زیتون بانو کے ناول ’’  برگِ آرزو ‘‘ کا تنقیدی جائزہ
شاہین بیگم

 

ABSTRACT
Zaitoon Bano is a renowned personality of Khyber Pakhtoonkhawa.She has written her Noval , poetry and short stories  in Urdu and Pashto.Zaitoon Bano has brought the hopes and humilitian,the ambition and the aspirations of the  man and women living in typical pathan society in to the main stream of her first novel. Barge Aarzoo is one her famous novels in which her obervations are deep and meaningful. In this research paper this novel has been critically analyzed in full detail .
اُردو ناول نگاری میں خواتین کے نام ایک اہم ادبی روایت کا درجہ رکھتے ہیں۔ خاص طورپر وہ خواتین ناول نگار جنہوں نے عورت کے مسائل کو بنیادی اہمیت دی،جن میں خد یحہ مستور ،قراۃ العین حیدر ، عصمت چغتائی، رضیہ فصیح احمد ،سیدہ حنا اوزیتون بانو شامل ہیں۔ان میں سے چند نام ایسے بھی ہیں جن کا تعلق صوبہ ٔ خیبر پختونخوا سے ہے ۔ سرحد کی خواتین کی ادبی نثر کا تذکرہ کرتے ہوئے فقیر حسین ساحر لکھتے ہیں :
َََََِِِــ’’ سرحد میں نثر نویسی کا جہاں تک تعلق ہے اُردو میں شعر گوئی بہت کی گئی مگر نثر نگاری کا خانہ اتنا مالامال نہیں جتنی تو قع کی جاسکتی ہے لیکن اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ سرحد میں اُردو نثر کا فقدان رہا ۔سرحد کے اہل قلم نے معیاری غیر معیاری نثری کتابیں ضرور لکھیں اور ہر صنف سخن اور موضوع پر مطبوعہ و غیر مطبوعہ کتابیں دستیاب ہیں۔ ‘‘ (۱)
زیتون بانو کانام اگر چہ پشتو ادب کی دنیا میں شہرت رکھتا ہے لیکن انھوں نے اردو زبان میں بھی ایک ناول لکھاہے ۔ جو ’’برگ آرزو‘‘ کے نام سے  ہفت روزہ تقاضے لاہور میں چھپ چکا ہے۔‘‘(۲) 
             برگ آرزو  ۱۹۸۶ ؁ ء میں اُردو میں شائع ہو ا یہ پشاور ٹیلی وژن پر ’’ دھول‘‘ کے نام سے ڈرامے کی صورت میں قسط وار پیش ہو چکا ہے ’’دھول‘‘ سات اقساط پر مشتمل مبنی سیریل تھی۔‘‘(۳)۔ناول۱۵ابواب پر مشتمل ہے جس کا پیش لفظ احمد سلیم نے لکھا ہے ۔
             زیتون بانو کے بقول زندگی خواہش کی نا تمامی اور تمنا کے مٹ جانے پہ قربان ہونے کا نام ہے اسی وجہ سے یہ کہانی رسومات کے نام پر مجبور اور بے بس لوگوں کے ہاں خودکشی کے احساس کوابھارتی ہے اس کے اندر ایک طرف انسانی قدروں کی سسکیاں موجود ہیں تو دوسری طرف نام نہاد ثقافت اور منفی انا کی تسکین کی خاطر زندگی لٹانے کے حوالے بھی پائے جاتے ہیں۔ برگِ آرزو ایک ایسے معاشرے کی کہانی ہے۔جہاں لڑکیوں کی شادی کے معاملے میں ان سے پوچھ گچھ کی کوئی ضرورت محسوس نہیں کی جاتی بلکہ ایک لڑکی منگنی کے بندھن میں اس وقت بندھ جاتی ہے جب اسے اس رشتے کے تقدس کا شعور حاصل نہیں ہوتا ۔اور پھر آہستہ آہستہ جوا ن ہوتے ہوتے اسے پتہ چل جا تا ہے کہ اسے کس کے ساتھ باندھا گیاہے ۔ایسی صورت میں اکثرایسا ہوتاہے کہ دونوں یا دونوں میں سے کوئی ایک معیار پر پورا نہیں اترتا اوریوں جوان ہوتے ہی انہیں ذہنی کوفت کا سامنا کرنا پڑتاہے ۔یہی معاملہ زیبوکا بھی ہے ۔جو جاوید کی محبت کو دبا کر ساری زندگی اس لئے انتظار کرتی ہے کہ شائد وہ گم شدہ رشتہ اسے کسی جہت سے آواز دے۔
’’ابھی زیبو کی پیدائش میں چند ماہ باقی تھے جب محبت خان کو عنایت کے باپ بننے کا پتہ چلا تو انھوں نے اعلان کیا اگر بیٹا ہوا تو اس کے لئے کریم خان کی چھ سالہ بیٹی شمو کا رشتہ طے ہو گا اور اگر بیٹی ہوئی تو وہ کریم خان ہی کے بیٹے شفیق کی منگیتر ہو گی اور اسی سے بیاہی جائے گی۔زیبو نے جب اس دنیا میں ابھی پوری طرح آنکھ کھولی بھی نہ تھی کہ ماموں کے بیٹے آٹھ سالہ شفیق کے ساتھ بڑی دھوم دھام سے اس کی منگنی کا اعلان کر دیا۔ ‘‘ (۴  )
