شفیع ہمدم کی انشائیہ نگاری ( ’’ دھند ‘‘ کی روشنی میں)
ڈاکٹراویس قرنی

ABSTRACT
Inshia is a new genre peculiar to Urdu prose. It is a type of essay but somehow different from essay. When an incident,idea or feeling is appropriately presented Mazmoon.  But Inshaiya could be called a personal type of essay. In which the way of arguments is totally different as compared to essay or Maqala. Shafi Hamdam is one of the most important Inshaiya nigar of Urdu prose .In this research paper the researcher has analyzed the Inshaiyas of Shafi Hamdam in the light of the art of Inshaiya .
شفیع ہمدم ادب کی متعدد اصناف میں تخلیقی بہجت کی نقش گری کر چکے ہیں ۔ خاکے اور افسانے میں بھی طبع آزمائی کی اور انشائیوں کے مجموعے بھی منظر عام پر لائے ۔ ان کے انشائیوں کا پہلا مجموعہ ’’ رعنائی خیال ‘‘ کے نام سے آیا۔ جبکہ دوسری کتاب ’’ دھند ‘‘ کے ٹائٹل سے مرتب ہوئی۔شفیع ہمدم موضوعات کے بطون میں اُتر کر انہیں تخلیقی اعتبار سے انشائیے کے قالب میں ڈھالنے کے ہنر واقف ہیں۔ وہ اشیاء و مظاہر کے مخفی مفاہیم کے ورود میں کیفیتوں کے رنگا رنگ عکس نمایاں کرتے ہیں۔ زندگی کے منظر نامے سے غیر رسمی انداز میں حقیقتوں کو نئے زاویے سے آشکارا کرتے جاتے ہیں۔انشائیہ اپنے من میں ڈوب کر ذہن کی گرہیں کھولنے کا عمل ہے۔ اور اس عمل کے دوران شفیع ہمیشہ خوش سلیقگی کے ساتھ طلوع ہوتے ہیں ۔ ان کی طبیعت اس صنف سے موزونیت رکھتی ہے۔ وہ ایک افسانہ نگار کا ذہن رکھتے ہیں اور افسانے کی فسوں کاری ان کے انشائیوں میں بھی جوت جگاتی ہے۔ ڈاکٹر رشید امجد لکھتے ہیں۔
’’ گو انشائیہ اپنی فکر ی مبادیات کے متقاض میں افسانے کی فنی روایت سے اخذ فیض کا ایسا رجحان نہیں رکھتا تاہم افسانے کے باب کی تخلیقی ریاضت انشائیہ نگار پر انشائی رموز آشکار  کرنے کی فیاضی میں کسی اغماض سے کام نہیں لیتی۔‘‘ (۱)
شفیع ہمدم کے انشائی تیور افسانے کے اسرار سے’’ دھند ‘‘کے صفحات پر ملتے دکھائی دیتے ہیں، ان کی انشائی تحریر وں میں کہانی پن کی متحیر سحر آفرینی جا بجا اپنا جلوہ دکھاتی ہے۔
’’ سردیوں کی ایک صبح تھی حسب ِ معمول میں سیر کے لئے نکلا تو باہر کا ماحول بالکل بدلا ہوا تھا۔ہر روز نظر آنے والی اشیاء کہیں غائب ہو گئی تھی۔ مسجد کے مینار، بجلی کے کھمبے ، بلند وبالا عمارات، گلی کوچوں میں چلتے پھرتے انسان حتیٰ کہ مشرق سے نمودار ہونے والا سورج بھی میری نظروں سے اوجھل تھا۔ مجھے یوں محسوس ہوا جیسے تمام چیزیں کسی جا دوئی عمل کے زد پر آکر اپنا وجود کھو چکی ہوں۔‘‘ (۲)
ایک انشائیے کا نام ہی’’ کہانی‘‘ رکھا ہے اوراس انشایئے میں انسان کی شخصیت اور کہانی کے تا ل میل کے بارے رقمطراز ہیں۔
’’ محسوس ہوتاہے حضرت آدم کو تخلیقی مراحل سے گزارتے وقت اس کی مٹی کو کہانی کے پانی سے گوندھا گیا ہوگا۔ غالباً یہی وجہ ہے کہ ابتداء آفرینش سے آج تک وہ کہانی کے حصار سے باہر نہیں نکل سکا۔‘‘ (۳)
غالباً یہی وجہ ہے کہ شفیع ہمدم انشائیہ لکھے وقت خود بھی غیر محسوس طور پر افسانے کے مہین کہرے کے حصار میں آجاتے ہیں۔
