شہاب کی نفسیات نگاری
محمدسلیمان

ABSTRACT
The human psyche is the womb for arts and sciences .Therefore there is a deep relationship between a literary work and human nature. The reflections of human psyche could be seen in every masterpiece of literature. The fiction reflects human psyche very clearly in form of its characters as compared to other genres of literature. These characters belong to our society or they have been created by the fiction writer. Qudrat ullah Shahab is one of the great writers of Urdu fiction. In this research paper his different characters have been analyzed by the researcher in the context of psychology .

           انسانی نفسیات کو سمجھنے کے لیے ہر دور میں کوششیں ہوتی رہی ہیں ۔ ماضی کے قصوں ، کہانیوں ، حکایات اور داستانوں کا مطالعہ کیا جائے تو وہاں بھی انسانی نفسیات کی پیش کش کے مختلف زاویے نظرآتے ہیں۔ اسی طرح مختلف ضرب الامثال بھی قدیم انسان کی نفسیات آشکارا کرنے میں معاون و مددگار ثابت ہوتی ہیں۔ اس طرح قدیم یونانی اور دوسرے مغربی فن پاروں کے مطالعے سے بھی فرد کی نفسیات کی مختلف تہیں اور گرہیں کھلتی دکھائی دیتی ہیں۔ لیکن ادب میں باقاعدہ طور پر نفسیات کا آغا ز کولرج سے ہوتا ہے جس نے شاعری کی تعریف کے ضمن میں پہلی مرتبہ قاری پر شعر کے اثرات کے نفسیاتی رخ کو پیش کیا ۔مگر فرائڈ ، ژونگ اور اڈلر کے نظریات نے ادب میں نفسیات کو ایک نئی جہت عطا کی ۔ فرائڈ کا لاشعور کا نظریہ ، ژونگ کا اجتماعی لاشعور کا نظریہ اور اڈلر کا احساس کمتری کا نظریہ ادب پر شدت کے ساتھ اثر اندازہوا اور نہ صرف مغربی ادب میں اس نے ہلچل پیدا کی اور وہاں ڈی۔ ایچ لارنس ، مارسل پروست ، فلابیر ، موپساں ، ایملی زولا ، جمیز جوائس اور دیگر بڑے فکشن نگارلکھنے والے منظر عام پر آئے بلکہ مشرق میں بھی اس کی گونج سنائی دینے لگی اوراردو ادب میں بھی فرد اور معاشرے کی اجتماعی نفسیات میں جھانکنے کی سعی کی گئی ۔
اس سلسلے میں ’’انگارے‘‘ کی اشاعت کو فراموش نہیں کیا جاسکتا ۔ جس میں پہلی مرتبہ پہلو بہ پہلو جنسی محرکات کو بھی داخلی اورخارجی پہلوؤں سے بیان کرنے کی کوشش کی گئی ۔ ترقی پسند افسانے سے پہلے بھی ہندوستانی اساطیر ، داستانوں میں نفسیات کی عکاسی ملتی ہے ۔ اس طرح یلدرم اور پریم چند کے ہاں بھی فرد کی نفسیات کی عکاسی افسانے میں کی گئی ہے ۔ لیکن ’’انگارے ‘‘ ایک باقاعدہ کاوش تھی جس نے اس دور کے افسانہ نگاروں کے ذہنوں کو تبدیل کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ اس بارے میں ڈاکٹر فرمان فتح پوری کا کہنا ہے کہ
’’افسانہ نگاروں کا اصل مقصود، چونکہ اس دُنیا کو، بنی نوح انسان کے لیے زیادہ سے زیادہ حیات افروز اور خوش آئندبنانا تھا، اس لیے اشتراکیت، جمہوریت، آزادی، غلامی، آمریت، مذہبی اجارہ داری، طبقاتی تنگ نظری، نسلی برتری، معاشی جبریت، نفسیاتی پیچیدگیاں، جنسی الجھنیں، معاشرتی ناہمواریاں سبھی زیر بحث آئیں۔ ‘‘(۱)
افسانے میں منٹو ، کرشن چندر ، حسن عسکری ، ممتاز مفتی اور قدرت اللہ شہاب جیسے نام منظر عام پر آئے جس نے فرد کے لاشعور میں جھانک کر ان محرکات کا کھوج لگانے کی کوشش کی جوذہنی اور نفسیاتی سطح پر فرد میں انتشارکا سبب بنتے ہیں۔
