اقبال کا تصور خودی‘جبروقدر اور حیات بعدالموت
ڈاکٹر رابعہ سرفراز

ABSTRACT
The article is about Iqbal's concept of human ego -his freedom and immortality.Iqbal describes that every act of free human ego creates a new situation and offers opportunities of creative unfolding.He further says that life is one and continuous and time cannot be wholly irrelevant to the development of personality.Heaven and Hell are states not localities.Their descriptions in the Quran are visual represantations of an inner fact. This article is an analytical study of Iqbal's concept regarding the mentioned subject .
اقبال کا تصور خودی‘جبروقدر اور حیات بعدالموت
"The Quran in its simple,forcefull manner emphasizes the individuality and uniquness of man,and has,i think ,a definite view of his destiny as a unity of life.It is consequences of this view of man as a uniqueindividuality which makes it impossible for one individualto bear the burden of another,and entitles him only to what is due to his own personal effort,that the Quran is led to reject the idea of redemption." (1 (
قرآن پاک میں واضح ارشاد ہے کہ انسان کے لیے وہی کچھ ہے جس کے لیے اس نے ذاتی طور سے کوشش کی اور فردِ واحد کسی دوسرے فرد کے اعمال کا ذمہ دارنہیں۔انسان نہ جسم ہے اور نہ صرف روح بلکہ روح اور جسم انسانی وحدت کی دو جہتیں ہیں۔قرآن میں واضح ہے کہ
’’پھر اس کے رب نے اسے برگزیدہ کیا اور اُس کی توبہ قبول کرکے اُسے ہدایت بخشی‘‘ (۲)
انسان کو اس وقت پر غوروفکر کی دعوت بھی دی گئی ہے جب اﷲ نے فرشتوں کو بتایا تھا کہ وہ زمین پر اپنا خلیفہ بنانے والاہے۔
’’اُس وقت کا تصور کرو جب تمھارے رب نے فرشتوں سے کہاتھاکہ مَیں زمین پر ایک خلیفہ بنانے والا ہوں ۔انھوں نے عرض کیا:کیا آپ زمین پر کسی ایسے کو مقرر کرنے والے ہیں جو فسادکرے گا اور خون بہائے گا؟مگر آپ کی حمدوثناکے ساتھ تسبیح اور آپ کے لیے تقدیس تو ہم کر ہی رہے ہیں۔فرمایامَیں جانتاہوں جوکچھ تم نہیں جانتے۔‘‘(۳)
پھر اسی خلافت کو انسان کی آزمائش قراردیا:
’’وہی ہے جس نے تمھیں زمین کا خلیفہ بنایا اور تم میں سے بعض کو بعض کے مقابلہ میں زیادہ بلند درجے دیئے تاکہ جوکچھ تم کو دیاہے اس میں تمھاری آزمائش کرے۔‘‘(۴)
پھرفرمایا:
’’ہم نے اس امانت کو آسمانوں اور زمین اور پہاڑوں کے سامنے پیش کیا تو وہ اُسے اُٹھانے کے لیے تیار نہ ہوئے اور اُس سے ڈرگئے مگر انسان نے اسے اُٹھالیا‘بے شک وہ بڑا ظالم اور جاہل ہے۔‘‘(۵)
