فرخ نواز فرخ ؔ کی اردو غزل کا فکری پہلو
ڈاکٹر تحسین بی بی

ABSTRACT
Farrukh Nawaz Farrukh is one the most prominent poets of Swabi (KPK). He published two books of his Urdu poetry named "Udaas Chehra Udaas Aankkhain" and "Kaash Tum samaj paatay". His Urdu ghazal is capable of new taste not only due to its unique literary style but due to his thoughts as well. In this research paper the researcher has analyzed the Farrukh's Ghazal in the context of his specific thoughts .

           سرزمینِ صوابی میں شاعری کے حوالے سے بات کی جائے تو فر خ نواز فرخؔاس ضلع کے شعرا کی صف ِاول میں شامل ہیں۔ فرخ نواز فرخ ؔجدید اردو غزل کا ایک درخشاں ستارہ ہیں۔فرخ نواز فرخؔ نے تقریباََ تمام اصناف سخن میں طبع آ زمائی کی ہے۔ حمد، نعت، غزل، نظم، رباعیات و قطعات اور فردیات وغیرہ مگر ان کی پسندیدہ ترین صنف غزل ہے۔  غزل اردو شاعری کی اصناف میں سب سے اہم صنف ہے ہر ایک صنف سخن کا اپنا لب ولہجہ،آہنگ اور انداز ہے لیکن جو مقبولیت صنف غزل کو حاصل ہوئی وہ کسی اور کو میسر نہیں ۔شاعری کا بیش بہا خزانہ اسی صنف میں موجود ہے۔ بقول ڈاکٹر ضیاء الحسن:
’’غزل اردو کی قدیم ا صناف میں سے ہے ،اردو کے کل تخلیقی ادب کا زیادہ تر سرمایہ اسی صنف میں تخلیق ہوا ہے۔‘‘(۱)
فرخ ؔکی غزل کا اگر جائزہ لیا جائے تو یہ سہل ممتنع، سادگی، سلاست، اور روانی کی عمدہ مثال نظر آ تی ہے۔ انہوں نے روایت سے مکمل بغاوت بھی نہیں کی اور جدت طرازی کے سمندر میں بھی غوطہ زن ہوئے ہیں۔ آ پ کی شاعری پر رومانوی خیالات و افکار حاوی نظرآ تے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود مو ضوعات میں تنوع بھی موجود ہے۔ غم ِجاناں سے شاعری کا دل نہیں بہلاتے بلکہ غم دوراں، انسانی رویوں کی نا ہمواریاں، درد دل اور درد انسانیت بھی آ پ کے ہاں جگہ پاتے ہیں۔ آپ سیدھے سادے انداز میں اپنے جذبات، احساسات اور خیالات کا اظہار کر تے ہیں۔ غزل کی پوری روایت آ پ کے سامنے ہے۔ تغزل کی موجودگی نے آ پ کے کلام کو رنگا رنگی اور چاشنی بخشی ہے۔ آ پ نے نئی تراکیب اور نئے تجربات سے یہ بات ثابت کر دی ہے کہ آپ کی غزل میں آوردکی کیفیت نہیں بلکہ یہ آ پ کے درد مند دل کی خوب صورت آواز ہے جو ادبی حلقوں میں داد و تحسین کی مستحق ٹھہری۔اعتبار ساجد فرخؔ کی شاعری کے حوالے سے کہتے ہیں:
’’فرخ نواز فرخؔ ایک بھر پور تاثر قائم کرنے والا خوب صورت شاعر ہے۔اس کی شاعری پڑھ کر آپ کو ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے فرخؔایک فرد نہیں، ایک دل ہے،ایک دھڑکتا ہوا دل ،جس کی محبت بھری دھڑکنیں آپ صاف سن سکتے ہیں‘ ‘ (۲)
