اردو زبان و ادب اور کبیر داس کا حصہ
تطہیر زہرا

ABSTRACT
Kabir was born and brought up in a mulsim family by Niru and Nima. He was a poet, musician, and an important sufi born at Hidostani soil. He was equally respected by Hindus, Muslims and Sikhs. He was a narrow minded Muslim. Although a debate about the religion of Kabir confused the Hindostani researchers, but he played a pivotal role in promoting the language and literature in his initial stages THE Urdu Dohas written by Kabir das has a key impotance in Urdu poetry .In this research paper the researcher has discussed his religion, family background, sufistic thoughts and his Urdu Dohas in full detail .

           کبیر داس اردو میں تصوف کی دنیا کا بہت بڑا نام ہے ۔اردو زبان کے آغاز کے زمانے میں جن صوفی شعرا نے تصوف کے فلسفے کو عام فہم انداز میں گلی گلی اور گھرگھر پہنچانے کی کوشش کی ان میں کبیر داس کا نام بہت اہم ہے ۔ان کے دوہے سادہ اور عوامی لب و لہجے کے حامل تھے ۔اس لیے کہ ان کو احساس تھا کہ ا ن کا مقصد شاعری میں اپنے علم کی نمودنہیں بلکہ اپنے مقاصد کا حصول ہے ۔جس کی دھن ان کے سر پر سوار تھی ۔اس سے پہلے کہ کبیر کی ادبی خدمات کا احاطہ کیا جائے ضروری معلوم ہوتاہے کہ تصوف کے معنی اور مفہوم پر تھوڑی سی روشنی ڈالی جائے اس لیے کہ اس کے بغیر کبیر پر بات کرتے ہوئے تشنگی کا احساس ہوگا۔
عربی زبا ن میں ثلاثی مجرد کے باب سے مشتق اسم صوف کے ساتھ فارسی قاعدے کے تحت لاحقہ نسبت ـ"ی" ملانے سے لفظ صوفی وجود میں آیا عربی کے مشہور وضخیم لغت لسان العرب سے تو معلوم نہیں ہوتا کہ عربی میں لفظ صوفی کا مروجہ معنوں میں سب سے پہلا استعمال کب ہوا۔ (۱) تاہم تاریخی اصول کی بنا پر مرتبہ اردو لغت کے مطابق اردو میں لفظ صوفی سب سے پہلے "دیوان حسن شوقی " 1564میں ملتا ہے۔ (۲) قرآن مجید میں لفظ صوفی کہیں موجود نہیں ہے لغوی لحاظ سے یہ لفظ صفا سے کسی طور مشتق نہیں ہو سکتا البتہ قرآن مجید میں صوف کی جمع اصواف (۳)بمعانی اون کو صرف ایک آیت میں آیا ہے (سورۃ النحل آیت ۸۰)۔ تاہم علامہ وحید زماں کی کتاب 2005  "لغات الحدیث " جلد دوم میں صوفی اور اس سے متعلقہ الفاظ کی موجود حدیث کی کتابوں میں اس لفظ کے ہونے کا ثبوت ضرورملتا ہے ۔ (۴)سید احمد دہلوی 1898کی مشہور زمانہ لغت "فرہنگ آصفیہ"جلد سوم میں لفظ صوفی کے حوالے سے دو ایسے پہلوؤں کا تذکرہ ہے جس پر متاخرین مثلاً مولوی عبد الحق اور سید اعجاز حسین وغیرہ نے کوئی روشنی نہیں ڈالی ۔ مولوی سید احمد دہلوی نے لکھا ہے کہ یہ لفظ"صوفہ"سے منسوب ہے جواہل تجرد میں سے زمانہ جاہلیت میں ایک فرقہ تھا کہ وہ کعبہ اور خلق اللہ کی خدمت کو اپنا فرض جانتا تھا پس اہل تصرف ان سے منسوب ہوئے (۵) معلوم نہیں سید احمد دہلوی نے اس فرقے کے بار ے میں کہاں سے معلوم کیا ۔ البتہ امام راغب اصفہانی 1971 "مفردات القرآن" میں صرف اتنا لکھا ہے کہ خانہ کعبہ کے خدام کو بھی صوفہ کہا جاتا تھا کیونکہ وہ کعبہ سے اس طرح چمٹے رہتے تھے جیسے بھیڑ پر اون چمٹی رہتی ہے۔ (۶)دوسری بات جو سید احمد دہلوی نے اس ذیل میں کسی حوالے کے بغیر تحریر کی۔ کہ اولاد ومعتقدانِ وصفی جو کہ ایک درویش صوفی الا مذہب تھا جس کی اولاد سے فارس میں خاندان صوفیہ چلا ہے (۷)اور جنہوں نے تشیع اورتصوف دونوں کو ایران میں فروغ دیا جب کہ عرب میں تشیع وتصوف دو متوازی بلکہ عقائد اور اعمال میں کئی مقام پر ایک دوسرے کے مقابل اورمخالف نظریے تھے اگر چہ اب بیشتر علمائے لسانیات لفظ صوفی کو صوف سے مشتق مانتے ہیں اور یونانی لفظ "سوف" سے مغرب لفظ صوف کے وجود میں آنے پر علماء و محققین کا کم اتفاق ہے تاہم اس ضمن میں ڈاکٹر سید شبیہ الحسن رضوی نے نئے سوال اٹھائے ہیں جن کی تفصیل ان مختصر جائزہ میں ممکن نہیں ۔ تصوف کے اسلامی اور غیر اسلامی ہونے کی بحث کی طرح حضرت کبیر کا عقیدہ بھی تاحال ہندوؤں اور مسلمانوں کے مابین تصفیہ طلب مسئلہ ہے۔
اردو دائرہ معارف ِ اسلامیہ (2004ھ، 1425ء بار دوم) کے مؤ لفین نے دائرہ المعارف کی جلد 17میں کبیر کے متعلق T.W Arnold کے مقالے کا ترجمہ درج کر دیا ہے (۸) اور فاضل مؤ لفین کی طویل فہرست اس مقالے میں اپنی تحقیق سے کوئی اضافہ نہیں کر سکی ۔ ممکن ہے دائرہ المعارف کے بعض مؤ لفین بالخصوص محمود الحسن عارف کے مذہبی تعصبات حضرت کبیر کے متعلق تحقیق و تفصیل کے ساتھ کچھ لکھنے میں حائل رہے ہوں ۔تاہم کبیر کو ہندو کبیر داس اور مسلمان شاہ کبیر اور حضرت کبیر کے نام سے یاد کرتے ہیں انہیں بھگت کبیر اور سنت کبیر داس بھی کہا جاتا ہے فارسی دان انہیں صوفی کبیر کہتے ہیں۔
کبیر بنارس میں پیدا ہوئے جسے آج کل وارنسی کہا جاتا ہے کبیر کے سال پیدائش اور وفات دونوں میں اختلاف ہے بعض مورخین جیسے لنڈا ہیز اور سکھ دیوسنگھ (۹) 2002اور نرمل داس (۱۰) 1991کبیر کا زمانہ حیات 1398تا 1448مانتے ہیں جبکہ کچھ دیگر مورخین جیسے ڈیوڈ لورنزین کبیر کی زندگی کا دورانیہ 1440سے 1518تک تسلیم کرتے ہیں (۱۱)۔ ڈاکٹر راج بہادر گوڑکے مطابق کبیر جولائی 1398میں پیدا ہوئے (۱۲) ڈاکٹر راج بہادر نے کبیر کی پیدائش کی یہ تاریخ سر دار جعفری کی ایک تحقیق کی روشنی میں لکھی ہے۔(۱۳)
کبیر کی حیات و مرگ اور عقائد کے گرد افسانوں اور اساطیر ی روایا ت نے حقائق کو مسخ یا مبہم بنا دیا ہے ڈاکٹر راج بہادر گوڑ جیسے معروف مصنف بھی یہ بیان کرتے ہیں کہ کبیر ایک بیوہ برہمن کے ہاں پیدا ہوئے اور اس نے بدنامی سے بچنے کے لئے اپنے نومولود بچے کو ندی کے کنارے چھوڑ دیا (۱۴) ایسے میں ایک مسلمان جوڑے نعیمہ اور نیورو کا ادھر سے گزر ہوا اور انہوں نے اسے اٹھا لیا لنڈا ہیز 2002کی رو سے بعض روایات کے مطابق کبیر کی برہمن ماں غیر شادی شدہ تھی اور کبیر اس کی ہتھیلی سے پیدا ہوئے تھے (۱۵) تاہم فرہنگ کبیر کے مولٔف اور ممتاز محقق پروفیسر انصار اللہ 1998کے مطابق اس بات میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ کبیر بنارس کے ایک مسلمان گھرانے میں پیدا ہوئے ۔ پروفیسر محمد انصار اللہ نے اس ضمن میں (سری گرو گرنتھ )صاحب میں سری روی داس جی کا کبیر کے گھرانے کے بارے میں بیان ثبوت اور دلیل کے طور پر پیش کیا ہے ۔
