‘‘منٹو اور زخمی نسایت’’
پروفیسر ڈاکٹر روبینہ شاہین

ABSTRACT:
Feminism in Urdu literature is of diverse nature due to different approaches, art philosophies and social backgrounds of the authors. This article is review of feminist approach of Saadat Hasan Manto (1912-1955). He is among the most dominant short story writers in Urdu, and repeatedly beings sued for his daring and outrageous themes. In this article, his various master piece short stories and literary works examined, along with in depth analysis of female characters and their treatment to decipher the consistent patterns of feminism in Manto. It is reached through these analyses that in treatment of female characters and his approach towards feminist thought, he was far ahead of time and could be termed as true feminist in modern sense.
بڑا فن کار ایک مجروح و شکستہ روح کی عکاسی کے لیے کئی خارجی و د اخلی عوامل کو پس منظر و پیش منظر کے ساتھ پیش کرنے پر قادر ہوتا ہے کیونکہ خود فنکار کی تشکیل میں کئی سماجی’ اخلاقی’ سیاسی’ جنسی’ نفسی و اجتماعی حالات و رجحانات حصہ لیتے ہیں۔ ایک نابغہ روزگار فنکار نہ صرف ماضی کی روایت’ حال کے تقاضےبلکہ مستقبل کے امکانات سے بھی جڑا رہتا ہے۔ یہی عمل ادب کو آفاقیت سے آشنا و ہمکنار کرتا ہے۔ سعادت حسن منٹو کا شمار بھی ایسے ہی بلند پایہ فنکاروں میں ہوتا ہے جو اپنے وقت سے کہیں آگے دیکھنے کی صلاحیت سے مالا مال تھے۔ آج منٹو کے افسانے ادبی منظر نامہ پر آتے تو کبھی معتوب نہ ٹھہرتے اور نہ ہی ان پر مقدمے چلتے۔ منٹو نے وقت سے پہلے اس انسان کو دیکھا جو ابھی تہذیب کی گود میں سویا ہوا تھا۔ پھر اس انسان کی ایسی تصویر پیش کی جو امکانات کے سارے در ساتھ لائی۔
برصغیر کی ایک ہزار سالہ تاریخ کے مطالعہ کو پیش نظر رکھا جائے تو چند حقائق سامنے آتے ہیں۔ اس معاشرے میں ہند آریائی خاندان آباد تھے۔ اسلام کی روشنی بھی پہنچ چکی تھی۔ ہندو مذہب میں کئی مورتیوں کی پوجا کی جاتی تھی لیکن سماجی سطح پر ‘‘عورت’’ ایک سوالیہ نشان رہی۔ اس کی ذات ملکیت سے جڑی رہی۔ ہندی زبان میں شوہر کے لیے ‘‘پتی’’ کا لفظ استعمال ہوتا ہے جو بمعنی ‘‘مالک’’ کے ہے جیسے ‘‘لکھ پتی’’ لاکھ کا مالک’ کروڑ پتی’ کروڑ کا مالک’ اسی طرح ‘‘پتی’’ بیوی کا مالک۔ اب اگر ایک مالک ہے تو دوسرا خود بخود ‘‘داس’’ ہے ۔ باپ جب بیٹی کی شادی کرتا ہے تو ‘‘کنیادان’’ کرتا ہے یعنی ‘‘دان’’ دیتا ہے ایسی سماجی صورت حال میں محض ایک خاندان اور اس سے جڑے رشتوں کے محض نام ہی ہر فرد کی حیثیت کا تعین کر دیتے ہیں۔ اس ضمن میں شمس الرحمن فاروقی کا یہ کہنا قابل توجہ ہے کہ:
‘‘عورت مرد کے درمیان صنفی اختلاف کی بنیاد پر کسی طبقے کو کم تر یا بہتر نہیں قرار دیا جا سکتا۔ یعنی یہ کہنا غلط ہے کہ عورت بطور صنف نازک مرد کے مقابلے میں کمزور و کم عقل ہے۔ یہ بھی کہنا غلط ہے کہ بعض خصوصیات مثلانازک دلی’ رقیق القلبی’ شرم و حیا’ ضد وغیرہ عورتوں میں مردوں سے زیادہ ہوتی ہے دوسرے الفاظ میں عورتوں کے بارے میں جو تصورات معاشرے میں رائج ہیں وہ اصلاً اور اصولاًمعاشرہ کے وضع کردہ ہیں حقیقی نہیں’’۔  (۱)
دنیا کے تمام شعر و ادب نے اس عورت کے ہجر وصال’ حسن  و دلکش’ جمال و جلال کو موضوع بنایا جو عام معاشرتی سطح پر بحیثیت انسان خود کو منوانے کی جنگ لڑتی رہی۔ وراثت میں حصہ ہو’ شادی کر کے اولاد اور بیٹا پیدا کرنا ہو’بے اولادی کے طعنے ہوں’ طلاق کا داغ ہو’ کردار کی تہمت ہو یا ظلم کے بدلے بیاہے جانے دکھ’ نشے کے عادی مرد کے لیے کمانا ہو یا بچوں کی بیڑی پائوں میں گھسیٹنی ہوں’ بیوگی کی چتا میں جلنا ہو یا جیتے جی زندگی سے دستبردار ہونا ہو اس کے لیے معاشرے نے عورت کا انتخاب کیا۔ اسی معاشرے کے ایک حساس دل نے اس دکھ درد اور اذیت کو محسوس کیا اور پنے فن میں سمویا۔ منٹو نے اس عورت کے ہر رنگ رو پ کو پیش کیا۔ یہ درست ہے کہ ان کا موضوع زیادہ تر جسم بیچنے والی عورتیں ہیں انہی عورتوں میں منٹو نے عورت کا ہررنگ دیکھا’ پرکھا’ محسوس کیا اور برتا ہے۔ منٹو کے زیادہ تر افسانوں کا موضوع گھروں میں محفوظ عورتیں نہیں ہیں بلکہ سوگندھی جیسی عورتیں ہیں جو اپنی جوانی کا سودا تو کرتی ہیں لیکن دروازے پر دستک دیتے بڑھاپے سے خوفزدہ ہیں۔