فر خ نواز فرخؔ غزل کے میدان کے شہسوار ہیں اور اس کے مزاج سے بخوبی آگاہ ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انھوں نے دیگر اصنافِ شاعری کی نسبت غزل پر خصوصی توجہ دی ہے اور اُردو میں غزل گو شاعر کے طور پر پہچانے جاتے ہیں۔ غزل کا کینوس خاصا وسیع ہے اور اس میں ہر طرح کے مضامین و موضوعات سما سکتے ہیں۔ ابوالاعجازصدیقی غزل کے موضوعات کے حوالے سے لکھتے ہیں:
غزل میں مضامین کے اعتبار سے اس قدر وسعت پیدا ہو چکی ہے کہ آج عشق ومحبت فکر وفلسفہ ،دین واخلاق ،عرفان وتصوف ،سیاست و معیشت ،نفسیاتی اور سماجی مسائل کائنات کی وسعتیں اور باطن کی گہرائیاں الغرض یہ کہ حیات و کائنات کا ہر پہلو غزل گوشعرا کی دسترس میں ہے۔(۳)
اس حوالے سے فرخؔکی غزل کا مطالعہ کیاجائے تو ان کی غزلیات میں یکسانیت نہیں بلکہ موضوعات کا خاص تنوع اور جدت وندرت کا حسین امتزاج ملتا ہے ۔
اداس چہرہ اداس آنکھیں تری نشانی
جنوں زدہ ہیں جو میری باتیں تری  نشانی
دکھوں کے خنجر  ابھی بھی پیوست ہیں بدن میں
یہ سرد راتیں یہ سرد آہیں تری نشانی
بھلا میں کیسے بھلاؤں چاہت کے سلسوں کو
ستا رہی ہیں مجھے جو یادیں تری نشانی
میں رتجگوں کے عذاب سہتا ہی جا رہا ہوں
جو تم نے دی ہیں مجھے سزائیں تری نشانی
نہیں ہے طاقت بدن میں فرخؔ چلے بھی آؤ
جو آج اکھڑی ہوئی ہیں سانسیں تری نشانی(۴)
فرخ نواز فرخؔ ایک فطری اور جبلی شاعر ہیں۔لکھنا فرخ ؔکے خون میں شامل ہے۔ ان کے اب تک تین شعری مجموعے منظر عام پر آچکے ہیں ۔جن میں دو اردو شاعری کے مجموعے ’’ اداس چہرہ اداس آنکھیں ‘‘(۲۰۰۸ء)  ،’’  کاش تم سمجھ پاتے‘‘ (۲۰۱۶ء)اور ایک پشتو مجموعہ’’  ستڑی ارمانونہ‘‘(۲۰۱۱ء)شامل ہیں۔
فرخ نواز فرخؔ نے کم عمری میں شاعری کاآغاز کر دیا تھا۔منفرد لب ولہجے کے ساتھ رومانیت اور ظالم سامراج کی نا انصافیوں کا گہرا شعور ان کی شاعری میں ملتا ہے،فرخ نواز فرخؔ محبت ،خوابوں خواہشوں ،اور سچائیوں کی آمیزش کے ساتھ اپنے فن کو ذہن کی ایسی روشنی سے مرتب کرتے ہیں کہ زندگی کے معمولی سے معمولی مظہر تک کو محسوس کرنے کا وریہ ملتا ہے۔ندرت خیالی و جدت طرازی کے سبب بلاشبہ ان کی شاعری اردو ادب میں یکتا و یگانہ ٹھہرتی ہے۔
بقول سعد اللہ شاہ:
’’اس کی شا عری کے تیور بتا تے ہیں کہ وہ اپنے محسوسا ت سے لے کرردعمل تک شا عرانہ فضا میں رہتا ہے۔ وہ حرکات و سکنات سے لے کر گفتگو اور مکا لمے تک شا عر محسو س ہوتاہے ۔وہ عنوان شبا ب کے آداب جا نتا ہے‘‘(۵)