جا کہ اید بکراید کل گوئرے بدھ کرمانی آہ سیکھ، سید، پیرا
جاکے باپ ویسی کری، پوت ایسی سری، تہورے لوک پر سدھ کبیرا
ترجمہ:     جس کے عید بقر عید خاندان گائے ذبح کرتے ہیں شیخ شہید پیر کو
جس کا باپ ویسا ہی کرتا تھا بیٹا ایس ہی عمل کرتا ہے وہی سے مشہور زمانہ کبیر
پروفیسر محمد انصار اللہ مزیدلکھتے ہیں کہ اس قطعی اور غیر مبہم بیان میں کوئی اشارہ ایسا نہیں ہے ۔ کبیر لے پالک تھے ان کا گھرانہ مفلس کم حیثیت اور نیچ تھا اس شعر میں جو کچھ کہا گیا ہے کہ اس گھرانے کے لوگ عیدبقر کے تہوار مناتے تھے۔ گائے کی قربانی کرتے شیخ شہید اور پیر کو مانتے تھے اور کبیر اپنے والد کے طریق پر عمل پیرا تھے (۱۶)۔ پروفیسر محمد انصار اللہ درج بالا تحلیل و تجزیہ کے بعد تحریر کرتے ہیں کہ قربانی صرف اس مسلما ن پر واجب ہے جو شرعی اعتبار سے مالدار ہے چنانچہ کبیر کے گھرانے کا صاحب حیثیت اور مالدار ہونا یقینی ہے ۔ شیخ ، شہید اور پیر کو ماننے سے مراد یہ ہے کہ اس خاندان کے افراد مسلمان بزرگوں سے عقیدت رکھتے تھے اور غالباً کسی سلسلے میں بیعت بھی رکھتے تھے ۔ پروفیسر محمد انصاراللہ کے بیان سے ثابت ہوتا ہے کہ کبیر ایک مسلمان صوفی تھے ۔ ان کے اس نتیجے کو بھی منطقی طور پر رد نہیں کیا جا سکتا اس لیے کہ کبیر کا عمل بھی اس طریق کے مطابق تھا ۔سری روی داس کے اس واضح بیان کو جوسری گرنتھ صاحب میں محفوظ ہے جھٹلانے کے لئے ذہن آمادہ نہیں ہوتا اس لیے کہ اس کے خلاف کوئی معاصر روایت موجود نہیں ہے ۔ (۱۷)
درج بالا بحث کے بعداس نتیجے تک پہنچاجا سکتا ہے کہ کبیر کے مذہبی عقائد بہر حال اس امر پر اثر انداز نہیں ہوتے کہ اردو زبان کی ابتدائی نشوونما میں انہوں نے گراں قدر خدمات انجام دیں ۔
صوفی بزرگ مذہبی حوالوں سے وسیع المشربی کا ثبوت دیتے چلے آئے ہیں ۔وہ ذات پات اور مذہب کے تنگ دائرے سے ہٹ کر سوچتے تھے ۔یہی وسیع المشربی انہیں بلاکسی مذہبی تفریق و امتیاز عوام کے قریب جانے پر آمادہ کرتی تھی ۔اور اسی وجہ سے انہوں نے اردو ادب کی نشوونما کے لیے ایک مضبوط بنیاد فراہم کی ۔اردو کی نشوونما میں صوفیاکے کردار پر بات کرتے ہوئے معرو ف ترقی پسند نقاد پروفیسر سید احتشام حسین ’’اردو ادب کی تنقیدی تاریخ‘‘ کے پہلے باب "اردو زبان و ادب کی ابتدا"میں لکھتے ہیں :
" بارہویں اور تیرہویں صدی میں کئی صوفی فقیر ملک کے کونے کونے میں پھرتے دکھائی دیتے ہیں یہ بات بلا تکلف مانی جا سکتی ہے کہ وہ عام لوگوں کے سامنے فارسی اور عربی نہ بولتے ہونگے بلکہ کسی ایسی زبان سے کام لیتے ہونگے جو ان کی سمجھ میں آسکے ہم یہ بھی سمجھتے ہے کہ اس وقت کوئی ایسی بنی بنائی زبان رائج نہ رہی ہوگی۔ جس میں وہ مذہب اور تصوف کے عمیق خیالات آسانی سے ظاہر کر سکیں اس لئے ان کو مجبوراً بہت سے عربی فارسی کے الفاظ بول چال کی زبان میں ملانا پڑتے ہونگے اس طرح کے بہت سے فقرے اور کئی نظمیں ملتی ہیں جن میں ہم اس اردو کی کھوج کر سکتے ہیں جو بن رہی تھی ۔ اس بارے میں سب سے پہلا نام بابا فرید شکر گنج کا ملتا ہے ـ"(۱۸)
