ن۔ م۔ راشد کے فرد پر مشرق اور مغرب کی کشمکش کے اثرات
ڈاکٹرسہیل احمد

ABSTRACT
THE Literatures of the world talks about human societies, cultures and religions, generally. They discuss problems of the individuals and their psyche particularly. Rashid is one of the great poets of Urdu poetry and especially in free verse. In his poetry the collision of east and west could be observed clearly. In this research paper the researcher has discussed about this mental clash which is natural due to the new flow of thoughts from west to east in the twentieth century ,The east resists against it or accept these thoughts is the key point of discussion in this research paper .
ترقی پسند نظم اور جدید نظم میں سیاسی وسماجی افکار کے بیان کی نوعیت مختلف ہے ترقی پسند شاعر اجتماعی نقطہ نظر کے ماتحت براہ راست انداز میں سیاسی و سماجی افکار کی تشکیل کرتے ہیں جب کہ جدید نظم نگار شاعر انسان کا آفاقی تصور ذہن میں رکھتے ہوئے سیاسی وسماجی حالات کے اثرات فرد پر مرتب کرتے ہوئے فرد کی نفسیات اور اس کے احساس شکست کی روشنی میں سیاسی وسماجی افکار پیش کرتے ہیں۔ اس طرح استعمار مخالف رجحانات میں بھی ان کا تصور ترقی پسندوں سے مختلف ہے انہوں نے استعماری ظلم وجبر اور ان کے نافذ کردہ نظام کی بنیادی صورتوں کو فرد کے حوالے سے پیش کیا ہے۔
ن ۔ م راشد کی شاعری کا اگر چہ سیاسیات وسماجیات سے گہرا تعلق ہے لیکن انہوں نے ان افکار کا اظہار فرد کے حوالے سے کیا ہے اور تقسیم کے قبل کے ہندوستان پر استعماری ظلم وجبر اور ان کے نافذ کردہ نظام کی منفی صورتوں کو فرد کی نفسیات اور اس کے احساس شکست کے حوالے سے پیش کیا ہے اور اسی تناظر میں مشرق ومغرب کے مابین ہونے والی کشمکش اور مشرق ومغرب کے مخصوص تصورات کو اجاگر کیا ہے ان کا تصور مشرق ومغرب سیکولر حوالوں سے تشکیل پاتا ہے اور مذہب سے ہٹ کر وہ ان اکائیوں کی تفہیم کرتے ہیں اس لیے ان کا نقطہ نظر اقبال سے مختلف ہے کسی مخصوص جماعت یا نظریے سے منسلک نہ رہنے اور انسان اور اس کے احساسات آزادی فکر کے ساتھ پیش کرنے کے باعث ان کا رویہ ترقی پسندوں سے ہم آہنگ ہونے کے باوجود ان سے الگ ہوجاتا ہے۔
ن ۔ م راشد کی شاعری کا آغاز فرد کے رومانی احساس سے ہوا۔ ان کا ابتدائی فرد بے اطمینانی اور بے سکونی کا شکار ہے اور بے چینی کے ازالے کے لیے وہ پناہ گاہ کی تلا ش میں ہے وہ خیالوں کی بستی ، مناظر فطرت اور حسین وادیوں میں گم ہونے کے خواب دیکھتا ہے اس ابتدائی فرد کے احساسات رومانی فکر سے جڑے ہوئے ہیں اس کے مسائل ابتدائی نظموں میں ذاتی دکھائی دیتے ہیں مگر یہ فرد اپنی ذات کی بے اطمینانی سے ہوتاہوا سماج کی طرف بڑھتا ہے اور اس کے ذاتی دکھ سماج کے دکھوں سے مل جاتے ہیں اور اسے اپنی قوم کی فکر لاحق ہوتی ہے جو مشرق میں زبوں حالی ، زوال پسندی اور ذلت کا شکار ہے یہ قوم شدید بحران میں گھری ہوئی اس حالت تک پہنچ گئی ہے جہاں جینے اور مرنے کے درمیان فاصلہ باقی نہیں رہا۔ راشد کے فرد کی ذات سے اجتماع کی طرف مراجعت ان کے سیاسی و سماجی شعور کو واضح کرتی ہے اور ان کے کلام میں قوم کے سیاسی سماجی زوال ، غربت و افلاس ، ذلت و بے بسی کے خلاف ایک ردعمل پیدا ہوتا ہے جو سامراج دشمن رجحانات کی تشکیل کرتا ہے کیونکہ راشد ان حالات کا ذمہ دار انگریز سامراج کو سمجھتا ہے جس نے پورے مشرق پر اپنا تسلط قائم کرکے انھیں ذلت کی زندگی گزارنے پر مجبور کر دیا ہے۔ راشد کے اسی سیاسی اور سماجی شعور کی وجہ سے انھیں بعض ناقدین نے ترقی پسند شعراء میں شامل کر رکھا ہے۔ ڈاکٹر آفتاب احمد نے راشد کو کئی مقامات پر ترقی پسند شاعرکا خطاب دیا ہے اور لکھا ہے ۔ گردو پیش کی دنیا کے معاشرتی اور سیاسی مسائل سے انہماک ان کی نمایاں خصوصیت ہے جس میں وہ کسی ترقی پسند شاعر سے پیچھے نہیں۔ (۱) ڈاکٹر آفتاب احمد کا خیال ہے کہ ترقی پسند تحریک سے راشد کو اختلاف ضرور تھا کیونکہ وہ مصنفین کی کسی تحریک ، کسی خاص سیاسی نظریے کی پیروی کو مناسب نہیں سمجھتے تھے ۔ ان کے خیال میں شاعر کے لیے ضروری ہے کہ وہ صرف اپنے ویژن کو پیش نظر رکھے ۔ گو ترقی پسند تحریک کے بنیادی تصور ادیب کی سماجی ذمہ داری سے انھیں اختلاف نہیں تھا(۲) ڈاکٹر آفتاب احمد کی یہ بات درست ہے کہ راشد ترقی پسند تحریک کی مخصوص نظریے سے وابستگی کی بنیاد پر اختلاف رکھتے تھے لیکن ادیب کی سماجی ذمہ داری سے انہوں نے کبھی انکار نہیں کیا۔ اس کی گواہی ان کی شاعری بھی دیتی ہے ۔ ڈاکٹر عزیز ابن الحسن نے راشد کے حوالے سے یہ سوال اٹھایا ہے کہ راشد ایک ترقی پسند شاعر تھے یا جدیدیت پسند ۔ انہوں نے راشد کی شاعری میں دونوں تحریکوں کے نقوش تلاش کیے ہیں۔ سیاسی و سماجی مزاج کے حوالے سے انھیں ترقی پسند شاعر قرار دیا ہے اور فنی شعور کے لحاظ سے جدیدیوں میں شمار کیا ہے لیکن ان کی شاعری کی بنیادمیں جماعتی نظریہ سے علیحدگی اور اپنی انفرادیت قائم رکھنے کے رجحان کا خصوصی طور پر ذکر کیا ہے (۳) مظفر علی سید نے وارث علوی کی اس رائے سے اتفاق کیا ہے کہ اشراکیوں سے برابر اختلاف کے باوجود راشد کا نئے جہان کا تصور اتنا ہی مادی اور سیکولر ہے جتنا اشتراکیوں کا( ۴)  فن کے بارے میں راشد کا تصور بھی ترقی پسندوں سے ملتا جلتا تھا وہ ہئیتوں کی تبدیلی کو بڑا کارنامہ نہیں سمجھتے ۔ ان کے نزدیک خیالات میں اجتہاد فن میں اجتہاد سے زیادہ ضروری چیز ہے وہ مواد اور خیالات کی اہمیت کے قائل تھے ۔ اور فن کو فکر کے بیان کرنے کا محض ایک وسیلہ سمجھتے تھے۔ مقصدیت کا یہ تصور ترقی پسندوں کے نقطہ نظر کے قریب ہے ادیب کی سماجی ذمہ داری کا اِحساس ان کی شاعری میں آخری مرحلے تک قائم رہا اسی اِحساس کی وجہ سے وہ خاکسارتحریک میں شامل ہوئے ۔ اور اس تحریک کو مسلمانوں کے لیے نجات کا ایک سبب سمجھتے تھے ۔ ۱۹۳۸ء میں آغا عبدالحمید کے لکھے گئے ایک خط کے متن سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اس تحریک کو مسلمانوں کے لیے نجات کا ایک سبب سمجھتے تھے۔ مگر اس تحریک کے امرانہ طرز عمل کو دیکھ کر اس سے علیحدہ ہو گئے(۵)