اردو میں ا فسانہ اور ناول لکھنے والی خواتین میں ایک چیز قدرِ مشترک کے طور پر ابھرتی ہے اور وہ ہے ایک خاص ذہنی سطح کے ساتھ عورت کی مظلومیت کا نوحہ لکھنا۔ عورت کی مظلومیت کے نوحے لکھنے میں یقینا خواتین ادیب حق بجانب بھی ہیں۔ کیونکہ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ باوجود روشن خیالی کے ہمارا معاشرہ تا حال ایک خاص قسم کے جمود کا شکار ہے۔ جس کی شاید ایک بڑی وجہ یہ بھی ہو کہ یہ معاشرہ مکمل طورپر مرد کے حصار میں جکڑا ہوا ہے یہی بات بانو مختلف زاویوں سے دیکھتی اور سمجھاتی نظر آتی ہے۔ دوسرے پدرشاہی معاشروں کی طرح پشتون معاشرہ بھی سخت پدرانہ اقدار میں جکڑا ہوا ہے ۔اور یہاں بھی زندگی کی دوڑ میں عورت مرد سے کہیں زیادہ فاصلے پر پیچھے پیچھے چلی آرہی ہے ۔ناول کے کردار زیبوکو اس تلخ حقیقت کا احساس ہے ۔
’’ زیبو جانتی ہے کہ مرد اب بھی آگے ہے اور اپنے پیچھے دھول اڑا تا اور آگے، اور آگے بڑھتا چلا جا رہا ہیــ‘‘  (۵)
فکری حوالوں کے ساتھ ساتھ فنی اعتبار سے بھی ناول میں کئی ایک خوبیاں موجود ہیں مثلاً اس کا پلاٹ منظم اور گتھاہواہے ۔ تجسس کی فضا شروع سے لے کر اخیر تک قائم ہے واقعات کا اتار چڑھاؤ کہانی میں دلچسپی کا عنصر پیدا کرتاہے عروج پر پہنچتے پہنچتے حالات و واقعات پہلو بدل کر ناول کی کہانی کو نیا رخ دے دیتے ہیں واقعات بالکل فطری انداز میں پیچیدگی اختیار کرتے ہیں۔ تاثر پیداکرنے کے لئے واقعات کو زبردستی الجھایا نہیں گیا آخر میں ناول کا المیہ انجام ناول کے تاثر کو بڑھاوادیتا ہے۔
بانو کہانی کے بنیادی عناصر کو ایک منطقی ربط دینا چا ہتی ہے اس لئے کہ جوکہا نی وہ بیان کرنا چاہتی ہے وہ صوبۂ خیبر پختونخواکی روایات کی ایک اہم کہانی ہے ۔دراصل برگ آرزو واقعات کا نہیں واردات کاناول ہے اس میں کہانی تو ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ حقیقی زندگی کی تصویریں بھی ہیں ان تصویروں میں فو ٹو جیسی نقالی نہیں ہے بلکہ ایسا ہے کہ اس پہ حقیقت کاگمان ہوتا ہے اور یہ واقعی پختونخوا کی حقیقی کہانیو ں میں ایک کہانی ہے۔ بقول احمد سلیم
’’یہ قبائلی زندگی کے بارے میں وہ پروپیگنڈہ تحریر نہیں ہے جیسی تحریرحکو متوں کو’’اٹک کے پاس ‘‘کے حوالے سے اکثر درکار ہوتی ہے اس کے برعکس یہ آزادی کے نغمے جیسی ایک تحریر ہے اور آزادی کا یہ نغمہ پہاڑی سے گرنے والی آبشار کی طرح کبھی کبھی سید ھادل پر گرتاہے۔ یہ پشتون روایات اور معاشرت کی ایک ایسی کہانی ہے جس میں روایات کو چیلنج کرتے ہوئے ’’زیبو‘‘ نے اپنا دل کھول کے ہمارے سامنے رکھ دیا ہے اور حیرت ہے وہاں دردکانام نہیں دیوانگی ہے‘‘ (۶)
            ناول کے پہلے حصے میں کردار غیر محسوس طریقے سے ایک تعارفی شکل میں سامنے آتے ہیں دوسرے حصے میں کرداروں کا تصادم واقع ہوتاہے تیسرے حصے میں کرداروں کی مشکلات کاحل اور پھر انجام کی طرف پیش قدمی نظر آتی ہے ۔ اورآخر میں ایک المیہ اور منطقی نتیجے پر ناول اختتام کو پہنچتاہے۔ برگ آرزو (دھول )میں کئی ایک کردار ہیں جن میں مرکزی کرداروں کے ساتھ ضمنی کردار بھی آتے ہیں ناول کے مرکزی کرداروں میں ’’زیبو‘‘ زیب النساء’’ جاوید ‘‘ شفیق‘‘ ڈاکٹر، ھما، مہر النساء، عنایت وغیرہ شامل ہیں۔ جبکہ ضمنی کرداروں میں، کریم،زبیدہ، صحبت خان، حبیب خان، رضا خان، رقیہ، حکم خان، مہتابہ، شافعہ، افروزہ کے نام لئے جا سکتے ہیں۔ ’’ برگِ آرزو ‘‘ (دھول) کے کردارجامد نہیں بلکہ متحرک ہیں۔جو تغیرات زمانہ کی دھوپ چھاؤں سے اثر لے کر بدلتے رہتے ہیں۔
’’زیتون بانو کے زیادہ کردار چاہے و ہ افسانے کے ہوں ڈرامے کے یا ناول کے کردارہوں اپنے ہی ماحول کی جیتی جاگتی تصویریں ہیں۔ ‘‘(۷)
’’ برگِ آرزو‘‘پر علامتی رنگ بھی غالب ہے یہی وجہ ہے کہ اس کا ہر کردار ایک بھر پور علامت بن کر سامنے آتا ہے جیسے زیبو اور جاوید خیر کی علامت ہے اور شفیق زیبو کا منگیتر شر کی علامت ۔علامت کی تعریف کرتے ہوئے ڈاکٹر اعجاز راہی لکھتے ہیں۔
’’ علامت انسان کے وجود کی لفظی، بصری اور حیاتیاتی ادراک کی وسیع المعاتی تفسیر ہے۔ انسان کی زبان کے فلک الافلاک پر ابھرنے والے پہلے لفظ سے بھی قبل جب دو انسانوں نے اپنے جذبوں کی آبیاری کے لیے ابلاغ اور ترسیل کی ضرورت کو محسوس کیا توعلامت نے نہایت خاموشی کے ساتھ اشاروں کی زبان بن کر رابطے کی ذمہ داریاں

