اردو رسم الخط کا تہذیبی پس منظر:ایک مطالعہ 

منصف خان سحاب  ریسرچ سکالر ہزارہ یو نیورسٹی
ڈاکٹر نذر عابد اسسٹنٹ پروفیسر ہزارہ یونیورسٹی
ABSTRACT
The Lingua graphy has a long history.It starts from Summerian Civlization of Iraq and Egypt.Urdu script is taken from Arabic. The history of Arabic letters is spread on several thousand years. In this artical the development of alphabet is discussed.Graphic is starts from Pictograph,Coneiforumm,heiroglyphics, phonographic. Arabic script is derived from Aramaic Scripts . Urdu script is also derived from Arabic .
انسان نے کب لکھنا شروع کیا؟ اس بارے میں وثوق سے کچھ نہیں کہا جاسکتا۔لکھنے کے لیے علامتوں کی ضرورت پڑتی ہے ۔ یہی علامات ابجد کہلاتی ہیں۔زبان کوئی بھی ہو ابجد کے بغیر تحریر نہیں کی جاسکتی۔ مذہبی علماء کا نظریہ ہے کہ ابجدحضرت آدم علیہ السلام پر منکشف ہوئی جو حضرت نوح علیہ السلام تک چلتی رہی۔اس وقت حروف مختلف اوازروں کے لیے استعمال ہوتے تھے۔ پھر ابجد نوحی شروع ہوئی۔ ؎ اس نظریہ کے مطابق حروف ابجد روز اول سے ہیں۔ اس کا حوالہ آسمانی کتب ہیں۔ اس نظریہ کے مطابق حضرت ادریس ؑ  پہلے انسان ہیں جنہوں نے قلم ایجاد کیا۔انہوں نے سوئی بھی ایجاد کی اور کپڑوں کو قطع کیا اور خیاطی کو فروغ دیا اور فوج بھی تیار کی۔دوسرا نظریہ سائنسی ہے جس کے مطابق انسان کی ضرورت نے اسے ایجاد کیا۔ اس میں قدیم کتبوں کو بنیاد بنایا جاتا ہے۔موجودہ دیدہ زیب رسم الخط نے ایک بہت بڑا تاریخی سفر طے کیا ہے۔اس کی تاریخ ہزاروں سالوں پر محیط ہے۔
تصویری خط (Picto graphy ) : انسان نے جب تصویر کے ذریعے اظہار خیال کیا تھا۔ اسی وقت سے تحریر کا اظہار صوری صورت میں ہو گیا تھا۔وہ تصویروں کے ذریعے کہانیاں بھی بیان کرنے لگا تھا۔تصویر بصری معاون بنی۔جب انسان نے تصویر دیکھ کر اپنے خیال کا اظہار کیا تو وہ تصویرکسی مفہوم کو ظاہر کرنے لگی یہ تصویری خط کی پہلی منزل تھی۔جس چیز کا اظہار مقصود ہوتا تھا اس کی تصویر بنا دی جاتی تھی۔ سورج ، چاند اور جانوروں کی تصویریں بنا دی جاتی تھیں۔  ۵۰۰۰ ق م میں تصویری اظہار ایک با مقصد ہنر بن گیا۔ ؎ سمیری عراق کے سب سے پرانے باشندے تھے۔ یہ عراق کے جنوبی حصہ میں رہتے تھے۔ ان کے عروج کا زمانہ ۳۵۰۰ ق م سے ۳۰۰۰ ق م ہے۔ان کی تحریر تصویری تھی۔تصویری اظہار تصویری خط بھی کہلاتا تھا۔
بیل کو ظاہر کرنے کے لیے ا بتدا میں بیل کی پوری شکل یا اس کی شبیہہ بنائی جاتی تھی۔بعد میں وقت بچانے کے لیے پوری شکل بنانے کے بجائے اس کا صرف سر بنایا جانے لگا۔کیوں کہ سر سے اس کی پہچان ہو جاتی تھی،۔ وقت گزر جانے کے بعد اس کے نتھنے  اور ناک بنانا چھوڑ دیا۔کچھ عرصہ گزرنے کے بعد کان بنانے بھی چھوڑ دیے۔صرف چہرہ تھا اور دو سینگ تھے۔وقت گزرنے کے ساتھ تیزی آئی اور اس کی شکل الٹے یا سیدھےA   کی ہو گئی۔اس عمل پر کئی ہزار سال لگے۔  الف (الپو) بیل کے لیے،ب( بیتو) گھر کے لیے،ج (جملو) اونٹ کے لیے،د(دالتو) دروازے کے استعمال ہو نے لگا۔ہ ( ہا)کھڑکی یا خوشی ظاہر کرنے کے لیے آدمی کی علامت ظاہر کرتے تھے جس نے دونوں ہاتھ خوشی سے اوپر اٹھا رکھے ہیں۔ واؤ ہک کو ظاہر کرتی تھی ز، زیان اوزار کے لیے، ح، حاطہ یعنی دیوار کے لیے، ط، طیت یعنی پہیہ کے لیے، ی، ید یعنی ہاتھ کے لیے، ک، کاپ یعنی ہتھیلی کے لیے، ل۔ لامڈ یعنی گوڈ کے لیے،م، میم یعنی پانی کے لیے،ن، نون یعنی مچھلی کے لیے، س، سمیک یعنی سپورٹ کے لیے، ع۔ عین یعنی آنکھ کے لیے، ف، فے منہ کے لیے، ص، صاد ہونٹ کے لیے، ق، قاپ یعنی سوئی کے لیے، ر، ریس یعنی سر کے لیے،ش، شین دانت کے لیے، ت، تا یعنی نشان کے لیے استعمال ہوتا تھا۔
مادی چیزوں کی تصویریں اور مجسمے توبنتے ہی تھے۔ تصور بھی تصویر بننے لگا۔ کچھ تخیلی مجسمے بھی منظر عام پر آنے لگے۔مثلاً جسم گھوڑے کا اور سر انسان کا،جسم مچھلی کا اور سر عورت کا۔جسم انسان کا چہرہ سورج کا،جسم شیر کا چہرہ انسان کا۔یہی تصورات عراق سے مصر میں گئے۔تصویریں مختصر ہو کر علامات بن گئیں اور یہی علامات حروف کہلائیں۔یورپی سکالرز نے اسے میخی / سمیری خط(Coneiform ) کہا۔