یعنی اﷲ نے انسان کو منتخب کررکھاہے اور وہ اپنی خامیوں کے باوجود زمین پر اﷲ کانائب ہے اور اُسے امانت کے طورپرایک آزاد شخصیت سونپی گئی ہے جسے اُس نے اپنے آپ کوخطرے میں ڈال کر قبول کیا۔
بقول اقبال دنیامیں اﷲ کانائب ہونا بہت اچھاہے اور عناصرپر حکمرانی بہت اچھی بات ہے:
نائب حق در جہاں بودن خوش است     
بر عناصر حکمراں بودن خوش است(۶)
خودی اپنا اظہار ذہنی کیفیات کی وحدت کی صورت میں کرتی ہے ۔ذہنی کیفیات کا اجتماع ذہن کہلاتا ہے اور ذہنی کیفیات کی وحدت انفرادیت کی حامل ہوتی ہے ۔ذہنی تصورمکاں خارجی مکاں سے مختلف ہوتا ہے جیسے خواب میں مکاں کا تصور‘عالمِ بیداری کے تصورِ مکاں سے مختلف ہے ۔’’خودی‘‘کازماں داخلی نوعیت کا حامل ہوتاہے۔خودی کی ایک اہم خوبی اس کا ذاتی پہلو ہے جس کی بدولت ہر خودی انفرادیت کی حامل ہوتی ہے۔اس حوالے سے اقبال نے کئی مثالیں پیش کیں مثلاََمیری کوئی خواہش پوری ہو تو اس کی خوشی صرف مجھے ہوگی۔میرے دانت میں درد ہے تو اس کا احساس صرف مجھے ہوگا۔دندان ساز اپنی تمام تر ہمدردی کے باوجود اس کا احساس نہیں کرسکے گا۔یعنی میری خواہشات‘میری خوشی اور میری تکلیف صرف میری ہے۔میرے تمام جذبے ‘فیصلے اور عزائم صرف میری ذات کا حصہ ہیں۔
ڈاکٹر یوسف حسین خاں کے بقول:
’’بقائے نوع کی کوشش فطرت میں ہمیں صاف طورپرنظرآتی ہے ۔گلاب کا پھول مہتا‘دمکتا‘کھلتا‘آس پاس کی فضا کو معطرکرتااورپھرمرجھاکرجس خاک سے اُگاتھااُسی میں مل جاتاہے۔وہ خود تو فنا ہوجاتاہے لیکن اپنے بیجوں سے اپنی نوع کی بقا کا سامان مادی حیثیت سے مہیا کرجاتاہے۔وہی خاک جس میں وہ مل گیا اس کے بیجوں کی پرورش کرکے آئندہ موسم بہار تک انھیں اس قابل بنادیتی ہے کہ اپنی نرم اور نازک ٹہنیوں سے گلاب کا پھول پیدا کر سکیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔فطرت‘حیاتِ انسانی کے نوعی تحفظ و بقا کا اسی طرح اہتمام کرتی ہے  جس طرح حیات نباتی وحیوانی کا۔لیکن خودی اور شعورکے باعث انسانی روح کی بلندیاں نامحدود ہوگئیں چنانچہ انسان میں موت کے بعدبھی انفرادی بقا کی شدید خواہش ہر زمانے میں موجود رہی ہے۔‘‘(۷)
اقبال کی نظرمیں خودی رازِ درونِ حیات بھی ہے اور بیداریٔ کائنات بھی۔اقبال نے اسے ایسے سمندر سے تشبیہہ دی ہے جو ایک بوند پانی میں بندہے۔ازل اس کے پیچھے اورابد اس کے سامنے ہے۔جس کی کوئی حدنہیں۔جو زمانے کے دریامیں بہتے ہوئے اس کی موجوں کے ستم بھی سہتی ہے اورتلاش اور جستجو میں نت نئی راہیں بھی کھوجتی ہے۔جس کے ہاتھوں میں سبک‘سنگِ گراں بن جاتے ہیں اورجس کی ضربوں سے پہاڑریگِ رواں بنتے ہیں۔خودی کی یہ خصوصیت ہے کہ وہ اپنے گوناگوں تجربات سے اپنے آپ کو مستحکم کرتی ہے۔
