علامہ اقبال  اورافلاطون کا نظریہ اعیان ثابتہ  : علمی ردِ دلائل اور سماجی سیاق
ڈاکٹر یوسف حسین
اختصاریہ:
افلاطون کے نظریہ اعیان شہود نامشہود کے رد میں علامہ اقبال کے نقطہ نظر کی وضاحت کی گئی ہے۔ افلاطون اپنے تعلیمات میں دنیا سے کنارہ کشی اور علائق دنیوی سے دل نہ لگانے کی بنیاد اس حقیقت کو قرار دیتا ہے کہ عالم تجسیم ، پیہم تبدیلی سے ہم کنار اور حقیقت اولیٰ کا سایہ محض ہے۔ علامہ اقبال اپنی کتاب اسرار خودی میں فلسفہ خودی کے بیان کے ضمن میں افلاطون کے افکار اور ان کے مسلمان نو افلاطونی دانشوروں پر اثرات، بالخصوص حافظ شیرازی کے نظریات کی تردید کرتے ہیں۔ اقبال کے رد ِ دلائل میں منطقی قیاسات کے ساتھ ساتھ ، اعیان ثابتہ کو مان لینے سے معاشرے پر اس کے مرتب ہونے والے اثرات کا بھی تجزیہ پیش کیا گیا ہے۔یہ مقالہ اقبال کی انھی علمی و سماجی سیاق کا تجزیہ پیش کرتا ہے۔

کلیدی الفاظ: اقبال؛    افلاطون؛  اعیان ثابتہ؛                      مسلک گوسفندی؛    خودی؛    حافظ شیرازی،        اعیان ثابتہ نامشہود۔

ABSTRACT:
Iqbal criticism of Plato’s ideas on Architypes and Probate Architypes is based on philosophical as well as social arguments. These are best presented Iqbal’s poetic works, specially his book “Israr-e Khudi”. Iqbal rejects the idea mainly because of its impact on society as passive and noncreative responses and resulting decline of the society. In this, Iqbal also criticize neo-Platonic Muslim philosophes and intellectuals, including famous Persian poet, Hafiz Shirazi. This article is an attempt to present Iqbal’s arguments on the subject, spread in different poems and books, in its philosophical as well as social context.

Key Words: Iqbal; Plato; Probate Archetype; Hafiz Shirzai; Maslak Gosfandi; Khudi.

اقبال نے اپنے تصور خودی کی پرچار کے لیے اپنی کتاب اسرار خودی میں ایک حکایت کے ضمن میں خودی کی نفی کے مسئلے پرتفؔصیل سے روشنی ڈالی ہے۔ انھوں نے اس عمل کی وضاحت کی ہے کہ مغلوب اقوام، مقتدر اقوام کے اخلاق کو کیسے اپنے اس خفیہ گُر کی توسط سے کمزور کرتی ہیں۔ علامہ اقبال نے خودی کو اصل نظام عالم بتایا ہے اور بتاتے ہیں کہ تسلسل حیات کا انحصار خودی کی بقا میں ہے۔ اس ضمن میں اسرار خودی کے بیشتر مضامین اور بحث اسی موضوع کی وضاحت پر مشتمل ہیں اور علامہ نے ان میں تمثیلی انداز میں اپنے نظریہ خودی کی وضاحت کی ہے۔
اس موضوع پر واضح طور پر علاقہ اقبال کا فارسی شاعر حافظ شیرازی اور یونانی دانشور افلاطون سے اختلاف رائے ہے۔ انہوں نے ان دو شخصیات کے مخصوص افکار کو ملت کی حیات کے لیے مہلک قرار دیا اور انکے طرز فکر کو ''مسلک گوسفندی'' کا نام دیا ہے۔ حافظ شیرازی زندگی گزارنے اور دنیاوی معاملات کے ساتھ فرد کے ربط سے متعلق اپنا مخصوص طرز فکر رکھتا ہے۔ انکے خیال میں پُر آسایش زندگی گذارنے کے بس دو ہی گُر ہیں، دوستوں کے ساتھ لطف و مہربانی اور دشمن کے ساتھ مدارت:
آسایش دو گیتی تفسیر این دو حرف است
با دوستان تلتف با دشمنان مدا را
حافظ کی تلقین ہے کہ دشمن کے ساتھ بھی اچھے اور مثبت انداز میں زندگی گذارنے سے ہی زندگی خوشگوار بن جاتی ہے۔ اگر زمانہ تیرے ساتھ موافق نہ ہو تو تو زمانے کے ہاں میں ہاں ملاکر چل۔ دریں اثنا نظیری نیشاپوری ہنگاموں کی دنیا میں رہنے کی تلقین کرتا ہے اور کہتا ہے کہ ہر وہ شخص جو مردِ غوغا نہ ہو ہماری صفوں سے بھاگ جائے اور جو شخص زندگی کے معرکہ میں نہیں مارا گیا وہ ہمارے قبیلے کا نہیں ہے۔  اس معاملے میں علامہ اقبال نظیری نیشاپوری کا ہم خیال نظر آتا ہے اور کہتا ہے کہ :
بہ ملک جم ندھم مصرع نظیری را
'' کسی کہ کشتہ نشد از قبیلہ ما نیست'' (1)
فارسی شاعر حافظ شیرازی  کی تلقین ہے کہ مملکت کے معاملات کو حکماء ہی بہتر سمجھتے ہیں اے حافظ تو ایک گوشہ نشین فقیر ہے انکے کاموں میں مداخلت نہ کر۔
رموز مملکت خویش خسروان دانند 
گدای گوشہ نشینی تو حافظا مخروش(2)
لیکن علامہ اقبال اسکے اس دلیل کی تردید کرتا ہے اور مخروش کی بجائے پیکار و نبرد آزمائی کا درس دیتا ہے۔
حدیث بی خبران بود کہ با زمانہ بساز
زمانہ با تو نسازد تو با زمانہ ستیز
(یہ غافلوں کی بات ہے کہ زمانے کے ساتھ مفاہمت اختیار کر۔ زمانہ تیرے موافق نہ چلے تو زمانے سے نبرد آزما ہوجا)علامہ کے مطابق اگر دنیا تیرے مرضی کے مطابق نہیں تو حکم ہے کہ اسکو ڈھادے اور نئی دنیا تعمیر کر۔
گفتند جہان ما آیا بتو می سازد؟
گفتم کہ نمی سازد! گفتند کہ برہم زن !(3) 
خودی کی تشہیر میں علامہ حصول طاقت کی تاکید کرتا ہے۔ گدیہ نشینی کے مقابلے میں سریر جم کے حصول پر مصر ہے اور جہانگیری کے لیے قوت کے حصول کو لازمی عنصر قرار دیتا ہے۔
عیار فقر ز سلطانی و جہانگیری است
سریر جم بطلب، بوریا چہ می جوئی؟(4) 
پوری عالم میں ہنگامہ برپا کرنے اور عنان اقتدارکی گرفت و تسخیر نظام کی آرزو کو اپنے جوان نسل میں زندہ دیکھنا چاہتا ہے۔گوشہء انزوا میں زندگی گزارنے کی بجائے ایک جہانِ ہا و ہو اور پُر آوازہ دنیا بسانے کی تلقین کرتا ہے۔ اس جہاں کے چار سو میں محو ہونے کی بجائے حصول خودی اور اس جہاں کی چار دیواری کو توڑنے کی تلقین فرماتے ہیں۔  
منہ از کف چراغ آرزو را
بدست آور مقام ھا و ھو را
مشودر چارسوی این جہاں گم
بخود باز آ و بشکن چار سو را (5)
خودی کے حصول کے لیے فرہاد بن کر ضربِ تیشہ سے پہاڑ کو توڑ دے کیونکہ یہ مختصر لمحہ پھر میسر نہیں آئے گا اور گردش زمانہ پھر فرصت نہیں دے گا۔ افلاطون کی مانند جو حکماء قیل و قال سے کام لیکر خیال بافیوں میں محو رہتے ہیں ان کو درخور اعتناء نہ سمجھ بلکہ اپنے تیشے کی وار سے شرارِ زندگی پیدا کر۔گویا حکماء کے تفکرات جامد پتھر ہیں جبکہ تیری کاوش و جستجو ہی وہ تیشہ ہے جسکی ضرب سے شراریں پھوٹتے ہیں۔  