راشد کے شعری نظریے میں سماجی ذمہ داری کا احساس شروع سے موجود تھا جس نے ان کی شاعری میں سیاسی و سماجی موضوعات سے رغبت پیدا کی ۔ دراصل راشد کی شاعری کے تخلیقی عروج کا زمانہ دنیا میں استعماری قوتوں کے درمیان کشمکش کا زمانہ تھا ۔ ہندوستان میں سیاسی سطح پرشکست و ریخت کا سلسلہ آخری انتہاؤں تک پہنچ چکا تھا ۔ سامراج ایشیاء اور افریقہ کے پس ماندہ ممالک کے وسائل پرقابض تھا اور اس کی لوٹ کھسوٹ کی پالیسی نے ان ملکوں کی معیشت کو تباہ کر رکھا تھا۔ ہندوستان میں ان کے جبر و تسلط کا نظام اپنے آخری مرحلے میں داخل ہو چکا تھا۔ اور ملک میں استعمار مخالف تحریکیں مضبوط ہو رہی تھیں۔ ہندوستان کی طرح دیگر مشرقی ممالک استعمار کے جبر و تسلط کا شکار تھے۔ راشد نے ہندوستان کے آئینے میں مشرقی ممالک پرہونے والے جبر و ستم کو دیکھا اور مشرق و مغرب کی آویزش کا مطالعہ ایک دانشور کی نظر سے کیا یہی وہ زمانہ تھا جب ان کے پہلے شعری مجموعہ ’’ماوراء‘‘ کی اشاعت ہوئی۔ اور اس میں انہوں نے اپنے سیاسی و سماجی شعور کی بالیدگی کو پیش کیا اور مشرق پرمغرب کے مظالم کا تجزیہ کرتے ہوئے مشرق کو ایک سیاسی وحدت کی صورت میں منقش کیا ۔ مشرق کا ایک تصور دیا۔ جو پس ماندگی ، بے بسی ، بے چارگی اور ذلت کا شکار ہے۔ اور اس کی خامیاں اس کی آزادی کے سلب ہونے کی وجہ بنیں۔
ڈاکٹر آفتاب احمد کے مطابق راشد مشرق کے زوال کا سبب مشرق کی روایات کو قرار دیتے ہیں۔ اس میں بڑی وجہ ماضی سے اہل مشرق کی وابستگی ہے جس نے مشرق کے فرد کو اپنے زمانے کے تقاضوں سے منسلک ہونے نہیں دیا۔ ماضی کا احساس راشد کے شعور کا ایک حصہ ہے۔ راشد کے خیال میں یادِ ماضی کی تصویریں مشرق کی زبوں حالی اور پس ماندگی کے اِحساس کا پرتو ہیں۔ مشرق کی زبوں حالی اور پس ماندگی کا ایک سبب وہ مغرب کی ستم گری کو سمجھتے ہیں لیکن دوسرے اسباب میں مشرق کے قدیم فلسفہ حیات اس کے تصوف ، اس کی درویشی اوہام پرستی اور قدامت پستی کا ذکر کرتے ہیں (۶) ڈاکٹر عقیل احمد صدیقی کے مطابق راشد کے نزدیک مشرق کی اصل خرابی کی جڑ وہ عقیدہ ہے جس کی رو سے انسان کے سارے اعمال و افعال خدا کی مرضی سے طے ہوتے ہیں (۷) ن ۔ م راشد نے مغرب کی مخالفت میں مشرق کا ایک مخصوص تصور پیش کیا ۔ اور مشرق کے تحفظ کی ذمہ داری قبول کی ۔ تاکہ مشرق کو ایک نئی بصیریت عطا کر کے مغرب کے ظلم سے نجات کا سبب تلاش کیا جاسکے ۔ اور مشرق کی بیماریوں کا علاج کرکے اسے زندگی کے نئے تقاضوں سے آراستہ کیا جاسکے۔ راشد کا تصورِ مشرق اقبال اور اس سے ملتی جلتی فکر رکھنے والے شعراء سے مختلف ہے اقبال کی مغرب سے لڑائی صرف سیاسی نہیں تھی بلکہ تہذیبی اور مذہبی بھی تھی۔ راشد کی مغرب سے لڑائی صرف سیاسی اور اقتصادی ہے وہ تہذیبی سطح پر جس نظام کی حمایت کرتے ہیں وہ بڑی حد تک مغرب کا تشکیل کردہ نظام ہے اور مشرق کو اس نظام کا پروردہ بنا کر اسے طاقت و توانائی دینا چاہتے ہیں تاکہ مغرب کے ظلم کا ازالہ کیا جاسکے ۔ انہوں نے اپنی نظم ’’ اجنبی عورت ‘‘ میں مشرق کی انفرادیت جو مذہب اور تہذیب کی بنیاد پر قائم تھی اسے ختم ہوتے دکھایا ہے اورپوری دنیا کو ایک جدید تہذیب میں سمٹتے  ہوئے دکھایا ہے ۔ اجنبی عورت میں لکھتے ہیں۔
ارضِ مشرق ، ایک مبہم خوف سے لرزاں ہوں میں
آج ہم کو جن تمناؤں کی حرمت کے سبب
دشمنوں کا سامنا مغرب کے میدانوں میں ہے
اُن کا مشرق میں نشاں تک بھی نہیں  (۸)
لیکن فتح محمد ملک کا خیال ہے کہ راشد کا مشرق کے خدا سے انکار اور اسے پردہ نسیاں سے وابستہ کرنے کا رجحان دراصل ملائے حزیں پر طنز ہے یہ طرزِ فکر اسلام سے برگشتگی کا نہیں وابستگی کا ثبوت ہے ۔ یہ روایت اقبال کے یہاں بھی موجود ہے(۹)
ڈاکٹر تبسم کاشمیری نے بھی اپنی کتاب ’’ لا=راشد کے ایک مضمون ’’راشد کے تہذیبی لاشعور ‘‘ (۱۰) میں بھی راشد کے ذہن کی ایک کشمکش کا ذکر کیا ہے جو قدیم اور جدید زندگی کے درمیان موجود تھی۔ کیونکہ بظاہر انہوں نے مشرق کی قدیم روایات سے انکار کیا لیکن کردار ، استعارے اور علامتیں اس تہذیب کی قدیم روایات سے اخذ کیں۔
ان تمام باتوں کے احترام کے باوجود حقیقت یہ ہے کہ راشد اپنے اردگرد پھیلی ہوئی نئی زندگی اور اس کے مسائل کا ادراک رکھتے ہیں۔ ان کا خیال تھا کہ مشرق کے افراد کی نجات اس میں ہے کہ وہ پرانی روایات سے زیادہ نئی زندگی کی بصیرت کو سمجھنے کی کوشش کریں اور نئے شعور کی روشنی میں اپنی منزل کا تعین کریں۔ اس طرح وہ اپنے آپ کو مضبوط بھی کر سکتے ہیں اور جس تناسب سے وہ خود کو مستحکم کریں گے اسی تناسب سے مغربی جبر سے نجات حاصل کر پائیں گے ۔ کیونکہ وہ اقبال کے نظریہ طاقت کے حامی تھے اور ان کا بھی یہی خیال تھا کہ ’’ ہے جرمِ ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات‘‘ انہوں نے اپنی بہترین نظموں ’’ شاعر درماندہ‘‘ اور ’’دریچے کے قریب ‘‘ میں مشرق کی جن خامیوں کی طرف اشارہ کیا ہے وہی ان کے خیال میں مغرب کے ظلم و جبر کی بنیاد ہیں۔ ان کاخیال ہے کہ اگر مغرب کے ان مظالم سے نجات حاصل کرنی ہے تو ان خامیوں پرقابو پانا ضرور ی ہے۔ امجد طفیل کے خیال میں راشد نے نظم ’’ شاعر درماندہ ‘‘ میں جس بنیادی مسئلہ کی طرف اشارہ کیا ہے وہ مشرق و مغرب کی آویزش سے متعلق ہے اور اس صورت حال کا تجزیہ کیا ہے جو استعماری رویوں کے باعث شاعر کے باطن میں بحران پیدا کرتی ہے۔ یہ احتجاج ان کے خیال میں خدا کے خلاف نہیں بلکہ زوال اور شکستگی کے خلاف ہے (۱۱) راشد مشرق کی غلامی کے خلاف شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہیں۔ اس غلامی کے اسباب میں مشرق کی بعض خامیوں کا ذکر کرتے ہیں جس نے ترقی کو تنزل میں بدل دیا۔ جس کی بڑی ذمہ داری ملائے حزیں پر عائد کی گئی ہے جو راشد کے کلام میں ایک بڑی علامت ہے اور تین سو سال کی ذلت کا نشان ہے۔ راشد کے نزدیک اسی نام نہاد مذہبی و تہذیبی نظام کی کمزوری نے مشرق کو اس حال تک پہنچایا ہے ۔ راشد نے مشرق کی جس روح کو اس کی خامیوں کے باعث قریب المرگ دکھایا ہے کرشن چندر نے اس کے بارے میں لکھا ہے :
’’اس کے خیال میں ارضِ مشرق کی روح اگر مر نہیں چکی تو قریب ِ مرگ ضرور ہے۔  مشرقی نظام فرسودہ ہو چکا ہے ۔ اس کا مذہب اس کا تمدن اب آخری ہچکیاں لے رہا ہے ۔۔۔۔  راشد سمجھتا ہے کہ اب اس بیمار کے اچھا ہونے کی کوئی امید نہیں۔ اب اسے مر ہی جانا چاہیے۔ راشد کو مشرق کی موت ناگزیر نظرآتی ہے لیکن اسے اس کا سسک سسک کر مرنا بہت ناگوار ہے ۔۔۔ اجتماعی طور پر دریچے کے قریب ارضِ مشرق کی موت کی خواہش کا بہترین اظہار ہے ۔‘‘(۱۲)
