ریختی اورسعادت یار خان رنگین کی انگیختی
ڈاکٹر بادشاہ منیر بخاری/ڈاکٹر ولی محمد
                                                                     

Abstract
Rekhti is a an important genre of Urdu poetry which was developed by Hashmi Bejapoori Dakkan.      This was promoted by the male poets of Urdu and it's basic theme was the uses of women voices to talk about themselves. Soon after Hashmi bejapori the shape and subject matter changed especially in Lucknow and the poets like Saadat Yaar khan Rangeen inducted lesbian's mutual relationships as well as women-men sexual relationships. This genre couldn't become the mouthpiece of all women's of India but of only the prostitutes of Luckhnow. In this research paper the researchers has analyzed the tradition of Rekhti in general and specially the "Angekhti" of Rangeen in full detail .
ریختی کوئی ایسی چیز نہیں ہے جو دبستان لکھنو کے شعرا سے پہلے اردو غزل میں ناپید تھی ۔لہٰذا یہ تاثر غلط ہے کہ ریختی دبستان لکھنو کی ایجاد ہے ۔دبستان لکھنونے اس میں  اپنے تہذیبی مزاج کے مطابق کچھ خاص، منفرد اور دکنی ریختی کے متضاد رنگ بھرنے کی کوشش ضرور کی ہے ۔نتیجہ یہ نکلا کہ  لکھنو ی  ریختی کے  تمام خط و خال کچھ ایسے سامنے ا ٓئے جس کی وجہ سے لکھنوی ریختی دکنی ریختی سے بالکل ہی مختلف بلکہ متضاد رنگ میں سامنے آئی ۔ لیکن اس سے پہلے کی ریختی اور خاص طور پر دبستان دکن کی ریختی میں کچھ ایسے توانا زاویے ملتے ہیں جو لکھنوی ریختی میں مکمل طور پر ناپید بنتے چلے گئے  ۔لہٰذا دکنی اور لکھنوی ریختی کے رنگ ڈھنگ ایک دوسرے سے اتنے زیادہ مختلف ہیں جس کی بنا پر اس کے لیے ایک الگ نام تجویز کرنا بہت ضروری ہوگا۔مثلاً لکھنوی ریختی کے جذبات کو برانگیختہ کرنے والے شعری مزاج کو مدنظر رکھتے ہوئے اسے رنگین کے دیوان ریختی کے نام انگیختہ کی مناسبت ’’انگیختی ‘‘کے نام سے موسوم کرنا زیادہ مناسب ہوگا۔اس لیے کہ دوسری اصناف کے مقابلے میں یہ واحد صنف سخن ہے جو جذبات کی انگیختگی کے لیے کافی سامان مہیا کرتی ہے ۔
دکنی ریختی اورلکھنوی انگیختی یہی بنیادی فرق ہے جس کی بنا پرڈاکٹر سلیم اختر دکنی ریختی کو ریختی ماننے کے لیے تیار نہیں ۔ان کے بقول بعض نقادوں نے قلی قطب شاہ اور دوسرے دکنی شعراء کے ہاں بھی ریختی ڈھونڈ نکالنے کی کوشش کی ۔دکنی غزل میں عورت کی طرف سے اظہارِعشق کا لکھنو ی ریختی سے کوئی صنفی مناسبت نہیں ۔وہ ان نفسیاتی اور سماجی رجحانات اور نفسیاتی محرکات کی پیداکردہ نہیں تھی جو لکھنو کی ریختی میں دکھائی دیتے ہیں ۔(۱)