بہ ضرب تیشہ بشکن بیستون را
کہ فرصت اندک و گردون دو رنگ است
حکیمان را درین اندیشہ بگذار
شرر از تیشہ خیزد یا ز سنگ است (6)
اس بحث میں علامہ حصول طاقت اور نظام ہستی کو اپنی گرفت میں لینے کے لیے خودی کی بالیدگی کی ترغیب دیتا ہے۔ اور جن خصلتوں کی وجہ سے خودی کا آفتاب عالم تاب ماند پڑ جاتے ہیں انکی بھی نشان دہی کرتا ہے۔ علامہ نے ایک عنوان میں ہی پوری نظم کی غرض و غایت بیان کی ہے۔ خودی کی نفی کرنا کمزور اور بے بس قوموں کی اختراع ہے۔ وہ اس اختراع کی توسط سے طاقتور اور مضبوط قوموں کے قوا کو مضمحل کرنا چاہتے ہیں۔ افلاطونی منطق و تعلیمات بھی گویا ایک قوم کے افراد کی طاقت کو کمزور کرنے اور عمل سے عاری بنانے کا باعث بنتی ہے۔
علامہ اقبال اس نکتے کی وضاحت کرتے ہیں کہ جب مسلمان دانشوروں نے افلاطونی نظریات کا ترجمہ کرکے اسکے افکار کو عام کیے تو ان تعلیمات نے قوم کے افراد کو بے عمل اور کاہل بنا دیے۔ افلاطونی نظریات کا مسلمانوں کے عہد زرین کے صوفیانہ ادبیات پر گہرے نقوش ثبت ہیں۔ علامہ کے مطابق افلاطون جو ''مسلک گوسفندی'' کا عامل تھا، اس مسلک کے تخیلات کو اسلامی تعلیمات کے روح کے منافی خیال کرکے اس سے اجتناب برتنے کا درس دیتا ہے۔
افلاطون کے تصانیف مکالمات کے نام سے معروف ہیں۔ سب سے زیادہ معروف کتاب ''جمہوریت'' ہے جو اسکا شاہکار تصور کیا جاتا ہے۔ مکالمات گویا ایک بوقلمونی ہے جس میں ہر نوع کے موضوعات اور تعلیمات موجود ہیں یہ قاری پر منحصر ہے کہ وہ اس خرمن سے کون سا خوشہ چنتا ہے۔ علامہ اقبال نے افلاطونی نظریات و تعلیمات کے ایک ہی خوشہ کا انتخاب کرکے مسلمان صوفیا و ادباء پر اسکے منفی اثرات کا تجزیہ کیا ہے۔
افلاطون اپنی تعلیمات اور منطق میں غیر مشہود اشیاء کو اعیان ثابتہ یا غیر مادی نام دیتا ہے۔ یہ غیر مشہود اشیاء جوسایہ محض ہیں ایک وہم و گمان سے بیش کچھ نہیں۔  انکے مطابق صور علمیہ یا اعیان ثابتہ ہی حقیقی وجود رکھتے ہیں اور قائم بالذات جوہر تصور کیے جاتے ہیں۔ باقی دیگر اشیاء اسکے ناقص نقول  یا ظل(سایہ) ہیں۔ افلاطون کے مطابق اعیان ثابتہ حقیقی معنی میں صاحب وجود ہیں۔ اور یہ کہ محسوسات کی دنیا ایک استعارہ سے بیش کچھ نہیں۔(7)
افلاطون کے نظریہ کے مطابق یہ محسوسات کی دنیا جو مادی وجود رکھتی ہے ایک سایہ ہے جو ایک مستقل اور جوہری وجود یعنی عالم عیان کی نقل یا کاپی ہے۔ اور دنیائے مظاہر کا اثبات ناممکن ہے۔ انکے مطابق حقیقت کا اطلاق حدوث اور تغیر و تبدل سے پاک وجود پر ہوسکتا ہے۔ چونکہ کائنات حادث اور تغیر پذیر ہے لہٰذا اسکی کوئی حقیقت نہیں۔ اور یہ ایک عالم ناپید کا ظل یا عکس ہے جومجازی ہے اوراسکا اصل کہیں نظر نہیں آرہا ہے۔