لیکن راشد اس موت کو نئی زندگی کا پیش خیمہ سمجھتا ہے اور پرانے نظام کے خاتمے سے نئے نظام کی امید رکھتا ہے ۔ وہ ٹمٹماتی ہوئی خودی کی قندیل سے نئی توقعات وابستہ کرتا ہے۔ یہ توقعات ارضِ شرق کی بیداری کی ہیں جن کے نقوش راشد نے ’’ایران میں اجنبی‘‘ کی نظموں میں پیش کیے ہیں۔ شاعر درماندہ اور ’’دریچے کے قریب ‘‘ میں مشرق کی مفلوک الحالی اور اس پر مغرب کے ظلم کے خلاف نفرت کا اظہار کرتے ہوئے ارض مشرق کی بیداری کی توقعات وابستہ کی ہیں۔
زندگی تیرے لیے بستر و سنجاب و سمور
اور میرے لیے افرنگ کی دریوزہ گری
عاقبت کوشیٔ آبا کے طفیل
میں ہوں درماندہ و بے چارہ ادیب
خستہ ٔ فکرِ معاش
پارۂ نان ِ جویں کے لیے محتاج ہیں ہم
میں ، مرے دوست ، مرے سینکڑوں اربابِ وطن
یعنی افرنگ کے گلزاروں کے پھول
اے مری شمعٔ شبستان ِ وفا
بھول جا میرے لیے
زندگی خواب کی آسودہ فراموشی ہے
تجھے معلوم ہے مشرق کا خداکوئی نہیں
اور اگر ہے ، تو سرا پردۂ نسیان میں ہے
تو مسرت ہے ، مری تو مری بیداری ہے
مجھے آغوش میں لے
دو  انا مل کے جہاں سوز بنیں
اور جس عہد کی ہے تجھ کو دعاؤں میں تلاش
آ پ ہی آپ ہویدا ہو جائے                     (شاعرِ درماندہ ) (۱۳)

                                           اسی مینار کو دیکھ
صبح کے نور سے شاداب سہی
اسی مینار کے سائے تلے کچھ یاد بھی ہے
اپنے بیکار خدا کی مانند
اونگھتا ہے کسی تاریک نہاں خانے میں
ایک افلاس کا مارا ہوا ملائے حزیں
ایک عفریت ۔۔۔ اداس
تین سو سال کی ذلت کا نشاں
ایسی ذلت کہ نہیں جس کا مداوا کوئی
دیکھ بازار میں لوگوں کا ہجوم
اس میں ہر شخص کے سینے کے کسی گوشے میں
ایک دلہن سی بنی بیٹھی ہے
ٹمٹماتی ہوئی ننھی سی خودی کی قندیل
لیکن اتنی بھی توانائی نہیں
بڑھ کے ان میں سے کوئی شعلۂ جوالہ بنے         (دریچے کے قریب ) (۱۴)
راشد ان نظموں میں افرنگ کے استعماری نظام اور اس کے نتائج کا تجزیہ کرتے ہیں ۔ جس نے مشرق کے افراد کے ذہنوں کو جامد کردیا ہے۔ غلامی کے احساس نے توانائی کو زائل کر دیا ہے۔ مجبوری اور محرومی کا یہ احساس جو غلامی اور مشرق کی کمزوری کا نتیجہ ہے کسی مثبت نتیجے کی امید نہیں رکھتے بہتری کی خواہش ان کی دعاؤں میں موجود ہے ۔ آرزو ایک ٹمٹماتی ہوئی قندیل کی صورت میں بھی ابھر رہی ہے۔ جس نے اگلی نظموں میں شعلہ جوالہ کی شکل اختیار کی ہے۔
راشد کی نظم میں مشرق اور مغرب سے متعلق یہ تصورات ان کے تشکیل کردہ فرد کی زبانی پہنچتے ہیں یہ فرد ابتدائی نظموں میں ہی بے چین، افسردہ اور محرومی سے دوچار دکھائی دیتا ہے جس کی وجوہات انفرادی ہیں۔ لیکن اس انفرادی بے چینی میں معاشرے کے سیاسی طور پر ناہموار ڈھانچے سے پیداہونے والی بے چینی مل جاتی ہے اور اس کے انفرادی اِحساسِ محرومی کو اجتماعی دور کی لے ملتی ہے جس سے انفرادی اور اجتماعی دکھوں کی لہریں یکجائی اختیار کرلیتی ہیں اور دکھ دو آتشہ ہو جاتا ہے۔ اجتماعی دکھوں میں سب سے بڑھ کر ہندوستان میں موجود استعماری نظام ، غلامی اور اس نظام میں شامل ظلم و جبر موجود ہے جس کی وجہ سے اس فر د کا ذہن تیزی سے سامراج دشمنی کی طرف منتقل ہوتا ہے۔ یہ تمام بحرانات فرد کی محرومی اور بے چینی میں اضافہ کرتے ہیں جس سے اس کے تناؤ میں شد ت آگئی ہے۔تناؤ کی وجوہات میں انفرادی سے زیادہ اجتماعی صور ت داخل ہو جاتی ہے اور یہ فرد استعماری نظام کے خلاف مزاحمت اختیار کرلیتا ہے اور اپنی بے بسی کا نوحہ رقم کرتا ہے۔ مشرق کی خامیوں پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے مغرب کے استعماری نظام کے ظلم و جبر کا بھی تجزیہ کرتا ہے۔ مغرب کے استعماری نظام میں طلم و جبر اور رنگ و نسل کے امتیاز کی صورتوں کو راشد نے ’’ اجنبی عورت ‘‘ میں ایک انگریز عورت کے توسط سے اجاگر کیا ہے۔ ’’دیوارِ ظلم‘‘ ، اور ’’دیوارِ رنگ ‘‘ دونوں کو مشرق اور مغرب کے درمیان حائل رکاوٹوں کی شکل میں پیش کیا گیاہے۔ ’’دیوارِ رنگ ‘‘ اور ’’دیوارِ ظلم ‘‘ کی علامات کے بارے میں ڈاکٹر تبسم کاشمیری لکھتے ہیں:
’’اجنبی عورت ‘‘ میں ’’دیوارِ ظلم ‘‘ اور ’’دیوارِ رنگ ‘‘ مشرق و مغرب کے تہذیبی ، سماجی اور سیاسی فرق کے تصورات کی علامتیں ہیں۔ اہل مغرب نے اپنی برتری کے لیے اقوام کو غلام بنایا ۔ ’’دیوارِ ظلم ‘‘ اس تصور کی علامت ہے ’’دیوارِ رنگ ‘‘ اس نسلی فرق کا اظہار کرتی ہے جو یورپ کے سامراجی ذہن کا حصہ ہے ۔‘‘(۱۵)
جبکہ ڈاکٹر فخر الحق نوری کا خیال ہے :
’’انہوں نے ہندوستان کے باشندوں اور ان بدیسی حکمرانوں میں پائی جانے والی رنگ و نسل کی تفریق کو مشرق و مغرب کی آویزش کے طور پر بہت جلد محسوس کر لیا تھا ۔ ماوراء کی نظم ’’ اجنبی عورت‘‘ میں ’’دیوارِ رنگ‘‘ اور ’’دیوارِ ظلم ‘‘ کے حوالے سے انہوں نے اسی کشاکش اور تفریق کا تذکرہ کیا تھا ۔‘‘(۱۶)
میراجی نے اس نظم کے حوالے سے لکھا ہے :
’’اجنبی عورت کے خوابوں کا رومان، جو نظم کے شروع میں ایک انفرادی چیز تھا ۔ نظم کے آخر میں پہنچ کر اجتماعی حیثیت اختیار کر جاتا ہے۔ آغاز میں شاید صرف اسی کی ذات ایک آرام کی جگہ تلاش کرنا چاہتی تھی لیکن انجام تک پہنچ کر اس کے خوابوں کارومان ایک نئی چیز بن جاتا ہے ایک توقع ، جو مغرب کے رہنے والوں کو مشرق سے تھی اور اب بھی ہے لیکن اس کے پورا ہونے میں اب مشرق کی طرف سے ایک جھجک دکھائی دے رہی ہے۔ مشرق اور مغرب کے درمیان ایک دیوار ظلم حائل ہے ایک دیوارِ رنگ حائل ہے ۔‘‘(۱۷)
راشد نے اس نظم میں مشرق اور مغرب کے درمیان اتحاد کی خواہش کا اظہار کرتے ہوئے ان کے درمیان حائل رکاوٹوں کا ذکر کیا ہے جس میں خاص طور پر دیوار رنگ اور دیوارِ ظلم کا تذکرہ کیا گیاہے اور ان علامات کے ذریعے انگریزوں کے نسلی امتیاز اور ظلم و جبرکو بیان کیاگیا ہے۔ اور ان کے ہاتھوں مشرق کی تباہی کا نوحہ لکھا گیا ہے۔ جس میں خیابان ، چمن اور لالہ زار کو اجنبی کے دستِ غارت گر سے نوحہ خواں دکھایا گیا ہے:
ایشیاء کے دُور افتادہ شبستانوں میں بھی
میرے خوابوں کا کوئی روماں نہیں
کاش اِک دیوار ظلم
میرے ان کے درمیاں حائل نہ ہو
یہ عماراتِ قدیم
یہ خیاباں ، یہ چمن یہ لالہ زار
چاندنی میں نوحہ جواں
اجنبی کے دستِ غارت گر سے ہیں
کاش اک’’دیوار رنگ‘‘
میرے ان کے درمیان حائل نہ ہو             (۱۸)