میخی خط
( Coneiform )سمیری  وہ لوگ تھے  جنہوں نے لکھائی کے لیے ابجد ایجاد کیے۔کاغذ نہ تھا۔ گیلی مٹی پر لکھ کر پکا دیتے تھے۔۳۰۰۰ ق م بابل کے حکمران حمورا بی نے اس خط کو میخی بنایا۔ ۲۰۰۰ ق م تا۱۲۱۰ ق م کی ۰۰۰،ـــ۱۰ پیکانی رسم الخط کی تختیاں دریافت ہوئی ہیں۔ میخی خط بابل نینوا، عراق، ایران اور ایشیا میں رائج تھا۔ اس کو خط پیکانی بھی کہتے تھے۔۵۳۹ ق م تک رہا اس کے بعد ختم ہو گیا۔ ؎ بابل کے بادشاہ  حمورا نے ضابطہ حمورا بی بنایا۔ یہ انصاف پر مبنی دنیا کا پہلا قانون تھا۔اس میں ۲۸۲ قوانین تھے۔اس میں دانت کی سزا دانت، قتل کی سزا قتل اور زنا کی سزا سنگسار کرنا تھا۔ ؎ اس ضابطے کا بڑا پتھر اب بھی فرانس کے عجائب گھر میں موجود ہے۔ ؎
ہیرو غلیفی:
مصر کا نام مصرام کے نام پر ہے۔ مینس نے (۳۴۰۰ ق م )میں پہلے حکمران خاندان کی بنیاد ڈالی۔ ؎ تصویری خط مختصر ہوتے ہوتے  ایک علامت کی شکل اختیار کر گیا۔بیل کا سر علامت کے طور پر ڈال دیا جاتا تھا۔تصویر کی جگہ علامتوں نے لے لی۔ علامتیں تصویر کی مختصر ترین صورت ہوتی تھیں۔۳۱۵۰ ق م میں مصر میں لکھنے کا رواج ہو گیا تھا۔قدیم مصری تصویری لکھائی استعمال کرتے تھے اور حروف کاستعمال بھی کرتے تھے۔ پیپرس کی دریافت سے پہلے  پتھروں، لکڑی اور ہاتھی دانت کی تختیوں پر نقش کیا جاتا تھا۔پیپرس مصریوں نے دریافت کیا۔مصر میں کاغذ سازی ۳۴۰۰ ق م میں شروع ہو گئی تھی۔مصری قوم ہیرو غلیفی خط کی بانی ہے۔مصری ہیر غلیفی خط ۳۴۰۰ ق م میں پروان چڑھا۳۴۰۰ ق م کا پرانا کتبہ دریافت ہوا ہے۔مصر کے رسم الخط کو جدید سکالرز نے تصویری خط ((Hieroglyphics کہتے ہیں۔سمیری قوم نے یہ خط بہت عرصہ تک استعمال کیا۔ اس خط کو ہیروغلیفی خط کے نام سے بھی پکارا جانے لگا۔ یہ خط عراق مصر، اور سندھ کی تہذیبوں موہجو دڑو وغیرہ میں جاری رہا۔
مصر میں عجیب قسم کے بت بننے لگے جس میں جسم انسان کا اور چہرہ سورج کی طرح، جسم شیر کا چہرہ انسان کا، جسم گھوڑے کا اور چہرہ عورت کا۔ان بتوں کو راستوں دروازوں کے باہر اور اہم جگہوں پر نصب کیا جاتا تھا۔ان کے کانوں کے باہر بڑے بڑے کان بنائے جاتے تھے۔ کچھ  دیوتاؤں کے بت مثلاً بیل، باز، گدھا، گیدڑ، گبریلا، لقلق، اور مگر کے بت اور کچھ دیویوں کے بت مثلاً گائے، بلی، گدھ، سانپ، بچھو اور شیرنی ،کیکڑا کے بت، کچھ اوزاروں، تیروں ، تلواروں، نیزوں، پرندوں، اور پھلوں کے نشانات کنندہ تھے ۔ مصر میں  فراعنہ مصر کے قصروں میں طرح طرح کے نشانات بنائے جاتے تھے۔ رومن اور یونانی خوبصورت خواتین کے مجسمے اور تصاویر بناتے تھے۔یعنی مصری حروف اور تصویر پر مبنی ملی جلی لکھائی استعمال کرتے تھے۔ہیرو غلیفی خط نے ہی ہیر وطیقی خط کی صورت اختیار کی۔ ہیر وطیقی مذہبی رہنماوٗ ں کے لیے تھا۔
تصوری خط ( Idiography )
تصوری خط بھی دراصل ایک نیم تصویری خط تھا لیکن اس میں چیزوں کی شکلوں کی بجائے حقیقی تعبیر اور معنی اخذ کیے جانے لگے۔ چونکہ تصویر نویسی انسان کا ساتھ نہ دے سکتی تھی۔لہذا وقت کے ساتھ ساتھ تصاویر پر مبنی خط، مختصر خط میں تبدیل ہو گیا۔ یہ خط سمیری قوم نے ۴۵۰۰ ق م میں  رائج ہوا۔موہنجو دڑو میں تصویری خط کے ساتھ ساتھ تصوری خط کے نمونے بھی دریافت ہوئے ہیں۔ ؎تصویری اور تصوری خط سے فنیقی خط اور آرامی خط وجود میں آئے۔
عکادی خط:
عراق کاشمالی حصہ عکاد کہلاتا تھا۔عکاد میں سامی قوم آباد تھی جوجزیرہ نما عرب سے ہجرت کرکے آئی تھی۔اس کا سب سے مشہور حکمران سارگون اول تھا( زمانہ ۲۷۵۰ ق م ) تھا۔ اس نے سمیری ریاستوں کو زیر کرکے سامی حکومت قائم کی۔ ؎ شاہان عکاد کے زوال کے بعد شہر بابل نے عروج حاصل کیا۔باب ایل کے معنی ہیں ’’ خدا کا دروازہ‘‘ اس کا پہلا بادشاہ حمورا بی تھا۔اس کی حکومت رفتہ رفتہ عکاد کی پوری مملکت میں پھیل گئی۔اور اس کا نام عکاد کے بجائے باب ایل( بابل) پڑگیا۔ بابل کے لوگ سامی انسل تھے۔ ؎
کنعانی قوم عبرانی قوم سے تقریباً ۱۰۰۰ سال پہلے گزری ہے۔حضرت ابراہیم۔ حضرت اسحٰق، حضرت یعقوبؑ اور حضرت یوسف ؑ کا تعلق اسی قوم سے تھا۔
بغداد کا آشوری بادشاہ  اشور بنی پال بڑا علم دوست تھا اس نے مٹی کی تختیوں پر لکھی ہوئی ۳۰۰۰ سے زائد کتب پر لائبریری بنائی۔ آشوری اور عکادی قوم جو سامی النسل تھی اس نے ۳۲ حروف پر مشتمل صوتی خط کو باقاعدہ رسم الخط کی شکل دی۔
فنیقی خط:
فنیقی لبنان کی ایک قوم تھی جو سامی انسل تھی۔ ۲۲۰۰ ق م میں ساحل بحرین یعنی جنوبی عراق سے ہجرت کرکے آئی۔ فنیقی قوم نے شہرصور اور سدون آباد کیے۔ ؎ ان کی زبان  عربی سے مشابہ تھی۔ان میں شمالی سامی رسم الخط مستعمل تھا  جو عربی عبرانی سریانی اور یورپی رسم الخط کا مآخذ تھا۔ تصویری علامتیں مزید مختصر ہونے لگیں۔اس طرح ۱۸۰۰ ق م سے ۱۶۰۰ ق م کے دوران حروف ابجد کی قدیم سینائی علامتیں ظاہر ہوئیں۔ جانور کی تصویر یا ماڈل کے بجائے اس کی علامت بنا دی جاتی تھی۔پرندوں، اوزاروں، تیروں، تلواروں ، نیزوں، برتنوں، پھلوں اور پھولوں  کی علامتی تصویریں بنائی جاتی تھیں۔ان ہی علامتوں نے سامی ابجد کو جنم دیا اور فنیقی خط وجود میں آیا۔فونیقیوں نے ۱۰۰۰ ق م میں ۲۲ حروف پر مشتمل ایک نظام حروف متعارف کروایا۔انہیں حرف ابجد کا بانی بھی کہا جاتا ہے۔  فونیقی زبان  کے حروف سے یورپین زبانوں کے حروف وجود میں آئے جن میں یونانی، لاطینی، رومن، فرانسیسی، انگریزی اور دیگر مغربی زبانیں شامل ہیںحروف تہجی کی موجد فنیقی قوم ہے۔اس نے ۱۸۰۰ ق م میں ۲۲ حروف پہلی دفعہ وضع کیے۔ ؎ فونیشیا اور یونان نے  عبرانی، فونیقی اور عربی سے مصمتے  اورمصوتے لیے۔ سنسکرت ہندوستان میں ۱۰۰۰ ق م  سے موجود ہے۔
دو قسم کے حروف تہجی وجود میں آئے۔ فونیقی ابجداور آرامی ابجد۔ حروف ابجد کی ابتدا ۱۸۰۰ ق م میں  فنیقی قوم کے ہاتھوں ہوئی۔اس نے ۱۸۰۰ ق م میں ۲۲ حروف پہلی بار وضع کیے۔ وہ ، اب، ب، ج، د، ہ، و، ز،ح، ط، ی، ک، ل، م،ن، س، ع، ف، ص، ق، ر، ش، ت، تھے ۔ابجد سے لے کر قرشت تک حروف کی ترتیب ابتدا سے چلی آرہی تھی۔ جب ملکہ بلقیس کی شادی حضرت سلیمان علیہ السلام سے ہوئی ملک کی حدود وسیع ہوئیں تو ،ث، خ،ذ، ض، ظ اور غ کا اضافہ ہوا۔ اور اس طرح عربی حروف کی تعداد ۲۸ ہو گئی۔فونیقی حروف تہجی  سے تمام یورپی زبانوں کے حروف تہجی بنے۔ جن میں لاطینی، یونانی، روسی زبانوں کے حرف بنے۔رومن رسم الخط میں انگریزی فرانسیسی، ہسپانی،ہندوستانی اور دیگر مغربی زبانیں لکھی جاتی ہیں۔
آرامی خط:
حضرت نوحؑ کے تین بیٹے تھے،سام ،حام اور یافث،سامی جزیرہ نما عرب اور عراق میں آباد تھے۔ سیریا یا شام کی زبان آرامی ہے۔اسے سریانی زبان بھی کہا جاتا ہے۔۱۵۰۰ ق م۔۱۰۰۰ق م کے دوران سامیوں نے آرامی رسم الخط ایجاد کیا جس کے ۳۰ حروف تھے۔۵۰۰ ق م میں آرامی حروف مکمل ہوئے۔آرامی زبان کے کتبے ملے ہیں۔ہندوستان میں آرامی رسم الخط قدیم شہنشاہوں کا سرکاری رسم الخط رہا۔۔آرامی ابجد سے عبرانی خط اور نبطی خط وجود میں آئے۔