افلاطون کے بعد  نوفلاطونی سکول کے قیام سے افلاطون کے یہ نظریات جو کافی جامع اور فلسفے کی روح رواں تصور کیے جاتے ہیں ساری دنیا میں پھیل گئے اورمسلمانوں کے عہد زرین میں مسلمان حکماء، دانشوروں اور فلسفیوں نے بھی انکے تراجم سے استفادہ کرکے اپنے فلسفیانہ فکر کو جلا بخشی۔ مسلم دنیا میں خلافت عباسیہ اور مصر کے فاطمیوں کے عہد میں مسلمان دانشوروں کو نو فلاطونی نظریات نے کافی متاثر کیا۔ افلاطون کے نظریات میں سے نظریہ اعیان نامشہود، رہبانیت و ترک علایق، ثنویت، غایت علم، تصوف ( اشراقی فلسفہ جس نے بیشتر مسلم دانشوروں کو متاثر کیا) اور تصور کائنات نے مسلمان دانشوروں کے افکار کو متاثر کیا۔ افلاطونی فلسفہ تراجم کی توسط سے اسلامی ادبیات میں سرایت کرگیا۔ دوسرے مذاہب کے الٰہیات اور تصوف کی طرح اسلامی الہٰیات اور تصوف میں بھی افلاطونی نظریات جذب ہوگئیں اور آسانی سے مقبول و مروج ہوگیا۔  افلاطونی فلسفہ وسعت اور جامع پہلووں کے سبب ہر شخص کے ذوق پر پورا اترآیا اور ہر ایک نے اس سے تاثر لیا۔
چونکہ افلاطون نے اپنے نظریہ اعیان ثابتہ کے ذریعے جزئیات کو غیر حقیقی اور مجازی قرار دیا ہے اور اسکو نظر کا دھوکہ اور سراب کہا ہے اور حقیقی وجود کو کلیات قرار دیا ہے، انکے اس نظریہ کے مطابق کائنات جزئیات پر اور غیرحقیقی اور گمان پر مبنی ہے اور یہ کہ ان کا وجود موہوم ہے۔ آسان لفظوں میں افلاطون کا نظریہ اعیان ثابتہ یہ ہے کہ انسان اس خارجی مادی دنیا یا مجسم دنیا کو جسے حواس خمسہ سے محسوس کیا جاسکتا ہے، نقلی، سایہ اور گمان سمجھتا ہے۔ اس نظریہ کو ماننے سے کوئی بھی اس کائنات کو مسخر کرنے یا اس دنیا کو اپنانے کی طرف راغب نہیں ہوگا اور نتیجتاً انسان رہبانیت، انزوا اور دنیا سے کنارہ کشی کی طرف بڑھے گا۔
اقبال کا کہنا ہے کہ صدرِاسلام کے عہد میں مسلمان کا عقیدہ راسخ اور قرآنی تعلیمات کے عین مطابق تھا اس لیے انہوں نے خدا کے ساتھ عہد کرکے اپنی مال اور جان کا سودا کرچکے تھے اور ان میں ذوق جہاد زندہ رہنے کی وجہ سے فتوحات کیے اور دیگر اقوام پر چھا گئے۔ کچھ مدت گذرنے کے بعد جب ارسطو کے مشائی نظام اور افلاطون کے اشراقی نظام (8)
اسلامی علوم و فلسفہ میں سرایت کرگئے تو ان میں ترکِ دنیا، خودی سے غفلت، رہبانیت اور ترکِ علایق دنیوی پیدا ہوگئے جس کو اقبال نے مسلک گوسفندی کا نام دیا ہے۔ اور ان تعلیمات نے ہر دور کے شیروں کو بھیڑ بکریوں کا طور طریقہ سکھایا ہے اور حاکموں کو محکومی کی طرف راغب کیا ہے۔
کتاب اسرار خودی کی ایک نظم میں نفی خودی کے عواقب کے ضمن میں ایک بحث کے دوران اقبال نظریہ اعیان ثابتہ کی شدید مخالفت کرتے ہوئے افلاطون کے نقش قدم پر چلنے والے حافظ شیرازی کے نظریات کی بھی تردید کیا ہے۔ اقبال کے بقول یہ نظریات مسلمان قوم میں کاہلی پیدا کرنے کا سبب ہے۔ اس نظریہ کو اپنانے کا لازمی نتیجہ رہبانیت ہےجو مذہبی روح کے منافی خیال کیا جاتا ہے۔ دین اسلام ایک مسلمان کو حکم دیتا ہے کہ وہ کائنات کو مسخر کرکے اس حکومت و اقتدار الہٰی قائم کرے۔ جبکہ افلاطون اس کائنات کو ظل اور غیر حقیقی قرار دیکر دنیا سے احتراز اختیارکرنے کا درس دیتا ہے۔ جسکی وجہ سے مراقبہ اور ترکِ جدوجہد جنم لیتا ہے۔
