اُردو اصولِ تحقیق :پہلی اجتماعی کاوِش
ڈاکٹرمطاہرشاہ

ABSTRACT
The discipline of research evolution and methodology started in the late 20th century in Urdu language & litrature. In initial period it has got many successes and devolopment in this field proved very helpful for the urdu litrature. In May 1966 the Anjuman-e-Asateza Urdu Jamiat-e-Hind, Delhi Conference held witch stranthanth the foundation of the research in Urdu language & litrature. It was the first collective effort also. This research paper deals with the efforts of the said conference regarding urdu research. The significants demands to publicize the whole effort of this conference, to highlight the importence of the initial period of research mthodology in urdu .

           بہت سے علمائے ادب اُن تذکروں کو اردو تحقیق کا نقطہ آغاز تسلیم کرتے ہیں جو اٹھارویں صدی میں پہلے فارسی اور پھراردو میں بھی لکھے جانے لگے۔ تذکروں کے بعد محمد حسین آزاد کی آبِ حیات اس روایت میں نسبتاً جدید تر کوشش تھی جو کمزور تحقیقی نمونہ ہونے کے باوجود اہمیت رکھتی ہے۔اس کے بعد سرسید اور اُن کے نامور رفقائے کار حالی، شبلی، وغیرہ نے اردو تحقیق کی اس روایت کو مضبوط کرنا شروع کیا ۔بعد میں مولوی عبدالحق،حافط محمود شیرانی اور قاضی عبدالودود جیسے بزرگوں نے اردو تحقیق کو استحکام بخشا۔ان میں سے کچھ نے شعوری اور کچھ نے لاشعوری طور پر اس اہم پودے(اردوتحقیق) کی آبیاری کی۔چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ تحقیق کے موجودہ معیارتک رسائی انھی بزرگوں کی مرہونِ منت ہے۔
جہاں تک اصولیاتِ تحقیق کا تعلق ہے تو یہ روایت بھی اردو کی عمومی تحقیق سے جڑی ہوئی نظرآتی ہے۔ابتدائی تذکروں کو چھوڑ کے کہ جن میں تحقیق کا معیار انتہائی کمزور ہے اور نہ ہونے کے برابر ہے، سرسید دور اور اس کے بعد کے محققین کے ہاں بڑی حد تک ہمیں تحقیقی اصولوں کی پیروی  نظرآتی ہے۔ اس دور میں جو بھی کارنامے پیش ہوئے وہ واضح طور پر تحقیق کے جدیدتر اصولوں سے واقفیت کا پتہ دیتے ہیں۔تاہم باقاعدہ تحقیقی اصولوں کی تشکیل وتدوین اور اشاعت و فروغ کی طرف کافی عرصے بعدتوجہ دی جانے لگی۔چنانچہ آزادی کے بعد بیسویں صدی کے نصف آخر میں ایسی تحریریں منظرعام پرآنے لگی جن میں اصولیاتِ تحقیق پربحث ملتی ہے۔