سنبھالیں ابتدائے افریش سے ہی انسان نے اپنے اظہار کے لئے اس طرح علامت کو سہارا بنایا کہ ہبوط آدم کے ساتھ ہی ایک مربوط علامتی نظام بھی تشکیل پا گیا۔‘‘      (۸) 
بانو نے اپنے کرداروں کے ذریعے سماجی زندگی کے کسی نہ کسی پہلو کو بھی نمایاں کیا ہے۔ اس سماجی تاثر کے ساتھ اس نے اپنے کردارں کو انفرادیت بھی عطا کی ہے۔ برگِ آرزو کا ہر کردار اپنی جگہ ایک علامت ہے سمندرخان، اپنی جاگیردارانہ ذہنیت کی علامت بن کرسامنے آتا ہے۔ شفیق شرکی علامت بن کر ظاہر ہوتاہے۔ اور زیب النساء (زیبو) خیر کی علامت بن کر سامنے آتی ہے۔ ڈاکٹر مسیحابن کر اور عنایت ایک مہربان شفیق باپ کے روپ میں دکھائی دیتا ہے۔اس ناول کے کردار تھوڑی دیر کے لیے سامنے آتے ہیں۔ اور بعد میں ایک اکائی میں ڈھلتے ہوئے محسوس ہوتے ہیں۔ جو ناول کے موضوع کی مرکزیت کو تقویت دیتے ہیں۔ اس ناول میں جو کردار سب سے پہلے ہماری توجہ اپنی طرف مبذول کراتا ہے۔ وہ زیب النساء کا کردار ہے۔ یہ کردار ایک طرف نسوانی نفسیات کی مختلف جہتوں سے پردہ اٹھاتاہوا محسوس ہوتا ہے تو دوسری جانب نسوانی ضبط اور تحمل کی علامت بھی بن جاتاہے۔ اس کردار کے دل میں تمناؤں کی ایک دنیا آباد ہے۔ جومستقبل کی حسین ساعتوں سے ہم آہنگ ہونے کی کوشش کرتی ہے۔ لیکن جب روایات اور جذبات میں مقابلہ ہوتا ہے۔ تو زیبو اپنے جذبات کو حالات کی سولی پر چڑھا کو روایات کا ساتھ دیتی ہے۔ وہ بچپن کی منگنی کو اپنے گلے کا ہار اس لئے بناتی ہے کہ یہ فیصلہ ان کے بڑے کر چکے ہوتے ہیں۔ اسے معلوم ہے کہ اس کا منگیتر آوارہ گردی کی بیماری میں مبتلا ہے لیکن چونکہ وہ اس کے ساتھ رشتے میں منسلک ہو چکی ہوتی ہے۔۔۔۔ اس لئے رشتے کے تقدس کو نبھاتے ہوئے حسین مستقبل کے وہ سارے دروازے اپنے اوپر بند کردیتی ہے۔ جو اس رشتے پہ ضرب لگا سکنے کے امکانات پیدا کرسکتے ہوں۔
’’تابانہ بیٹی چھوڑو چائے ہم خود بنالیں گے تم جاؤ زیبو بی بی سے کہو کہ ڈاکٹر جاوید آیا ہے۔۔اور جاوید کے دل میں ایک قندیل سی پوری آب و تاب سے جل اٹھی۔۔۔۔ جاوید کا دل زور زور سے دھڑکنے لگا تھا اور اس نے فارم کے جانے پہچانے دروازے پر دور سے نظریں گاڑ رکھی تھیں۔۔۔۔ تم نے زیبو کو بتایا نہیں کہ جاوید آیا ہے۔؟میں نے بتایا تھا کہ جان بابا بلا رہے ہیں۔ اور کہتے ہیں کہ ڈاکٹر جاوید آئے ہیں۔پھر وہ آرہی ہے۔ خان بابا زیبو بی بی کہہ رہی ہے۔ میں پرائی امانت ہوں ایک نامحرم سے کیسے مل سکتی ہوں؟۔۔۔‘‘(۹)
زیبو کا باطن خیر و شر کی کشمکش کے نتیجے میں اتنا مستحکم ہو چکا ہوتا ہے۔ کہ آرزوؤں کا اضطراب بھی اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا اور اگر بگاڑکا یہ سلسلہ اس کی شخصیت پہ منفی اثرات بھی مرتب کرتا ہے تو وہ اس کا مقابلہ کرنے کے لیے ذہنی
طور پر ہمہ وقت تیار بھی رہتی ہے۔ زیبو کا کردار کسی منافقت کا روادار نہیں ہے۔ زندگی کی تلخ سچائیاں اس کے آغوش میں ناروا تجربے ڈالتی رہتی ہیں۔ لیکن اس کا ماتھا شکن آلود نہیں ہوتا ہونٹوں پرآہیں مچلتی ہیں لیکن وہ آہیں ہواؤں میں تحلیل ہو کر ان کی آنکھوں کی چمک کو ماند نہیں کرنے دیتی درد اسے ہلا کر رکھ دیتا ہے، لیکن اسے منتشرنہیں کرتا بلکہ درد ہی اس کی شخصی تنظیم میں ایک اور منظم حوالے کا اضافہ کرتا رہتا ہے۔ زیبو ایک بیٹی ہے۔ایک عورت ہے اور ایک محبوبہ ہے لیکن یہ تمام رشتے ان کی شخصیت میں کسی منفی حوالے سے دراڑیں نہیں پیدا کرسکتے۔ ہر جگہ وہ اپنی مثال آپ ہیں۔ ہر مقام پروہ ایک دلکشی دکھا جاتی ہے۔ اس کی باطنی شکستگی کی تصویر کشی اس کردار کی سب سے بڑی فنی کامیابی ہے۔جس سے مصنفہ کی مہارت کا اظہار ہوتاہے ۔ ٹوٹ کر بکھر جانا تو اسے منظور ہے۔ لیکن اقدار اورروایات پر سودابازی کرنا اس کے برداشت سے باہر ہے اور اس کی ضمیر کی آواز حادثات کے سمندر میں ڈوب کر بھی نمایاں ہی رہتی ہے۔اس ناول کے کردار ہماری زندگی کے جیتے جاگتے چلتے پھرتے انسان ہیں۔ جن میں برائیاں بھی ہوتی ہیں اور اچھائیاں بھی ان میں تصنع اور بناوٹ نہیں یہی وجہ ہے کہ وہ ہماری زندگی کے زیادہ قریب ہیں۔
