ڈاکٹر داؤد رہبرؔ بحیثیت شاعر:  ایک تعارف
نوشین صفدر
                                                                                               
ABSTRACT
Daud Rahber (1926  - 5 October 2013) was a scholar of comparative religions, Arabic, Persian, Urdu literature and Indian classical music. Rahber is regarded as accomplished essayist, poet, composer, translator, philosopher, contributer to Inter civilization dialogue, musicologist, drummer, singer and guitarist.In 1949, he left Pakistan for Cambridge University where he got his  Ph.D. He served as a teacher at reputable Universities in Canada and Turkey. His love for poetry and music can never be subsided. In 1968, he became a member of the faculty of Boston University where he taught comparative religions for 23 years. He retired in 1991 and settled in Florida. In rich tradition of Urdu poetry, Daud Rahber's comprehensive 'kulliyat' and 'Baqiyat' show an amazing breadth of content. His diction includes words from Hindi, Arabic, Persian and Urdu, all assimilated into flawless, rhythmic phrases. He is sensitive to the human conditions and always sees the infinite in the infinitesimal. His poetry is a colourful canvas portraying all around him .

           اردو ادب کی کثیر الجہات شخصیت ڈاکٹر داؤد رہبر ؔ، جس کی زندگی کا کم و بیش سارا شعوری حصہ علم و ادب کی تحصیل ، ترتیب ، تشریح ، تخلیق اور تشہیر میں گزرا ،  نثر کے علاوہ شعر کے میدان میں بھی اپنی گراں قدر خدمات سے یاد کی جاتی رہے گی۔ اگرچہ ان کی نثری خدمات کے مقابلے میں ان کی شعری کارکردگی کا ذکر کم کم ہوا ہے لیکن اگر اس شعبۂ فن میں اُن کے کام کا غور سے جائزہ لیں تو ہمیں اس مقدار اور حجم کا اندازہ ہوگا جو انہیں شعری حوالے سے بھی ایک انفرادیت اور اعتبار بخشتا ہے۔ اس انفرادیت اور اعتبار کی وضاحت ان کے شعری ’کلیات‘  اور ’ باقیات‘ میں نظر آتی ہے۔ انہوں نے اگرچہ زندگی بھر نثر نگاری کے مختلف شعبوں میں اپنے آپ کو مصروف رکھا مگر مذکورہ بالا دونوں مجموعوں میں موجود ان کا شعری اثاثہ بتاتا ہے کہ وہ اپنی شعری صلاحیتوں کے اظہار سے کبھی غافل نہیں رہے۔
(الف)    شعری مجموعوں کے ترتیبی کوائف:
ان کے شعری ’کلیات ‘ کی اشاعت 2001 ء میں (۱)  جب کہ ’باقیات‘ کی اشاعت 2007 ء میں (۲)  ہوئی۔ واضح ہو کہ ان کا ضخیم کلیات ہماری عام مروجہ کتابوں کی طرح سے کتابت ہو کے شائع ہوا مگر ’باقیات‘ کی کتابت انھوں نے خود کی۔ یہ کتاب مصنف کے اپنے سوادِخط میں اشاعت پذیر ہوئی ۔ داؤد رہبرؔ کی دونوں کتابوں میں شعری مواد بہت زیادہ ہے ۔ کلیات میں اسے بڑی باریک کتابت ( چھوٹے فونٹ سائز ) میں تحریر کیا گیا ہے۔ کلیات کے صفحات کی تعداد 726 ہے۔ اگر اسے آج کل کے عام شعری مجموعوں کی شکل میں شائع کیا جاتا تو صفحات کی تعداد  2000  سے کم نہ ہوتی۔ فہرست کلیات کے مطابق اس میں شامل مواد کی تفصیل درج ذیل ہے۔
حصہ اوّل:
۱۔        ہنگامہ ہائے خلوت (گذارش اور مشفق خواجہ کا خط)
۲۔        نئے دکن کا ریختہ (غزلیات و قطعات ) دیباچہ
حصہ دوم:
۱۔        بزم نامہ (ترکیب بند) دیباچہ
۲۔        آسماں پیدا ست (مثنوی) دیباچہ
۳۔       سجۂ صد دل (غزلیات و رباعیات) دیباچہ
۴۔       رسم و راہِ زندگی  (’تاؤ تے چنگ ‘کا ترجمہ)
حصہ سوم :
اشاریہ غزلیات
اسی طرح  ’باقیات ‘ میں شعری سرمائے کی ترتیب یہ ہے ۔
۱۔        غزلیات (صفحہ ۵ تا ۲۰۶) اس سے پہلے دو صفحے کا دیباچہ
۲۔        تفنن بلاترنم (صفحہ ۲۰۹ تا ۲۳۲) اس سے پہلے چار سطری دیباچہ
نوٹ:     (یہ حصہ داؤد رہبرؔ کی آزاد نظموں پر مشتمل ہے )
۳۔       نظموں کے بعد پھر چار غزلیں ہیں (صفحہ ۲۳۳ تا ۲۳۶)
۴۔       آخر میں  ’کلیات داؤد رہبرؔ ‘ مطبوعہ کراچی ۲۰۰۱ء کے حوالے سے پانچ صفحات پر مشتمل ایک اغلاط نامہ اور کچھ دوسری وضاحتیں
(ب)     شعری مجموعوں کے دیباچے:
داؤد رہبرؔ کی شاعری کے جائزے سے پہلے اُن مختصر دیباچوں کو ایک نظر دیکھنا ہوگا جو انہوں نے ہنگامہ ہائے خلوت ، نئے دکن کا ریختہ ، بزم نامہ ، آسماں پیداست ، سجۂ صد دل اور رسم و راہِ زندگی کے آغاز میں تحریر کیے ہیں۔ ان دیباچوں کے مندرجات سے ان فن پاروں کے تخلیقی انداز ، شاعر کے رویوں اور بعض دوسری معلومات پر روشنی پڑتی ہے۔
٭        ہنگامہ ہائے خلوت ، داؤد رہبرؔ کا ۱۹۸۷ سے ۱۹۹۰ تک قریباً چار سالوں کا کلام ہے۔ اس کے دیباچے میں جو صرف نصف صفحے پر مشتمل ہے ، انھوں نے اپنی شاعری کے نزول کے حوالے سے بعض معلومات دی ہیں۔ ان کا انداز شگفتہ بیانی کا مظہر ہے ۔اس میں انہوں نے شاعری کی طرف زورِ میلان کو’ دوروں‘ ‘(Fits )  سے تعبیر کیا ہے اور قارئین سے خامیوں پر معافی طلب کرنے کے ساتھ اپنے کلام کو مبداء  فیّاض کا عطیہ کہا ہے۔
مختصر دیباچے کے بعد داؤد رہبر ؔکے نام معروف محقق اور ادبی شخصیت مشفق خواجہ کا ایک خط (محررہ ۲۲ اگست ۱۹۹۰ء ) ہے جس میں داؤد رہبرؔ کی شاعری کے بارے میں اہم تنقیدی جملے ہیں۔ مشفق خواجہ کی رائے داؤد رہبرؔ کے فکروفن کے باب میں بڑی بلیغ ہے اور رہبرؔ کی شاعری کے متنوع فکری و فنی ، ہیئتی اور لسانی پہلوؤں کی نشان دہی کرتی ہے۔
٭        داؤد رہبرؔ کا دوسرا دیباچہ ’ نئے دکن کا ریختہ ‘ سے قبل قریباً پون صفحے کا ہے۔ ’ نئے دکن کا ریختہ ‘ داؤد رہبرؔ کا ۱۹۹۱ء سے ۱۹۹۹ء تک قریباً آٹھ سالوں کا کلام ہے۔ اس مختصر دیباچے میں انھوں نے بتایا ہے کہ یہ غزلیں جنوبی فلوریڈا کے ساحلی شہر میامی کے قیام کے دوران میں لکھی گئیں۔ اس ساحلی بستی کو انہوں نے ’امریکہ کا دکن ‘ کہا ہے۔ اس حصہ کلیات کے نام کی وجہ بھی یہی بتائی گئی ہے۔ ان غزلیات میں خیال کے بہاؤ کی وجہ وہ انگریزی شاعر شیلے (Shelly :1792 - 1822 )  کی طرح اپنے اس خیالی دوست کو قرار دیتے ہیں جو مثالی ہوتا ہے اور جس سے ربط صرف شاعرانہ تخیل ہی کی راہ سے قائم ہو سکتا ہے ۔   (۳)
وہ لکھتے ہیں:
’’شیلے نے اپنی وفات (۱۸۲۲) سے ایک سال پہلے ایک مضمون ’’شاعری کی حمایت ‘‘ کے عنوان سے لکھا۔ غزل سے واقف ہوئے بغیر اُس نے ایک ایسی بات لکھی جسے پڑھ کر غزل کے فائدہ کا یقین پختہ تر ہوا ، وہ یہ کہ مثالی دوست خیالی دوست ہی ہے اور اس سے رابطہ شاعرانہ تخیل ہی کی راہ سے قائم ہوتا ہے ۔‘‘   ( ۴ )
٭        ’کلیات ‘کے حصہ دوم میں داؤد رہبرؔ نے مختصر دیباچے کے ساتھ  اپنے ترکیب بند ’بزم نامہ‘ کے حوالے سے معروف محقق ،ڈاکٹر جمیل جالبی کا اس تخلیق کے بارے میں اہم گفتگو پر مشتمل ایک خط شامل کیا ہے۔ لکھتے ہیں۔
’’تہذیب کے ماتم میں اس وقت مشرق اور مغرب برابر شریک ہیں ، نظم ہو یا نثر ، آہنگ اگر سرا سر بزلہ کا ہو تو بے حسی کا ثبوت ہوگا اور اگر سراسر سنجیدگی کا ہو تو قارئین کو بے زار کرے گا ، اس مشکل سے بچنے کو اس ترکیب بند میں تغزل کی آمیزش کی گئی‘‘۔  (۵ )
یوں داؤد رہبرؔ نے تہذیبی و ثقافتی حوالے سے ایک اہم حقیقت کی نشان دہی کی ہے ، جو توجہ طلب ہے ۔
٭        داؤد رہبرؔ کا چوتھا مختصر دیباچہ ان کی مثنوی ’ آسماں پیداست ‘ کے آغاز میں ہے ۔لکھتے ہیں۔