اس یونانی فلسفہ نے پہلے مسیحیت اور اسرائیلیوں کے افکارکو متاثرکیا۔ ان کے دیکھا دیکھی مسلمان دانشوروں نے بھی اس کو دینی ادبیات میں تطبیق کرنے کی جتن کیے چنانچہ ساتویں صدی ہجری میں منگولوں کی ہولناک یلغار کے آگے مسلمان علماء صوفیا، متکلمین، اہل علم اور دانشور طبقہ بے بس ہوکر تماشائی بنے رہے۔ یہ سب اس معاہدے کی عدم پابندی کی وجہ سے ہوا جو دین اسلام نے ایک مومن کی جان و مال کو خرید کر اسکے بدلے میں جنت دینے کا عندیہ دیا تھا۔ مسلمان جب اس وعدہ سے غافل ہوگئے تو ان میں ذوق جہاد اور مر مٹنے کی آرزو ماند پڑ گئی لہٰذا رفتہ رفتہ انکی قوت میں کمی آئی اور بالآخر مغلوب ہوگئے۔
اقبال نے نظم میں افلاطون کو ''راہب دیرینہ'' کا اعزاز دیا ہے۔  اور اسکے فلسفے پر عمل کرنے والوں کی روش کو مسلک گوسفندی کا نام دیا ہے۔ اقبال نے افلاطون کو رہبانیت کی تعلیم کے سبب راہب کہا ہے اور گوسفند سے انکا مراد عجز و انکساری، فروتنی اور مقصد حیات سے کنارہ کشی ہے۔ اقبال کی تعلیم یہ ہے کہ طاقت حاصل کرکے کائنات کو مسخر کیا جائے، دوسرے اقوام پر غلبہ پاکر انکو مغلوب بنایا جائے اور پھر ان پر خدا کا حکم لاگو کیا جائے۔
رخش او در ظلمت معقول گم
در کہستان وجود افکندہ سم (9)
افلاطون کا گھوڑا (منطق و استدلال) کی تاریکیوں میں بھٹک گیا ہے۔ اور وجود کے پتھریلے پہاڑوں میں اسکے گھوڑے کی ٹاپ پھنس چکے ہیں۔ یعنی وراء المحسوسات کے وادی میں قدم رکھا ہے۔
آنچنان افسون نامحسوس خورد
اعتبار از دست و چشم و گوش بُرد (10)
وہ (افلاطون) نامحسوس یا معقول میں گم ہوگیا۔ عالم مثال کے گورکھ دھندوں میں پھنس گیا اور خارجی وجود جسکا حواس خمسہ سے مشاہدہ کیا جاسکتا ہے، کو ٹھکرادیا اور موہوم کے پیچھے پڑا رہا۔ انکے افسون نامحسوس سے مراد ان کے نظریہ اعیان ثابتہ نامشہود ہے جسکی ترویج کرتا رہا۔ اقبال کا اختلاف نظر اسی نکتے پر ہے۔ افلاطون اس کنکریٹ ورلڈ کو موہوم سمجھتا ہے جبکہ اقبال اس سے اختلاف کرتا ہے۔ افلاطون نے دست و چشم و گوش جو حواس خمسہ کے کام آتے ہیں کو قابل اعتبار نہیں سمجھا اور محسوسات کی دنیا کو سرابِ محض خیال کیا۔ اس سراب کا حصول عبث ہے اقبال کہتے ہیں کہ افلاطون کے مطابق جب زندگی کی شمع بجھ جائے تو حقیقت کا جلوہ نمایاں ہوگا اور زندگی کہیں اور ہے جسکے حصول کے لیے اس دنیا میں تیاری کی ضرورت ہے۔ اقبال کے مطابق افلاطون کی نظر موت پر ہےاور یہ دنیاوی زندگی ایک شرر ہے جو شب تاریک میں نمودار ہے۔
