اردو تحقیق میں حوالوں کی بدلتی ہوئی روایت کمپیوٹر کے حوالے سے
محمد مشہود

ABSTRACT
APA is an American Psychological Association (APA) is founded in 1929 by a group of psychologists, anthropologists, and business managers. Apa produces procedures and rules for witting a scientific paper or documents that how to write an academic dissertation, research article, books, proposal etc. in this article I discussed the Urdu literature style in the light of APA 6th edition (2010) The another Style of Chicago both are the same but with little difference. In this article I discussed these two citation style that how to use style in computer. The few new commands for Urdu scholars that they operate and write their articles in computer and solve their problems to use the InPge (Urdu) and MS word in windows in the light of future. I write in this article that how to cite the other and forward their idea, text, and research observation to others .

           اردو زبان وادب کی تحقیق روزافزوں ترقی پر ہے سندی مقالے لکھے جارہے ہیں اور جرائد میں تحقیقی مقالے شائع ہورہے ہیں، اس جدید دور میں جب یورپ اور امریکہ میں ہر یونیورسٹی اور ہر ادارے نے اپنا اپنا سٹائل شیٹ بنالیا ہے اور دنیا کی بیشتر بڑی سافٹ وئیربنانے والی کمپنیاں لوگوں کو سہولت مہیا کرنے کے لیے ان سٹائل شیٹس کو اپنے پروگراموں میں شامل کررہی ہیں اور مشینی طریقے سے بھی اس سے استفادہ اب ممکن ہے مگر بدقسمتی سے اردو میں وہی پرانا طریقہ کار رائج ہے جس میں ہر محقق کچھ اضافہ یا کمی ازخود کرتا ہے جس سے یہ نظام اب بالکل بھی آفادی نہیں رہا اور اس سے تحقیق کی رفتار اور اس کو آن لائن لانے کا اصل مقصد بھی پورا نہیں ہوپارہا۔ اب اردو کے ماہرین کمپیوٹر میں خاصی درک رکھتے ہیں ان کو چاہیے کہ وہ اس ضمن میں توجہ دیں اور جب تک کوئی مربوط نظام دستیاب نہیں ہوتا عالمی سطح پر APAیا شکاگو سٹائل شیٹ کو اپنا کر خود کو اس ترقی کے سفر میں شامل کیا جاسکتا ہے۔
اس آرٹیکل میں ان پیج اورمائیکروسافٹ ورڈ ( ایم ایس ورڈ) کی کچھ دشواریوں اور کمانڈ کا تجزیہ کیا گیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ریسرچ کے دو طریقوں اے پی اے اور شکاگو کے سٹائل شیٹ کے مطابق حوالے اور کوٹیشن دینے کے طریقہ کار کا بھی تجزیہ کیا گیا ہے ۔ اردو ادب میں ریسرچ کے حوالے سے کچھ تبدیلیاں ضرور ہونی چاہیے۔ کیونکہ اردو ادب کی ترقی میں کمپیوٹر کا بہت بڑا کردار ہے اگر یہ کہا جائے کہ کمپیوٹر، کمپوزنگ، پرنٹنگ کے بغیر یہ ناممکن ہے تو یہ غلط نہ ہوگا۔ پچھلے بیس برس سے کمپیوٹر نے اردو پریس کوکافی فائدہ دیا ہے لیکن تاحال کچھ مسائل کا سامنا بھی ہے۔ جس میں کمپوزنگ کے حوالے سے ٹائپنگ، سیٹنگ، ایڈیٹنگ، پرنٹنگ اور تحقیق کے حوالے سے کومہ، انورٹڈ کومہ، نام، حوالے ، ؛ سافٹ وئیر کے حوالے سے ونڈوز، ان پیج، ایم ایس ورڈ، یونی کوڈ اور بہت سے مسائل درپیش ہیں۔
عالمی سطح پر اب بحث مادری زبانوں کو درپیش مسائل کے بارے میں چل رہی ہے۔ حکومت پاکستان کو چاہیے کہ پاکستان کی تمام زبانوں کی ترقی اور بقا کی منصوبہ بندی کے لیے لائحہ عمل مرتب کرے ۔ اس مقالے میں ہم صرف اردو کے حوالے سے بات کریں گے۔جو سرکاری سطح پربطور قومی زبان رائج ہے۔ اس مقالے میں جدید تحقیق اور حوالوں کی نشاندہی کی گئی ہے۔ ایک طرف دنیا کی پینتالیس فیصد آبادی موبائل ٹیکنالوجی کی سہولیات سے لطف اندزو ہورہی ہے تو دوسری طرف دنیا کے چھوٹی زبانوں کا مستقبل خطرہ میں ہے۔ (UN 2015 )
دنیا میں تقریباً چھ ہزار نو سو زبانیں بولی جاتیں ہیں جن 4 فیصد زبانیں 96 فیصد لوگ بولتے ہیں اس کے الٹ 96 فیصد زبانیں 4 فیصد لوگ بولتے اور پڑھتے ہیں۔ اسی تعداد کو مدنظر رکھتے ہوئے اقوام متحدہ نے زبانوں کا عالمی دن بھی منانے کا اہتمام کیا ہے(اقوام متحدہ، 2015)  یہی وجہ ہے کہ دنیا میں تمام اقوام کو یہ حق دیا گیا ہے کہ وہ اپنی زبانوں کی ترقی کے لیے تحقیق کا راستہ اپنائیں یہ کیسے ہوگا یہ سوال بہت دشوار تو ہے لیکن ناممکن نہیں۔ دنیا میں انگریزی زبان ترقی یافتہ ہے اس میں کتابوں کا ذخیرہ موجود ہے۔ اور دوسری خوبی اس زبان کی یہ ہے کہ وہ تمام زبانوں کے الفاظ اپنے اندر شامل کرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کتابوں کا بہت بڑا ذخیرہ انگریزی بان میں موجود ہے۔ مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اردو ادب کی اصناف"بک ریویو، رپورتاژ، آپ بیتی، ڈراما، افسانہ ، ناول، انشائیہ اورمضمون" مغربی زبانوں سے آتی ہیں۔ اس کے علاوہ سیاست، جمہوریت، صحافت،  میونیکیشن، اور دیگر سائنسی علوم بھی مغرب سے آئے ہیں۔ (وکی پیڈیا،  2015) جب ہم ان علوم کو ایک عرصہ کے بعد تسلیم کرتے ہیں تو کیوں نہ ہم بروقت ان حقائق کو تسلیم کریں اور ترقی کی اس کو رفتار مزید بہتر بنائیں۔ اردو مادری زبان کے حوالے سے کم لیکن رابطے کی زبان کے حوالے سے پاکستان میں سب سے بولی جانے ولی زبان ہے اور اس کو حکومتی سرپرستی حاصل ہے اس کے باوجود اردو کو کئی دشواریوں کا سامنا ہے۔خصوصی طور سے ریسرچ کے حوالے سے پاکستان میں عمومی طور پر APAکا استعمال معاشرتی علوم اور سائنسی علوم کی تحقیق میں کیا جاتا ہے :
What is APA style? The APA is a world famous research style which produces procedure and rules, traditions for research writing. Style sheet were using in academic and private research, Pakistani's universities using the APA style sheet in the guideline of Higher Education Commission (HEC) APA is an American Psychological Association (APA) is founded in 1929 by a group of psychologists, anthropologists, and business managers. (APA 2010 (

لیکن ادبی اور لسانی تحقیق میں ابھی اس کا مکمل رواج نہیں ہواجبکہ تحقیق کو موثر بنانے اور اسے عالمی سطح پر قابل قبول بنانے کے لیے ابھی کافی محنت کی ضرورت ہے اس سلسلے میں کچھ تعارفی کام ہوئے ہیں جیسے کہ ’’اردو تحقیق جرائد کی انڈکسیشن: تعارف، ضرورت ، اہمیت اور لائحہ عمل‘‘ کے عنوان سے ڈاکٹر حافظ صفوان محمد چوہان نے ایک مقالہ پیش کیا تھا  یہ عالمی کانفرنس " اعلیٰ تعلیم: تحقیقی وتدریسی مسائل اور ان کا حل " کے عنوان سے تھا۔ انہوں نے اپنے مقالے میں حوالہ جات کی ضرورت پر زور دیا تھا (حافظ صفوان محمد چوہان، 2008)اس عالمی کانفرنس میں اعلیٰ تعلیم ، ادب، تہذیب اور بہت سے امور پر بحث ہوئی تھی۔ اسی کانفرنس میں ایک اور مقالہ "اردو زبان میں سلینگ کی اہمیت " کے عنوان سے ڈاکٹر رؤف پاریکھ نے پیش کیاتھا انہوں نے لکھا ہے کہ تقریباً ستر اسی میل بعد زبان کی بولی تبدیل ہوجاتی ہے۔ اس عمل کو انہوں نے لسانی تغیر کہا ہے۔(رؤف پاریکھ، 2008) کمپیوٹر، سمارٹ فون، جو پہلے انفارمیشن ٹیکنالوجی کے زمرے میں ا ٓتے تھے اب انفارمیشن کمیونیکشن ٹیکنالوجی کے نام سے مشہورہورہیہیں۔ پاکستانی زبانوں پر اب ان ایجادات کا اثر روزبہ روز بڑھ رہا ہے۔ جس لے لیے پرانے طریقے کو نئی جہت پر ڈال کر اپنی زبان اور طریقہ تحقیق کو مزید آسان اور قابل عملبناناہوگا۔ جس میں پہلا مسئلہ اردو میں ان پیج اور ایم ایس ورڈ میں تحریری مواد لوگوں کو فراہم کرنا ہے۔
محققین اردو کے لیے وسائل وسہولیات کی فراہمی کے عنوان سے ڈاکٹر صوفیہ یوسف نے بھی اردو تحقیق پر توجہ نہ دینے کا اشارہ کیا ہے اور دشواریوں کا سامنا کرنے کی خبرداری دی ہے۔ ( صوفیہ یوسف، 2008)لیکن دوسری طرف ان تمام تحقیقی مسائل اور دشواریوں نے نئی نسل کو آسانیاں بھی بہم پہنچائیں ہیں ۔ موجودہ دور کو کمپیوٹر اور ٹیکنالوجی کا دور کہا جاتا ہے۔ مطالعے کو کمپیوٹر نے اتنا آسان بنادیا ہے کہ ایک کتاب کے پیچھے اگر ہم امریکہ جانا چاہیں تو مہینے لگ سکتے ہیں لیکن کمپیوٹر کے ذریعے وہ کتاب صرف ایک کلک پر چند منٹوں میں حاصل کی جاسکتی ہے ۔ (WSIS. 2012 )
کمپیوٹر خود کچھ بھی نہیں یہ ایک بجلی پہ چلنے والی (الیکٹرانک) مشین ہے جس سے انسان کام لے سکتاہے۔  کمپیوٹر میں جو کچھ بھی انسان لکھتا ہے کمپیوٹر وہی محفوظ شدہ چیز اگرآپ چاہیں تو واپس دے دیتی ہے اس میں تحریف و اضافے انسان خود کرتا ہے اور اس مشین کو کمانڈ بھی انسان خود دیتا ہے ، یورپ میں انسانوں نے ایسے ہزاروں کمانڈز بنائے ہیں جو ایک سٹائل کو سلیکٹ کرنے کے بعد اس مضمون یا مقالے پر لاگو ہوجاتے ہیں جس کو بندہ کمپیوٹر میں لکھتا ہے اس لیے اس سہولت سے اب اردو کے محققین کو بھی فائدہ اٹھا نا چائیے اور کسی ایک سٹائل شیٹ پر متفق ہوکر اسے لاگو کرنا چاہیے اور کمپیوٹر کے سافٹ وئیر میں محفوظ کمانڈز سے وقت اور محنت کی بچت کرنی چاہیے اورمزید براں  اس سے تمام تحقیقی کام میں یکسانیت بھی آجائے گی اور سائنسی طریقہ سے اس تحقیق سے فائدہ بھی اٹھا یا جاسکے گا ۔
یہ تمام بحث ہمیں اس سوچ پر مجبور کرتی ہے کہ کیا ہم تحقیق میں ترقی کے آرزو مند ہیں؟  اگر ہیں تو پہلا کام یہ کرنا ہوگا کہ ہر سال اپنے اقدامات اور کامیابیوں کا جائزہ لینا ہوگا۔ اگر ہم سالوں سے وہی پرانے طریقے اور مشینیں استعمال کرینگے تو ہم ترقی کی اس رفتار میں دنیا کی دوسرے اقوام سے  پیچھے رہ جائینگے۔