’’ یہ مثنوی نوعِ انساں کے گزشتہ دور کی یاد منانے کو کہی گئی ۔ گزشتہ دور سے مراد وہ دس ہزار سالہ دور ہے جس میں زراعت انسانوں کے مشاغل میں سب سے آگے تھی ……… مثنوی کی تصنیف آج سے پندرہ سولہ برس پہلے بوسٹن میں ہوئی‘‘۔(۶)
دیباچے کے آخر میں اپنے نام سے پہلے  خادِم اردو لکھا ہے۔
٭        کلیات میں پانچواں دیباچہ تین صفحے کا ،سجۂ صد دل ‘ کا ہے۔ یہ ان کا پہلے دیباچوں سے طویل دیباچہ ہے۔ اس کے کچھ اہم فقرے یہ ہیں۔
’’ …… تغزل بجائے خود ایک مذہب ہے ۔
’’…… میں نے جب شاعری شروع کی تو حالی ؔ، اکبرؔ اور انیس ؔہی کے رنگ میں کہنے کی کوشش کی۔
’’…… میٹرک کے امتحان سے پہلے میں نے اپنے کلام کے دو چھوٹے چھوٹے دیوان تیار کر لیے تھے ۔ایک کا عنوان گلِ داؤدی رکھا ، دوسرے کا لحنِ داؤدی ، میں نے میراجی کو دکھائے تو انھوں نے فرمایا  ’’ کیسی اچھی خوش خطی ہے۔‘‘  ( ۷ )
دیباچے کے آخر میں داؤد رہبرؔ نے قافیہ پرست کے بعد اپنا نام لکھا ہے ۔
٭        رسم و راہِ زندگی ( تاؤتے چنگ کا منظوم اردو ترجمہ) سے قبل داؤد رہبر نے قریباً سات صفحے کا جو دیباچہ لکھا ہے ،اس میں اصل مصنف کے انگریزی ترجمے کی نشان دہی کی گئی ہے۔ اکاسی نظموں پر مشتمل یہ ترجمہ وِ ٹربائی بنر (Writter Bynner )   نے کیا۔ (۸)  اصل کتاب کے مشتملات حکیم لاؤتزد کے اقوال ہیں جنہیں موصوف کے ایک مرید نے چینی زبان میں قلم بند کر کے محفوظ کر لیا ۔ داؤد رہبر نے اس دیباچے میں چینی مصنف کے دستیاب حالات و احوال اور اس زمانے (بائیس صدیاں بیشتر) کے ماحول پر روشنی ڈالی ہے۔ نیز اسی دیباچے میں انھوں نے مصنف کتاب کے افکار کی روشنی میں چینی حکمت ، تہذیب ، ثقافت اور مذہب کے چند اہم اصولوں کی نشان دہی کی ہے۔ حکمت کے یہ موتی اقوالِ زرّیں کی طرح موثر ہیں اور اسے پڑھ کر ترجمے کے مندرجات کی تفہیم آسان ہو جاتی ہے۔  ’ تاؤتے چنگ‘ کے درس پر روشنی ڈالتے ہوئے داؤد رہبرؔ لکھتے ہیں:
وہ لکھتے ہیں۔
’’ یینگ اورین (نر اور مادہ) قوتوں کا وصال چینی شعور میں آفاقی ہے، کوئی لمحہ اور کوئی نقطہ اس سے خالی نہیں ، آسمان اور زمین زوج اور زوجہ ہیں۔ ین  کی پرستاری کا ایک نتیجہ یہ بھی ہے کہ طالبانِ عرفان صنفِ نازک کے ساتھ اختلاط کے مشاغل اپنے روحانی پروگراموں میں شامل رکھتے ہیں۔ آسمان ، آفتاب آتش ، پہاڑ اور عقیق چینی یینگ (نر قوت) کے نمائندے سمجھے جاتے ہیں۔ ، بادل ، جاڑا اور رات ین (مادہ قوت) کے ، رسم و راہِ زندگی (تاؤتے چنگ) کا درس یہ ہے کہ حیرت ہی فطری کیفیت ہے اور آرام اسی میں ہے ۔‘‘ (۹ )
داؤد رہبرؔ کی شاعری بلکہ اردو کی صدیوں پر محیط شاعری میں یہ پہلا منفرد منظوم اردو ترجمہ ہے جو چینی مذہب اور تہذیب و حکمت کے حوالوں سے لبریز ہے ۔
ج:       ’کلیات ‘ اور  ’ باقیات‘ کی شاعری کا جائزہ
٭        کلیات داؤد رہبرؔ
’ کلیات داؤد رہبرؔ ‘ میں ، ہنگامہ ہائے خلوت ، نئے دکن کا ریختہ ، بزم نامۂ آسماں پیداست ، سجۂ صد دل اور رسم و راہِ زندگی نامی مجموعہ ہائے کلام شامل ہیں۔
داؤد رہبر ؔ کا شمار وطنِ عزیز کے ان صاحبان قلم میں ہوتا ہے۔ جنہوں نے دیارِ غیر میں رہ کر اردو زبان و ادب کی خدمت کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنائے رکھا۔ ایک ہنگامہ خیز زندگی کے باوجود انھوں نے اردو شاعری کو بہت کچھ دیا۔ خصوصاً ذخیرہ الفاظ کے حوالے سے ،نظیرؔ اکبر آبادی کے بعد اگر کسی کے سامنے الفاظ دست بستہ نظر آتے ہیں تو وہ داؤد رہبرؔ ہیں۔
بقول مشفق خواجہ :
’’ آپ کے ذخیرۂ الفاظ پر مجھے حیرت ہوتی ہے۔ آپ نے الفاظ جمع نہیں کیے بلکہ ان کے مفاہیم متعین کر دیئے ہیں۔ غزلوں میں آپ نے یہ کمال دکھایا ہے کہ بے شمار ایسے الفاظ استعمال کیے ہیں جو آپ سے پہلے کسی غزل گو نے استعمال نہیں کیے۔‘‘   ( ۱۰)
کلیات کا زیادہ حصہ غزلیات پر مشتمل ہے۔ رہبرؔ نے غزل گوئی میں نئی جہات تلاش ضرور کیں لیکن روایت سے اپنا رشتہ مطلعقاً نہیں توڑا۔ آپ کی غزلوں میں بہت ہی تنوع ہے اوران میں تعزل جو کہ اردو غزل کی روح ہے ، کی حدت اگر چہ کم ہے مگر محسوس کی جا سکتی ہے۔ جیسا کہ ان اشعار میں
تازہ غم ہوتا ہے جب بادِ صبا چلتی ہے
جب بہار آتی ہے پھر زخم ہرا ہوتا ہے
(کلیات: ۳۲۴)
رہی دل ہی میں آرزو رہبرؔ
ہم زباں پر اسے کہاں لائے
(کلیات : ۲۸۴)
اساتذہ کے کلام کا جائزہ لیا جائے تو تغزل کے ساتھ ساتھ تصوف کے مضامین ان کی شاعری کا اہم جزو نظر آتے ہیں۔ اردُو غزل کی روایت میں سبھی شعرا نے اس کی تقلید کی ہے۔ داؤد رہبرؔ اگرچہ نئے دور کے شاعر ہیں ، لیکن ان کی غزل کا بطور مطالعہ کیا جائے تو اس میں بھی تصوف کے اشعار موجود ہیں اور اس تصوف کا سلسلہ فکرو فلسفہ سے جڑا ہوا بھی ہے جو قاری کو ایک نئی دنیا میں لے جا کر اس کی فکر کو مہمیز کرتا دکھائی دیتا ہے۔ کہتے ہیں۔
اللہ مسلسل ہمیں دکھلائے گا کچھ اور
اس تن سے جدا ہو کے نظر آئے گا کچھ اور
(ک : ۱۵)
ہے ہماری نجات کی منزل
ہجر اور وصل سے کہیں آگے
(ک: ۱۷)
دنیا کی بے ثباتی کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں ۔
بن کے مسافر آئے ہم یاں اب واپس گھر جانا ہے
کب تک دکھ دے لو گے صاحب ، آخر کو مرجانا ہے
(ک: ۱۴۹)
داؤد رہبرؔ عقائد و عبادات کی بجائے خدمتِ خلق کو نجات انسانی کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔
نجات کی آرزو میں رہبرؔ نماز روزے پہ کر نہ تکیہ
کسی کی سیوا جو تو نے کی ہے وہی تو ہے تیرے رب کی خدمت
(ک: ۱۵)
ترقی یافتہ مغرب میں رہتے ہوئے انھوں نے حضرت انسان کی مادی ترقی کا بغور مشاہدہ کیا۔ اگرچہ وہ سائنسی ترقی اور اس کے ثمرات سے بھرپور استفادہ کرنے کے قائل ہیں لیکن کبھی کبھی یہ ترقی تعمیر کی بجائے تخریب کی جھلک دکھاتی ہے۔ فرماتے ہیں :
قصۂ ماضی ہے لطفِ چشمۂ آبِ حیات
کر چکا ناپاک ان جھیلوں کی جھلمل آدمی
(ک:۴۶ )
داؤد رہبرؔ کے اشعار بیانِ حُسن و عشق میں مصحفی ؔکی یاد دلاتے ہیں ، ادا بندی میں جرأت ؔکی یاد دلاتے ہیں اور داخلی اور نفسیاتی امور کی طرف اشارہ کرنے میں عموماً نئی فارسی ترکیبوں کے ذریعے مومن ؔکی یاد دلاتے ہیں لیکن رہبرؔ کی شاعری محض مصحفی ؔ ، جرأتؔ اور مومن ؔ کی آواز کی بازگشت نہیں ہے  بلکہ ان تینوں کے اندازِ بیان ووجدان کے ساتھ ساتھ اپنی شاعری کے فن کی تکمیل بھی کرتی ہے۔مذکورہ خوبیوں کے علاوہ ان کی شاعری کا ایک اور رنگ ’معاملہ بندی‘ ہے ’’ یار سے چھیڑ ‘‘ کو انھوں نے اپنے کلام میں بہت ہی خوب صورت انداز میں بیان کیا ہے۔ کہتے ہیں:
تصویر بھی کھینچیں گے ، لکھیّں گے سراپا بھی
ہم اُس کو دکھا دیں گے تُم جس کو چھپاتے ہو
(ک  :  ص ۱۰)
محبوب کی نازک کمر کے مضمون کو استاد جرأتؔ نے جس انداز میں باندھا ہے ،وہ بے مثل و بے مثال ہے لیکن اگر داؤد رہبر ؔکے انداز کو دیکھیں تو انھوں نے بھی اس کا پورا پورا حق ادا کیا ہے۔ فرماتے ہیں :
کہتے ہیں یہ سب لوگ کہ ہاں اس کی کمر ہے
کیوں ہم کو دکھائی نہیں دیتی وہ اگر ہے
(ک :ص ۷)
داؤد رہبر ؔکے کلام کو پڑھ کر قاری کو احساس ہوتا ہے کہ وہ ایک آزاد منش انسان تھے اور دیارِ مغرب میں رہتے ہوئے انھوں نے ہر چیز کو ’’ ٹک دیکھنے اور دل شاد کرنے ‘‘ کا ہنر سیکھ لیا تھا۔ اس لیے ان کی شاعری میں شگفتہ مزاجی کے نہایت عمدہ نمونے ملتے ہیں۔ جیسا کہ ذیل کاشعر :
شیخ ہنسا ہے کل جو میں نے آنکھ یہ کہہ کر ماری ہے
نُوری تجھ کو مبارک ہو ، اپنے دل میں اِک ناری ہے
(ک  : ص ۱۴۳)
