احمد ندیم قاسمی کے منتخب افسانوں میں سماجی مسائل
رضوانہ ارم

ABSTRACT
Ahmad Nadim Qasmi is an Urdu creative writer, Poet, Critic, and Journalist he sketched in his Fictions the lower class social and economic problems. Fiction reflects the social, cultural, and economic life of any society. In this article Nadim Ahmad Qasmi's selected fictions characters were analysed that how the upper and business class grabbed the sources of lower and labour class. The lower class as victims cannot complaint and condemns their social, economic and moral problems as citizens .

           اس آرٹیکل میں احمد ندیم قاسمی کے منتخب افسانوں ’’سونے کا ہار، الحمد للہ، رئیس خانہ، فیشن، تبر ، ماسی گل بانو کے سماجی، معاشی اور معاشرتی مسائل کا جائزہ لیا گیا ہے۔لیکن اس سے پہلے احمد ندیم قاسمی کے حوالے سے کچھ معلومات فراہم کرنا ضروری ہے۔

’’احمد ندیم قاسمی کا اصلی نام (احمد شاہ ) وہ 1916سے 2006تک زندہ رہے۔ احمد ندیم قاسمی ایک ہمہ جہت شخصیت کے حامل فنکار تھے ۔ وہ بیک وقت ایک بلند پایہ شاعر، منفرد افسانہ نگار،نقاد اور ممتاز صحافی تھے۔ وہ 20 نومبر 1916 میں بمقام انگہ تحصیل خوشاب ضلع شاہ پور میں پیدا ہوئے۔ احمد ندیم قاسمی نے ابتدائی تعلیم پرائمری سکول انگہ سے پاس کیا ۔ کیمبل پور کے گورنمنٹ مڈل اینڈ نارمل سکول میں 1925 میں داخلہ لیا اوروہاں سے آٹھویں جماعت پاس کرنے کے بعد گورنمنٹ انٹرمیڈیٹ کالج کیمبل پور میں 1929 میں داخلہ لیا (اس وقت نویں اور دسویں کے امتحانات کالج سے منسلک تھیں) میٹرک امتحان سے پہلے شیخوپورہ منتقل ہوئے اور وہاں سے 1931میں میٹرک کا امتحان پاس کیا۔ صادق ایجرٹن کالج بہاول پور سے 1935 میں بی اے کا امتحان پاس کیا۔ ان کی اولین تخلیق ایک رشتہ دار غلام جیلانی کی والدہ اور ہمشیرہ کی وفات کا مرثیہ ہے۔ جو انہوں نے اپریل 1930میں لکھا۔‘‘ (۱)
احمد ندیم قاسمی کی اولین مطبوعہ تحریر مولانا محمد علی جوہر کا مرثیہ ’’سیاست ‘‘ لاہور سے جنوری 1931میں شائع ہوا۔ اس کے علاوہ ان کا اولین مطبوعہ افسانہ بدنصیب بت تراش ہے۔ جو انہوں نے ’’رومان ‘ ‘ لاہور سے فروری 1936میں شائع کیا۔ ان کے مطبوعہ افسانوں کے مجموعے درج ذیل ہیں۔
۱۔        مجموعہ چوپال جس میں 14 افسانے ہیں یہ دارااشاعت پنجاب لاہور سے 1939 میں شائع ہوا ہے۔ ان کے اس مجموعے میں ’’بے گناہ، دیہاتی ڈاکٹر، بوڑھا سپاہی، ننھامانجھی، ہرجائی، مسافر، غیرتمند بیٹھا، حق بجانب، آرام، وہ جا چکی تھی۔ انتقام، غرور نفس، یہ دیا کون جلائے، بیچارہ‘‘ شامل ہیں۔
۲۔        مجموعہ بگولے:  میں بیس افسانے شامل ہیں۔جو مکتبہ اردو ،لاہور سے 1941 میں شائع ہوا۔اس مجموعے میں’’طلائی مہر،توبہ میری،بھوت، ننھے نے  سلیٹ خریدی، بچپنہ،ماں، کریاکرم، بچے، میرا رانجھا،چوری ، کھیل، پاؤں کا کانٹا، ان بن، قلی اور  السلام علیکم‘‘ شامل ہیں۔
۳۔       مجموعہ طلوع وغروب : میں آٹھ افسانے ہیں جو 1941 میں مکتبہ اردو لاہور سے شائع ہوا۔اس میں طلوع وغروب ، کنگلے، گونج، جلسہ، میرا دیس ،جوانی کا جنازہ، پکا مکان ، چھاگل شامل ہیں۔