کمپیوٹر کے حوالے سے وینڈو 1995 سے جاری یہ سلسلہ ایک تاریخی تسلسل رکھتی ہے۔ یہی تسلسل اب وینڈو جو مائیکروسافٹ کمپنی کی ہے میں جاری ہے مگر لوگوں تک رسائی کے لیے ایپل کمپنی نے بھی دنیا کی مارکیٹ میں اپنی جگہ بنانے کے لیے یوزر فرینڈلی سافٹ وئیر دئیے جس سے اس تسلسل کو کسی بھی آپریٹنگ سسٹم میں آپ استعمال میں لاسکتے ہیں ۔ اس کے لیے آپ کو صرف ونڈوز اور ان پیج کی تھوڑی سی جانکاری ضروری ہے۔
کمپیوٹر کے سسٹم (ونڈوز) کا استعمال:
کمپیوٹر پہلے پہل صرف حروف لکھ سکتے تھے اور اس میں تصویر دیکھنے کی گنجائش نہیں تھی۔ اس دور میں ڈاس ، ڈبلیو پی، سافٹ وئیر ہوتے تھے اس وقت کمپیوٹر میں صرف لکھائی ہوتی تھی تصویر کی سہولت موجود نہ تھی۔ اس کے بعد  انقلابی تبدیلی ونڈو ز ساتھ لے آئی۔ اس میں تصویر ، ویڈیو، اور آڈیو (آواز ) سنے اور دیکھنے کی سہولت موجود تھی۔ جس نے وی سی آر، ڈی وی ڈی اور ٹی وی کی اہمیت کم کردی۔  پہلی ونڈو 95  ہی تھا اس کے بعد ونڈو 97،  98  ایجاد ہوئی جب ونڈو98 پاکستانی مارکیٹ میں آیا تو پاکستانی ونڈو 95 سے پورے آشنا نہیں ہوئے تھے کہ ونڈو میں، ونڈو 2000، 2001  اور ونڈو ایکس پی اور اس کے بعد ونڈو سیون(7) آئی آج کل زیادہ تر وینڈو ایکس پی ، ونڈو سیون اور بہت کم لوگ ونڈو 8 چلارہے ہیں۔(گوگل، 2015) حسب دستور ہم تیسرے درجے پر پیچھے پیچھے جارہے ہیں اور جذباتی کیفیت میں ترقی کی رفتارمیں تیزی کے دعوے کررہے ہیں۔ آج کل کمپیوٹر میں ونڈو 8 اور ونڈو 10 چل رہی ہے لیکن ہماری تاریخی اور موجودہ ترقی اور سمجھنے کی رفتار یہ بتاتی ہے کہ ہم حقیقت بہت دیر سے تسلیم کرتے ہیں۔ کمپیوٹر کے حوالے سے بھی اور زندگی کے دوسرے شعبوں میں بھی ہماری قومی سمجھ کی رفتار بہت مایوس کن ہے۔ (گوگل, 2015)  اس کے علاوہ میکن ٹاش اور ایپل بھی کمپیوٹر سسٹم کے حوالے سے کام کررہے ہیں۔
وینڈوکا استعمال اور اور ان پیج :
ان پیج ایک ایسا سافٹ وئیر ہے جو اردو زبان کے لکھنے کے لیے استعمال ہو رہا ہے۔ یہ سافٹ وئیر انگلش، اردو، کے علاوہ سندھی، پشتو اور دیگر پاکستانی زبانوں کے لیے کارآمد ہے یعنی ایڈیٹ میں (Preferences, Keyboard Prefrences )کو اینیبل اور چیک کرنے کے بعد کنٹرول سپیس کے ساتھ آپ زبان لکھنے کے لیے تبدیل کرسکتے ہیں۔ اردو اور انگریزی اس میں خود بخود موجود ہوتی ہے۔ کمپیوٹر کے ہر پروگرام کی کچھ اپلی کیشن ہوتی ہیں۔ جس میں پروگرامر اس کی کلر تبدیل کرتے ہیں لیکن بنیادی طور پر پروگرام وہی پرانا ہے۔ ان پیج سافٹ وئیرڈانگولی نے بنایا ہے یہ اس کی کمپیوٹر کے سافٹ وئیر کے حوالے سے بہت بڑی تخلیق اور کاوش ہے لیکن اس کی دادرسی نہ ہونے کی وجہ سے اس کے دیگر ایڈیشن نہ آسکے۔ ان پیج کا پہلا ورژن ونڈو ۹۵ کے لیے بنا جو کامیاب نہ ہوسکا اس میں فائل کھولنے کی بہت سی دشواریاں تھیں پھر دوسرا ورژن ونڈو98 کے لیے بنا  اس میں پہلے ورژن کی بہت سی دشواریوں کی اصلاح کی گئی تھی۔ ونڈو۸ ۹ کے لیے ان پیج کا جو ورژن بن چکا تھا وہ ان پیج 2001 تھا یہ ان پیج کا آخری اور تیسرا یا چوتھا ورژن ہے۔ اس کے بعد ان پیج کا کوئی ورژن نہ آسکا مارکیٹ میں2012 کے ورژن (ان پیج 2002 تا 2016 تک ) موجود ہیں لیکن بنیادی طورپر یہ ان پیج 2001 کا ہی ورژن ہے۔ مختلف پروگرامرز ان پیج کی اپلی کیشن (Application ) میں بنیادی فائلوں میں تبدیلی کرتے کچھ رنگ اور فونٹ  بدل کر اسی پرانے ان پیج کو ہی چلا رہے ہیں جبکہ ان پیج کا یونی کوڈ ورژن بھی قیمتاً دستیاب ہے  اس میں جو دشواریاں آتی ہیں پروگرامنگ کے حوالے سے اس کے لیے فائل نٹ پر مفت ملتی ہیں اور یہ پروگرام اپنی مدد آپ کے تحت چلتا ہے۔ چونکہ یہ مقالہ صرف کمپوزنگ اور حوالہ جات کے حوالے سے ہے اسی وجہ سے ہم پروگرامنگ کی تفصیل میں نہیں جاتے ۔