امریکہ میں رہتے ہوئے انھوں نے اپنی دھرتی سے اپنے رشتے کو استوار رکھا۔ ان کے دل میں پاکستان خصوصاً پنجاب کی تہذیت و ثقافت سے محبت رچی بسی تھی اور اکثر وہ اشعار کی صورت میں جلوہ گر ہوتی۔ آنکھ مچولی کا ذکر کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں :
بجا کر سب کہو سیٹی ، یہ کیسی ہے لُکن میٹی
عیاں سب ہو گئے اک دم جو تھے ہم سے نہاں پہلے
(ک : ص۲۰۳)
آنکھ مچولی کو پنجابی میں لکُن میٹی کہتے ہیں اور پھر گھگوگھوڑے کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں :
گھگو گھوڑے کی تمہیں دے گا یہ قیمت اچھی
ایسی چیزوں کا ہے رہبرؔ ہی خریدار اچھا
(ک : ص ۱۷۶)
’’گھگوگھوڑا‘‘ مٹی سے بنا ہوا کھلونا ہوتا ہے جو پنجاب میں لڑکے بناتے ہیں ۔
شاعری کے ساتھ ساتھ موسیقی اور راگ رنگ سے دلچسپی داؤد رہبرؔ کی طبیعت کا خاصہ ہے۔ وہ ایک ماہر موسیقار کی طرح موسیقی کی اصطلاحات پر عبور رکھتے ہیں۔ اگر انہوں نے اپنی اس خوبی کی طرف توجہ دی ہوتی تو دنیا کے سامنے ان کا ایک اور خوب صورت روپ آتا۔ ان کے کلام میں اس مہارت کے بہت سے ثبوت مل جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر یہ شعر دیکھئے :
اس آنکھ میں مئے دو آتشہ کی مستی ہے
جو بھیرویں سے ہوئی بند تو اذان سے کھلی
(ک:ص ۱۳)
بول میں کچھ گمگ بھی پیدا ہو
طلبہ سُر میں ہے ، ٹھیک بایاں کر
(ک: ص ۳۹)
خرام یار کے بندھے ہوئے نہیں ہیں ماترے
صبا چلے تو اس کے ساتھ تین تال ہے غلط
(ک: ص ۱۵)
اگر فنی لحاظ سے دیکھا جائے تو داؤد رہبر ؔکی غزل عموماً طویل ہوتی ہے۔ بعض اوقات اس میں بارہ سے چودہ اشعار بھی ہوتے ہیں ، جن سے اُن کی  قادر الکلامی کا علم ہوتا ہے۔ بحروں کے انتخاب میں ان کو کسی قسم کی دشواری نہیں آتی۔ اور ان کی غزل چاہے طویل بحر کی ہو یا مختصر بحر کی، موسیقیت ،ْغنائیت اور آہنگ سے عبارت ہوتی ہے۔ شاید اس لیے کہ انھیں موسیقی اور راگ رنگ سے خصوصی لگاؤ تھا۔ مشکل سے مشکل زمینوں پر بھی وہ اس روانی سے شعر کہتے ہیں کہ قاری حیرت زدہ ہو جاتا ہے۔
داؤدرہبرؔ الفاظ کا نباض ہے اور ان کا موقع اور محل کے مطابق استعمال کا اُنھیں خاص ملکہ ہے ۔ الفاظ کے ساتھ ساتھ نئی اور اچھوتی تراکیب کا استعمال کرنا ، خصوصاً پنجابی محاورات کا استعمال ان کی شاعری کو اور بھی پر لطف بناتا ہے ۔
کلیات رہبرؔ کا مطالعہ کرتے ہوئے ایک حیران کن بات سامنے آتی ہے کہ رہبرؔ کی شاعری میں انگریزی الفاظ کا استعمال بہت کم ہوا۔ امریکہ میں رہتے ہوئے داؤد رہبرؔ اپنی شاعری میں انگریزی الفاظ کا استعمال نہ ہونے کے برابر کرتے ہیں۔ حالانکہ اگر وہ تھوڑا بہت امریکہ کی زباں اور ثقافت کو بھی اپنی شاعری میں جگہ دے دیتے تو اردو زبان کے لیے یقینا بہتر ہوتا۔ خصوصاً لسانی حوالے سے اردو کا دامن مزید وسیع ہوتا۔ بحیثیت مجموعی داؤد رہبرؔ کی شاعری اردو زبان و ادب کے سرمائے میں ایک گراں قدر اضافہ ہے جو اردو شاعری کے نئے امکانات کی نوید دیتا ہے۔
٭        باقیات داؤد رہبرؔ:
داؤد رہبرؔ کے ’کلیات ‘کی اشاعت کے لگ بھگ پانچ برس بعد یعنی ۲۰۰۷ء میں ان کے بقیہ کلام پر مشتمل ان کا شعری مجموعہ  ’’باقیات‘‘ کے عنوان سے شائع ہوا ۔ اس مجموعے کی ایک انفرادیت تو یہی ہے کہ یہ خط نستعلیق میں کمپوز ہونے کی بجائے شاعر کی قلمی تحریر میں ہے۔ جس کے متعلق شاعر نے دیباچے میں لکھا کہ پروف خوانی کی مصیبت سے چھٹکاراپانے کے لیے انھوں نے پبلشر سے درخواست کی تھی کہ اسے ایسے ہی شائع کیا جائے۔ ( ۱۱)
بہرحال شاعر نے تو پروف کی کھکھیڑ سے بچنے کے لیے ایسا کیا لیکن ان کے بقول پروف خوانی کے باوجود اُن کے اس شعری مجموعے میں پروف کی اغلاط راہ پا گئی تھیں ، جن کا صحیح نامہ انہوں نے زیرِ نظر کتاب کے آخر میں شامل کر دیا تاہم یہ اس شعری مجموعے کا حسن بھی بن گیا ہے۔
غزل چونکہ ریزہ خیالی کا نام ہے اور ایک غزل میں کئی کئی موضوعات زیربحث آتے ہیں۔ اس لیے غزل میں جہاں مختلف موضوعات و نظریات پر بات کی جا سکتی ہے۔ وہاں ایک ہی بات کو مختلف پہلوؤں سے کرنے کا انداز بھی اپنایا جا سکتا ہے۔ بقول میر انیس ؔ
گلدستۂ معنی کو عجب ڈھنگ سے باندھوں
اک پھول کا مضمون ہو تو سو رنگ سے باندھوں
باقیات میں شامل غزلیات میں داؤد رہبرؔ نے یہی ہنر دکھایا ہے۔ ’باقیات ، میں آخر میں ایک حصہ نظم کے لیے مختص کیا گیا ہے۔ ’’ تفنّن بلا ترنم ‘‘ کے نام سے جس میں سولہ (۱۶)آزاد اور نثری نظمیں شامل ہیں۔ ان کے بعد پھر چار عدد غزلیں لکھ دی گئی ہیں۔
ان نظموں میں کہیں کہیں ظرافت بھی جھلکتی ہے۔ کئی نظمیں قابل توجہ ہیں۔ کتاب کے آخر میں ۲۰۰۱ء میں چھپنے والے داؤد رہبر ؔ کے کلیات میں طباعت کی اغلاط کا تصحیح نامہ درج ہے ۔
بادی النظر میں داؤد رہبر ؔکے اشعاراتنی کشش کے حامل نہں دکھائی دیتے لیکن اگر تسلسل سے ان اشعار کا مطالعہ کیا جائے تو آہستہ آہستہ دلچسپی کا تار قاری کو باندھتا  چلا جاتا ہے اور پھر ان اشعار میں قاری کھو جاتا ہے۔ عام طور پر ذود گوئی کو اچھا تصور نہیں کیا جاتا مگر داؤد رہبر ؔکی  ’’ باقیات‘‘ پڑھنے کے بعد محسوس ہوتا ہے کہ ذود گوئی بھی ایک فن ہے۔ داؤد رہبرؔ نے بے شمار اشعار میں اپنی فکر کے چمن بسا دیئے ہیں بلکہ افکارِ نو بہ نو کے جنگل کھڑے کر دیئے ہیں جن میں قاری راستہ تلاش کرتے ہوئے اور قوافی کا سہارا لیتے ہوئے قدم بڑھاتا ہی چلا جاتا ہے۔ اسی طرح داؤد رہبرؔ کے اشعار کے متعلق یہ فیصلہ کرنا کہ یہ روایتی اسلوب کے حامل ہیں یا جدید ، یہ بھی مشکل ہے کیونکہ کہیں کہیں تو وہ خالصتاً پرانی ڈگر پر چلتے ہیں وہی پرانی تراکیب پرانی تشبیہات وغیرہ۔ ذیل کے اشعار دیکھئے۔
رشتہ خوشبو کا خصوصاً نافۂ آہو سے ہے
ان غزالوں کو محبت اس لیے خوشبو سے ہے
نور کو ہالہ ہوا حاصل شب دیجور سے
روئے تاباں کی سجاوٹ خوبیٔ گیسو سے ہے
دل سے جاتا ہے کہاں معشوقِ فرضی کا خیال
غرۂ شوال کی تشبیہ بھی ابرو سے ہے
(باقیات : ۱۹۲)
لیکن کہیں کہیں وہ اپنے اسلوب کو اس قدر تبدیل کر لیتے ہیں کہ حیرت ہوتی ہے۔ بعض اوقات وہ بڑے جدید لہجے میں بات کرتے ہیں بلکہ بسا اوقات ظفرؔ اقبال کی جھلک بھی دیتے ہیں۔ ظفر ؔاقبال نے اپنے تجربات کے ذریعے ایک نسل کو متاثر کیا ہے۔ یہ الگ بات کہ ان کے بعض تجربے ناکام ثابت ہوئے ہیں لیکن ان تجربوں نے ایک تو آگے کی کئی راہیں سمجھائی ہیں دوسرے  یہ کہ پرانے اسالیب سے بغاوت کی جرأت بھی نئے آنے والوں کو عطا کی ہے کہ بہرحال تجربے کی اپنی ایک اہمیت ہوتی ہے۔ میر ؔجیسے شاعر کے بارے میں اگر کہا گیا ہے کہ  ’’ بلندش بغایت بلند و پستش بشایت پست ‘‘ تو اس کا مطلب ہے کہ میرؔ نے بھی تجربے کو خاصی اہمیت دی تھی ۔ داؤد رہبرؔ نے دیباچے میں لکھا ہے کہ ۲۰۰۱ء میں ان کا کلیات شائع ہوا اور آنے والے پانچ سالوں کا کلام  ’’باقیات‘‘ کی شکل میں شائع ہوا ہے۔ گویا کہ یہ کلام نیااور تازہ ہے اور اگر داؤد رہبرؔ  ظفرؔ اقبال سے متاثر ہوئے ہوں تو یہ بعید نہیں ہے۔ 
داؤد رہبرؔ آزاد نظم کے اندر بھی کہیں کہیں اندرونی قوافی (Inernal Rhyme )  کی کیفیت پیدا کرتے ہیں۔ ’باقیا ت‘ میں شامل اُن کی ایک نظم    ’’ کوئی کام ٹھیک نہیں ‘‘ دیکھئے جس کے ا ندر تین بند ہیں اور ہر بند کی آخری لائن میں سیلے سیلے ، گیلے گیلے اور نیلے نیلے کے قوافی نے آزاد نظم کے اندر موسیقی کے خوشگوارتاثر کو ابھارا ہے ۔ آخری بند کی دوسری سطر میں  ’’ پیلے ‘‘ کا لفظ اس تاثر کو اورابھارتا ہے ۔
برکھا کے دن
تم نے اس ڈبے پر
ڈھکنا کیوں نہ دیا
کیسے خستہ تھے یہ بسکٹ
اب یہ سیلے سیلے ہیں