‘‘سوگندھی بدصورت تو نہیں تھی۔ یہ خیال آتے ہی وہ تمام عکس ایک ایک کر کے اس کی آنکھوں کے سامنے آنے لگے جو ان پانچ برسوں کے دوران میں وہ آئینے میں دیکھ چکی تھی۔ اس میں شک نہیں کہ اس کا رنگ روپ اب وہ نہیں رہا تھا جو آج سے پانچ سال پہلے تھا جب کہ وہ تما م فکروں سے آزاد اپنے ماں باپ کے ساتھ رہا کرتی تھی۔’’ (۲)
افسانہ‘‘ہتک’’ میں سوگندھی کو سیٹھ کی دھتکار یعنی ‘‘اونہہ’’ سے جو تکلیف پہنچتی ہے وہ اس کے لئے ناقابل برداشت ہے ۔ اس افسانہ کو منٹو نے اتنی خوبی سے پورٹریٹ کیا ہے کہ سب سے پہلے طوائف سوگندھی کے کمرہ کا نقشہ پیش کیا ہے جہاں ہر شے نہایت معمولی’بے وقعت اور وجود سے خالی ہے۔ دراصل یہ نقشہ کمرہ کا نہیں بلکہ خود سوگندھی کا ہے۔  اس افسانہ کے اختتام پر سوگندھی کو ایک سیٹھ کی ‘‘اونہہ’’ سے اٹھانے والی ہتک کا سامنا کرنا پڑتا ہے ہمارے مختلف ناقدین نے اس نسائی شکست و ریخت کو اپنے اپنے انداز میں بیان کیا ہے مثلا عابد علی عابد ‘‘اصول انتقاد ادبیات’’ میں اس افسانہ کا ذکر کرتے ہوئے سوال اٹھاتے ہیں کہ اگر ایک گاہک نے سوگندھی کو رد کیا تو اس میں اتنی حیرت کی کیا بات تھی او رایسا کیا خاص نکتہ تھا جس پر یہ افسانہ بنایا گیا۔ سوگندھی ایک چیز بیچتی ہے اگر گاہک کو وہ چیز پسند نہ آئے تو یہ دکاندار کے لئے پریشانی کی بات تو ہو سکتی ہے تذلیل کی نہیں۔ جبکہ وارث علوی اس افسانے کی اصل روح کو سمجھتے ہوئے بتاتے ہیں کہ سوگندھی صرف جنس کا نام نہیں ایک جیتی جاگتی روح ہے۔ اس کے احساسات و جذبات ہیں وہ ہر آنے والے مرد کو پوری وارفتگی کے ساتھ پیار کرتی ہے جو مرد اس کا تھوڑا سا بھی خیال رکھتا ہےاس کے لئے سب کچھ قربان کرنے کو تیار رہتی ہے۔ وہ انسان اور ایک عورت ہے اسے محض ایک بکنے والی چیز تصور کرنا غلطی ہے۔ اس افسانہ میں معنی خیز اشارے ہیں اور مختلف چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں کو جوڑ کر ا یک تصویر بنائی گئی ہے  ایسی عورت کی تصویر جو جذباتی سہاروں سے محروم ہے ا س کی زندگی اُجاڑ ویران ہے اس کو محض ایک بکائو مال تصور کرنا فطرت اور جبلت کا انکار ہے۔ وارث علوی لکھتے ہیں۔
‘‘ہتک’’ میں منٹو ایک ویشیا کی زندگی کی حقیقت کو بیان کرتا ہے لیکن اس حقیقت سے منٹو نے اس لمحہ کو چن لیا ہے جس میں ویشیا کی زندگی کا پورا کرب بے بسی اور تنہائی پوری شدت سے سمٹ آئی ہے۔ یہ سچائی کا وہ لمحہ ہے جسے جاننے کے لئے منٹو نے ویشیا کی زندگی سے معنی خیز حقائق کا انتخاب کیا ہے۔ افسانہ کا ہر واقعہ ہی نہیں بلکہ ہر تفصیل ہر جزو اور ہر لفظ صداقت کا بار اٹھائے ہوئے ہے‘‘۔ (۳)
منٹو نے جس لمحہ کا انتخاب کیا و ہ لمحہ سوگندھی کو ایک عورت ایک انسان کی حیثیت سے روشناس کرتا ہے۔ منٹو کے نسائی کردار استحصال زدہ ہیں لیکن کسی ایک واقعہ سے ان کی عزت نفس جاگ اٹھتی ہے’ ان کے اندر کی محرومی گھٹن اپنے کتھارس کے لئے انتقامی جہت کا رُخ کرتی ہے۔ وہی لمحہ دراصل خود  آگہی کا لمحہ ہوتا ہے جس میں پیش کردہ کردار اپنی پوری شخصیت کا اظہار کرتا ہے۔ یہاں سوال منٹو کے انتخاب پر ہے کہ آخر اس نے معاشرتی استحصال کو دکھانے کے لئے ایسی عورتوں کا انتخاب کیوں کیا جو زمانے بھر کی ٹھکرائی ہوئی ہی نہیں بلکہ گھروں سے بھاگی ہوئی‘ مردوں کے جال میں پھنسی ہوئی‘ اپنا پیٹ پالنے کےلئے پیشہ کا شکار ہیں۔ دراصل منٹو ان عورتوں کے ذریعے اس تہذیبی تاریخی استحصال کی کہانی بیان کرنا چاہتا ہے جو صدیوں سے عورتوں کا مقدر ہے۔ وارث علوی کا یہ کہنا بجا ہے کہ
‘‘منٹو کی حقیقت نگاری طوائف کی تصویر کشی میں اپنے عروج کو پہنچی ہوئی ہے ‘‘کالی شلوار’ہتک’ خوشیا’ اور دس روپے’’ کو پڑھ کر حیرت ہوتی ہے کہ اپنی افسانہ  نگاری کی ابتدائی منزلوں میں ہی اس نے وہ نظر پیدا کر لی تھی جو تنگ و تاریک کھولی میں بیٹھی ٹکھیائی کی روح کی گہرائیوں میں اُتر جاتی ہے طوائف کو اتنی غیر جذباتی اور اتنی دردمندانہ نظر سے دیکھنے والا افسانہ نگار عالمی ادب میں شاید مشکل سے نظر آئے گا’’۔  (۴)