ان پیج جو اردو کمپوزنگ کے لیے استعمال ہورہا ہے اس کے بنیادی دو ورژن آئے ہیں۔ پہلا ورژن ونڈو95میں استعمال ہورہا تھا۔ اس کے بعد ونڈو98 کے لیے دوسرا ورژن آیا۔ جو اب بھی زیر استعمال ہے۔ ان پیج پر تنقید بھی بہت ہوتی رہی لیکن یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ یہ ان پیج ونڈو 98 کے لیے بنا تھا جو اب بھی وینڈو۸ تک چلا آرہا ہے۔ اس میں جو بھی دشواری آتی ہے اس کے لیے لوگ رضاکارانہ طور پر حل نکال لیتے ہیں۔ انفرادی توجہ کی خاطر اردو کا یہ سافٹ وئیر امیج بیس ہے لیکن کمپیوٹر میں لکھنے والے لوگو ں کے استعمال کا یہی ذریعہ ہے۔ جو اردو اخبارات، رسالے، پرنٹنگ پریس،  شعبہ جات تمام استعمال کرتے ہیں۔ حکومت کی توجہ نہ ہونے کی وجہ سے ایک دن ان پیج کو ختم ہونا ہی ہے لیکن حکومتی سطح پر مقتدرہ قومی زبان نے اردو کے حوالے سے جو اقدامات کئے ان سے عام آدمی تو کیا سرکاری یونیورسٹیوں کے شعبہ جات بھی مستفید نہیں ہیں۔  جب مغرب میں اس بحث نے طول پکڑا کہ انسان کا کام کمپیوٹر کرے گا تو ہمارے ہاں لوگ اس ضد پر اترآئے کہ لوگ مزدوری کیسے کریں گے؟ حالانکہ ایسا کچھ نہیں یہ ہمارے لوگوں کی اپنی محدود سوچ تھی۔ کسی بھی تحقیق میں کمپیوٹر کا مرحلہ ضرور آتا ہے۔ اردو میں بھی یہ مرحلہ اہمیت رکھتا ہے۔ تحقیق کے بعد ایک اہم مرحلہ کمپیوٹر کے استعمال کا آتا جس کے بغیر تحقیقی مقالہ مکمل اور پیش کرنانا ممکن ہے۔ اسی وجہ سے ہر اسکالر اپنی ریسرچ کے بعد کمپیوٹر کو مجبوراً استعمال کرتا ہے تاکہ وہ اپنے تحقیقی مواد کو تحریری شکل دے سکے۔ پہلے یہ کام کاتب کیا کرتے تھے۔ نوے کی دہائی سے پہلے مقالہ کاتب ہی لکھتے تھے اور قلمی نسخے ہی ممتحنین کو بھیجے جاتے تھے "(صابر کلوروی،۲۰۰۶) ۔
ان پیج کے مسائل میں پہلا مسئلہ یہ ہے کہ یہ۹۸ کا بنا ہوا ہے۔ امیج بیس ہے جو وینڈو میں فونٹ ریڈیبل نہیں ہے۔ جس کو مشین ریڈیبل بھی کہتے ہیں۔ یونی کوڈ کا سافٹ ویئر انفرادی طور پر کارآمد ہے لیکن دیرپا اور پائیدار نہیں ہے۔ ان پیج میں ونڈوز میں رجسٹری مسئلہ، فائنڈ، ریپلیس، بہت سے ایسے کمانڈز ہیں جو اب وینڈو۷ اور وینڈو ۸ میں معذور ہوچکے ہیں۔ ٹیبل بنانے اور ایڈجسٹ کرنے کی دشواری بھی ہے۔ان پیج کا جو بھی نیا ورژن آتا ہے اس میں بنیادی مسائل ویسے ہی ہیں جیسا کہ ہندسوں کی ترتیبالٹنا۔ اگر یونی کوڈ سے ان پیج کی تحریر یونی کوڈ سے ورڈ میں لے جائی جائے تو وہاں کچھ الفاظ اور خصوصی طور پر ہندسوں کی ترتیب الٹ جاتی ہے مثال کے طور پر (۱۹۴۷ کو ۷۴۹۱ لکھے گا)۔ اس کا بہترین حل یہی ہے کہ ان پیج میں ہندسے انگلش میں لکھے جائیں۔ لیکن پھر بھی اگر توجہ نہ دی گئی تو مشکل ضرور ہے۔
دوسری طرف مائیکروسافٹ (ایم ایس)ورڈ ہے۔ ورڈ اور وینڈو دونوں ایک کمپنی کے ہیں۔ جس کو ایم ایس ورڈ، ایم ایس ایکسل، ایم ایس پاورپوائنٹ، ہر سافٹ وئیر اپنا اپنا کام کرتا ہے۔ ہر سال اس کا اپنا ایڈیشن آتا ہے۔ جو مزید اپڈیٹ کے ساتھ نیا ورژن کہلاتا ہے۔ اس سافٹ وئیر میں پیکچر، ٹیبل، حساب کتاب تمام کام آسانی سے ہوتے ہیں لیکن انگریزی میں۔ اردو میں پرنٹ نکالنے میں دشواریاں ہیں اس کی بنیادی وجہ حکومتی سطح پر سرپرستی نہ ہونا ہے۔ لیکن ایک وجہ کمپیوٹر میں متوازن الفاظ کے بٹن نہ دبانا ، زیادہ سپیس ، اردو کی بورڈ پر پشتو یا پشتو کی بورڈ پر اردو لکھنا بھی ایک وجہ ہے اور دیگر وجوہات ہیں۔ تحقیق کے حوالے سے مشہور کتاب "تحقیق کا فن، ڈاکٹر گیان چند ، مقتدرہ قومی زبان۔۲۰۰۷" کی ہے اس کے مقابلے میں ہر سال امریکن سائیکولوجیکل ایسوسی ایشن (اے پی اے ) نیا ایڈیشن نکال لیتی ہے اور دنیا کے طالب علموں کو آسانیاں فراہم کرتی ہے۔ یہاں تو ہم آپ کو کتاب کی تفصیل نہیں دے سکتے البتہ کچھ ضروری چیزیوں کاتعارف کراسکتے ہیں جس سے اردو کے طلبا اتنا فائدہ اٹھا سکیں گے کہ حوالہ اور کتابیات کیا ہیں اور اب کیسے ہونے چاہیے۔ اس وقت ایچ ای سی کے اصولوں کے مطابق طریقہ تحقیق اے پی اے رکھا گیا ہے۔ اے پی اے کے حوالے سے اردو کی تحقیق کو کیسے آسان بنایاجائے اس کو تجرباتی عوامل کی روشنی میں بیان کیا جائے گا۔باقی ریسرچ کے اصول میں درج ہے۔
ریسرچ کے بہتر اصول:
اکیسویں صدی کی ابتدا میں تعلیم اور ریسرچ کی دنیا میں بہت تیزی آئی ہے۔ اسی لیے پاکستان میں ریسرچ پر توجہ دی گئی یونیورسٹی گرانٹ کمیشن (یو جی سی)کو ہائیر ایجوکیشن کمیشن (ایچ ای سی ) کا نام دیا گیا۔ ملک کی یونیورسٹیوں کو اب ایچ ای سی گائڈ لائن دیتی ہے اور ایچ ای سی نے پاکستان میں اے پی اے کی سٹائل شیٹ استعمال کرنے کا حکم دیا ہے۔ پاکستان کے تمام یونیورسٹیاں اے پی اے کا طریقہ استعمال کرتی ہیں۔
سائینٹیفک پیپر ، ڈاکومنٹ یاتحریر کے لکھنے کے لیے طریقہ کار اور قوانین امریکن سائیکولوجیکل ایسوسی ایشن (اے پی اے) مہیا کرتی ہے ۔ 1929 میں اس کا باقاعدہ آغاز ہوا۔ (APA, 2010 ) ۔