راشد کے فرد کے ذہنی تناؤ کا اس دور میں بڑا سبب مغرب اور مشرق کے درمیان تصادم ہے جس نے ایک ایسا استعماری نظام قائم کیاہے جو اہلِ مشرق کی ذلت اور بے بسی کا سبب بنا ہے ۔ لہٰذا یہ فرد غلامی ، شکست اور بے بسی کے حصاروں میں گھرا ہے۔  اس کے مسائل انفرادی بھی ہیں اور اجتماعی بھی ۔ یہ ان مسائل کو دیکھ سکتا ہے ان کے خلاف احتجاج بھی کر سکتا ہے ۔ لیکن ان کا کوئی  حل نہیں دریافت کر سکتا ۔ اس لیے اس کے سامنے تین راہیں کھلی ہیں۔ فرار ، انتقام اور خود کشی اور یہ کیفیات ماوراء کی نظموں ’’رقص‘‘ ، ’’ شرابی ‘‘ ، ’’انتقام ‘‘ اور ’’خود کشی ‘‘ میں ظاہر ہوتی ہیں اس میں انتشار کی وجوہات میں انگریز استعمار کی غلامی ، جبراور ظلم کا واضح طورپر ذکر کیاگیا ہے۔ یہ فرد کبھی رقاصہ کی بانہوں میں فرار حاصل کرتا ہے کیونکہ اس میں زندگی کا سامنا کرنے کی جرات نہیں کبھی شراب کے نشے میں شرابور ہوتا ہے۔ نشے کے عالم میں بھی غلامی کا احساس اس کے ذہن میں کانٹا بن کر کھٹکتا رہتا ہے۔ غلامی اور استعمار کے جبر کی خلش نشہ کی حالت میں بھی اسے لاحق رہتی ہے ۔
آج پھر جی بھر کے پی آیا ہوں میں
دیکھتے ہی تیری آنکھیں شعلہ ساماں ہو گئیں
شکر کر اے جاں کہ میں
ہوں درِ افرنگ کا ادنیٰ غلام
صدر اعظم یعنی دریوزہ گراعظم نہیں
غم سے مر جاتی نہ تو
آج پی آتا جو میں
جامِ رنگیں کی بجائے
بے کسوں اور ناتوانوں کا لہو                    (شرابی) (۱۹)
یہ فرد کبھی انتقام لیتا ہے ’’انتقام ‘‘ میں اس کی شکست خوردگی بیماری کی حد تک پہنچ جاتی ہے۔ اجنبی عورت کے جسم سے انتقام لینے کی یہ روش جو اس نظم میں بیان کی گئی ہے وہ بے بسی اور شکست خوردگی کی آخری منزل ہے اور ایک مجبور اور بے بس انسان کی ذہنیت کو بیان کرتی ہے ۔ جس کے پاس اپنی تسکین کی کوئی تعمیری راہ باقی نہیں رہ گئی اور اس کی شکست خوردگی اسے انتقام کی اس منزل پر لے آتی ہے جہاں آکر بے بسی کی تمام راہیں ختم ہو جاتی ہیں۔ ڈاکٹر وزیر آغا نے غیر ملکی غلبے کے ساتھ تخلیق ہونے والی شاعری میں راشد کی شاعری کو نئے انداز کی شاعری قرار دیا ہے۔ جو اکبر اور اقبال کی طرح صرف غیر ملکی تسلط کی مذمت نہیں کرتی بلکہ ایک باغی سپاہی کی طرح اپنی قوم پر ہونے والے ظلم کا انتقام بھی لیتی ہے۔ ڈاکٹر وزیر آغا کے خیال میں ان کے انتقام کا طریق عجیب ہے اسے راشد کے فرد کی بے اطمینانی کی روشنی میں سمجھا جاسکتا ہے (۲۰) راشد نے نظم ’’ انتقام ‘‘ کے ابتدائی حصے میں ماحول کی جو تصویر کشی کی ہے اس کے بارے میں ڈاکٹر آفتاب احمد نے لکھا ہے :
’’بظاہر تو یہ بند ایک فرنگی شبستاں کا نقشہ ہے لیکن دراصل اس میں انتقام لینے والے کی نفسیاتی تصویر کشی بھی موجود ہے۔ اس کو اگر کچھ یاد آرہا ہے تو فقط شبستان کا فرنگی ماحول ۔ کیونکہ دراصل یہی اس کے انتقام کا ہدف ہے۔ اسے اجنبی عورت کے برہنہ جسم کی کوئی تفصیل یاد نہیں۔‘‘(۲۱)
یہ انتقام راشد کے فرد کی ذہنی حالت کو بیان کرتا ہے جو غلامی میں رہنے کے باعث پیدا ہوئی ہے اور جس پر انگریزوں کی ظالمانہ کا روائیوں کے اثرات ثبت ہیں اسے کسی جنسی خلفشار کا نتیجہ قرار نہیں دیا جاسکتا ۔ امجد طفیل نے اس نظم کے حوالے سے مختلف تنقیدی رویوں کا ذکر کیا ہے جن میں بعض ناقدین نے اسے جنس سے وابستہ کرکے شاعر کو نفسیاتی سطح پر بیمار قرار دیا ہے اور اسے شدید نوعیت کی جنس پرستی سے تعبیرکیا ہے اور بعض نے اسے مغربی دشمنی کا شاخسانہ سمجھا ہے ۔ امجد طفیل نے اس سلسلے میں ڈاکٹر ریاض احمد کی تنقید کو متوازن قرار دیا ہے جس میں اس انتقام کو مفتوح کے فاتح پر نفسیاتی غلبہ کی ایک صورت قرار دیا گیا ہے(۲۲) راشد کا یہ انتقا م جنسی بیماری کا سبب نہیں بلکہ غلام قوم کے ایک فرد کا نفسیاتی ردعمل ہے جو شدید قسم کی محکومیت کے باعث پیدا ہوا ہے ۔ اس کا اظہار خود نظم کے متن سے ہوتا ہے :
اس کا چہرہ اس کے خدوخال یاد آتے نہیں
اک شبستاں یاد ہے
اِک برہنہ جسم آتشداں کے پاس
فرش پر قالین ، قالینوں پہ سیج
دھات اور پتھر کے بت
گوشۂ دیوار میں ہنستے ہوئے
اور آتشداں میں انگاروں کا شور
ان بتوں کی بے حسی پر خشمگیں
اُجلی اُجلی، اونچی دیواروں پہ عکس
اُن فرنگی حاکموں کی یادگار
جس کی تلواروں نے رکھا تھا یہاں
سنگِ بنیادِ فرنگ
اس کا چہرہ اس کے خدوخال یاد آتے نہیں
اک برہنہ جسم اب تک یاد ہے
اجنبی عورت کا جسم
میرے ہونٹوں نے لیا تھا رات بھر
جس سے اربابِ وطن کی بے بسی کا انتقام         (۲۳)
راشد کا یہ فرد  فرار  اور انتقام کے مرحلوں سے گزرتا ہوا اپنی آخری منزل میں داخل ہوتا ہے۔ یہ آخری منزل ’’خود کشی ‘‘ پر تمام ہوتی ہے۔ تیرگیاں چاروں طرف پھیلی دکھائی دیتی ہیں۔ زندگی کی تلخیاں اس کے سامنے بے نقاب ہو چکی ہیں جس میں انفرادی اور اجتماعی دونوں حوالے موجود ہیں۔ اس نظم میں خود کشی کی اجتماعی وجوہات ہیں جن کا معاشرے سے گہرا تعلق ہے اس میں استعماری نظام ، غلامی کے احساس ، غلامی کے نتائج اور غلامانہ نظام کی جبریہ صورت حال جیسے امور کو فراموش نہیں کیا جاسکتا ۔ میراجی نے اس نظم کی ساری لفظیات اور تلازمات کو کلرک کے کردار تک محدود کرکے اس کی معنویت کو محدود تر کر دیا ہے۔ اس نظم کو ماوراء کی پچھلی نظموں اور اس کے اجتماعی تصورات سے منسلک کرکے پڑھنے اور سمجھنے کی ضرورت ہے۔ اس نظم میں جس فرد کے خدوخال واضح کیے گئے ہیں وہ انتقام ، شرابی ، رقص جیسی نظموں کے کردار سے مختلف نہیں اس کے بھی وہی مسائل ہیں جو ان نظموں میں تشکیل دئیے گئے فرد کے تھے خود کشی میں فرد کا اضطراب قدیم اور جدید اقدار کے درمیان کشمکش کو ظاہر کرتا ہے۔ ڈاکٹر تبسم کاشمیری کے مطابق اس نظم میں ’’دیوار‘‘ پرانی تہذیبی قدروں اور نئے عہد سے پیدا ہونے والے المیہ تصورات کی علامت ہے (۲۴) نئے عہد کے المیہ تصورات میں نوآبادیاتی عہد میں پیدا ہونے والے وہ المیے مرکزی اہمیت رکھتے ہیں جنہوں نے استعماری نظام کی کوکھ سے جنم لیا ہے۔