شفیق کا کردار روایتی پشتون ولی کی غلط فہمی میں مبتلا کردار ہے۔ اسے اپنے اس تفوق کا حد سے زیادہ احساس ہے جس کا حقیقت میں کوئی وجود ہی نہیں بچپن میں اس کی منگنی زیبو سے طے ہوتی ہے۔ اس عمل میں اس کی خواہشات اور تمناؤں کا کوئی حصہ نہیں ہوتا لیکن جب یہ کردار جوانی کی منزلوں سے گزرنے لگتا ہے تو روایتی انداز سے طے پانے والے اس رشتے کا استحصال کرنے لگتا ہے۔ کچھ اپنے غیر ذمہ دارانہ سرگرمیوں کی بنیاد پر اور کچھ اس احساس کی اساس پر کہ زیبو کی جوانی پر اس کا غیر منقطع حق ثابت ہے۔ یہ کردار اپنے نام کی طرح نرمی، محبت، اور رحم دلی کوعام کرتا نظر نہیں آتا بلکہ اس کی تکذیب کرتا ہوادکھائی دیتا ہے۔ اس کردار کی کمزوری یہ ہے کہ اس کے اندر عرفان اور ادراک کاکوئی دریچہ نہیں کھلتا زمانے کی ہوائیں اسے جہاں لے جاتی ہیں یہ وہاں پر پہنچتا ہے۔ اس کی قوت فیصلہ اس کی ضد اور سر کشی کی لہروں میں چکر کاٹتی رہتی ہے۔ وہ سراپا شرہی شر ہے اور اپنے اعمال سے شر کوتقویت پہنچا رہاہے ۔ آخر میں اس کی کمزوریاں اسے مستقل طور پر زندگی کی ذمہ داریوں سے فرار پر مجبور کر دیتی ہیں۔ اور یہ کردار نشہ اور دواؤں اور غلط قسم کے لوگوں کے ساتھ روابط قائم کرنے کی وجہ سے اپنے ساتھ دوسرے کئی مرکزی رشتوں کو بھی تباہ و برباد کردیتاہے۔
’’ بی بی۔۔۔۔۔ اے بی بی ۔۔۔۔ بڑی بی بی پکڑ کر لے گئے ہیں سب کو لے گئے پولیس ہے تھانے دار ہے بی بی ! عرق ہو گئے۔۔۔۔ بی بی عرق ہو گئے تباہ ہو گئے ہائے اللہ یہ کیسی شرمندگی ہے۔ یہ کس گناہ کی سزا مل رہی ہے۔۔۔۔ میری فرشتہ زیبو بی بی یہ کیاہو گیا؟۔۔۔۔ بیڑا عرق ہو۔۔۔۔ کچھ تو بتاؤ کیا ہو گا ،کیا بکواس کر رہی ہو۔؟‘‘(۱۰)
ایک طرف یہ کردار اپنی ذات کی روشنی سے ہاتھ دھو بیٹھا ہے تو دوسری جانب اپنے خاندان کے ناموس پہ دھبہ لگاتا نظر آتا ہے۔خاص کر زیبو کی زندگی میں اتنی تاریکیاں پھیلا دیتا ہے۔ کہ وہ اپنے دل کی دھڑکنوں کو بھی بھول
جاتی ہے۔
ناول کا تیسر اکردار نائلہ کے باپ کا ہے۔ جو اخلاق کی تمام حدود اپنی طاقت کے سر چشمے کی وجہ سے پار کرتا ہے۔ اور اپنی ہی بیٹی کا دامن تار تار کر جاتا ہے۔ لیکن بانو نے جنس کا ذکر چٹخارہ کے طور پر نہیں کیا ہے۔ وہ اس موضوع کے پس پردہ جنس کے تحت ہونے والی ان ناانصافیوں کو سامنے لاتی ہے۔جو انسانوں کا مقدر بن چکی ہیں۔ بانو کے آوارہ اور منفی کردارطبقاتی اور معاشی ناہمواریوں کو پیش کرتے ہیں لیکن ان ناہمواریوں کو اجا گر کرنا ایک مثبت پہلو ہے۔ دراصل خرابیوں اور برائیوں کا احساس ہونا ہی آدمی کو روشنی دیتا ہے۔ گویا اس کردار کے ذریعے وہ معاشرے کے بھیانک چہروں کو سامنے لانا چاہتی ہیں۔
’’ میرے باپ نے مجھے غسل خانے میں بند کر کے میرے جسم پر پٹرول چھڑکا اور آگ لگا دی۔باپ نے۔۔۔ لیکن کیوں میں اپنے باپ کے بچے کی ماں بننے والی ہوں۔ تھوڑی دیر بعد جب اس پر جھکی تو وہ اذیت کے تمام مراحل طے کر چکی تھی۔ وہ کچھ دیر تک یو نہی اکیلی بے حس وحرکت کھڑی رہی اس نے اس وقت کسی کو بھی اپنی مدد کے لئے نہیں پکارا ہسپتال کی خون اور پیپ کی بھری چادر اس نے نائلہ کے جسم سے ہٹائی تو اس کی نظر گوشت اور ہڈیوں کے اس لو تھڑے پر پڑی جوا گر زندہ ہوتا تو نہ جانے نائلہ اس سے اپنا کون سا رشتہ جوڑتی بیٹے کا یا بھائی کا۔۔۔۔‘‘(۱۱)
جنسی موضوع بانو کے یہاں کسی سماجی تہذیبی ومعاشرتی پس منظر سے نہیں ابھرتا بلکہ یہ محض جسمانی طاقت سے جنم لیتا ہے۔ جیسے کہ نائلہ کا باپ اپنی ہی بیٹی کی عزت تار تار کرنے سے بھی گریز نہیں کرتا۔ ’’ زیبو‘‘ کے ماں باپ کے کردار تھوڑی دیر کے لئے کہانی کے منظر پرابھرتے ہیں۔ لیکن پشتون معاشرے کے گہرے نقوش اجاگر کرتے ہیں۔ جہاں بیٹوں کو پردوں میں چھپا کر پروان چڑھایا جاتا ہے کہ کہیں ان کی آبرو کی آب نہ اتر جائے۔ ناول کے کردار شرم و حیا کے مجسم پیکر ہیں۔ جو پشتون معاشرے اور تہذیب و ثقافت کے معیار پر پورا اترنے کے لئے اپنی جان کی بازی لگا دیتے ہیں۔ زیتون بانو کردارنگاری کرتے ہوئے حفظ مراتب کا خیال رکھتی ہے۔ ہر کردار کو اس کی ذہنی سطح اور معاشرتی مقام کے مطابق پیش کرتی ہے۔
’’ناول ، برگِ آرزو، کا ہر کردار اپنی جنس، عمر، ماحول، حالات اور موقع محل کے مطابق بولتا نظر آتا ہے اگر یہ کردار ایک بے بس مظلوم و مجبور اور پریشان حال ان پڑھ عورت ہے تو وہ اپنی باتوں سے یہی کچھ ثابت کرے گی اور اگر گاؤں کا ظالم، جابر، سخت گیر، خود پسند،خان ہے۔ تو
اس کے لہجے اور گفتگو سے وہی رعونت ٹپکتی ہے ۔ اگر نئے عہد کا باشعور تعلیم یافتہ وسیع قلب و نظر کا جوان کردار سامنے لاتی ہیں تو اس کی بات چیت میں شائستگی اور تہذیب کو ضرور پیش نظر رکھتی ہے۔ اس لئے ان کا ہر کردار اپنی جگہ مکمل اور موثر ثابت ہوتا ہے۔‘‘  (۱۲)