اس بیان سے یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ کبیر داس کا شمار اس دور کے بڑے صوفی شاعروں میں ہوتاہے۔ان جملوں کے بعدپروفیسر احتشام ان صوفی بزرگوں کا نام لیتے ہیں جن کا ذکر مولوی عبد الحق نے کیا ہے تاہم وہ یہاں کبیر کا تذکرہ نہیں کرتے البتہ اسی کتاب کے تیسرے باب میں لکھتے ہیں :
"اردو کے بعض علماء کا خیال ہے کہ شمالی ہند میں اردو کی ترقی کا ذکر کرتے ہوئے ہمیں جزئز قطبن ، کبیر ، میرا اور تلسی داس کی تخلیقات کے کچھ حصوں کو اردو کا ہی ابتدائی روپ سمجھنا چاہئیے ۔۔۔۔مذکورہ شعراء کے بارے میں جسے واقفیت حاصل کرنی ہوگی وہ ہندی ادب کی تاریخ میں ان کی حیات اور کارناموں کا مطالعہ کر سکتا ہے "(۱۹)
لیکن یہ جتنے بھی نام گنوائے گئے ہیں ان سب میں حضرت کبیر کا کردار زیادہ ہمہ گیراور بڑی حد تک فعال ہے۔ ان کے اشعار نے اردو کی ابتدائی صورت متعین کرنے میں بنیادی کردار اداکیا۔حضرت کبیر کا مشہور شعرجو مولوی عبد الحق نے بھی درج کیاہے کچھ یوں ہے:
میری  بولی  پوربی  تا  ہی  نہ  چھنبے کوئے
کہ  میری  بولی  سو  لکھے  جو  پورب  کا ہوئے
مولوی عبد الحق نے بجا طور پر لکھا ہے :
"لیکن ان کی پوربی گو سائیں تلسی داس یا ملک محمد جائسی کی سی پوربی نہیں ہے جن کے کلا م کو سمجھنے کے لئے شرح کی ضرورت ہے۔"
اردو زبان برصغیر کے طول عرض میں سمجھی جاتی ہے اور کبیر کے کلام کا کمال بھی یہی ہے۔
ڈاکٹر عزیر اسرائیل اپنے ایک مضمون ’’کبیر داس ‘‘ ایک عظیم دانشور خصوصی مطالعہ یکم جون 2016 میں لکھتے ہیں:
’’کبیر کا زمانہ سکندر لودھی کا زمانہ تھا اس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس نے کبیر کو تین دفعہ ہلاک کرنے کی کوشش کی ایک بار آگ دوسری بار پانی اور تیسری بار ہاتھی سے کچل کر لیکن اس بیان کی حقانیت پر مکمل طور پر بھروسہ نہیں کیا جاسکتا۔‘‘(۲۰)
کبیر بنیادی طور پر ایک سادھو تھا جس طرح مسلمان صوفیا نے لاشعوری طور پر اردو ادب کی نشونما میں اہم کردار ادا کیا اسی طرح ان میں سے ایک کبیر داس بھی تھا۔ہمیں سوچ کے اس تنگ دائرے سے باہر نکلنا چاہیے کہ کبیر ہندو تھا یا مسلمان بلکہ ہمیں یہ دیکھنا چاہیے کہ انہوں نے اردو ادب کی ابتدائی نشونما میں دوسرے صوفیاء کے شانہ بشانہ کھڑے ہوکر مثبت اور فعال کردار ادا کیا ہے۔کبیر کی ادبی خدمات کے بارے میں واضح طور پر اتنا کچھ نہیں ملتا اور ہم پورے یقین کے ساتھ ان کا کوئی ادبی مقام متعین نہیں کرسکتے۔ اس ضمن میں ڈاکٹر عزیز اسرائیل لکھتے ہیں:
’’دراصل سادھواپنی اصل کسی پر ظاہر نہیں کرتے تھے اس وجہ سے کبیر نے اپنے بارے میں کبھی صاف طور پر کچھ نہیں کہا۔۔۔۔ کبیر داس ہمیشہ نام ونمود سے دور رہے ان کی ذات سے بہت بعید ہے کہ انہوں نے اپنی کرامات کا ذکر خود کیا ہو۔ ان کے چاہنے والوں نے خود سے شاعری کرکے ان سے منسوب کردیا ہے اس وجہ سے ان کے کلام کا ایک بڑا حصہ مستند نہیں ہے اہم بات یہ ہے کہ کبیر داس نے خود کوئی کتاب نہیں لکھی انہوں نے اپنی زبان میں اپنے شاگردوں کو دو ہوں کی شکل میں جو کچھ بیان کیا اس کو ان کے شاگردوں نے ان کی وفات کے بعد لکھ دیا۔‘‘(۲۱)
کبیر کے زمانے میں اردو زبان کی صورت سنسکرت اور اردو کے بین بین تھی اور اس زبان کی عکاسی ہمیں کبیر کے دوہوں میں ملتی ہے ان کی زبان سادہ اور ابتدائی دور کے زیادہ قریب نظر آتی ہے۔ کبیر کا زمانہ چونکہ ذات پات کے بکھیڑوں میں الجھا ہوا تھا اس لیے انہوں نے اپنے دوہوں کے ذریعے انسانیت کو درس محبت دیا لیکن تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی کسی زبان سے تبلیغ کا کام لیا گیا ہے تو زبان کو عام فہم اور عوامی زبان بناکر پیش کیا گیا کبیر نے لاشعوری طور پر جس زبان کو اپنایا تھا وہ بالآخر اردو زبان کا پیش خیمہ ثابت ہوئی اس ضمن میں ڈاکٹر انورسدید، اردو ادب کی مختصر تاریخ میں لکھتے ہیں:
’’بھگت کبیرنے 1518ء میں ایک ایسی زبان کا دامن پکڑا جو بالآخر اردو زبان کی صورت اختیار کرنے والی تھی۔۔۔۔  حافظ محمود شیرانی کے خیال میں کبیر کی نظمیں اچھی خاصی اردو کہلائی جانے کی مستحق ہیں۔‘‘(۲۲)
ذیل میں پیش کی گئی نظم سے آپ بخوبی اندازہ لگاسکتے ہیں :
کبیر کھڑا بزار میں مانگے سب کی خیر
نہ کہو اسے دوستی نہ کہو اسے بیر
برا جو دیکھن میں چلا برا نہ ملیا کوئے
جو من کھوجا اپنا تو مجھ سے برا نہ کوئے
چلتی چکی دیکھ دیا کبیرا روئے
دوئی پاٹن کے بیج میں ثابت بچا نہ کوئے
کال کرے سو آج کر آج کرے سو اب
پل میں پرے ہوگئی بہوری گروے گے کب
بڑا ہو تو کیا ہوا جیسے پیڑ کھجور
پنتھی کوچھایا نہیں پھل لاگیں اتی دور(۲۳)
کبیر نے ایک طرف تو محبت کا پیغام عام کرنے کے لیے ایک ایسی زبان کا انتخاب کیا جو بعد میں اردو کہلائی
 اور دوسری طرف دوہا یا دوہرا کی صنف کا انتخاب کرکے امیر خسرو کے بعد نہ صرف اسی صنف کو زندہ رکھا بلکہ اردو شاعری کی ابتداء کی بنیاد بھی رکھی۔ ان کے دوہوں کے چند نمونے پیش کیے جاتے ہیں۔

؎          جاتی نہ پوچھو سادھو کی پوچھ لیجیے گیان
مول کرو تلوار کی پڑی رہن دومیان
؎          دھیرے دھیرے منا دھیرے سب کچھ ہوئے
مالی سینچے سو گھڑا ریتو آئے پھل ہوئے(۲۴)
دوہا ہندی شاعری کی ایک ایسی صنف ہے جس کے چند مصرعوں میں 48 ماترائیں اور دوسرے اور چوتھے مصرعے میں گیارہ گیارہ ماترائیں ہوں اور پہلا اور دوسرا مصرعہ ایک سطر میں لکھا جائے اور تیسرا چوتھا مصرعہ دوسری سطر میں لکھاجائے اسے دوہا کہتے ہیں جتنی اہمیت اس صنف کو ہندی شاعری میں حاصل تھی اتنی ہی فوقیت اسے اردو زبان میں بھی حاصل ہوئی۔ دوہوں کی اس روایت کو برقرار رکھنا ہی دراصل اردوز بان اور اردو شاعری کی خدمت ہے۔ پروفیسر ڈاکٹر ساجد امجد اپنی کتاب اردو شاعری پر برصغیر کے تہذیبی اثرات میں لکھتے ہیں:
’’اردو شاعری کی ابتدا ء ہی دوہرے کی روایت پر ہوئی اور اس وقت بھی جب اردو شاعری فارسی بحروں کے مطابق ڈھلنے لگی یہ صنف ایسی تھی جس کی مقبولیت میں کوئی فرق نہ آیا۔ اس دور کا کوئی شاعر ایسا نہیں جس نے ان میٹھے سروں کو ہاتھ نہ لگایا ہو۔۔۔ کبیر کا تو نام ہی اس صنف کی بدولت پہچانا جاتا ہے۔‘‘(۲۵)
یہاں میں ڈاکٹر صاحب کی اس رائے سے اختلاف کرتی ہوں کہ کبیر کا تو نام ہی اس صنف کی بدولت پہچانا جاتا ہے بلکہ یہ کہنا مناسب ہوگا کہ چونکہ کبیرنے اس صنف کی روایت کو برقرار رکھا اور ہندی شاعری سے اسے اردو شاعری میں منتقل کرنے میں پل کا کردار ادا کیا اس صنف کو کبیر کی وجہ سے اردو شاعری میں پہچان ملی انہی دوہوں کے ذریعے کبیر نے اردو زبان کی خدمت کی اور ایسی زبان استعمال کی جو پنجاب سے لے کر بہار تک اور پورے ہندوستان میں آسانی سے سمجھی جاسکتی تھی ان کی اردو زبان کی خدمت کا اندازہ پروفیسر ڈاکٹر ساجد امجد کی اس تحریر سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔
’’کبیر دوہے کی دنیا کا سب سے بڑا شاعر ہے جس نے اخلاقیات ،بے ثباتیٔ دہر اور عشق کی آگ لفظوں میں اس طرح بھردی کے آج تک اس کی گرمی کم ہونے میں نہیں آتی اور کمال یہ ہے کہ پورب کا باشندہ ہونے کے باوجود ایسی زبان استعمال کرتا ہے جس کا سکہ پنجاب سے بہار تک چل رہا ہے۔‘‘(۲۶)
کبیر کی شاعری کے بارے میں کوئی مستند رائے نہیں ملتی کہ ان کے یہ دوہے اور نظمیں کس حد تک ان کی اپنی ہیں یا ان کے مجموعوں یا کتابوں میں ملتی ہیں تاہم ڈاکٹر انورسدید نے اردو ادب کی مختصر تاریخ میں ان کے دو مجموعوں کا
ذکر کیا ہے وہ لکھتے ہیں :
’’بیجک اور بانی کبیر کے کلام کے مجموعے ہیں جن میں اردو بھاشا کو بہتے دریا کی طرح استعمال کیا گیا ہے کبیر کی زبان عوامی ہے اس کے لفظوں کے ظاہر میں موسیقی اور باطن میں دانش موجود ہے۔‘‘
؎          کبیر سریر سرائے ہے کیا سوئے سکھ چین
سو انس نقارا باج کا باجت ہے دین رین
بھگت کبیر نے جہاں نچلے طبقے کو ذہنی آسودگی عطا کی وہاں ایک غریب زبان کو بھی تونگر بنادیا اور اس کے دامن کو آفاقی صداقتوں سے بھردیا۔‘‘(۲۷)
کبیر کی اردو ادب کی نشوونما میں کردار کی اہمیت کا اندازہ ڈاکٹر صاحب کی درج بالا تحریر سے لگایا جاسکتا ہے۔ اسی لئے مولوی عبد الحق نے صحیح لکھا ہے کبیر کا کلام جنوب ہند کے بعض علاقوں کو چھوڑ کر ہندوستان کے ہر حصے میں آسانی سے سمجھا جا سکتا ہے اردو کے ابتدائی نشوونما کے زمانے میں حضرت کبیر وہ واحد صوفی ہے جن کے استعمال کیے گئے الفاظ کی باقاعدہ فرہنگ مرتب کی گئی اور جن کے ایجاد یا استعمال کئے ہوئے اکثر الفاظ بعینہ یا کچھ تغیر کے ساتھ 600سال سے زیادہ کی مدت گزر جانے کے باوجود آج بھی اردو ، ہندکو، ہندی، پنجابی، یورپی ، پوٹھوہاری، سرائکی، بنگالی اور دیگر کئی زبانوں میں موجود اور مستعمل ہیں۔ یہ اس لئے بھی کہ مولوی عبد الحق نے بجا طور پر بیش بینی کی تھی کہ تلسی داس اور ملک محمد جائسی کی زبان پرانی اور مردہ ہو جائیگی لیکن کبیر کا کلام ہمیشہ تازہ اور ہر ا بھرا رہے گا ۔یہ اس لئے بھی کہ بقول پروفیسر محمد انصار اللہ کبیر نے علم وفضل کے باوجود عوام سے رابطے پر فخر کیا گو یا مولوی عبد الحق کی تحریر کی ابتدائی سطور کے تناظر میں کہا جا سکتا ہے کہ حضرت کبیر نے مولوی ہو سکنے کی مکمل صلاحیتوں کے باوصف صوفی ہونے کو ترجیح دی ۔ میر نے تو کبیر کے کوئی ڈھائی سو بر س بعد کہا :