یہاں یہ بات بھی قابلِ ذکرہے کہ اس روایت کی ہلکی سی داغ بیل ۱۹۲۲ء میں اس وقت پڑچکی تھی جب حافظ محمود شیرانی اپنی تحقیقات پیش کر رہے تھے۔ حافظ محمود شیرانی کے ایک مختصرمضمون ’’شہادتِ کلام ‘‘کو اس روایت کا نقطۂ آغاز(۱)تسلیم کیا جاسکتاہے جو دراصل اُن کے ایک طویل مقالے ’’یوسف و زلیخائے فردوسی‘‘ کا ذیلی حصّہ ہے،جس میں تحقیق کے اُصولوں سے پہلی مرتبہ مختصربحث ملتی ہے۔انہوں نے اِس تحریرمیں تحقیق میں داخلی شہادت کی اہمیت پر روشنی ڈالی ہے اور ادیب کی انفرادیت پربھی زور دیاہے۔ 
اس تحریرکے بعد آزادی ہندکے بعدتک اس ضمن میں کوئی اور تحریردستیاب نہیں ہوتی۔شاید اس کی بنیادی وجہ تحریکِ آزادی سے حصولِ آزادی تک کا وہ عبوری دورہے جس میں پورا ہندوستان شورش اور افراتفری کی زد میں تھا۔ آزادی کے بعد جب حالات معمول پر آنے لگے تواردواصول تحقیق کی روایت دوبارہ شروع ہوئی۔ اور اس کی رفتار میں روزبروز اضافہ بھی ہونے لگا۔چنانچہ ۱۹۶۶ء تک چند ایک اہم مضامین ہمیں دستیاب ہوتے ہیں جن سے اس روایت کی تشکیل ہوئی۔تاہم یہ سب انفرادی کاوشیں تھیں۔اس سلسلے میں پہلی اجتماعی کوشش ۱۹۶۶ء میں جا کے منظرعام پرآئی جب دہلی میں ایک کانفرنس منعقدکی گئی۔جس کے مقالات بعد میں ’’مقالات انجمن اساتذہ اردوجامعاتِ ہند‘‘کے نام سے شائع ہوئے۔
’’مقالات‘ انجمنِ اساتذہ اردو جامعاتِ ہند‘‘ دہلی کانفرنس پرمشتمل وہ اہم دستاویزہے جو تحقیق کے حوالے سے برصغیرپاک و ہند میں پیش رفت کا درجہ رکھتی ہے۔مقالات کایہ مجموعہ دراصل اُس کانفرنس کے مشمولات کے حوالے سے ہے جو دہلی میں مئی ۱۹۶۶ء کو منعقد ہوئی اور جس میں ہندوستان کے کالجوں اور یونیورسٹیوں کے اساتذہ کے علاوہ اہل قلم اور دیگر نامور ریسرچ سکالرز نے حصہ لیا اور اپنے مقالا ت پیش کیے۔
یہ کتاب کانفرنس کے اُن چار پہلوؤں سے تعلق رکھتی ہے جنھیں اس کانفرنس میں ِمحوری نکتہ ہائے نظر کی حیثیت حاصل تھی۔اس کانفرنس میں مو ضوعات زیرِبحث یہ تھے :
۰  شعبۂ اوّل۔۔۔۔۔اردو کے تعلیمی مسائل
۰  شعبۂ دوم۔۔۔۔۔نصاب کے مسائل
۰  شعبۂ سوم۔۔۔۔۔اردو تحقیق کے مسائل
۰  شعبہ چہارم۔۔۔۔موجودہ ہندوستانی سماج میں اردواستاد کا منصب
بحیثیت مجموعی یہ چاروں پہلو ہندوستان کی درس گاہوں خصوصاً جامعات کے تدریسی نظام کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہیںـــ اور تدریس۔ ۔۔تعلیم۔۔۔ نصابات۔۔۔استاد کامنصب۔۔۔اور تحقیق کے حوالے سے اہم ہے۔اس کانفرنس میں پڑھے جا نے والے مقا لا ت جب مئی ۱۹۶۶ ء کو چھپ کر کتا بی شکل میں سا منے آئے تواس کی ا ہمیت کا اندازہ دور بیٹھے ہو ئے اُ ن سکا لرز اور اسا تذہ کو بھی پہنچا جو بوجوہ کا نفرنس میں شر کت تو نہ کر سکے تھے مگراب اُس کی کاروائی دیکھ کراندازہ لگا رہے تھے۔ ہندوستان کے علاوہ مقالات پرمشتمل یہ کتاب پاکستان کے سکالرز کے لیے بھی مہمیزثابت ہوئی اور پہلی بار تحقیق کے موضوع کی اہمیت کا اندازہ ہوا۔اس کتاب کو اس حوالے سے اوّلیت کا فخرحاصل ہے کہ اس میں پہلی بار نامور اساتذہ نے اس موضوع پر اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ان اساتذہ؍ سکالرز کے نام اور مقالات کے عنوانات درجہ ذیل ہیں:
۰  یونیورسٹیوں میں اردو ریسرچ کے مسائل                  پروفیسر گیان چند جین
۰  اردو تحقیق کے مسائل                                پروفیسر حسرت سہروردی
۰  اردو تحقیق کے مسائل ْ                                ڈاکٹر رضی الدین احمد
۰  ارتقائے اردو کی تحقیق اور اردوتھیٹر میوزیم کا قیام          ڈاکٹر عبدالعلیم نامی
۰  اردو میں تحقیق اور اس کے کچھ مسائل                   محترمہ نگہت فرید
۰  قدیم دواوین کی ترتیب کے مسائل            ڈاکٹر تنویراحمد علوی
۰  اردو تحقیق اور حقائق                                  ڈاکٹر خلیق انجم
۰  اردو تحقیق کے مسائل                                ڈاکٹر فضل حق کامل قریشی
یہ مقالات ہمارے لیے اس لیے اہم ہیں کہ یہ تحقیق کے حوالے سے ہیں اور اِن میں اردو تحقیق کے مسائل اور اصولوں کی بحث موجود ہے۔واضح ہو کہ یہ کانفرنس بحیثیتِ مجموعی تعلیم کے حوالے سے تھی اور اس کا مرکزی موضوع تحقیق نہیں تھا۔تاہم یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اس میں تحقیق کے مسائل کے حوالے سے آٹھ مقالے پڑھنے کو بیک کتاب دستیاب ہوئے۔ اس سے تحقیق کو ایک جداگانہ شعبۂ ادب کے طور پر مطالعے کا دروازہ کھلا۔اس کے اثرات کے نتیجے میں آنے والی دہائیوں میں تحقیق کا ایک جداگانہ شعبہ وجود میں آیا۔
آج جب قریباً نصف صدی کے بعد ہم اردو میں اصولِ تحقیق کے مختلف مسائل کا جائزہ لیتے ہیں تویہ کتاب اوّلین اہم سنگِ میل کے طور پر ہمیں اپنی اہمیت کا احساس دلاتی نظر آتی ہے۔اس کانفرنس میں پڑھے جانے والے تحقیق کے موضوع پر دستیاب آٹھ مقالات کے مشمولات کا جائزہ لیں تو تحقیق کے حوالے سے کئی باتیں سامنے آتی ہیں۔تحقیق کے باب میں اوّلین مأخذ ہونے کے ناتے ان مقالات کا ذرا تفصیلی جائزہ ضروری ہے۔
تحقیق سے متعلق ان مقالات میں پہلا مضمون(۲) ڈاکٹرگیان چند کاہے،جس میں یونیورسٹی تحقیق کو غالباً پہلی مرتبہ موضوع بنایا گیا ہے۔اگرچہ آزادی کے بعد یونیورسٹیوں میں اردوتحقیق کاکرداربڑرہاتھا لیکن بے شمار مسائل بھی درپیش تھے۔ڈاکٹر گیان چند پہلے محقق ہیں جنھوں نے اس موضوع کو اس دور میں بڑی شدومدکے ساتھ پیش کرنا شروع کردیا تھا۔ انھوں نے اس ضمن میں نہ صرف طویل جائزے پیش کیے ہیں بلکہ بعد میں اردواصولِ تحقیق پر بھی قلم اٹھایا اور’’تحقیق کا فن‘‘کے نام سے ایک اہم مستند کتاب لکھی۔زیربحث مضمون میں ڈاکٹر گیان چندنے موضوع پر دو پہلوؤں سے روشنی ڈالی ہے۔ایک یہ کہ کالجوں اور یونیورسٹیوں میں ڈگری کے لیے تحقیق کرتے وقت ریسرچ سکالرز کو کن کن مشکلات کا سامناکرنا پڑتاہے۔ اور دوسرے یہ کہ اردو کے محقق کو تحقیق کے عمل میں کون کونسے علمی مسائل درپیش ہیں۔گویا انھوں نے تحقیق کے سندی اور غیرسندی دونوں پہلوؤں پر روشنی ڈالی گئی ہے۔اس تحقیقی مقالے کا اسلوب کافی حدتک شگفتہ ہے۔