عبرانی خط:
عبرانی قوم کا  کا وطن بھی عرب تھا۔۱۷۵۰ ق م میں یہ لوگ کنعان آباد ہوئے۔اور مختلف اوقات میں مختلف اطراف سے مختلف قبیلوں کی صورت میں آکر کنعان اور فلسطین میں آباد ہو گئے۔ ؎عبرانی زبان کے ۲۲ حروف تھے۔قدیم عبرانی اور جدید عبرانی دو زبانیں ہیں۔
نبطی خط:
۲۰۰ ق م میں آرامی حروف نے نبطی قوم نے اپنا لیے اور یہ نبطی خط کہلایا۔۱۰۰ ق م میں نبطی قوم کا خاتمہ ہوا سینائی رسم الخط نے نبطی کی جگہ لے لی۔حمیر بن صبا نے  نبطی خط میں کچھ تبدیلیاں کیں اور ایک نیا رسم الخط ایجاد کیا۔ جو حمیری رسم الخط کے نام سے مشہور ہوا۔کوفہ کا پرانا نام حیرہ تھا۔کوفہ والوں نے نبطی خط میں تبدیلیاں کرکے خط حیرہ فروغ دیا۔اسلام سے قبل عرب میں خط حیرہ رائج تھا۔اسلام سے قبل کاغذ بھی بن گیا تھا۔۱۰۵ء میں کاغذ چین میں بھی بننے لگ گیا تھا۔ ؎انگلستان میں کاغذ سازی ۱۴۹۰ء میں  ہرٹ فورٹ شائر کے مقام سے شروع ہوئی۔ ؎
فنیقیوں کے رسم الخط کو آرامیوں نے اپنی سہولت کے مطابق ترمیم و اضافہ کے ساتھ ترقی دی اور جلد ہی اس خط کے قریب کی ریاستوں کو متاثر کرنا شروع کر دیا۔ قبطی اس سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔ انہوں نے دوسری صدی ق م سے پہلے ہی آرامی خط اپنا لیا اور بعد میں اس میں اضافہ کرکے نیا رسم الخط وضع کر لیا جو قبطی خط کہلایا۔ ؎اسی طرح آرامی زبان سے عبرانی، سریانی، اور عربی، فارسی، سندھی، پنجابی ، بلوچی، سرائیکی، بروہی اور اردو کے حروف تہجی وجود میں آئے۔  نسخ میںعربی ، پشتو اور سندھی لکھی جاتی ہے۔جب کہ نستعلیق میں  پنجابی ، بلوچی، سرائیکی، سندھی ، بروہی اور اردو لکھی جاتی ہے۔
خط کوفی:
۳۲۸ء میں  عرب کی سلطنت مدین صالح، حیرہ ا اور بصرہ پر مشتمل تھی۔ امراالقیس کے دور میں  میں مرامر ابن مرا، اسلم بن سدرا، اور عامر بن جدرا نے رسم الخط پر توجہ دی،مرامر بن مرا  انبار کا رہنے والا تھا۔اس نے دوسرے ساتھیوں کی مدد سے یا تنہا خط پر توجہ دی انہوں نے سریانی کی بنیادوں پر عربی رسم الخط کو رائج کیا۔ مُرامِر(۳۲۸ء) کے آٹھ بیٹے تھے۔اس نے اپنے بیٹوں کے نام اس طرح رکھے۔ ابجد، ہوز، حطی، کلمن، سعفص، قرشت، ثخذ، ظضغ۔ ان کلموں کے معنی بھی وضع کیے گئے۔ابجد ( آغازکیا گیا)، ہوز ( مل گیا)، حطی ( واقف ہوا)، کلمن( سخن گو ہوا)، سعفص ( اس سے سیکھا)، قرشت ( ترتیب دیا)، ثخذ( نگاہ رکھا) ضظغ( تمام کیا)۔ گویا اس صاحب علم نے حروف کی میراث اپنے بچوں میں اس طرح تقسیم کی کہ ایک کی علامت بھی دوسرے میں نہ آئے۔ اور ہر ایک منفرد بھی ہو۔
حیرہ سے نام تبدیل کرکے کوفہ رکھا گیا تو یہ خط کوفی کہلایا۔حرب بن امیہ کوفہ سے یہ خط سیکھ کر عرب لائے۔ابواسود دوئل نے۶۷۰ء میں نقطے اور اعراب ایجا کیے۔ عبدالرحمٰن بن خلیل بن احمد نے اعراب کو نقطوں سے الگ کیا۔کوفی قدیم اور کوفی جدید کی دو قسمیں بن گئیں۔خط کوفی سے ہی خط نسخ  اخذ کیا گیا۔اس کابانی ابن مقلہ ہے۔یہی قرآنی خط کہلایا۔خط کوفی دراصل خط نبطی، خط سطرنجیلی، خط حمیری، اور حط حیرہ کی آمیزش اور ترقی  یافتہ صورت ہے۔ دوسرے مقامات کے علاوہ یہ خط حجاز، حیرہ( کوفہ) میں بھی لکھا جاتا تھا۔حرب ابن امیہ نے اسے حیرہ سے سیکھ کر آئے تھے اور جزیرۃ العرب میں پھیلایا۔ ؎
حضور صلی اللہ و علیہ وسلم نے اعلان نبوت فرمایا اس وقت حجاز میں تحریر کا آغاز ہو چکا تھا۔ جس کو آج ہم خط قدیم کوفی حیرہ یا حمیرہ کہتے ہیں۔عربی رسم الخط قبطیوں سے ماخوذ ہے۔عربی رسم الخط کی جنم بھومی سرزمین حیرہ اور انبار کے قریب قریب کے مقامات تھے۔خط کوفی کے پہلے کاتبین میں مرامر بن مرا، اسلم بن سدرا، اور عامر بن جدراکو کہا جاتا ہے۔ ؎
