میراجیؔ ایک مظلوم شاعر
احمد ولی عبدالخالق
 
ABSTRACT
Mira jee an Innocent poet The art and personality of Mira jee has been a big puzzle which has baffled the minds of people for decades. At the same time his art is very interesting and amusing.  He has woven his personality around such intricate web of attitudes and relations that give his personality and art a very complex nature. His complexity made him suffer at the hands of the so called critics. They dubbed his art as vague, sickly portraying licentiousness and drooling on obscene details. They ignored his great poetry on these ground thus missed on the psychological details. it is because of these critics that his personality became a labyrinth .

           میرا جیؔ کا فن اور اُن کی شخصیت ایک ایسی گتھی ہے جسے سلجھانااور سمجھنا مُشکل ہے اور دلچسپ بھی ـــ۔اُنہوں نے اپنے گرد مُختلف رویوں کے ایسے تانے بانے بُنے رکھے ہیں کہ جس کی وجہ سے اُن کی ہستی شدید اُلجھن کا شکار ہو کر رہ جاتی ہے اور اُن کا فن چُھپ کر رہ جاتا ہے۔
اس پیچیدگی کی وجہ سے میرا جیؔ نام نہاد نقادوں کی زیادتی کا شکار ہوئے اور ان کی شاعری کو ابہام زدہ،مریضانہ داخلیت پرستی اور جنسی تلذُذپرستی کے رجحانات کا نمائندہ شاعر ثابت کرنے کی ناکام کوشش کرتے ہوئے نظرانداز کر دیا گیا جس کی وجہ سے کی شخصیت ایک مُعمہ بن کر رہ گئی۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ میراجیؔ کی زندگی کا سب سے اہم واقعہ عشق کا ہے ۔ وہ ناکام عشق جوانہوں نے میراسین سے کیا تھا ۔ دور سے دیکھا کئے ۔ بات کرنے کی کوشش کی ۔ کوئی جواب نہ ملا اور یہ اس آگ میں پگھلتے رہے۔ وہ عشق اس قدر تند و تیز تھا کہ اس کی ناکامی نے میراجیؔ کی شخصیت کو متضاد سانچوں میں ڈال دیا ۔ ایک طرف تو وہ اپنی ذات میں کھو گئے ، اور نرگسیت کی حد تک اپنی ذات میں مقید ہو گئے اور دوسری طرف اپنی ناکامی کا بدلہ انھوں نے یوں لیا کہ روایتی اقدار اور اخلاقی پابندیوں کو توڑ ڈالا، ور ان کے خلاف بغاوت کی اور اس طرح وہ خود تشفی ، خود لذتی اور تن آسانی میں مبتلا ہو گئے ۔ انھوں نے زندگی کا جو ڈھانچہ بنا لیا تھا اس کی وجہ سے وہ ہمیشہ خود اذیتی اور نا آسودگی کی الجھنوں میں مبتلا رہے اور یہی نا آسودگی ان کے لا شعور کا حصہ بن چکی تھی ۔
میں اب بھی کھڑا ہوں تنہا
ہاتھ آلودہ ہے،نمدار ہے دھندلی ہے نظر
ہاتھ سے آنکھ کے آنسو تو نہیں پونجھے تھے ۔۔۔(۱)