۴۔       مجموعہ گرداب:  میں پندرہ افسانے ہیں اور یہ ادارہ اشاعت اردو دکن ،حیدر آباد دکن سے 1943  میں شائع ہوا۔اس میں شامل افسانے مسجد کے مینار،کھوٹے سکے، نرل دل، استعفی، ادھورا گیت، بٹوے کی باچھیں، روشندانوں کے شیشے، پگلی، غریب کا تحفہ، افیونی، ایک رات چوپال پر ، رنگ وسنگ، فساد، انسان اور حیوان، ہسپتال سے نکل کر، موجود ہیں۔
۵۔       مجموعہ سیلاب:  میں بارہ افسانے ہیں جو ادارہ اشاعت اردو دکن، حیدر آباد دکن، دسمبر 1943میں شائع ہوا۔نیم وا دریچے،بڈھا کھوسٹ، شادی، جوانی کی سڑاند، پلکوں کے سائے، الجھن ،کانی آنکھ، من کی ڈالی، آزاد منش غلام، معطر لفافہ، سونے کی دھار، نئی سارنگی، ایک ڈرامائی مکالمہ بہ عنوان: من کی کرچیاں، اور ایک ڈراما’مستقبل کے سوداگر بھی شامل ہے۔
۶۔        مجموعہ سیلاب وگرداب :  یہ مجموعہ 1961 میں  مکتبہ کارواں، لاہورسے شائع ہوا ہے۔یہ کتاب سیلاب اور گرداب کے مندرجہ ذیل گیارہ منتخب افسانوں پر مشتمل ہے۔اس مجموعے میں الجھن، بڈھا(بڈھا کھوسٹ)، کانی آنکھ، من کی ڈالی، نیم وا دریچے، ایک رات چوپال پر، ادھورا گیت، حیوان اور انسان، سونے کا ہار، غریب کا تحفہ، استعفیٰ شامل ہیں۔
۷۔       مجموعہ آنچل:  میں گیارہ افسانے ادارہ فروغ اردو،لاہور بہ اشتراک نیشنل لٹریچر کمپنی لاہور، 1944 اس میں شامل افسانوں میں محدب شیشے میں سے ’’جان ایمان کی خیر، نشیب وفراز، خربوزے، نامرد، سائے، حدفاصل، انصاف، مہنگائی الاؤنس، سانولا اور شعلہ نم خوردہ ہیں ۔

۸۔       مجموعہ آبلے:  میں تین افسانے شامل ہیں جو ادارہ فروغ اردو لاہور سے 1946 میں شائع ہوئے آبلے میں شامل افسانے ’’کفارہ، ہیروشیما سے پہلے، ہیروشیما کے بعد، عبدالمتین ایم اے‘‘  اور بعد میں اس کے دوسرے ایڈیشن 1949 میں آنچل کا ایک افسانہ محدب شیشے میں سے، شامل کیا گیا ہے۔
۹۔        مجموعہ  آس پاس:   میں شامل آٹھ افسانے مکتبہ فسانہ خواں لاہور سے پہلی بار 1948 میں شائع ہوئے ان افسانوں میں ’’اکیلی۔ بھری دنیا میں، افق، کرن، موت، تکمیل، ارتقائاور  چڑیل ‘‘ شامل ہیں۔ 
۱۰۔       مجموعہ در ودیوار:  میں شامل آٹھ افسانے مکتبہ اردو لاہور سے 1948میں شائع ہوئے۔ اس افسانوی مجموعے میں ’’ میں انسان ہوں، نیا فرہاد، تسکین، جب بادل امڈے، سپاہی بیٹا، ووٹ، کہانی لکھی جارہی ہے اور راجے مہاراجے ‘‘ شامل ہیں۔
۱۱۔       مجموعہ سناٹا:  میں شامل دس افسانے نیا ادارہ لاہور سے 1952 میں شائع ہوئے۔ ان افسانوں میں ’’بڑی سرکار کے نام، رئیس خانہ ،آتش گل، مامتا، الحمد اللہ، کنجری، گنڈاسا، چور، نمونہ اور سناٹاشامل ہیں۔
۱۲۔       مجموعہ بازار حیات:  میں تیرہ افسانے شامل ہیں۔ جو ادارہ فروغ اردو اردو لاہور سے 1959 میں شائع ہوئے ان افسانوں میں ’’پریشر سنگھ، گل رخے، خون جگر، دارو رسن، زلیخا، بدنام، ست بھرائی، موچی، کفن دفن، بابا نورا، آئینہ، ہیرا ، اور مخبر ‘‘شامل ہیں۔
۱۳۔      مجموعہ برگ حنا:  میں دس افسانے شامل ہیں جو ناشرین لاہور سے 1959 میں شائع ہوئے۔ ان افسانوں میں ’’بیٹے بیٹیاں، ماتم، کھمبہ، دوربین، شکنیں، نصیب، مہم بیگ، وحشی، جن وانس اور امانت ‘‘شامل ہیں۔
۱۴۔      مجموعہ گھر گھر تک: میں سترہ افسانے شامل ہیں جو راول کتاب گھر راولپندی سے ستمبر 1963 میں شائع ہوئے۔ ان افسانوں میں ’’تبر، فیشن، سفارش، مائیں، پہاڑوں کی طرف، گڑیا، تھل، پاگل، ماسی گل بانو، بے نام چہرے، کپاس کا پھول، سفید گھوڑا، سکوت وصدا، آسیب، لانس آف تھلیبیا، قرض اور مشورہ ‘‘شامل ہیں۔