حرب بن امیہ اور بشیر بن عبدالملک سے فن خطاطی سیکھنے والے ابتدائی ناموں میں حضرت عمر بن خطاب، حضرت عثمان بن عفان، حضرت علی بن ابی طالب، طلحہ بن عبداللہ، ابو عبیدی بن جراح، ابو سفیان بن حرب، اور معاویہ بن ابو سفیان کا نام بھی شامل ہے۔ ؎حضور صلی اللہ  علیہ وسلم کے دورمیں عربی کا کوفی خط مروج تھا۔ حضور صلی اللہ و علیہ وسلم نے مختلف شہنشاہوں کے نام جو خطوط لکھوائے وہ خط حمیری اور خط حیرہ کی اس محتاط روش یعنی خط کوفی میں لکھے گئے۔ ؎رفتہ رفتہ کوفی آرائشی مقاصد کے لیے استعمال کیا جانے لگا۔ خط کوفی تزئینی، خط کوفی سیرانی، خط کوفی گلزار، خط کوفی قفل وغیرہ سے اس کی شکل پیچیدہ ہو گئی۔ ؎
ابن مقلہ نے عربی لکھنے کے لیے عام قواعد وضع کرکے خط کوفی کو خط المنسوب سے بدل دیا اور خط کوفی کو ماضی کا  ایک حصہ بن کر رہ گیا۔ خط المنسوب سے ابن مقلہ نے کئی اور خط ( محقق، ریحان، ثلث، تو قیع، رقاع) وضع کیے۔ ؎۸۱۶ء میں زاویے رونما ہوئے اور اس کے بعد خط کوفی نے قوسی شکل اختیار کی۔ لیکن ایسی معمولی تبدیلی  جس سے خط کی کوئی انفرادیت  حیثیت قائم نہ ہو اور یہ محض نام کی تبدیلی نظر آئے زیادہ اہمیت کی حامل نہیں مثلاً خط مدیح، خط مرصع، خط رخش، خط ریاش، خط بیاض، خط حواشی، خط غبار، خط خس اور خط طومار وغیرہ خط کوفی ہی میں معمولی سی تبدیل سے پیدا ہوئے۔ ؎
ابتدا میں نقطوں اور اعراب کا رواج نہ تھا۔حضرت علی کے شاگرد  ابو اسود دوئل نے تقریباً ۵۰ ہجری(۶۷۱ء) میں نقطے ایجاد کیے۔ اس پر اعراب بھی ابو اسود دوئل نے لگائے۔جو نقطوں کی صورت میں تھے۔زبر کے لیے اوپر۔ زیر کے لیے نیچے اور پیش کے لیے حروف کے کناروں یا بازوؤں پر نقطہ ڈالا جاتا تھا۔تنوین کے لیے دو نقطے اوپر ڈالے جاتے تھے ۔ ؎لیکن یہ نقطے حروف کی شناخت کے بجائے اعراب کے طور پر استعمال ہوتے تھے۔ ؎ اشاعت اسلام کے بعد اس کا دائرہ مصر اور ایران تک پھیل گیا۔ قرآن مجید کی قرات میں مشکلات پیش آنے لگیں اور خط کتابت میں مغالطے پیدا ہونے لگے تو خلیفہ عبدالمالک بن مروان نے عراق کے گورنر حجاج بن یوسف کو ۶۵ھ(۶۸۴ء) کو رسم الخط کی اصلاح کا حکم دیا۔حجاج بن یوسف نے نصر بن عاصم کو اس کام پر مامور کیا۔ ؎نصر بن عاصم نے اعراب کے لیے نقطوں کے استعمال کو بدستور قائم رکھا۔ لیکن نقطوں کے لیے قرمزی رنگ استعمال کرنے کی تجویز پیش کی۔ہم شکل حروف کی تخصیص کے لیے اس نے نقطے ہی ایجاد کیے لیکن ان نقطوں کے لیے اس نے سیاہ رنگ لازم قرار دے دیا۔ہمزہ ،شد اور مد بھی خلیل بن احمد نے اختراع کیے۔قرمزی رنگ اعراب اور ہمزہ میں الجھن کا باعث تھا۔یہ حالت تقریباً چالیس سال تک قائم رہی۔ حتیٰ کے خلیل بن احمد بصری نے اعراب کی شکلیں وضع کرکے انہیں سیاہ نقطوں سے الگ کیا۔ ؎بعض محققین کے نزدیک اعراب کا نظام پہلے سے مروج تھا۔ خلیل ابن احمد بصری نے اسے مزید منظم کیا۔خط کوفی اپنی سادہ روش کے باعث بہت مقبول ہوا۔
خط غبار:۶۸۰ء  سے ۷۵۰ء کے درمیان بنو امیہ کے دور میں خط غبار ایجا د ہوا۔ اس میں کونے رکھے جاتے تھے۔ غبار حروف اور ہندسے لکھے جانے لگے۔ابن مقلہ نے حروف کو جیومیٹریکل شکل دی۔ان کو زاویوں اور دائروں میں لکھا۔ا،ب،ح،د،ر،س،ص،ط،ع،ف،ق،ک،ل،م،ں،و،ء،ی۔ حروف مقرر کیے۔باقی حروف نقطوں کے ڈالنے سے بن جاتے تھے۔ گنتی کے بھی ۹ عدد اخذ کیے گئے۔ ہر ہندسے میں اتنے زاویے رکھے گئے۔