فرخ نواز فرخؔکی شاعری کے جتنے بھی موضوعات ہیں وہ تخلیقی نہیں بلکہ حقیقی اور جیتی جا گتی زندگی سے تعلق رکھتے ہیں۔وہ غزل اور نظم دونوں میں اپنے جذبات کا اظہار کرنے پر مکمل دسترس رکھتے ہیں۔ فرخؔ کی شاعری کا ایک ایک لفظ ہر اس شخص کے جذبات و احسا سات کی عکاسی کرتا ہے جس نے زندگی میں سچی محبت کی ہوگی۔ایک عام انسان زندگی کے تلخ حقائق سے سبق حاصل کرتا ہے جبکہ ایک شاعر زندگی کے انہی حقا ئق سے نہ صرف گزرتا ہے بلکہ ان حقا ئق کو الفاظ کا خوبصورت جامعہ پہنا کر ہمارے سامنے پیش کرتا ہے،فرخ نواز فرخؔنے بھی زندگی کے انہی تجربات کو ہمارے سامنے خوبصورت پیرائے میں پیش کیاہے۔
تعبیر کی  طلب  میں  فقط  خواب مل ملے
ناکامیوں  کے  اپنے  سب اسباب مل گئے
ہے   جرات   ا ظہار    پہ   پابندی   دنیا
مجھ  کو  کتاب ِزیست  میں یہ  باب مل گئے
دکھ  درد  ٹٹولے   تو  یہ  ظاہر  ہوا   فرخؔ
ہر  دکھ  کے  پیچھے  اپنے  ہی احباب مل گئے(۶)
فرخ نواز فرخؔ بنیادی طور پر غزل کے شاعر ہیں اور غزل کا روایتی موضوع حسن و عشق ہے جو کہ غزل کو جمالیاتی حسن سے آراستہ کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ غزل گو شعرا نے اس موضوع پر بہت کچھ لکھا ہے دیگر شعراکی طرح فرخؔنے بھی حسن و عشق کے حوالے سے اپنے تجربات اور مشاہدات کو شخصیت کے حسین رنگوں میں یوں ڈھال کر پیش کیا ہے کہ وہ اپنے عہد کے دیگر شعراسے منفرد دکھائی دیتے ہیں۔ فرخؔکی شاعری کے مطالعے سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ آپ کے ہاں حسن و عشق کے تصورات اگرچہ وہی ہیں جو صدیوں سے اُردو اور فارسی شاعری میں عرصہ دراز سے چلے آرہے ہیں لیکن آپ کی خوبی یہ ہے کہ آپ نے اپنی فنکارانہ مہارت اور جدتِ افکار کے ذریعے ان میں نئی روح پھونک دی ہے ۔فرخؔ کی یہ غزل ملا خطہ فرمائیں:
آنکھوں میں کیف  زلف میں تازہ گلاب ہے
تو  مسکر ا  کے  مل  کہ  بہار   شباب  ہے
یہ  مانتا   ہوں  لفظ  محبت   ہے    دلنشیں
لیکن  یہ  زندگی  کے لیے اک  عذاب  ہے
کن  سخت مر حلوں  سے گزر کر  میں  آگیا
تو پھر بھی کہہ  رہی  ہے  محبت  سراب  ہے
فرخؔ  نہ  آپ  عشق   کے  معنی  بتائیے
ازبر  مجھے   تمام  یہ   مشکل   کتاب  ہے(۷)
فرخ نواز فرخؔایک مکمل رومانی شاعر ہے ان کی شاعری میں رومانیت کے تمام عناصر پائے جاتے ہیں جس میں بغاوت،ماضی پرستی ،خیالی بہشت شامل ہے،فرخؔ کی رومانیت میں سطحی پن نہیں بلکہ ان کے نزدیک عشق اور محبت کا تذکرہ پاکیزگی کے روپ میں ملتاہے۔ جس کا اظہار فرخؔ خود یو ں کرتے ہیںـ:
’’میں آج تک محبت کانا م زبان پرنہ لا سکا،نہ ہی کتبہ بنا کر ما تھے پہ سجا سکااور نہ ہی اس کا نام ہاتھ یا  سینے پہ کندہ کر سکاکہ میری نظر میں یہ کم ظرف اور محبت سے عاری لوگو ں کی نشانیاں ہیں۔جو محبت محبوب کی عزت کروانا نہیں سکھاتی،جو محبت فنا ہونا نہیں سکھاتی اور جو محبت خالق کا شکر اداکرنا نہیں سکھاتی وہ محبت،محبت نہیں بلکہ محبت کے نام پر بد نما دھبہ بن کر رہ جاتی ہے۔(۸)
فرخؔکی شاعری میں رومانوی خیالات و افکار بھی بکھرے ہوئے نظر آ تے ہیں۔ حسن و عشق کی وار دات میں آپ بھی گرفتار اور محو نظر آ تے ہیں۔ حسن پرستی آ پ کی شخصیت کا ایک جزوہے مگر اس میں ہو س پر ستی اور دیگر برائیاں شامل نہیں ہیں۔ اچھی اور خوب صورت اشیاء ہر انسان کی آ نکھوں کو خیرہ کر دیتی ہیں۔ آ ج کل لوگوں نے حسن کے معیارات بنا لیے ہیں۔ ہر کوئی اپنے محبوب کی مختلف صورتیں اور عادات خود تراشنے لگ گیا ہے۔ مگر فرخؔ دنیا وی اعترافات اور باتوں کو چھوڑ کر حسن کی تعریف کر تے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ آ پ فر ماتے ہیں:
؎اپنی مسکان کو چہرے پہ سجا لے پھر سے
بھول  جا پیار  کا اظہار کیا ہے میں نے(۹)
عشق ومحبت ایک دائمی اور آفاقی جذبہ ہے اور ہر دور میں شاعر کا عشق کے اظہار کا انداز بدلتا رہا ہے ۔ بقول ڈاکٹر سرور الہندیٰ:
’’معاملات عشق کا اظہار جس طرح پرانی غزل میں تھا نئی غزل میں اس کے اظہار کا  طریقہ بدل جاتا ہے ۔ ‘‘  (۱۰)
فرخ ؔکے ہاں غزل میں جس محبوب کا تصور ملتا ہے وہ ایک خیالی محبوب ہونے کی بجائے ایک گوشت پوست کا انسان ہے ۔آپ نے محبوب کے حسن و سیرت کی جو عکاسی پیش کی ہے وہ ایک حقیقی زندگی کی مثال ہے اس میں جذبوں کی کار فرمائی تو ضرور ملتی ہے مگر اس کے ساتھ ساتھ اس جذبہ میں جذباتی پن کی بجائے ایک اعتدال اور حقیقت کا عکس ضرور نظر آتا ہے ۔وہ محبوب پر مرتے تو ضرور ہیں مگر اپنی خوداری ،وقار اور تمکنت کو کبھی بھی اپنے ہاتھ سے جانے نہیں دیا۔اُردو ادب کی تاریخ میں مختلف شعرا نے محبوب کا سراپا بیان کیا ہے ان میں ولیؔاور میرؔکی شاعری کسی سے پوشیدہ نہیں ہے ۔آپ کی شاعری میں محبوب کے خدوخال کی تصویر ملتی تو ضرور ہے مگر کم ہے ۔فرخ ؔکے ہاں غزل میں سراپا نگاری کی جو جھلک ملتی ہے وہ ملاحظہ ہو:
؎          یک بہ یک چار سو کھل جاتے ہیں تن من میں گلاب
میں  اگر  ایسے  بدن  کا  کوئی  منظر  دیکھوں
وہ  ہوا  ہے،وہ فضا ہے  وہ  ہے  رنگین  خیال
کا ش میں  بھی اسے  فرخؔ کبھی چھو کر  دیکھوں  (۱۱)
