کلامِ بیدل ؔ کے الہامی اردو تراجم

                                                                    ڈاکٹر سلمان علی /شوکت محمود

ABSTRACT:
Mirza Abdul Qadir Bedil [1644-1720] a famous poet of subcontinent India of Persian language is also famous for being adored and followed in themes and style by number of Urdu poets including Meer, Ghalib, and Iqbal. A latest Urdu translation of his poetry by Naeem Hamid Ali Al-Hamid, Bahar Ijadi-e Bedil is recieved as cultural event by celebrated Urdu authors and poets. This article is critical analysis of the book. The usage of modern poetic expressions, alteration of form according to target language needs and taste and skill in pragmatics prove the quality of the translation.

Key Words: Mirza Abdul Qadir Bedil; Naeem Hamid Ali Al-Hamid; Bahar Ijadi-e Bedil; Poetic Translations.

 

          اولیاے کرام اور بزرگان ِ دین کی طرح بعض شاعر بھی ایسے ہوتے ہیں جن کی فیض رسانی کا سلسلہ اُن کی وفات کے بعد بھی جاری رہتا ہے۔ برصغیر میں عہدِ مغلیہ کے جلیل القدر صوفی ، مفکر اور فن کار شاعر ابوالمعانی مرزا عبدالقادر بیدلؔ (۱۰۵۴ھ؍۱۶۴۴ء ۱۱۳۳ھ؍۱۷۲۰ء) بھی ایسے ہی شاعروں میں سے ایک تھے کیوں کہ اُن کے فکر و فن کے متنوع گوشوں پہ انگریزی اور فارسی سمیت اردو زبان میں تحقیق اورتنقید کے علاوہ تراجم اور توضیحات کا سلسلہ گذشتہ ڈیڑھ سو سال سے برابر جاری ہے۔ بیدلؔ کو زندگی میں اوروفات کے بعد عوام اور خصوصاً ولیؔ ، دردؔ ،میرؔ ، غالبؔ اوراقبالؔ جیسے خواص میں خصوصی شہرت اور مقبولیت ملی مگر ۱۸۳۵ء میں برصغیر کی سرکاری زبان فارسی کی معزولی کے باعث ادبیاتِ بیدلؔ سے حظ اندوز اور اُن سے مستفید ہونے والوں کا حلقہ فارسی زبان جاننے والوں تک محدود ہو کر رہ گیا۔ چناں چہ اردو قارئین میں کلامِ بیدلؔ کو تراجم اور توضیحات کے ذریعے مقبول و معروف بنانے والوں میں نیاز فتح پوری ، خواجہ عباد اللہ اخترؔ ، عطا ء الرحمن عطاؔ کاکوی ، ڈاکٹر ظہیر احمد صدیقی ، ڈاکٹر سید احسن الظفر ، علی بابا تاج ، افضال احمد سید ، پروفیسر نبی ہادی اور پیر نصیر الدین نصیرؔ نے جو وقیع خدمات سرانجام دیںاُنہیں بیدلؔ شناسی کے فروغ میں سنگ میل کی حیثیت حاصل ہے۔ مرزا غالبؔ نے کہا تھا :
طرزِ بیدلؔ میں ریختہ لکھنا
اسد اللہ خاں قیامت ہے(۱)
اس قیامت کو منثور اورمنظوم تراجم کے ذریعے سر کرنے والوں میں ایک نام سعودی عرب کے شہر جدّے میں مقیم پاکستانی اردو شاعر اور بیدلؔ شناس سید نعیم حامد علی الحامد کا بھی ہے جن کی کتاب ’’ بہار ایجادیٔ بیدلؔ‘‘ (مطبوعہ : پیکجز لاہور ، ۲۰۰۸ء) میں بیدلؔ کے ۳۰۰ جب کہ ــ’’نغزِ بیدلؔ‘‘ (مطبوعہ : پیکجز لاہور ، ۲۰۱۰ء) میں بیدلؔ کے ۵۷۵ اشعار کے نثری نیز منظوم اردو تراجم شامل ہیں۔ ’’بہار ایجادیٔ بیدلؔ‘‘ میں شامل تراجم کو اِسی نام سے نیشنل بک فائونڈیشن اسلام آباد نے اکتوبر ۲۰۱۵ء کو علاحدہ کتابی صورت میں بھی شائع کر دیا ہے۔