کبھی یوں بھی ہوتا ہے کہ کسی شاعر کی شخصیت تک رسائی حاصل کرنے میں اس شاعر کی شاعری کی بجائے بظاہر غیر متعلق اور سرسری تحریریں زیادہ کارگر ثابت ہوتی ہیں ۔یہ نثری تحریریں اُن کی شخصیت کے چھُپے ہوئے اسرارورمُوز کو عیاں کرنے میں ممدو معاون ہوتی ہیں ۔اس بات کا ثبوت میراجیؔ کی وہ نثری تحریریں ہیں جو کسی خاص تخلیقی منصوبے کے بغیر یونہی تفنُن طبع سرزد ہو گئیں۔میراجیؔ اپنی ذات کو عمر بھر پردہِ سُخن میں چھپاتے چھپاتے بالآخر ان نثری تحریروں میں بے نقاب ہوگئے ۔ایک عام قاری میراجیؔ کو پڑھنے کے بعد یہ محسوس کرتا ہے کہ اُس نے کچھ کہنے کی کوشش اگر کی بھی ہے سمجھنے کی کوشش قطعاًـــنہیں کی ۔ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے میراجیؔ نے اپنی نظمیں صرف اپنے ہی لیے لکھی ہیں ، اور وہ صرف انہی کی ذات کا فسانہ ہیں ــ۔ لیکن اگر غور سے دیکھا جائے تو اس ابہام کے پیچھے ایک صاف شفاف صورت قاری کے لئے ایک پیغام لئے نظر آتی ہے ۔اپنی نظموں کے دیباچے میں خود یہ کہتے ہیں ــ:
’’ ــبہت سے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ میں صرف مبہم بات کرنے کا عادی ہوں، لیکن ذرا سا تفکر انھیں سمجھا سکتا ہے، اور بہت سی باتوں کی طرح ابہام بھی اضافی تصور ہے ‘‘۔۔۔(۲)
اس کے معنی یہ ہوئے کہ ذرا سی محنت اور مُشقت سے ابہام کے پردے اُٹھ جاتے ہیں اور اس کے پیچھے چمکتی حقیقت عیاں ہو جاتی ہے۔اس معاملے میں میراجی ،ؔ فاکزؔ کی طرح  ہیں۔فاکزؔ سے جب لوگوں نے شکایت کی کہ دو تین بار پڑھنے کے باوجود اس کے ناول ان کی سمجھ میں نہیں آتے تو اس کا مشورہ یہ تھا کہ انھیں چوتھی بار پڑھو ۔
بحیثیت شاعر میراجیؔ کا سب سے بڑا المیہ نہ تو میراؔ ہے اور نہ سختی دوراں،بلکہ سب سے بڑا المیہ اور ظالم میراجیؔکے دوست اور نقاد ہیں۔دوستوں نے جو میراجیؔ کے دل کے قریب تھے،میراجیؔ کی غیر مطبوعہ اور منتشر تخلیقات کو کتابی صورت میں شائع کرنے کی بجائے ان کی آوارگی اور اوُباشی کے مبالغہ آمیز قصے چسکے لے لے کر سناتے رہے ،اور نقادوں نے جو پہلے ان کے شاگرد تھے اور بعدِازاں دوست ،مصلح،رہبر اور نقاد بن بیٹھے ،ان قصوں کو بنیاد بنا کر میراجیؔکی شاعری میں ابہام  اور جنس کے وہ بے بنیاد عناصر ڈھونڈ نکالے جو میراجیؔ کی نہیں بلکہ ان کی اپنی دریافت ہے۔ ان بے بنیاد باتوں کے لئے ایک ـــــــــــــــــــ,جوالہ,گھڑا اس پر بیئر کی اٹھارہ بوتلیں چھڑکیں اور ہمیشہ کیلئے تین گولوں کے وزن تلے دبا دیا۔
یہ درست ہے کہ میراجیؔ نے اپنی شاعری خصوصاََ ــنظموں میں خارج کے ماحول کو مرکزِفکر بنانے کے بجائے اپنی ذات کے اندرونی ہنگاموں پر توجہ ــــ مرکوز کی۔ مگر یہ غلط ہے کہ میراجیؔ کی شاعری اور شخصیت پر بات کرتے ہوئے میراجیؔ کی ذا ت کو ثناء اللہ ڈار تک اور ان کی ذات کو مبینہ جنسی کجریویوں تک محدود کردیں ۔ میر اجیؔ کے ہاں اپنے آپ کو ڈھونڈنے کا عمل صرف ایک فرد کی تفتیشِ ذات ہی نہیں بلکہ فرد کا قومی ،تہذیبی شخصیت کی بازیافت کا عمل بھی ہے۔
’’میراجیؔ ذہنی اعتبار سے مغرب کے جدید علوم کی طرف راغب تھے لیکن ان کی فکری جڑیں قدیم ہندوستان میں پیوست تھیں‘‘ ۔۔۔۔(۳)