فرخؔنے رو ایت کی پاسداری کا واضح ثبوت اپنی غزل میں دیا ہے ۔اُن کے ہاں روایتی مضامین اپنی اصل شکل میں گردش کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔محبوب کی سیرت کا نقشہ جو ہمیں روایتی محبوب کے ہاں ملتا ہے اس کا عکس آپ کے ہاں بھی دکھائی دیتا ہے ۔محبوب کو اپنے حسن اور خوبصورتی پر ناز اور گھمنڈ ہے وہ عاشق کو کسی خاطر میں نہیں لاتا۔لیکن عاشق پھر بھی اس کو محبت کی نگاہوں سے دیکھتا ہے اور اس کے دیدار کا خواہش مند ہے ۔فرخؔنے محبوب کی بے نیازی اور لاپروائی کو اپنے کلام میں مختلف طریقوں سے بیان کیا ہے۔مثال کے طور پر یہ اشعار ملاحظہ ہوں:
؎          تو میری زیست کا حاصل ہے ذرا سن جاناں
تو جہاں جائے گی ہم نے بھی  ادھر جانا ہے
میں محبت کا  یقین  تجھ کو  دلا دوں بھی تو کیا
تو نے اک دن میری چاہت سے مکر جانا ہے(۱۲)
فرخ نواز فرخؔکی غزل ان فکری تجربا ت اور مشا ہدات کا بیا ن ہے جن سے انہیں غمِ جانا ں اور غمِ دوراں کے دوران گزرنا پڑا۔فرخ نواز فرخؔ کی شاعری میں کو چہ جاناں میں آنے والے واقعات رسوائیوں اور نا کا میوں کے علاوہ انفرادی اور اجتماعی کرب کے دکھ بھی ملتے ہیں ۔وہ مقدار سے زیادہ معیا ر کے قا ئل ہیں ۔پختون شاعر ہونے کے با وجود ان کی شاعری قابل دید بھی ہے ۔
فرخ نواز فرخؔ کی غزل میں رومانی پہلو کے ساتھ ساتھ عشقِ حقیقی کا رجحان بھی موجود ہے ۔فرخ ؔ خدا کی صفات کو بڑے خوبصورت اور عاجزانہ انداز میں بیان کر تے ہیں۔خدا یہ بات پسند کر تا ہے کہ اس کے بندے اس کے در پر آ تے رہیں اور اس سے مغفرت طلب کر تے رہیں۔ موت سے پہلے ہر انسان کے لیے ایک موقع ہر وقت موجود رہتا ہے وہ اپنی غلطیوں اور کو تاہیوں پر سرنگوں کر لے اور گناہوں سے تو بہ کر لے۔ آ پ خدا سے دعا کر تے ہیں کہ انھیں بھی آ پ کے در کے علاوہ کسی اور درکی ضرورت پیش نہ آ ئے:
؎          مجھ کو اب عشق سے اپنے تو رہائی دے دے
مل  نہیں سکتا تو  پھر مجھ کو جدائی دے دے
میں کبھی حد سے بڑھا ہوں نہ بڑھوں گا  ہرگز
اپنے در کی مجھے مالک  تو گدائی  دے  دے(۱۳)
فرخ ؔکا اپنے مالک و خالق سے گہرا تعلق ہے۔ یہ تعلق ان کی شخصیت اور شاعری میں جا بجا نظر آ تا ہے۔بعض غزلوں کے اشعار میں عشق حقیقی کا رنگ نمایاں ہے۔تصوف اور صوفی ازم کی معمولی جھلک نظر آتی ہے۔گو کہ یہ اشارہ نہایت کم اور سرسری ساہے لیکن سمجھنے والے کے لیے اشارہ ہی کافی ہوتا ہے،مثلاََ یہ اشعار :
؎          خاک  میں  خاک  ہوگئے  فرخؔ
رخ  ہواؤں  کا   موڑ نے   والا  (۱۴)