                     دھو کر دھوپ میں میں نے رسی پر
کپڑے سویرے ٹانگے تھے
جلدی ان کو کس نے اُتارا
دیکھو ابھی یہ گیلے گیلے ہیں

                     دیکھو ان بیچارے بچوں کو
بھوک کے مارے ، ان کے چہرے پیلے ہیں
کمزوری سے ان کے
ہونٹ بھی نیلے نیلے ہیں                      (ب : ۲۱۹)

بحیثیت مجموعی داؤدرہبرؔ کی شاعری کے فکری و فنی محاسن کا جائزہ 
غزل کے فنی محاسن میں بہت ساری خصوصیات داؤد رہبر ؔکے کلام میں نظر آتی ہیں ۔ان سب کی تفصیل ایک جداگانہ مقالے کی متقاضی ہے ۔ یہاں ان کے ’کلیات ‘اور ’باقیات ‘میں سے ایک ایک دو دو مثالیں اسلوب کے حوالے سے دی جاتی ہیں۔
1 :        موضوعات کا تنوع:
داؤد رہبرؔ کی شاعری کے مضامین و موضوعات میں اتنا تنوع ہے کہ زندگی کے مختلف شعبہ ٔ ہائے حیات کی کئی جزئیات اور زندگی اور مابعد کے بہت سے مسائل اُن کے کلام میں پائے جاتے ہیں۔ اُن کے افکار میں اردگرد کے ماحول کے ساتھ ہماری سماجی اور معاشرتی زندگی کے ساتھ ساتھ سیاسی اور اقتصادی پہلو نمایاں ہیں اگر اُن کے مضامین و موضوعات کی فہرست بنائی جائے تو اُن افکار کی تعداد ہزاروں ہوگی جو اُن کی شاعری میں موجود ہیں۔ انسان اور معاشرے میں انسان کی حیثیت اُن کا مرکزی موضوع ہے۔ اُنھوں نے اپنی ذات کے حوالے سے مذہبی مسائل کو بھی دیکھا اُن پر تنقید بھی کی ، اپنے سماج کے تضادات کو بھی موضوع بنایا اور نام نہاد رہبرانِ قوم کے ساتھ دوہری شخصیت رکھنے والے دانش وروں اور اخلاقی شخصیات والوں کو بھی ہدف تنقید بنایا ، شاعری ، موسیقی اور تجارت کے میدان میں سرگرم کا رفن کاروں کے امورومسائل کو بھی اپنی شاعری میں جگہ دی۔ اُن کی سینکڑوں غزلوں کے ہزاروں شعروں میں اتنے مضامین و مسائل کا بیان ہے کہ شاید اُن کے عصر کے دوسرے شاعروں میں نظر نہ آئے ۔اس کی وجہ اُن کا گہرا معاشرتی مطالعہ ہے۔
2:        صنفی اور ہئیتی تنوع
داؤد رہبر ؔ کی شاعری کا فنی مطالعہ ادھورا رہے گا ، اگر ان کے کلام میں استعمال ہونے والی ہئیتوں کے تنّوع کا ذکر نہ کیا جائے ۔ اس ضمن میں معروف شاعر ظفرؔاقبال کی رائے ملاحظہ ہو:
رہبرؔ کا زیادہ کلام تو غزل کی صنف میں ہے مگر غزل کے علاوہ انھوں نے مثنوی ، آزاد نظم ، معرا نظم ، ترکیب بند ، رباعی ، قطعہ اور فردیات تک میں اپنے خیالات و مشاہدات کا اظہار کیا ہے۔ اس تنوع کے حوالے سے ان کے ’کلیات ‘اور ’باقیات ‘کا مطالعہ بتاتا ہے کہ غزل کے فن پر دسترس کے علاوہ دوسری اصناف کے نمونوں کے اندر بھی ان کی فنی مہارت اور قادر الکلامی موجود ہے۔ اس کی وجہ ان کا گہرا مطالعۂ ادب ہے۔ وہ ادب کی تمام اصناف اور ان کے فنی و تخلیقی تقاضوں سے بخوبی آشنا تھے۔    (۱۲)
داؤد رہبرؔ اس تخلیقی حقیقت سے مکمل طور پر آگاہ تھے کہ ہر خیال اور شعری تجربہ اپنی ہئیت لے کر آتا ہے ، بعض خیالات غزل ہی میں بہتر طور پر ابلاغ پذیر ہوتے ہیں جب کہ بعض خیالات کے لیے نظم کی صنف بہتر رہتی ہے ، پھر نظم میں بھی قطعہ بند ، آزاد اور معرانظم ،اپنے اپنے فنی اور ہئیتی تقاضوں کے مطابق اظہار اور تاثیر کا قرینہ رکھتے ہیں۔ کوئی چھوٹا سا عارفانہ نکتہ ہو تو اس کے لیے فردیات ، قطعہ یا رباعی کی ہئیت بہتر رہتی ہے لیکن اسے خوامخواہ طول دے کر طویل نظم میں ادا کرنے کی کوشش کی جائے تو وہ نظم زیادہ موثر نہیں ہوگی۔  نتیجتاً داؤد رہبرؔ کی شاعری میں یہ سب التزام سلیقے سے موجود ہے۔
٭        آزاد نظم:
داؤد رہبرؔ نے اپنے خیالات کی مناسبت کے لیے مختلف اصناف اور ہئیتوں کا استعمال کیا۔ واضح رہے کہ کلاسیکی مزاج رکھنے کے سبب وہ زیادہ تر غزل اور پابند نظم نگاری ہی کے قائل تھے اور اسی سے زیادہ تر وابستہ رہے مگر انھوں نے اردو شاعری کی تازہ اور جدید اصناف ،آزاد نظم اور معرانظم میں بھی طبع آزمائی کہ ان کی صنفی اور ہئیتی رنگا رنگی کے نمونوں کا مطالعہ ہم نظم کی ان نئی صورتوں ہی سے کرتے ہیں جسے انھوں نے بقول ان کے، ن۔ م۔ راشدؔ کے کہنے سے اختیار کیا وہ  ’’ تفنن بلا ترنم ‘‘ کے عنوان سے اپنی نظموں کے حصے کا آغاز ایک چار سطری دیباچے میں اختصار سے یوں کرتے ہیں۔
’’ ن م راشد مرحوم کی راقم پر خاص شفقت تھی ۔ ان کی شفقت نے جدید شاعری سے ہماری صلح کرا دی ، اوراق حاضرہ پر جو بہلاوے درج ہیں ، انہیں اس صلح کی مہر تصدیق سمجھا جائے ۔  ۹ مارچ ۱۹۸۸؁ء داؤد رہبرؔ  (۱۳)
اس مختصر عبارت سے جدید شاعری ( نظم آزاد وغیرہ) کے حوالے سے دو باتیں ظاہر ہوئیں۔ پہلی یہ کہ وہ اس طرف ن۔ م۔ راشد کے کہنے سے متوجہ ہوئے ، دوسرے یہ وہ انھیں سنجیدہ تخلیقی تجربے سمجھنے کی بجائے شگفتگی یا مزاح کے بہلاوے سمجھتے ہیں۔ اس حصہ نظم کے عنوان ’’ تفنن بلاترنم‘‘ میں بھی یہ شگفتگی ظاہر ہے کہ وہ ترنم کو شاعری کے لیے ناگزیر سمجھتے تھے۔ چونکہ آزاد نظم کا آہنگ عروضی آہنگ سے نسبتاً ڈھیلا اور کم سرُیلا ہوتا ہے لہذا وہ عنوان ہی میں اسے ایسے تفنن (طبع) سے تعبیر کرتے ہیں جو ترنم کے بغیر ہو۔ آزاد نظم کا ایک نمونہ ملا حظہ ہو۔ اس کا عنوان ’بے حس‘ ہے۔
آٹا جس نے خود نہیں گوندھا
پورا وہ انسان نہیں
جھاڑو جس نے دے کے نہیں یکھا
دھرتی سے بیگانہ ہے وہ
دھوکے نچوڑے نہ کپڑے جس نے
صاف دماغ نہ اس کا ہوا
جس نے مٹی گوڈ کے اس میں
کچھ نہیں بویا
وہ کیا جانے بیج کا رشتہ
پھول سے ،پھل سے ، لقمے سے
اپنے ہاتھ سے جس نے دبا کر
تھن کو دودھ نہیں دوہا
وہ بکری کا یار نہیں                (ب : ۲۱۳)
ایک اور نظم  ’’ بے موسم راگ ‘‘ میں وہ اس بات کے قائل ہوتے نظر آ رہے ہیں کہ آزاد نظم کا زمانہ آ گیا ہے اور اب غزل کا ایک دور رخصت ہو رہا ہے۔ اس نظم کا خاتمہ یوں ہوتا ہے ۔
…… تغزل کا ساماں نہ باقی رہا
تفنن کا وہ سب بہانہ گیا
غزل کا بہانہ گیا                               (ب : ۲۲۱)
معرانظم:
معرانظم  کی ہئیت کو بھی انہوں نے بڑی کامیابی سے حسین نظموں کے ترجمے  ’’ رسم و راہ ِ زندگی ‘‘ میں برتا ۔ یہ طویل سلسلۂ ، نظم ، جو رسم و راہِ زندگی کی انگریزی کتاب سے لیا گیا ، معرانظم ہی میں ہے ۔ اس ترجمہ کے علاوہ ان کی معرانظم  ’’خبریں ‘‘ کا یہ اقتباس ملاحظہ ہو۔
اس کی تفصیل بیاں ہو کیسے
صورت حال جو ہے سب کی
اگلے دو منٹوں میں دنیا بھر میں
کوئی اک دوڑ لگاتا ہوگا
کوئی آرام سے لیٹا ہوگا
کوئی محبوب سے چمٹا ہوگا
کوئی بھائی سے لگے گا لڑنے
کوئی تصویر بناتا ہوگا
کیا خبر کون بھرے گا آہیں
مسکرائے گا کوئی آپ ہی آپ
اور کوئی قہقہہ مارے گا بلند
گنگنائے گا اکیلا کوئی
اور بجائے گا کوئی دو تارا
کوئی پیٹے گا کسی بچے کو
کوئی بندوق سے مارے گا ہرن
(ب : ۲۲۴)
ترکیب بند:
داؤد رہبر ؔنے اپنے ترکیب بند میں اس صنف کے فنی تقاضوں کو جس طرح نبھایا ہے ، یہ ان کی مہارتِ فن اور قادر الکلامی کی دلیل ہے ۔ اس کی روانی ، بہاؤ ، زوراور خوش آہنگی ،اس کی تاثیر میں اضافہ کرتی ہے۔ اس کا نمونہ ملاحظہ ہو۔
لگا کر حکمراں دفتر میں کرسی میز بیٹھے ہیں
ہے دھوکا دیکھ کر ہوتا کہ یہ انگریز بیٹھے ہیں
لیے رہتے ہیں دن بھر پینے کو اک پائپ مٹھی میں
دھوئیں میں یہ بیک اندازِ دلاویز بیٹھے ہیں
بہت مصروف رہتے ہیں ، ہیں ذمہ داریاں اتنی
قلم اک ہاتھ میں اپنے یہ لے کر تیز بیٹھے ہیں
برائے دستخط اک کاغذوں کا ڈھیر ہے آگے
جبھی تو ہو کے تنہا اور کم آمیز بیٹھے ہیں
بہت اصلاح کے وعدے کیے ہیں ان نے خلقت سے
یہ کر کے جلسے میں تقریر ، محشر خیز بیٹھے ہیں
سپرد ان کے کیا ہے قوم نے گھوڑا ترقی کا
یہ گھوڑے پر لگانے کو اسے مہمیز بیٹھے ہیں
(ب : ۱۴۲)
٭        رباعی :
داؤد رہبر ؔنے رباعی کی صنف میں بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے اور وہ اس طرح کہ اس ہئیت اور وزن میں غزلیں بھی لکھی ہیں ، جو ایک مشکل کام تھا۔ رباعی کی صنف میں یہ نمونے دیکھئے۔
لاحق ہوا شرک تو خدایا نہ گیا
اک بار صنم جو دل میں آیا ، نہ گیا
سینہ مرا دلرباؤں کی بستی ہے
جس سے بھی ہوا پیار ، بھلایا نہ گیا
(ک: ۶۵۰)
عادت سے ہم اپنی ہی سراسر مجبور
پردے میں رہیں گے وہ تو چھیڑینگے ضرور
اب چُہل کریں تو ان کو سننا ہو گا
اُن کو رہے معلوم کہ ہم ہیں جمہور
(ک : ۶۵۰)
توحیدِ وجودی بھی ہے اپنا مسلک
توحیدِ شہودی کے بھی ہیں ہم گاہک
ہم کو بس واسطہ ہے دلجمعی سے
پروا نہیں کہلائے اگر ہم کودک
(ک : ۶۵۰)
٭        قطعہ :
ایک قطعہ کا نمونہ بھی دیکھئے ۔
پوچھو جو لُطف کی کیا شَے ہم نے آزمائی
لیَ ہم نے آزمائی ، میَ ہم نے آزمائی
ہستی نے لیکے ہم کو سختی سے آزمایا
مستی سے لیک ہستی ہے ہم نے آزمائی
(ک : ۶۵۱)
٭        مثنوی:
مثنوی اردو کی ایک معروف صنف ہے ، ( اور عام طور پر قصہ پن اور مضمون کی روانی اور بہاؤ کے لیے استعمال کی جاتی ہے) بھی داؤد رہبرؔ کے کلیات میں نظر آتی ہے ۔
صفت طنبورے کی
ہے چار تار کی دنیا میں کُن کا ہنگامہ
یہ نامہ وہ ہے کہ انگشت جس کا ہے خامہ
کھرج ہے صدر نشیں اور ہیں جوڑ اس کے رفیق
عجیب طرح ہے پنچم سے ان کا عہدِ عتیق
کھرج کا جوڑ سے ، بھائی ، سُنو ، قدیم ہے ربط
نہیں یہ واسطہ برہم ، یہ مستقیم ہے ربط
یہ رشتہ کم نہیں پنچم کا ساتھ تینوں کے
بھری ہوئی ہے شراب اندر آبگینوں کے
یہ تار وہ ہے جو مدّھم بھی ہے نکھاد بھی ہے
یہ تار وہ جو کم بھی ہے اور زیاد بھی ہے
یہ تار فطرتِ آدم کا ہے نمایندہ
ہے رنگ رنگ ، تلّون ہے اس کا پایندہ
ہر ایک حال میں تابندہ ہے یہ تار اگر
ہے تین تاروں کی صحبت کا یہ اثر اس پر
نشانِ زمزمہ کیا ہے بجز ہم آہنگی
یہ راز وہ ہے کہ واقف ہے جس سے سارنگی
سبھا میں سچا بھگت ہے اگر تو طنبورہ
ہے مست اپنی سماد ھی میں گیان میں پورا
(ک : ۴۶۷)
3 :        ہندی الفاظ و تہذیب کا رنگ