قدرت اللہ شہاب نے کرداروں کی بوالعجبیوں اور بعض کجرویوں کا مطالعہ کرکے نفسی پیچیدگیوں کو آشکار کرنے اور ان کی سائیکی کے طلسم خانے کو منور کرنے کی کوشش کی ۔ ان کے ہاں ہمیں افسانے کو شعوری طور پر ’’نفسیاتی ‘ ‘ بنانے کی کاوش نظرنہیں آتی ۔ اس لیے ان کے افسانے کیس ہسٹری نہیں بنتے بلکہ تخلیقی اور فنی سطح پر کرداروں کے نفسیات کو سمجھنے میں مدد گار ثابت ہوتے ہیں۔انہوں نے جنسی و نفسیاتی زاویوں کو اپنے افسانوں میں فنکارانہ انداز میں سمونے کی کوشش کی اور ایک نفسیاتی حقیقت نگار کی صورت میں ابھرے ۔شہاب کے نفسیاتی رجحان کے بارے میں ڈاکٹر سلیم آغا قزلباش لکھتے ہیں:
’’ انہوں(شہاب) نے کرداروں کے نفسیاتی تجزیہ کے ذریعے ان کے بھیتر کے روگ ڈھونڈنے کی سعی کی ہے۔ ’’یاخدا ‘‘ ، ’’گوراں‘‘ ، ’’ پہلی تنخواہ ‘‘ جیسے افسانے ان کی فنی مہارت کو بخوبی واضح کرتے ہیں۔ ‘‘(۲)
کسی بھی افسانے میں نفسیات کو دو طریقوں سے برتا جاتا ہے ۔ پہلا طریقہ تو یہ ہے کہ سماج کے ساتھ فرد کا رشتہ اور سماجی سطح پر ہونے والے حالات و واقعات کی مدد سے فرد کی نفسیات میں تغیر و تبدل کا جائزہ لیا جاتا ہے۔ جب کہ دوسرا طریقہ صرف فرد تک محدود ہے ۔ جس میں جنس کو مدنظر رکھتے ہوئے کردار کے درون میں جھانکنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔
شہاب نے اپنے افسانوں میں انہی دو خصوصیات کو مدنظر رکھا ہے ۔ انہوں نے اپنے کچھ افسانوں میں سماجی سطح پر فرد کا فرد اور فرد کامعاشرہ سے رابطہ واضح کیا اس طرح باہمی اثر پذیری اور عمل و ردعمل کی وجہ سے مختلف حالات و واقعات سے وہ فرد کی سائیکی کے مختلف پہلوؤں کی نشاندہی کرتے ہیں۔ اس طرح سے کردار کااصل روپ منظر عام پر آتا ہے ۔ ان افسانوں میں شہاب صرف فرد کی ذات تک محدود نہیں رہے بلکہ خارجی واقعات کی مدد سے انہوں نے فرد کے اندر پیدا ہونے والے تغیرو تبدل کو معاشرتی سطح پر پرکھا ہے۔ فسادات اور قحط بنگال پر لکھے جانے والے افسانوں میں معاشرتی ، تہذیبی سطح پرفرد کی سائیکی میں ہونے والے اثرات کا جائزہ لیا گیا ہے۔ ہندوستان کا معاشرہ چونکہ ایک جنسی گھٹن کا شکار تھا اس لیے اس کے ردعمل میں جب بھی تہذیب اور معاشرے کی پابندیاں درمیان سے غائب ہوئیں تو معاشرے میں شدید انتشار کی صورت پیدا ہوئی۔ اور فرد نے اپنے جنسی خلا کو کم کرنے کے لیے عورت کو نشانۂ ستم بنایا ہے۔ ’’یاخدا‘‘ کی دلشاد ہو یا پھر ’’غریب خانہ‘‘ کی مختلف خواتین ان سب کے ساتھ ہونے والے سلوک کی یہی نفسیاتی وجہ منظر عام پر آتی ہے ۔  بقول ڈاکٹر عصمت جلیل
’’ انہوں نے قحط بنگال اور تقسیم ہند کو وقوع پذیر ہوتے دیکھا چنانچہ ان کی کہانیوں میں مشاہدہ اور تخیل دونوں استعمال ہوئے۔ ۔۔۔۔ قدرت اللہ شہاب کا طویل مختصر افسانہ ’’یا خُدا‘‘ اسی لُٹتی ہوئی عورت کی کہانی ہے جو مشرقی پنجاب میں سکھوں کے انتقام کا نشانہ بنتی ہے۔ پھر مغربی پنجاب یعنی پاکستان میں اپنوں کا سلوک عورت کی بے امانی کا نقش بہت گہرا کر دیتے ہیں۔ وہ سرزمین جسے وہ مکہ و مدینہ قرار دیتی تھی اس کے لیے جائے امان ثابت نہیں ہوئی ۔۔۔۔ یہ ایک بھر پور طنز ہے، زہر میں بجھا ہوا تیر ہے اور آئینہ ہے ان لوگوں کے لیے جو اپنی سرحدوں میں بھی اپنی بیٹیوں کی حفاظت نہ کر سکے۔ ‘‘(۳)
اس طرح شہاب نے ان افسانوں کی مدد سے یہ بھی بتانے کی کوشش کی ہے کہ سنگین اور مشکل حالات میں انسان خود غرض اور لالچی بن جاتا ہے۔ تقسیم ہند کے بعد پیش آنے والے مشکل حالات ہوں یا پھر قحط بنگال کی صورت میں پیدا ہونے والی قحط کی صورت حال یہاں پر ہمیں کرداروں کی خود غرضی اور ان کی بے حسی صاف طور پر نمایاں نظرآتی ہے ۔ اس لیے تو ’’دلشاد ‘‘ پاکستان آنے کے بعد بھی ظلم و ستم کا شکار ہو جاتی ہے جبکہ کلکتہ کے مہذب عوام بے حس ہو کر بھوکے ننگوں کے لیے اپنے دروازے بند کرکے عورتوں کے جسم سے کھیلنے کے آرزو مند ٹھہرتے ہیں۔ یہ اجتماعی بے حسی در اصل اسی انتشاری کیفیت کے سبب وجود میں آئی ہے جو کسی بھی سانحے یا کسی بھی جنگی صورت حال کے موقع پر دیکھنے میں آتی ہے۔