ماوراء میں راشد کے استعمار مخالف رجحانات اس کے تشکیل کردہ فرد کی زبانی ہم تک پہنچتے ہیں ۔ جو انفرادی اور اجتماعی سطح پر خاص قسم کے بحرانات سے دوچار ہے اس کی انفرادی محرومیوں میں اس کی اپنی شکست و ریخت اور جذبات کی نیم پختگی بھی شامل ہے لیکن اس کی تشکیل میں اجتماعی ماحول کا بھی ہاتھ ہے جس نے اجتماعی مسائل کو جنم دیا ہے اور ان اجتماعی مسائل میں سب سے بڑا مسئلہ مشرق کی نااہلی اور اس پر مغربی استعمار کے تسلط ،ظلم اور جبر کا ہے جس نے اس فرد کو بے سکوں کر دیا ہے ۔ وہ استعماری نظام سے نجات کی خواہش رکھتا ہے ۔ لیکن اس سے نجات کے لیے کوئی عملی راستہ اختیار کرنے کی صلاحیت اس میں موجود نہیں۔نتیجہ فراری رجحان کے تحت نفسیاتی طور پر تسکین کی راہیں تلاش کرتا ہے جو فرار ، انتقام اور خود کشی کی صورت میں سامنے آٹی ہیں۔ ماوراء میں مغربی استعمار کے خلاف مزاحمت کی لے خاصی بلند ہے۔ لیکن اس کی نوعیت عملی کم اور تصوراتی زیادہ ہے۔ مغربی استعمار کے خلاف عملی اور منطقی سطح کی مزاحمت جو ایک نیا راستہ دریافت کرتی ہے اور مشرق کے سامنے مغرب کے خلاف مزاحمت کا ایک نیا رخ سامنے لاتی ہے وہ ’’ایران میں اجنبی ‘‘ میں سامنے آتا ہے۔
راشد نے اپنی ابتدائی دو کتابوں ’’ ماوراء ‘‘ اور ’’ایران میں اجنبی‘ ‘ میں مغربی استعمار ، ان کے توسیع پسندانہ عزائم  اور ظلم و جبر پر کھل کر لکھا ہے اور ماوراء سے ایران میں اجنبی تک فرد کے ذہن کی توسیع کو ارتقائی مراحل سے گزار کر پیش کیا ہے لیکن ان ارتقائی مراحل میں ہر مقام پر ان کے خیالات میں بے باکی اور جرات مندی کے عناصر ملتے ہیں ۔ اسی بنا پر ڈاکٹر وزیر آغا نے ان کی شاعری کو ’’بغاوت کی ایک مثال‘‘ قرار دیا ہے اور مغربی استعمار کے خلاف راشد کے ردعمل کو جرات مندانہ قدم تحریر کیا ہے اور انھیں ایک بڑے قوم پرست شاعر کا خطاب دیا ہے جس کے عمل کا دائرہ ماوراء سے ایران میں اجنبی تک وسیع تر ہوتا گیا ۔ اور ایران میں اجنبی میں انہوں نے ماوراء کی نسبت پورے ایشیاء پر مغربی تسلط کی مخالفت کی ۔(۲۵)
’’ایران میں اجنبی ‘‘ میں راشد کے انسان میں کئی قسم کی تبدیلیاں پید اہوئیں ۔ ایک تو راشد نے ماوراء کی نسبت استعمار کے خلاف مزاحمت کے سلسلے میں اپنا دائرہ وسیع تر کیا اور ماوراء میں مغربی استعمار کے تسلط کا زاویہ ہندوستان تک محدود تھا۔ ایران میں اجنبی میں یہ وسیع تر ہوتا ہوا پورے ایشیاء تک پھیل گیا اور پورے ایشیاء پر انہوں نے استعمار کے تسلط کی مخالفت کی ۔ دوسری تبدیلی یہ پیدا ہوئی کہ ماوراء کا انسان ذہنی خلفشار کا شکار تھا۔ وہ استعمار کے تسلط کی مخالفت کرتا تھا۔ مگر اس مخالفت کا کھل کر اظہار کرکے اس کا مناسب حل تلاش کرنے کی صلاحیت اس میں موجود نہیں تھی۔ ایران میں اجنبی میں تذبذب اور کشمکش کی کیفیت ختم ہوتی اور استعمار کے طلم سے نجات کا راستہ اس نے قوت عمل میں تلاش کیا جس کی ابتداء زنجیر نظم سے ہوتی ہے ’’ایران میں اجنبی ‘‘  کی ان نظموں کی تخلیق کا زمانہ بیسویں صدی کی چوتھی دہائی کا زمانہ ہے اور اس دور کا آغاز بقول مظفر علی سید ۲۵  اگست ۱۹۴۱ء کو اس وقت ہوا جب امریکہ ، روس اور برطانیہ کی افواج ایران کے شمال اور جنوب اور مشرق و مغرب کی طرف سے بیک وقت داخل ہوئیں ۔ تاکہ ایران پر حملہ آور ہو کر جرمن فوج کو آگے بڑھنے سے روکا جائے اور ایک مشرقی محاذ کھول کر اسے گھیرے میں لیا جاسکے ۔ ایران کا قصور اس سلسلے میں بقول راشد صرف اتنا نہیں تھا کہ وہ راستے میں پڑتا ہے ۔ وہ ایک کمزور مسلمان ملک تھا جس کا حکمران اتحادیوں سے تعاون کے بجائے اپنی غیر جانبدارانہ حیثیت برقرار رکھنے اور طرفین جنگ کے ساتھ برابری کی سطح قائم رکھنے پرمصر تھا۔(۲۶)
اس دور میں جو دوسری جنگ عظیم کا اہم ترین دور ہے ایران کو غیر جانبدارانہ نہیں رہنے دیا گیا ۔ اتحادیوں نے اپنی افواج یہاں داخل کیں اور ایران مغربی تسلط کا شکار ہوا ۔ اسے ظلم و جبر اور غلامی کا شکار بنایاگیا۔ جسے راشد نے وضاحت کے ساتھ بیان کیا مگر راشد کا المیہ یہ تھا کہ مغربی استعمار کے ظلم و ستم کے خلاف آواز اٹھانے والا فنکار خود اس نظام کا حصہ تھا اور اتحادیوں کا نمائندہ بن کر ایران میں موجود تھا۔ مظفر علی سید نے راشد کے قیام ایران (۴۶۔۱۹۴۴ء) کے تجربات و مشاہدات پر مبنی نظموں کی تخلیق کے بارے میں راشد کے جس بیان کا حوالہ دیا ہے۔ اس سے راشد کی احساس محرومی ظاہر ہوتی ہے جو ایک طرف بر عظیم کا باشندہ ہونے اور دوسری طرف استعماری فوج کے فرد ہونے کی وجہ سے پیدا ہوا ہے (۲۷) وارث علوی کے مطابق راشد کی شاعری کشمکش اور الجھنوں کی شاعری ہے۔ کیونکہ ان کی سامرج مخالف شاعری میں سامراج کے ساتھ ذات سے جنگ بھی شامل ہے۔ اس لیے کہ جب آزادی کی جنگ جاری تھی تووہ برطانوی فوج کا ملازم تھا وہ جنگ آزادی کا سپاہی بننے کے بجائے سامراج کا سپاہی بن گیا(۲۸)  وارث علوی نے ’’ایران میں اجنبی ‘‘  کی نظموں میں اس کشمکش کے اثرات نمایاں کیے ہیں۔ راشد نے اس کشمکش میں رہتے ہوئے سامراج کی مخالفت کئی سطحوں پر کی ہے۔ پہلی سطح کا تعلق ایران کی سیاسیات سے ہے جس پر راشد نے اعتراضات اٹھائے ہیں۔ اور اس پر سامراجی اثرات مرتب ہوتے دکھائے ہیں۔ ڈاکٹر ثمینہ شکیل نے راشد کی نظم ’’ کیمیا گر ‘‘ کو پہلوی خاندان کی شاہ خرچیوں ، مظالم اور جور و ستم کی تصویر کشی قراردیا ہے (۲۹) مگر اس کے ساتھ ساتھ نظم میں مغربی استعمار کی توسیع پسندی اور استعماری عمل کی طرف اشارہ بھی کیا گیا ہے۔  راشدنے اپنی نظم ’’ وزیر چنیں‘‘ میں ایران کی سیاست میں بدعنوانی ، نااہلی اور ناعاقبت اندیشی جیسی برائیوں کا ذکر کیاہے۔ سیاست پر بیرونی اثرات بھی دکھائے ہیں۔ ڈاکٹر تبسم کاشمیری کے مطابق ’’وزیر چنیں‘‘ میں وزیر کا کردار درباری نظام اور اس سیاست کی علامت ہے جس نے نو آبادیاتی طاقتوں کو قدم جمانے اور لوٹ کھسوٹ سے مقامی وسائل پر قابض ہونے کی دعوت دی (۳۰) راشد ایرانی سیاست پر استعماری پالیسیوں کے اثرات دکھاتے ہیں بعض نظموں میں کسی کردار کا خاکہ کھینچتے ہوئے انہوں نے مغربی استعمار کے ظلم کو بیان کیا ہے اور بتایا ہے کہ انگریزوں نے محکوم ملکوں کی آبادی پرکون سے ظلم روا رکھے ۔ ’’مارِ سیاہ ‘‘ میں یاسمیں کا کردار تخلیق کرکے استعمار کی وحشت ، بربریت اور جنسی استحصال کی کہانی مرتب کی ۔ وہ مقام دیکھیں جہاں یاسمیں اجنبی سے کہتی ہے :
آج کے بعد تم یاسمن کو نہیں پاسکو گے
کہ مارِ سیہ بن کے اک اجنبی نے اسے ڈس لیا ہے (۳۱)
راشد نے بعض نظموں میں ایرانی سیاسیات کا ذکر کرتے ہوئے ضمناً استعمار کے کردار کو واضح کیا ہے اور بعض نظموں میں سرسری انداز میں ان کے ظلم کو بیان کیا ہے ایسی نظموں کی نوعیت تاثراتی ہے۔
’’ایران میں اجنبی ‘‘ کی نظموں کی دوسری سطح وہ ہے جہاں راشد نے کھل کر مغربی سامراج کے ظلم ان کی اقتصادی پالیسیوں اور ان کے توسیع پسندانہ عزائم کی مخالفت کی ہے اور ایران کے افراد کوجنھیں راشد نے ایشیاء کا نمائندہ قرار دیا ہے ۔ بیدار ہونے کی دعوت دی ہے۔ ایشیاء کے تحفظ کی ذمہ داری سونپی ہے اور ایشیاء کے اتحاد کا تصور پیش کیا ہے ۔