صدیوں سے قائم اس پیشہ کی اصل حقیقت پر غور کیا جائے تو یہ امر روز روشن کی طرح عیاں ہو جاتاہے کہ اخلاقی’ سماجی اور معاشرتی سطح پر قابل نفرین گھٹیا اور نجس اس پیشہ کو کسی دور میں ختم نہیں کیا جا سکا بلکہ مختلف معاشروں میں ارتقائی منازل کے ساتھ اس میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔ مردوں نے سماج میں اپنی برتری قائم کی جسمانی لحاظ سے اپنی تسکین کے لئے عورت کو معاشی لحاظ سے اپنا دست نگر رکھا اور اس کی معاشی حیثیت کو صرف اس صورت میں تسلیم کیا کہ وہ اپنی حیات کی قیمتی ترین چیز کا سودا اسی کے ہاتھوں کرے اور اس سودے میں گھاٹا بھی اسی کا حصہ اور مقدر ہے۔ بڑھاپا اس عورت کے لئے موت کا پیغام ہے معاشی موت جس کا خوف اس کے شعور اور لاشعور کا حصہ بن جاتا ہے۔ سماجی سطح پر فرد کی اکائی سے جڑی کئی جہتیں قابل توجہ ہیں انسان خود کو منوانے کے لئے ہر جہت میں مصروفِ عمل رہتا ہے ذہنی’ جذباتی نفس و جنسی جہات جو اس کے رجحانات کا پتہ بھی دیتی ہیں اور اس کی شخصیت کا تعین بھی کرتی ہیں۔ لیکن یہ ساری جہات صرف مردوں کے لئے مخصوص نہیں مرد و زن’ مرد و زن ہونے سے پہلے انسان ہیں مگر سماج یہ ماننے کو تیار نہیں اور اسی سماج کے آئینہ میں خود کو دیکھتے ہوئے ہم بھی اپنی ذات کے منکر ہیں۔ ڈاکٹر روشن قدیم کا یہ لکھنا قابل توجہ ہے کہ:
‘‘فطرت کیسے کیسے انسانی شاہکار پیدا کرتی ہے جو سماج کے میکانکی عمل میں اجنبی ہی رہتے ہیں۔ ‘‘برمی لڑکی’’ ایک گرہستی کا روپ اور خدمت و اطاعت کی علامت ہے جس کا کوئی نام نہیں وہ تو بس ایک عورت ہے جس کا دوسرا نام گرہستی ہے جو کہ منٹو کے تمام نسوانی کرداروں کا محور و مرکز ہے’’۔  (۵)
ابتداء میں منٹو پر اپنے معاصرین’ افسانہ نگاروں کے زیر اثر کچھ ایسے افسانے ملتے ہیں جن میں گائوں کی بھولی بھالی دوشیزہ شہری بابو کے استحصال کا شکار ہوتی ہے یا عصمت کے افسانوں کی متوسط طبقہ کی شوخ و طرار لڑکی جو مردانہ ہوس کا شکار ہوتی ہے لیکن جلد ہی منٹو نے خود کو اس رجحان سے الگ کر دیا اور اپنی بھرپور انفرادیت کا اظہار کیا۔ ابتدائی افسانوں میں ‘‘شوشو’’ ‘‘چوہے دان’’ ‘‘اس کا پتی’’ اور ‘‘میرا اور اس کا انتقام’’ شامل ہیں۔ ان افسانوں میں عورت کا جنسی استحصال تو ہے مگر وہ فکری اور حسّیاتی گہرائی نہیں جو بعد کے افسانوں میں منٹو کا خاصہ رہا۔ سچّا اور کھرا فنکار کبھی بھی کسی نظریہ کا پرچار نہیں کرتا بلکہ وہ ہمارے ذہن کے کچھ حصوں کو اس طرح متحرک کرتا ہے کہ ہم امکانی سطح پر کئی جہات میں سوچ و بچار کر سکیں۔ اسی لئے بڑا فن تبلیغ کا کام نہیں کرتا بلکہ ہماری سوچ کو غذا مہیا کرتا ہے۔ چنانچہ ہم منٹو کو “Feminist” نہیں کہہ سکتے لیکن اس کے موضوعات وہی ہیں جو فیمیزم میں موجود ہیں۔ بحیثیت فنکار منٹو کا کمال یہی ہے کہ وہ کسی پرچار کے بغیر نشاندہی کر سکتا ہے کہ اردگرد کیا ہو رہا ہے وہ کسی نظریے کا موید اور مبلغ ہوئے بغیر ہمیں وہ نظریہ دے سکتا ہے کہ عورت کو انسان سمجھ سکیں۔ وہ ان بُری عورتوں کے اندر وہ اچھائی دکھا سکتا ہے جس کو امکانی سطح پر سوچ کر بھی قاری حیرت سے دم بخود رہ جاتا ہے۔ ‘‘فوبھا بائی’’ اور ‘‘ممی’’ افسانے اس کی بہترین مثال ہیں جن میں عورتیں بیک وقت ماں اور طوائف کا کردار نباہ رہی ہیں۔ فوبھا بائی کا ایک بیٹا جے پور میں ہے جسے وہ ہر ماہ خرچ بھیجتی ہے خود ملنے جاتی ہے تو اسٹیشن پر اترتے ہی برقعہ اوڑھ لیتی ہے لیکن جب ایک دن خبر ملتی ہے کہ اس کا بیٹا مر گیا تو اس کی بے چارگی کا اندازہ اس جملے سے لگایا جا سکتا ہے۔
‘‘میری اندھیری زندگی میں صرف ایک دِیا تھا وہ کل خدا نے بجھا دیا۔۔۔۔۔ بھلا ہو اس کا؟’’ (۶)
اور پھر ہڈیوں کا ڈھانچہ بن کر دربدر بھیک مانگتی ہے۔ عورت فطرتاً ماں ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ طوائف کے اندر ماں ہو سکتی ہے بعض اوقات محفوظ گھروں میں رہنے والی مائیں نہیں ہوتیں۔ ‘‘ممی’’ ایک عجیب کردار ہے وہ بیک وقت نائکہ ہے لڑکیوں پر نظر رکھے ہوئے اور دل میں ممتا چھپائے اور آنے والے گاہکوں کے لئے بھی اس کا رویہ یہی ہے۔ یہ کردار بہت طاقتور اور مضبوط ہے اور تا دیر قاری پر اپنی گرفت اور اثر جمائے رکھتا ہے۔ منٹو نے عورت کے وہ روپ پیش کئے ہیں وہ عام زندگی سےہٹ کر ہیں ‘‘سرکنڈوں کے پیچھے’’ کی ہلاکت اور ‘‘پڑھئے کلمہ’’ کی رکما ایسے نسوانی کردار ہیں جن سے خوف محسوس ہوتا ہے لیکن انسان ایسا ہو سکتا ہے یہی اصل نظریہ ہے جس کا منٹو علمبردار ہے۔ سائنس ٹھوس حقائق سے بحث کرتی ہے زندگی کیسی ہوتی ہے اس کا موضوع ہے۔ مذہب و اخلاقیات زندگی کیسی ہونی چاہئے کی بحث سے عبارت ہے جبکہ ادب کا موضوع زندگی کے امکانات ہیں زندگی اور انسان کیسا ہو سکتا ہے یہ ادب اور بڑے فن کار کا نظریہ ہے۔ منٹو کے ان ناپسندیدہ نسائی کرداروں میں امکانات چھپے ہیں۔ یہ موت اور خوف کی علامت ہیں جو حسد کے بے پناہ جذبے سے پھوٹے ہیں۔ ‘‘ٹھنڈا گوشت’’ کی کلونت کور بھی حسد کی آگ میں جل کر ایشر سنگھ کو انتقام کا نشانہ بنا دیتی ہے اور قتل کر ڈالتی ہے۔ عالمگیر جذبوں میں نفرت’ محبت اور حسد وہ مخصوص جذبات ہیں تو من و تو کے جھگڑے کے بغیر تمام عالم  انسانی کا خاصہ ہیں اور جبلت کا حصہ بھی۔ یہاں جو عورتیں انتقام لیتی دکھائی دیتی ہیں دراصل کہیں نہ کہیں فطرت و سماج نے ان کو اس راہ پر ڈالا ہے۔ ‘‘موچنا’’ کی مایا بھی ایسا ہی کردار ہے۔ مایا کے پورے جسم پر بے تحاشا بال ہیں اس کی مونچھیں اور داڑھی ہے موچنا وہ اپنے پاس رکھتی ہے مرداس پر فدا ہیں۔ وہ ان کو جنسی حرارت و تسکین دیتی ہے لیکن ایسی عورت کے بارے میں ذرا رُک کر ٹھہر کر سوچا جائے اس کے جوتوں میں پائوں ڈالے جائیں تو اپنی  بدصورتی’ ظاہری بدہیئتی کے ساتھ وہ خود کس طرح سمجھوتہ کرتی ہو گی۔ اس فطری و قدرتی بدہیئتی کو گھٹن کے ذریعے نہیں بلکہ انتقام کے ذریعے سامنے لاتی ہے وہ ایک کے بعد ایک مرد کے پاس جاتی ہے اور اس سے ہر فائدہ اٹھاتی ہے۔ یہ اس کا فطرت سے انتقام ہے لیکن عام قاری اس سے نفرت سی محسوس کرتا ہے۔ کوئی خود کو اس کی بدہیئتی میں رکھ کر نہیں سوچتا اگر ایسا سوچ سکے تو اس کے ردعمل کی وضاحت مل جائے۔ ‘‘موذیل’’ ایک بھرپور اور یادگار افسانہ ہے جس میں ایک جرات مند اور بہادر عورت سے ملاقات ہوتی ہے۔ وہ اپنی شخصی آزادی کی قائل ہے اور مختلف مردوں سے تعلق رکھتی ہے۔ مگر ایک سکھ نوجوان ترلوچن کو پسند کرنے لگتی ہے خود پر اس قدر قابو رکھنا جانتی ہے کہ اس کے ساتھ تعلق رکھنے کے باوجود اسے اپنے دل و دماغ پر سوار نہیں کرتی۔
وہ اسے ایک خاص حد تک جسمانی قرب دیتی ہے جبکہ ترلوچن اسے جی جان سے چاہتا ہے اس کی خاطر اپنے کیس اور داڑھی منڈوا لیتا ہے۔ لیکن موذیل عجیب عورت ہے اس کے پائوں کی بیڑی نہیں بننا چاہتی’ وہ جانتی ہے کہ وہ خوبصورت نوجوان ہے۔ زندگی اس کے سامنے باہیں کھولے کھڑی ہے ایک طوائف اسے کیا دے پائے گی۔ موذیل پر وہ ہزاروں روپے خرچ کرنا چاہتا ہے لیکن اسے بہت معمولی چیزیں پسند آتی ہیں۔ وہ اسے سونے کے ٹاپس لے کر دینا چاہتا ہے اور وہ جھوٹے بھڑکیلے اور سستے آویزوں کے لئے اصرار کرتی ہے۔ یہ ساری باتیں شروع ہی سے موذیل کی قربانی کے جذبہ کی نشاندہی کرتی ہیں لیکن اس افسانہ کے اختتام پر موذیل کی شخصیت کا ایک ایسا پہلو سامنے آتا ہے جو قاری یہ سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ شخص مر سکتا ہے مگر شخصیت زندہ رہتی ہے موذیل مر کر بھی زندگی پا لیتی ہے۔ ترلوچن کی محبوبہ کو بچانے کے لئے اپنی جان کا نذرانہ پیش کرتی ہے۔ فسادات میں وہ سیڑھیوں سے گر کر زخمی ہوتی ہے تو ترلوچن اس کے پاس آتا ہے اسے اشارہ کرتی ہے کہ وہ کرپال کو لے جائے۔ گرنے کے باعث اس کا چغہ الٹ جاتا ہے فسادی اس کا برہنہ جسم دیکھنے میں مصروف ہو جاتے ہیں۔ ترلوچن اپنی پگڑی کھول کر اس کے برہنہ جسم کو ڈھانپنا چاہتا ہے تو اس وقت موذیل کہتی ہے۔
‘‘موذیل نے اپنے بدن پر سے ترلوچن کی پگڑی ہٹائی‘ لے جائو اس کو۔۔۔۔۔۔۔۔ اپنے اس مذہب کو۔۔۔۔۔’’ اور اس کا بازو اس کی مضبوط چھاتیوں پر بے حس ہو کر گر پڑا’’۔ (۷)
عورت مرد اور محبت کے لئے جو قربانی دیتی ہے یا دے سکتی ہے اس کی بہترین مثال موذیل ہے جو بلاشبہ منٹو کا شہکار ہے۔ ایک خودشناس عورت کی عجیب کہانی ہے جو اپنی ذات سے اتنا آگے سوچ سکتی ہے جبکہ ترلوچن اس کے روئیے اور جسمانی قرب کے نہ ملنے کی وجہ سے کرپال کور کی زلف کا اسیر ہو جاتا ہے وہ سمجھ ہی نہیں پاتا کہ موذیل کی اصل حقیقت کیا ہے۔ ‘‘میرا نام رادھا ہے’’ کی  نیلم عورت کا ایک دلچسپ روپ ہے۔ جو مردوں سے برابری کی سطح پر ملنا چاہتی ہے طوائف زادی ہے لیکن اس پر شرمندہ نہیں فلمی کیرئیر کو اپنانے کے لئے اپنا نام رادھا سے نیلم رکھ لیتی ہے۔ فلمی دنیا میں اپنے اندر گوناگوں کردار و واقعات رکھتی ہے منٹو کا ذاتی تجربہ اور مشاہدہ اس افسانے کا خاصہ ہے۔ نیلم کی ملاقات راج کشور سے ہوتی ہے جو ایک خوبصورت اور عیار ایکٹر ہے۔ ساتھی اداکاروں کو بہن کہہ کر بلاتا ہے۔ نیلم کو شروع ہی سے اس کا بناوٹی رویہ اور پرُتصنع انداز کھلتا ہے۔ چونکہ وہ خود صاف اور کھری عورت ہے چنانچہ اس بناوٹ اور پاکیزگی کے ڈھونگ کو فوراٍ بھانپ لیتی ہے’ لیکن بظاہر ایسا کچھ نہیں جس کی نشاندہی کر کے وہ اس کی بناوٹ کو بیان کر سکے۔ مرد جب عورت کو بہن کہتاہے تو دراصل اس کی دیگر حیثیات کا انکار کرتا ہے دیوتا بن کر اپنی برتری کا اظہار کرتا ہے جبکہ نیلم ایکٹرس بننے آئی ہے ہیروئین بننے کی تمنائی  نہیں ویمپ بننا چاہتی ہے ایسی صورت میں اسے راج کشور کا کردار اجنبی اور عجیب سا لگتا ہے۔ یہاں راج کشور کے دوغلے پن اور اس کی مردانہ کمزوری کو اُجاگر کرنے کے لئے منٹو کو نیلم جیسی کھری’ دوٹوک’ خودشناس اور بناوٹ سے پاک عورت کی ضرورت پڑی۔