شہاب نے اجتماعی سطح پر مرد کی نفسیات کا جائزہ لیا ہے اور بتانے کی کوشش کی ہے کہ مرد نے ہمیشہ عورت کو ایک کھلونا اور ایک کمزور ترین مخلوق سمجھا ہے۔ اس لیے ہر جگہ اسے ظلم و ستم اور استحصال کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ خواہ وہ قحط یا فساد کی شکل میں عورت کی آبروریزی ہو ۔ یا گھروں میں اور دفاتر میں کام کرنے والی خواتین کے ساتھ کیا جانے والا سلوک ہو۔ یہاں مرد کی یہی سوچ لاشعوری سطح پرکارفرما رہتی ہے ۔ یاخدا ،سب کا مالک ، غریب خانہ سٹینو گرافر ، نمبر پلیز ، آیا اور تلاش جیسے افسانوں میں یہی نفسیاتی رجحان غالب نظرآتا ہے:
’’ جب وہ پہلے روز دفتر میں آئی تو ایلش بابو سب سے پہلے چیل کی طرح اس پر جھپٹے جس طرح ہر نئی ٹائپسٹ لڑکی پر سب سے پہلے جھپٹنا وہ اپنا حق سمجھتے تھے۔چالیس پینتالیس سال کی مستقل گردش میں ان کے اگلے دو دانت اور سر کے بہت سے بال گر گئے تھے لیکن ان کا ایمان تھا کہ ریٹائر ہونے میں آٹھ دس برس باقی ہیں۔ جب سرکار کو خود ان کی جسمانی اور دماغی حالت پر مکمل بھروسہ ہے تو ان سالی چھوکریوں کے ناک بھون چڑھانے سے کیا ہوتا ہے ۔ ہاتھ لگ جائے تورشوت اور عورت ایک برابر۔‘‘(۴)
مشرقی معاشرے میں عورت کو شجرممنوعہ کی طرح گھر کی چاردیواری میں محصور رکھا جاتا ہے ۔ خاص طور سے دوردراز کے علاقوں میں عورت کا گھر سے باہر نکلنا کسی گناہ سے کم نہیں سمجھا جاتا ۔ ایسے میں مرد کی نفسیات ایک نیا رخ اختیار کرتی ہے۔ گھر میں موجود عام سادہ سی عورت سے اس کا دل بھر جاتا ہے اور وہ چور دروازوں سے باہر جھانکنا شروع کردیتا ہے۔ ایسے علاقوں میں جہاں عورت کو گھر کی چاردیواری میں مقید رکھا جاتا ہے غلطی سے کوئی بے پردہ عورت داخل ہو جائے وہاں مردوں کی حالت دیکھنے کے قابل ہوتی ہے۔ اور پورے شہر میں ہلچل سی مچ جاتی ہے۔ ہر شخص کے منہ سے رال ٹپکنے لگتی ہے۔ افسانہ’’ایک پنکچر ‘‘ بھی ایک ایسے ہی چھوٹے سے شہر سہسرام کی کہانی ہے۔ جہاں رانو کی گاڑی خراب ہوجاتی ہے۔ وہاں موجود تمام مردوں کی تشنہ جنسی آرزوئیں اور خباثت ان کی آنکھوں میں آجاتی ہے۔
’’سہسرام کی کچہری کے احاطے میں جتنے دل دھڑک رہے تھے ۔ وہ سب اپنی اپنی جگہ ہوٹل یا ڈاک بنگلہ یا ریسٹ ہاؤس کا رتبہ حاصل کرنے کی سر توڑ کوشش کرنے لگے اور ان کے کواڑ بے قراری سے بار بار کھلتے تھے اور دامن پھیلا پھیلا کر فریاد کرتے تھے کہ آؤ گھڑی دو گھڑی کے لیے ان ویران کو آباد کرتی جاؤ ۔ اگر یہ لاجواب ساعت بیت گئی تو کون جانتا ہے کہ پھر دوبارہ واپس آئے نہ آئے ۔ اگرتم یوں ہی چلی گئیں ، تو یہ تاریکی جو تمہارے بعد پھیلے گی کبھی دور نہ ہوسکے گی۔‘‘(۵)
یہی نہیں کہ مصنف نے پسماندہ علاقوں سے تعلق رکھنے والے مردوں کی نفسیات کی نشاندہی کی ہے ۔ بلکہ بڑ ے بڑے شہروں میں رہنے والے بورژو ا طبقے کے بارے میں انہوں نے قلم اٹھایا ہے۔ افسانہ آیا میں بنگلوں میں رہنے والے مالدار کرداروں میں بھی اپنے گھر کی عورتوں کی طرف عدم دلچسپی کا اظہار کیاگیا ہے کیونکہ وہ یا تو پردے میں رہتی ہیں یا بدصورت ہیں۔ نام نہاد شرافت کا خول چڑھائے ان کرداروں کی جنسی آسودگی جب اپنے گھر کی عورت سے نہیں ہوپاتی تو اس کے لیے وہ اپنی نوکرانیوں اور آیاؤں کا رخ کرتے ہیں۔