’’ وقت ایک ایسا پہّیہ ہے جو اپنی پشت پر بے شمار واقعات ،اشخاص اور حادثات کا بوجھ اٹھائے دریا کی مانند بہتا رہتا ہے مگر جب اپنے مدار میں داخل ہونے لگتا ہے تو اپنی پیٹھ پر رکھے بوجھ کو خس و خاشاک سمجھ کراتار پھینکتا ہے۔ــ‘‘ (۴)
اسی اثر آفرینی کے ساتھ فکر وخیال کی دنیا سے ہوتے ہوئے قاری کی داخلی مسرت کو نئی کروٹیں دیتے ہوئے لطف و انبساط کا نیا جہان مرتب کرتے ہیں۔اور موضوع کے چھپے ہوئے گوشوں کے ساتھ مس ہوتے ہی نئے نکتوں کے ساتھ آوارد ہوتے ہیں۔ انشائیہ’’ کا ہلی‘‘ میں شگفتگی کی گد گداہٹ لئے نئی حقیقتوں کی کھڑکی کھول دیتے ہیں۔کاہل کو سبھی کوستے ہیں ،اور کاہلی ہر جگہ معیوب اور معتوب ٹھہرتی ہے ،لیکن انشائیہ نگار کی نگاہ میں کاہل آدمی کو وہ رتبہ مل جاتا ہے ، جس کے آگے تیز گاموں کی چستیاں ماند پڑ جاتی ہیں۔
’’ اگر وہ ( نیوٹن) بھی پھر تیلا اور طرار ہوتا ، چیزوں کو بغور دیکھنے اور نتائج اخذ کرنے کی ذہنی فرصت یعنی کاہلی سے محروم ہوتا تو پیڑ سے گرنے والے سیب کو دوڑ کر اٹھاتا ، رومال سے صاف کرتا اور اپنیدندان تیز سے ریزہ ریزہ کر کے اسے لقمۂ تر بناتااور اپنے پیٹ کی دوزخ میں ڈال کر اپنی راہ لیتا۔وہ عام آدمی نہیں ایک کاہل آدمی تھا اور کاہل کا ذہن تجسس اور ذہانت سے لبریز ہوتاہے۔ چنانچہ سیب کے زمین پر گرنے کے عمل کو دیکھ کر وہ سوچنے لگا کہ کوئی ایسی نادیدہ قوت ضرور موجود ہے جس نے سیب کو اوپر اٹھانے کی بجائے زمین پر گرنے پر مجبور کر دیا۔۔۔۔ اس طرح اس نے کششِ ثقل کا فارمولا دریافت کر کے سائنس کی تاریخ میں اعلی مقام حاصل کر لیا ، نیوٹن کو شہرت عام اور بقا ئے دوام دلوانے والی کاہلی کی دیوی تو تھی۔‘‘(۵)
انشائیہ نگار موضوع کے ساتھ آنکھ مچولی کرتے نیا مدار حقیقت دریافت کرنے کی سعی میں تسلسل کے ساتھ انکشافات کے دوار کھولتاہے ۔ چابی اور تالے کی کھتا انشائیہ ’’ تالا‘‘ میں خوش فکری کی جزئیات کو چھیڑ کر گزرتی ہے۔
’’ چابی کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ وہ اپنے فرائض سے غافل ہے نہ دوسروں کے حقوق سے بے خبر ، وہ نہ تو کسی کا حق مارتی ہے نہ اپنا حق مارنے کی کسی کو اجازت دیتی ہے وہ کسی دوسرے تالے کی ملکیت میں قدم رکھتی ہے نہ ہی کسی دوسری چابی کو اپنی سلطنت میں چہل قدمی کی اجازت دیتی ہے۔ اس ضمن میں تالا بھی اس کے ساتھ مکمل تعاون کرتا ہے اول تو وہ کسی غیر چابی کو اپنے اندر جھانکنے کی اجازت نہیں دیتا ۔اگر کوئی چابی زبردستی پر اتر آئے تو وہ اس کے خلاف باقاعدہ مزاحمت کرتا ہے۔ اور اسے اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہونے دیتا۔اگر کسی تالے کی چابی گم ہو جائے تو وہ کسی اور چابی سے پینگیں بڑھانے سے انکار کر دیتا ہے ۔ وہ اس وقت تک کسی غیر چابی کے اپنے آپ کو حوالے نہیں کرتا جب تک اصل چابی سے اس کا سمبندھ نہیں ہوتا ، اگر اس کا عقد ثانی کسی پہلے جیسی چابی سے کرایا جائے تو وہ اپنی پہلی رفیق حیات کے غم میں اپنے فرائض سے پہلو تہی نہیں کرتا۔‘‘ (۶)
اسی طرح انشائیہ ’’ دادا پوتا‘‘میں زندگی کے دو دھارے دوکنارے عمر کی پگڈنڈیوں پر اپنی اپنی عمل داریوں کے چاک پر گھومتے نظر آتے ہیں۔ شفیع ہمدم نے موضوع کی تزئین کو زندگی کے منج پر اپنے اپنے منظر کے ملبوس میں دکھایاہے  ۔  