عام مشاہدہ ہے کہ ہمارے سماج میں عورت کا قرب مشکل سے نصیب ہوتا ہے اگر ہو تو جھٹ ایک ہی خیال آتا ہے کہ یہ معشوقہ بن جائے۔ جہاں لال بتی نظر آئی فوراً بہن کہہ دیا۔ کہیں دربان نظر آیا تو بھابی بن گئی۔ دراصل ہم نے عورت کو انسان کے روپ میں دیکھا ہی نہیں اپنی الگ اور پوری شناخت کے ساتھ۔ ہم سوچ نہیں سکتے کہ عورت سے تعلق کسی رشتے کے بغیر بھی سلام دعا عزت و احترام کے ساتھ ہو سکتاہے۔ یہ سب کچھ اتنا ہی نارمل ہونا چاہئے جتنا دو مردوں کے درمیان تعلق لیکن اس سب کے لئے ضروری ہے کہ انسان خود جنسی تعلق میں آسودہ اور ذہنی طور پر سیر ہو اور ایسا انسان اردگرد ناپید نظر آتا ہے اسی لئے اکثریت کی محبت مغالطوں کی نذر’اپنے محبوب سے کجا خود اپنے وجود سے منکر’ تعلقات بودے اور الجھنوں کا شکار ملتے ہیں۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ منٹو کو ‘‘میرا نام ہے رادھا’’ جیسا افسانہ تخلیق کرنے کی تحریک ملی۔ ان افسانوں کو پڑھتے ہوئے محسوس ہوتا ہے کہ  منٹو نے ایک زندگی میں کئی زندگیاں جی ہیں وہ ہر کردار میں ایسی زندگی بھرتا ہے کہ افسانے کا گمان تک نہیں ہوتا۔
‘‘شاردا’’ ایک اور سالم عورت کا قصہ ہے وہ ایک مجبور عورت ہے ایک بچہ کی ماں ہے اس کا شوہر شرابی اوباش نکلا۔ قسمت کی اس ستم ظریفی نے اسے طوائف بنا دیا پہلے تو جسم فروشی کے لیے تیار نہ تھی لیکن نذیر نامی گاہک نے جب اس کے بچہ میں غیر معمولی دلچسپی دکھائی تو اس کا دل نرم پڑ گیا۔ نذیر روز بروز اس کے نزذیک آنے لگا اور وہ اسے جی جان سے چاہنے لگی۔ نذیر شادی شدہ ہے اس کی بیوی جب میکہ جاتی ہے تو وہ ‘‘شاردا’’ کو گھر لے آتا ہے۔ شاردا گھر میں ایک گرہستن کی طرح رہنے لگتی ہے۔ اس کا ہر طرح خیال رکھتی ہے غرض وہ سب کچھ جو ایک بیوی شوہر کے لئے کرنا پسند کرتی ہے۔ اب نذیر کو اس سے الجھن ہونے لگتی ہے۔ یہاں مرد و زن کی فطرت کو خوبی کے ساتھ گرفت میں لیا گیا ہے۔ مرد یکسانیت سے اُکتا جاتا ہے جبکہ عورت مستقل اس محبت کو اختیار کرنے میں سکون و عافیت محسوس کرتی ہے۔ مرد کی سیماب صفت طبیعت اسے کسی ایک ٹھکانے کا ہو کر رہنے سے روکتی ہے اور عورت ایک ٹھکانے کے لئے ہر قربانی دینے کو تیار ہوتی ہے۔ آخرکار تنگ آ کر نذیر شاردا کو دل کی بات کہہ ڈالتا ہے اور اپنی بے زاری کا اظہار کرتا ہے ۔ شاردا بچہ لے کر چپ چاپ چلی جاتی ہے لیکن جانے سے پہلے تپائی پر اس کے پسندیدہ سگریٹ رکھ دیتی ہے۔ پورے افسانہ کی ہیئت میں انسانی نفسیات کو ملحوظ رکھا گیا ہے چھوٹے واقعات سے بڑی باتوں کی طرف اشارے ملتے ہیں جو دلچسپ اور معنی خیز ہیں۔
‘‘کھول دو’’ انسانیت کی ننگی تصویر ہے اس انسان کی تصویر جو حیوانی سطح پر جنس کا اظہار کرتاہے جبلت پر لبیک کہتے ہوئے اخلاقی سماجی اور مذہبی بندھنوں سے آزاد ہو کر صرف اپنی خواہش کی تکمیل کے لئے کوشاں رہتا ہے۔ فسادات کے پس منظر میں اتنا جاندار افسانہ معاصرین کے ہاں دکھائی نہ دے گا۔ منٹو نے اس مختصر افسانہ میں انسانی دکھ درد کی ایسی کہانی بیان کی ہے کہ اس کے اختتام پر ہر انسان رونے پر مجبور ہو جاتا ہے جب سکینہ ‘‘کھول دو’’ کے معنی لاشعوری طور پر بسترِ مرگ پر بھی سمجھاتی ہے اور اس کا باپ شکر ادا کرتاہے کہ وہ زندہ ہے۔
منٹو عورت کی فطرت کا نباض ہے وہ اسے ہر روپ و رنگ میں ماں دیکھتا ہے۔ لیکن بغیر کسی اخلاقی تدریس کے اس کے اندر کی اچھائی ممتا اور بے بسی کی عکاسی کرتا ہے۔ ‘‘شاہ دولے کا چوہا’’ ایسی ہی بے بس ماں کا واقعہ ہے جو منت مان کر اپنے بچہ کو مجاوروں کے حوالہ کر دیتی ہے اور پھر اس کی یاد میں تڑپتی رہتی ہے۔ ایسے افسانہ میں منٹو نے گھریلو عورتوں کے مسائل کو اٹھایا ہو کم ہیں یہ افسانہ بھی انہی میں سے ایک ہے۔ سرمہ’ اولاد اور شاہ دولہ کا چوہا یہ افسانہ خالصتاٍ گھریلو زندگی سے متعلق ہیں اور ان میں زخمی ممتا سسکتی نظر آتی ہے۔ ‘‘سرمہ’’ باریک نفسیاتی نکتہ پر مبنی ہے فہمیدہ مرکزی کردار ہے جسے سرمہ بے حد پسند ہے۔ شادی کے بعد اس کا شوہر اسے صرف اتنا کہتا ہے کہ سرمہ ضرور لگائو لیکن ذرا اعتدال کے ساتھ۔ یہ بات اس معصوم کو اتنی محسوس ہوتی ہے کہ وہ سرمہ لگانا چھوڑ دیتی ہے۔ اس کے ہاں ایک بیٹے کی پیدائش ہوتی ہے تو وہ اپنا شوق اور جنون اس کو سرمہ لگا کر پورا کرنے لگتی ہے۔ بدقسمتی سے بچہ نمونیا کا شکار ہو کر مر جاتاہے اس صدمہ کو ایک ماں کیسے سہار سکتی ہے۔ فہمیدہ اپنے ہوش و حواس کھو بیٹھتی ہے اور بازار سے ایک گڑیا لا کر اسے پہلو میں سُلاتی ہے اور اسے سرمہ لگاتی ہے۔ یہ احساس ایک عورت کے لئے کتنا جانکاہ ہے کہ جہاں اس کا بچہ سوتا تھا اب وہ جگہ خالی ہے۔ یہ عورت کی فطرت صلاحیت اور تقاضا ہے کہ وہ ماں ہے اس بچے کی دیکھ بھال کرے۔ عام مشاہدہ ہے کہ بچیاں گھر گھر کھیلتی اور گڈے گڑیا کی دیکھ بھال کرتی ہیں اور یہی فطرت بعد میں ماں کی صورت میں ڈھل کر تکمیل پاتی ہے۔ ایسے ہی مانوس گھریلو ماحول کا عکاسی کرتا ہوا افسانہ ‘‘اولاد’’ ہے۔ اس افسانہ کی شروعات سادہ طریقہ سے ہوتی ہے لیکن فنکار کی گرفت آخیر تک قائم رہتی ہے۔ زبیدہ ایک مشرقی لڑکی ہے جو پچیس سال کی ہو گئی ہے مناسب اور موزوں رشتہ کی تلاش میں اس کی عمر نکلی جا رہی ہے اس لئے اسے والدین کی خواہش پر ایک رنڈوے سے بیاہ رچانا پڑتا ہے۔ شادی کے بعد اس کے والد کا انتقال ہو جاتا ہے اور وہ اپنی ماں کو بھی شوہر کی اجازت سے اپنے گھر لے پتی ہے۔ گھر میں روپے پیسے کی ریل پیل ہے۔ کسی چیز کی کمی نہیں۔ کمی ہے تو صرف اولاد ہے جس کی طرف اس کی ماں توجہ دلاتی ہے۔ اسے حکیموں اور تعویذ گنڈے والوں کے پاس لے جاتی ہے۔ اس کا شوہر ایک کاروباری آدمی ہے جو مصروفت میں اس نعمت کو بھولا ہوا ہے۔ زبیدہ آہستہ آہستہ بچہ کی خواہش میں ذہنی توازن کھونے لگتی ہے۔ اس کا شوہر علم الدین اس کو روپوں کی گڈیاں لا کر دیتا ہے تو وہ ان کو لوریاں سنانے لگتی ہے۔ ایک دن روپوں کی گڈی دودھ کی پتیلی سے برآمد ہوتی ہے۔ علم الدین کے استفسار پر زبیدہ کہتی ہے۔
‘‘بچے بڑے شریر ہیں یہ حرکت انہی کی ہو گی۔ علم الدین نہایت متحیر ہوا۔ لیکن یہاں بچے کہاں ہیں؟ زبیدہ اپنے خاوند سے کہیں زیادہ متحیر ہوئی ۔ کیا ہمارے بچے نہیں۔۔۔۔۔۔ آپ بھی کیسی باتیں کرتے ہیں ابھی سکول سے واپس آتے ہوں گے۔۔۔۔۔۔ ان سے پوچھوں گی کہ یہ حرکت کس کی تھی’’۔ (۸)
انسان جب فطرت کے خلاف چلتا ہے تو فطرت اسے خود بھی سزا دیتی ہے۔ علم الدین کو احساس ہوتا ہے کہ وہ پیسہ کمانے میں اتنا مصروف ہے کہ اسے یہ احساس ہی نہیں کہ زبیدہ کی دماغی حالت اتنی بگڑ چکی ہے۔ علم الدین اور زبیدہ کا ایک اور مکالمہ افسانہ کی جان ہے۔ اس مکالمہ میں زبیدہ جس خیالی دنیا میں رہتی ہے اس کی مکمل تصویر کشی ہو جاتی ہے اور علم الدین کے ساتھ ساتھ قاری بھی حیران پریشان رہ جاتا ہے۔ علم الدین زبیدہ کی ذہنی حالت کے پیش نظر چھٹی لے کر گھر پر رہ جاتا ہے تو زبیدہ پوچھتی ہے کہ دکان کس کے حوالے کی ہے اور متفکر ہو کر کہتی ہے۔
‘‘مجھے کیوں فکر نہ ہو گی بال بچے دار ہوں’ مجھے اپنا تو کچھ خیال نہیں لیکن ان کا تو ہے۔۔۔۔۔۔ مجھے تو کسی قسم کا تردد نہیں ہے لیکن بعض اوقات ماں کو اپنی اولاد کے متعلق سوچنا ہی پڑتا ہے’’۔ (۹)
انسانی نفسیات بھی عجیب ہیں انسان کو وہی سچ معلوم ہوتا ہے جس پر وہ اعتبار کرتا ہے اور زبیدہ کا  اعتبار اولاد ہے۔ منٹو نے زبیدہ کے اس جلتے لمحہ کو قید کرلیا ہے جب وہ حقیقت سے مجاز کی طرف پلٹی اور اپنی محرومی کا ازالہ اپنی خودساختہ دنیا سے کرنے لگی۔ مشرقی معاشرے میں ہم ایک دوسرے کو محرومیوں کا ا حساس بھی خوب دلاتے ہیں۔ مشاہدے اور تجربے کی بات ہے کہ اولاد سے محروم عورتوں کو دوسری عورتیں اس طرح موضوع گفتگو بناتی ہیں جیسے وہ دنیا کی ہر نعمت سے محروم ہیں۔ شادی بیاہ کی رسومات میں ایسی عورتوں کے ساتھ امتیازی سلوک عام سی بات ہے۔ ان عورتوں سے کوئی نہیں پوچھتا کہ ان کا یہ حال کیوں ہے سب انہی کو موردِ الزام ٹھہراتے ہیں۔ وہ عورتیں بھی اپنی ذات سے ظلم کی مرتکب ہوتی ہیں اس طرح کہ معاشرتی’ معاشی اور اخلاقی دبائو کے تحت مجرّد زندگی کو بھی قبول کر کے خاموشی اختیار کر لیتی ہیں۔ کائنات میں انسان کی تخلیق اشرف المخلوقات کی حیثیت سے ہوئی ہے خود انسان کا اپنی ذات پر حق ہے جس کے لئے وہ اپنے رب کے سامنے جوابدہ بھی ہو گا لیکن اس حق سے دستبرداری صرف معاشرتی دبائو کے تحت قبول کرنی پڑتی ہے۔ زندگی نچلی  اور اوپری سطح پر اپنا جبلی اظہار کرتی ہے اس لئے عموماً غریب ترین اور امیر ترین طبقہ ایسی محرومیوں سے کم گزرتا ہے۔ ایسی محرومیاں اکثر متوسط طبقہ کا مقدر بنتی ہیں اور ہمارے معاشرے میں ان کی تعداد بھی زیادہ ہے۔ عزت’ آبرو کی رکھوالی’ لوگ کیا کہیں گے’ کی فکر اسی طبقہ کے مسائل ہیں اور عورتیں اس تندور کا ایندھن ہیں۔ سلگتی روح جلتے دل و دماغ کو نہیں دیکھتا صرف خالی گود نظر آتی ہے۔ زبیدہ جیسی کئی عورتیں ہمارے اردگرد کا حصہ ہیں۔ منٹو کا کمال یہ ہے کہ جذباتی فنکار بھی ہے اور غیر ذاتی Impersonal شاہد بھی بن جاتا ہے ’ وہ کردار کے ساتھ اس کی زندگی جینے لگتا ہے۔ زبیدہ کی کہانی یوں آگے بڑھتی ہے کہ اس کا شوہر اس کے لئے ایک بچہ لے آتا ہے۔ وہ بچہ اس کے ایک دوست کی ناجائز اولاد ہے اور اسے زبیدہ کے پہلو میں لٹا دیتا ہے۔ زبیدہ کے پوچھنے پر بتاتا ہے کہ یہ بچہ ہمارا ہے۔ زبیدہ کہتی ہے ہمیں اور اولاد کی کیا ضرورت تھی لیکن چلو شکر ہے کہ اللہ نے عطا کیا۔ کہانی کا اختتام کربناک ہے اور اس کی تصویر ذہن سے چپکی رہ جاتی ہے جب علم الدین کمرے میں داخل ہوتا ہے اور اردگرد خون بکھرا نظر آتاہے تو دیکھتا ہے کہ زبیدہ کٹ تھروٹ استرا سے اپنی چھاتیاں کاٹ رہی ہے۔ علم الدین اس کے ہاتھ سے استرا چھین لیتا ہے اور پوچھتا ہے کہ یہ کیا کر رہی ہو تم؟
‘‘زبیدہ نے اپنے پہلو میں لیٹے ہوئے بچے کی طرف دیکھا اور کہا’ ساری رات بلکتا رہاہے۔ لیکن میری چھاتیوں میں دودھ نہ اترا۔۔۔۔۔۔ لعنت ہے ایسی ۔۔۔’’ اس سے آگے وہ اور کچھ نہ کہہ سکی۔ خون سے لتھڑی ہوئی ایک انگلی اس نے بچے کے منہ کے ساتھ لگا دی اور ہمیشہ کی نیند سو گئی’’۔ (۱۰)
اس آخری منظر نے قاری کو سر تا پا لرزا کر رکھ دیا اور سوچنے پر مجبور کیا کہ ایسی کتنی عورتیں اپنی محرومی میں جلتی کڑھتی زندگی سہار رہی ہیں۔ منٹو کے لئے عورت کا ماں بننا  کائنات کا سب سے انوکھا اہم اور دلچسپ تجربہ ہے جو عورت اولاد سے محروم ہے وہ اتنی ہی غمناک ہے جتنی ایک صاحب اولاد عورت خوش ہو سکتی ہے۔ منٹو عورت کی تخلیقی صلاحیت کا معترف ہے اور اسے مرد سے افضل قرار دینے کے لئے اپنے مخصوص انداز میں افسانہ ‘‘شاردا’’ میں لکھتا ہے۔
‘‘ماں بننا کتنا اچھا ہے۔۔۔۔۔ اور یہ دودھ۔ مردوں میں یہ کتنی بڑی کمی ہے کہ وہ کھا پی کر سب ہضم کر جاتے ہیں’ عورتیں کھاتی ہیں اور کھلاتی بھی ہیں۔۔۔۔۔ کسی کو پالنا۔ اپنے بچے ہی کو سہی کتنی شاندار چیز ہے’’۔ (۱۱)
‘‘سڑک کے کنارے’’ ایک مختصر اور پُراثر افسانہ ابتداء ہی سے قاری پر گرفت مضبوط کر لیتا ہے جب ایک عورت مرد کی جسمانی ضرورت پوری کرنے کے بعد ان لمحات کو سوچتی ہے۔ مرد کہتا ہے۔
‘‘اس نے مجھ سے کہا تھا۔۔۔۔۔۔ تم نے مجھے جو یہ لمحات عطا کئے ہیں یقین جانو میری زندگی ان سے خالی تھی۔ جو خالی جگہیں تم نے آج میری ہستی میں پُر کی ہیں تمہاری شکر گزار ہیں۔ تم میری زندگی میں نہ آتیں تو شاید وہ ہمیشہ ادھوری رہتی میری سمجھ میں نہیں آتا میں تم سے اور کیا کہوں۔۔۔۔۔۔ میری تکمیل ہو گئی ہے’’۔ (۱۲)
اور وہ چلا گیا ہمیشہ کے لئے۔ عورت منت سماجت کرتی ہے روکتی ہے پوچھتی ہے میری ضرورت اب کیوں نہیں رہی۔ شدت کیسے ختم ہو گئی جبکہ میرے دل میں شدتیں پوری آب و تاب کے ساتھ موجود ہیں تو مرد کا سفاکانہ جواب ساری باتوں’ساری شدتوں کو ختم کرنے کے لئے کافی ہوتا ہے کہ
‘‘اس نے کہا۔ ‘‘تمہارے وجود کے جس جس ذرے کی میری ہستی کی تعمیر و تکیل کی ضرورت تھی’ یہ لمحات چن چن کر دیتے رہے۔۔۔۔۔۔ اب کہ تکمیل ہو گئی ہے تمہارا میرا رشتہ خودبخود ختم ہو گیا ہے’’۔ (۱۳)
یہ رمزیہ انداز افسانہ کا ابتدائیہ ہے اس کا بیانیہ افسانہ ‘‘شاردا’’ میں بھی دیکھا جا سکتا ہے  نذیر شاردا کے جسمانی خلوص کا مشتاق و عاشق ہے لیکن جب شاردا منہ زبانی اظہار کر دیتی ہے تو اپنی کشش کھو دیتی ہے۔ مرد و عورت کی نفسیات اور محبت میں ان کےرویوں کو بڑی باریکی اور معروضی انداز میں چھوا گیا ہے۔ ‘‘سڑک کے کنارے’’ افسانہ کا انداز بیان دیگر افسانوں سے بہت مختلف ہے اس میں غزل کی سی رمزیت ایمائیت ہے جو منٹو کے مخصوص انداز سے ہٹ کر ہے۔ وارث علوی اس ضمن میں لکھتے ہیں:
‘‘سڑک کے کنارے’’ ایک ایسی نثری نظم ہے جس میں مرد کی بے وفائی’ زچگی کی تکلیف’ بچہ کے ناجائز ہونے کا غصہ’ ایک بچہ کو جنم دینے کی بے پایاں مسرت سب ایک دوسرے میں مدغم ہو کر استعاروں کے جال میں جکڑی ہوئی اور وفور جذبات سے پھڑپھڑاتی خودکلامی کا تانا بانا بنتے ہیں’’۔ (۱۴)