ہر چیز ہے محوِ خود نمائی
ہر ذرّہ شہیدِ کبریائی
بے ذوقِ نمود زندگی ‘ موت
تعمیرِ خودی میں ہے خدائی
رائی زورِ خودی سے پربت
پربت ضعفِ خودی سے رائی (۸)
اقبال کی رائے میں خودی ہمارے انفرادی احساسات پر مشتمل ہے ۔جب ہم کوئی ارادہ کرتے ہیں‘سوچتے ہیں یا حکم صادر کرتے ہیں تو ہمیں اپنے اعمال سے خودی کا احساس ہوتا ہے۔قرآن پاک میں ہے:
’’وہ آپ سے پوچھتے ہیں روح کیا ہے۔کہو روح میرے رب کی ہدایت (امر)سے آتی ہے مگر تمھیں بہت کم علم ملا ہے۔‘‘(۹)
’’  ’’خلق‘‘ اور’ ’امر‘‘اسی کے ہاتھ میں ہیں‘‘(۱۰)
خلق سے مراد پیداکرنااور امر سے مراد حکم دیناہے۔
’’ہر کوئی اپنے طریقے پر عمل کر رہاہے ‘اب یہ تمھارا رب ہی بہتر جانتاہے کہ سیدھی راہ پر کون ہے۔‘‘ (۱۱)
اس میں کوئی شک نہیں کہاﷲ تعالیٰ کے حکم کے بغیر زمین کا کوئی ذرّہ حرکت نہیں کرتالیکن اقبال کا خیال ہے کہ انسان کے لیے یہ لازم ہوچکا ہے کہ وہ اپنے گردوپیش کی کائنات کی تشکیل کرے ۔کبھی فرد اپنے آپ کو کائنات کی قوتوں سے ہم آہنگ کرتا ہے اور کبھی ان قوتوں کو اپنے مقاصد کے مطابق ڈھالتاہے۔اگرانسان کی طرف سے عملی قدم نہیں اٹھایاجاتااور وہ ترقی کی جانب نہیں بڑھتاتو اُس کی روح پتھر کی مانند ہوجاتی ہے اور وہ ایک مردہ مادہ بن جاتاہے۔اگر انسان اپنے نفس میں وہ مناسب تبدیلیاں پیداکرلے جن پر اس کو قدرت حاصل ہے تو حکمِ الٰہی سے تقدیر کی نوعیت بدل سکتی ہے لیکن یہ تبدیلی علمِ الٰہی میں پہلے سے موجودہوگی۔
پانی کاقطرہ جب حرفِ خودی ازبرکرلیتاہے تواپنی ہستیٔ بے مایہ کوگوہربنادیتاہے۔سبزہ جب اپنی ذت میں اگنے کی قوت پیداکرلیتاہے توسینۂ گلشن کو چاک کر ڈالتاہے۔خودی اپنی نموداوربقا کے لیے آزادی اور عمل کے بے پایاں امکانات کی تلاش میں مصروف رہتی ہے :
قطرہ چوں حرف خودی ازبر کند
ہستی بے مایہ را گوہر کند
سبزہ چوں تابِ دمید از خویش یافت
ہمت او سینہ گلشن شگافت(۱۲)
زندگی کی بقا مقصد سے وابستہ ہے اور مقصدہی زندگی کے لیے بانگ درا کا کام کرتا ہے:
زندگانی را بقا از مدعا ست
کار دانش را درا از مدعا ست(۱۳)
اقبال کی رائے میں فرد کی حقیقی شخصیت عمل کے علاوہ کوئی شے نہیں ہے۔اُس کا تجربہ اُس کے اعمال کا تسلسل ہے اور اس کے اعمال اس طرح ایک دوسرے سے منسلک ہیں کہ کوئی نہ کوئی مقصد ان کی رہنمائی کر رہاہو۔انسان کی اصل حقیقت اس کے اعمال میں پوشیدہ ہے اگر اُسے جاننا ہے تو اس کے رویوں‘فیصلوں‘ارادوں اورمقاصد کی روشنی میں جاننے کی کوشش کریں۔