جب ہم ریختی کے متعلق گفتگو کرتے ہیں تو ہمارا ذہن سب سے پہلے لکھنوکی طرف جاتاہے ۔یہ سوال اپنی جگہ اہم ہے کہ اس سلسلے میں لکھنو کی ریختی ہی ہمارے لیے معیار کیوں بنے ؟محض اس بنیاد پرکہ اسے پروان چڑھانے کے لیے شاعروں کی ایک پوری کھیپ یہاں سامنے آئی ہے یا پھر اس وجہ سے کہ ریختی کے بدنام موضوعاتی حوالے لکھنو میں پروان چڑھے ہیں؟اس پر تو اس نقطہ نظر سے بھی سوچنا چاہیے کہ کہیں لکھنو نے اس صنف میں کثیف خیالات اور جذبات شامل کرکے اسے گدلا نے یادوسرے لفظوں میں ریختی کو’’انگیختی‘‘ بنانے کی کوشش تو نہیں کی اور یوں اس کے امکانات کا دائرہ ان کی وجہ سے کہیں تنگ تو نہیں ہوا؟جب ہم رنگین اور جان صاحب کے متقدمین کے ہاں ریختی کا رنگ دیکھتے ہیں توان کی ریختی میں موضوعاتی معصومیت ہمیں حیران کر دیتی ہے ۔مثلاً اس سلسلے میں ہاشمی بیجاپوری کو بطور مثال پیش کیا جاسکتا ہے جس کی ریختی خیالات کی اس گندگی سے پاک ہے جن کی وجہ سے دبستان لکھنو کی انگیختی بدنام ہے ۔ڈاکٹر احسان اللہ نے ہاشمی کی ریختی کا بڑا اچھافکری تجزیہ پیش کیاہے۔ان کے خیال میں ہاشمی کی ریختی میں محبت میں گرفتار کنواری لڑکیوں کی نفسیات او رمسائل مثلاً ماں باپ اور رشتہ داروں کا خوف، محبت کے معاملے میں پڑوسنوں کی چہ میگوئیاں ،محبت کے افشاہونے کی وجہ سے محلہ میں برپا ہونے والے ممکنہ ہنگامے کاخوف ، شادی شدہ عورتوں کے جذبات و احساسات ، شوہر کی جدائی او راس کیفیت میں موجود اضطراب ، شوہر کے بغیر کھانے پینے کی لذت و اشتہا کا خاتمہ ، شوہر کی غیر موجودگی میں اچھے لبا س سے تکدر پیدا ہونا، باندی کی طرح شوہر کی خدمت کرنے کا جذبہ ، شوہر کی واپسی کی خبر سن کر سیلاب مسرت امڈ آنا، سوکن سے حاسدانہ جذبات،شوہر کی بے وفائی اور جنسی بے راہروی پر بیوی کے دل میں پیداہونے والے تحفظات، بےحیا لڑکیوں کے جذبات جو محبت میں کسی بدنامی وغیر ہ کی پروانہیں کرتیں ، ملاقاتیں اور اس سے متعلقہ خوف کے جذبات ،ایسی بیٹی کے متعلق ماں کو دیے جانے والے مشورے کہ ایسی لڑکی کا گلا دبانا بہتر ہوتاہے ، عورت کو صبر کی تلقین ، فضول خرچی سے بچنے کی تلقین ، عورتوں کے عقائد و توہمات عورت ہی زبانی بیان کرنے کی کوشش کی گئی ہے ۔الغرض ہاشمی بیجاپوری کی ریختی میں اس دور کی پوری نسوانی معاشرت کروٹیں بدل رہاہے ۔جس کی کامیاب عکاسی اور ترجمانی کا حق انہوں نے اداکردیاہے ۔(۲)یہاں پر بھی یہ دیکھا جاسکتاہے کہ ہاشمی کے ہاں جن عورتوں کے جذبات اور احساسات کی ترجمانی کی گئی ہے وہ اوباش یا طوائف نہیں ہیں بلکہ ہندوستانی گلے محلے کی شریف زادیاں ہیں جو مختلف مسائل سے دوچار ہیں ۔ا ن میں جنسی بے راہرویوں کا بھی ذکر ہے لیکن وہ جنسی بے راہرویاں بھی طوائف کی نہیں بلکہ شریف زادیوں کی ہیں۔یہی وجہ ہے کہ یہاں وہ لچر روزمرے اور محاورے نہیں ملتے جو لکھنوی انگیختی میں ملاحظہ کیے جاسکتے ہیں ۔ہاشمی بیجاپوری کی چند ریختیاں بطور مثال پیش خدمت ہیں ۔مثلاًکنواری لڑکی جس کا محبت کی وجہ سے کام میں جی نہیں لگتا اس کے جذبات کی درج ذیل شعر میں کتنی خوبصورت انداز سے ترجمانی ہوئی ہے ۔
روں روں میں ناؤں پیو کا بھرکر رہاہے میرے                اس یاد کے بغیر اوپھیکا ہے کاج مجکوں(۳)      
اسی طرح ایک عورت چاہتی ہے کہ اس کا شوہر سوکن کو بھی اگر اپنے ساتھ لائے گا تو وہ باندی بن کر اس کی خدمت کرے گی لیکن وہ واپس آجائے بس۔
پیا جو کچھ کہیں گے تو کہوں گی یونچھ ہے صاحب            سخن اس کا اوڑاؤں نامیں سب تکرار چھوڑی ہوں