نعیم حامد کو شاعری ورثے میں ملی ہے وہ جگرؔ مراد آبادی کے پرنواسے ہیں اُن کے نانا مرزا طاہر بیگ طاہرؔ مراد آبادی بھی اردو کے معروف شاعر تھے ( ۲) چنانچہ اسلاف کی ادبی روایت کے تسلسل کو قائم رکھنے کے لیے وہ خود بھی شاعری کرتے ہیں۔ ـ’’پیکر ِ نغمہ‘‘ اور ’’عکاظ ِغزل‘‘ کے نام سے اُن کے دو شعری مجموعے دیارِ عرب سے شائع ہو کر ناقدین ِ فن سے داد وصول کر چکے ہیں۔ اُنہوں نے کلامِ بیدلؔ کا مطالعہ پورے کیف و کم کے ساتھ بہت ڈوب کر (۳) انتہائی محبت و شدت سے کیا ہے اسی لیے مضامین ِ بیدلؔ نے ان کے ذریعے اردو کے قالب میں ڈھلنا پسند کیا ہے(۴) ادب میں شعری توارد کے علاوہ شخصی توارد کی مثالیں بھی دیکھنے کو ملتی ہیں جیسے ـ’’بانگ درـا‘‘ کے دیباچے میں شیخ عبدالقادر نے اقبالؔ کو غالب ـؔکا دوسرا ادبی جنم قرار دیا تھا۔ نعیم حامد کی بھی حد سے بڑھی ہوئی بیدلؔ پرستی اُن کی سخن سرائی سے ہم آمیز ہو کر کلامِ بیدلؔ کے ایسے بے ساختہ اردو تراجم میں ڈھل گئی ہے جیسے پگھلا ہوا سونا اپنی شفق رنگ ڈلک کے ساتھ نئے سانچوں میں سما جاتاہے۔ حضرتِ بیدل ؒ صاحبِ طرز نثر نگار اور مفکر و فنکار شاعر ہی نہ تھے ، صاحبِ کرامات صوفی بھی تھے، نعیم حامد کے الہامی تراجم کو بیدلؔ کی ادبی کرامت سمجھنا چاہیے نعیم حامد بھی اسے ـ’’ فیضانِ بیدلؔـ‘‘ سے تعبیر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
ــ’’خدا ساز بات یہ ہوئی کہ جب ۱۴ نومبر ۲۰۰۰؁ء سے ترجمہ کی ابتداء کی تو ترجمۂ نثر اس طرح شعر کے قالب میں ڈھلتا گیا کہ اس کو فیضانِ بیدلؔ کے سوا دوسرا نام نہیں دیا جاسکتا۔ـ‘‘(۵)
نعیم حامد ترجمہ کرنے کے دوران پہلے شعر کے مفہوم کو حشو و زوائد سے پاک اردو نثر کا جامہ پہناتے ہیں۔ اس سے جہاں اردو دان طبقے کو شعر کا مطلب سمجھنے میں سہولت ہو جاتی ہے وہاں مترجم بھی اگلے مرحل میں اس نثری مفہوم کو نظم کا جامہ پہناتے ہوئے اس سے دورجانے سے بچا رہتا ہے۔ اسی دوہری مشقت اور اہتمام کے باعث یہ تراجم متنِ بیدلؔ کے بہت زیادہ قریب آگئے ہیں اگر صرف نثری یا محض منظوم تراجم پر اکتفا کیا جاتا تو ان میں یہ خوبیاںپیدا نہ ہوتیں۔
ترجمے کی اقسام کو ذہن میں رکھتے ہوئے نعیم حامد کے تراجم کواگر کوئی نام دینا پڑے تو کہا جاسکتا ہے کہ یہ پابند اور لفظی کے بجائے آزاد اور تفہیمی تراجم کے ذیل میں آتے ہیں۔ اسی لیے یہ قارئین ِ اردو ادب کے لیے سہولت ِ فہم کا باعث ہیں۔ پروفیسر انورؔ مسعود اس پر ماہرانہ رائے دیتے ہوئے لکھتے ہیں:
ــ’’نعیم حامد نے زیادہ تر کوشش یہ کی ہے کہ لفظی ترجمے سے حتی الامکان گریز کیا جائے اور اردو شعر میں فارسی شعر کا مفہوم منتقل کیا جائے اور اردو زبان میں وہ Expression کیا جائے جو فارسی کا متبادل ہو سکے مثال کے طور پر بیدلؔ کے ایک شعر میں ’’ضبطِ حواس‘‘ کی ترکیب کا ’’اوسان قائم ‘‘ میں کیا عمدہ متبادل تلاش کیا ہے :
چوں فنا نزدیک شد مشکل بود ضبطِ حواس
در دم پرواز بال و پریشاں می شود  (بیدل)ؔ
رہیں اوسان قائم وقتِ آخر غیر ممکن ہے
دمِ پرواز بال و پر پریشاں ہو ہی جاتے ہیںــ     (نعیم حامد)
(۴)
شاعری کا کامیاب منظوم ترجمہ گہری ذولسانی واقفیت اور مہارت کے بغیر ممکن نہیں۔ نعیم حامد اردو کے ساتھ ساتھ فارسی زبان کے بھی رمز شناس ہیں ۔ یہ بات اُن کے تراجم کی تراکیب سازی سے بھی ظاہر ہوتی ہے۔ ڈاکٹر ابوالخیر کشفی اس پر روشنی ڈالتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’بڑے شاعرکی تراکیب میں تجسیم ملتی ہے اورمجرد اشیاء سانس لینے لگتی ہیں ایک زبان سے دوسری زبان میں ترجمہ کرتے ہوئے اکثر اصل کلام کی تراکیب منتقل نہیں ہوسکتیں اور مترجم کو نئی تراکیب وضع کرنی پڑتی ہیں۔ میں جانتا ہوں کہ کسی زبان میں دو لفظ ہم معنی نہیں ہو سکتے لیکن شاعر کا تخلیقی ذہن اپنے ترجمے کو اصل کا عکس بنا سکتا ہے ـ’’ وضعِ خموشِ ما‘‘ ’’میرا سکوت ‘‘ بن کر اور ’’سخنِ دلنشیں‘‘’حرف و صدا‘‘ کے قالب میں ڈھل کر اصل خیال کی شفّافیت کو کس طرح قائم رکھ سکتا ہے، اِسے ملاحظہ فرمائیے:
وضعِ خموشِ ما ز سخن دلنشیں تر است              
با تیر احتجاج ندارد کمانِ ما  (بیدلؔ)
میرا سکوت حرف و صدا سے بلیغ ہے             
میری کمان تیر کی محتاج تو نہیں (نعیم حامد)
’’ سخن ‘‘ کے ساتھ ’’دلنشیں‘‘ کیسا پیوست ہے لیکن ’’سکوت ‘‘ کی بلاغت بھی بڑی وقیع ہے اور پھر ’’محتاج تو نہیں‘‘ کے ٹکڑے میں کیسی قطعیت ہے۔ الفاظ و رموز کی یہ تبدیلیاں دو زبانوں کے مزاج شناسی کی نشاندہی کرتی ہیں۔‘‘(۷)
بیدلـؔ کی شاعری اپنی نزاکت خیالی ، رعایت ِ لفظی ، صوفیانہ تجرید ، اخلاقی تمثیل اور عُلوِ فکر کے باعث قاری کے لیے ہمیشہ ایک چیلنج رہی ہے اکثر اردو قارئین چونکہ فارسی زبان کے علاوہ فارسی شاعری کے سبکِ ہندی کی شعریات سے بھی آگاہی نہیں رکھتے اس لیے اُن کے لیے بیدلؔ کے کلام سے حظ اندوز ہوناتو ایک طرف اُسے سمجھنا بھی دشوار ہو جاتا ہے۔ نعیم حامد اردو قارئین کی انہی تفہیمی دشواریوں کو دور کرنے کے لیے نثری تراجم کو جہاں سلیس اردو میں لکھنے پر خصوصی توجہ دیتے ہیں وہاں اپنے منظوم تراجم میں ایسے لفظی اشارات بھی رکھ دیتے ہیں جو شعر کے مبہم مفہوم کو روشن تر کرنے میں مددگار ثابت ہوتے ہیں اس مثال سے اُن کے تراجم کے اس لطیف تفہیمی وصف کو بخوبی سمجھا جاسکتا ہے:

مباد دامنِ کس گیرم از فسونِ عرض        
کفِ اُمید ، حنا بستہ ام بخونِ غرض(بیدل)ؔ
(ایسا نہ ہو ضرورت مجبور کردے کسی کا دامن تھامنے پر اِ س لیے دستِ اُمید پر خونِ آرزو سے مہندی لگائی )
نہ تھاموں غیر کے دامن کو مجبورِ غرض ہو کر                       
کفِ امید پر مہندی لگائی ہے قناعت کی  (نعیم حامد)(۸)
منظوم ترجمے کے دوران نعیم حامد نے بیدلؔ کے ’’ کَس ‘‘ کو اردو کے ’’غیر‘‘ میں بدل دیا ہے جس سے وہ معانی کو فاش تر کر رہا ہے دوسرے مصرعے میں اُنہوں نے ’’خونِ غرض‘‘ کو ’’قناعت ‘‘ سے بدل کر اردو پڑھنے والوں کو ابہام کی جگہ شفاف تر لفظ دے دیا ہے نعیم حامد کے تراجم کی اِسی خوبی کو سراہتے ہوئے ڈاکٹر انعام الحق جاوید کہتے ہیں:
’’ ڈاکٹر نعیم حامد نے اس قدرسہولت ، سادگی اور رواں دواں زبان میں ترجمہ کیاہے کہ اصل مفاہیم کی روح بھی متاثر نہیں ہوئی اور قاری تک بیدلـؔ کا پیغام بھی پہنچ گیا اس بے ساختگی اور دل نشینی کے ساتھ بیدلــؔ کے کلام تک عام لوگوں کی رسائی آسان بنا کر نعیم حامد نے خواص کے شاعر کو عوام کا شاعر بنا دیا ہے۔ــ‘‘ (۹)
نعیم حامد سے پہلے ڈاکٹر ظہر احمد صدیقی نے ’’ دلِ بیدلؔ‘‘ ( مطبوعہ : مجلسِ تحقیق و تالیف فارسی گورنمنٹ کالج لاہور ، ۱۹۹۰ء) کے نام سے بیدلؔ کی ۱۱۰ غزلوں کے مسلسل اشعار کا منظوم اردو ترجمہ کیا تھا لیکن بحر ،قافیے اور ردیف وغیرہ کی پابندیوں نے اُن کے تراجم میں ’’آورد ‘‘ کی کیفیت کو جنم دیا اس کے برعکس نعیم حامد نے چونکہ بیدلؔؔ کی غزلیات کے منتخب اشعار کا منظوم ترجمہ کیا ہے اس لیے اُنہیں مذکورہ پابندیاں نہیں کرنی پڑیں یا اگر کہیں کہیں کی بھی ہیں تو ایسے اشعار کی تعداد بہت کم ہے، اس لیے اُن کے مترجمہ اشعار کو پڑھتے ہوئے ’’انشراحی آمد‘‘ کا احساس ہوتا ہے۔ یہ نہیں کہ نعیم حامد ان پابندیوں میں رہتے ہوئے ترجمہ کرنے پر قدرت نہیں رکھتے بعض مقامات پر اُنہوں نے ان پابندیوں پر عمل پیرا ہو کر بھی اچھے ترجمے کر دکھائے ہیں جیسا کہ اس مثال سے بھی واضح ہے :
دلِ بیادِ پرتوِ حسنت سراپا آتش است           
از حضورِ آفتاب! آئینہ ٔ ما آتش است  (بیدل)
دل بیادِ پرتوِ جلوہ ! مجسم آگ ہے            
سامنے سورج کے آئینہ ! مجسم آگ ہے (نعیم حامد)
(۱۰)
اس لیے قارئینِ ادب اُن سے یہ توقع رکھنے میں حق بجانب ہیں کہ وہ بیدلؔ کی مسلسل غزلوں کے علاوہ قطعات اورخصوصاً رباعیات کے منظوم تراجم پر بھی طبع آزمائی کرکے اُنہیں بیدلؔ کی دیگر اصناف سے بھی مستفید ہونے کا موقع فراہم کریں۔