خودی کے نگہباں کو ہے زہرِناب
وہ ناں جس سے جاتی رہے اس کی آب
وہی ناں ہے اس کے لیے ارجمند
رہے جس سے دنیا میں گردن بلند(۱۴)
ایک سوال زمان و مکاں کی ترتیب میں خودی کی نمو سے متعلق ہے۔اس حوالے سے قرآن فرماتاہے:
’’ہم نے انسان کو مٹی کے جوہر سے تخلیق کیا۔پھر اُسے ایک محفوظ مقام پر ٹپکتی ہوئی بوند کی طرح رکھا۔پھر اُسے لوتھڑے کی شکل دی ۔پھر لوتھڑے کو گوشت بنایا ۔پھر گوشت کی ہڈیاں بنائیں پھر ہڈیوں پرگوشت چڑھایااورپھر اُسے ایک اور ہی شکل میں کھڑا کردیا۔پس بڑا ہی بابرکت ہے اﷲ‘سب خالقوں سے اچھا خالق۔‘‘(۱۵)
روح اور جسم کو دو علیحدہ چیزیں قرار دینا‘ایک دوسرے سے آزاد سمجھنااوریہ خیال کرنا کہ نہ روح جسم پر اثرانداز ہوگی نہ جسم روح پر۔غلط اندازِ نظرہے۔کسی بھی عمل کے دوران میں جسم اور روح ایک ہوتے ہیں۔جب انسان میز سے قلم اٹھاتاہے تو یہ نہیں کہا جاسکتا کہ اس عمل میں جسم کاکتناحصہ ہے اور روح کاکتنا۔جسم کو روح(ذہن)کی عادت یافطرت قرار دیاجاسکتاہے۔خودی جامد شے نہیں بلکہ وہ اپنی تنظیم اور ترتیب خودکرتی ہے۔فطرت کے اثرات قبول کرتی ہے اورفطرت کومتاثرکرتی ہے۔
’’کہہ دو کہ حق تمھارے رب کی طرف سے ہے۔اب جس کا جی چاہے مان لے اور جس کا جی چاہے انکارکردے۔‘‘(۱۶)
’’تم نے بھلائی کی تو وہ تمھارے اپنے ہی لیے بھلائی تھی اور برائی کی تو وہ تمھاری اپنی ذات کے لیے برائی ثابت ہوئی۔‘‘(۱۷)
انسان میں آزادی اور اختیارکی قدرت وقت کے ساتھ بڑھتی اور کم ہوتی رہتی ہے۔’خودی‘آزادی اور اختیار کی قدرت ہے اور اسلام اسے انسانی زندگی کامستقل حصہ بناناپسندکرتاہے۔اس حوالے سے اقبال نے قرآن مجید میں نمازکے اوقات کار کا ذکرکیاہے جن کا مقصد’’خودی محدود‘‘کو’’خودی مطلق‘‘ کے قریب لاناہے۔یعنی اسلام میں عبادات کاایک مقصدمشینی زندگی سے آزادی اور اختیارکی جانب فرار ہے۔مسلمانوں میں کئی صدیوں تک تقدیرپرستی کے روایتی تصورکادوردورہ رہا۔مغربی مصنفین نے اس تصورکو ہماری تذلیل کے لیے استعمال کیا۔اقبال کی رائے میں مسلمانوں کے لیے تقدیرپرستی اس لیے بھی خرابی کا سبب بنی کہ وہ اپنی ہر عادت کے لیے قرآن مجیدکوجوازبناتے تھے۔خواہ قرآن کے معانی ان کی مرضی کے برعکس کیوں نہ ہوتے۔
یہ ہے مقصدِ گردشِ روزگار      
کہ تیری خودی تجھ پہ ہو آشکار(۱۸)