جہاں کسی بھی فنکار کے فن کواس کی ذات کے حوالے سے دیکھا جائے وہاں یہ بھی لازم ہے کہ اس کی ذات کو اس کے معاشرے کے حوالے سے دیکھا جائے ۔میراجیؔ جس دور کی پیداوار ہیں وہ تور پھوڑ اور ہنگاموں کا دور تھا ۔ جہاں پرانی روایتیں ٹوٹ رہیں تھیں ـ،اخلاقی نظام ،سماجی اقدار اور انسانی رشتے ٹوٹ پھوٹ کر بے ربط و بے معنی ہو گئے تھے ۔ قدیم و جدید کی حدیں نمایاں ہونے لگیں اور صورت حال تیزی سے بدلنے لگی۔ افلاس ، مایوسی ، بے روزگاری اور بے یقینی نے نوجوان نسل کوگھیر لیا ۔یوں لگتا تھا جیسے مستقبل گم ہو گیا ہے۔ میراجیؔ بھی اسی نوجوان نسل سے تعلق رکھتے تھے۔ یہ تضادات ،احساسات و جذبات بن کر میراجیؔکی شاعری میں جا بجا نظر آتے ہیں۔میراجیؔ نے لکھا:
ـ’’مستقبل سے میرا تعلق بے نام سا ہے ۔میں صرف دو زمانوں کا انسان ہوں ماضی اور حال ۔۔ یہی دو دائرے مجھے ہر وقت گھیرے رہتے ہیں اور میری عملی زندگی بھی انہی کی پابند ہے۔۔۔۔(۴)
میراجیؔایک باغی تھے انھوں نے روایت سے بغاوت کی اور یہ بغاوت نہ صرف ہیئت کے اعتبار سے تھی بلکہ مضمون کے اعتبار سے بھی تھی۔ صرف فن میں نہیں یہ بغاوت اس کی شخصیت کے اندر بھی تھی۔ چنانچہ اس بغاوت کی ابتداء اُن کی اپنی ذات سے ہوئی۔ سب سے پہلے اُنہوں نے اپنے حلیے اور لباس کو نظرانداز کیونکہ یہی اُن کی بغاوت کا تسلی بخش جواب تھا۔
’’ اُن کی ذات ایک عام آدمی ک لئے ایک افسانہ بن کر رہ گئی ہے۔اُن کا حلیہ اور اُن کی حرکات و سکنات ایسی تھیں کہ یوں معلوم ہوتا تھا کہ انہوں نے سلسلہء ملامتیہ میں بیعت کر لی تھی۔ لمبے لمبے بال ،بڑی بڑی مونچھیں ، گلے میں ایک سو ایک موٹے کی دو گز لمبی مالا ، شیروانی جس کی کہنیاں ہمیشہ پھٹی ہوتی تھیں ، اُوپر نیچے تین پتلونیں ، اُوپر کی جب میلی ہوگئی نیچے کی اُوپر اور اُوپر کی بدل جاتی ۔ شیروانی کی دونوں جیبوں میں بہت کچھ ہوتا تھا ۔ کچھ ڈھلے ہوئے چھیتڑے ، ایک پائپ ، کاغذ میں پائپ کا دیسی تمباکو ، پان کی ڈبیا ، ہومیو پھیتک دوائیں۔۔۔۔۔۔۔ کاغذوں اور بیاضوں کا پلندہ بغل میں دابے بڑی سڑک پر پھرتا ِ‘‘۔ ۔۔۔۔۔(۵)
میراجیؔ کی یہ بغاوت حد سے تجاوز کر گئی اور ایک ڈھونگ نظر آنے لگی ۔ اور اسی لئے ان پر بناوٹی اور مصنوعی شخصیت کا لبادہ اوڑھنے کا الزام لگایا گیا۔ میراجیؔ نے جنسی خواہشات کو قلبی رفاقت سے الگ کرکے جنسی زندگی کی ساری سماجی اہمیت کو نظر انداز کر دیا اور اس حد تک انتہا پسند ہوگئے کہ جنسی بے راہ روی کو بھی برا نہیں سمجھا۔ ــ’’لبِ جوئبارے، اونچا مکان، حرامی ، طوائف اور اغوا جیسی نظمیں اس نظریے کی شاہد ہیں۔
ایک غیر عملی آدمی جو بغاوت کی ہمت اور طاقت نہیں رکھتا اپنے لیے ایک تخیلاتی دنیا تعمیر کر لیتا ہے۔ اور ایسے نظریات کو جاری و ساری کرتا ہے جو حقیقی زندگی سے تعلق نہیں رکھتی اور ان نظریات کی ضد ہوتے ہیں ۔ میراجیؔ نے انتقاماــــ بیسویں صدی کے گمراہ کُن اور غلط جنسی مفروضوں میں محصور ہو کر اپنے ہی جسم کو سب کچھ سمجھنے کی کوشش کی۔ تفتیش ذاتِ کا یہ وہ مرحلہ تھا جب وہ جسم کی اتھاہ گہرایؤں اور تاریکیوں میں اُترے مگر ان کی یہ فہم روشنی کے حصول کے لیے تھی۔ میراجیؔ نے جسم کی تاریکیوں میں انسانی وحشت ، کرب و بے بسی و لاچارگی کے اندھیروں میں گھرے رہنے کے باوجود سوچ کا سہاراکبھی نہ چھوڑا ۔ ان کی ایسی نظموں میں بھی جنہیں جنسی بے راہ روی کا شاہکار سمجھا جاتا ہے ، سوچ کا یہ پہلو جھلک رہا ہے۔  