فارسی اور اردو میں ماں بیٹی یا بڑی چھوٹی بہن کا رشتہ ہے جس سے گوشت اور ناخن ، عورت اور حسن ، نغمہ اور لے ، مصور اور رنگ کے رشتے ذہن میں آتے ہیں۔ذخیرۂ الفاظ سے ادبی اصناف تک ، واحد جمع کے اصولوں سے تراکیب سازی کے قواعد تک ، شاعری کے علائم سے نظامِ نغمہ ( بحور ) کے اوزان تک کتنے بے شمار عناصر ہیں جو آج بھی اردو زبان فارسی کے خوانِ نعمت سے اُٹھا لینے میں کوئی جھجک یا باک محسوس نہیں کرتی اسی قرابت کا اثر ہے کہ فارسی زبان کے بے شمار الفاظ اورفارسی شعر و ادب کی لاتعداد تراکیب اورمصرعے اردو میں قطعاً انوکھے اور اجنبی محسوس نہیں ہوتے۔ نعیم حامد نے فارسی اور اردو کی اسی لسانی قرابت داری اور ہم آہنگی کے پیشِ نظر بیدلؔ کی کئی تراکیب اور بعض اوقات پورے پورے مصرعے ویسے ہی رہنے دئیے ہیں۔ انورؔ مسعود اس پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’ نعیم حامد نے بیدلؔ کے بعض مصرعے جُوں کے تُوں رہنے دئیے ہیں جو اردو کے مزاج سے ہم آہنگ تھے ایسے ذُولسانی تشخص کے حامل مصرعوں کا ترجمہ نہ کرنا ہی بہترین ترجمانی ہے اس ضمن میں نعیم کے ذوقِ سلیم کا اعتراف کرنا پڑتا ہے کہ اب ایسے مصرعوں کا ترجمہ کیوں کیا جاتا ہے ؟
ع        لالہ داغ و گل گریباں چاک و بلبل نوحہ گر
ع       نہ  سراغِ  چشم  روشن ، نہ چراغِ آشنائی
ع       بندگی ،  شاہی ،  گدائی ، مفلسی ، گردن کشی
ع       دل وفا ، بلبل نوا ، واعظ فسوں ، عاشق جنوںــ‘‘(۱۱)
نعیم حامد تراجم کی جہاں کہیں اندرونی قافیوں سے تزئین کرتے ہیں وہاں منظوم اشعار سونے پرسہاگہ کا نمونہ بن کر دامنِ دل کو کھنچنے لگتے ہیں جیسے اس مثال سے مترشح ہے:
جز مبتذلے چند کہ عامست دریں عصر            
بیدلؔ نرسیدہ است ، بیاراں سخنِ من (بیدل)ؔ
سوائے مردانِ خام بیدلؔ کہ ہیں زمانے میں عام بیدل                       
نہ پہنچا میرا کلام بیدلؔ ادا شناسانِ شاعری تک   (نعیم حامد)(۱۲)
اردو اور فارسی میں پائے جانے والی ادبی اور لسانی اشتراکات کے باوجود ، جن کا ابھی ذکرہوا ، اردو اپنا مخصوص لسانی تشخص بھی رکھتی ہے جو اس کے تلفظ ، روزمرے ،محاورے اور کہاوتوں وغیرہ سے جھلکتا ہے۔ ترجمے کے دوران نعیم حامد نے فارسی طرزِ اظہار کو جس برجستگی کے ساتھ اردو روزمرے اور محاورے میں ڈھالا ہے وہ غیبی امداد کے بغیر ممکن نہیں ایک مثال سے اسے بخوبی سمجھا جاسکتا ہے:
زندگی درگردنم اُفتاد بیدلؔ چارہ نیست           
شاد باید زیستن ، ناشاد باید زیستن  (بیدل)ؔ
زندگی پڑ گئی گلے بیدلؔ                  