برگِ آرزو میں جاند ار مکالمے بھی پڑھنے کو ملتے ہیں۔ اگر چہ برگِ آرزو کی کہانی زیادہ تر بیانیہ تکنیک میں لکھی گئی ہے لیکن مناسب مقامات پر جاندار مکالموں سے کام لیا گیاہے۔ چونکہ برگِ آرزو کے کردار دیہات کے اجڈ گنوار لوگوں سے متعلق ہیں اس لئے انہیں اسی ماحول میں بیان کرنے کی کوشش کی ہے۔کردار جب بولتے ہیں تو ان کا پورا سماجی پس منظر زیتون بانو کے سامنے ہوتاہے اور وہ اس کا خیال رکھتی ہیں ۔
’’ کوئی بات نہیں بیٹے ! تیرا پھوپھا ہے اگر زیادتی کر بھی لے تو در گزر کر لو۔ ماں نے بیٹے کو تسلی دیتے ہوئے کہا۔ ’’ نہیں ماں شفیق بندے نے کبھی اپنے ماں باپ کی بھی پروا کی ہو تو بات تھی پھو پھا کون ہوتاہے جو بھرے حجرے میں مجھے گھور کر یوں دیکھے‘‘ (۱۳)
اسی طرح زیبو کے رزلٹ کے موقع پر جب زیبو کا نام اخبار میں آتا ہے۔ تو شفیق غصے میں ماں سے یوں ہم کلام ہوتا ہے۔ اس موقع پر شفیق کا اس طرح کا رد عمل پٹھانوں کے ہاں عام ہے۔
’’ ماں !! ماں کہاں ہو؟۔۔۔۔ پھر کیا ہوا! خیریت تو ہے۔یہ دیکھو یہ اخبار اس میں تمہارے اس خان عنایت اللہ خان کی نور چشم کا نام لکھا ہے۔
ہائے اللہ اخبار میں نام کیسا لکھا آیا ہاں ہاں پڑھائی کے بہانے پرائے گھر رہ رہی تھی۔ کوئی کر توت تو کرکے دکھانے تھے نا کیا لکھا ہے اخبار میں! اسی ڈاکٹر کے اس جواں مرگ بیٹے کے ساتھ بھاگی ہوگی منہ کالا کرکے۔۔۔۔ ہاں کل کلاں یہ بھی اخباروں میں لکھادیکھ لوگی بے غیرت بے حیا لوگ ہیں۔ نہ خود شرم آتی ہے۔ نہ دوسروں کی عزت کا خیال رکھتے ہیں قسم ہے پاک رب کی اگر میرے ساتھ منسوب نہ ہوتی تو حجروں میں نچواتے نا تو بھی ذرا بھر افسوس نہ ہوتا بلکہ میں بھی ایک تماشائی بن کر تماشے دیکھا کرتا‘‘    (۱۴)
ہمارے معاشرے میں عورت کی وہی حیثیت ہے جو دورِ جاہلیت میں تھا اس لئے وہ تمام ذلتیں جو جہالت کا لازمہ ہیں اسے برداشت کرنی پڑتی ہیں اس لئے بانو تعلیم نسواں کی حامی ہے۔ تاکہ عورت علم کی روشنی سے مالا مال ہو کر اپنے مقام کو پہچان سکے لیکن صوبہ سرحد کے غیور پٹھان یہ گوارا نہیں کرتے کہ ان کی بیٹیاں زیور تعلیم سے آراستہ ہوں اور
 پھر انہیں اس قسم کے تلخ جملے سننے پڑتے ہیں جو شفیق کے منہ سے زیبو کے لیے نکل رہے ہیں۔
بانو نے اس ناول میں بڑے کٹیلے انداز میں معاشرتی برائیوں کو مکالموں کے ذریعے بیان کیا ہے۔ صوبہ سرحد کی سرزمین پر جنم لینے والی بیٹیاں شرم و حیا کا مجسم پیکرہوتی ہیں ’’ زیبو کے دل میں جاوید کے لئے پیار کے دیپ جل رہے تھے لیکن پھر بھی اظہارکرنے سے کتراتی ہے ۔
’’زیبو ۔     میرا خیال ہے ایسی کوئی بات نہیں ہے ورنہ۔۔۔۔
افروزہ ۔    تم کیا محسوس کرتی ہو جب اس کے قریب ہوتی ہو تمہارا دل زورزور سے دھڑکا کرتا ہے ؟
زیبو ۔     میں یقین سے کہہ بھی تو نہیں سکتی کہ ہا ں اور انکار کا بھی یارا نہیں۔۔۔۔
افروزہ ۔   اسی کو توپیار کہتے ہیں نا؟
زیبو۔     اور یہ کہ ایک لڑکی کا جوآئیڈیل ہوا کرتا ہے۔ بس اس پر وہ پورا پورا اترا ہے۔
اس نے کبھی بھی کچھ بتلایا تو نہیں۔۔۔۔‘‘       (۱۵)
اسطرح بانو کا ہر کردار مکالمہ نگاری کا حق ادا کرتا ہے۔’’ برگِ آرزو‘‘ (دھول) میں جہاں کرداروں سے مکالمے کہلوائے گئے ہیں وہاں بانو کا اسلوب کرداروں کے حسب حال ایسا اندازاختیار کر لیتا ہے۔ جو نہایت فطری معلوم ہوتا ہے۔ بانو کے ہاں سادگی، سلاست، متانت اور براہ راست اظہار کی صورت ملتی ہے ۔بانو کاانداز بیان عام فہم ہوتا ہے وہ صوبہ ٔ خیبر پختونخوا سے تعلق رکھنے اور پشتو زبان بولنے کے باوجود پشتو الفاظ استعمال کرنے سے گریز کرتی ہے۔ بانو نے اس ناول میں مبالغہ آرائی سے کام نہیں لیا ہے۔ بانو کا ناول ’’برگِ آرزو‘‘ کی عبارت پر زور اور دلچسپ ہے ناول میں ترشے ہوئے اور پر معنی جملے استعمال ہوئے ہیں۔ اس نے جس خیال کو پیش کرنا چاہا ہے۔ اس کی مکمل تصویر قارئین کے سامنے پیش کی ہے۔
’’ صوبہ سرحد کے میدانی علاقوں میں جس طرح بہار کا موسم اس خطہ کو جنت کا نمونہ بنا دیتا ہے۔ ہر طرف سبزہ ہی سبزہ اورپھول ہی پھول نظر آتے ہیں۔ اسی طرح اس علاقے کی خزاں بھی اپنے جلو میں اُداسی کی ایک ایسی لہر لئے نمودار ہوئی ہے جس سے چرند پرندتک متاثر نظر آتے ہیں۔ اور اگر اس موسم میں کوئی سیاح اس طرف نکل آئے تو اُسے یہ تمام شمال مغربی صوبہ واقعی بے برگ و گیاہ علاقہ ہی نظر آئے۔‘‘       (۱۶)
بانو نے جذبہ اور تخیل کو پورے شدت کے ساتھ بیان کیا ہے۔ بانو اسلوب بیان میں نفیس مضمون کا زیادہ خیال رکھتی ہے محض لفاظی اور عبارت آرائی وہ کبھی نہیں کرتی عبارت کی ظاہری آرائش سے ہمیشہ احتراز کرنے کی کوشش کرتی ہے یہی وجہ ہے کہ اس کی عبارت سادہ اور صاف ستھری ہوتی ہے۔ لیکن ایک خامی اسلوب بیان میں بہر حال ہے