راشد نے کئی نظموں میں مغربی سامراج کی توسیع پسندانہ پالیسیوں ، ان کے ظلم و جبر اور اقتصادی لوٹ کھسوٹ کا نقشہ کھینچا ہے ۔ اور اس میں کسی جماعت سے وفاداری کا اظہار کرنے کے بجائے غیر جانبداری سے مسئلہ کا تجزیہ کیا ہے ۔ ڈاکٹر فخر الحق نوری کے مطابق راشد نے برطانوی استعمار کے ساتھ ساتھ دوسری اتحادی قوتوں ( روس اور امریکہ ) کی ہوس زرگری و ملک گیری کو بھی موضوع بنایا ہے۔ ایران میں ان تینوں قوتوں کے غلبہ کا ذکر ’’کیمیا گر‘‘ میں کیا۔’’دست ِ ستمگر‘‘ میں فرنگیوں کے ساتھ ساتھ روسیوں کے خصوصاً ایرانی عورتوں پر کیے گئے مظالم کی نشاندہی کی(۳۲)
راشد نے دوسری جنگ عظیم کے دوران ہونے والے مظالم کی کہانی تحریر کرتے ہوئے روسیوں کو ترقی پسندوں کی طرح معاف نہیں کیا اور ان کے بارے میں بہت اچھا نہیں لکھا ۔ دیگر استعماری قوتوں کے ساتھ روسی استعمار کا ذکر نظم’’تیل کے مسافر‘‘ میں بھی کیا ہے۔ راشد نے ’’تیل کے مسافر‘‘ دوسری جنگ عظیم کے دوران اس وقت لکھی جب ایران پر برطانوی ، امریکی اور روسی فوجوں کا تسلط تھا ۔ اس نظم میں بقول فتح محمد ملک راشد نے استعمار کے سامراجی عزائم اور ایشیاء پر ان کے تسلط کی مذمت کی اور ان کے خلاف اتحاد کی ضرورت پر زور دیا (۳۳) ڈاکٹر تبسم کاشمیری نے اپنے مضمون راشد کی شاعری کے داستانی عناصر میں ’’ایران میں اجنبی ‘‘ کی نظم ’’تیل کے مسافر‘‘ کا خصوصی طور پر ذکر کیا ہے یہ نظم ان کے خیال میں سامراجی تاجروں کی داستان ہے ۔ جو مشرقِ وسطی کے تیل کے ذخیروں کی سرزمین پر ڈیرہ ڈال رہے ہیں۔ ڈاکٹر تبسم کاشمیری نے اس نظم کو راشد کی اچھی نظموں میں شمار کیا ہے جو بین الاقوامی سامراجیت پر راشد کی گہری نظر اور بصیرت کا ثبوت فراہم کرتی ہے (۳۴) راشد نے ایران کو مغربی تسلط کے خطرہ سے آگاہ کیا۔ راشد نے یہاں کے وسائل کی لوٹ کھسوٹ سے متعلق خطرات سے بھی ایران کو متنبہ کیا انہوں نے تیل کے مسافروں کے روپ میں چھپے ہوئے لٹیروں سے ایران کو خبردار کیا ۔ جو راشد کے یہاں بڑی بلیغ علامت ہے۔ استعمار کی اقتصادی لوٹ کھسوٹ کے رویے کو بیان کرکے ایران کی موجودہ صورت حال کا موازنہ راشد نے اپنے ملک کی سیاسی صورت حال سے کرکے انھیں انہی خطرات سے باخبر کیا ہے جس سے ہندوستان گزر رہاتھا۔ دونوں ملکوں کی صورت حال کو یکساں دکھا کر ایشیائی اتحاد کا تصور پیش کیا ہے:
بخارا سمرقند کو بھول جاؤ
اب اپنے درخشندہ شہروں کی
طہران و مشہد کے سقف و در وبام کی فکر کر لو
ان اونچے درخشندہ شہروں کی
کوتہ فصیلوں کو مضبو ط کر لو
ہر اک برج و بار و پر اپنے نگہبان چڑھا دو
کہ باہر فصیلوں کے نیچے
کئی دن سے رہزن ہیں خیمہ فگن
تیل کے بوڑھے سوداگروں کے لبادے پہن کر
وہ کل رات یا آج کی رات کی تیرگی میں
چلے آئیں گے بن کے مہماں
تمہارے گھروں میں
وہ دعوت کی شب جام و مینا لنڈھائیں گے
ناچیں گے گائیں گے
مگر پو پٹھے گی
تو پلکوں سے کھوددو گے خود اپنے مردوں کی قبریں
بساطِ ضیافت کی خاکستر سوختہ کے کنارے
بہاؤ گے آنسو            (۳۵)
راشد نے ایران پر مغربی تسلط کی مخالفت کی اور ایران پر غارت گر نوآبادیاتی تسلط کے اثرات دکھاتے ہوئے ایران کی سرزمین کو ویران ہوتے دکھایا ہے جو دراصل فرنگی استعمار کی لوٹ کھسوٹ ظلم و استبداد کی طرف اشارہ کرتا ہے ۔ ایران کی ویرانی اور فرنگی استعمار کی لوٹ کھسوٹ کا منظر سبا ویران میں پیش کیا گیا ہے۔ عقیل احمد صدیقی نے اس نظم پربحث کرتے ہوئے سلیمان جسے اس نظم میں بری حالت میں پیش کیاگیا ہے ایشیائی حکمرانوں کی موجودہ حالت کی علامت قرار دیا ہے (۳۶)
ڈاکٹر تبسم کاشمیری نے سبا ویراں کو بھرپور علامتی نظم قرار دیا ہے ان کے خیال میں سلیمان اور سبا ویراں ایسی تاریخی علامتیں ہیں جن سے عظمت اور شوکت کا تصور وابستہ ہے مگر انھیں زوال اور بے بسی کے عالم میں دکھایا گیا ہے اس بے بسی کی وجہ وہ زوال ہے جو نوآبادیاتی نظام کی وجہ سے اس سر زمین پر طاری ہوچکا ہے ۔ اور جس کے اثرات ابھی تک اس زمین پر ہیں۔ اس نظم میں غیر ملکی استعماریت کے خلاف جو ردعمل دکھایا گیا ہے اس حوالے سے ڈاکٹر تبسم کاشمیری لکھتے ہیں:
’’اس کا پس منظر جنگ عظیم دوم کے بعد کا ایران ہے جو سیاسی و ملکی انحطاط کے سبب غیر ملکی استعماریت کا شکار ہوگیا ہے لہٰذا ’’غارت گر‘‘ نو آبادیاتی طاقتوں کی علامت ہے جنہوں نے ایران کو لوٹ کر برباد کر دیاتھا ۔‘‘(۳۷)
راشدنے اس نظم میں تاریخی ادوار کی عظیم ترین شخصیت کا انتخاب کرکے انہیں بدترین حالت میں دکھایا ہے ۔ اور اس بدحالی کی وجہ غارت گری نو آبادیاتی نظام کے اثرات اور اہلِ مشرق کے منفی رویوں کو قرار دیا ہے اور غارت گر نوآباد کاروں کا ذکر کرکے محکومیت کے خلاف ردعمل کا اظہار کیا ہے جسے اس نظم میں واضح طور پر محسوس کیا جاسکتا ہے :
سلیماں سر بزانو اور سبا ویراں
سبا ویراں ، سبا آسیب کا مسکن
سبا آلام کا انبار ِ بے پایاں
سبا ویراں کہ اب تک اس زمیں پر ہیں
کسی عیار کے غارتگروں کے نقش پا باقی
سبا باقی نہ ماہروئے سبا باقی   (۳۸)
راشد مغرب کی استعماری قوتوں کی مخالفت کرتے ہوئے ایشیاء پر ان کے تسلط کی مذمت کرتے ہیں ۔ اور ایشیاء کے افراد کو محکومی کے خلاف بیداری کا درس دیتے ہیں۔ محکومیت کے خلاف ردعمل ان کی نظم ’’ زنجیر‘‘ میں اپنی پوری معنویت کے ساتھ ابھر ا ہے ۔ اور غلامی کی زنجیر میں لرزش پیدا ہوتے دکھائی گئی ہے ۔ جو غلامی کے خلاف ابھرنے والی بیداری کی علامت ہے۔ میرا جی نے زنجیر نظم کی تشریح و توضیح کرتے ہوئے اس میں غلامی کے خلاف ردعمل کا ذکر کیا ہے(۳۹)
ڈاکٹر تبسم کاشمیری نے ’’زنجیر ‘‘ کو نئی آگاہی کی علامت قرار دیا ہے جو جنوبی ایشیاء کے افق پر نمودار ہو چکی ہے( ۴۰)  ڈاکٹر آفتاب احمد کے خیال میں زنجیر میں ظلم پروردہ غلاموں کے لیے پیغام انقلاب کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے :
’’یاسیت اور تلخی کی اس لہر کے ساتھ ساتھ راشد کے ہاں ایک اور لہر بھی ابھرتی  ڈوبتی نظر آتی ہے ۔۔۔ ’’زنجیر‘‘ سے اس کی ابتداء ہوتی ہے ۔۔۔ یہ ایک موہوم امید کی لہر ہے جو کسی نظریہ سے وابستہ نہیں بلکہ محض اس خیال سے وابستہ ہے کہ انسانوں کی انا کبھی نہ کبھی ضرور بیدار ہوگی۔‘‘(۴۱)