اگر لاویں گے سوکن کوں رہوں گی اس کی باندی ہو       بی بی آئی پکارونگی میں سب انکار چھوڑی ہوں(۴)    
درج ذیل اشعاربھی اس حوالے سے سوچنے کی دعوت دیتے ہیں :
مجھے پکڑے  ہیں کی چھوڑودیکھو ہو ہانک مارونگی               خداکی سوں میں ہنستی نیں بڑی بو کو پکاروں گی(۵)
اجی میں پاؤں پڑتی ہوں خداکے واسطے چھوڑو               پھٹی استین چولی سو بوبو کن جا سلاتی ہوں
اتنابیزار کیوں کرتے دو میلی ہورہی ہوں میں                  مجھے نھانے کی حاجت ہے کہ اب میں جا نہاؤنگی (۶)
سجن آدیں تو پردے کے نکل کر بہاربیٹھوں گی               بہاناکرکے موتیاں کا پروتی ہار بیٹھوں گی
رضا کر مجھ کو دیتے ہو کروں گی گھر میں جادارو              اگر مجھ ہووے گی فرصت صبح پھر آؤں گی چھوڑو
اگر کوئی آکے دیکھے گا تو دل میں کیاکہے گاجی      مجھے بدنام کرتے ہوکہیں نیں جاؤں گی چھوڑو(۷)
ان معصومانہ زاویوں سے عورت کے جذبا ت کی تصویرکشی ایک تنومند روایت تھی جس کی دبستان لکھنو کے شعرا کو پیروی کرنی چاہیےتھی ۔عورت کی شخصیت اور اس کی سماجی زندگی کے ہزاروں روپ ایسے تھے جن کی عکاسی کے لیے ایسی ہی صنف کی ضرورت تھی ۔لیکن دبستان لکھنو کی روایت کا حصہ بن کر یہ اتنی بدنام ہوئی کہ پھر کسی شریف النفس شاعرکی اتنی جرأت نہ ہوئی کہ وہ اس صنف میں نیا مواد نئے رنگ میں سامنے لانے کی کوشش کرسکے اور یوں صنفی حوالوں سے ایک کامیاب صنف دبستان لکھنو کے شعرا کی کجروی کی بنیاد پر موت کی آغوش میں سو گئی ۔اردو شاعر ی کو اب بھی ایک ایسی ہی صنف کی ضرورت ہے جس میں عورتوں کے جذبات اور احساسات انہی کے روزمرہ اور محاورے میں سامنے آسکیں اور اس صنف کا بیڑا جدید دور کی شاعرات ہی بہتر طریقے سے اٹھا سکتی ہیں ۔اس لیے کہ انہیں اور ان کے مسائل کی تفہیم مرد نہیں بلکہ عورت خود ہی بخوبی کرسکتی ہے ۔لہٰذا ریختی میں ان دونوں حوالوں سے بت شکنی کی ضرورت ہے ۔ایک تو یہ کہ اس میں شریف عورتوں کے جذبات کو پیش کرنے کی بھی  کوشش کی جائے اور دوسری بات یہ کہ عورتوں کی ہی زبانی پیش کی جائے ۔تا کہ یہ صنف اپنے امکانات کو مثبت انداز سے نئے ادبی اقدار کے ساتھ سامنے لانے کے قابل بن سکے ۔ریختی ایک ایسی صنف ہے جس کاان نئے فنی و فکری اقدار کے ساتھ دوبارہ احیاء شعر و اد ب کے لیے کافی سود مند ہوگا۔
اگر ریختی سے مراد عورتوں کے روزمرہ اور محاورے میں عورتوں کے جذبات کی ترجمانی لی جائے تو اس کی ابتدا کا سہرادکن سے تعلق رکھنے والے شاعر ہاشمی بیجاپوری کے سر بندھا جانا چاہیے لیکن اگر اس سے آوارہ عورتوں کے جذبات کو انگیختہ کرنے والے جذبات کا بیان ان کے مخصوص روزمرے اور محاورے میں ہو تو پھر بے شک اس کی ابتدا لکھنومیں ہوئی ہے ۔جہاں تک ریختی کے نام اور اس کے مزاج کا تعلق ہے تو اس میں عورتوں کے جذبات اور محاورات یعنی’’ اوئی کی بولی‘‘ انہی کی زبان میں بنیادی شرط ہے لیکن محض انگیختی کو ریختی سمجھنا ادبی حوالوں سے زیادتی ہو گی۔
