وگلچیں اس کو غارت کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ دیکھے کس خوبصورتی سے وہ کہہ جاتے ہیں۔
؎           چمن پہ غارت گلچیں سے جانے کیاگزری
قفس سے آج صبابے قرار گزری ہے(۲۲)
؎          دست صیاد بھی عاجر ہے کف گلچیں بھی
بوئے گل ٹھہری نہ بلبل کی زبان ٹھہری ہے(۲۳)
فیض صاحب کے بارے میں یہ تاثر مشہور ہے کہ وہ پورا کلاسیکی ادب گھول کر پی گئے ہیں، لہٰذایہی کلاسیکی شعور انہیں راست اندازبیاں سے روکے رکھتاہے۔"رقیب "ہماری کلاسیکی شاعری کا ایک مستقل کردار ہے جو ہمیشہ دوچاہنے والوں کی چاہت میں دراڑ پیداکرنے کی سعی کرتاہے۔فیض نے بھی رقیب کی علامت میں اہل اقتدار اور اہل جنوں کی رسہ کشی کو پیش کیا ہے۔اور وطن دشمن عناصر کو رقیب کہا ہے۔دست صبا میں شامل نظم "نثار میں تیرے گلیوں کے "فکری لحاظ سے فیض کی ایک لازوال نظم ہے۔مگر علامتی انداز تھوڑا کمزور ہے کیوکہ یہاں فیض صاحب کا نظریہ سو پردوں میں سے بھی جھانکتا ہوادکھائی دے رہاہے۔دیکھئے کس خوبصورتی سے اہل اقتدار کو رقیب کے پردے میں مخاطب کرکے کہتے ہیں۔
؎          گرآج تجھ سے جدا ہیں تو کل بہم ہوں گے
یہ رات بھر کی جدائی تو کوئی بات نہیں
گرآج اوج پہ ہے طالع ِ رقیب تو کیا
یہ چاردن کی خدائی تو کوئی بات نہیں
جو تجھ سے عہد وفا استواررکھتے ہیں
علاج گردشِ لیل ونہار رکھتے ہیں(۲۴)
علاوہ ازیں، فیض صاحب نے وطن دشمن عناصر کو شیخ، اہل حکم اور غیر جیسی علامتوں کے پردے میں پیش کرنے کی کوشش کی ہے ۔فیض صاحب نے شیخ کو نئی علامتی قبا پہنا کر اسے وطن دشمن عناصر کا ہمراہی قراردیا ہے۔
؎           اس راہ میں جو سب پہ گزرتی ہے وہ گزری
تنہا پسِ زنداں، کبھی رسواسرِ بازار
گرجے ہیں بہت شیخ سرِ گوشۂ ممبر
کڑکے ہیں بہت اہل حکم برسرِ دربار( ۲۵)
دست صبا میں علامتی پیرائے اظہار کے حوالے سے سب سے کامیاب نظم "شیشوں کا مسیحاکوئی نہیں"ہے، یہ فیض صاحب کی ایک طویل نظم ہے۔جس میں بورژوااورپرولتاریہ طبقات میں جاری ازلی کشمکش کو نہایت خوبصورت انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ساغر، شیشے، لعل و گہرسب پرولتاری طبقے کے لئے استعارے ہیں۔جو اس لڑائی میں آخر کاربد جاتے ہیں۔جس کا کوئی مسیحا نہیں ہوتا۔پوری نظم توخاصی طویل ہے البتہ یہاں نظم کے چند بند پیش کئے جاتے ہیں۔
؎          کچھ لوگ ہیں جو اس دولت پر
پردے لٹکائے پھرتے ہیں
ہر پربت کو ، ہر ساگر کو
نیلام چڑھاتے رہتے ہیں

                     ؎          کچھ وہ بھی ہیں جو لڑ بِھڑ کر
یہ پردے نوچ گراتے ہیں
ہستی کی اٹھائی گیروں کی
ہرچال الجھائے جاتے ہیں

                     ؎           یہ کالک بھرتے پھرتے ہیں
وہ جوت جگاتے رہتے ہیں
یہ آگ لگاتے پھرتے ہیں
وہ آگ بجھاتے رہتے ہیں