خط نسخ:خط نسخ کو عربی خط بھی کہتے ہیں۔ خط کوفی کی طرح یہ بھی خط نبطی سے اخذ کیا گیا ہے۔ عام طور پرابن مقلہ کو اس کا موجد قرار دیا جاتا ہے اور اس کے لیے ۲۱۰ہجری( ۸۲۵ء) کا سال تعین کیا جاتا ہے۔لیکن محققین کے ایک طبقے کی رائے میں خط نسخ ابن مقلہ سے بہت پہلے ایجاد ہو چکا تھا۔ ابن مقلہ نے اس کی اصلاح کی اور اس کی مدد سے پانچ اور خط ایجاد کیے۔خط نسخ کی وجہ تسمیہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ  اس کے مروج ہوتے ہی سابقہ تمام خط معدوم ہو گئے گویا یہ دوسرے خطوں کا ناسخ تھا اور اسی نسبت سے خط نسخ کہا جانے لگا۔حروف تہجی کی موجودہ ترتیب(ا، ب ،ت، ث،۔۔۔ی) جسے شمسی ترتیب بھی کہا جاتا ہے۔ابن مقلہ نے ۳۲۸ ھ (۹۳۹ء)میں قائم کی تاکہ ہم شکل الفاظ اکٹھے کرکے بچوں کو سمجھایا جا سکے۔اردو میں بھی خط نسخ اپنایا گیا۔ٹائپ کرنے میں بڑی سہولت پیدا کی۔
خط تعلیق:
حسن بن حسین علی فارسی نے خط تعلیق کو فروغ دیا۔اس نے خط رقاع اور خط توقیع سے ایک نیا خط بنایا۔یہ سرکاری مراسلت کے لیے استعمال ہونے لگا۔
خط تعلیق اور خط نسخ کے ملاپ سے ایک تیسرا رنگ ابھر آیا جسے نستعلیق کہا گیا۔اس نے کافی مقبولیت حاصل کی۔خواجہ ابوالمعالی بک نے خط تعلیق میں انقلابی اصلاحات کیں۔ انہوں نے فارسی کی مخصوص آواز( پ، چ،گ) کے لیے حروف ایجاد کیے اور اس مقصد کے لیے تین تین نقطے وضع کیے۔ابتدا میں گ پر بھی دو لکیروں کے بجائے تین نقطے لگائے جاتے تھے۔لیکن لسانی اور جمالیاتی ذوق سے ہم آہنگ نہ ہونے کے باعث اسے ترک کردیا گیا اور اس کی جگہ دو لکیروں کا استعمال شروع ہوا ؎ حافظ یوسف سدیدی نے یاقوت( پورا نام یاقوت بن عبداللہ الرومی المعتصمی) کو خط تعلیق کا موجد قرار دیا، ؎محمد سجاد مرزا ؎نے خط تعلیق کا اجرا چوتھی صدی ہجری (۱۰۰۰ء)اور پروفیسر شیخ عنایت اللہ ؎نے ایم ایس ڈیمنڈ کے حوالے سے تیرہویں صدی عیسوی قرار دیا ہے۔محتاط تحقیق سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس کا اجرا پانچویں صدی ہجری(۱۱۰۷ء) میں ہوا۔ خط تعلیق عوام میں بڑا مقبول ہوا۔ ؎
خط نستعلیق:
امیر تیمور کے دور میں اس خط نستعلیق نے ترقی کی۔مشہور خطاط سید میر علی تبریزی نے خط نسخ اور تعلیق کی آمیزش سے خط نستعلیق ایجاد کیا۔اس خط کے اساتذہ میں میر فریدالدین،جعفر تبریزی،سلطان علی مشہدی،میر علی ہروی،میر عمادالحسنی،حافط نورانہ، صوفی خورشید عالم اقبال، ابن پروین اور میر پنجہ کش رقم مشہور ہیں۔
شیخ ممتاز حسین جونپوری، ؎ڈاکٹر شیرین بیانی ؎ کے نزدیک نستعلیق کے رواج پانے کا زمانہ ساتویں صدفی ہجری ہے۔محمد سجاد مرازا ؎ کے نزدیک اس کا زمانہ آٹھویں صدی ہجری کا ابتدائی دور ہے۔ڈاکٹر محمد عبداللہ چغتائی ؎ نے آٹھویں صدی  اور محمد اسحٰق صدیقی ؎ نے آٹھویں صدی، م۔ ی۔ قیصرانی ؎نے تیرھویں اور چودھویں صدی عیسوی، پروفیسر شیخ عنایت اللہ ؎ نے پندرھویں صدی عیسوی قرار دیا ہے۔خط نستعلیق میں حروف کے دائرے گول ہوتے ہیں۔جس سے تحریر میں حسن اور دلکشی پیدا ہوتی ہے۔بارھویں صدی کے اوائل میں مرتضی خان شاملو نے خط نستعلیق سے ایک اور خط اخذکیا جسے خط شکستہ کا نام دیا گیا۔ ؎