ن۔ م راشد نے ’’زنجیر‘‘ میں ایشیائی اقوام کی بیداری کا خواب دیکھا ہے ۔ بیداری کا احساس زنجیر میں پیدا ہونے والی لرزش سے نمایاں ہوا۔ جس سے راشد نے یہ امیدیں وابستہ کی ہیں کہ ایک دن انسان کی انا ضرور بیدار ہوگی۔ اور وہ مسلسل غلامی سے نجات حاصل کرے گا۔
گوشۂ زنجیر میں
اِک نئی جنبش ہویدا ہوچلی
ہر جگہ پھرسینۂ نخچیر میں
اک نیا ارماں ، نئی امید پیدا ہو چلی
حجلۂ سمیں سے تو بھی پیلۂ ریشم نکل
شکر ہے دنبالۂ زنجیر میں
اک نئی جنبش ، نئی لرزش ہویدا ہو چلی
کوہساروں ، ریگ زاروں سے صدا آنے لگی  (۴۲)
مغربی استعمار کی غلامی سے پیدا ہونے والے مسائل سے نکلنے کا واحد راستہ مغرب کی غلامی سے آزادی حاصل کرنے کی واحد راہ راشد کے نزدیک اقوام ایشیاء کا اتحاد ہے ۔ راشد نے ’’ایران میں اجنبی ‘‘ کی نظموں میں استعماری عزائم ، ان کی توسیع پسندی ، اقتصادی لوٹ مار اور ظلم و جبر کا ذکر کیا ہے اور بتایا ہے کہ غلامی کی اس چکی میں پورا ایشیاء پس رہا ہے اور اس سے نجات کا واحد راستہ ایشیائی اتحاد میں مضمر ہے اس لیے راشد نے ایران میں اجنبی کی نظموں میں اہلِ مشرق کی کمزوریوں اور اہلِ مغرب کے ظلم و جبر پر مبنی پالیسی کا ذکر کرتے ہوئے اہل ایشیاء کو بیدار ہونے اور باہم متحد ہونے کی دعوت دی ہے ۔
’’ایران میں اجنبی ‘‘میں راشد نے ایشیاء کو ایک وحدت کی شکل میں دیکھا ہے ۔ وحدت کا یہ تصور مغرب کے ظلم و ستم کے باعث پیدا ہوا ہے۔ یہ استعمار کی غلامی کا ردعمل ہے جس نے ایشیاء کو وحدت کا خواب دکھایا ہے۔ ’’ایران میں اجنبی‘‘ کی کئی نظموں میں مغربی اقوام کے مظالم کا ذکر کرتے ہوئے اتحاد کی ضرورت کو محسوس کیا گیاہے۔ راشد نے اپنی طویل نظم’’ایران میں اجنبی ‘‘ کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے لکھا تھا کہ جنگ کے زمانے میں ایران کو دیکھ کر یہ اِحساس شدید تر ہوگیا تھا کہ کیسے ہم ایشیائی تاریخی اور جغرافیائی اعتبار سے ایک ہی زنجیر میں بندھے ہوئے ہیں اور وہ زنجیر فرنگی کی ’’رہزنی‘‘ نے پیدا کر دی ہے (۴۳) راشد نے مشرقی اتحاد کی بنیاد افرنگی ظلم و استبداد پر رکھی ہے اور اس کا اظہار ’’ایران میں اجنبی ‘‘ کے قطعہ ’’من و سلویٰ‘‘میں کیا ہے ۔
بس ایک زنجیر
ایک ہی آہنی کمندِ عظیم
پھیلی ہوئی ہے
مشرق کے اِک کنارے سے دوسرے تک
مرے وطن سے ترے وطن تک
بس ایک ہی عنکبوت کا جال ہے کہ جس میں
ہم ایشیائی اسیر ہو کر تڑپ رہے ہیں (۴۴)
ڈاکٹر آفتاب احمد کے مطابق ایران میں اجنبی میں مشرق اور مغرب کی آویزش کا احساس شدید تر ہوگیا تھا اور اس احساس کو راشد نے تیرہ قطعوں کی اس ناتمام نظم میں جس سے اس مجموعہ نے نام پایا ہے بیان کیا ہے (۴۵) امجد طفیل نے بھی تیرہ قطعات کی نظم کو عالمی استعمار کے خلاف ایک بلند فکری لے سے تعبیر کیا ہے ۔(۴۶)
راشد نے ایران میں اجنبی میں پورے ایشیاء پر مغرب کے تسلط کو واضح کیا ۔اور اس کے ردعمل میں ایشیاء کی وحدت کا تصور پیش کیا اور ارضِ مشرق کو بیداری کی دعوت دی ۔ انہوں نے استعمار کے ظلم اور توسیع پسندی کے خلاف نظم ’’ زنجیر‘‘ میں ایک حرکت پیدا ہوتے دکھائی جو غلامی کی زنجیر توڑنے کا احساس پیدا کرتی ہے اور رات کے سکوت کو توڑنے ، سلاسل کو ریزہ ریزہ کرنے اور ظلمات کو چیرنے پر آمادہ کرتی ہے۔ راشد کا خیال ہے کہ مغربی استعمار کے ظلم کی زنجیر ایشیائی اتحاد سے کمزور پڑ سکتی ہے ’’نارسائی ‘‘ میں مغربی اقوام کے مظالم سے نجات کی راہ ایشیائی اتحاد کے خواب میں پنہاں دکھائی گئی ہے۔ ’’تیل کے مسافر‘‘ میں بھی استعماری مظالم کی نشاندہی کرتے ہوئے ایشیائی اتحاد کی ضرورت پر زور دیا گیاہے۔ اس نظم میں بقول صاحبزادہ احمد ندیم شاعر نے استعماری خطرات اور فریب کاریوں سے آگاہ کیا ہے(۴۷) مغربی استعمار کے مظالم کے خلاف مزاحمت اور اس کے ردعمل میں ایشیائی وحدت کی خواہش جن نظموں میں ظاہر ہوتی ہے اس میں اہم ترین نظم’’تماشہ گہہ لالہ و زار ‘‘ ہے جو ’’ایران میں اجنبی ‘‘ کے عنوان کے تحت لکھے گئے قطعات کا آخری قطعہ ہے جس پر ایک موضوع کا خاتمہ ہوتا ہے۔ اس نظم میں شاعر کا اِحساسِ غم اپنی انتہائی سطح پر پہنچ چکا ہے۔ وہ بظاہر تہران کے لالہ زار میں بیٹھے ہوئے تھیٹر دیکھ رہے ہیں لیکن درحقیقت ان کا دل عرب و عجم کے غموں کا شمار کررہا ہے۔ فتح محمد ملک کے مطابق ’’تماشہ گہ لالہ زار ‘‘ ایران کے ماضی کی شان و شوکت کے لٹ جانے اور قدیم تہذیب کے زوال کی نوحہ خوانی پر غور و فکر سے شروع ہو کر نئے آدمی کے خواب پر ختم ہو جاتی ہے(۴۸)
راشد ایشیاء کے افراد کی نجات ماضی کے خوابوں میں تلاش نہیں کرتے بلکہ آدم نو کے خوابوں کو مرکز نگاہ سمجھتے ہیں جس سے نیا ایشیاء تعمیر ہو سکے ۔ راشد عرب و عجم کے غموں کا شمار کرتے ہوئے اس کا حل ایشیاء کی وحدت اور بیداری میں تلاش کرتے ہیں اہل مشرق کو ان کی خامیوں کا احساس دلا کر بیداری کی روح پھونکتے ہیں اور آدم ِ نو کے خواب تخلیق کرتے ہیں جو نئے ایشیاء کی تعمیر میں ممدو معاون ثابت ہو سکیں ۔ اس نئے آدم کا خواب ’’تماشہ گہہ لالہ و زار ‘‘ کے آخر میں نمایاں ہوتا ہے ۔
’’ایران میں اجنبی ‘‘ کی نظموں میں ایک طرف ایشیاء کی بدحالی کانقشہ مرتب کیاگیا ہے اور اس کی وجوہات میں اہلِ مشرق کی خامیوں اور مغربی اقوام کی چیرہ دستیوں کا ذکر کیاگیاہے اور ان مسائل کا حل ایشیاء کی وحدت اور ایشیائی اقوا م کے اتحاد میں مضمر دکھایا گیاہے ۔ جو یورپی یونین کی طرز کا ایک اتحادی تصور ہے جس میں راشد مشرقی اقوام کی نجات تلاش کرتے ہیں۔ راشد نے مشرقی اقوام کے مسائل کا جو ادراک کیا ہے اور ان کا جو حل تجویز کیا ہے وہ بڑا منطقی اور ٹھوس عقلی بنیادوں پر قائم ہے ۔ جس کی وضاحت ان کی نظموں سے ہوتی ہے ۔
میں کرتارہا ہند و ایران کی باتیں
اور اب عہد حاضر ضحاک سے
رستگاری کا رستہ یہی ہے
کہ ہم ایک ہو جائیں ، ہم ایشیائی
وہ زنجیر ، جس کے سرے سے بندھے تھے کبھی ہم
وہ اب سست پڑنے لگی ہے
تو آؤ کہ ہے وقت کا یہ تقاضا
کہ ہم ایک ہو جائیں ، ہم ایشیائی  (نارسائی) (۴۹)

                     مرے ہاتھ میں ہاتھ دو
مرے ہاتھ میں ہاتھ دو
کہ دیکھی ہیں میں نے
ہمالہ و الوند کی چوٹیوں پر انا کی شعاعیں
انہیں سے وہ خورشید پھوٹے گا آخر
بخارا سمرقند بھی سالہا سال سے
جس کی حسرت کے دریوزہ گر ہیں   (تیل کے مسافر)(۵۰)

                                تماشہ گہہ لالہ زار
’’تیاتر‘‘ پہ میری نگاہیں جمی تھیں
مرے کان ’’موزیک‘‘ کے زیر و بم پر لگے تھے
مگر میرا دل پھر بھی کرتا رہا تھا