فرخؔکی شاعری پر صرف اور صرف رومانوی خیالات و افکار کی مہر نہیں ثبت کی جا سکتی ہے۔ آپ ایک حساس اور درد مند شاعر ہیں۔ محبوب کی خوب صورتی اور دلکشی آپ کو متاثر تو ضرور کرتی ہے مگر صرف یہی آپ کی شاعری کی معراج نہیں ہے۔ زندگی میں دکھوں، دردوں اور تکالیف کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنے خیالات و افکار کے اندر جدت اور تنوع پیدا کرنا چند ہی شعرا کا حسن ہے۔فرخ ؔسے اپنے صوبے خیبر پختونخوا کے دہشت گردی کے حالات چھپے نہیں تھے وہ ان حالات کا درد رکھتے ہیں اور ان کو الفاظ کے خوب صورت پیرائے میں کچھ یوں پیش کرتے ہیں ۔
؎          پہلے سانسوں میں گلابوں کی مہک تھی فرخؔ
اب  میرے شہر سے بارود  کی بو آتی ہے(۱۵)
فرخؔنے جب شاعری کا آغاز کیا تو آپ کے سامنے جدید و قدیم شعر و ادب کی مثالیں موجود تھیں اسی لیے اگر فرخؔ کے کلام کا جائزہ لیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ان کی شاعری واقعی قدیم و جدید کا حسین امتزاج ہے۔ فرخؔ نے روایت سے بغاوت نہیں کی بلکہ اُسے سامنے رکھتے ہوئے اُس میں جدید فکر و آہنگ کا اضافہ کیا اسی لیے ان کی غزل قدیم و جدید کی خوبصورت رعنائی اور ندرت کی علمبردارہے۔فرخؔنے روایتی کردار ناصح اور نصیحت کرنے والا قدیم غزل کا روایتی تصور اپنی غزلیات میں پیش کیا جیسے:
؎          ناصحِ  شہر   سے کہہ  دو کہ  نصیحت  نہ  کرے
اس  کی باتوں  سے تو دکھ  اوربھی بڑھ جاتے ہیں(۱۶)
فرخؔ نے غزل میں نہ صرف روایت کو برقرار رکھا ہے بلکہ ہیئت کے نئے تجربات بھی کیے ہے۔شعری اصناف میں غزل کی ہیئت پر سب سے زیادہ بحث ہوئی ہے کیونکہ بقول ڈاکٹر سرور الہندیٰ :
شعر کی زبان اس کا اسلوب ،الفاظ کی بندش اور دیگر شعری وسائل سے شعر کے حسن میں اضافہ ہوتا ہے ان کے علاوہ ہیئت کا مواد کے ساتھ رشتہ اور جمالیاتی قدریں بھی تشکیل ِ ہیئت میں شامل ہیں۔  (۱۷)
اس مجموعہ میں شامل زیادہ ترشاعری میں انھوں نے اختر شیرانی اور نظیر اکبر آبادی کی طرح ہیئت کا تجربات کے ساتھ ساتھ ترجیع بند ہیئت کا استعمال بھی خوبصورتی سے کیا ہے:
عمر بھر کی خوشیوں کو ایک پل میں کھو دینا
کتنا درد دیتا ہے  بے بسی میں رو  دینا
کاش  تم  سمجھ  پاتے
زندگی کے صحرا میں جب ہوائیں  چلتی  ہیں
کیسے  بے  اماؤں  پر   بارشیں  برستی   ہیں
درد  کے سمندر  میں  ڈوبتے  ابھرتے  ہیں
ہجر  کی  تمازت  میں کیسے دن گزرتے ہیں
کاش  تم  سمجھ  پاتے
جب  کنول نہیں کھلتے زخم جب  نہیں    سلتے
انتظار  میں جس کے  رات  دن  نہیں   کٹتے
کتنی  ہو کٹھن  راہیں  آگے  آگے  چلتے   ہیں
رنگ  و  روشنی   کیسے   راستہ   بدلتے   ہیں
کاش  تم  سمجھ   پاتے
بے  کراں  اداسی  میں  زندگی  گزرتی  ہے
جب سے تم نے چھوڑا ہے مجھ پہ کیا گزرتی  ہے
کاش  تم  سمجھ  پاتے(۱۸)