۱۵۔      مجموعہ نیلا پتھر : میں نو افسانے غالب پبلشرز لاہور سے 1980 میں شائع ہوا۔ اس افسانوی مجموعے میں ’’احسان، عورت صاحبہ، جوتا، اندمال، عالاں، نیلا پتھر، بارٹر، ایک عورت تین کہانیاں اور ایک احمقانہ محبت کی کہانی ‘‘ شامل ہیں۔(۲)
احمد ندیم قاسمی کے افسانوں کے پندرہ مجموعے ہیں جن میں 169 افسانے ہیں۔ اس میں معاشرے کے مختلف افراد کو کرداروں کی صورت میں پیش کیا گیا ہے ، جن میں زیادہ ترکرداروں کی غربت،دیہی زندگی، نچلے طبقے اور معاشرے کے پسے ہوئے طبقات اور ان کے سماجی اورمعاشی مسائل کو مدنظر رکھا گیا ہے۔ ندیم کی یہ خصوصیت ہے کہ انہوں نے اپنے افسانوں میں معاشرے کے نچلے ، کمزور اور پسے ہوئے طبقے کے لوگوں کے مسائل اور دشواریوں کو باریک بینی سے دیکھا اور پرکھا۔ ان کے افسانوی کرداروں سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ اس کے دل میں غریب طبقہ کے لوگوں سے پیار اور ہمدردی کے جذبات موجود تھے جس کا اظہارانہوں نے اپنے افسانوی کرداروں میں خوب صورت انداز میں پیش کیا ہے۔ قاسمی کا یہ انداز انہیں دوسرے افسانہ نگاروں پر فوقیت دیتا ہے ۔ احمد ندیم قاسمی نے ان کرداروں کے جذبات کو اتنی شدت سے بیان کیا ہے کہ یہ ہر کسی کے بس کا کام نہیں ہے ایسے کردار وں کی تخلیق صرف وہی فنکار کر سکتا ہے جب اس کے دل میں انسانیت کے لیے خصوصی ہمدردی کا جذبہ موجود ہو۔
افسانہ سونے کا ہار میں ایک کسان کاذکر ہے جو اپنی عزت کی خاطر اپنی جائیداد کو داؤ پر لگا دیتا ہے اور بیٹی کی بیاہ پر اسے سونے کا ہاردینے کا خواہش مند ہے تاکہ برادری میں اس کی ساکھ برقرار رہے۔لیکن جب وہ ذیلدار کے ہاتھوں زمین فروخت کرنے سے انکار کر دیتا ہے اور چودھری کے پاس جاتا ہے تو چودھری اسے زمین کی قیمت کیا دیتا ہے ملاحظہ ہو:
’’چودھری نے زمین کی آدھی قیمت بتائی۔
احمد علی نے اعتراض کیا تو وہ بولا۔ ’’تو پھر کہیں اور بیج ڈالو، میری طرف سے تمہیں آزادی ہے، زیلدار کے ہاں بیچ دو۔
نقد روپی اور کون دے گا؟‘‘(۳)
احمد علی مجبور ہو کر زمین سستے داموں بیچ دیتا ہے اور سنار کی دکان کا رخ کرتا ہے تو سنار اور ذیلدار کے آپس میں ملاپ سے نقلی ہار احمد علی کو ڈھائی سو روپے پر دیتا ہے اور جب شادی کے دن لوگ جمع ہوتے ہیں تو سونے کے ہار کی تعریف کے دوران زیلدار آتا ہے اور ہار کو مکاری کے ساتھ نقلی قراردیتے ہوئے کہتا ہے کہ:
’’ ذیلدار ہار کو اپنی آنکھوں کے بہت قریب لے گیا، الٹ پلٹ کر دیکھنے لگا اور بھرے مجمع میں بلند آواس سے بولا احمد علی یہ تو نقلی سونا ہے!‘‘(۴)
اس افسانے میں چودھری، ذیلدار اور سنار جو کہ امیر طبقے کے نمائندہ کردار ہیں کہ کیسے غریب زمیندارکو لوٹنے اور پھر ان کو رسوا کرنے اورتمسخر اڑانے کاانداز نمایا ں ہے۔
احمدندیم قاسمی کے افسانوں کا موضوع دیہات کے رہنے والے محنتی،جفاکش اور وہ عام لوگ ہیں جنہیں اپنی محنت کا صلہ بہت کم ملتا ہے یہاں تک کہ ان کی زندگی بہت ہی کسمپرسی کی حالت میں گزرتی ہے۔دیہات کے عام لوگوں کے مسائل اور جذبات ہی ان کا اصل موضوع ہے ۔ان کے افسانوں میں حقیقی زندگی کا عکس بھرپو انداز میں نمایاں ہے اس کے ساتھ ساتھ محبت جو ایک کائناتی جذبہ ہے وہ بھی ان کے ہاں پوری آب وتاب کے ساتھ جلوہ گر نظر آتا ہے۔گاؤں کی مخصوص ثقافت ،اقدار، رسم ورواج اور انتقام سے ان کے افسانوں کا تار وپود تیار ہوتا ہے۔ندیم نے زندگی کے حقائق کو صدیوں کی معاشرت اور روایت کے پس منظر میں پیش کیا ہے۔سرمایہ دارانہ نظام کو شدید طنز کا نشانہ بنایا ہے جہاں امیر امیر تر اور غریب غریب تر ہو رہا ہے۔محنت ومشقت کرنے والے کو دو وقت کی روٹی مشکل سے نصیب ہوتی ہے اور اس طبقے کا مکمل طور پر استحصال کیا جاتا ہے۔