جب مسلمانوں کی آمد ہندوستان میں ہوئی مسلمان اپنے ساتھ فارسی لائے۔ہندوستان کی سرکاری زبان فارسی ہو گئی۔ہندی کی مخصوص آوازیں مثلاً ( ٹ، ڈ، ڑ،بھ، پھ، ٹھ، ٹھ، جھ، چھ، دھ، ڈھ،کھ، گھ وغیرہ ) کو ادا کرنے کے لیے حروف موجود نہیں تھے۔اردو چونکہ ان تینوں زبانوں کے مرکب سے پیدا ہوئی لہذا ضروری تھا کہ ان تینوں زبانوں کی آوازیں ادا کرنے کے لیے علامتیں موجود ہوں۔ ؎
فارسی حروف میں شکلوں کی قبیلہ وار تقسیم سے فائدہ اٹھا کر دو نئے نشانات وضع کیے گئے جن کے ذریعے ہندی مخصوص آوازوں کے ادا کرنے کے لیے نئے حرف بنانا ممکن ہو گیا۔ ۱۸۵۷ء تک کی تحریروں میں (ٹ ) اور (ڈ) اس طرح لکھتے تھے کہ ان کے اوپر چار نقطے ڈال دیتے تھے ۔بعد میں (ط) کی علامت کو بطور نقطہ استعمال کرنے لگے ۔ھ کی علامت سے بھ، پھ، تھ، ٹھ، جھ، چھ،دھ، ڈھ، ڑھ،کھ، گھ، لھ بنالیے گئے۔ ؎  فارسی، اردو ، پنجابی، بلوچی ،سرائیکی اور براہوی نے نستعلیق اپنایا۔ کمپیوٹر کی ایجاد نے اس کو چار چاند لگائے۔جب کہ نستعلیق میں  پنجابی ، بلوچی، سرائیکی ، بروہی اور اردو لکھی جاتی ہے۔
خط شکستہ:
خط نستعلیق کی خوبصورتی اور رعنائی کی وجہ سے لکھنے کے لیے کافی وقت صرف ہوتا تھا۔دفاتر اور عدالتوں میں تیزی سے کام کرنا پڑتا تھا۔ میر مرتضیٰ قلی شاملو حاکم فرات نے  بارھویں صدی کے اوائل میںخط تعلیق اور خط نستعلیق کی آمیزش سے ایک نیا خط اخذکیا۔ جسے خط شکستہ کہتے ہیں۔ عربی حروف تہجی کی تعداد ۲۸ ہے۔حمزہ کو شامل کرکے ۲۹ ہو جاتی ہے۔ خواجہ ابو العالی نے فارسی کی آوازوں کو ظاہر کرنے کے لیے چار نئے حروف ُ،چ،،ژ،گ کا اضافہ کیا۔ اس طرح فارسی حروف کی تعداد ۳۳ ہو گئی۔
اردو رسم الخط:
اردو ترکی زبا ن کاا لفظ ہے۔جس کے معنی لشکر کے ہیں۔اس میں عربی، فارسی، ترکی، ہندی اور دیگر زبانوں کے الفاظ شامل ہیں۔ فارسی حروف میں ٹ، ڈ، اور ڑ کے اضافے سے یہ تعداد ۳۶ بن گئی۔ ہمزہ کو شامل کرنے سے ۳۷ ہو جاتی ہے۔ان میں ث، ح، ص،ط،ظ، ع، ق عربی زبان کے حروف ہیں۔خ، ذ عربی اور فارسی دونوں زبانوں میں ہے،اردو میں نسخ اور نستعلیق میں مقامی مزاج داخل ہونے کی وجہ  سے ان کا اسلوب فارسی سے مختلف ہو گیا درحقیقت یہی وہ اسلوب ہے جسے ہم اردو رسم الخط کہتے ہیں۔ ؎
آج کے اس ترقی یافتہ دور میں بھی تصویری ترسیمیے اور علامتی ترسیمیے استعمال ہو رہے ہیں۔مثلاً ایک سکول کے باہر سڑک پر بھاگتے بچے کی تصویر کا مطلب ہے کہ بچے سڑک کراس کرسکتے ہیں۔ٹریفک کے تقریبا ً۲۳۲ اشارے ہیںجو آج کے اس جدید دور میں استعمال ہو رہے ہیں۔اس طرح مختلف محکموں کے مونو گرام اور لوگو بھی تصویری اظہار ہیں۔ کارٹون بھی ایک قسم کا تصویری اظہار ہے۔پرندوں میں فاختہ آج بھی امن کی علامت سمجھی جاتی ہے۔ شیر اور شاہین شجاعت کی علامت ہیں
تمام انتخابی نشانات تصویری اظہاریے ہیں۔موبائل فون میں تصویری پیغام بھی ایک قسم کا اظہار ہے۔یہ تصویری پیغام مختلف حالات اورمختلف جذبات کا اظہار کر رہے ہیں۔آج کے اس جدید دور میں بھی تصویر کی اہمیت کم نہیں ہوئی بلکہ اس میں جدت آئی ہے۔اس طرح تحریر میں بھی جدت آئی ہے۔اردو کے ان پیج پروگرام میں اردو کے لیے تمام سہولتیں موجود ہیں۔اب خوش خط لکھنا کوئی مسئلہ نہیں۔کمپیوٹر کے کی بورڈ پریفرنس میں فونیٹک لیول کو منتخب کیا جاسکتا ہے۔ اس کے علاوہ آفتاب، مقتدرہ اور مونو ٹائپ بھی موجود ہیں۔ کسی ایک کو منتخب کیا جاسکتا ہے۔انٹر نیٹ پر ترجمہ کی سہولت بھی موجود ہے۔ہمارے اس جدید رسم الخط کے پیچھے ہزاروں سالوں کی جدوجہد شامل ہے۔تحریر کا عمل جو ہزاروں سال پہلے شروع ہوا تھا۔ اب بھی اس کا سفر جاری ہے اور جاری رہے گا۔
حوالہ جات:


     ڈاکٹر محمد ہارون قادر، ابجد تحقیق، لاہور، الوقار، اشاعت ثانی، ۲۰۱۱ء، ص ۱۶۶

       اشرف علی ،کتب اور کتب خانوں کی تاریخ، اسلام آباد، نیشنل بک فاؤنڈیشن ، جون ۲۰۱۵ء ص ۱۰۸

     ایضاً، ص ۱۱۰

     اشفاق احمد، سکندریہ کی لائبریری کی داستان، اسلام آباد، مقتدرہ قومی زبان، ۲۰۱۳ء ص ۱۵

     ایضاً

     علامہ نیاز فتح پوری ،خدا اور تصور خدا تاریخ مذاہب کی روشنی میں، لاہور، حیدر آباد، کراچی، فکشن ہاؤس  ۲۰۱۲، ص ۳۲

     اشرف علی،کتب اور کتب خانوں کی تاریخ، ص ۱۱۰

     علامہ نیاز فتح پوری،خدا اور تصور خدا تاریخ مذاہب کی روشنی میں، ص ۲۷

     ایضاً، ص ۲۷

   ایضاً ،ص ۴۱

   اشرف علی،کتب اور کتب خانوں کی تاریخ، ص ۱۱۳

   علامہ نیاز فتح پوری،خدا اور تصور خد تاریخ مذاہب کی روشنی میںا،ص ۱۵۷

   اشرف علی، کتب اور کتب خانوں کی تاریخ  ،ص ۶۹

   ایضاً ،ص ۷۰

   ایضاً، ص ۱۲۹

   شیخ ممتاز حسین جونپوری، خط و خطاطی، کراچی، اکیڈمی آف ایجو کیشنل ریسرچ، ۱۹۶۱ء، ص ۲۱

   اشرف علی،کتب اور کتب خانوں کی تاریخ ،ص ۱۳۰

   ایضاً

   ڈاکٹر طارق عزیز ،اردو رسم الخط اور ٹائپ،اسلام آباد، مقتدرہ قومی زبان، ۱۹۸۷ء، ص ۴۱

   ایضاً ،ص ۱۵

   محمد سجاد مرزا، اردو رسم الخط،ص  ۷۔ ۸

   ڈاکٹر طارق عزیز، اردو رسم الخط اور ٹائپ، ص ۱۴،۱۵

   محمد اسحٰق صدیقی ،فن تحریر کی تاریخ،علی گڑھ، انجمن ترقی اردو، ۱۹۶۲ء

   محمد سجاد مرزا، اردو رسم خط، ص ۶۰

   ایضاً ،ص ۶۰

   ایضاً ،ص ۶۰

   ڈاکٹرطارق عزیز، اردو رسم الخط اور ٹائپ، ص ۱۹

   یوسف سدیدی،، علم الخط،فنون جلد ۴، شماہ ۱،ص ۲۳۴

   ڈاکٹر شیخ عنایت اللہ ، مسلمانوں کے فنون، لاہور،پنجاب ادبی اکیڈمی، ۱۹۶۴ء، ص ۱۰۵

   ایضاً

   ڈاکٹر طارق عزیز، اردو رسم الخط اور ٹائپ، ص ۱۸

   شیخ ممتاز حسین جونپوری، خط و خطاطی، ص ۳۵

   ڈاکٹر شیرین بیانی، تاریخ خطاطی، ماہ نو ، اپریل ۱۹۷۲ء ،ص ۱۴

   محمد سجاد مرازا  ،اردو رسم الخط ص؟

   ڈاکٹر عبداللہ چغتائی، سرگزشت خط نستعلیق، لاہور، کتاب خانہ نورس، ۱۹۷۰ء ،ص ۱۲

   محمد اسحٰق صدیقی، رسم خط تاریخ اور فن کے آئینے میں، بمبئی، ص ۳۷۶

   م،ی، قیصرانی، فن خطاطی، امروز، لاہور، ۲۲ فروری ۱۹۸۰ء

   پروفیسر شیخ عنایت اللہ، مسلمانوں کے فنون ،ص ۱۰۸

   رشید حسن خان، اردو املا، ص ۴۹۲

   ڈاکٹر طارق عزیز، اردو رسم خط اور ٹائپ، ص ۲۵

   ایضاً، ص ۲۵

   ایضاً

اوپر جائیں  |   پرنٹ کیجئےِ
انگریزی ورژن ای میل چیک کریں مرکزی صحفہ پرنٹ پسندیدہ سائٹ بنائیں رابطہ کیجئے www.shahzadahmad.com www.shahzadahmad.com