آ پ بنیادی طور پر غزل ہی کے میدان کے شہوار ہیں۔ غزل کے مزاج اور لوازمات سے بخوبی واقف ہیں۔ آپ کے ہاں غزل کی وہی علامتیں ہیں جو صدیوں سے اردو اور فارسی شاعری میں چلے آ رہی ہیںفرخؔ نے خوب صورت انداز سے اپنی شاعری میں ان علامتوں کوبیان کیا۔ مگر آپ کی خصوصیت یہ ہے کہ آ پ نے غزل میں جدت اور ندرت پیدا کر دی ہے۔ دور جدید کے تقاضوں کے مطابق غزل کو ہم آ ہنگ کر نا آ پ ہی کا وصف ہے۔جیسے فرماتے ہیں:
؎          رقیبوں کو دکھی کرنے کی خاطر
جفاؤں پر بھی اترانا پڑے گا(۱۹)
 اور اسی طرح ایک اور مثال :
؎          ہزاروں طوفاں جو آئیں پھر بھی
چراغ  چاہت  کا گل  نہ ہوگا(۲۰)
فرخ نواز فرخؔ نے غزل اور نظم دونوں اصناف میں طبع آ زمائی کی ہے۔فرخؔ ایک کہنہ مشق غزل گو شاعر ہیں۔انکی غزلوں میں لطافت ،پاکیزگی،سبک پروری اور ندرت خاص طور پر قاری کے ذوق سلیم کو متاثر کرتی ہے۔وہ غزل کے مزاج کو تغزل کی فضا میں رکھتے ہیں۔فرخؔ نے اپنی غزلوں میںفکری جذبات واحساسات کے ساتھ ساتھ فنی محاسن بالخصوص تشبیہات، استعارات اور تلمیحات کا استعمال کیا ہے۔فرخؔ کی غزلوں میں عشق کی سر مستی کے ساتھ مظاہر فطرت کی بوقلمونی بھی ہے۔
            فرخ نواز فرخؔ کی شاعری کا جائزہ لیتے ہوئے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ آپ کو اردو زبان سے دلی محبت ہے۔فطرت ،ماحول ، حالات اور محبو ب کی ستم ظریفیوں نے انھیں شاعر بنانے میں ایک اہم کردار ادا کیا ۔آپ نے اپنی شاعری اور شخصیت سے لوگوں کو متاثر کیا ہے۔ ان کی شاعری فطرت نگاری کا ایک اعلیٰ مرقع ہے کیونکہ ان کے ہاں فطرت کا ہر رنگ اپنی جھلک دکھاتا ہے کیونکہ ایک شاعر فطرت کی عکاسی کئے بغیر کبھی بھی نہیں رہ سکتا، اس حوالے سے محمد ہادی حسین لکھتے ہیں:
شاعر فطرت کا ترجمان بن کر اس کی بولی بولتا ہے۔  (۲۱)
فرخؔ کی شاعری ان کی شخصیت کی مکمل عکاسی کرتی ہوئی نظر آتی ہے۔اس میں کسی قسم کا ابہام ،الجھاؤ اور پیچیدگی کا عنصر نظر نہیں آتا ۔ایک سیدھی سادی شخصیت ہی ان کی پہچان ہے ۔وہ فرماتے ہیں:
؎          تجھ  سے  ملا  تو  اپنا   ہی نقصان  کر گیا      
خو د   اپنی   زندگی   کو   ویران  کر گیا (۲۲)
فرخؔ کے کلام میں خیال وجذبے کا قالب اور شعر و لباس الگ الگ دکھا ئی نہیں دیتے بلکہ آپس میں پیوست ہیں،شاعر کو یہ اعزازاسی وقت نصیب ہوتا ہے جب اس کا جذبہ اور اس کا فن دونوں یکساں ہوں۔یہی خلوص، گدازپن اور سچائی فرخ نوازفرخؔ کے کلام کی امتیازی خصو صیا ت ہیں۔