حیات بعد موت کے حوالے سے بحث کرتے ہوئے اقبال فرماتے ہیں کہ نیک و بد کی جزا و سزا دینے کے لیے ضروری ہے کہ موت کے بعد انسان زندہ رہے تاکہ انصاف کے تقاضوں کو پوراکیاجاسکے۔اس مختصر سی زندگی میں انسان اعلیٰ خیر اور مسرت حاصل نہیں کرسکتا۔قرآن میں تقدیر کا جو تصور موجود ہے وہ اخلاقی اور حیاتیاتی دونوں حوالوں سے اہم ہے ۔’’برزخ ‘‘جو موت اور دوبارہ اٹھانے کے درمیان انتظار کی ایک کیفیت ہے ۔اس کا ذکربھی ہے۔آخرت پر ایمان ہر مسلمان پر لازم ہے۔ قرآن مجید میں ہے کہ
’’یہاں تک کہ جب ان میں سے کسی کو موت آجائے گی تو کہنا شروع کرے گا کہ اے میرے رب مجھے اس دنیامیں واپس بھیج دیجیے جسے مَیں چھوڑآیاہوں۔امید ہے کہ اب مَیں نیک عمل کروں گا۔۔۔۔ہرگزنہیں‘یہ تو ایک بات ہے جسے وہ کہہ رہا ہے۔اب اُن سب(مرنے والوں)کے پیچھے برزخ حائل ہے جو حشر کے روز ان کے دوبارہ اٹھائے جانے تک رہے گا۔‘‘(۱۹)
انسان کے ایک حالت سے دوسری حالت میں جانے کے تسلسل کی قسم کھائی گئی ہے:
’’اور قسم کھاتا ہوں چاند کی جب وہ ماہ کامل ہوجاتاہے کہ تمھیں درجہ بدرجہ ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف گزرتے چلے جاناہے۔‘‘(۲۰)
تخلیقِ انسان کے مراحل کو بھی بارہا بیان کیاگیاہے اور بتایاگیاہے کہ اﷲ ہر شے پر قادرہے:
’’کبھی تم نے غور کیا یہ نطفہ جو تم ڈالتے ہو ‘اس سے بچہ تم بناتے ہو یا اسے بنانے والے ہم ہیں؟ہم نے تمھارے درمیان موت کو تقسیم کیاہے(یعنی ہمیں تمھاری موت پر اختیارہے)اور ہم اس سے عاجزنہیں کہ تمھاری شکلیں بدل دیں اورکسی ایسی شکل میں تمھیں پیداکردیں جسے تم نہیں جانتے۔‘‘(۲۱)
پھرارشادہے کہ
’’زمین اور آسمانوں کے اندر جوبھی ہیں سب اس کے حضور بندوں کی حیثیت سے پیش ہوں گے۔وہ سب پر محیط ہے اور اس نے ہر ایک کوگن رکھا ہے۔بروزقیامت سب ایک ایک کرکے اس کے سامنے حاضر ہوں گے۔‘‘(۲۲)
ہو اگر خودنِگر و خودگر و خودگیر خودی
یہ بھی ممکن ہے کہ تُو موت سے بھی مر نہ سکے(۲۳)
خودی ٔمحدود‘خودیٔ مطلق کے سامنے پیش ہو گی اور اپنے اعمال کی ذمہ دارہوگی۔
’’ہر انسان کے مقدر کا طوق ہم نیاس کی گردن میں لٹکارکھا ہے اور قیامت کے دن ہم ایک نوشتہ اس کے لیے نکالیں گے جسے وہ کھلی کتاب کی طرح پائے گا۔ پڑھ اپنا نامۂ اعمال۔آج اپنا حساب لگانے کے لیے توخودہی کافی ہے۔‘‘ (۲۴)
پھر روز قیامت کے بارے میں بتایاگیاہے کہ
’’اور اس روز صور پھونکاجائے گاتو وہ سب جو زمین اور آسمانوں میں ہیں مرکرگرپڑیں گے سوائے ان کے جنھیں اﷲ زندہ رکھناچاہے گا۔‘‘(۲۵)
روح کا علم محسوسات سے بہت آگے ہے اور اس کا تعلق انسان کے قلب سے ہے۔روحانی علم سے وہ مشاہدات اور تجربات ہوتے ہیں جو محض محسوسات سے نہیں ہوتے۔قرآن میں حضور ﷺ کے مشاہدۂ ذات کے بارے میں ارشادہے:
’’نہ اُس کی آنکھ چندھیائی نہ حد سے آگے بڑھی۔‘‘
قرآن میں ہے:
’’کیا انسان نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ وہ یونہی مہمل چھوڑدیاجائے گا؟کیا وہ ایک حقیر پانی کا نطفہ نہ تھاجو(رحم مادرمیں)ٹپکایاجاتاہے؟پھر وہ ایک لوتھڑابنا‘پھر اﷲنے اس کا جسم بنایا اور اس کے اعضادرست کیے ‘پھر اس سے مرد اور عورت کی دو قسمیں بنائیں۔کیا وہ اس پر قادرنہیں ہے کہ مرنے والوں کو پھر سے زندہ کردے۔‘‘(۲۷)
اقبال کی رائے میں انسان اک ایسی ہستی ہے جس کے ارتقامیں ایک طویل مدت صرف ہوئی۔اُسے بے کار شے سمجھ کر ضائع نہیں کیاجاسکتا اور وہ کائنات کے عوامل میں ایک زورآور خودی کی حیثیت سے ضرور شرکت کرے گا۔
بنتے ہیں مری کارگہِ فکر میں انجم
لے اپنے مقدر کے ستارے کو تُو پہچان(۲۸)
ارشاد ربانی ہے:
’’نفسِ انسانی کی قسم ہے جیسا اُس کو(جسماََ)بنایاگیاپھر اُسے برائی سے بچ کر چلنے کی سمجھ الہام کی گئی یقینا فلاح پاگیاجس نے تزکیۂ نفس کیا اور نامراد ہُوا وہ جس نے اُسے دبادیا۔‘‘(۲۹)
تقدیر کے پابند نباتات و جمادات       
مومن فقط احکامِ الٰہی کا ہے پابند(۳۰)
روح اپنے آپ کو ارتقا کی راہ پر ڈال کر عمل کے ذریعے ہلاکت سے محفوظ رکھ سکتی ہے۔
’’وہ بابرکت ذات ہے جس کے ہاتھ میں بادشاہت ہے اور وہ ہر شے پر قادر ہے۔وہی ذات ہے جس نے حیات و موت کوپیداکیاتاکہ تمھیں آزما کر دیکھے کہ کون بہتر عمل کرنے والاہے اور وہ باقوت بھی اور درگزرکرنے والابھی ہے۔‘‘(۳۱)
اقبال کہتے ہیں کہ میری زندگی فانی ہے مجھے جاودانی کردے۔مَیں زمین سے تعلق رکھتاہوں مجھے آسمان والوں میں سے بنادے۔
آنیم من جاودانی کن مرا
از زمینی آسمانی کن مرا(۳۲)
اقبال کی رائے میں انسان کے اعمال اس کی خودی کو مضبوط بھی کرتے ہیں اور ہلاکت کاباعث بھی بنتے ہیں یعنی خودی کی بقا اورفنا انسانی اعمال پر منحصرہے۔اگر خودی اپنے اعمال کی بدولت اپنے اندر اتنا استحکام پیداکرلے کہ موت اسے کوئی نقصان نہ پہنچاسکے توایسی صورت میں موت اس کے لیے درحقیقت ایک راستہ ہے۔اس راستے کو قرآن پاک نے’’برزخ‘‘کے نام سے یادکیاہے۔
’’جب ہم باطنی واردات اور مشاہدات سے رجوع کرتے ہیں تو ان سے بھی یہی مترشح ہوتاہے کہ برزخ نام ہے شعور کی اس حالت کاجس میں زمان و مکان کے متعلق خودی کے اندر کچھ تغیر رونما ہوجاتاہے اور یہ بات کچھ غیراغلب بھی نہیں۔‘‘(۳۳)
’’برزخ‘‘انتظارکی بے عمل کیفیت نہیں ہے بلکہ اس کیفیت میں حقیقت مطلق کے بہت سے نئے پہلوؤں کے انکشافات ہوتے ہیں جن سے مطابقت کے لیے خودی کوشش کرتی ہے اور جو مطابقت پیداکرنے کی کوشش میں ناکام رہتے ہیں وہ اپنی ہستی گنوادیتے ہیں جو سعی وکوشش کا یہ عمل جاری رکھتے ہیں وہ حیات بعدموت حاصل کرلیتے ہیں۔ ڈاکٹرجاویداقبال کے بقول:
’’اقبال جنت اوردوزخ کوکوئی مقام یا جگہ نہیں بلکہ’’ احوال ‘‘سمجھتے ہیں۔یعنی دونوں صورتوں میں انسان کے باطنی احوال وکیفیات کانقشہ اس کی نگاہوں کے سامنے پھرجائے گا۔‘‘(۳۴)
قرآن پاک میں ہے:
’’انسان کہتاہے کیا واقعی جب مَیں مرجاؤں گا توپھر زندہ کرکے نکال لایاجاؤں گا ؟کیااُسے یاد نہیں آتاکہ ہم پہلے اُسے پیداکرچکے ہیں جب وہ کچھ بھی نہیں تھا۔‘‘(۳۵)
مزید یہ کہ:
’’ہم نے تمھارے درمیان موت بانٹ دی اور ہمارے بس سے باہر نہیں کہ تمھاری شکلیں تبدیل کرکے کسی ایسی شکل میں تمھیں پیداکردیں جس کو تم نہیں جانتے۔اپنی پہلی پیدائش کو تم جانتے ہو‘پھر کیوں سبق حاصل نہیں کرتے۔‘‘        (۳۶)
جسمانی طور پر اندھاپن محرومی ہے لیکن اگر کوئی معنوی اعتبار سے اندھاہوتو وہ انتہادرجے کا محروم ہے۔وہ محرومی کے ساتھ ساتھ پابندبھی ہوگا اور اس کی روح آزادی سے آشنانہیں ہوسکے گی ۔جو زندگی میں آزاد ہوں گے انھیں موت کے بعدبھی آزادی نصیب ہوگی اور اس طرح ان کے وجودکا تسلسل برقرار رہے گا۔جسم کی موت درحقیقت ایک نئی زندگی میں قدم رکھنا ہے اور موت زندگی کی بے یقینی کانام ہے۔
قرآن میں ارشاد ہے:
’’کیا جب ہم مر جائیں گے اور خاک ہوجائیں گے(تودوبارہ اٹھائے جائیں گے؟)ایسی واپسی توعقل سے بعید ہے(حالانکہ)زمین ان کے جسم میں سے جو کچھ کھاجاتی ہے وہ سب ہمارے علم میں ہے اورہمارے پاس ایک کتاب ہے جس میں اس کی تفصیل محفوظ ہے۔‘‘(۳۷)
اقبال کی نظرمیں موت ایسا صید ہے جس کی تاک میں بیٹھنے سے انسانی ہستی کا ارتقاجاری رہتاہے۔اقبال بندۂ حق کو شیر اور موت کوآہو قرار دیتے ہیں۔بندۂ حق موت میں زندگی تلاش کرتاہے اورغلام ہر وقت موت کے خوف میں گرفتاررہتاہے جس کے باعث زندگی کی بے مقصدی اس پر حرام ہوجاتی ہے۔روح کی بقاسکون میں نہیں بلکہ فعلیت میں ہے۔موت کے بعد روح ترقی کے راستے پراپنی صلاحیتوں کے مطابق درجات حاصل کرتی ہے۔ اقبال کہتے ہیں:
''Life is one and continuous .Man marches always onward to receive ever freshilluminations from an Infinite Reality which'every moment appears in a new glory'.And the recipient of Divine illumination is not merely a passive recipient.Every act of a free ego creates a new situation,and thus offers further opportunities of creative unfolding.''                     (38 )

ڈاکٹر رابعہ سرفراز۔ استادشعبہ اردو، گورنمنٹ کالج یونیورسٹی فیصل آباد

حوالہ جات