تحقیقی مسائل سے متعلق ان مقالات میں ’’اردو تحقیق کے مسائل‘‘کے ایک ہی نام سے تین مضامین شامل ہیں۔ان میں سے پروفیسر    سہروردی کا مضمون مختصر اورجذباتی نوعیت کاہے اور زیادہ اہم نہیں۔تاہم اُن کے ہاں بعض اشارے اہمیت رکھتے ہیں۔ مثلاً وہ نامکمل تحقیق کی بجا طورپر مخالفت کرتے ہیں ۔وہ محققین سے اس بات کا گلہ بھی کرتے ہیں کہ انھوں ہندوستان کے جنوبی خطوں کو نظراندازرکھاہے۔ڈاکٹر رضی الدین احمد نے اپنے مقالے میں پانچ ایسے مسائل کی نشاندہی کی ہے جو اُن کے نزدیک فوری توجّہ کے مستحق ہیں۔اُن کے خیال میں ایک مرکزی ادارے کا قیام، مختلف جامعات کا آپس میں تحقیقی تعاون، پی ایچ۔ڈی کے لیے ہر یونیورسٹی میں یکساں قوانین، تمام طلبا کے لیے وضائف کے یکساں مواقع، اور سندی مقالوں کی اشاعت جیسے مسائل یونیو رسٹی تحقیق کے اوّلین مسائل ہیں۔اُن کے خیال میں اب تک افراد تحقیق اور تعلیم کا مرکز رہے ہیں لیکن اب فرد کی جگہ فرد سے پُر نہیں کی جاسکتی۔اس کی جگہ اداروں کو لینی چاہیے۔اور تحقیقی موضوعات کا تعین ایک مرکزی ادارہ سرانجام دیا کرے۔تاکہ تحقیق کے لیے متعلقہ مناسبت کے حامل افراد کا انتخاب ممکن ہوسکے۔انھوں نے اپنے اس مضمون میں تمام یونیورسٹیوں کے طریقِ کار کو یکساں کرنے پربھی زور دیا ہے۔پی ایچ۔ڈی امتحان کے لیے بجا طور پرافراد کے بجائے بورڈ کے ذریعے امتحانی مرحلے طے کرنے کی سفارش کی ہے۔ انھوں نے درجہ بالا پانچ نکات کو تحقیق کی عمارت کے ستون کہا ہے، جبکہ عمارت کے بارے میں لکھتے ہیں:
’’تحقیق کی عمارت کا کام صرف سعیٔ پیہم اور شوقِ شدید صرف ان دو چیزوں سے تکمیل پاتاہے۔تحقیق کی جنت کا کبھی نہ ختم ہونے والا وصف یہ رہتا ہے کہ یہ ہمیشہ ہمیشہ آباد رہتی ہے،اس کا نشہ اور نغمہ کبھی کم نہیں ہوتا۔تحقیق کی جنّت سچے محقق سے اس طرح وابستہ ہوتی ہے جس طرح نورنظر سے اور جان جسم سے۔ اگریہ صحیح ہے کہ بچہ ماں میں مامتا ودیعت کرتاہے توتحقیق محقق میں وہ شعور اور وہ شوق عطا کرتی ہے جس کی شان نرالی ہوتی ہے۔‘‘(۳)
ڈاکٹر فضل حق کامل قریشی نے اپنے مضمون میں اُن مسائل کو اہمیت دی ہے جو حصولِ مواد کے سلسلے میں طلباکو لائبریریوں میں درپیش ہوتے ہیں۔اُنھوں نے پہلی دفعہ سندی تحقیق کے لیے کورس ورک کے اجراٗ پر زور دیاہے ۔واضح رہے کہ ابتداء میں ڈگریوں کے حصول کے لیے تعلیمی اداروں میں کورس ورک کا انتظام نہیں ہوتاتھا۔ڈاکٹرفضل حق کے اس مضمون کی سب سے بڑی عطا یہ ہے کہ انھوں نے پہلی مرتبہ اصولیاتِ تحقیق پرزور دیاہے۔لکھتے ہیں:
’’اس وقت اس بات کی سخت ضرورت ہے کہ ہمارے محققین سب کام چھوڑکرآنے والے دس برسوں میں تحقیق کے اصول وضوابط کی چھان بین کرکے تحقیق کی آساس بنائیں تاکہ دنیا کی دوسری نامور زبانوں کے سکالروں کی طرح اردو سکالر بھی بنیادی حیثیت سے جدید اصولِ تحقیق کے مطابق کام کر سکیں۔‘‘(۴)
ہم دیکھتے ہیں کہ اُن کی تجویز واقعی کارگر ثابت ہونے لگی اور کچھ ہی عرصے میں اصولِ تحقیق سے متعلق نہ صرف باقاعدہ کتابیں منظرعام پر آنے لگیں بلکہ مضامین کی اشاعت کا سلسلہ بھی تیز ہوتاگیا۔
ڈاکٹر عبدالعلیم نامی نے اپنے مقالے میں اردو زبان کی تحقیق اور ایک تھیٹر میوزیم کے قیام کی خواہش کا اظہارکیاہے۔اردو زبان میں ہماری تحقیقات کا دائرہ میر و سودا سے آگے نہ بڑھ سکا ۔اُ ن کے خیال میں اس کا دائرہ اردو کے بہت ابتدائی ادوار تک بڑھانا چاہیے۔خالص اردو کے حوالے سے ایک تھیٹر میوزیم یقینا ایک مفید ترین تجویز تھی اگرچہ اس پہ عمل درآمد کی توفیق کسی کو نہ ہو سکی۔انھوں نے اپنے اسی مضمون میں اُن کے پاس موجود بعض اہم نودرات خاص کر پرانے ڈراموں کے حوالے سے اہم دستاویذات کا ذکر کیا ہے جو مذکورہ تھیٹر کو فراہم کی جاسکتی تھیں۔
نگہت فرید کا مضمون(۵) ابتدا میں موضوع کے انتخاب سے متعلق اُمور پر روشنی ڈالتاہے۔ ان کے خیال میں موضوع کے انتخاب میں دو باتوں کالحاظ رکھنا ضروری ہے۔ اول تحقیق کرنے والے کا رجحانِ طبع اور صلاحیت۔دوم موضوع کی افادیت۔ اُن کے نزدیک موضوع کا خاکہ بناتے وقت تین باتیں ‘ اغراض و مقاصد ، طریقِ کار اور موضوع کی ادب کے لیے افادیت واضح ہونی چاہیے۔انھوں نے اپنے مضمون میں محقق کے لیے بعض ضروری صلاحیتوں کے ساتھ ساتھ یونیورسٹیوں میں اردو تحقیق سے پہلے کورس ورک کی اہمیت پہ بھی روشنی ڈالی ہے۔
دلچسپ امر یہ ہے کہ آج سے تقریباً پچاس سال پہلے یعنی ۱۹۶۶ء میں اُن کی نشان زد کی ہوئی تقریباً تمام باتوں پہ آج کل عمل بڑی حد تک عمل ہورہاہے۔
اصولِ تحقیق کے سلسلے میں مجموعے میں موجود دو مقالے زیادہ اہمیت کے حامل ہیں۔پہلا مقالہ ڈاکٹر تنویر احمد علوی (۶)کاہے جس میں انھوں نے قدیم دواوین کی تدوین کے اہم موضوع کو مسائل کے حوالے سے پہلی مرتبہ اجاگرکیاہے۔ انھوں نے تدوینِ متن اور خاص طور پر قدیم دواویں کی تدوین کی اہمیت اجاگر کی ہے۔ لکھتے ہیں:
’’قدیم دواوین ہمارے لیے ’’سورس بکس‘‘ کا درجہ رکھتے ہیں۔اور ان کو جدید تحقیق کے تقاضوں کی روشنی میں مرتّب کیے بنا نہ ہمارے ادب کی کوئی صحیح تاریخ مرتّب کی جاسکتی ۔نہ ہماری زبان کی کوئی مبسوط لغت تیار ہو سکتی ہے۔‘‘(۷)