داؤد رہبرؔ کے ہاں ہندی زبان کی چاشنی بھی خوب ہے۔ انھیں تقسیم سے پہلے کا ہندوستان اور وہاں کا تمدن ، معاشرتی طرز زندگی ، اس دور کا روزمرہ ، محاورہ اچھی طرح سے یاد ہے اور ان کے اشعار میں اس کا پر تو واضح نظر آتا ہے۔ اُس دور کے رسوم و رواج ، میلے ٹھیلے یہ سب ان کے ہاں آج کی بات محسوس ہوتے ہیں۔ اس کی ایک وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ وہ امریکہ میں رہائش پذیر ہوتے ہوئے بھارت آتے جاتے بھی رہے اور امریکہ میں اُن کا میل ملاپ بہت سے بھارتی نثراد امریکیوں سے بھی رہا۔ اس لیے ان کے ہاں ہندی الفاظ و تراکیب شعوری کاوش کا نتیجہ معلوم ہوتے ہیں۔
گوپی کہتی ہے ’’ کنہیا مجھے گھر جانے دے ‘‘
نارسائی ہے کہاں یہ تو گرفتاری ہے
ہم  ہیں جس دور میں تہوار یہ ہولی کا ہے
پوچھیے کیوں کر یہ کس رنگ کی پچکاری ہے
(ب :۹۴)
شب یاں مقابلے پر طبلہ نواز دو تھے
توڑے کا تھا یہ دنگل گت اور پرن کا دنگل
(ب: ۱۰۳)
4 :        موسیقی سے متعلقہ الفاظ:
جو چیز داؤد رہبرؔ کی غزلیات میں سب سے نمایاں ہو کر سامنے آتی ہے ،وہ ہے شاعر کا موسیقی سے شغف ۔ ایک تو شاعر کی موسیقی سے طبعی مناسبت واضح ہو کر سامنے آتی ہے۔ دوسرے امریکی طرز زندگی نے بھی سونے پہ سہاگے کا کام کیا۔ جس میں رقص و موسیقی ایک جزو لازم کی حیثیت رکھتی ہے۔ بحرحال شاعر نے جس قدر موسیقی سے لطف کشید کیا،  اُس کا واضح عکس اُس کی غزلیات میں جا بجا بکھرا پڑا ہے اور یہ لطف صرف موسیقی سے لطف اندوز ہونے کی حد تک دکھائی نہیں دیتا بلکہ فن موسیقی کے اسرارورموز سے بھی مکمل آگہی کا پتہ دیتا ہے۔  بقول افتخارؔ عارف :
’’موسیقی سے صرف لطف اندوز ہونا اور بات ہے۔ رہبرؔ نے تو مختلف اشعار میں فن موسیقی کی مخصوص اصطلاحات کے ذریعے اس فن میں اپنی گہری دلچسپی اور شعور کا بتا دیا ہے، کہیں آلات موسیقی کا ذکر ہے تو کہیں مختلف راگوں اور ان کے اوقات کا ذکر ہے۔  راگ داری کے بارے میں انھوں نے کلاسیکی موسیقی کے اسرار و رموز اور تاریخ و تہذیب کے پس منظر میں خوب صورت اشعار کی ایک یادگار ’کلیات‘ کی شکل اور ’باقیات‘ میں چھوڑی ہے ‘‘ (۱۴)
 چند مثالیں دیکھئے۔
اپنا اپنا مشرب رکھ کر کیوں نہ رہیں بن کر ہم یار
تا اور دھا میں فرق بہت ہے تاہم ہیں یہ باہم یار
(ک : ۱۲۷)
لطف کوئی بھی نہیں ہم کو اکہرا چاہیے
جب بجے توڑا تو اس کے ساتھ لہرا چاہیے
(ک: ۹۵)
اس طرح ہم نے کیا اظہارِ غم کو ملتوی
جیسے کرتے ہیں مُغنّی لوگ سم کو ملتوی
(ک :۱۲۱)
5 :        داؤد رہبرؔ کی لفظیات:
ڈاکٹر داؤد رہبرؔکی لفظیات کا ذخیرہ ایک جداگانہ لغت کی ترتیب مانگتا ہے۔ انھوں نے کم و بیش وہ تمام اہم الفاظ اپنی شاعری میں برتے ہیں جو مروجہ شعبہ ہائے فکرو زندگی میں برتے جاتے ہیں۔ کسی شاعر کے مضامین و افکار کی کثرت اور رنگا رنگی کا پتہ اس کے ذخیرہ الفاظ سے لگتا ہے۔ سید امام اثر نے اپنی معروف کتاب ’کاشف الحقائق ‘میں (جو اردو کی ابتدائی تنقیدی کتابوں میں شمار ہوتی ہے ) ایسے سینکڑوں لفظوں کی فہرست گنوائی ہے جو اظہار مقصد اور عرض احوال کے لیے بڑے با معنی اور بلیغ ہیں اور جن کے ذریعے کم و بیش زندگی کے امورو مسائل اور جذبات و واردات کی کئی فکری اور معنوی پرتیں ہمارے سامنے آ جاتی ہیں۔ شعر و ادب کی لفظیات میں ان الفاظ کو کسی بھی شاعر کے ڈکشن کے لیے ضروری خیال کیا جاتا ہے۔ وہ کہتے ہیں۔
’’… ارباب واقفیت سے پوشیدہ نہیں ہے کہ قدر وسیع ہے کہ اس کے اندر مضامین اللہ و ماسویٰ اللہ سب کی گنجائش دیکھی جاتی۔ اسی سے شاعری کی عظمت اور بلند پائیگی عیاں و آشکارا ہے۔ شاعری کو ایسے مضامین سے جیسے توحید ، عدل ، ذات ، صفات ، وجود ، عدم ، قدوم ، حدوث ، کون ، فساد ، جبر ، اختیار ، تقدیر ، تدبیر ، بقا ، فنا ، جزا ، سزا ، حشر ، شر ، فعل ، خلق ، زمان ، مکان ، صورت ، ہیولیٰ ، جوہر ، عرض ، روح ، جسم ، ثواب ، عذاب ، دنیا ، عقبیٰ ، حافظ ، خیال ، وہم ، عقل ، ہوش ، خلوص ، حیا ، وفا ، قہر ، غضب ، حلم ، صبر ، رضا ، شکر ، ہمت ، شجاعت ، سخاوت ، مروت ، حسد ، بغض ، بخل ، حرص ، طمع ، ہوا ، ہوس ، حسرت ، عشق ، جنون ، رنج ، ملال ، رغبت ، نفرت ، رشک ، غرور ، شمس ، قمر ، کواکب … ہوا ، برق ، باراں … صحرا ، طیور ، حجر ، شجر ، غیرہ ہیں ، کافی طور پر مطلع رہنا چاہیے۔ پس جب اس طرح کے مختلف انداز کے مضامین احاطۂ شاعری میں داخل ہیں تو ضرور ہے کہ ایسے مضامین کی تقسیم عملی طور پر عمل میں لائی جائے تاکہ معلوم ہو سکے کہ اگر کسی شاعر نے کسی مضمون کو باندھا ہے تو وہ از روئے تقسیم کے کس قسم میں داخل ہوتا ہے ‘‘۔(۱۵)
ڈاکٹر داؤد رہبرؔ کا ذخیرہ الفاظ اس فہرست سے ہزار گنا زیادہ ہے۔ یہ الفاظ بھی کم و بیش رہبرؔ کی شاعری میں اپنی تلازماتی وسعتوں اور علامتی معنوں میں بڑی خوبصورتی سے استعمال ہوئے ہیں۔ اگرچہ ان کی شاعری کا لب و لہجہ بحیثیت مجموعی سپاٹ ، براہ راست اور کہیں کہیں لفظ برائے لفظ کے استعمال میں ہے، ۔اُنھیں کسی خاص زبان کے الفاظ کے استعمال سے غرض نہیں۔ جس لفظ کی ضرورت وہ جہاں محسوس کرتے ہیں ، اسے برتتے ہیں۔ لیکن پھر بھی ایک بات حتمی ہے کہ ڈاکٹر داؤد رہبرؔ کی شاعری کی انفرادیت ان کا وسیع ذخیرہ ٔالفاظ ہے اگرچہ تمام شاعر الفاظ کے ذریعے ہی اپنے جذبات ، مشاہدات اور خیالات کا اظہار کرتے ہیں مگر اکثر شعراء محدود ذخیرۂ الفاظ کے اندر ہی گھومتے رہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ عام لغت کا بہت تھوڑا حصہ شاعری میں استعمال ہوتا ہے۔ ہر لفظ اپنا معنی اور موضوع ساتھ لے کے آتا ہے۔ لہذا جو شاعر زیادہ موضوعاتی تنوع کے دائرے میں اظہار کرے گا ، اس کے الفاظ کا اثاثہ بھی بہت ہوگا ۔ اردو شاعری کے کلاسیکی عہد میں نظیر ؔ اکبر آبادی اور جدید دور میں جوشؔ ملیح آبادی و ہ شاعر ہیں جنہوں نے وسیع ذخیرہ الفاظ استعمال کیا۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے کلام میں برتے گئے الفاظ  کے جداگانہ لغت بھی مرتب ہوئے۔ شاعری کے دور  حاضر میں مجیدؔ امجد کا نام بھی اس ضمن میں لیا جاتا ہے ، لیکن یہ حقیقت ہے کہ ڈاکٹر داؤد رہبرؔ کی غزلوں اور نظموں میں استعمال ہونے والا ذخیرہ ٔالفاظ بھی بہت وسیع اور منفرد ہے۔
داؤد رہبرؔ کے کلام کا فکری و فنی مطالعہ ادھورا رہے گا اگر ان کی مخصوص lexcography    کا جائزہ نہ لیا جائے۔ داؤد رہبر ؔ کے لفظیاتی تجزیے سے پتہ چلتا ہے کہ ان کے کلام میں مستعمل الفاظ کا ذخیرہ ، غزل کے مخصوص کلاسیکی ذخیرے سے بہت پھیلا ہوا ہے۔ اس ذخیرے کے بڑے بڑے شعبے درج ذیل ہیں۔
۱۔        مذاہب سے متعلقہ لفظیات ، اصطلاحات
۲۔        موسیقی سے متعلقہ لفظیات ، مخصوص اصطلاحیں
۳۔       پیشہ وارانہ الفاظ اور اصطلاحات
۴۔       بازاری سیلنگ الفاظ
۵۔       تغزل کے حوالے سے معروف الفاظ
۶۔        خاندان ، رشتے برادری کے الفاظ
۷۔       جانوروں ، پرندوں ، سے متعلق الفاظ
۸۔       برصغیر کی تہذیب و ثقافت سے وابستہ الفاظ
۹۔        سیاحت ، سیاسی نظریوں اور رہنماؤں سے متعلقہ الفاظ
۱۰۔       جنگ و جدل ، ہتھیاروں اور عسکری اصطلاحیں
۱۱۔       ادبی ، فنی اصطلاحیں اور ان سے وابستہ الفاظ
ان شعبوں میں موسیقی کے حوالے سے جتنے الفاظ اور اصطلاحیں داؤد رہبرؔ نے اپنی شاعری میں استعمال کی ہیں ،اردو شاعری کے معاصر منظر نامے میں کسی اور نے نہیں کیں۔ ایسے الفاظ اور اصطلاحیں بیسیوں نہیں سینکڑوں میں ہیں۔ رہبر ؔ نے انہیں اتنی خوبصورتی سے برتا ہے کہ یہ الفاظ  ’’ استعمال برائے استعمال ‘‘ نہیں بلکہ صحیح جگہ پر پوری سمجھ داری سے استعمال ہوتے ہیں اور ان کے مفہوم کو گہرائی میں جا کر دیکھنے کی ضرورت پڑتی ہے۔ مثلاً درج ذیل اشعار دیکھئے۔
ہے ازبر ہم کو بس فہرست اک اسمائِ حُسنیٰ کی
دم تسبیح ایسی جدولِ اوصاف کافی ہے
(ک : ۱۸۹)
یہاں اسماء حسنیٰ کا اشارہ قرآن مجید کی سورہ حشر کی آخری آیت کی طرف ہے جس میں اللہ تعالیٰ کے بہت سے اسماء کا ذکر ہے۔ اسی طرح
خم درکار ہیں دو ساقی جی ، اک خالی اور ایک بھرا
گاہ بھری پر ہوگا اور گاہے خالی پر سم ہوگا
(ک:۱۸۵)
واضح ہو کہ اس شعر میں خالی ، بھرا اور سم کے الفاظ طبلے کے دو بول ہوتے ہیں۔ خالی (مثلاً تا اور تِن) بھری (مثلاً دھا اور دھن) سم سے مراد ہے تال کا پہلا دائرہ۔ داؤد رہبرؔ نے حاشیے میں اس کی وضاحت بھی کی ہے۔
یہ مثالیں بتاتی ہیں کہ داؤد رہبرؔ کے اشعار میں جو الفاظ اشعار کی معنویت کو اجاگر کرتے ہیں، وہ محض الفاظ کے طور پر استعمال نہیں ہوئے۔ ان کے ساتھ کچھ مذہبی ، اساطیری ، تہذیبی اور ثقافتی تلازمات بھی جڑے ہوئے ہیں۔ یہ تلازمات ان اشعار کی معنویت میں اضافہ کرتے ہیں۔ اگر قاری ان کی علامتی اور تہذیبی گہرائی میں اتر کر دیکھے تو ان کی کئی معنوی پرتیں سامنے آتی ہیں۔
الفاظ کے ایسے استعمال ، شاعر کے وسیع تہذیبی مطالعے اور مشاہدے کے عکاس ہوتے ہیں۔ ہر شعر میں ترنم ، غزلیت اور معاملہ بندی ڈھونڈنا مناسب نہیں۔ جیسا کہ پہلے عرض کیا جا چکا ہے ، داؤد رہبرؔ عام لوگوں سے ہٹ کر شعر کہنے والے تھے۔ شاعری ان کے لیے وجہ شہرت اور ذریعۂ عزت نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے کبھی اپنے آپ کو شاعر کہلوانے اور منوانے پر زور تو کیا ، ذرا سی بھی توجہ نہیں دی ۔ وہ اپنے حلقۂ احباب تک اپنے ذوق شعری کو محدود رکھتے تھے اور ان کے لیے شعری اظہار ایک عام گفتگو اور مکالمے کی حیثیت رکھتا تھا۔
گرچہ اس سے بے سُرا پن آئے گا آواز میں
لیکن اب ہوگی غزل واسوخت کے انداز میں
(ک: ۹۸)
6 :        معنی و لفظی وضاحتیں:
داؤد رہبرؔ بعض اوقات اپنے اشعار کے مفہوم اور الفاظ کی وضاحت بھی کر دیتے ہیں جس سے قاری کو شعر کی تفہیم میں آسانی ہو جاتی ہے مثلاً یہ شعر دیکھئے۔
راہبرؔ سیر عجم میں لطف اب باقی کہاں
گُھل گیا ہے روغنِ ِگل شیرۂ شیراز میں