’’ باقی کوٹھیوں میں بھی انسان آباد تھے۔ لیکن ان کی بیویاں بدصورت تھیں یا پردے میں۔ ان کی بیٹیاں شاید ابھی جوان نہ ہوئی تھیں ۔ ان کے خاندان روزے رکھتے تھے یا مندر جاتے تھے ۔ ان کے مرد شراب پینے سے ہچکچاتے تھے۔ ان کی عورتیں غیر مرد کے سائے سے بھی ڈرتی تھیں۔‘‘(۶) 
شہاب کے نزدیک کسی خاص سانحے یا واقعے کا اثر قوم کے شعور و ذہن اور نفسیات پر الگ الگ انداز میں ہوسکتا ہے۔ یعنی ایک ہی واقعہ معاشرے کے افراد پر مختلف طریقوں سے اثر انداز ہوسکتا ہے۔ افسانہ’’ ایک پنکچر ‘‘میں تقسیم کے واقعے کا مختلف طبقات پراثرات کا بھی جائزہ لیا گیا ہے۔ رانو اعلیٰ سوسائٹی کی ایک ماڈرن لڑکی ہے۔اس کے لیے آزادی کا جشن صرف اس لیے اہمیت کا حامل ہے کہ وہ صرف کلکتہ جاکر اپنے منگیتر کے ساتھ ناچ سکے۔ جب کہ خود مصنف کے لیے یہ آزادی کا جشن ہجرت کا پیغام لے کر آیا ہے۔اسی طرح یاخدا میں ہم دیکھتے ہیں کہ تقسیم کے المیہ کے اثرات معاشرے کے مختلف طبقات پر جدا جدا ہیں۔ جو لو گ براہ راست اس واقعے سے متاثر ہو ئے ان کے ذہن و شعورپر اس کے زخم ناسور بن کر نجانے کب تک رستے رہیں گے۔ اور جو لوگ براہ راست اس سانحے سے متاثر نہیں ہوئے ان کے ہاں ایک بے نیازی اور بے حسی کی کیفیت پائی جاتی ہے ۔ان کی معمولات زندگی میں اس واقعے سے کوئی خاص فرق نہیں آیا۔بس اتنے بڑے المیے کے بارے میں اگر ان میں تھوڑا بہت احساس اور ہمدردی کا جذبہ ابھرتا بھی ہے تو وہ بھی سوائے دکھاوے اور جھوٹی شوشا کے سوا کچھ نہیں ہے:
’’بڑے بڑے دبدبے والے رئیس اور نواب آتے تھے ۔ اونچی اونچی کرسیوں والے حکام آتے تھے ۔ سرسراتے ہوئے ریشم و کمخواب میں ملبوس کلیوں کی طرح کھلے ہوئے حسن میں سرشار گلاب اور چنبیلی کے عطر میں مہکی ہوئی بیگمات آتی تھیں۔ وہ سب چوں کے سر پرشفقت کا ہاتھ پھیرتے تھے ۔ عورتوں کے پاس کھڑے ہو کر ان کی اشک شوئی کرتے ۔ ۔۔ پھر سبکسار موٹریں انہیں مہاجر خانہ سے واپس لے جاتی تھیں۔‘‘(۷)
شہاب کے نزدیک انسان میں جنسی رجحانات، میلانات ،کشش اور تسکین پر اس کی سماجی حیثیت بھی کافی حد تک اثر انداز ہوتی ہے۔ یعنی انسانی جنسی رجحانات کا تعلق بھی انسان کے پیشے سے بڑا گہرا نظرآتا ہے۔ ’’آیا‘‘ میں مختلف سماجی اور پیشہ ورانہ حیثیت کے حامل افراد کا ان کے پیشے کے حوالے سے جنسی اور نفسیاتی تجزیہ پیش کیا گیا ہے۔ رمضان خانساما ں ہے وہ اپنی مالکن مسز چیڑ جی کے چمچوں،گلاسوں اور پیالوں پر اپنا لعاب دہن لگا کر جنسی تسکین حاصل کرتا ہے ۔اور جب اس کی بیگم صاحبہ ان چمچوں کو استعمال کرتی ہے تو اس کو یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے وہ مسز چیڑ جی کے عنابی ہونٹ چوم رہا ہے۔ گلابو مہتر اپنے مالک کی بیٹی نعمت آرا پر نظریں جمائے بیٹھا ہے۔ وہ اس کے کموڈ کے ذکر سے ماحول میں رنگینیاں بھر لیتا ہے۔ جب کہ روز محمد ڈرائیور کے لیے عورتوں اور گاڑیوں کا ماڈل میں کوئی فرق نہیں :
’’ بیگم یوسف ۱۹۲۸؁ء تھی۔ مسز رام لال ماسٹر بیوک ، مسٹر چیڑجی کی بیوہ سیکنڈ ہنڈ ٹویٹا ۔ رائے صاحب کی لحیم شحیم بیوی ، ہمبر کا کشادہ سیلون ۔ کسی کو وہ ٹو میٹر کہتا تھا ۔ کسی کو ریس کار ۔ کسی کے بے بی آسٹن ۔ اور آیا کا نام اس نے ٹیکسی رکھا ہوا تھا۔‘‘(۸)
اس افسانے میں مصنف نے یہ حقیقت بھی بیان کی ہے کہ جنسی تسکین کاتعلق صرف اورصرف انسان کے اپنے ذہن اور ماحول سے ہوتا ہے۔ بظاہر وہ چیزیں جو عام حالات میں دوسرے انسانوں کے لیے ناقابل برداشت ہوتی ہیں جنس میں وہ کسی خاص انسان کے لیے نہ صرف قابل برداشت بن جاتی ہیں بلکہ وہ ان سے گونا گوں تسکین بھی حاصل کرتا ہے۔ گلابو مہتر اس کی سب سے بڑی مثال ہے۔ عام طور پر کموڈ کا تصور اور اس کا ذکر تعفن اور گندگی کا ایک سیل بے بہا انسان کے ذہن پر طاری کردیتا ہے ۔ لیکن گلابو مہتر کے لیے اس میں بھی جنسی تسکین کا پہلو موجود ہے :