مثال کے طور اگر کسی مضمون میں اگر کوئی ڈیپارٹمنٹ پی ایچ ڈی شروع کروانا چاہے گا تو اس ڈیپارٹمنٹ میں کم از کم تین پی ایچ ڈی ڈگری ہولڈر ہونے چاہیے۔ کسی بھی سپروائزر کے لیے ضروری ہے کہ وہ کسی بھی یونیورسٹی میں پرمننٹ فیکلٹی ممبر ہو۔ ریسرچ میں کسی سے چوری شدہ مواد نہ ہو۔ جس کو سرقہ کہتے ہیں۔ سرقہ چوری تصور ہوگا اس وجہ سے ڈگری ایچ ای سی واپس لے سکتی ہے۔ جس عنوان پر کام ہورہا ہو اس پر کسی اور نے کام نہ کیا ہو۔ لکھائی فونٹ ، کاغذ 80 گرام اور صفحہ کا سائز  A4 ہو۔ صفحہ کا مارجن تینوں طرف Top: 2.54  cm, Bottom: 2.54  cm, Left: 2.54  cm and Rhght: 3.8 cm   ہو۔ تھیسس کا فارمیٹ ہر یونیورسٹی کا اپنا ہوتا ہے لیکن بنیادی طور پر گائیڈ لائن ایچ ای سی کی ہے۔ ریسرچ کا طریقہ کار Methodology امریکن سائیکالوجیکل ایسوسی ایشن (اے پی اے؛ APA ) کی ہے۔ ہر یونیورسٹی نے فیصلہ کرنا ہے کہ کون سے ایڈیشن کو ریسرچ کے لیے استعمال کرنا ہے۔ یہ امریکہ میں ایک ادارہ ہے جو ہر سال نیا ایڈیشن چھپواتا ہے۔ ہر سال تحقیق میں آسانیاں پیدا کرتا ہے تاکہ ریسرچ اور ریڈر کو دشواریاں اور کنفیوژن نہ ہو۔ ریپٹیشن (دوبارہ لکھائی) نہ ہو، بلفنگ (دھوکہ)نہ ہو، مشکل الفاظ نہ ہوں، ریڈر کو آسان الفاظ میں پڑھانے کا مواد دستیاب ہو۔ (ہائیرایجوکیشن،2016)
مقالے کی اہمیت اور ضرورت :
ہماری تحقیق زیادہ تر حوالوں پر مشتمل ہوتی ہے اس میں تجربات کی شمولیت کم ہوتی ہے۔ خصوصی طور پر بعض مقالوں میں اتنے بڑے بڑے کوٹیشن لیے جاتے ہیں جو بعض اوقات پورے صفحے پر مشتمل ہوتے ہیں۔ اس پوری تحریر کے بجائے اشارہ ہی کافی ہوتاہے اور اسی بات کو اپنے الفاظ میں بیان کیاجائے۔ جب آپ ان کی بات اپنے الفاظ میں بیان کریں گے توپڑھنے والا سہولت سے سمجھے گا لیکن حوالہ دینا ہوگا۔ تحریر میں نام اور سال بریکٹ کے اندر درج ہوگا باقی کتابیات یا ریفرنسز مقالہ کے آخر میں ہوں گے۔
ڈاکٹر گیان چند نے ’’تحقیق کا فن ‘‘  میں لکھا ہے کہ ہر محقق کا فرض بنتا ہے کہ بعد میں آنے والے محققین اور قارئین کی سہولت کے لیے آسانیاں پیدا کرے جس سے آنے والے محققین استفادہ کریں(گیان چند، 2007) یہ کتاب تحقیق کے حوالے سے بہت اچھی کتاب ہے ۔ لیکن یہ پرانی ہے اس کے بعد تحقیق کے نئے انداز ہم شامل نہیں  کر پائے ۔ اردو کی تحقیق میں اس انداز کو تبدیل کرنا ہوگا۔  مقالہ میں حوالہ نمبر دینے اور حوالوں میں ایضاً کی جگہ اب یہ طریقہ استعمال ہورہا ہے۔ مصنف کا نام اور سال بریکٹ میں یعنی (یوسف خشک، 2010)  اس طریقے سے حوالوں کی لسٹ بھی کم ہوگی اور ایضاً کا استعمال بھی کم ہوگا۔ (APA ، 2010 )
’’ معلومات جو آپ کی اختراعات  کے علاوہ کسی اور ذریعہ سے لی گئی ہوں۔ پیراگراف، فقرہ، آئیڈیا اور بلواسطہ یا بلاواسطہ معلومات اس میں مصنف کا نام اور اشاعت کا سال شامل کرنا ضروری ہے۔ ‘‘ (امریکن سائیکلوجکل ایسوسی ایشن،۲۰۱۰)
اردو تحقیق میں ایسے بہت سے مقالے ہیں جن کے حوالے ایک کتاب سے لیے گئے ہیں۔ بہتر یہی ہی کہ اصل تحریر تک محقق پہنچے اور تحریر کا فقرہ، پیرایہ آئیڈیا وہاں سے لیں اور وہی حوالہ دیں۔ (اے پی اے 2010) اس حوالے سے پروفیسر غازی علم الدین نے اپنی کتاب لسانی مطالعے میں لسانی حوالے سے بہت کچھ لکھا ہے لیکن ان کی یہ  مثال کہ: لیے اور لئے میں فرق ہے۔ ’’ لیے  یعنی احمد نے دس روپے لیے (take and receive )اور اور لئے کا مطلب یعنی یہ کتاب احمد کے لئے(for ) ہے۔ (غازی علم الدین2015 ص 124) جس طرح اردو ادب میں الفاظ باریک بینی سے استعمال ہوتے ہیں اس طرح کمپیوٹر کے بٹن بھی اگر غلط استعمال ہوجائیں تو تحریر غلط ہوگی۔ غلط ٹائپنگ ، بٹن یا دوسری زبان کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔ یاد رہے کہ وینڈوز میں کی بورڈ (آلٹ شفٹ ) بٹن سے تبدیل ہوتا ہے اور ان پیج میں اردو سے انگلش کو (کنٹرول سپیس) سے تبدیل ہوتا ہے۔
ان پیج سے ورڈ میں مواد کاپی کرنے سے پہلے یونی کورڈ سے تحریر میں درجہ ذیل مسائل پیدا ہوتے ہیں:
’’ان کی تصا نیف’شہاب نامہ‘،’یا خدا‘،افسانوں ’ماں جی‘، ’اور عائشہ آ گئی‘،’سردار جسونت سنگھ‘، ’نندہ بس سروس‘، ’جلترنگ‘، ’شلوار‘، ’جگ جگ‘، ’ریلوے جنکشن وغیرہ۔ ‘‘(محمود،2015)
     اس کو جدید تحقیقی اصولوں کے حوالے سے اس طرح ہونا چاہیے۔ ان کی تصانیف "شہاب نامہ، یاخدا، ماں جی، عائشہ، سردار جسونت سنگھ، نندہ بس سروس، جلترنگ، شلوار، جگ جگ، ریلوے جنکشن " وغیرہ۔ (محمود, 2015 ص60)
ایک اور مثال:
’’ان کی نظموں میں ’’ قحطِ کلکتہ ‘‘ ، ’’مہاتما گاندھی کا خیر مقدم ‘‘ ، ’’ موتی لال نہرو ‘‘ ، ’’جواہر لال نہرو‘‘ ،’’ نذرِ بجنور ‘‘ ،’’ وغیرہ میں ہنگامی و سیاسی حالات کا ذکر کیا ہے (۲۳۶)
اس کا طریقہ اب یہ ہونا چاہئے: ان کی نظموں (1)میں  قحطِ کلکتہ ، مہاتما گاندھی کا خیر مقدم، موتی لال نہرو، جواہر لال نہرو، نذرِ بجنور وغیرہ۔  یا اس کو انورٹڈ کومہ میں بندکرکے اس طرح:  ’’قحطِ کلکتہ ، مہاتما گاندھی کا خیر مقدم، موتی لال نہرو، جواہر لال نہرو، نذرِ بجنور‘‘ وغیرہ کیونکہ اس میں لفظ ان کی نظموں سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ نظمیں ہیں‘‘ (محمود، 2015  صفحہ 50)