’’وہ (پوتا)  ایسی زبان بولتا ہے جو دنیا کے تمام براعظموں میں روانی سے بولی جاتی ہے ، جسے سننے کا لوگوں کے پاس وقت ہے نہ دماغ۔ــ‘‘(۷)
’’ جب بھی ترنگ میں آکر اس کے سامنے اس کی زبان کی نقل کرتا ہوں یعنی اپنی زبان سے مہمل اور بے معنی جملے ادا کرتا ہوں تو وہ میری طرف گہری تنقیدی نظروں سے دیکھتا ہے اور آنکھوں ہی آنکھوں میں کہتا ہے کہ آپ اس قابل کہاں کہ یہ زبان بول سکیں آپ تو صرف دوسروں کا مضحکہ اڑانا ہی جانتے ہیں۔‘‘ (۸)
شفیع ہمدم انشائیہ کے مقتضیات سے آگاہ ہیں اور اس کے محاسن و مناقص کی سمجھ بھی رکھتے ہیں۔تاہم انشائیہ ’’ دھند ‘‘ میں جس طرح صنف انشائیہ روشن ہوکر اپنی چمک دکھا گیا ہے۔ انشائیہ ’’ روشنی ‘‘میں موضوع اسی قدر دھند لا پڑ گیا ہے۔ یہاں’’ روشنی ‘‘ اس افسانوی دھند سے عاری ہے۔ جو شفیع کے دوسرے انشائیوں پر حسن کی ایک خوش کن جھالر کے سمان تنی ہوئی ہے۔ ایسا لگ رہا ہے جیسے وہ اسے موضوع کاتقاضا سمجھتے ہوئے بہت واضح ہوکر سامنے آئے ہوں ۔ چنانچہ یہاں تخیل کے کوندے فن کے آسمان پر کم کم لہرائے ہیں۔ اور فضامیں ہر چیز اپنی تمام تر جزئیات کے ساتھ آتے دیکھ کر خیال کا گھوڑا آگے جانے کی بجائے رک سا گیا ہے۔ ایسا لگتا ہے یہاں روشنی سے انصاف نہیں ہوا۔ روشنی پر ایک بھر پور انشائیہ لکھنے کے لئے روشنی کو اپنے اندر پوری طرح اتار نا ضروری ہے۔ مطلب اس موضوع کو گہرائی میں جاتے ہوئے پن کرنے سے ہے اس لئے کہ موضوع کی روشنی میں بہت سے احساسات کی اجاگر ت گنجائش رکھتی ہے۔ ڈاکٹر انور سدید لکھتے ہیں۔
’’ جس طرح بے جا طوالت مضمون کو پھیلا دیتی ہے اسی طرح بے جا اختصار بھی انشائیہ نگار کی غرابت فکر کو عریاں کر ڈالتی ہے ۔‘‘ (۹)
ظاہر ہے انشائیہ نگار بھی اگر شارع عام پر چلنا شروع کر دے تو پھر خوش تر کیبی کے نئے راستے کون تراشے گا۔ انشائیہ ’’ خارشت ‘‘ اگرچہ اپنی شوخیاں عنوان کے ساتھ ہی لایا ہے اور انشائیہ نگار نے موضوع کے حساب سے کئی پہلوؤں کو بخوبی نبھا یا بھی ہے تاہم بہت سے حصوں کو کجھلائے بغیر چھوڑ دیا ہے ، شاید ان کی نفاست طبع نے زیادہ کی اجازت نہیں دی ۔۔ انحراف ، انعطاف پر غالب آیا تو انہوں نے اختراع کے باب میں بھی اپنے قلم کو سمیٹ لیا۔ جبکہ انشائیہ میں خیالات سمیٹنے کا عمل فنی اور موضوعاتی دونوں حوالوں سے کوئی اچھا تاثر نہیں چھوڑتا۔ منظر نگاری کی جزئیات اگر چہ انشائیہ نگاری کا لازمہ نہیں تاہم فن کا ر کی افتاد طبع اگر انہیں اکساتی ہے تو وہ اس میدان میں بھی جادو جگا سکتا ہے جیسے شفیع ہمدم کا یہ انداز۔
ــ’’ حال اور مستقبل کے اندیشوں والے حصے سے نکل کر جنگل کے اس حصے میں پہنچ جاتے ہیں۔ جہاں چاروں طرف یادوں کے خوبصورت اور شاداب پیٹر ہواؤں کے دوش پر جھولا جھولتے رہے ہیں ۔اور پھولوں سے لدی شاخیں ہوا سے اٹھکیلیاں کر رہی ہوتی ہیں ، جنگل کے اس حصے پر بھینی بھینی خوشبوؤں کا راج ہوتا ہے۔‘‘ (۱۰)
جمیل آذر کے مطابق
’’ شفیع ہمدم زندگی کے ہر گوشہ میں کھلی آنکھ ، حساس دل اور متخیل ذہن کے ساتھ سفر کرتے ہیں۔‘‘ (۱۱)
جمیل آذر کی یہی بات شفیع ہمدم کے اسلوب پر بھی صادق آتی ہے ۔ مجموعی لحاظ سے شفیع ہمدم نے اپنے پیرایہ بیان کو ہر قسم کی گنجلتاسے پاک رکھا ہے اور سادگی کے جمال کو ملحوظ رکھتے ہوئے تازہ کاری کے عمدہ نمونے پیش کئے ہیں۔