           مجموعی طور پر یہ کہا جاسکتا ہے کا فرخ نوازفرخؔ کی شاعری احساسات کی شاعری ہے۔یہ احساس ان کے ہاں نظم اور غزل دونوں میں نمایاں ہے۔فرخؔ کی شاعری ان کی سفر کی داستان سناتی ہے۔ان کی شاعری ان کی رومانی،درد مند شاعر کا فنی سفر ہے۔ان کی شاعری میں ان کے جذبات و افکار کی کثرت کے ساتھ لوازمات شعر اور دیگر محاسن بھی بدرجہ اتم موجود ہیں ایک تخلیق کار الفاظ کو تراش خراش کر خوبصورت انداز میں پیش کرتا ہے۔فرخ نواز فرخؔ کی شاعری کا فنی حوالہ اپنی اہمیت رکھتا ہے اور اس کا فکری رخ اپنی جگہ اہم ہے۔فرخؔ کی ساری شاعری اپنی دھرتی سے منسلک ہے۔رومانیت،دردمندی،حب الووطنی،معاشرہ اور اس کے مسائل،فرخ نواز فرخؔ کی شاعری کی پہچان ہے۔اور ان کی شاعری ایک مفکر ،دانشور اور عوام کے دکھوں پر کڑنے والے بے بس شاعر کی آواز ہے۔

ڈاکٹر تحسین بی بی ۔ صدر شعبہ اردو، ویمن یونیورسٹی صوابی

 

 

 

 حوالہ جات
۱۔        ضیاالحسن،ڈاکٹر، غزل اور غزل کی تنقید ،مشمولہ ماہنامہ سیپ پبلی کیشنز کراچی ،۲۰۰۶ء،ص۱۷۶
۲۔        فرخ نواز فرخؔ،کاش تم سمجھ پاتے،دیباچہ ،اعتبار ساجد،با عنوان،برگ سبز است تحفہ ء درو یش،البرکہ پرنٹ(لاہور)،یکم جنوری ۲۰۱۶ء،ص۱۲
۳۔       ابوالاعجازحفیظ صدیقی،کشاف تنقیدی اصطلاحات ،مقتدرہ قومی زبان ،اسلام آباد ،۱۹۸۵ء،ص۱۳۰
۴ ۔       فرخ نواز فرخؔ۔اداس چہرہ اداس آنکھیں ،۔خز ینہ علم وادب لاہور،سن اشاعت ۲۰۰۸ء   َ ،ص۱۸
۵۔       سعد اللہ شاہ۔ اداس چہرہ اداس آنکھیں ،فلیپ ،ایضاََ
۶۔        فرخ نواز فرخؔ،کاش تم سمجھ پاتے،ایضاََ،ص۱۴۱
۷۔       فرخ نواز فرخؔ۔اداس چہرہ اداس آنکھیں ایضاََ ،ص۶۵
۸۔       فرخ نواز فرخ ،ناولٹ ’’میر ی کہانی میری زبانی‘‘۔غیر مطبو عہ،ص۷
۹۔        فرخ نواز فرخؔ،کاش تم سمجھ پاتے،البرکہ پرنٹ(لاہور)،سن اشاعت،یکم جنوری ۲۰۱۶ء،ص۱۰۴
۱۰۔       سرور الہندیٰ،ڈاکٹر ،نئی اردو غزل ،بیکن بکس لاہور ،۲۰۱۵ء،ص۱۲۶
 ۱۱۔       فرخ نواز فرخؔ۔اداس چہرہ اداس آنکھیں ایضاََ ،ص۳۸
۱۲۔       ایضاً  ص۳۵
۱۳۔       فرخ نواز فرخؔ،کاش تم سمجھ پاتے،ایضاََ،ص۳۹
۱۴۔      ایضاً ۔ص۱۵۹
۱۵۔      ایضاً ۔ص۴۴
۱۶۔       ایضاً ۔ ص۱۲۱
۱۷۔       سرور الہندیٰ،ڈاکٹر ،نئی اردو غزل ،ایضاََ، ص۱۸۰
۱۸۔      ایضاً ۔ص۱۳۰
۱۹۔       ایضاً ۔ص۵۱
۲۰۔      ایضاً ۔۔ص۲۷
۲۱۔       محمد ہادی حسین ،زبان اور شاعری ، مجلس ترقی ادب لاہور ،۲۰۱۵ء،ص ۴۹
۲۲۔      فرخ نواز فرخؔ۔اداس چہرہ اداس آنکھیں ایضاََ ،ص۱۸

 

 

 

اوپر جائیں  |   پرنٹ کیجئےِ
انگریزی ورژن ای میل چیک کریں مرکزی صحفہ پرنٹ پسندیدہ سائٹ بنائیں رابطہ کیجئے www.shahzadahmad.com www.shahzadahmad.com