تاہم اس اہمیت کے باوجود بقول اُن کے صورتِ حال یہ ہے کہ شاید ہی ہمارا کوئی ایسا شاعر ہو جس کا حرف حرف محفوظ رہ گیا ہو۔اُن کے نزدیک جو کچھ شعرا کی زندگی میں اُن کی بے توجہی کے ہاتھوں ضائع ہوا،یا خود اُنھوں نے نظری قراردے دیا‘ اس کو جانے دیجیے،جو کچھ اب تک گوشۂ گمنامی میں پڑا ہوا ہے اس سے بھی صرفِ نظر کیجیے،جو کچھ کسی نہ کسی طرح شہروں یا قصبوں کی لائبریریوں میں پہنچ گیا اس کا بھی ایک بڑا حصّہ ایسا ہے جو ہنوز علم و تحقیق کی روشنی میں نہیں آسکا۔نہ لائبریریوں میں وضاحتی کیٹلاگ ہیں اور نہ ان کے بارے میں معلومات کا کوئی اور ذریعہ۔ چنانچہ اُن کی یہ تجویز بڑی حد تک مناسب ہے :
’’ہمارے مختلف اداروں اور خاص طور پر ہندوستانی یونی ورسٹیوں کے جن شعبہ ہائے اردو میں تحقیقی کام ہو رہا ہے ۔اُن کے کام کا ایک حصہ مرے خیال میں یہ بھی ہونا چاہیے کہ وہ اپنے اپنے حلقہ ہائے کار مقرر کر کے ایسے اداروں اورذخیروں سے متعلق معلومات فراہم کریں اور اسے ایم۔لٹ یا پی۔ایچ۔ڈی کورس کے کام کا ایک ضروری حصّہ قراردیں جس کی نگرانی ریسرچ پروفیسریا ریسرچ گائڈ کے سپرد ہو۔‘‘(۸)
اس میں کوئی شک نہیں کہ قدیم دواوین ہمارے ادب کا بیش قیمت سرمایہ ہے لیکن ابھی تک ان میں سے بیشتر کی جدید تحقیقی اُصولوں کے تحت تدوین نہ ہوسکی ہے۔ڈاکٹر تنویر احمد کا یہ مضمون نہ صرف اُن کی اہمیت کو اجاگرکرتاہے بلکہ اس ضمن میں درپیش مشکلات کا بھی تفصیل سے احاطہ کرتا ہے۔ ترتیب و تدوینِ متن میں داخلی اور خارجی شہادتیں، الحاقی کلام ، سہو کتابت کی غلطیاں اور تعینِ متن میں کس نسخے کو معتبر اور مرجع سمجھا جائے ‘جیسے مسائل اس مضمون میں بڑی خوش اُسلوبی سے بیان ہوئے ہیں۔اُنھوں نے نثر کے مقابلے میں شاعری کی تدوین کو نسبتاً مشکل قراردیاہے۔
دوسرا مضمون’’اردو تحقیق اور حقائق‘‘(۹)ہے جو اردو اصولیاتِ تحقیق میں کافی اہمیت رکھتا ہے ۔اس مضمون میں’جس سے ادبی تحقیق کی اہمیت، افادیت اورمقاصدپرروشنی پڑتی ہے‘ ڈاکٹرخلیق انجم نے پہلے اختصار کے ساتھ لیکن علمی انداز میں ادبی تحقیق وتاریخ کی اہمیت پر بحث کی ہے اور یہ بتایا ہے کہ یہ سرگرمی کیوں ضروری ہے؟ اس کے بعد انھوں نے ادبی محقق کے درج ذیل تین کام بتائے ہیں:
۱۔  نئے حقائق کی تلاش
۲۔  حقائق کی تصدیق یا تردید
۳۔  حقائق کی تشریح و تعبیر