                     ؎           سب ساغر ، شیشے، لعل وگہر
اس بازی میں بد جاتے ہیں
اُٹھو سب خالی ہاتھوں کو
اس رن سے بلاوے آتے ہیں( ۲۶)
انہیں علائم سے فیض نے درزنداں سے اہل چمن کو مخاطب کیاہے۔ سیاسی اورمزاحمتی شاعری بعض اوقات شاعرکو بھی لے ڈوبتی ہے جیسا کہ فیض صاحب کے ہم عصر شعراء کے ساتھ ہوا۔ مگرفیض صاحب کو ان کے کلاسکی اسلوب وعلائم نے سیاسی نہ بننے دیا ۔ بلکہ اسے ایک آفاقی شاعر بناگیا۔ کیونکہ فیض نے اپنے سیاسی افکار ونظریات کو غزلوں کی سطح پرآکر بولنے کی اجازت نہیں دی ہے۔ گویا فیض کا شاعرانہ مزاج اورجمالیاتی ذوق ،نظریات وافکار پر حاوی ہے۔ (۲۷)
جواداحمد۔  ایم فل ریسرچ سکالر، شعبہ اردوجامعہ پشاور

 

 

 

 

 

 

 

 

حوالہ جات
۱۔        انورسدید، ڈاکٹر۔  اردوادب کی تحریکیں۔ انورسدید،ڈاکٹر، انجمن ترقی اردوپاکستان کراچی ۔ ص۱۱۴
۲۔        ایضاً       ص۱۱۳
۳۔       تبسم کاشمیری ،ڈاکٹر۔جدید اردوشاعری میں علامت نگاری، سنگ میل پبلی کیشنز لاہور، اشاعت اول 1975ء ص۴۵
۴۔       ایضاً       ص۴۶
۵۔       سلیم اختر ،ڈاکٹر۔ ادب اور لاشعور۔ مکتبہ عالیہ ایبک روڈ (انارکلی)لاہور۱۹۷۶  ص۱۵۸
۶۔        سید عبداللہ ،ڈاکٹر۔ اردونظم۔وضاحت سے علامت تک مشمولہ ولی سے اقبال تک،  ص۲۹۷
۷۔       ایضاً       ص۳۰۳
۸۔       ادب اور لاشعور۔ سلیم اختر ، ڈاکٹر،  ص۱۵۹
۹۔        طاہر تونسوی،ڈاکٹر۔ فیض سے ایک بات چیت مشمولہ فیض کی تخلیقی شخصیت، تنقدی مطالعہ،  سنگ میل پبلی کیشنز لاہور1989ء ص۳۰۵
۱۰۔       چوہدری احمد نجیب۔ نسخہ ہائے وفا،  کاروان پریس دربارمارکیٹ لاہور س۔ ن ص۱۴۰
۱۱۔       سنبل نگار، ڈاکٹر۔ اردوشاعری کا تنقیدی مطالعہ،  دارلنوادرلاہور ، سن 2013 ص۲۷۱
۱۲۔       ابن فرید ، ڈاکٹر۔ فیض کی شاعری ، چند فنی پہلو مشمولہ فیض کی تخلیقی شخصیت تنقیدی مطالعہ مرتب ڈاکٹر طاہر تونسوی ص۱۴۰
۱۳۔      چوہدری احمد نجیب۔ نسخہ ہائے وفا، ص۱۰۸
۱۴۔      ایضاً       ص ۱۵۹   ۱۵۔ ایضاً ص ۱۱۱       ۱۶۔  ایضاً ص ۱۳۵           ۱۷۔ ایضاً ص ۱۵۹
۱۸۔      ایضاً       ص ۱۴۵   ۱۹۔ ایضاً ص ۱۲۰       ۲۰۔ ایضاً  ص ۱۴۰           ۲۱۔ ایضاً  ص ۱۳۸
۲۲۔      ایضاً       ص ۱۲۳   ۲۳۔ ایضاً ص ۱۶۵     ۲۴۔ ایضاً ص ۱۶۳           ۲۵۔  ایضاً  ص ۱۴۶
۲۶        ایضاً       ص ۱۷۲۔۱۷۱
۲۷۔      ریاض صدیقی ، دست صباکی غزلیں مشمولہ فیض کی تخلیقی شخصیت ، تنقیدی مطالعہ  ص۲۶۷

 

 

 

اوپر جائیں  |   پرنٹ کیجئےِ
انگریزی ورژن ای میل چیک کریں مرکزی صحفہ پرنٹ پسندیدہ سائٹ بنائیں رابطہ کیجئے www.shahzadahmad.com www.shahzadahmad.com