احمد ندیم قاسمی کے بعض کردار حالات کی ستم ظریفی کے باعث بہت ہی روح فرسا کام کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ افسانہ الحمدللہ کے مولوی ابل شادی سے پہلے بہت ٹھاٹ کی زندگی بسر کر رہا تھا ۔لیکن شادی کے بعد مفلوک الحالی اور کثرت اولاد کے نتیجے میں پیدا ہونے والے مسائل نے انہیں سوکھے ٹکڑے کھانے پر مجبور کر دیا۔کیونکہ اب مسجد میں نمازیوں کی تعداد بڑھنے کی بجائے گھٹنے لگی تو انہیں شدید مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔
’’نمازیوں کی تعداد بڑھنے کے بجائے گھٹ رہی تھی اور ضروریات زندگی کی قیمتیں گھٹنے کی بجائے بڑھ رہی تھیں اور پھر اولاد بڑھ رہی تھی اور اولاد کے ساتھ مولوی ابل کے بالوں کی سفیدی بڑھ رہی تھی۔ادھر مہرالنساء نے چودھویں سال میں قدم رکھا ،ادھر مولوی ابل کی یہ حالت ہو گئی کہ رکوع میں گیا ہے تو اٹھنے کا نام نہیں لے رہا۔سجدے میں پڑا ہے تو بس پڑا ہے۔‘‘(۵)
مولوی اُبل جو پہلے ہر وقت اللہ جل شانہ‘ پر بھروسہ کرنے والا تھا۔ مفلسی کے پے درپے حملوں نے انہیں مایوس کر دیا تھا، اور ہر بار ان کی نظریں چودھری فتح داد پرمرکوز ہو جاتیں۔ چودھری ہر مشکل گھڑی میں ان کی مدد کرتا یہاں تک کہ بیٹی کی بیاہ میں بھی ان کی امداد ناقابل فراموش تھی۔
’’چودھری فتح داد بولا اب جلدی سے شادی کی تاریخ بھی طے کرلیجئے شمیم احمد اچھا لڑکا ہے۔۔۔۔۔ شمیم احمد کو میں نے ہی آپ کی خدمت میں بھیجا تھا رسم ورواج کے مطابق اس کی ماں آپ کے گھر میں آتی مگر بڑھیا سٹھیاسی گئی ہے۔ کوئی بات اس کی مرضی کے خلاف ہو تو سات پشتیں توم ڈالتی ہے کمبخت ابھی ابھی شمیم نے بتایا کہ آپ نے حامی بھرلی ہے میں نے اُسے جلدی سے شادی کرلینے پر زوردیا تو بولا آپ ہی قبلہ مولوی صاحب سے تاریخ کا فیصلہ کرادیجئے سو میں اسی لیے حاضر ہوا تھا۔ آپ کل تک سوچ لیجئے اور یہ ۔۔۔۔ یہ۔۔۔۔ چودھری فتح داد نے گرم چادر کے نیچے سے ایک پوٹلی سی نکالی۔۔۔۔۔ یہ میری بیٹی کو دے دیجئے گا۔۔۔۔۔ مولوی اُبل نے اندر آکر پوٹلی کھولی تو ایک ٹرے سے ریشمی رومال میں سو کے ایک نوٹ پر سونے کے دو جھمکے رکھے تھے، جن کی ٹرے سے بلبلے جتنی کٹوریوں میں جانے نگینے جڑے تھے یا مینا کاری کا کام تھا۔‘‘(۶) 
لیکن جب چودھری فتح داد کی ریڑھ کی ہڈی میں پھوڑا نکلا اور ایک نائی نے اس کی نشترزنی کی تواس کے ساتھ اس کو سخت قسم کا بخار ہوا مولوی ابل ہر روز اس کی مزاج پرسی کے لیے جاتا اور اس کی صحت کے لیے دعا کرتا۔  پھر جب مہرالنسا کے ہاں بیٹا پیدا ہوا تو مولوی کی بیوی نے کہاکہ کہیں سے دس روپے کا قرضہ مل جائے کہ بیٹی کے لیے کچھ خرید سکے لیکن مولوی نے کہا کہ کون عقل کا اندھا مجھے قرضہ دیگا۔ اور جب وہ باہر نکلتا ہے تو چند لمحوں کے بعد بھاگتا ہوا اندر آیا اور چلایا کہ پیسوں کا بندوبست ہوچکا ہے۔