آ مری ننھی پری
آمری من موہنی
چاہتا ہوں تو بھی میرے پاس ہو 
اور سوئیں ساتھ ساتھ  ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جی چاہتا ہے تم یک ننھی سی لڑکی ہو اور تمہیں گود میں لیکر اپنی بٹھالیں
یونہی چیخو چلاؤ ، ہنس دو ، یونہی ہاتھ اٹھاؤ ، ہوا میں ہلاؤ ، ہلا کر گرادو 
کبھی ایسے جیسے کوئی بات کہنے لگی ہو
کبھی ایسے جیسے نہ بولیں گے تم سے
کبھی مُسکرائے ہوئے ، شور کرتے ہوئے ساتھ گلے سے لپٹ کر کرو ایسی باتیں ۔۔(۶)
ٓٓ ٓٓ            ان نظموں کے مطالعے سے احساس ہوتا ہے کہ میراجیؔ جسم کی تاریکیوں میں محض جنسی بھوک ہی کی خاطر نہیں اترے بلکہ انہیں محبت اور معصومیت ، رفاقت اوریگانگت کی کرنوں کی تلاش تھی ۔وہ تجربوں کی نوعیت اور فکر کی ماہیت کے حوالے سے اظہار کے ایک بڑے کرب سے گزر رہے تھے ۔ وہ تعلق کی جبلت اور جنسی نفسیات کو مخصوص ثقافتی پسِ منظر میں منطقی اور جذباتی ملحقات کے ساتھ دیکھتے ہوئے مرد کو نہ تو محض حریصِ جنسی جانور سمجھتے ہیں اور نہ ہی عورت کو سر تا پا جنس خیال کرتے ہیں ۔
ایک فرشتہ پھول برساتا ہوا
صحن گلشن میں ہوئی جس کی نمود،
لا اُبالی ، لمحہ جوش شباب ،
اس حقیقت کو کبھی تو جان سکتی ہی نہ تھی،
اس فرشتے کے حسیں ملبوس میں شیطان تھا
ایک لمحے کے لیے بس ایک لمحے کے لیے 
دل پہ تیری چھائی وحشت ، مست ،مست
اور پھر دل سے مرے رخصت ہواجوش جنوں
خشک پتوں پر تھا افتادہ ترا
نرم و نازک ، سرد ، جسم سیمگیں  ۔۔۔۔(۷)
اب میراجیؔ ان اندھیروں کو مسخ کر کے اس منزل کی طر ف بڑھ رہے تھے جہا ں سے  عرفانِ نفس و آفاق کی روشنی دیکھی جا سکتی تھی ۔ اس لمحہ انہوں نے محسوس بھی کر لیا تھا کہ ذات و کائنات پر سکون مسلط ہو جائے تو کائنات اور ذات کے تغیر ، ارتقاء اور نشونما کی تمام راہیں بند ہو جائیں گی ۔ میراجیؔ کے ہاں انہی خواہشات کی تشنگی سے دوری کے تصور کی بعض علامتیں پیدا ہوئیں ۔ ان کی اپنی زندگی کی امیدیں بہت کم ہی پوری ہوئیں ۔ میرا سین کا حادثہ ان کی زندگی کا المیہ گیا ۔ مادی طور پر میراجیؔ آسودہ حال ہونا چاہتے تھے مگر ایسا نہ ہو سکا ۔ قدم قدم پر محرومیوں کا سامنا کرنا پڑا ۔ ان کے لیے یہ آسودگی نہ گھر میں تھی نہ گھر سے باہر ـ،
’’میراجیؔ نے اپنی نظم ’مجھے گھر یاد ہے ‘میں گھریلو زندگی کے سکون کو پانے میں
بے بسی کا اظہار کیا ہے ۔ اس نظم میں ’ساحل‘ گھریلو آسودگی کی علامت ہے ۔
جہاں میراجیؔکی رسائی نہیں ہوتی۔        (۸)
سمٹ کر کس لیے نقطہ نہیں بنتی زمین ؟ کہدو