شاد و ناشاد اب تو جینا ہے(نعیم حامد)(۱۳)
بیدلؔ کی شاعری کا ایک نمایاں وصف ایجاز ہے وہ بڑے سے بڑے مضمون کوتمام تر تلازمات اور پرت در پرت رعایتوں کے دو مصرعوں میں بے ساختگی کے ساتھ کہنے پر قادر تھے نعیم حامد کو جہاں محسوس ہوا کہ بیدلؔ کے مضمون کو ایک شعر میں نظم کرنے سے ابہام پیدا ہوگا اور تفہیم کی راہ میں رکاوٹ بنے گا تو اُنہوں نے وہاں قطعے کا سہارا لے کر مضمون کو پھیلا کر بیان کردیا ہے ۔ اِسے ابوالخیر کشفی نے ـ’’خلاقانہ شان‘‘ سے تعبیر کیا ہے ، وہ لکھتے ہیں:
’’نعیم صاحب نے ترجمے کو تخلیقی سطح تک پہنچانے کے لیے کہیں کہیں شعر کا ترجمہ قطعے کی صورت میں کیا ہے۔ بیدلؔ تو بڑے سے بڑے خیال کو دو مصرعوں میں ادا کر سکتے تھے لیکن جہاں مترجم شاعر نے بیدلـؔ کی نواے سینہ تاب کے لیے اردو شعر کی قبا کو تنگ دیکھا تو واحد کو تثنیہ بنا دیا ۔‘‘(۱۴)
اس سلسلے میں ایک مثال پیشِ خدمت ہے :
آنچہ ما در حلقۂ داغِ محبت دیدہ ایم        
نے سکندر دید در آئینہ نے در جام ، جم(بیدل)ؔ
قطعہ
میں نے جو چاہا دکھایا ہے محبت نے مجھے                   
زندگی میں شکرِ ایزد ، میں ہوا ناکام کم                   
کیا ملا تجھ سے سکندر کو ، بتا اے آئینے؟                  
کچھ نہ حاصل کر سکا تجھ سے کبھی اے جام ، جم  (نعیم حامد)(۱۵)
یہ اور اس جیسی دیگر بے شمار خوبیاں نعیم حامد کے منظوم تراجم کو اعلیٰ شاعری کا بہترین نمونہ بنا دیتی ہیں اِسی لیے انہیں انورؔ مسعود نے ’’طبع زاد‘‘ ڈاکٹرا بوالخیر کشفی ؔ نے ’’کرشمہ ‘‘ ، سید شاہ محمد طلحہ رضوی برقؔ نے ’’ بے ساختہ و برملا ‘‘ ، ڈاکٹر یعقوب عمر نے ’’آمد ‘‘ ڈاکٹر عبداللہ عباس ندوی نے ’’بے نظیر‘‘ اور راقم نے ’’الہامی تراجم ‘‘ کا نام دیا ہے۔ ڈاکٹر انعام الحق جاوید نے انہی خوبیوں کو دیکھتے ہوئے ان تراجم کے تابناک مستقبل کی پیشن گوئی کرتے ہوئے لکھا ہے :
’’بہار ایجادیِ بیدلؔ ڈاکٹر نعیم حامد علی الحامد کی تحقیق و جستجو کے لیے وقف کیے گئے ۲۰ سالوں کی محنت کا وہ عکسِ جمیل ہے جس کی چمک دمک تادیر قائم رہے گی۔ ‘‘(۱۶)
بِلاشُبہ نعیم حامد کے منظوم تراجم ایسے فروزاں چراغوں کی مانند ہیں جو اپنی تابانی سے اردو میں بیدلؔ فہمی کے پُر پیچ راستوں کو ہمیشہ منور رکھیں گے۔ تراجم کو ادب میں ہمیشہ ثانوی حیثیت حاصل رہی ہے لیکن نعیم حامد نے ریاضت اور بصیرت سے کام لے کر اپنے منظوم تراجم کو طبع زاد شاعری کا ہم پلہ اور ہم سر بنا دیا ہے اور یہ کوئی معمولی کارنامہ ہرگز نہیں۔