’’اور مولوی اُبل اسی بجتے ہوئے لہجے میں چلایا۔ مبارک ہو عارف کی ماں! تم نواسے کے چولے کو رورہی تھیں۔ اللہ جل شانہ نے چولے چنی اور ٹوپی تک کا انتظام فرمادیا۔ جنازے پر کچھ نہیں تو بیس روپے ضرور ملیں گے۔ ابھی کچھ دیر میں جنازہ اٹھے گا چودھری فتح داد مرگیاہے! زیب النساء نے اس زور سے اپنی چھاتی پر دو ہتڑ مارا کہ بچے دہل کر رودئیے۔ اور پھر ایک دم جیسے کسی نے مولوی اُبل کو گردن سے دبوچ لیا۔ اس کی اوپر اٹھی ہوئی پتلیاں بہت اوپر اٹھ گئیں۔ پھر ایک لمحے کے دردناک سناٹے کے بعد مولوی اُبل جو مرد کے چلاچلا کے رونے کو ناجائز اور خلاف شریعت قراردیتا تھا۔ چلاچلا کر رونے لگا اور بچوں کی طرح پاؤں پٹختا ہوا ڈیوڑھی کے دروازے میں سے نکل کر باہر بھاگ گیا‘‘ (۷)
مولوی اُبل اپنے معاشی حالات کی وجہ سے اس قدر بے حال تھا کہ اپنے محسن چودھری فتح داد جو ہر مشکل میں اس کی مدد کے لیے حاضر رہتا تھا۔ مولوی اُبل اُس کے جنازے کے پیسوں کا بے چینی سے منتظر تھا اور یہ بھول گیا تھا کہ یہ وہی میرا محسن ہے جو ہر تکلیف کے وقت میری مدد کے لیے پہنچتا تھا جب اس کی بیوی رونے لگتی ہے تب اس کو احساس ہوتا ہے کہ چودھری فتح داد جو میرا محسن تھا ہمیشہ کے لیے اس دنیا سے رخصت ہوگیا۔
اسی طرح معاشی مسائل کے ہاتھوں مجبور ہوکر رئیس خانہ کے فضلو کا بھی یہی حال ہے کہ اس کو حالات نے اس قدر مجبور کیا ہے کہ چند پیسوں کے عوض وہ بہت ہی گھناؤنا کام کرنے پر مجبور ہوجاتا ہے وہ صاحب جو سکیسر پر چٹھیاں گزارنے آیا ہے ا س کے لئے اسکیسر بھر سے عورتیں ڈھونڈ ڈھونڈ کر لاتا ہے اور جب اس کو پتہ چل جاتا ہے کہ یہ عورتوں کو چھوتا تک نہیں بس سامنے بٹھائے رکھتا ہے تو اس کا جی بھی للچایا اور اپنی بیوی مریاں کو مجبور کرنے لگا کہ صاحب کچھ بھی نہیں کہتا تو صرف اس کے سامنے بیٹھے میں کیا حرج ہے۔ مریاں پہلے تو منع کرتی ہے لیکن جب وہ مسلسل بضد ہوتا ہے تو یہ اس کی باتوں میں آجاتی ہے اور صاحب اسی لمحے کے انتظار میں تھا کیونکہ اس نے پچھلے سال مریاں کو دیکھا تھا اور اب بھی وہ اسی کے لیے یہاں ٹھہرا تھا۔ مریاں چیخ چیخ کر بول رہی تھی :
’’تم نے کہا تھا کہ وہ مجھے چھوئے گا ہی نہیں اور اس نے تو مجھے کاٹ کاٹ لیا ہے وہ تو پچھلے ساون میں بھی میرے ہی لیے یہاں رکا رہا اس نے تو پہلے ہی دن یہاں صحن میں مجھے دوربین سے دیکھ لیا تھا وہ تو اب کے بھی میرے ہی لیے آیا تھا، سن رہے ہو؟ سن رہے ہو حرام زادے بھاگے کہاں جارہے ہو؟ ‘‘(۸)
فضلو جس کے وہم وگمان میں ہی نہیں تھا کہ اُسے یہ دن دیکھنا پڑے گا شدید صدمے سے بے حال تھا صاحب جاچکا تھافضلو نے سو کا نوٹ جواس کی بند مٹھی میں تھا چراغ کی لو سے جلایا اور انتہائی کرب کے انداز میں گویا ہوا کہ مجھے میری غریبی دھوکہ دے گئی۔ نوٹ جل کر راکھ ہوچکا تھا اور ساتھ ہی فضلو عزت بھی راکھ کی صورت اختیار کرگئی تھی۔
سماجی مسائل پر احمدندیم قاسمی نے خوبصورتی سے قلم اُٹھایا ہے جہاں معاشرے کا امیر طبقہ کمزور اور مجبور افراد کے عزت سے کھیلتی ہے اور بیچارہ مظلوم ومجبور طبقہ ان کا بال تک بیکا نہیں کرسکتی۔
سماجی ناانصافی کی ایک اور مثال افسانہ فیشن میں بھی نظر آتا ہے فیشن کا ایک کردار نجمہ جو امیر باپ کی بیٹی ہے حلیمہ کو نوکرانی کے طور پررکھتی ہے نجمہ کو اپنے محلے کے ایک سیٹھ سے شیخ منصور احمد سے عشق ہوجاتا ہے اور اس عشق کو پروان چڑھانے کے لیے وہ حلیمہ کو آلہ کار کے طورپر استعمال کرتی ہے۔ وہ اپنے مفاد کی خاطر یہ بھول جاتی ہے کہ حلیمہ خود بھی ایک خوبصورت نوجوان لڑکی ہے۔ وہ حلیمہ کے ہاتھوں خطوط بجھواتی ہیں اور یوں شیخ منصور احمد کے ہاتھوں حلیمہ کی عزت تار تار ہوجاتی ہے۔ وہ کسی کو بھی نہیں بتاتی اور جب اس کی ماں مہینے بعد تنخوا ہ لینے کے لیے آتی ہے تو وہ اس کی حالت کو بھانپ لتی ہے اور وہ حلیمہ کو مار مار کر وہاں سے لے جاتی ہے۔ اور نجمہ اُسے دیکھتی رہ جاتی ہے کیونکہ اُس کو پتہ ہی نہیں چلتا کہ حلیمہ کیوں اُسے بتائے  بغیر وہاں سے چل دی۔