’’عنابی ہونٹوں ، مخروطی انگلیوں اور لذیذ گالوں کے ذکر میں وہ نعمت آرا کے کموڈ کا قصہ لے بیٹھتا تھا۔ لیکن اس قصے میں بھی رس ہوتا تھا ۔‘‘(۹)
افسانے میں جنس کی پیش کش کا دوسرا طریقہ محض فرد کی ذات تک محدود رہتا ہے۔ افسانہ نگار ذہنی الجھنوں ، نفسی کجرویوں اور پھر ان سے جنم لینے والی کرداری پیچیدگیوں اور ان سے وابستہ علامات سے پردہ اٹھاتا ہے ۔ اس مقصد کے لیے جنس اور اس کے مختلف مظاہر کا مطالعہ ناگزیر ہے اور جنس سے معرا نفسیاتی مطالعہ کرنے والا افسانہ نگار جلد ہی خود کو بند گلی میں محبوس کر لے گا۔ شہاب کے ہاں فرد کی انفرادی نفسیات کی تشکیل میں جنس اور دیگر عوامل پر بھی خامہ فرسائی ملتی ہے۔ انہوں نے انفرادی جنسی تجزیے کے ذریعے کرداروں کے لاشعور میں جھانک کر ان کی شخصیت کے چھپے ہوئے رخ قاری پر آشکار کرنے کی سعی کی ہے ۔
’’جلترنگ‘ ‘میں ایک نوخیز نوجوان خالد کا جنس کی مدد سے نفسیاتی تجزیہ پیش کیاگیا ہے۔ بلوغت کے بعد وہ جنسی جذبے کی شدت سے ناآشنا ہے۔ یہی جنسی جذبہ نکسیر بن کر اس کی ناک سے بہتا دکھائی دیتا ہے لیکن اس کے باوجود بھی وہ عزیزہ کی طرف متوجہ نہیں ہوتا یہاں تک کہ عزیزہ کا لمس بھی اس کے جنسی جذبے کو بیدار کرنے میں ناکام رہتا ہے اور وہ عزیزہ سے دور بھاگتا رہتا ہے۔ دراصل ایسے معاشرے میں جہاں بچوں کو بنیادی جنسی تعلیم سے نا آشنا رکھا جاتا ہے وہاں بچے اپنے اندر ہونے والی جسمانی تبدیلی سے بھی ناآشنا رہتے ہیں۔ یہی حال خالد کا بھی ہے ۔
’’ عزیز ہ نے اپنے پورے جسم کے سارے گداز کوخالد پر مسل ڈالا ، لیکن اس کے درد میں کمی نہ ہوئی ۔ عزیزہ لاکھ کہتی رہی کہ ذرا ٹھہرو ، ابھی ٹھیک ہو جاؤ گے ۔ لیکن وہ جھنجلا کر اٹھا اور کمبل اوڑھ کر دوسرے پلنگ پر جالیٹا ۔‘‘(۱۰)
مگر یہی سوئی ہوئی جبلت اس وقت جاگ اٹھتی ہے جب اچانک وہ عزیزہ کو نہاتے ہوئے دیکھ لیتا ہے۔ جسم کا لمس تو اس کے اندر کے جذبے کو بیدار نہیں کر پاتا لیکن ننگا جسم اس کے ذہن و دماغ میں ہلچل سی مچا دیتا ہے۔ افسانے کے آخر میں مصنف نے خو د لذتی کے بعد طاری ہونے والی کیفیت کی خوبصورت الفاظ میں عکاسی کی ہے ۔کیونکہ کسی بھی جنسی تجربے کی پیش کش میں اس بات کا خیال رکھنا اشدضروری ہوتا ہے کہ تحریر قاری میں جنسی لذتیت بیدار کرنے کی بجائے اس پر نفسیات اور جنس کے نئے راز افشا کرسکے ۔
’’گرتے گرتے اُس کو ایک جھٹکا سا لگا ۔ اس کی آنکھیں دم بھر کے لیے بند ہوگئیں ۔ اسے یوں محسوس ہوا جیسے وہ برفانی چوٹیوں کے ساتھ لپٹا ہوا لٹو کی طرح گھوم رہا ہے ۔۔۔ وہ تڑپ کر پیچھے ہٹ گیا ۔ اس نے سر کو جھٹکا دے کر آنکھیں کھول دیں ، اور جلدی سے تولیہ اُٹھا کر اپنی خشک ناک رگڑنے لگا ۔ اسے شک ہوا کہ شاید نکسیر پھر بہہ رہی ہے ۔‘‘(۱۱) 
افسانہ ’’پھوڑے والی ٹانگ ‘‘ میں جنس کی عمومیت اور یکسانیت کی وجہ سے جنم لینے والے غیر فطری جنسی ردعمل کی نشاندہی کی گئی ہے۔ مہاراجہ کشمیر کے ہاں عورت اور مرد کی کو ئی تخصیص نہیں ۔ پورے ہندوستان سے اس کے لیے عورت اور مردوں کی سپلائی کے لیے سمرقندی جیسے کارندے ہر وقت سرگرم رہتے ہیں۔ مصنف نے صرف ایک پیرا گراف میں اس سچائی کا انکشاف کیا ہے کہ جنسی عمل میں یکسانیت انسان میں جنسی سطح پر تغیر و تبدیل کا سبب بن سکتی ہے اس لیے مہاراجہ کشمیر ایک طرف جنس مخالف سے جنسی تسکین حاصل کرتے ہیں تو دوسرے طرف ہم جنس پرست بن کر منہ کا ذائقہ بدلنے کے لیے بھی ہمہ وقت تیار رہتے ہیں :