یہ پھیلا آسماں اس  وقت  کیو ں دل  کو لبھا تا  ہے
ہر اک سمت اب انوکھے لوگ ہیں اور ان کی باتیں ہیں
کوئی دل سے پھسل جاتی  ، کوئی سینے میں چھب  جاتی
اپنی باتوں کی  لہروں پر ، بہا  جاتا ہے   ہے  یہ بجرا  
جسے ساحل نہیں ملتا ۔۔۔۔۔۔
تماشہ بن گیا ساحل ۔۔۔۔۔(۹)
اس میں کوئی شک نہیں کہ میراجیؔ کی زندگی کا سب سے اہم واقعہ عشق کا ہے ۔ وہ ناکام عشق جوانہوں نے میراسین سے کیا تھا ۔ دور سے دیکھا کئے ۔ بات کرنے کی کوشش کی ۔ کوئی جواب نہ ملا اور یہ اس آگ میں پگھلتے رہے ۔ وہ عشق اس قدر تند و تیز تھا کہ اس کی ناکامی نے میراجیؔ کی شخصیت کو متضاد سانچوں میں ڈال دیا۔ ایک طرف تو وہ اپنی ذات میں کھو گئے ، اور نرگسیت کی حد تک اپنی ذات میں مقید ہو گئے اور دوسری طرف اپنی ناکامی کا بدلہ انھوں نے یوں لیا کہ روایتی اقدار اور اخلاقی پابندیوں کو توڑ ڈالا، ور ان کے خلاف بغاوت کی اور اس طرح وہ خود تشفی ، خود لذتی اور تن آسانی میں مبتلا ہو گئے ۔ انھوں نے زندگی کا جو ڈھانچہ بنا لیا تھا اس کی وجہ سے وہ ہمیشہ خود اذیتی اور نا آسودگی کی الجھنوں میں مبتلا رہے اور یہی نا آسودگی ان کے لا شعور کا حصہ بن چکی تھی ۔
میں اب کھڑا ہوں تنہا
ہاتھ آلودہ ہے ، نمدارہے دھندلی ہے نظر
ہاتھ سے آنکھ کے آنسو تو نہیں پونجھے تھے  ۔۔۔۔(۱۰)
معاشرے اور ذات سے بغاوت کے بعد میراجیؔ نے روایتی فن سے بغاوت کی ۔ غزل کے روایتی اسلوب کو چھوڑ کر آزاد نظم کو اپنا نا انتہائی کٹھن کام تھا ۔ لیکن میراجیؔ اس کٹھن سفر پر تنہا چل پڑے ۔ منزل نظر تو آرہی تھی مگر راستہ معلوم نہ تھا ۔ اس کی نظموں ’’چل چلاؤ‘‘ ، ’’نارسائی‘‘ ،اور ’’شام کو راستے پر‘‘ میں اس کٹھن سفر کو موضوع بنایا گیا ہے ۔
وہ بھول گیا پہلی پوجا ، من مورت کی مورت ٹوٹی
دل لایا باتیں انجانی ، پھر دن بھی نیا اور رات بھی نئی
پیتم بھی نئی ، پریمی بھی نئی ، سکھ سیج نئی ہر بات نئی   ۔۔۔ (۱۱)
’’نارسائی‘‘میں یہ کیفیت یوں ملتی ہے ۔
رات اندھیری بن ہے سونا ، کوئی نہیں ہے ساتھ ۔۔۔۔
چپو ٹوٹے ، ناؤ پرانی ، دور ہے کھیون ہارا
بیری ہے ندی کی موجیں اور پتیم اس پار  ۔۔۔۔(۱۲)
میراجیؔ ایک ناکام ہیرو تھے اور وہ ناکامی خود انہوں نے اپنے لیے عبارت کی تھی اور حسرت ویاس آخری اسٹیج میں تو وہ خود لذتیت سے بھی لطف اندوز ہوتے تھے ۔ لیکن یہ ناکامی صرف انہی کی ناکامی نہیں تھی ، بلکہ اس پورے عہد اور پوری تہذیب کی ناکامی تھی ۔ اپنی نظم’’ ترقی پسند ادب ‘‘ میں وہ اپنے دور کی ناکامی کا ذکر یوں کرتے ہیں ۔
اس کو ہاتھ لگایا ہوگا ہاتھ لگانے والے نے
پھول ہے رادھا، بنھورا ، بھنورے نے ہاں کالے نے
جمنا تٹ پر ناؤ چلائی ، ناؤ چلانے والے نے
دھوکا کھایا ، دھوکا کھایا ، دھوکا کھانے والے نے ۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ بھی رُت ہے مٹ جائے گی ہر رُت آنی جانی ہے
یہ تو بتاؤ کون سورما اب کے ہاتھ لگائے گا      ۔۔(۱۳)