’’مگر پھر نہ جانے کیا ہوا کہ اُس نے حلیمہ کو دو ہتڑوں سے پیٹنا شروع کردیا نجمہ اور اس کی امی آواز سن کر نیچے بھاگیں مگر جب تک وہ حلیمہ کو ہاتھ سے گھسیٹ کر باہر گلی میں لے جاچکی تھی‘‘(۹)
ہمارا معاشرہ اس طرح کے کرداروں سے بھرا پڑا ہے جہاں غریب لوگ اپنی کم عمر بیٹیوں کو کسی کے گھر کام کرنے کے لیے بھیج دیتی ہیں لیکن وہاں اُسے صرف اُس کی تنخواہ ملتی ہے اُس کی عزت کی کوئی ضمانت نہیں ہوتی اور یہی وجہ ہے کہ ایسی معصوم اور کمزور لڑکیوں کا استحصال کیا جاتا ہے۔ جو اپنے ساتھ کی گئی ناانصافی کے خلاف آواز بھی بلند نہیں کرسکتی۔
پھر جس روز حلیمہ واپس آئی نجمہ بی بی کا گھر دلہن کی طرح سجا ہوا تھا وہ تیزی سے نجمہ بی بی کے کمرے کی طرف لپکی نجمہ بی بی دلہن بنی بیٹی تھی جلدی سے اُٹھی اور حلیمہ سے لپٹ گئی جس نے حلیمہ کی گود میں مہینے دو مہینے کے بچے کی طرف اشارہ کیا اور کہا ہمیں بتایا بھی نہیں اور چپکے سے شادی کرلی اور حلیمہ بے بسی کے انداز میں گویا ہوئی :
’’حلیمہ بولی! شادی تو کرلی نجمہ بی بی ، چپکے ہی سے کرلی ۔ کرنی پڑگئی ۔ کرنی پڑتی ۔۔۔۔ لڑکیاں ہنسنے لگیں تو حلیمہ نے نجمہ کو بازو سے پکڑا اور ملحقہ غسل خانے میں لے گئی ۔ ذرا سی دیر کے بعد ایک چیخ نکلی اور کسی کے دھب سے گرنے کی آواز آئی لڑکیاں گھبرا کر اُٹھیں اور غسل خانے کے دروازے پر بھیڑ لگ گئی ۔۔۔۔ نجمہ فرش پر بے ہوش پڑی ہے حلیمہ زور زور سے اس کی ہتھیلیاں مل رہی ہیں اور بچہ فرش میں گڑے ہوئے فلش کے بیسن میں لڑھک گیا ہے اور رو رہا ہے‘‘  (۱۰)
اور پھر جب حلیمہ سے نجمہ کے والد پوچھ گچھ کرتے ہیں تو وہ کچھ اس انداز میں جواب دیتی ہے:
’’حلیمہ دور سے آتی ہوئی آواز میں بولی ’’میں نے تو میاں جی، قسم سے بس اتنا کیا کہ نجمہ بی بی کو شادی کی مبارکباد دی اور کہا کہ نجمہ بی بی !خدا کا شکر ہے کہ آپ کی شادی شیخ منصوراحمد جیسے کمینے سے نہیں ہو رہی ہے۔‘‘  (۱۱)
اور جب حلیمہ کو پتہ چلتا ہے کہ نجمہ بی بی کی شادی شیخ منصور احمد سے ہو رہی ہے تو وہ جیسے سکتے میں آ جاتی ہے کہ اس کی زندگی کی بربادی میں اس درندہ صفت انسان کا ہاتھ تھا۔اور اب وہ اپنی زندگی سنوارنے کے لیے شادی کر رہا ہے ۔اور یہی وجہ ہے کہ وہ میاں صاحب کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے خاصی دیر تک حیرانگی کے عالم میں کھڑی رہی اور پھر بولی میاں صاحب غلطی ہوگئی۔
ندیم نے معاشرتی مسائل کو پوری حقیقت کے ساتھ پیش کیاہے ان کے کردار بالکل ہمارے معاشرے میں رہنے بسنے والے افراد ہیں۔افسانہ ’’ماسی گل بانو‘‘ میں گل بانوکی دکھ بھری کہانی کو حقیقت بھرے انداز میں بیان کی ہے۔گل بانو جو کسی وقت میں ایک حسین لڑکی تھی شادی کے ایک دن پہلے جب اس کو پتہ چلتا ہے کہ اس کا دولہا اپنے مالک کی دشمنی کی بھینٹ چڑھ گیا ہے تو وہ اپنے مہندی لگے ہاتھوں کو دیوار سے اس زور سے گھسیٹتی ہے۔کہ اس کی ہتھیلیوں کی جلد ادھڑ جاتی ہے۔اور پھر اس کو محرقہ بخار ہو جاتا ہے رات بھر بخار کی غنودگی میں اس کی دائیں ٹانگ چارپائی سے لٹکتی رہی جس کی وجہ سے اس کی ٹانگ ٹیڑھی ہو گئی اور وہ لنگڑا کر چلنے لگی۔بخار کے اترنے کے بعد اس کے بال جھڑنے شروع ہوئے اور یوں لوگوں نے گاؤں بھر میں مشہور کر دیا کہ ماسی گل بانو پر جن آگیا ہے۔بعض لوگوں کا کہنا تھا کہ ماسی گل بانو کے قبضے میں جنات ہیں اور اسی ڈر کی وجہ سے لوگ اس کے مطالبات پورے کرتے کہ اگر وہ انکار کر دیں گے تو ان پر کوئی آفت آجائے گی۔