شعر  میرے  ہیں  گو  خواص  پسند
پر  مجھے  گفتگو   عوام   سے   ہے
اور کبیر نے کہا تھا:
توں  بامھن، میں کاسی کا جلایا بوجھہہ مور گیانا
تمہہ  تو  جا چے  بھویت   راجے   ہر  سو مور  دھیا نا
یعنی آپ تو برہمن یعنی عالم فاضل ہے میں بنارس کا جو لاہا ہوں آپ میرا علم کیا سمجھیں گے آپ کو تو راجے اور زمیندار جانچتے ہیں جبکہ میرا دھیان خدا کی جانب رہتا ہے ۔ میر و کبیر دونو ں میر کبیر ہیں اور زبان و ادب کی بارگاہ میں اپنا اپنا مقام رکھتے ہیں بس اس فرق کے ساتھ کہ میر کی گفتگو خلق خدا سے ہے اور کبیر کی گفتگو خد ا سے ہے ۔
اس بحث سے اس نتیجہ تک پہنچا جاسکتاہے کہ اردو کی ابتدائی نشوونما میں جن صوفیانے شاعری کے حوالے سے
اس کے فروغ میں اہم کردار اداکیا ان میں کبیر کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ان ہی کے دوہوں اور اس قبیل کے دوسرے عوامی شاعروں کے ہاں وہ زبان آنکھیں مل کربیدار ہورہی تھی جسے بعد میں ایک لنگوافرینکاکی حیثیت میں ہندوستان کی سب سے بڑی زبان بننا تھا۔ان کے دوہے اس بات کی تردید کے لیے کافی ہیں کہ اردوزبان کے خمیر میں درباری پن موجود ہے ۔یہ دوہے اس بات کی شہادت دیتے ہیں کہ اردو زبان نے درباروں میں فروغ پانے کی بجائے گلیوں ، بازاروں اور گھروں میں آنکھ کھولی ہے ۔کبیر کا تعلق کسی دربار سے نہیں تھا بلکہ عوام سے تھا جن کے ساتھ اس کا رشتہ تصوف کی بنیاد پر قائم تھا۔اور چونکہ یہ رشتہ ہر قسم کے مفاد سے بالاتر تھا اس لیے شاعری کے باب میں وہ مخلصانہ کوششیں ہوئیں جس کی وجہ سے کبیر کا نام آج بھی علمی اور ادبی حلقوں میں عزت اور احترام سے لیا جاتاہے ۔

تطہیر زہرا ، پی ایچ۔ڈی اسکالر شعبہ اردو جامعہ پشاور

حوالہ جات
۱۔        منطور، ابن علامہ، لسان العرب، قاہرہ دارالحدیث، ۲۰۰۳ء، باب السعد، ص ۴۳۲
۲۔        اردو لغت، ویب ایڈیشن
۳۔       فواد، عبدالباقی، محمد، المعجم المفرس، قاہرہ، مطبعۃ دارالکتب مصریہ، ۴۴۔۱۹۴۳ (۱۳۶۳ھ)، ص ۴۷۱
۴۔       وحید الزماں،علامہ، لغات الحدیث، ج ۲، لاہور، نعمانی کتب خانہ، ۲۰۰۵ء، کتاب السعد، باب السعد، مع الواو، ص ۵۰۔۶۴۹، سید ارتصی علی کرمانی، سیرت پاک حضرت عبداللہ شاہ بخاری، مطبوعہ لاہور، ۲۰۰۵ء، عظیم اینڈ سنز پبلشرز میں بغیر کسی تحقیقی حوالے کے تحریر کرتے ہوئے کہ لفظ صوفی مروجہ معنوں میں امام جعفر صادق کی شہادت کے بعد عربی زبان میں رائج ہوا
۵۔       سید احمد دہلوی، فرہنگ آصفیہ، ج سوم، لاہور، مکتبہ حسین سہیل، س ن، ص ۲۳۰
۶۔        اصفہانی راغب امام، مفردات القرآن، لاہور، اہل حدیث اکادمی، ۱۹۷۱ء، ص ۶۰۱