کہ ان کی نثرچاہے ناول میں ہو یا افسانوں میں وہ روکھی پھیکی ہوتی ہے اور اس میں وہ رنگینی اور دلکشی مفقود ہوتی ہے جو قاری کو بار بار پڑھنے پہ آمادہ کرے۔
ان کا لب ولہجہ سادہ لیکن دھیما اور خوبصورت ہے۔ بانو غیر ضروری طویل جملوں اور غیر متعلق ثقیل الفاظ سے گریز کرتی ہے۔ کیونکہ وہ جانتی ہے کہ ان کے استعمال سے کوئی خاص فائدہ نہیں ہوتا الٹا ایک طرح کے بناوٹ کا احساس ہوتا ہے۔ جس سے تحریر کا حسن ماند پڑنے کااحتمال ہوتا ہے۔
’’ دراصل میر من بانو کا لفظ کی حرمت کاپورا پورا احساس ہے۔ نیز وہ الفاظ کے مزاج اور درد و بست سے بھی بخوبی واقف ہیں وہ موضوع اور ماحول، نیز کرداروں کی نفسیات کو دیکھ کر زبان اور اسلوب کا استعمال کرتی ہیں۔ غیر ضروری تفصیلات میں نہیں پڑتیں بلکہ موزوں ترین الفاظ مناسب انداز میں پیش کرکے اپنی تحریر کو چارچاند لگا دیتی ہیں۔‘‘     (۱۷)
جناب ڈاکٹر سلیم اختر بانو کے انداز تحریر کے حوالے سے لکھتے ہیں۔
 ’’ زیتون بانو کے فن کی ایک اور اہم خصوصیت یہ ہے کہ اسے جہاں بات کہنے کا سلیقہ آتا ہے وہاں وہ بات چھپانے کا گر بھی جانتی ہے‘‘       (۱۸)
’’برگِ آرزو‘‘میں منظر نگاری کے بعض ایسے دلکش نمونے ملتے ہیں۔ جس سے منظر روشن اور تابناک ہو جاتا ہے یقینا قیام پاکستان کے بعد صوبہ سرحد میں جو خواتین ناول نگارا بھر کر سامنے آئی ہیں۔ ان میں زیتون بانو کا نام سر فہرست ہے۔
صوبہ سرحد کا خوب صورت چٹانوں اور وادیوں کا رومان پر ور خطہ جو چترال سے ڈیرہ اسماعیل خان تک سینکڑوں میلوں پر پھیلا ہواہے۔ یہاں لق ودق صحرا کے ساتھ برف پوش کہسار بھی ہیں جس میں بے شمار گاؤں آباد ہیں ان میں بعض مقامات ایسے بھی ہیں جہاں تک پہنچنا اگر ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے۔ یہاں کے باشندوں کے دل خلوص اور محبت کے گہوارے ہیں۔ ناول ’’برگِ آرزو‘‘ میں اس حسین خطہ کی پھولوں کی خوشبو بھی ہے اور مضبوط ہاتھوں میں تھامے ہوئے تلوار بھی۔ فطری مناظر کی تصویرکشی کے ساتھ ساتھ ناول میں انسانی جذبات کی محاکات نگاری بھی کمال کی ہوئی ہے ۔قربانی اور ایثارکا جذبہ ، غصہ ، نفرت ، عداوت اور محبت جیسے جذبات بڑی کامیابی کے ساتھ مختلف کرداروں کے روپ میں مجسم ہوکر سامنے آئے ہیں اور انہیں الفاظ کا خوبصورت پیکر ملاہے ۔اس کے ساتھ ساتھ دیہات کے لوگوں کے ہاں مذہبی جذبات اور رسومات اور عبادات اور دوسرے مذہبی مشاغل او ر جذبات کا اظہار ناول میں کامیابی کے ساتھ ہو اہے۔بعض مقامات پر دیہاتی زندگی کے حقیقت پسندانہ رنگ بڑی خوبصورتی سے اجاگر کئے گئے ہیں ۔