’’راج دربار کا دستور تھا کہ ہر سال بہار کے موسم میں سرکار کے مقربین خاص بڑی جستجو  کے بعد مہاراجہ بہادر کے لیے حسین و جمیل مہمان لایا کرتے تھے ۔ حضور مہاراجہ بہادر کی ذات مبارک افلاطونی عشق کی اس منزل پر پہنچ چکی تھی جسے مرزا غالب نے یوں ادا کیا ہے ۔
گر ہاتھ کو جنبش نہیں آنکھوں میں تو دم ہے
رہنے دو ابھی ساغر و مینا میرے آگے
چنانچہ جنسی لحاظ سے ان مہمانوں پر تذکیر و تانیث کی کوئی قید نہ تھی ، جسے ساغر ملتا تھا ، وہ ساغر لے آتا تھا ۔ جسے مینا میسر ہوتی تھی ، وہ مینا حاضر کر تا تھا ۔‘‘(۱۲)
’’ڈاگی ‘‘ ایک نوجوان عورت کی کہانی ہے۔ مصنف نے اس کردار کو شروع ہی سے کچھ اس انداز میں پینٹ کیا ہے کہ اس کے اندر موجود جنسی کشش اور اس پر مستزاد اس کے اندر موجو د جنسی جذبے کی شدت کو قاری پر منکشف کردیا ہے۔
’’ فریدہ جوان اور خوبصورت ہی نہیں تھی۔ وہ جوانی اور خوبصورتی کے احساس سے لبریز تھی۔ لبالب بھرپور۔ شراب کی صراحی کی طرح، جیسے ساقی کی انگلیوں کی ہلکی سی جنبش بے اختیار چھلکا کے رکھ دے۔ ‘‘(۱۳) 
ہر آنے جانے والا اس کی جنسی قوت اور کشش سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا جس کا اس کے گھر والوں کو بھی احساس ہے اس لیے اسے گھر سے باہر نہیں جانے دیا جاتا ۔ مگر اس وقت کہانی ایک نیا موڑ لیتی ہے جب فریدہ کی شادی کلیم اللہ خان لولابی سے کر دی جاتی ہے۔ فریدہ ایک ابلتا ہوا لاوا ہے جب کہ کلیم اللہ برف کی ٹھنڈی سل ۔ وہ نہ صرف جسمانی طور پر کمزور ہے بلکہ جنسی طور پر بھی وہ اس منہ زور گھوڑے کو لگام دینے میں ناکام رہتا ہے ۔ فریدہ اور کلیم اللہ کے درمیان ہونے والے جنسی عمل کو مصنف نے تشبہیات کی مدد سے خوبصورت انداز میں پیش کیا ہے :
’’ لیکن جب جوالا مکھی کی طرح بھڑکتی ہوئی فریدہ اس کی جھولی میں ڈال دی گئی ، تو اس کا دامن جل اٹھا ۔ اگر فریدہ مسکراتی تھی، تو وہ اس کے ہونٹوں کو اپنے ہونٹوں کے درمیان زور سے چوم لیتا تھا ۔۔۔ اگر وہ گاتی تھی ، تو وہ اس کے گلے کا نور نوکِ زبان سے چاٹ جاتاتھا ۔۔۔ لیکن کچھ ایسی بات تھی کہ فریدہ کے سامنے وہ ہمیشہ بے بس اورمجبور ہو جاتا تھا۔ ۔۔ پکے ہوئے آم کی طرح جس میں ذرا سا بوجھ پڑنے سے گھٹلی تو پچ سے دور جا گرتی تھی اور فریدہ کے ہاتھ میں رہ جاتا تھا تو چھلکا ، لچلچا پلپلا چھلکا ، جسے چوسا بھی جائے تو کسیلے گھونٹوں کے سوا اور کچھ پلے نہ پڑے۔‘‘(۱۴) 
جس کے بعد فریدہ شدید جنسی انتشار کا شکار ہوتی ہے۔ اس کے خوابوں میں تشنہ آرزوؤں کی رمق نظر آنے لگتی ہے ۔ مگر ایک دن خواب میں اچانک اس کا کتا ڈاگی آیا جس کی زبان کی چاٹ نے اس کے اندر جنسی جذبے کی شدت کو ایک دفعہ پھر تیز کردیا ۔ اس افسانے کا اختتام بھی خود لذتی پرہوتا ہے۔ لیکن مصنف نے یہاں پر ایک نئی حقیقت اپنے قاری پر منکشف کی ہے۔ فریدہ دراصل کلیم کی جنسی کمزوری کی وجہ سے مرد سے اس قدر بیزار ہو جاتی ہے کہ اس کا یقین مرد کی جنسی قوت پر باقی نہیں رہتا اس لیے وہ خواب سے جاگ جانے کے بعد بھی خود لذتی کے لیے’’ڈاگی ‘‘ اپنے کتے کا سہارا لیتی ہے۔ یہاں وہ تخیلاتی سطح پر کسی مرد کو بھی اپنا ہمسفر بنا سکتی تھی لیکن وہ ایسا نہیں کرتی ۔وہ ڈاگی کو اپنے تخیل میں بسا کر جنسی خو دلذتی سے آشنا ہوتی ہے۔ یوں وہ  اپنی تشنہ آرزوؤں اور جنسی پیاس کی تسکین کرتی ہے۔ مصنف نے یہاں نفسیاتی سطح پر یہ بھی بتانے کی کوشش کی ہے کہ جنس میں روا رکھے جانے تمام غیر فطری طریقے بھی دراصل اسی حقیقت کا مظہر ہیں۔ جب انسان ، انسان سے مایوس ہوجاتا ہے اور اس کی تشفی نہیں ہو پاتی تو اپنے جنسی جذبے کے انخلا کے لیے دوسرے راستے تلاش کرنا شرو ع کر دیتاہے۔