مرد جسمانی حصول کے بعد آزاد ہو جاتا ہے اور عورت جکڑی جاتی ہے۔ مرد کو ذات کی تکمیل درکار ہے اور عورت تخلیق میں فنا ہو کر امر ہو نا چاہتی ہے۔ دونوں کائنات میں اپنے اپنے کردار پر لبیک کہتے ہیں یہی فطرت انسانی مختلف جہتوں میں اپنا اظہار کرتی دکھائی دیتی ہے کہیں کم کہیں بیش۔ مرد جن لمحات کو چن کر اپنی ہستی کی تکمیل کرتا ہے عورت ان کو ماں بن کر پاتی ہے۔
‘‘ان چند لمحات نے جنہوں نے میرے وجود کے کئی ذرے چن چن کر کسی کی تکمیل کی تھی اور مجھے اپنے خیال میں ادھورا چھوڑ کر چلے گئے تھے۔ میری تکمیل آج ہوئی ہے’’۔ (۱۵)
منٹو کا کمال یہ ہے کہ وہ انسانی نفسیات اور مرد و زن کی جذباتی نفسی امتیاز کو خاص کینوس پر اُبھارتا ہے۔ ساری دنیا کے انسان دو چیزوں کا حل نہیں ڈھونڈ سکتے۔ پیٹ کی بھوک اور جسم کی بھوک۔ منٹو اس آئینہ میں مرد و زن کو دیکھتا ہے’ حیرت ہے کہ خود ایک مرد ہوتے وءے اسے اس آئینہ میں عورت شفاف ہی ملتی ہے وہ اس کی فطری معصومیت’ خلوص ممتا اور قربانی کا قائل نظر آتا ہے ۔نسائیت کو موضوع بناتے ہوئے وہ ایک ‘‘خاص لمحہ’’ کو گرفت میں لیتا ہے اور وہی لمحہ افسانہ کی جان کہا جا سکتا ہے۔ چاہے ایک طوائف کے اندر سے اناپسند ‘‘سوگندھی’’ کا ایک لمحہ ہو’ موذیل کی قربانی کا ایک لمحہ’ زبیدہ کی بے بسی اور محرومی کا ایک نشان’ سکینہ کا دلخراش عمل’ کھول دو کی صورت میں ہو’ شاردا کی دستبرداری کا لمحہ ہو یا مرد کی تکمیل کے لمحات سے باقی ماندہ ذروں سے وجود تک کا سفر ‘‘سڑک کے کنارے’’ طے کرنا ہو ہر جگہ منٹو نے زخمی نسائیت کو بھرپور اور طاقتور انداز میں اپنا موضوع بنایا ہے۔


 

حوالہ جات
۱)          ‘‘ادب اور تانیث’’ ص۔ ۷۴
۲)         کلیات منٹو  (جلد اول)۔ ص  ۱۸۹       
۳)         منٹو ایک مطالعہ۔ ص  ۲۷۶
۴)         ہندوستانی ادب کے معمار سعادت حسن منٹو۔ ص  ۵۰ 
۵)         منٹو کی عورتیں۔ ص  ۱۹۵
۶)         کلیات منٹو (جلد سوئم) مرتب امجد طفیل ۔ ص  ۲۳۱
۷)         کلیات منٹو (جلد سوئم) مرتب امجد طفیل۔ ص   ۴۶۰
۸)         کلیات منٹو (جلد سوئم) مرتب امجد طفیل۔ ص   ۱۵۶
۹)         کلیات منٹو (جلد سوئم) مرتب امجد طفیل۔ ص   ۱۵۷
۱۰)        کلیات منٹو (جلد سوئم) مرتب امجد طفیل۔ ص   ۱۵۸
۱۱)         کلیات منٹو (جلد دوئم) مرتب امجد طفیل۔ ص   ۷۳ 
۱۲)        کلیات منٹو (جلد دوئم) مرتب امجد طفیل ۔ ص  ۴۲۱ 
۱۳)        کلیات منٹو (جلد دوئم) مرتب امجد طفیل ۔ ص  ۴۲۱ 
۱۴)        منٹو ایک مطالعہ۔ ص  ۱۶۷ 
۱۵)        کلیات منٹو (جلد دوئم) ص   ۴۲۴

 


کتابیات
( 1 )        منٹو ایک مطالعہ۔ وارث علوی۔ الحمرا پبلشنگ اسلام آباد ۲۰۰۳ء
( 2 )        کلیاتِ منٹو۔ مرتب امجد طفیل جلد اول( افسانے)۔ بی پی ایچ پرنٹرز لاہور۔ ۲۰۱۲ء
( 3 )        کلیاتِ منٹو۔ مرتب امجد طفیل جلد دوئم( افسانے)۔ بی پی ایچ پرنٹرز لاہور۔ ۲۰۱۲ء
( 4 )        کلیاتِ منٹو۔ مرتب امجد طفیل جلد سوئم( افسانے)۔ بی پی ایچ پرنٹرز لاہور۔ ۲۰۱۲ء
( 5 )        اردو ادب اور تانیثیت۔ مرتبہ ڈاکٹر قاضی عابد۔ پورب اکیڈمی اسلام آباد۔ ۲۰۱۶ء
( 6 )        ادب اور لاشعور۔ ڈاکٹر سلیم اختر۔ سنگِ میل پبلی کیشنز۔ لاہور ۲۰۰۸ء
( 7 )        منٹو کی عورتیں۔ ڈاکٹر روش ندیم ۔پورب اکیڈمی اسلام آباد ۲۰۰۹ء
( 8 )        ‘‘زیست’’ منٹو صدی نمبر۔ مرتب ڈاکٹر انصار شیخ۔ ادارہ رموز۔ کراچی ۲۰۱۲ء
( 9 )        منٹو حقیقت سے افسانے تک۔ شمیم حنفی۔ شہرزاد۔ گلشن اقبال کراچی۔ ۲۰۱۲ء
( 10 )      ہندوستانی ادب کے معمار۔ (سعادت حسن منٹو) از وارث علوی۔ ساہتیہ اکادمی دہلی۔ ۱۹۹۵ء
( 11 )      منٹو نامہ۔ جگدیش چندر ودھان۔ مکتبہ شعر و ادب۔ لاہور ۔ س۔ن
( 12 )      منٹو کون ہے یہ گستاخ۔۔؟ مرتبہ ڈاکٹر سید عامر سہیل۔ پاکستان رائٹرز کوآپریٹو سوسائٹی لاہور۔ ۲۰۱۵ء
( 13 )      تحلیلی نفسیات ۔ ڈاکٹر محمد اجمل۔ بیکن بکس۔ ملتان ۲۰۰۵ء
( 14 )      سہ ماہی ‘‘دانشور’’۔ سعادت حسن منٹو نمبر۔ ہری لاج سٹریٹ کرشن نگر۔ لاہور شمارہ نمبر ۲ ۔ ۱۹۹۰ء
( 15 )      منٹو ایک مطالعہ۔ ترتیب و تالیف۔ ڈاکٹر شاہین مفتی۔ زجاج پبلی کیشنز گجرات۔ ۲۰۱۲ء

اوپر جائیں  |   پرنٹ کیجئےِ
انگریزی ورژن ای میل چیک کریں مرکزی صحفہ پرنٹ پسندیدہ سائٹ بنائیں رابطہ کیجئے www.shahzadahmad.com www.shahzadahmad.com