ان میں سے پہلے دو نکات پر انھوں نے زیادہ تفصیل سے بات کی ہے اور وضاحت کے لیے بے شمار مثالوں سے مدد لی ہے۔اُن کے خیال میں محقق کا پہلا کام حقائق کی کھوج اور تلاش ہے۔لیکن ساتھ ساتھ وہ حقائق سے جڑی ہوئی دیگر باتوں کی کھوج اور حقائق کے مطالعے کو لازمی سمجھتے ہیں، ورنہ تحقیق کا حق ادا نہیں ہو سکتا۔وہ فنکار کی ذاتی تحریریں،معاصرین کی تحریریں حتیٰ کے فنکار کے زیرِ مطالعہ رہی کتابوں کا مطالعہ بھی ناگزیر گر دانتے ہیں۔ تاکہ مصنف کے ذہنی پسِ منظرتک رسائی ہو سکے۔محقق کا دوسرا کام حقائق کی تصدیق یا تردید ہونی چاہیے،جو حقائق کی جمع آوری کے بعد محقق کے کام کی دوسری بڑی منزل ہے۔حقائق کی تائید یاتردید کے ضمن میں اُن کے یہ کلمات اُن کے احتیاطی نقطۂ نظرکو سمجھنے کے لیے کافی ہیں۔لکھتے ہیں:
’’اگر ہمارے فن کار کے متعلق کسی اور مصنف نے بیان دیا ہے تو ہمیں یہ معلوم کرنا چاہیے کہ مصنف کا فن کار سے کیا تعلق ہے؟ اس عہد میں ادبی گروہ بندی تو نہیں ہے؟اور اگر ہے تو مصنف فن کار کے گروہ میں ہے یا مخالف گروہ میں؟ مصنف فن کار کا دوست، رشتہ دار یا شاگرد تو نہیں۔مصنف اور فن کار کے مذہبی عقائد کا مطالعہ بھی ضروری ہے۔دونوں مختلف مذاہب سے تو تعلق نہیں رکھتے؟ ‘‘(۱۰)
انھوں نے اپنے اس مضمون میں ان تمام صورتوں کا بڑی حد تک احاطہ کیا ہے جو محقق اور خاص کرمتنی محقق بلکہ نقاد کو بھی درپیش ہو سکتے ہیں ۔اور جس میں اسے حقائق کی تلاش اور پھراُن کی تائید یا تردید لازمی ہے۔دلچسپ امر یہ ہے کہ وہ فن کار کو بھی شک کی نظرسے دیکھنے کی تلقین کرتے ہیں کیونکہ بعض اوقات وہ بھی دروغ گوئی کا سزاوار ہوسکتاہے۔
            ڈاکٹر خلیق انجم نے تیسرے پہلو یعنی حقائق کی تعبیروتشریح پرنسبتاً کم لکھاہے۔یہاں وہ اس بات پہ زور دیتے ہیں کہ محقق کا کام صرف حقائق کو جمع کرنا ہی نہیں بلکہ ان کی تعبیر وتشریح بھی کرنا ہے۔اسے ہر حال میں آخری فیصلہ دینا چاہیے۔مجموعی طور پریہ مقالہ اس نقطۂ نظرکاپہلا مقالہ ہے جواصولِ تحقیق کے ابتدائی دور میں منظر عام پر آیا۔اس مقالے کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ اس کے اندر جو نکات بیان ہوئے ہیں وہ تحقیق اور تنقید دونوں شعبوں میں یکساں رہنمائی کرتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ آج بھی اس مضمون کی اہمیت مسلّم ہے۔اسی زمانے میں چونکہ وہ اپنی کتاب ’’متنی تنقید‘‘ بھی لکھ رہے تھے لہٰذا اس مضمون کے بعض حصّے مذکورہ کتاب میں بھی جگہ پا گئے ہیں۔
مذکورہ بالا مضامین کے خلاصے سے درجہ ذیل اُمور سامنے آتے ہیں:
۰         تحقیق ادب کا ایک جداگانہ حصہ ہے۔
۰           ماضی میں اس پر سنجیدگی سے توجہّ نہیں دی گئی ۔
۰           متون کی تدوین پر توجہ ہونی چاہیے۔
۰           تحقیق کے اصول مرتّب کرنے چاہیے۔
۰         ادب کی رفتار اور ارتقاکے بارے میں درست نتائج حاصل کرنے کے لیے تحقیق کوسائنٹفک بنیادوں پر  استوار کرنا چاہیے۔