عرب اور عجم کے شمار
تماشہ گہہ لالہ زار
مگر اب ہمارے نئے خواب کا بوس ماضی نہیں ہیں
ہمارے نئے خواب ہیں آدم نو کے خواب
جہانِ تگ و دو کے خواب
نئی بستیاں اور نئے شہر یار
تماشہ گہ لالہ زار       (۵۱)
ن۔ م راشد کی شاعری میں مشرق اور مغرب کے درمیان کشمکش کی یہ صورت، مشرق ومغرب کے مخصوص تصورات ایک نتیجے تک پہنچتے ہیں جو ایشیاء کے اتحاد اور اہل مشرق کی بیداری کا نتیجہ ہے جو راشد کے خیال میں غلامی اور استعماری ظلم وستم سے مشرق کو نجات بھی دلاسکتا ہے اور ان کا ایک الگ تشخص بھی قائم کرسکتا ہے یہی عمل آگے جاکر دنیا میں ایک آفاقی انسان کی بنیاد رکھے گا (جسے راشد نے لا= انسان اور گماں کا ممکن کی نظموں میں پیش کیا ہے ) اور دنیا میں امن ومساوات کی روایات کو تشکیل دے گا۔ راشد کے مشرق اور مغرب کے حوالے سے پیش کیے گئے ان تصورات کی موجودہ حالات میں اہمیت بڑھ گئی ہے جب ایشائی اقوام کو ایسے ہی کسی حل کی تلاش ہے جو راشد نے پیش کیا ہے اس سے راشد کی شاعری کی اہمیت، ہمہ گیری اور آفاقیت عیا ں ہوتی ہے۔

ڈاکٹرسہیل احمد۔ اسسٹنٹ پروفیسر، شعبہ اردو، جامعہ پشاور
حوالہ جات
۱۔        ڈاکٹر آفتاب احمد ، ن ۔ م راشد شاعر اور شخص، مکتبہ دانیال کراچی۔ س ن            ص: ۶۱
۲۔         ایضاً                                       ص: ۸۳
۳۔       ڈاکٹر عزیز ابن الحسن ، راشد کے دیباچے ، چند اشارات ، مشمولہ ، کس دھنک سے ، مرے رنگ آئے مرتبہ: ڈاکٹر تحسین فراقی، ڈاکٹر ضیاالحسن، شعبہ اردو اورینٹل کالج لاہور۔ ۲۰۱۰  ص: ۲۷۷
۴۔       مظفر علی سید ،راشد اور ایران ، مشمولہ کس دھنک سے، مرے رنگ آئے           ص: ۳۷۔۱۳۶
۵۔       ڈاکٹر ضیاء الحسن ، راشد کا سفرِ حیات مشمولہ کس دھنک سے  ص: ۱۹۔۱۸
۶۔         ڈاکٹر آفتاب احمد ، ن ۔ م راشد شاعر اور شخص ص: ۶۷۔۶۶
۷۔       ڈاکٹر عقیل احمد صدیقی ، جدید اردو نظم نظریہ و عمل، ایجوکیشنل بک ہاؤس علی گڑھ۔ ۱۹۹۰  ص: ۲۰۱
۸۔        ن ۔ م راشد ، مارواء ، مکتبہ اردو لاہور۔ بار سوم  ۱۹۸۸ ص: ۱۱۸
۹۔        فتح محمد ملک ، ن۔م راشد ، سیاست اور شاعری ، دوست پبلی کیشنز ، اسلام آباد۔ ۲۰۱۰ ص: ۲۵
۱۰۔       ڈاکٹر تبسم کاشمیری ، لا =راشد ، نگارشات لاہور۔ ۱۹۹۴       ص: ۲۴۔۹
۱۱۔       امجد طفیل، ن ۔م۔  راشد کی شاعری  اور استعماری صورتحال مشمولہ کس دھنک سے،       ص :۱۰۷
۱۲۔        کرشن چندر ، تعارف ، ماوراء          ص: ۱۲،۱۰
۱۳۔      ماوراء                           ص: ۰۴۔۱۰۳
۱۴۔      ایضاً                             ص: ۷۔۱۰۶
۱۵۔      ڈاکٹر تبسم کاشمیری ، لا=راشد       ص: ۱۱۳
۱۶۔       ڈاکٹر فخر الحق نوری ، راشد کی شاعری کے سیاسی ابعاد مشمولہ معیار، شمارہ ۵، تحقیقی و تنقیدی مجلہ ، ۵ ، بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی، اسلام آباد۔ جنوری تا جون ۲۰۱۱  ص: ۳۰۴
۱۷۔      میراجی ، اجنبی عورت ، تجزیہ مشمولہ ، شبیہ ، جلد ۱۹،  شمارہ ۱۔۴، خوشاب، جنوری تا دسمبر ۲۰۱۰  ص: ۲۳
۱۸۔      ماورا                            ص: ۱۱۸۔۱۱۷
۱۹۔       ایضاً                            ص: ۱۱۴۔۱۱۳
۲۰۔      ڈاکٹر وزیر آغا ، نظم جدید کی کروٹیں ، ادبی دنیا لاہور۔  س ن  ص: ۷۰
۲۱۔        ڈاکٹر آفتاب احمد ، ن ۔ م راشد ، شاعر اور شخص     ص: ۴۵
۲۲۔       امجد طفیل ، ن ۔م راشد کی شاعری اور استعماری صورت حال مشمولہ کس دھنک سے        ص: ۰۸۔۱۰۷
۲۳۔       ماورا                             ص: ۱۶۔۱۱۵
۲۴۔      ڈاکٹر تبسم کاشمیری ، لا=راشد       ص: ۱۱۴
۲۵۔      ڈاکٹر وزیر آغا ، نظم جدید کی کروٹیں   ص: ۷۲
۲۶۔      مظفر علی سید ،راشد اور ایران ، مشمولہ کس دھنک سے مرے رنگ آئے،  ص: ۱۳۳
۲۷۔      ایضاً                            ص: ۱۳۱
۲۸۔      وارث علوی ، ن ۔ م راشد کی شاعری ، مشمولہ کس دھنک سے مرے رنگ آئے، ص: ۱۵۹
۲۹۔      ڈاکٹر ثمینہ شکیل ، ن ۔ م راشد اور نیمایوشیج جدید شاعری کے مشترکہ موضوعات کا تقابلی مطالعہ ، مشمولہ کس دھنک سے مرے رنگ آئے۔              ص :۲۵۷
۳۰۔      ڈاکٹر تبسم کاشمیری ، راشد کی شاعری کے داستانی عناصر ، مشمولہ معیار ۷، جنوری تا جون ۲۰۱۲  ص: ۰۹۔۳۰۸
۳۱۔      ن ۔ م راشد ، ایران میں اجنبی ، گوشہ ادب لاہور۔ ۱۹۵۷  ص: ۶۷
۳۲۔      ڈاکٹر محمد فخر الحق نوری ، راشد کی شاعری کے سیاسی ابعاد ، مشمولہ معیار  ۵           ص: ۰۹۔۳۰۸
۳۳۔      فتح محمد ملک ، ن ۔ م راشد ، سیاست اور شاعری                ص: ۶۰۔۵۹
۳۴۔      ڈاکٹر تبسم کاشمیری ، راشد کی شاعری کے داستانی عناصر مشمولہ ، معیار ص: ۸۶۔۴۸۵
۳۵۔      ایران میں اجنبی        ص: ۸۶۔۸۵
۳۶۔      ڈاکٹر عقیل احمد صدیقی ، جدید اردو نظم نظریہ و عمل                      ص: ۹۶۔۹۵
۳۷۔     ڈاکٹر تبسم کاشمیری ، لا=راشد                             ص: ۹۶۔۹۵
۳۸۔      ایران میں اجنبی                                        ص: ۳۱۔۱۳۰
۳۹۔      میراجی ، زنجیر ،  تجزیہ ، مشمولہ شبیہ                          ص: ۳۵۔۳۴
۴۰۔      ڈاکٹر تبسم کاشمیری ،لا=راشد                            ص: ۹۴
۴۱۔      ڈاکٹر آفتاب احمد، ن۔ م۔ راشد ، شاعر اور شخص              ص: ۶۲
۴۲۔      ایران میں اجنبی                                        ص: ۰۴۔۱۰۳
۴۳۔      ن۔ م راشد ، ایک مصاحبہ ، مشمولہ  لا=انسان ، المثال پبلشرز لاہور۔ ۱۹۶۹  ص: ۱۶
۴۴۔      ایضاً       ایران میں اجنبی                              ص: ۴۰۔۳۹
۴۵۔      ڈاکٹر آفتاب احمد ، ن ۔ م راشد شاعراور شخص                 ص: ۶۶۔۶۵
۴۶۔      امجد طفیل ، ن ۔ م راشد کی شاعری اور استعماری صورت حال مشمولہ کس دھنک سے مرے رنگ آئے ، ص: ۱۱۰
۴۷۔     صاحبزادہ احمد ندیم ، تیل کے مسافر ، تجزیہ شبیہ                ص: ۱۴۷
۴۸۔      فتح محمد ملک ، ن ۔ م راشد سیاست اور شاعری                 ص: ۵۸
۴۹۔      ایران میں اجنبی                                        ص: ۵۱۔۵۰
۵۰۔      ایضاً                                       ص: ۸۸۔۸۷
۵۱        ایضاً                                       ص: ۱۰۰۔۹۹،۹۷

 

 

اوپر جائیں  |   پرنٹ کیجئےِ
انگریزی ورژن ای میل چیک کریں مرکزی صحفہ پرنٹ پسندیدہ سائٹ بنائیں رابطہ کیجئے www.shahzadahmad.com www.shahzadahmad.com