’’جمعہ کا دن تھا مہر و فجر کی نماز پڑھ کر ابھی جائے نماز سے نہیں اٹھی تھی وہ تسبیح پڑھ رہی تھی قرآن پاک چبوترے کے سامنے بنائے گئے طاقچہ میں رکھا تھا اس طاقچہ میں کچھ پارے بھی پڑے رہتے تھے اورساتھ ہی رحل بھی۔ پارے فارم میں کام کرنے والے بچے اورلڑکیاں پڑھا کرتی تھیں۔ مہرو اور زیبو فارغ اوقات میں گاؤں کی ان عورتوں کو بھی قرآن پاک پڑھاتی تھیں جو پچپن میں سعادت سے محروم رہ گئی تھی۔‘‘         (۱۹)
گاؤں میں قرآن شریف ایسے ہی طاقچے میں رکھے جاتے ہیں۔ اورنچی جگہ پر رکھنا قرآن مجید کے احترام کے زمرے میں آتا ہے۔
گویا بانو نے منظر نگاری میں دیہات کے رسم رواج اور ان کے صوم و صلوٰۃ کی پابندی کے متعلق بتایا ہے۔ کہ کس طرح یہ لوگ اپنے اللہ کے احکامات کی بجا آوری کرتے ہیں۔ برگِ آرزو  میں جگہ جگہ منظر نگاری کے بہترین نمونے سامنے آتے ہیں ۔
’’ ایک روز صبح ہی سے بونداباندی ہو رہی تھی مارچ کے مہینے کے شروع کے دن تھے۔ پشاور میں موسم بہار اپنے پورے عروج پر تھا۔ فضا میں ہر طرف رنگا رنگ پھولوں کی خوشبو مہک رہی تھی آڑو، ناشپاتی، خوبانی اور آلوبخارے کی شاخیں سفید اور پیازی پھولوں سے لدی پھندی چھک جھک جاتی تھیں۔ ’’ جاوید ولا‘‘ پر بھی بہار اپنی پوری رعنائیوں کے ساتھ جلوہ گر تھی۔ بڑے لان میں اردگرد خوشنما پھولوں کے تختے سجے ہوئے تھے ہری ہری گھاس خوب اُگی ہوئی تھی۔ ھما کی خوش ذوقی کے سبب جاویدولا میں گھاس کا ایک تنکا بھی ترتیب سے باہر نہیں بڑھ سکتا تھا اس لئے پورالان ہر امخملیں فرش نظر آیا کرتا تھا۔ اور جو بھی ایک بار نرم نرم گھاس کے اس خوبصورت لان میں کرسی رکھ کر بیٹھ جاتااس کااٹھنے کو دل ہی نہ کرتا۔‘‘ (۲۰)
برگِ آرزو میں موقع کی مناسبت سے ایسی منظر کشی کی گئی ہے۔ کہ کرداروں اور ناول کی مجموعی صورت حال سے اس کا ربط بالکل قدرتی اور نہایت فطری و داخلی معلوم ہوتا ہے۔ منظر نگاری میں بانو کو کمال حاصل ہے۔ وہ الفاظ کا بے پناہ ذخیرہ منظرنگاری پر صرف کرتی ہے۔ کبھی کبھی یہ مناظر اتنے طویل ہو جاتے ہیں۔ کہ اکتا ہٹ سی محسوس ہونے لگتی ہے۔ ایسا محسوس ہوتاہے۔ جیسے ناول کی فضا ٹھہر گئی ہو۔ لیکن طویل منظر نگاری کے مرحلے سے جب ناول حقائق زندگی سے پردہ اٹھاتا ہے۔ تو قاری کی اکتاہٹ دلچسپی میں بدل جاتی ہے۔
بانو نے اس ناول میں علاقائی ثقافت اور روایات پیش کرنے کی شعوری کوشش کی ہے۔ پختون کیا سوچتے ہیں کیا محسوس کرتے ہیں؟ ان کی دوستی کیا ہے اور دشمنی کس نوعیت کیاہے؟ وعدے کا مقام ان کے لئے ایمان کی طرح کیوں ہے۔؟ غیرت کا تصور ان کے ہاں کیا ہے؟ محبت اور نفرت میں کس حد تک جاتے ہیں۔ مہمان نواز ہیں مگر اپنی ضد کے پکے ہیں جان دیتے ہیں مگر اپنی بات سے ہٹنا ان کے لئے ممکن نہیں ہے۔ بانو نے ان حقائق پر لکھا اور خوب لکھا۔
برگ آرزو اپنی معنویت کے اعتبار سے معاشرے کی گردوغبار سے جنم لینے والی حقیقت ہے جو گرد وپیش میں زندگی کے خدوخال کولپیٹ کر زندگی کے آلام ومعائب کو نمایاں کرتی ہے اس میں محض زندگی کی بے یقینوں کی داستانیں رقم نہیں ہیں بلکہ وہ پہلو بھی ہیں جو زندگی کو نہ صرف ناقابل برداشت بناتے ہیں بلکہ بعض مثالی پہلوؤں کو بھی اس طرح ابھارتے ہیں کہ زندگی گزرانے کا حوصلہ بیدار ہوتا ہے اور عزائم کی دنیا پر نئی بہار آتی ہے۔ تمناؤں کی شاخوں پر نشاط و مسرت کے پھول کھلنے لگتے ہیں اور حیات کے ملال دبے دبے سے محسوس ہوتے ہیں۔یہ ناول اپنی ساخت اور ہئیت کے حوالے سے جدت کا کوئی دریچہ وا کرتے نہیں دکھائی دیتا لیکن اس کی داخلی فضا اس قدر مربوط مناسب اور پشتون ثقافت میں رچی بسی ہوئی ہے کہ پڑھتے ہوئے ایک تازگی اور تازہ کاری کا احساس ہوتا ہے۔ قاری محسوس کرتا ہے کہ وہ ایک ایسی فضا میں آگیا ہے جہاں عدم تحفظ کی آندھیاں چلتی رہتی ہیں۔ لیکن رشتوں کا اعتبار کسی نہ کسی صدا پر بے یقینی کی اس کیفیت کو کم سطح پر لے جاتا رہتا ہے اس ناول کا پلاٹ تناسب سے عبارت ہے اس کے کردار اپنی سچائی کے مابین کسی تضنع اور معنویت کو آنے نہیں دیتے اس کی زبان محبت کی زبان ہے اور اس کا مقصد حیات بڑا واضح اور غیر مہم ہے۔ یہ ناول پوری ہنرمندی کے ساتھ اپنے موضوع کو اول تاآخر نبھاتا ہے جو ایک قابل ستائش حوالہ ہے ۔
شاہین بیگم پرنسپل باچا خان گرلز ڈگری کالج پشاور