(ک:۹۹)
یہاں روغنِ گِل سے مراد مٹی کا تیل ہے۔
دیکھ کے رہبرؔ کی صورت نعمان میاں نے جھٹ پوچھا
نثر تو ان کی دیکھی ہے پرشعر یہ کیسا کہتے ہیں
(ک:۱۰۳)
وہ نعمان میاں کی وضاحت یوں کرتے ہیں (ڈاکٹر نعمان الحق خیر آبادی ، ثم کراچوی ثم لندنی ثم امریکی ) دکن کا ریختہ/(ص۱۰۳) 
کب ہوگا بھائی بابر اُس نغمہ گر کا جلسہ
گائے جو راگ ہنس کر ، جائے ہمیں رُلا کے
یہاں بابر سے مراد آغا بابر بٹالوی ہے (دکن کا ریختہ ص ۱۰۶)  
بعض اوقات وہ غزل کے عنوان کی وضاحت میں شان نزول کا ذکر کرتے ہیں مثلاً ایک غزل کے شروع میں لکھتے ہیں  ’’ سہیل صفدر صاحب سے اپنی                 تصویر موصول کر کے ‘‘
وہ ملنے آئے تھے ہاں جب میں تنہائی کا مارا تھا
وطن کو یاد کر کر کے وہ دن ہم نے گزارا تھا
 (ک  : ۱۲۱)
ایک اور عنوان دیکھئے عزیزی نوید ریاض کی دعوت موصول کر کے:
وہ کہتے ہیں ہم سے ، دسمبر میں آیا کرو
کمان اپنی لے کر سوئمبر میں آیا کرو
 (ک : ۱۲۲)
اسی طرح  ’’ گرامی مشفق خواجہ صاحب کا خط پڑھ کر ‘‘ کے الفاظ کے بعد درج ذیل غزل شروع کی گئی ہے۔
جب اٹھاتا ہوں قلم تو پہلے ہُو لکھتا ہوں میں
پھر مخاطب ہو کے اک دلبر سے  ’’توُ‘‘ لکھتا ہوں میں
(ک : ۱۲۸)
7 :        شگفتگی اور تراکیب سازی :
داؤد رہبرؔخود کہتے ہیں کہ شاعری اُن کے لیے ایک زیرِ لب گنگناہٹ کی طرح ہے۔ انہوں نے کئی شعروں میں موسیقی اور شگفتگی سے موضوع کو آگے بڑھایا ہے۔ درج ذیل شعر دیکھئے ۔
رہبرؔ شیخی کا فائدہ کیا
کوّے سے تو ہر کوی ہے بہتر
(ک: ۱۲۳)
یہاں کوے اور کوی کا صوتیاتی فائدہ اٹھایا ہے۔
خدمت آخرش اپنی شُست دشوئے  پا ٹھہری
اسپہ کیا کہے کوئی ، یار کی ادا ٹھہری
(ک : ۶۰۰)
یہاں ’ شُست دشوئے ، کی ترکیب دیکھئے۔   
8 :        مکالمے :
داؤد رہبرؔ کی شاعری میں مکالمہ نگاری کو بہت اہمیت حاصل ہے ۔وہ اشعار اس طرح کہتے ہیں جیسے کسی کو سامنے بٹھا کر باتیں کی جائیں اور یہ ان کی شاعری کی بہت بڑی خوبی ہے۔ مثلاً
آتا ہے یاد ولّی کے اک دوست کے یہاں
اندر سے آئی تھی یہ صدا ’’ پان بن گیا ‘‘
(ک : ۶۳۰)
پوچھا میں نے رئیسِ مکتب سے
’’ساعتِ درس‘‘ کیوں مقرر ہے؟
(ک: ۵۸۲)
مجھے مالک سے ایسی گفتگو محفوظ رکھتی ہے
’’ ترے ذمیّ ابھی تنخواہ کچھ نوکر کی باقی ہے ‘‘
(ک : ۵۸۳)
9 :        مشکل زمینیں:
داؤد رہبرؔ کو مشکل زمینوں اور قافیوں میں شعر کہنے پر کمال حاصل ہے ، مشکل طرحوں اور عربی ، فارسی ، ہندی ، کے علاوہ بعض الفاظ پنجابی تلفظ کے ساتھ بھی ان کی شاعری میں ملتے ہیں۔اور سنگلاخ زمینوں میں شعر کہنے کے باعث انھیں ، امریکہ کا ناسخ کہا جاسکتا ہے۔ وہ زبان کے اسرار و رموز سے کاملاً آگاہ ہیں۔  مشکل زمینوں میں بڑی آسانی اور روانی سے شعر کہتے رہے۔ نیز مضمون آفرینی ، خیال بندی اور تشیبہ و استعارہ سازی میں انھیں کمال حاصل ہے۔ درج ذیل مثال دیکھئے۔