احمد ولی  پی ایچ۔ڈی ریسرچ  اسکالر شعبہ  اردوجا معہ پشاور
عبدالخالق ، پی ایچ۔ڈی ریسرچ اسکالر شعبہ اردو جامعہ پشاور

حوالہ جات
۱۔        میراجیؔ ۔  کلیات مرتب ڈاکٹر جمیل جالبی ،  اردو مرکز لندن  ۱۹۸۸ء ۔ص۹۴
 ۲۔        میراجیؔ۔  میراجیؔکی نظمیں ’دیباچہ‘  ،  ساقی بُک ڈپو دہلی   ۱۹۴۴ء  ۔ص۲
۳۔       مولانا صلاح الدین احمد۔  دیباچہ مشرق و مغرب کے نغمے ،  اکادمی پنجاب لاہور  ،۱۹۵۸ ۔ص۱۳  
۴۔       میراجیؔ ،   میراجیؔکی نظمیں ، ساقی بُک ڈپو دہلی ،۱۹۴۴ء ،ص۱۲  
۵۔       خلیل صحافی ،  ’’میراجیؔ‘‘ ،  ’مشمولہ فنون لاہور  ۔ اکتوبر ،۱۹۶۵ء ،ص۱۹۵۔۲۰۰
 ۶۔        میراجیؔ۔  میراجیؔکی نظمیں،  ساقی بُک ڈپو دہلی ،۱۹۴۴ء ،ص۱۲۲
۷۔       میراجیؔ ۔  کلیات میراجیؔ مرتب ڈاکٹر جمیل جالبی ،اردو مرکز لندن  ۱۹۸۸ء ،ص۳۳۹
۸۔       ڈاکٹر تبسم کاشمیری۔    جدید اردو شاعری میں علامت نگاری، سنگ میل لاہور ۱۹۷۵ء ،ص ۱۸۷
۹۔        میراجیؔ ۔  میراجیؔکی نظمیں،  ساقی بُک ڈپو دہلی ،۱۹۴۴ء ،ص۱۴۳  
۱۰۔       ایضاً  ص۱۲  
۱۱۔       میراجیؔ ،  کلیات میراجیؔ ،  مرتب ڈاکٹر جمیل جالبی،اردو مرکز لندن ۱۹۸۸ء ،ص۳۴۲
۱۲۔       میراجیؔ  ،  میراجیؔکی نظمیں  ،  ساقی بُک ڈپو دہلی ،۱۹۴۴ء ،ص۹۲ 
۱۳۔      میراجیؔ،  کلیات میراجیؔ  ، مرتب ڈاکٹر جمیل جالبی ،اردو مرکز لندن ۱۹۸۸ء، ص ۳۱۳

 

 

 

 

 

 

اوپر جائیں  |   پرنٹ کیجئےِ
انگریزی ورژن ای میل چیک کریں مرکزی صحفہ پرنٹ پسندیدہ سائٹ بنائیں رابطہ کیجئے www.shahzadahmad.com www.shahzadahmad.com