            ایک اور مثال(2): یہ کیفیات ماوراکی نظموں: ’’رقص‘‘ ، ’’ شرابی ‘‘ ، ’’انتقام ‘‘ اور ’’خود کشی ‘‘ میں ظاہر ہوتی ہیں۔ 
بہتر طریقہ: یہ کیفیات ماوراکی نظموں ’’رقص، شرابی ، انتقام اور خود کشی‘‘ میں ظاہر ہوتی ہیں۔ یہ کمپیوٹر میں سپیس ، کرکٹر ، ڑیپیٹ، بٹنوں استعمال کو کم کردیتی ہے یوں گننے میں یہ نہیں آتے ورنہ ہر سپیس سے کمپیوٹر ایک لفظ گنے گا یعنی ہر بٹن ایک کریکٹر ہے جو ایک لفظ کے برابر ہوتا ہے اسی طرح سپیس بھی ایک کرکٹر ہے۔
اس طرح اردو اور پشتو بھی کمپیوٹر کے حوالے سے دو الگ زبانیں ہیں۔ اور کمپیوٹر مشین ہے انسان نہیں جو سوچ سکے آپ جو بھی بٹن تختہ بورڈ میں دبائیں گے وہی کمپیوٹر لکھے گا۔ بٹنوں میں فرق کو آپ نے واضح کرنا ہے۔
درج ذیل لکھائی اردو اور پشتو فونٹ پر مشترکہ طورپرلکھی گئی ہے ۔ جو ہم پڑھ سکتے ہیں لیکن کمپیوٹر ان الفاظ کو بالکل مختلف اور غلط آوازیں دے گا۔ لکھائی سے تو آپ کا کام ہوجائے گا مگر جب یہی تحریر کنورٹ ہوکر کسی اور فارمیٹ میں جائے گی تو اس میں بہت زیادہ  چیزیں بدل جائیں گی ۔ 
یہ اردو کی لکھائی ہے جو ورڈ میں اردو اور پشتو کے فونٹ میں لکھی گئی تھی ۔ کمپیوٹر ان الفاظ کو اس طرح پیش کرتا ہے ورڈ سے یونی کورڈ کے راستے ان پیج میں یہی حال ان پیج سے یونی کوڈ کے راستے ورڈ میں دیگرالفاظ کا بھی ہوتا ہے۔یہ ورڈ سے لائے گئے یونی کوڈ کے راستے اردو کی لکھائی ہے وہاں یہ لکھائی بالکل ٹھیک تھی۔ اسی طرح اردو کے ان پیج میں بھی ٹھیک لکھائی تھی جو کچھ اس طرح بن گئی ہے ۔
"اسلوب?ات کا بن?ادی تصور اسلوب ہے، اسولب (style ) کوئی ن?ا لفظ نہیں ہے مغربی تنق?د م?ں یہ لفظ م?ں یہ لفظ صد?وں سے رائج ہے، اردو م?ں اسلوب کا تصور نسبتا بنا ہے، تا ہم (زبان و ب?ان) (انداز)، (انداز ب?ان) (طرز ب?ان)، (طرز تحر?ر) (لہاء) (رنگ) (رنگ سخن) و غ?ر? اصطلاح?ں اسلوب ?ا اس سے ملتے جلتے معنی م?ں استعمال کی جاتی رہی ہیں، ?عنی کسی بھی شاعر ?ا مصنف کے انداز ب?ان کیخصائص ک?ا ہ?ں، ?ا کسی صنف ?اہیئت م?ں کس طرح کی زبان استعمال ہوتی ہے?ا کسی عدں م?ں زبان ک?سی تھی اور اس کے خصائص ک?ا تھے، و غ?ر? یہ سب اسلوب کے مباحث ہیں، ادب کی کوئی پ?چان اسلوب کیبغ?ر مکمل ن?ںy"[ ۵] بلکہ مسون طریقہ یہ ہے (خان، ۶۱۰۲)
یونی کورڈ والا ان پیج موجود ہے لیکن وہ ورڈ سے صرف یونی کورڈ کے ان پیج میں الفاظ کاپی کرسکتا ہے۔ ان پیج میں ہندسے الٹ لکھے جاتے ہیں اس وجہ سے یہ ایک نہ ختم ہونے والا مسئلہ ہے۔ اردو اور پشتو کے لکھائی کا:
ادبیات م?ں ک?ا جاتا ?ے تو ?ماری مراد ?? ?وتی ?ے ک? کسی کو ?وں سمجھ?ں ک? اس کی ترک?ب کلمات، انتخاب الفاظ و طرز تحر?ر پر غور کر?ں، سبک ادبی فن کارو م?ں صورت ۔
ان پیج کی لکھائی یونی کو ورڈ میں تبدیل کرتے وقت کچھ مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے  اس کے علاوہ جہاں پر کی بورڈ والے بٹن غلط استعمال ہوئے ہیں وہاں یہ نشان غلطی کی نشاندہی کرتے ہیں۔
’’لکھنؤ کا ادبی مرکز، اودھ کے دور عروج م?ں، (میں)  سے (س?) اسی حالات کے ما تحت وجود م?ں آنے لگاتھا، جو شاعر اور اد?ب ??اں آ?ا و? اپنے شعری اور ادبی ورثے کا غرور اپنے ساتھ لا?ا، جو (شاگرد اس نے میں ا کئے ان?وں نے و?ی نوک پلک س?ک?ی، اور ??اں بساط جم گئی، ب?رونی دن?ا کی طرح ادب کی دن?ا بھی جامد حق?قتوں کی دن?ا ن??ں تھی، ک?ا دلی، ک?ا لکھنؤ، سبھی جک? نئے اثرات و م?لانات بھی رونما ?وئے ل?کن ن? ا?سے ک? کب?ی شاعر اس لپ?ٹ م?ں آگئے ?وں)۔ (نمبر ۷)
یہاں بھی غلط بٹن دبانے کی وجہ سے غلطیوں کی نشاندہی اس کے علاوہ کسی دوسری زبان  کے الفاظ یا ان پیج سے ورڈ میں بدلنے کی وجہ سے ہوتی ہے۔  وہ یونی کورڈ میں ایسی غلطیاں ظاہر کرے گا
’’نظمیں  لک??ں ان کے مطالع? سے اس دور انتشار کی تصو?ر ک??نچ جاتی ?ے، آر?ے ?ے، ان کے علاو? ک?تھر اور ٹانڈ? کے نواب بھی شعراءکے قدر دانی تھے ل?کن چ?وٹی چ?وٹی نام ن?اد سلطنت?ں جلد ?ی ختم ?وگء?ں، اور باقی لکھنؤ ?ی ر? گ?ا اور و? سودا جو کسی زمان? م?ں د?لی چ?ونے کو ت?ار ن? تھے بالاخر ف?ض اباد کا رخ کرنے پر مجبور ?وگئے، ?جرت کرنے والے مصروف شعراءکے نام ?? ??ں، خان آرزو، قمر الد?ن منت، م?ر ضاحک، سودا، م?ر سوز اور م?ر حسن ?? سب نواب شجاع الدول? کے ع?د (۵۷ ? ۴۵۷۱) م?ں آئے جبک? م?ر، مصحفی، انشاء، جر?ت، رنگ?ن و غ?ر? آصف الدولہ کے عد  م?ں"‘‘