یہ راہبرؔ حضور ہے غلط گھڑت کا آدمی
کرے گا الٹی بات ہی یہ الٹی مت کا آدمی

10 :      نفسیاتی / ذاتی تجربے :
داؤدرہبرؔ نے زندگی کو بہت قریب سے دیکھا اور اپنے مشاہدات و تجربات اور محسوسات و خیالات کو اپنی شاعری میں جگہ دی۔ان کی شاعری دراصل ان کا اپنا زندگی نامہ ہے۔ بقول مشفق خواجہ :
’’آپ کی غزلوں سے شعروں کو الگ کر کے دیکھنا ظلم ہے کیونکہ آپ کی ہر غزل اول تا آخر ایک موڈیا مزاج کی ہوتی ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے آپ کی غزل روایتی نہیں ہے۔ آپ نے غزل کا صرف جسم روایت سے لیا ہے روح خود پھونکی ہے نتیجہ یہ ہوا کہ آپ کی غزل آپ ہی سے مخصوص ہو کر رہ گئی۔ اس میں آپ کے مطالعے کی جھلکیوں کے ساتھ ساتھ آپ کے مشاہدات و تجربات مختلف پہلو بھی سامنے آ جاتے ہیں۔ بلکہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ آپ غزل نہیں لکھتے آپ بیتی لکھتے ہیں‘‘۔ (۱۶)
11 ۔     یورپی کلچر کے اثرات:
امریکی طرز زندگی نے موسیقی کے ساتھ ساتھ ذکر شراب کو بھی داؤد ہبرؔ کی شاعری کا لازمی جزو بنا دیا ہے۔ اگرچہ ذکرِ شراب کے لیے امریکی یا یورپی زندگی کی طرز کا حامل ہونا ضروری نہیں کہ ہمارے کلاسیکی شعراء کے مضامین اس ذکر سے بھرے پڑے ہیں۔ اس کے علاوہ عربی و فارسی بلکہ تقریباً ہر زبان کی شاعری میں ذکرِ شراب اہم عنصر کی طرح شامل رہا ہے۔ تاہم داؤد رہبرؔ کے اشعار میں امریکی طرز زندگی سے متعلق دیگر اشارے بھی ملتے ہیں اور ان سے متصل ذکرِ شراب بھی۔ امریکی طرز زندگی میں جو آزاد ہ روی ہے اس کا شعر کے شعو رکا حصہ بننا اور پھر لاشعور سے اشعار کا انعکاس ہونا بالکل فطری ہے۔ اگرچہ شاعر کا دل اپنے دیار ہی کے لیے دھڑکتا محسوس ہوتا ہے تاہم جس ماحول کا وہ عرصہ دراز سے حصہ ہیں اُن کا اشعار میں منعکس ہونا عین فطری عمل ہے اور اس پر مستزاد شاعر کی بسیار گوئی ان دونوں عوامل نے داؤد رہبرؔ کی شاعری میں رنگوں کی تعداد بڑھا دی ہے۔
نغمہ بن جائے کوئی تلخی نہ ہو فریاد میں
مے کی صورت سے اگر ہو تلخ سارا تجربہ
(ک: ص۳۴)

ساقی چمکتے دشت کی تصویر ہی دکھا
دیتا نہیں شراب تو دے دے سراب ہی
(ک:ص ۵۱)
اختتامیہ
داؤد رہبرؔ کی شاعری اگرچہ اردو کے شعری منظر نامے کے پسِ  منظر میں تخلیق ہوتی رہی مگر یہ حجم میں اتنی بڑی ہے کہ اسے نظر انداز کرنا بہت مشکل ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ ادب کی تخلیق کا تعلق شہرت اور ناموری سے نہیں ، صلاحیت اور مہارت سے ہوتا ہے ۔ہر نظم نگار اپنا تنقیدی ضابطہ بھی ساتھ لاتا ہے اور یہ ضابطہ اس کے اپنے شعری خدوخال سے پھوٹتا ہے ۔ 
بقول ڈاکٹر عنوان چشتی:
روایت کے بعد انفرادیت کی منزل آتی ہے۔ انفرادیت کے بعد جدت اور جدت کے بعد بغاوت کا دائرہ عمل شروع ہوتا ہے۔ اس طرح اگرچہ شعری تجربہ کی اساس روایت پر ہے مگر اس کو بغاوت اور اس کے بعد نئی  ہئیت کی تعمیر تک کئی منزلوں سے گزرنا پڑتا ہے ، روایت کے اس پیچیدہ اور تخلیقی سفر کے ماحصل کانام جدیدیت ہے۔    (۱۷)
لہذا داؤد رہبرؔ کے طرزِ اظہار کو بھی ان کے معاصر شعری روّیوں کے تناظر میں دیکھنا پڑے گا۔ اس دور میں جو گزشتہ صدی کے آخری ربع میں شروع ہوئی ، غزل اور نظم دونوں میں لسانی تشکیلات پر بڑا زور دیا جا رہا تھا۔ اس دور کے شاعروں میں دور دور کہیں داؤد رہبرؔ کا نام نظر نہیں آتا لیکن اگر ان کے کام کو دیکھیں تو ہمیں اُن کی شاعری میں سب سے نمایاں وصف ان کے کلام میں استعمال ہونے والی زبان سے ملتا ہے ۔یہ استعمال اتنا سادہ اور فطری ہے کہ اس میں نئی تشکیلات کی بجائے پرانی زبان کے سرمائے کی حفاظت غیر ارادی طور پر ہوتی نظر آتی ہے۔ مشفق خواجہ نے داؤد رہبر کے کلیات کے آغاز میں ان کے اس وصف کے حوالے سے اگرچہ چند جملے لکھے ہیں مگر وہ چند جملے بھی اتنے دقیع ہیں کہ ان پر ایک پورا جداگانہ مقالے کی بنیاد رکھی جا سکتی ہے۔ معروف ناقد انیس ناگی نے نئی شاعری کے حوالے سے لکھا تھا۔
’’ پچھلی نسل کے پاس زبان کی تشکیل کا کوئی باقاعدہ تصور نہیں تھا۔ انہوں نے مروّجہ لسانی حرمتوں کی قبولیت پر اکتفا کیا۔ نئے شعراء کے لیے زبان ایک زندہ تجربہ ہے۔ الفاظ ادراک کا ذریعہ نہیں بلکہ ان کی مخصوص ترتیب اور تجربے کی تخلیق ہے۔ تجربہ الفاظ سے باہر نہیں بلکہ الفاظ کے اندر ہے۔ زبان حقیقت کو جاننے اور تجربے کی تخلیق کا ایک استعارہ ہے۔  (۱۸)
لیکن حیرت ہے کہ داؤد رہبرؔ کے پاس جو انیس ناگی کی نسل سے کچھ سینئر تھے ، زبان کا پورا رکھ رکھاؤ موجود ہے۔ داود رہبر ؔکے کلام میں اردو کے سینکڑوں محاورے ، روزمرہ ، مختلف شعبۂ ہائے حیات کے بارے میں مخصوص الفاظ اور اصطلاحیں ، برصغیر پاک و ہند کی تہذیب و ثقافت سے جڑے ہوئے الفاظ ، مذہبی مسالک ، اساطیر اور روایات سے منسلک الفاظ ، موسیقی سے متعلق اصطلاحات و الفاظ کا ایک بہت بڑا ذخیرہ اپنی پوری دلالت وضعی اور تلفظ کے احترام کے ساتھ موجود ہے۔ (دلالت وضعی سے مراد الفاظ کا لغت کے ساتھ معنوی رشتے اور تلفظ کا جوڑ ہے ) داؤدرہبرؔ نے اپنی پوری شاعری میں زبان کے کلاسیکی قرینوں کوملحوظ رکھا ہے۔
انھوں نے اپنی شاعری میں جس احتیاط سے لسانی رویوں اور لغاتی قدروں (Dictionary Values ) کا التزام کیا ہے ،اس کی مثال اردو شاعری کے ماعصر منظر نامے میں کم ہی نظر آئے گی بقول جیلانی کامران:
’’ نئی نظم کے شاعر کی ذمہ داریاں پہلے شاعروں کے مقابلے میں بہت زیادہ ہیں ۔ صوفی شاعر اپنی روح کے بچاؤ کی ذمہ داری لیتے تھے۔ حالی ؔ کی ذمہ داری مسلمانوں کی حالت زار کو بیان کرنے کی تھی ۔ اقبالؔ نشاۃِ ثانیہ کے اعلان میں مصروف تھے۔ ترقی پسند شاعر صحت مند معاشرہ قائم کرنے کی ذمہ داری لیتے تھے۔ ان سب کے برعکس نئی نظم کا شاعر زمین پر جسم کے بچاؤ کی ذمہ داری لیتا ہے۔  (۱۹)
داؤد رہبر ؔنے زبان کے پیکر کا تحفظ کیا ہے۔ داؤد رہبر ؔکی شاعری میں لفظیات شناسی کی تفصیلات ایک جداگانہ مقالے کا موضوع ہے۔ یہ مقالہ ان تفصیلات کا متحمل نہیں ہو سکتا ، لیکن یہاں اس امر کی وضاحت اور نشان دہی ضروری ہے کہ ان الفاظ کا استعمال آج کی شاعری میں کم کم  ہوا ہے بلکہ کچھ لفظ تو اپنے صحیح مفاہیم کے ساتھ شائد ان کے کلام ہی میں استعمال ہوئے ہیں۔ ایسے نامانوس لفظوں خصوصاً موسیقی کی اصطلاحوں کی وضاحت داؤد رہبرؔ نے اشعار کے ساتھ پاورق (Foot notes )  میں کر دی ہے۔ جس کی مثالیں ہم گذشتہ صفحات میں دیکھ آئے ہیں۔
ایسے الفاظ اور ان کے ذیل میں استعمال ہونے والے تلازماتِ مفاہیم کو دیکھئے تو پتہ چلتاہے کہ غیر محسوس طور پر تہذیب و ثقافت سے جڑے ہوئے کئی الفاظ اور اصطلاحیں داؤد رہبرؔ کی شاعری میں محفوظ ہو گئے ہیں۔ ڈاکٹر وزیر آغاز نے کہا تھا۔
شاعری میں فرد ، سماج کی میکانکی فضا کو تج کر یعنی اس کی پامال قدروں سے دست بردار ہو کر خود نئی قدروں کو وجود میں لانے کے لیے ایک طویل ذہنی اور نفسیاتی سفر پر روانہ ہو جاتا ہے۔ لیکن وہ اس سفر میں کھو نہیں جاتا بلکہ واپس آ کر سوسائتی کو ایک بلند تر سطح پر فائز کر دیتا ہے۔ نظم کا ابال کلچر کا ابال ہے اور یہی کلچر جب تہذیب میں ڈھلتا ہے تو سماج کو ایک نئی بلند سطح حاصل ہو جاتی ہے۔ نظم استقرائی طریق کو اختیار کر کے خارجی اشیاء کو مس کرتی ہے۔ لیکن اس کی جہت واصح طور پر باہر سے اندر کی طرف ہے۔  (۲۰)