 

 

 

 

 حوالہ جات
۱)         فقیر حسین ساحر ، آہنگ کراچی ۔۱۰ تا۱۵ مارچ ۱۹۸۴ء۔ص۲۱
۲)        رضاہمدانی ایک ادبی عہد ایک تحریک۔ ڈاکٹر اظہار اللہ اظہار ۔  نیو اتفاق پرنٹنگ پریس صدف پلازہ محلہ جنگی پشاور ۔ فروری ۲۰۰۶
۳)          اباسین یوسفزئی،زیتون بانو شخصیت اور فن۔ اکادمی ادبیات اسلام آباد ۔۲۰۰۲  ۔ ص۷
۴)        زیتون بانو۔برگ آرزو ۔سنگ میل پبلیکیشنز ۱۹۸۴ء۔ ص ۲۲
 ۵)        اباسین یوسفزئی،زیتون بانو،شخصیت اور فن۔ اکادمی ادبیات اسلام آباد ۔۲۰۰۲ ء۔ص۱۴۴
۶)        زیتون بانو  ۔برگ آرزو ۔سنگ میل پبلیکیشنز ۱۹۸۴ء۔ ص۹
۷)        اباسین یوسفزئی۔زیتون بانو ،شخصیت اور فن ۔ اکادمی ادبیات اسلام آباد ۔۲۰۰۲  ۔ ص۷۳
۸)        اعجاز راہی،اُردو افسانہ میں علامت نگاری ۔ ریز پبلیکیشنز راولپنڈی ۲۰۰۴ء۔ ص ۲۰
۹)        برگ آرزو ۔ زیتون بانو ۔سنگ میل پبلیکیشنز ۱۹۸۴ء۔  ص۱۱۲
۱۰)       ایضاً ۔  ص۲۴۳                   ۱۱)       ایضاً ۔  ص۱۹۲                    ۱۲)       ایضاً ۔   ص۲۱۱
۱۳)       ایضاً ۔   ص۱۳                     ۱۴)       ایضاً ۔  ص۱۳۹         ۱۵)           ایضاً ۔  ص۱۳۹
۱۶)       ایضاً ۔ ص۱۴۷        ۱۷)       ایضاً ۔ ص۲۱۶         ۱۸)       ایضاً ۔ ص۱۱۲
۱۹)       ایضاً ۔ ص ۱۵۹                    ۲۰)     ایضاً ۔ ص ۱۱۲

 

 

 

 

 

 

 

اوپر جائیں  |   پرنٹ کیجئےِ
انگریزی ورژن ای میل چیک کریں مرکزی صحفہ پرنٹ پسندیدہ سائٹ بنائیں رابطہ کیجئے www.shahzadahmad.com www.shahzadahmad.com