یہ وہ بنیادی خطوط تھے جن کی ا ہمیت کی طرف توجہ اس کا نفرنس اور بعد میں ان چھپنے والے مضامین نے کرا ئی۔چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ بہت جلد تحقیق کے اصولوں پر نہ صرف کتابیں منظر عام پر آنے لگیں بلکہ مضامین کی رفتار میں بھی روز افزوں اضافہ ہونے لگا۔شاید اسی کانفرنس کا نتیجہ تھا کہ اِسی اثناء میں ایک اور اہم تحقیقی ڈکومنٹ شائع ہواجس نے تحقیق کی روایت کو اور آگے بڑھایا۔یہ ’’آج کل‘‘ کا وہ خصوصی شمارہ ہے جو تحقیق کے حوالے سے شائع ہوا۔
ڈاکٹرمطاہرشاہ اسسٹنٹ پروفیسر ہزارہ یونیورسٹی

 

 

 

 

 

 

 

حوالہ جات
 ۱۔        ڈاکٹر عطش درّانی ’’ جدید رسمیاتِ تحقیق ‘‘  اردو سائنس بورڈ ، لاہور ، ۲۰۰۵ء  ، ص : ۱۵
 ۲۔        یہ مضمون ’’صبح ‘‘(نئی دہلی) مئی ۱۹۶۶ء ، کے علاوہ مصنّف کی اپنی کتاب ’’حقائق‘‘ نیشنل آرٹ پریس ، الہٰ  آباد جون ۱۹۷۸ء میں بھی چھپ چکا ہے۔
۳۔       مشمولہ ’’مقالات‘‘ انجمن اساتذہ اردو جامعاتِ ہند،دہلی،اشاعت ستمبر۱۹۶۷ء، ص :۱۲۵
۴۔       ایضاً  ص:  ۱۶۵
۵۔       یہ مقالہ صبح (نئی دہلی)مئی ۱۹۶۶ء کے علاوہ ’’ادبی اور لسانی تحقیق اُصول اور طریقِ کار‘‘ مرتّبہ عبدالستار دلوی ،شعبۂ اردو بمبئی یونیورسٹی،بمبئی ،دسمبر۱۹۸۴میں بھی شائع ہوا ہے۔
۶۔        یہ مقالہ اپنی افادیت کے پیشِ نظر صبح (نئی دہلی)جولائی  ۱۹۶۶ء ،’’ رہبرِ تحقیق‘‘ مرتّبہ سید شبیہ الحسن و دیگر، ’’ادبی اور لسانی تحقیق اصول اور طریق ِکار‘‘ مرتبہ عبدالستار دلوی ، ’’ اردو میں اُصول ِتحقیق(جلددوم) مرتّبہ ڈاکٹرایم سلطانہ بخش،اور’’تحقیق شناسی‘‘مرتّبہ رفاقت علی شاہد میں بھی اشاعت پذیر ہو چکا ہے۔
۷۔       مشمولہ’’ادبی اور لسانی تحقیق اُصول اور طریقِ کار‘‘ مرتّبہ عبدالستار دلوی،شعبۂ اردو بمبئی یونیورسٹی،بمبئی، دسمبر۱۹۸۴ء ص:۲۴۵
۸۔       ایضاً  ص: ۲۴۶
۹۔        یہ مضمون صبح (نئی دہلی) جولائی ۱۹۶۶ء ، اردو (کراچی) جنوری ۱۹۶۸ء ،’’ رہبرِ تحقیق‘‘ مرتّبہ سید شبیہ الحسن و دیگر، ’’ادبی اور لسانی تحقیق اصول اور طریقِ کار‘‘ مرتّبہ عبدالستار دلوی ، ’’تحقیق شناسی ‘‘ مرتّبہ رفاقت علیشاہد ،اور حال ہی (۲۰۰۶) میں ’’ تحقیق وتدوین‘‘مرتبہ پروفیسر ابنِ کنول میں بھی  اشاعت پذیر ہو چکاہے۔جس سے اس کی افادیت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔واضح رہے کہ پہلی اشاعت میں اس کا نام’’اردوتحقیق اور حقائق‘‘ تھا جبکہ بعد کی اشاعتوں میں اس کا نام’’ادبی تحقیق اورحقائق‘‘ درج ملتاہے۔
۱۰۔  مشمولہ’’ادبی اور لسانی تحقیق اُصول اور طریقِ کار‘‘ مرتّبہ عبدالستار دلوی،شعبۂ اردو بمبئی یونیورسٹی،بمبئی ،دسمبر۱۹۸۴ء ص:۱۶۳

 

اوپر جائیں  |   پرنٹ کیجئےِ
انگریزی ورژن ای میل چیک کریں مرکزی صحفہ پرنٹ پسندیدہ سائٹ بنائیں رابطہ کیجئے www.shahzadahmad.com www.shahzadahmad.com