ڈاکٹر اویس قرنی، لیکچرار، یونیورسٹی کالج فار بوائز، جامعہ پشاور

 

 

 

 

حوالہ جات
۱۔        رشید امجد ، ڈاکٹر ،  شفیع ہمدم اور ان کا انشائیہ مشمولہ دھند ، مثال پبلیشر ز  فیصل آباد ۔ ۲۰۱۳؁ ء  ، ص ،  ۱۲
۲۔        شفیع ہمدم ،  دھند  ،  مثال پبلشر ز فیصل آباد ، ۲۰۱۳؁ ء   ،  ص  ۵۹
۳۔       ایضاً  ،  کہانی  ،ص ،  ۹۷
۴۔       ایضاً  ، یادیں  ، ص  ،  ۱۰۰
۵۔       ایضاً  کاہلی   ،  ص  ، ۳۶
۶۔        ایضاً  ،  تالا  ،  ص  ،  ۴۲
۷۔       ایضاً ، دادا پوتا ،   ص  ،  ۳۱
۸۔       ایضاً 
۹۔        انور سدید ، ڈاکٹر انشائیہ اردو ادب میں،  مکتبہ فکر وخیال لاہور  ،  ۱۹۸۵؁  ء  ،  ص  ، ۹۸
۱۰۔       شفیع ہمدم ، یادیں ، مشمولہ دھند ، مثال  پبلشرز فیصل آباد  ،  ۲۰۱۳؁ ء  ،  ص   ، ۵۳
۱۱۔       جمیل آذر  ،  فلیپ مشمولہ دھند   ، ایضاً

 

 

 

 

 

 

 

اوپر جائیں  |   پرنٹ کیجئےِ
انگریزی ورژن ای میل چیک کریں مرکزی صحفہ پرنٹ پسندیدہ سائٹ بنائیں رابطہ کیجئے www.shahzadahmad.com www.shahzadahmad.com