۷۔       سید احم دہلوی، فرہنگ آصفیہ، ج سوم، لاہور، مکتبہ حسن سہیل، س ن، ص ۲۳۰
۸۔       آرنلڈ، ٹی ڈبلیو، اردو دائرہ معارف اسلامیہ، ج ۱۷، بار دوم، لاہور، پنجاب یونیورسٹی، ۲۰۰۴ء (۱۴۲۵ھ)، ص ۹۴۔۹۲
۹۔        سنگھ ۲۰۰۱ء
Hess, Linda, Sukhdev Singh " The Bejak of Kabir", American edition, New York, Oxford Univesity Press, 2002, P.5
10. Das, Das, Nirmal, "Songs of Kabir from the Adi Granth", Albani, NY, SUNY Press 1991, P.45
11. Lorenzen, David, N, "Who invented Hinduism", New Delhi, Yoda Press, 2006, P. 104

۱۲۔       گوڑ، راج بہادر، ڈاکٹر، سنت کبیر داس، مضمون مطبوعہ سہ ماہی فکر و تحقیق، ج ۱، شمارہ ۱، بابت جولائی اگست ستمبر، ۱۹۹۸ء، نئی دہلی، قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان، ص ۲۳۱
۱۳۔      ڈاکٹر راج بہادر گوڑ نے اپنے متذکرہ بالا مضمون میں سردار جعفری کی کتاب کا حوالہ تو دیا ہے لیکن کتاب کا سن اشاعت مطبع اور صفحہ نمبر درج نہیں کیا۔ انہوں نے کبیر کے متذکرہ شاگرد کا نام اور اس کا دوہا بھی تحریر نہیں کیا۔
۱۴۔      گوڑ، راج بہاد، ڈاکٹر، حوالہ بالا، ص ۲۳۱
۱۵۔      ہینز، لنڈا، حوالہ گزشتہ، ص ۵
۱۶۔       انصار اللہ، پروفیسر، فرہنگ کبیر، مطبوعہ سہ ماہی فکر و تحقیق، ج ۱، شمارہ ۱، بابت جولائی اگست ستمبر، ۱۹۹۸ء، نئی دہلی قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان، ص ۹۱
۱۷۔      انصار اللہ، پروفیسر، حوالہ بالا، ص ۹۲
۱۸۔      حسین، سید احتشام، پروفیسر، اردو ادب کی تنقیدی تاریخ، لاہور، دار النوادر، ۲۰۰۵ء، ص ۱۹
۱۹۔       حسین، سید احتشام، پروفیسر، محولہ بالا، ص ۴۹
۲۰۔      عزیز، اسرائیل، ڈاکٹر، ایک عظیم دانشور خصوصی مطالعہ، یکم جون ۲۰۱۶ء،
۲۱۔       عزیز، اسرائیل، ڈاکٹر، ایک عظیم دانشور خصوصی مطالعہ، یکم جون ۲۰۱۶ء،
۲۲۔      سدید انور، ڈاکٹر، اردو ادب کی تاریخ، عزیز بک ڈپو، اردو بازار لاہور، ص ۷۷
۲۳۔      گوڑ، راج بہادر، ڈاکٹر، سنت کبیر داس، مضمون مطبوعہ سہ ماہی فکر و تحقیق، ج ۱، شمارہ ۱، بابت جولائی اگست ستمبر، ۱۹۹۸ء، نئی دہلی، قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان، ص ۳۴۔۲۳۳
۲۴۔      گوڑ، راج بہاد، ڈاکٹر، سنت کبیر داس، مضمون مطبوعہ سہ ماہی فکر و تحقیق، ج ۱، شمارہ ۱، بابت جولائی اگست ستمبر، ۱۹۹۸ء، نئی دہلی، قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان، ص ۲۳۵
۲۵۔      امجد، ساجد، ڈاکٹر، اردو شاعری پر برصغیر کے اثرات، ۲۰۱۵ء، گنج شکر پریس لاہور، الوقار پبلی کیشنز، ص ۱۷۰
۲۶۔      مجد، ساجد، ڈاکٹر، اردو شاعری پر برصغیر کے اثرات، ۲۰۱۵ء، گنج شکر پریس لاہور، الوقار پبلی کیشنز، ص ۱۷۱
۲۷۔      سدید انور، ڈاکٹر، اردو ادب کی تاریخ، عزیز بک ڈپو، اردو بازار لاہور، ص ۷۸

 

 

 

 

 

 

اوپر جائیں  |   پرنٹ کیجئےِ
انگریزی ورژن ای میل چیک کریں مرکزی صحفہ پرنٹ پسندیدہ سائٹ بنائیں رابطہ کیجئے www.shahzadahmad.com www.shahzadahmad.com