           بالکل اسی طرح داؤد رہبر ؔکی شاعری میں آکر نہ صرف ان سینکڑوں الفاظ کے مفاہیم کا تعین ہو گیا بلکہ تہذیب اور کلچر کی ایک خاص سطح بھی محفوظ ہو گئی۔ خصوصاً موسیقی سے منسلک سینکڑوں الفاظ کا ذخیرہ اپنے لغوی قرینوں کے ساتھ داؤد رہبرؔ کی شاعری میں مربوط اور منظم لغوی حوالے سے محفوظ ہو گیا۔
داؤد رہبرؔ کے ہاں الفاظ صرف بھرتی کے لفظوں کی طرح استعمال نہیں ہوئے بلکہ ان کے پیچھے داؤد رہبرؔ کا تہذیب و ثقافت اور موسیقی سے والہانہ عشق کار فرما ہے۔ انھوں نے ایک ماہرِ ثقافت و موسیقی کی طرح ان الفاظ اور تراکیب و اصطلاحات کو صحیح مقام اور درست حوالے میں برتا ہے۔ داؤد رہبرؔ کی زبان پر ماہرانہ گرفت ، ان کے گہرے تہذیبی تجربے اور ثقافتی مطالعے کی عکاس ہے۔ زبان کے بارے میں ایسا گہرا علم کتابوں سے زیادہ انسانی واردات اور تجربات کی عطا ہے۔ آج کی شاعری کے منظر نامے میں عموماً لسانی شعور بہت کمزور دکھائی دیتا ہے اور ایک طرح کی لسانی آویزش نے شعرا کو بھی عام طبقے کی طرح احساس کمتری میں متبلا کر دیا ہے۔
بقول شاہین مفتی:
’’ مقامی سطح پر ہمارا لسانی شعور قومی اور علاقائی زبانوں کی آویزش کا شکا رہے ، یہ لسانی آویزش ، ایک احساس کمتری کی جنم دہندہ ہے جو فرد کو اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کی صلاحیت عطا نہیں کرتی۔ ہر طرز کی ذہنی سرگرمی میں ہمیں یہی کھٹکا لگا رہتا ہے کہ ہماری زبان اور ہمارا مستقبل غیر محفوظ ہے۔ رسم الخط کی تبدیلیاں ہمارا دشمن ہیں ، ہم تاریخی بے رحمی کا شکار ہیں۔  ہم اپنے عہد میں زندہ ہیں لیکن مُردوں کی طرح۔ یہ ہے ہماری وہ صورت حال جو مغائرت اور بے گانگی کے تانے بانے سے بُنی گئی ہے اور ہم بہت سارے سوالوں کی موجودگی میں اپنی اور اپنی صورتِ حال کی معنویت تلاش کرتے پھرتے ہیں۔ ہمارے سامنے ایک خالی آسمان ہے اور ایک بے یقین موسم ، جس میں دن رات کا تعین نہیں ہو سکتا۔‘‘   (۲۱)
ایسے میں داؤد رہبر ؔکی شاعری ڈاکٹر شاہین مفتی کے ان اندیشوں کو رد کرتی نظر آتی ہے ۔ داؤد رہبرؔ کا لسانی شعو ربھی پختہ ہے اور پھر انہیں اظہار پر بھی مکمل گرفت ہے وہ (Proper Words in Proper Places ) صحیح الفاظ ، صحیح مقام پر استعمال کرتے ہیں۔ ان کے ہاں شعریت نغمگی چاہے کم کم ہو لیکن ان کے ہاں کسی لفظ کے غلط برتنے کا کوئی احتمال نہیں۔
داؤد رہبرؔ کی نثر اور شاعری میں ایک نمایاں فرق ان کے اسلوبِ بیان کا ہے۔ نثر میں ان کے ابلاغ کو جو دل آویزی اور بے تکلفی ہے (خصوصاً ان کے مکاتیب میں ) اور جو براہِ راست اظہار کی صورت میں (خصوصاً داغ مشاعرے کا فاتح) میں وہ اسلوب، ان کی شاعری میں نہیں۔ ان کی شاعری کا لب و لہجہ سپاٹ ، روکھا پھیکا اور معاصر شاعروں سے بالکل مختلف ہے۔ ان کی شاعری میں شعریت اور تغزل کی بجائے الفاظ کی جمع آواری پر زیادہ توجہ ہے لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ ان کے اس انداز میں تکلف کا کوئی شائبہ نہیں۔ زبان و بیان اور الفاظ کا ایسا سپاٹ استعمال ان کا فطری انداز ہے۔
الفاظ کے موزوں اور ناموزوں استعمال کی ساری مثالیں شاعری میں داؤد رہبرؔ پر صادق آتی ہے۔ ان کی پوری غزل یا نظم پڑھ جائیے اس میں الفاظ کا پھیلاؤ اور کاٹ زیادہ ہوگی مگر شعریت بہت کم۔ یہی وجہ ہے کہ بعض ناقدین کے نزدیک ایسی شاعری ادبی حلقوں میں کم کم دہرائی جاتی ہے مگر زبان کے وسیع ذخیرہ کی جمع آوری کے حوالے سے ہمیشہ زندہ رہتی ہے ۔
داؤد رہبرؔ کی شاعری کے حوالے سے مختصراً یہ کہا جاسکتا ہے کہ ان کا وسیع کلام چاہے معاصر شعری منتخبات اور نصابات میں زیادہ نظر نہ آئے مگر اردو لغت کے مرتبین کے نزدیک تلفظ ، املا اور مفاہیمِ الفاظ و تشریحِ اصطلاحات کے حوالے سے ہمیشہ ایک زندہ حوالے کا کام کرے گا۔ وہ درست الفاظ کی درست لغوی سندات  کے معاصر شعری منظر نامے کی ان دو تین شخصیات میں سے ہیں جن کے ہاں تہذیبی و ثقافتی ، تلمیحی و فنی ، علمی و لسانی الفاظ و استعمال کا ایک وسیع ذخیرہ محفوظ ہو گیا ہے… یہ پہلو اُن کی تاریخ ساز کنٹری بیوشن (Contribution )  ہے۔ اس میدان میں وہ منفرد اور

 ممتاز حیثیت رکھتے ہیں کہ انھوں نے شاعرانہ اور کئی پیشہ الفاظ و اصطلاحات (جو اردو شاعری میں نہ ہونے کے برابر استعمال ہوتی ہیں) کو شاعری کا حصہ بنایا ، یوں اردو شاعری کے مجموعی ذخیرہ ، الفاظ و اصطلاحات میں اضافہ کیا۔

نوشین صفدراسسٹنٹ پروفیسر: اردو گورنمنٹ پوسٹ گریجوایٹ کالج ، چاندنی چوک سرگودھا

حوالہ جات
۱۔        داؤدرہبرؔ ، کلیات ، پاکستان پرنٹرز ، کراچی ، ۲۰۰۱ء
۲۔        داؤد رہبر ؔ ، باقیات ، سنگِ میل ، پبلی کیشنز ، لاہور ۲۰۰۷ء
3.        A 'Defence of Poetry' is an essay by the English poet percy Bysshe Shelley, written in            1821 and first published posthumously in 1840 in 'Essays, letters from Abroad, Translations and Fragments by Edward Moxon in London. It contains Shelley's   famous claim that "Poets are the unacknowledged  legistators of the world ."
۴۔       داؤد رہبرؔ ’کلیات ’ ص ۹۴
۵۔       ایضاً ، ص ۴۳۳
۶۔        ایضاً ، ص ۴۶۶
۷۔       ایضاً ، ص ۵۲۱
8.        Harold witter Bynner (Aug 10, 1881 - June 1, 1968) was an American poet, writer and scholar known for his long residence in Santa Fe, New Mexico, and association with  other literary figures there. La-Tzu, "THE WAY OF LIFE ACCORDING TO LAO-TZU)(NEW YORK), The John Day company [1994] and (London: Lyrebird Press Ltd,                ( 1972), American version by 'Bynner '
۹۔        داؤد رہبر ؔ ڈاکٹر کلیات ، ص ۶۵۶
۱۰۔       ایضاً  ، ص ۲۰۱۷۵ء
۱۱۔       دیباچہ دوم ، باقیات ، ازداؤد رہبرؔ ، ڈاکٹر ، سنگ میل پبلی کیشنز ، لاہور ، ۲۰۰۶ ، ص ۴
۱۲۔       انٹرویو از  ظفرؔ اقبال ’ مورخہ ۷فروری ۲۰۱۷ء
۱۳        دیباچہ ، باقیات ، صفحہ ۲۰۸
۱۴۔      انٹرویو از افتخار ؔعارف ،مورخہ ۶ فروری ۲۰۱۷ء
۱۵۔      سید امام اثر ، کاشف الحقائق ، مطبوعہ ۱۸۹۷ء ، بحوالہ صفحہ ۲۳۷۔ احسن ماہروی نمونہ منشورات: مقتدرہ قومی زبان ، اسلام آباد، ۱۹۸۶ء
 ۱۶۔       دیباچہ ’کلیات ‘  ، صفحہ ۵
۱۷۔      عنوان چشتی ، ڈاکٹر ، اردو میں جدیدیت کی روایت ، تخلیق مرکز ، لاہور ، س ن ۔ ص ۱۴
۱۸۔      انیس ناگی ، نئی شاعری کیا ہے (مضمون) ، مشمولہ نئی قدریں ، حیدر آباد ، شمارہ ۵ ، جدید نمبر ، 1944  ، ص ۱۶۷
۱۹۔       جیلانی کامران ، نئی نظم کے تقاضے ، مکتبہ ، عالیہ ، لاہور ، ۱۹۸۵ء ص ۲۹
۲۰۔      وزیر آغا ، ڈاکٹر ، اردو شاعری کا مزاج ، مکتبۂ عالیہ ، لاہور ، ۱۹۷۸ء، ص ۳۰۱
۲۱۔       شاہین مفتی ، جدید اردو نظم میں ، وجودیت ، مقالہ برائے پی ۔ایچ ۔ ڈی ، اردو ، بہاؤ الدین زکریا یونی ورسٹی ، ملتان ، ص ۴۱

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

اوپر جائیں  |   پرنٹ کیجئےِ
انگریزی ورژن ای میل چیک کریں مرکزی صحفہ پرنٹ پسندیدہ سائٹ بنائیں رابطہ کیجئے www.shahzadahmad.com www.shahzadahmad.com