’’دورنگا‘‘ احسا س کمتری سے پیدا ہونے والی فرد کی اندرونی کشمکش اور پھر اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے معاشرتی بگاڑ کی کہانی ہے۔ ضمیر ایک بدصورت کریہہ صورت نوجوان ہے۔ کالج اور ہاسٹل میں بھی اس کی کالی رنگت کا لوگ مذاق اڑاتے ہیں یہاں تک کہ وہ جس لڑکی سے محبت کرتاہے وہ بھی اس کی شکل کا مذاق اڑاتی رہتی ہے :
’’مذاق مذاق میں لڑکے اسے اپنے بستر کی سفید چادروں سے اٹھا دیتے تھے ۔ پختہ رنگ ہے بھئی ۔ پسینے کا ایک قطرہ بھی ٹپک گیا ، تو داغ پڑ جائے گا ! ۔‘‘(۱۵) 
لندن جانے کے بعد ضمیر کی شکل مزید بگڑ جاتی ہے اوراس کے چہرے پر برص کے بڑے بڑے داغ نمودار ہو جاتے ہیں۔ اس طرح سفید اور کالی رنگت کے اس امتزاج سے وہ لوگوں کی نظروں میں دو رنگا بن جاتا ہے۔ عام طور پر لوگ اس کو اسی نام سے یاد کرتے ہیں۔ افسانے کی پیش کش سے یہ محسوس کیا جاسکتا ہے کہ ضمیر انہی باتوں کی وجہ سے شدید احساس کمتری کا شکار ہو جاتا ہے۔ مگر یہی احساس کمتری جب احساس برتری میں تبدیل ہونے کی کوشش کرتی ہے ۔ تو یہاں مثبت رخ اختیار کرنے کے بجائے منفی رخ اختیارکر لیتی ہے۔ جن لوگوں کے ہاں احساس کمتری کا رجحان مثبت طریقے سے احساس برتری میں تبدیل ہوتا ہے تو ایسے میں بہت بڑی بڑی شخصیات جنم لیتی ہیں۔ لیکن اس کے برعکس ضمیر کے ہاں یہ رجحان مکمل طور پر منفی رخ اختیار کرتا دکھائی دیتا ہے۔ چہرے کی رنگت کی بدولت احساس کمتری کا شکار یہ شخص معاشی طور پر معاشرے میں ایک خاص مقام حاصل کرنے کی کوشش کرتاہے جہاں اس کی معاشی حیثیت سے مرغوب ہو کر لوگ اس کا مذاق نہ اُڑائیں۔ یہاں سے دوہری منافقت کا نیا باب شروع ہوتا ہے۔ باربراکے ساتھ شادی اور پھر اس کے بعد ہندوستان واپسی اور پھر دلاور سنگھ کی نوکری میں یہی عوامل کارفرما نظر آتے ہیں۔ یہاں اس کی ظاہری دو رنگی داخلی طور پر بھی ضمیر کو د و رنگا بنا دیتی ہے۔ اور انسان کے لاشعور کے اندر موجود غیرت اور خوداری کے جو اثرات موجود ہو تے ہیں وہ پس پردہ چلے جاتے ہیں۔ ضمیر اپنی بیوی کو دلاور سنگھ کی گود میں ڈال کر خود کمسن لڑکیوں پر ہاتھ صاف کرتا دکھائی دیتا ہے۔ اس کے ہاں نیکی اور بدی کا کوئی معیار باقی نہیں رہا اس لیے وہ بدعنوانی اور بے راہ روی کی دلدل میں دھنستا جاتا ہے کیوں کہ اُسے آگے بڑھنا ہے اور سالوں کی اذیت کا بدلہ اس معاشرے سے لینا ہے :
’’وہ رشوت میں روپیہ بھی لیتا تھا اور عورت بھی ۔ اس کے دستخط آٹھ آنے سے لے کر پانچ ہزار تک بکتے تھے ۔ اس کی رات سڑک کوٹنے والی پہاڑن سے لے کر کسی معتوب اوورسیئر کی سہمی ہوئی دلہن کے ساتھ گزر جاتی تھی ۔ اگر عتاب کے نزول سے عورت یا روپیہ ملنے کی امید ہو تو نازل کرنا بذات خود ایک خوشگوار عمل ہے ۔ ایک ہزار ؟ وہ اپنے عملے سے مطالبہ کرتا تھا۔ایک ہزار ممکن نہیں ۔ بیوی ؟ بیوی نہ سہی، بہو ؟ ماں ؟ بیٹی۔‘‘(۱۶) 