’’ھ) لکھا ہے۔ پشتو میں ہ ایک ہے لیکن اردو مید دو ہ ھ اسعمال ہوتے ہیں۔اسی طرح کمپیوٹر کے ہاں ٹھیک الفاظ (ؤ، آ،  (?) غلط و?، ء، ا?، کیونکہ غلط تو لفظ ایک ہے لیکن یہ دو کی سے لکھے گئے ہیں ایک کی سے لکھے گئے لفظ ٹھیک ہونگے۔ ‘‘
’’اس زمانہ کے ملک کے مقتدر ادبی رسالے مثلاً ‘‘نصرت’’،’’ نقوش’’،’’ فنون’’، ‘‘اوراق’’، ‘‘ماہِ نو’’،’’ میپ’’،’’ ادب لطیف’’،’’ ادبی دنیا’’،’’ نگار’’ او’’ر نئی قدریں ‘‘
اس زمانہ کے ملک کے مقتدر ادبی رسالے مثلاً ‘‘نصرت، نقوش، فنون،اوراق، ماہِ نو، میپ، ادب لطیف،ادبی دنیا، نگار اور نئی قدریں "
’’ان کے افسانوی مجموعوں  میں  ‘‘ رات کی روشنی ‘‘، ‘‘ کھیل ‘‘، ‘‘ تھکے ہارے ‘‘، ‘‘ ٹھنڈا میٹھا پانی ‘‘ اور ‘‘ چند روز ‘‘ قابل ذکر ہیں‘‘۔
بہتر فقرہ یہ ہے: ان کے افسانوی مجموعوں  میں  ’’رات کی روشنی ،  کھیل، تھکے ہارے، ٹھنڈا میٹھا پانی اور چند روز’’  قابل ذکر ہیں۔
’’ان کے افسانے ‘‘لاشیں’’ اور ‘‘مینوں  لے چلے بابلا’’ بڑے اہم ہیں۔ ان کے افسانوی مجموعوں  میں  ‘‘رات کی روشنی ‘‘، ‘‘ کھیل ‘‘، ‘‘ تھکے ہارے ‘‘، ‘‘ ٹھنڈا میٹھا پانی ‘‘ اور ‘‘ چند روز ‘‘ قابل ذکر ہیں۔ ‘‘
بہتر انداز میں لکھنا: ان کے افسانے ’’لاشیں، مینوں اورلے چلے بابلا‘‘  بڑے اہم ہیں ۔ ان کے افسانوی مجموعوں میں ’’رات کی روشنی ، کھیل ، تھکے ہارے، ٹھنڈا میٹھا پانی اور  چند روز ‘‘  قابل ذکر ہیں۔
مثال کے طور پر لفظ: (فلسفہ? حیات ) بولنے میں تو ٹھیک ہے لیکن کمپیوٹر میں لکھتے ہوئے (فلسفۂ حیات)ہی ہونا چاہیے ورنہ اس کے معنی اور صورت بدل جائے گی۔(APA, 2010 )
نیچے دئیے گئے حوالے ایم ایس ورڈ کے خودکار طریقہ نے دئیے ہیں۔ جو Reference, insert citation, Add new source میں درج کیے گئے اور پھر Bibliography or work cited کلک کرکے حاصل کئے گئے ہیں۔ یہ خود بخود الفابائی ترتیب میں آتے ہیں۔ کمپیوٹر نے (بادشاہ منیر بخاری) کو بخاری، ب۔م۔ اور سال پھر کتاب کا نام، شہر اور پبلشر دیا ہے۔ اگر آپ خود لکھا ہوا چاہتے ہیں تو کرسکتے ہیں۔ کمپیوٹر میں اردو کو ڈیفالٹ میں رکھیں تو اچھے نتائج مل سکتے ہیں ۔ آ پ نام کا جو بھی حصہ لانا چاہتے ہیں اس کے ساتھ کومہ ، لگائیں تو وہی نام آئے گا ۔ لیکن سپیس کے بغیر۔ انگریزی کی یہ دو مشہور کہاوتیں یہاں بہت کارآمد ہیں :
Practice Make a man perfect and reading make a mind perfect .
ایم ایس ورڈ میں درج حوالوں کا نمونہ:
کتاب: بخاری, ب. م. (۲۰۱۶). اردو زبان کے غیر آریائی نظریات، پشاور: بخاری پبلشرز.
جنرل آرٹیکل: چوہان, ح. ص. (۷ تا ۱۱ اگست, ۲۰۰۸). اردو تحقیق جرائد کی انڈکسیشن: تعارف، ضرورت ، اہمیت اور لائحہ عمل. (ب. م. بخاری, مدیر) عالمی کانفرنس مقالات (خیابان) , ۲۷ تا۴۷.
ٹحکیم،, ا. (۲۰۱۰). پشتو غزل پر 9/11کے اثرات. یں 1, پاکستانی زبان وادب پر نائن الیون کے اثرات (صفحہ۱۴۹ تا۱۵۷). پشاور: شعبہ اردو، جامعہ پشاور.
اخبار : شبیرحسین،, ا. (۲۱ اگست, ۶۱۰۲). علاقائی سوچیں! روزنامہ آج , صفحہ ۶.
ویب: گوگل. (۲۵ فروری, ۲۰۱۵). گوگل سرچ انجن. (3)واپس، www.googli.com سے ۲۵ فروری, ۲۰۱۵
مقالہ: محمود, ن. (۲۰۱۵). قدرت اللہ شہاب’’کی نثر کے فنی محاسن تحقیقی وتنقیدی مطالعہ. مقالہ برائے ایم فل .
انٹرویو: صابر کلوروی. (۲۲ دسمبر,۲۰۰۶). اردو تحقیق میں بدلتی ہوئی روایتیں کمپیوٹر کے حوالے سے . (م. مشہود, انٹرویو کنندہ)
ویب : ہائیرایجوکیشن،, ک. (۱۲ جون, ۲۰۱۲). ایچ ای سی. واپس، ایچ ای سی: www.hec.edu.pk سے ۱ جنوری,۲۰۱۶
ویب: وکیپیڈیا. (۰۲ فروری, ۲۰۱۵). وکی پیڈیا. واپس، https://en.wikipedia.org سے۲۰ فروری,۲۰۱۵
اس کے علاوہ اردو ادب کے لیے موزوں طریقہ جو مسائل کم اور مماثلت زیادہ رکھتی ہے وہ شکاگو طریقہ تحقیق سٹائل ہے۔ جو قارئین کے خدمت میں پیش کرتے ہیں:
’’اللہ، حکیم۔  ’’پشتو غزل پر 9/11کے اثرات۔  پاکستانی زبان وادب پر نائن الیون کے اثرات, مرتب:  سہیل احمد، ۹۴۱ تا ۷۵۱. پشاور: شعبہ اردو، جامعہ پشاور, ۲۰۱۰.
امام, شبیرحسین۔ ’’علاقائی سوچیں!‘‘ روزنامہ آج، ۲۱  اگست ۲۰۱۶: ۶۔
بخاری, بادشاہ منیر. لسانیات. پشاور: بخاری پبلشرز, ۲۰۱۶.ص۹۰
چند،  ڈاکٹر گیان۔ تحقیق کا فن۔ اسلام آباد: مقتدرہ قومی زبان،  پاکستان۔  ۲۰۰۷۔
شاہین, روبینہ. ‘‘خودنوشت سوانح عمری کی حقیقت اور ساقی فاروقی کی پاپ بیتی۔ تحقیقی جائزہ.’’ Edited by بادشاہ منیر بخاری. خیابان، ششماہی تحقیقی مجلہ (شعبہ اردو، جامعہ پشاور) خزاں, شمارہ.۲۰۰۷ء  (جون۲۰۱۰):۱۳۷ تا۱۹۸.
کمیشن, ہائیرایجوکیشن،. ایچ ای سی. ۲۱ جون ۲۱۰۲. www.hec.edu.pk (accessed جنوری ۱, ۶۱۰۲).