احمد ندیم قاسمی نے اپنے معاشرے میں موجود مسائل پر خوب لکھا ہے ۔وہ خامیاں جو ہمارے معاشرے میں موجود ہیں اور جو لوگ اس کے ذمہ دار ہیں ان کو بے نقاب کیا ہے ،غریب طبقے کی کمزوریوں سے فائدہ اٹھا کر انھیں جرائم میں ملوث کیا جاتا ہے یا تو انھیں پیسوں کی لالچ دی جاتی ہے یا محبت کے جال میں پھنسا کر انھیں اپنے مفاد کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔افسانہ تبر میں ایک ایسی معاشرتی برائی کی نشاندہی کی گئی ہے۔جس میں ایک سادہ لوح نوجوان ایک بے وفا عورت کی محبت میں اس حد تک پہنچ جاتا ہے، کہ اس کے کہنے پر اس کے شوہر کو قتل کرتا ہے اور قید ہو جاتا ہے لیکن جب اس کو معلوم ہوتا ہے کہ جنت دلیر خان سے جو شھباز کو اس گھناؤنے کام پر مجبور کرتا ہے پر عاشق ہے اور انہوں نے مل کر اسے پھنسایا ہے تو قید سے رہا ہونے کے بعد وہ سیدھا اس کے گھر کا رخ کرتا ہے تاکہ اس کو قتل کرکے خود کو پولیس کے حوالے کرے اور یہی انتقام ہی اس کی زندگی کا مقصد بن جاتا ہے۔لیکن جب وہ ان دونوں کو ساتھ پاتا ہے تو انتقام کی آگ اور بھی بھڑک اٹھتی ہے۔
’’ اندر کڑوے تیل کا چراغ ٹمٹما رہا تھا اور جنت جس نے اپنا کرتا اتار رکھا تھا ۔۔۔کواڑ کے ٹوٹتے ہی دونوں یوں اکڑ کر کھڑے ہو گئے کہ اپنے قدموں سے بھی لمبے لگنے لگے ۔اسی ایک لمحے میں شھباز نے اپنے جسم کو چٹان کی طرح اٹھایا اور دلیر کے پیٹ پر دے مارا۔دلیر تیورایا تو اس نے بجلی کی سی تیزی سے تبر اس کے پیٹ پر دے ماری۔ پہلے ہی وار سے دلیر کی آنتیں باہر ابل پڑیں اور وہ ہوا میں کسی چیز کو پکڑنے کی کوشش کرتا ہوا ڈھیر ہو گیا۔‘‘  (۱۲)
پھر اس نے حقارت سے جنت کی طرف دیکھا اور کہا کہ تیرا خون میری تبر کے لائق نہیں اور اس کا کرتا اس کی طرف پھینکتے ہوئے کہنے لگا:
’’پر اب تو میں یہ پیار صرف اس طرح کر سکتا ہوں کہ تبر سے تیرے ہونٹ تیرے جسم سے الگ کر لوں اور پھر ان پر اپنے ہونٹ رکھ دوں۔ مگر میں ایسا بھی نہیں کر وں گا ۔پھانسی پر چڑھنے سے پہلے میں اپنے ہونٹوں کو پلید نہیں کرنا چاہتا۔‘‘  (۱۳)
افسانہ گنڈاسا میں بھی گاؤں کی مخصوص ثقافت اور زندگی گزارنے کے اصول کو مدنظر رکھا گیا ہے۔جہاں پر قتل کا بدلہ صرف قتل ہی نہیں بلکہ پوری زندگی کی دشمنی ہے جس کی بھینٹ  لاتعداد افراد چڑھتے ہیں اور پھر بھی انتقام کی آگ بجھنے کے بجائے اور تیزی سے بھڑکتی ہے۔مولا جس نے اپنے باپ کے قاتل اور اس کے بیٹے کو ختم کردیا لیکن چونکہ اس کا کوئی چشم دید گواہ نہیں تھا اس لیے اسے رہائی حاصل ہوئی۔گھر لوٹتے ہی اس کی ماں اس کا استقبال کچھ اس انداز میں کرتی ہے:
’’اور جب آنگن میں قدم رکھا تو اس کی ماں بھاگی ہوئی آئی، اس کے ماتھے پر ایک طویل بوسہ دیا اور بولی’’ابھی دو اور باقی ہیں میرے لال رنگے کا کوئی نام لیوا نہ رہے تو جبھی بتیس دھاریں بخشوں گی۔‘‘  (۱۴)