افسانہ ’’جگ جگ ‘‘ فرد کے لاشعور پر اثر انداز ہونے والے معاشرتی اور تہذیبی عوامل کی کہانی ہے ۔ ’’افضل ‘‘ ایک ایسے گھرانے سے تعلق رکھتا ہے جہاں زندگی گزارنے کے اپنے پیمانے مقرر کر دیئے گئے ہیں۔ عورت کے ساتھ تعلق وہاں صرف اور صرف بیوی کی حد تک محدود کردیا گیا ہے۔ شراب ، عورت ، عیش و عشرت اور بے راہ روی جیسے الفاط افضل کے لیے اجنبی ہیں۔ مگر جب وہ اپنی شادی کی شاپنگ کے سلسلے میں کلکتہ کارخ کرتا ہے تو اس کے ذہن میں موجود گناہ و ثواب اور تہذیب و تمدن کے تمام پیمانے متزلزل ہو جاتے ہیں۔ یہاں انسان کی فطرت اپنا کام دکھا جاتی ہے۔ عورت کی کشش انسان کی فطرت کاخاصہ ہے معاشرتی اور سماجی سیٹ اپ اس پر چاہے جتنی بھی پابندیاں کیوں نہ لگا دے اور انسان چاہے کتنا ہے خود کو اس سے بے نیاز کیوں نہ کر لے مرد کی فطرت سے جنس مخالف کی کشش کو ختم نہیں کیاجاسکتا۔ افضل کے لیے جگ جگ کا لفظ ایک چڑ بن جاتا ہے وہ خود سے لڑتا ہے ، عورت سے دو ر بھاگتا ہے مگر اسے فرار کی کوئی صورت دکھائی نہیں دیتی ۔ہر جگہ جگ جگ کی سرگوشی اس کا پیچھا کرتی رہتی ہے۔ افسانے کے آخر میں یہی ذہنی کشمکش اس کو پاگل بنا دیتی ہے اور وہ رکشے والے کو گالیاں دینا شروع کردیتا ہے ۔
’’حرامزادہ ‘‘ افضل کڑک کر بولا ‘‘ دھرم تلے میں تیری ماں ہے سالے ؟ ‘‘ رکشا والے نے زور کی جمائی لی ۔ وہ ایک سدھے ہوئے گھوڑے کی طرح رکشا میں جت گیا ۔ اب اس کی نیند بھی دور ہوگئی تھی ۔۔۔ ’’جگ جگ ، حضور ؟‘‘ اس نے رکشا کھینچتے ہوئے پوچھا  ۔۔۔ ’’ہاں سالے ہاں ۔‘‘ افضل دوبارہ کڑکا ۔جگ جگ ماں نہیں ہے ۔ جگ جگ بہن نہیں ہے ، جگ جگ بیوی نہیں ہے ۔ تو کیا جگ جگ سانپ ہے ؟ وہ اپنے ڈرپوک ضمیر سے لڑتا جارہا تھا ۔‘‘(۱۷)
مجموعی طور پر دیکھا جائے تو قدرت اللہ شہاب نے جنسی اور نفسیاتی الجھنوں کو بڑے فنکارانہ طریقے سے بیان کیا ہے ۔ انہوں نے نفسیاتی زاویے سے کرداروں کے جذبات و احساسات کی نقش نگاریکی ہے اور اپنے افسانوں کی مدد سے انہوں نے معاشرے کی اجتماعی نفسیات اعماق میں جھانکے کی کوشش کی ہے۔
محمد سلیمان۔ لیکچرر، اسلامیہ کالج یونیورسٹی، پشاور

 

 

حوالہ جات
۱۔        اردو فکشن کی مختصر تاریخ ۔ ڈاکٹر فرمان فتح پوری، بیکن بُکس ملتان، لاہور ۲۰۰۶؁ء  ص: ۱۵۴
۱۔        نسائی شعور کی تاریخ اُردو افسانہ اور عورت،  ڈاکٹر عصمت جلیل ، مقتدرہ قومی زبان پاکستان ۲۰۱۲؁ء  ص: ۱۷۰
۳۔       جدید اردو  افسانے کے رجحانات ،  ڈاکٹر سلیم آغا قزلباش ، انجمن ترقی اردو کراچی ۲۰۰۰؁ء ص: ۲۰۲
۴۔         سٹینو گرافر ۔ مشمولہ  سرخ فیتہ،   قدرت اللہ شہاب،  سنگ میل پبلی کیشنز لاہور  ۲۰۰۹؁ء  ص: ۱۱۵
۵۔       ایک پنکچر۔  مشمولہ سرخ فیتہ،         ایضاً       ص: ۱۱۵
۶۔        آیا  مشمولہ سرخ فیتہ۔                ایضاً       ص: ۱۱۷
۷۔         یاخدا  مشمولہ   سرخ فیتہ  ۔  ایضاً       ص: ۴۱ 
۸۔       آیا  مشمولہ سرخ فیتہ  ۔ قدرت اللہ شہاب، سنگ میل پبلی کیشنز لاہور ، ۲۰۰۹؁ء  ص: ۱۷۹۔۱۸۰ 
۹۔          آیا  مشمولہ سرخ فیتہ ۔      ایضاً       ص: ۱۸۰
۱۰۔       جلترنگ  مشمولہ سرخ فیتہ             ایضاً         ص: ۲۰۴
۱۱۔       جلترنگ   مشمولہ  سرخ فیتہ              ایضاً       ص: ۲۰۶
۱۲۔         پھوڑے والی ٹانگ  مشمولہ  سرخ فیتہ ایضاً       ص: ۱۴۷
۱۳۔      ڈاگی   نفسانے            ایضاً        سنگ میل پبلی کیشنز لاہور  ۱۹۹۸؁ء           ص: ۱۰۷
۱۴۔      ڈاگی  نفسانے            ایضاً       ص:۱۱۰۔ ۱۱۱
۱۵۔      دو رنگا  مشمولہ سرخ فیتہ             ایضاً       ص: ۱۹۳
۱۶۔       دورنگا  مشمولہ   سرخ فیتہ   ایضاً       ص: ۱۹۷
۱۷۔      جگ جگ  مشمولہ سرخ فیتہ           ایضاً       ص: ۱۷۵

 

 

 

 

اوپر جائیں  |   پرنٹ کیجئےِ
انگریزی ورژن ای میل چیک کریں مرکزی صحفہ پرنٹ پسندیدہ سائٹ بنائیں رابطہ کیجئے www.shahzadahmad.com www.shahzadahmad.com