1.        The reconstruction of religious thought in Islam,Allama Muhammad Iqbal,editted by M.Saeed Sheikh,Lahore:Institute of Islamic culture,1986,P76                                          
۲۔قرآن مجید۔سورۃ طہٰ:۱۲۲۔                ۳۔قرآن مجید۔سورۃالبقرہ:۳۰۔
۴۔قرآن مجید۔سورۃالانعام:۱۶۵۔ ۵۔ قرآن مجید۔سورۃ الاحزاب:۷۲۔
۶۔ اقبال‘کلیات اقبال فارسی‘لاہور:شیخ محمد بشیراینڈ سنز‘س ن‘ص۲۸۵۔
۷۔ روحِ اقبال‘ڈاکٹر یوسف حسین خان‘لاہور:القمر انٹرپرائزز‘۱۹۹۶ء‘ص۴۵۵‘۴۵۶۔
۸۔کلیات اقبال(اردو)‘اقبال‘لاہور:اقبال اکادمی پاکستان‘۱۹۹۵ء‘ص۳۸۳۔
۹۔قرآن مجید۔سورۃ بنی اسرائیل:۸۵۔                   ۱۰۔قرآن مجید۔سورۃ الاعراف:۵۴۔
۱۱۔قرآن مجید۔سورۃ بنی اسرائیل:۸۴۔
۱۲۔اقبال‘کلیات اقبال فارسی‘لاہور:شیخ محمد بشیراینڈ سنز‘س ن‘ص۲۳۹۔
۱۳۔اقبال‘کلیات اقبال فارسی‘لاہور:شیخ محمد بشیراینڈ سنز‘س ن‘ص۲۴۱۔
۱۴۔کلیات اقبال(اردو)‘اقبال‘لاہور:اقبال اکادمی پاکستان‘۱۹۹۵ء‘ص۴۵۶۔
۱۵۔قرآن مجید۔سورۃ المومنون:۱۲تا۱۴۔                 ۱۶۔قرآن مجید۔سورۃالکہف:۲۹۔
۱۷۔قرآن مجید۔سورۃ بنی اسرائیل: ۷۔
۱۸۔کلیات اقبال(اردو)‘اقبال‘لاہور:اقبال اکادمی پاکستان‘۱۹۹۵ء‘ص۴۵۷۔
۱۹۔قرآن مجید۔سورۃالمومنون ۹۹‘۱۰۰۔                  ۲۰۔قرآن مجید۔سورۃالانشقاق:۱۸‘۱۹۔
۲۱۔قرآن مجید۔سورۃالواقعہ:۵۸تا۶۱۔                   ۲۲۔قرآن مجید۔سورۃ مریم:۹۳ تا۹۵۔
۲۳۔کلیات اقبال(اردو)‘اقبال‘لاہور:اقبال اکادمی پاکستان‘۱۹۹۵ء‘ص۵۴۳۔
۲۴۔قرآن مجید۔سورۃ بنی اسرائیل ۱۳‘۱۴۔                 ۲۵۔قرآن مجید۔سورۃالدہر:۶۸۔
۲۶۔قرآن مجید۔سورۃالنجم:۱۷۔                         ۲۷۔قرآن مجید۔سورۃالقیٰمہ:۳۶ تا۴۰۔
۲۸۔کلیات اقبال(اردو)‘اقبال‘لاہور:اقبال اکادمی پاکستان‘۱۹۹۵ء‘ص۵۷۴۔
۲۹۔ قرآن مجید۔سورۃ الشمس ۷تا۱۰۔
۳۰۔کلیات اقبال(اردو)‘اقبال‘لاہور:اقبال اکادمی پاکستان‘۱۹۹۵ء‘ص۵۷۸۔
۳۱۔ قرآن مجید۔سورۃالملک:۱‘۲۔
۳۲۔اقبال‘کلیات اقبال فارسی‘لاہور:شیخ محمد بشیراینڈ سنز‘س ن‘ص۸۵۰۔
۳۳۔تشکیل جدیدالٰہیات اسلامیہ‘سید نذیرنیازی‘لاہور:بزمِ اقبال‘۲۰۱۲ء‘ص۱۸۰۔
۳۴۔ خطباتِ اقبال تسہیل وتفہیم‘ڈاکٹرجاویداقبال‘لاہور:اقبال اکادمی پاکستان‘۲۰۰۸ء‘ص۱۳۳۔
۳۵۔قرآن مجید۔سورۃ مریم:۶۶‘۶۷۔                   ۳۶۔قرآن مجید۔سورۃ الواقعہ ۶۰ تا۶۲۔
۳۷۔قرآن مجید۔سورۃ ق:۳‘۴۔
38.      The reconstruction of religious thought in Islam,Allama Muhammad Iqbal,editted by M.Saeed Sheikh,Lahore:Institute of Islamic culture,1986,P98 .

 

 

اوپر جائیں  |   پرنٹ کیجئےِ
انگریزی ورژن ای میل چیک کریں مرکزی صحفہ پرنٹ پسندیدہ سائٹ بنائیں رابطہ کیجئے www.shahzadahmad.com www.shahzadahmad.com