 

 

 

 

 

 

حوالہ جات
۱) غلام رسوم مہرؔ ، خطوطِ غالب ، کتاب منزل لاہور ، س۔ن ، ص: ۵۳۲
۲) سید شاہ محمد طلحہ رضوی برق ؔ، حرفِ چند ، مشمولہ ’’بہار ایجادیٔ بیدل‘‘ ، پیکجز لاہور ، ۲۰۰۸؁ء ، ص: ۵۱
۳) ایضاً   ص: ۵۲
۴) ڈاکٹر سید محمد ابوالخیر کشفی ؔ ، بہار کا اثبات ، مشمولہ’’ بہار ایجادیٔ بیدلؔ ‘‘ ص: ۳۵
۵) بحوالہ : سید شاہ محمد طلحہ رضوی برقؔ، حرفِ چند ، مشمولہ ’’بہار ایجادیٔ بیدل‘‘ ، ص:۵۲
۶) پروفیسر انورؔ مسعود ، قابلِ قدر کارنامہ ، مشمولہ ’’بہار ایجادیٔ بیدل ‘‘ ، ص: ۲۰۔۲۱
۷) ڈاکٹر سید محمد ابوالخیر کشفی ؔ ، بہار کا اثبات ،مشمولہ ’’ بہار ایجادیٔ بیدلؔ‘‘ ص: ۳۳
۸) سید نعیم حامد علی الحامد ’’ بہار ایجادیِ بیدلؔ ‘‘ نیشنل بک فائونڈیشن اسلام آباد ، ۲۰۱۵ ء ، ص: ۵۲
۹) ڈاکٹر انعام الحق جاوید ، ( پیش لفظ) ، بہار ایجادی ٔ بیدل ؔ، نیشنل بک فائونڈیشن اسلام آباد ، ۲۰۱۵ء، ص: ۹
۱۰) ایضاً  ص: ۷۵
۱۱) پروفیسر انورؔ مسعود ، قابلِ قدر کارنامہ ، مشمولہ ’’ بہار ایجادیٔ بیدل ؔ‘‘ ، ص: ۲۲
۱۲) سید نعیم حامد علی الحامد ’’ بہار ایجادیٔ بیدل ؔ‘‘ نیشنل بک فائونڈیشن اسلام آباد ، ۲۰۱۵ء ص: ۴۶
۱۳) ایضاً  ص: ۶۶
۱۴) ڈاکٹر سید محمد ابوالخیر کشفی ؔ ،بہار کا اثبات ، مشمولہ ’’بہار ایجادیِ بیدل ؔ‘‘ ، ص: ۳۴
۱۵) سید نعیم حامد علی الحامد ’’ بہار ایجادیٔ بیدل‘‘ ؔ ، نیشنل بک فائونڈیشن اسلام آباد ، ۲۰۱۵ء ، ص: ۸۱
۱۶) ڈاکٹر انعام الحق جاوید ، ( پیش لفظ ) ’’ بہار ایجادی ِ بیدل ؔ‘‘ ، ص: ۹

اوپر جائیں  |   پرنٹ کیجئےِ
انگریزی ورژن ای میل چیک کریں مرکزی صحفہ پرنٹ پسندیدہ سائٹ بنائیں رابطہ کیجئے www.shahzadahmad.com www.shahzadahmad.com