صابر کلوروی, interview by محمد مشہود. اردو تحقیق میں بدلتی ہوئی روایتیں کمپیوٹر کے حوالے سے (۲۲ دسمبر ۲۰۰۶).‘‘
حاصل بحث:
اس بحث سے اندازہ ہوتا ہے کہ اردو کا طریقہ تحقیق بہت پرانا اور تقریباً دنیا سے کٹا ہوا ہے لیکن ایسا نہیں ہے وقت کے ساتھ بہتری کی سفر کرنے سے یہ ممکن ہے۔ دنیا کے ساتھ شانہ بشانہ چلنے کے لیے کچھ چیزیں زیربحث ہونی چاہیے جس میں نام لکھنا، کی پنچ کرنا،خصوصی طور پر کومہ(، ۔ اور بہت سے نشانیوں) کے لیے نعم البدل یا ان کو اپنے زبان میں جگہ دینے کے لیے حکومتی سطح پر سرپرستی کی ضرورت ہے۔ ہر نئی چیز اپنی پرانی تاریخ کے ہوتے ہوئے آتی ہے ۔ اسی طرح کمپیوٹر بھی پچھلے ایجادات کی نئی شکل ہے۔ شکاگوسٹائل میں نام پورا ،عنوان، سال اور صفحہ نمبر سب کے آخر میں لکھا جاتاہے۔ جب کہ اے پی اے نام، سال، ٹائٹل اور صفحہ نمبر دونوں طریقے ایم ایس ورڈ میں (Refrences, Insert Citation )  ایک مخصوص جگہ کمانڈ کی صورت میں لکھے جاسکتے ہیں جو خودبخود کتابیات الفابائی ترتیب میں مہیا کرتا ہے۔  نام لکھنے میں ہمارے ہاں بہت فرق ہے مثال کے طور پر مغرب میں نام تین حصوں میں لکھا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر بادشاہ منیر بخاری تین الفاظ ہیں لیکن کمپیوٹر  بخاری ، ب۔ م۔ لکھے گا۔ اسی صورت میں ہمارے ہاں کچھ نام ایسے ہیں جو ہم الگ لکھتے ہیں جیسا کہ حکیم اللہ، لیکن حقیقت میں یہ ایک نام ہے۔ جس طرح کمپیوٹر اس کو اللہ، ح  یاحکیم، ا لکھے گا۔ ان تمام مسائل کو حل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ پہلے ہم اس کو استعمال کرنا شروع کریں اس کے بعد اس پر مزیدا سکالرز تفصیل سے بحث کرسکتے ہیں۔

پی ایچ ڈی اسکالر، ڈیپارٹمنٹ آف جرنلزم اینڈ ماس کمیونی کیشن، یونیورسٹی آف پشاور۔
اینڈ نوٹ (End Note ) :
1۔       جب فقرے یا تحریر میں لکھا جائے کہ فلاں کے ان ناولوں میں تو ہر افسانہ یا ناول کو انورٹڈ (’’ یعنی‘‘) میں بند کرنے کی ضرور نہیں بلکہ تمام کو کومہ سے لکھ کر جتنے بھی ہوں ان کو انورٹڈ کومہ میں بند کرسکتے ہیں۔
2۔       مثالیں مختلف تحقیقی مقالوں ، کتابوں اور پی ایچ ڈی کے مقالوں سے لے لی گئی ہیں جن سے کمپوزنگ کے حوالے سے دشواریاں اور سولات پیدا ہوتے ہیں۔یہاں پر یہ سمجھانے کے لیے بطور مثال دی ہے تاکہ نئے اسکالرز کو یہ احساس اور جانکاری ہو کہ غلط بٹن دبانے اور ٹائپنگ سے کتنے مسائل پیدا ہوتے ہیں یہ ریسرچ کے کام کو مزید دشوار بناتے ہیں بعض اوقات پورا کا پورا ڈیٹا بھی ضائع ہوجاتا ہے.
3۔       مزید تحقیق یا معلومات کے لیے : www.apa.org   کو گوگل میں سرچ کیاجاسکتا ہے۔
حوالہ جات
اقوام متحدہ. (21  فروری2015 ). اقوام متحدہ. واپس، www.un.org سے3  جون2016
امریکن سائیکلوجیکل ایسوسی ایشن۔ (2010)
بادشاہ منیر بخاری۔  (2016). لسانیات. پشاور: بخاری پبلشرز.
حافظ ،صفوان محمد چوہان۔ (7 تا11 اگست, 2008). اردو تحقیق جرائد کی انڈکسیشن: تعارف، ضرورت ، اہمیت اور لائحہ عمل. (ب. م. بخاری, مدیر) عالمی کانفرنس مقالات (خیابان) صفحات 27 تا47
حکیم اللہ. (2010). پشتو غزل پر 9/11کے اثرات. یں 1, پاکستانی زبان وادب پر نائن الیون کے اثرات (صفحات  149 تا157). پشاور: شعبہ اردو، جامعہ پشاور.
روبینہ،شاہین. (2010). خودنوشت سوانح عمری کی حقیقت اور ساقی فاروقی کی پاپ بیتی۔ تحقیقی جائزہ. (ب. م. بخاری, مدیر) خیابان، ششماہی تحقیقی مجلہ , خزاں (2007 )،  173 تا189
روف پاریکھ۔  (7 تا11 اگست, 2008). اردو زبان میں سلینگ کی اہمیت. (ب. م. بخاری, مدیر) عالمی کانفرنس مقالات (خیابان) صفحات 210 تا215
شبیرحسین،, امام۔  (21 اگست،  2016). علاقائی سوچیں! ،روزنامہ آج ، صفحہ ۶.
 غازی علم دین ۔(2015) لسانی مطالعے۔ مشال پبلشرز، فیصل آباد۔ ص 124
گوگل. (۲۵ فروری,۲۰۱۵). گوگل سرچ انجن. واپس، www.googli.com سے25  فروری2015
گیان چند ۔ (2007). تحقیق کا فن. اسلام آباد: مقتدرہ قومی زبان، پاکستان۔.
محمود, ن. (2015). قدرت اللہ شہاب’’کی نثر کے فنی محاسن تحقیقی وتنقیدی مطالعہ. مقالہ برائے ایم فل .
صابر کلوروی (22دسمبر, 2006). اردو تحقیق میں بدلتی ہوئی روایتیں کمپیوٹر کے حوالے سے . (م. مشہود, انٹرویو کنندہ)
وکیپیڈیا. (20 فروری, 2015). وکی پیڈیا. واپس، https://en.wikipedia.org سے 20 فروری, 2015
ہائیرایجوکیشن،کمیشن. (21جون, 2016). ایچ ای سی. واپس، ایچ ای سی: www.hec.edu.pk سے 1 جنوری 2016
English Citation :
Rachel Gabelman (2010) Writing in APA Style  (www.apa.org )
American Psychological Association. (2010). The Publication Manual of the American Psychological Association (6th  ed.). Washington, DC: Author. (www.apa.org )
WSIS. (2012). World Summit on the Information Society Stocktaking. In I. T. Union (Ed.), WSIS Stocktaking 2012. Version 1.1. Geneva .
UN (2015) Implementing WSIS Outcomes: A Ten-Year Review (www.un.org )

 

 

 

 

 

 

 

اوپر جائیں  |   پرنٹ کیجئےِ
انگریزی ورژن ای میل چیک کریں مرکزی صحفہ پرنٹ پسندیدہ سائٹ بنائیں رابطہ کیجئے www.shahzadahmad.com www.shahzadahmad.com