اقبال کہتا ہے کہ مسلمان حکماء، صوفیہ اور اہل علم نے افلاطون کے اِن رہبانیت زدہ افکار کوجب مستعار لیے جو ایک خواب آور فلسفہ سے بیش کچھ بھی نہیں اس تاثر سے انکی قوت عمل مُردہ ہوگئی۔ اس فلسفہ پر عمل پیرا ہونے سے گوسفندی صفات اورعادات انسانی مزاج میں رچ بس جانے کے بعد انکے قوای عمل کو اس عادت نے مضمحل بنا دیا۔ یہ فلسفہ انسانی سماج میں ترکِ دنیا اور دنیاوی اسباب کو فریب نظر قرار دیتا ہے۔ اور نتیجتاً انسان پھر ایسی دنیا کے لیے کوشش و تگ و دو کو چھوڑ دیتا ہے۔ علامہ کہتے ہیں کہ افلاطون ذوق عمل سے بیگانگی کی سبب خیالی دنیا میں محو رہا اور زندگی کے ہنگاموں اور شور و شر سے کنارہ کشی اور لاتعلقی کا درس دیا اور اس مادی اور مشہود دنیا سے چشم  پوشی کرتے ہوئے ہماری توجہ اعیان نامشہود کی طرف جذب کی۔ اعیان نامشہود یا اعیان ثابتہ کو افلاطون نے اپنے فلسفہ اشراق میں بھی  پیش کیا ہے۔(11)
اقبال کی اس پوری نظم پر نظر ڈال کر اسکا خلاصہ یوں پیش کیا جاسکتا ہے کہ افلاطونی فلسفہ ہمارے ذھن و خیال پر ایسا چھا گیا ہے کہ اب ہمیں اسکا جام خواب آور اور زمانے کو ہم سے چھیننے والا ثابت ہوگیا ہے۔ چونکہ افلاطون عمل کے ذوق سے کچھ زیادہ محروم تھا اور اسکی روح معدوم کی دیوانی تھی اس لیے اس تارک دنیا افلاطون کے لیے فرار کے سوا اور کوئی راستہ معلوم نہ تھا، اس میں اس دنیا کے ہنگامے یعنی تنازع للبقاء کی جدوجہد کی طاقت نہیں تھی۔ اس تنقید میں علامہ فرماتے ہیں کہ افلاطون نے بجھے ہوئے شعلے سے دل لگاکر ایک افیمی دنیا کی تصویر کشی کی جو محنت و کاوش سے عاری تھا۔  اقوام عالم اس کے نشہ آور فلسفہ کے نرغے میں آگئیں، قومیں سوگئیں اور ذوق عمل سے محروم ہوگئیں۔ مطلب یہ کہ جن قوموں نے افلاطونی فلسفہ کو حرز جان بنائے وہ عملی جدوجہد سے عاجز رہے۔
ماخذ و حواشی:
1۔ اقبال، پیام مشرق،لاہور :شیخ غلام علی اینڈ سنز ، طبع نوزدھم 1989ء، ص 159
2۔ حافظ، دیوان حافظ، تہران :چاپ رازی، چاپ یازدھم 1368 شمسی، ردیف ش، ص188
3۔  اقبال، جاوید نامہ، لاہور :شیخ غلام علی اینڈ سنز ، طبع نوزدھم 1989ء ص 167
4۔اقبال، جاوید نامہ، لاہور :شیخ غلام علی اینڈ سنز ، ص 188
5۔ اقبال، ارمغان حجاز، لاہور :شیخ غلام علی اینڈ سنز ، ص 112
6۔ اقبال، ارمغان حجاز فارسی حصہ ، لاہور :شیخ غلام علی اینڈ سنز ، ص 112
7 ۔ نظرالاسلام(ڈاکٹر)، فلسفے کے بنیادی مسائل، اسلام آباد:نیشنل بک فاونڈیشن ، اگست 2015(اشاعت ہشتم )، مباحث حصہ دوم
8۔ مشائی اور اشراقی فلسفہ کے دو نظام ہیں، اول الذکر کا تعلق ارسطو کے نظریات و تعلیمات سے ہے ۔ مشائی فلسفہ کے مطابق اسلامی لٹریچر میں علم کلام کو جگہ ملی جبکہ اشراقی نظام کے مطابق مسلمان دانشوروں نے فلسفہ تصوف کو اسلامی ادبیات سے روشناس کرایا۔
9۔  اقبال، اسرار خودی، لاہور :شیخ غلام علی اینڈ سنز ، باب نفی خودی
10۔  ایضاً
11۔چشتی، یوسف سلیم، شرح اسرار خودی، لاہور:عشرت پبلشنگ ہاؤس ، بی تا۔ ص 355

اوپر جائیں  |   پرنٹ کیجئےِ
انگریزی ورژن ای میل چیک کریں مرکزی صحفہ پرنٹ پسندیدہ سائٹ بنائیں رابطہ کیجئے www.shahzadahmad.com www.shahzadahmad.com