اور یہی وجہ ہے کہ دشمنی کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے جس میں مولا کی اپنی زندگی کہیں کھو جاتی ہے اور وہ پورے گاؤں میں دہشت کی علامت بن جاتا ہے جس گلی میں مولا بیٹھ جائے وہاں سے لوگ گزرنا چھوڑ دیتے ۔
’’ایک بار کسی اجنبی نوجوان کا اس گلی میں سے گزر ہوا۔مولا اس وقت ایک دیوار سے لگا لٹھ سے دوسری دیوار کریدے جا رہا تھا۔اجنبی آیا اور لٹھ پر سے الانگ گیا۔ایکا ایکی مولا نے بپھر کر ٹیبک میں سے گنڈاسا نکالا اور لٹھ پر چڑھا کر بولا ’’ٹھہر جاؤ چھوکرے،جانتے ہو تم نے کس کی لٹھ الانگی ہے؟ یہ مولا کی لٹھ ہے ۔مولے گنڈاسے والے کی۔نوجوان مولا کا نام سنتے ہی یک لخت زرد پڑ گیا اور ہولے سے بولا’’مجھے پتہ نہیں تھا مولے۔‘‘(۱۵) 
مولا اپنی اس زندگی سے اکتا جاتا ہے جس میں دوست اس کا ساتھ چھوڑ دیتے ہیں اور وہ کسی کے احسان کو اب گوارا نہیں کرتاتنہائی اور لاچارگی نے اسے بے بس کر دیاہے اور جب گلا اسے تھپڑ مارتا ہے تو قتل کی طاقت رکھنے کے باوجود وہ اسے چھوڑ دیتا ہے ماں اسے بہت ملامت کرتی ہے لیکن اس کی آنکھوں سے مسلسل آنسو رواں ہوتے جس پر اس کی ماں حیرت سے پوچھتی ہے کہ تو رو رہا ہے اور مولا ایک معصوم بچے کی طرح ہولے سے بول اٹھتاہے:
’’تو کیا اب روؤں بھی نہیں‘‘(۱۶)ا
احمد ندیم قاسمی کے کردار دیہات کے مخصوص ماحول کی عکاسی کرتے ہیں ان کے ہاں سرمایہ دارانہ نظام اور ان سے پیدا ہونے والے مسائل کو بھرپور انداز میں پیش کیا گیا ہے۔جہاں پر طبقاتی تقسیم کی وجہ سے کمزور طبقے کا استحصال کیا جاتا ہے۔اور وہ اپنے ساتھ کی گئی ناانصافی کے لیے آواز بلند نہیں کر سکتے ایسے کردار جو معاشرے میں اپنی عزت برقرار رکھنے کے لیے اور انتقام کے نام پر نہ ختم ہونے والی دشمنی میں کود پڑتے ہیں اور پھر نسل درنسل یہی سلسلہ چلتا رہتا ہے۔قاسمی کے افسانوں میں عورت کے کردار کو واضح طور پر جبر واستحصال کا شکار دکھایا گیا ہے چاہے وہ رئیس خانہ کی مریاں ہو،فیشن کی حلیمہ ہو ، لارنس آف تھیلیبیا کی رنگی ہویا آتش گل کی گلابو ہو سب حالات کے ہاتھوں مجبور کردار ہیں۔لیکن ان کے کردار ایسے جیتے جاگتے کردار ہیں کہ جس کو کسی صورت بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کیونکہ یہ کردار ہمارے اپنے معاشرے کے کردار ہیں۔ 

رضوانہ ارم۔ پی ایچ ڈی، اسکالر، شعبہ اردو، جامعہ پشاور

 

حوالہ جات 
۱۔        مرزا حامد بیگ۔ اردو افسانے کی روایت، اکادمی ادبیات پاکستان۔ ۱۹۹۱  ص۵۷۷
۲۔        ایضاً   ص ۵۷۹ تا ۶۸۰
۳۔       احمد ندیم قاسمی۔ سیلاب وگرداب، گلوب پبلشرز، لاہور۔ ۱۹۶۱ ص ۱۲۸
۴۔       ایضاً        ص ۱۳۰
۵۔       احمد ندیم قاسمی۔ سناٹا، اساطیر، لاہور گیارہواں ایڈیشن،  ۱۹۹۱ ص ۱۱۲
۶۔        ایضاً  ص ۱۲۲
۷۔       ایضاً  ص ۱۳۶
۸۔       احمد ندیم قاسمی۔ سناٹا، اساطیر، لاہور گیارہواں ایڈیشن،  ۱۹۹۱ ص  ۷۳
۹۔        احمد ندیم قاسمی۔ کپاس کا پھول، اساطیر لاہور۔ ۲۰۰۲ ص ۴۸
۱۰۔       ایضاً   ص ۵۰
۱۱۔       ایضاً  ص ۵۰
۱۲۔       ایضاً  ص ۲۹
۱۳۔      ایضاً   ص ۳۰
۱۴۔      احمد ندیم قاسمی۔ سناٹا، اساطیر، لاہور گیارہواں ایڈیشن،  ۱۹۹۱ ص ۱۶۸
۱۵۔      ایضاً  ص ۱۲۹
۱۶۔       ایضاً  ۱۸۱

 

 

 

اوپر جائیں  |   پرنٹ کیجئےِ
انگریزی ورژن ای میل چیک کریں مرکزی صحفہ پرنٹ پسندیدہ سائٹ بنائیں رابطہ کیجئے www.shahzadahmad.com www.shahzadahmad.com