لکھنو میں انگیختی کچھ ایسے انداز سے سامنے آئی کہ اس کے لیے فضا پہلے سے تیارتھی۔طوائف لکھنو کے کلچر میں پوری طرح سے سرایت کر چکی تھی ۔بلکہ تہذیب کے ادب و آداب طوائف کے کوٹھوں پر سیکھے جانے لگے تھے ۔یوں یہ ایک طرح سے ہمارے شعرا کے دل و دماغ پر سوار تھی ۔ریختی کاجوانداز’’انگیختی ‘‘کی صورت میں لکھنو میں پروان  چڑھاہے وہ لکھنو کی مخصوص ذہنیتوں کی دین ہے ۔جن کاطوائف کے کوٹھوں سے کافی گہرا تعلق رہاہے ۔اس ضمن میں انگیختی کے حوالے سے رنگین کی مثال دی جاسکتی ہے جن کے اس دور کے کسبیوں کے ساتھ اچھے اور قریبی تعلقات تھے ۔ان کی شہوت پرستی اور اس مخصوص کلچر میں موجود شہوت پرستانہ فضا اس صنف پر بڑے منفی انداز سے اپنے اثرات چھوڑ گئی ۔نتیجہ یہ نکلا کہ اردو ریختی دکن کی صحت مندانہ روایت کو فراموش کر بیٹھی اورانگیختی کی صورت میں سامنے آئی اور جب اردو دانوں کے کان محض اس ریختی سے آشنا ہوئے تو ریختی کا معیار یا اس کی شناخت بھی یہی اخلاقی کجرویاں بنیں ۔ اوریوں ہم ہاشمی بیجاپوری کی ریختی کے ساتھ انصاف نہ کرسکے اور نہ ہی ہمارے معتبر شعرا اس کی طرف متوجہ ہوئے ۔بہر حال عورتوں کے روزمرے اور محاورے میں اس نئے صنف سخن کی بنیاد ہاشمی بیجاپوری نے ڈالی تھی ۔جسے اس نے  ’’اوئی کی بولی ‘‘اور ’’زنانی غزل ‘‘کانام دیاتھا۔(۸)یہ بنیاد ٹیڑھی نہیں تھی لیکن اس کا کیا کیا جائے کہ لکھنو کا ٹیڑھا ماحول دوسری اصناف کے مقابلے میں صرف ریختی پر ہی منفی انداز سے اثرانداز ہو ا ۔محمد احسان اللہ نے جن وجوہات کی بنیاد پر ہاشمی بیجاپوری کو پہلا ریختی گو قرار دیاہے وہ یہ ہیں ۔
۱۔اس نے ہندی شاعری کے تتبع میں عورت کی زبان میں عورت کے جذبات محبت یا احساسات تک اپنے آپ کو محدود نہیں رکھا بلکہ اس کی شاعری کا بیشتر حصہ عورت کے منفرد طرزِ فکر ، طرزِ زندگی اور روزانہ معمولات اور اس کی تفصیلات کا احاطہ کرتا ہے ۔عورتوں کے رسم و رواج ، لباس ، اشیائے طعام ، امور خانہ داری ، روزمرہ کی بات چیت ، مناقشے ، عشق و محبت ، عورت کے ساس نند شوہر اور رشتہ داروں سے تعلقات ، بری عورتوں کی مذمت الغرض یہ تمام موضوعات بعد کی ریختی گوئی کا بھی حصہ بنے ۔
۲۔ان کی ۳۰۵غزلوں میں سے ۲۴۰ غزلیں ریختی میں ہیں ۔اس کا قصیدہ سرس بائی تمام تر ریختی گوئی کا عمدہ نمونہ ہے ۔اور مثنوی یوسف زلیخا میں بھی اس نے ریختی گوئی کے نمونے پیش کئے ہیں ۔
۳۔اسے خود بھی اس بات کا احساس تھا کہ وہ ایک نئی صنف سخن کی بنیاد رکھ رہاہے ۔جس کا اس وقت کوئی نام نہیں تھا او راس نے اسے ’’زنانی غزل ‘‘یا کہیں ’’اوئی کی بولی ‘‘سے موسوم کیا۔(۹)       
سید تمکین کاظمی کے بقول بھی جس شخص نے سب سے پہلے ریختی لکھی وہ سید شاہ ہاشم کے مرید سیدمیراں ہاشمی تھے ۔جو علی عادل شاہ کے درباری شاعر تھے ۔(۱۰)کوثر چاند پوری بھی سید میراں شاہ ہاشمی کو ریختی کا موجد قرارد یتاہے ۔ان کے خیال میں اس کی غزلیات کا غالب حصہ ریختی ہی میں ہے ۔(۱۱)
سید مسعود حسن رضوی ادیب اس بنیاد پر ہاشمی بیجاپوری کو ریختی گو نہیں مانتے کہ اس کے خیال میں ریختی میں عورتوں کی زبان اور ان کے مخصوص محاورات کا استعمال ضروری ہے جب کہ ہاشمی بیجاپوری کے ہاں ایسا نہیں ہے ۔(۱۲)لیکن محمد احسان اللہ کے مطابق مسعود حسین رضوی ادیب کی بات سے متفق ہونا مشکل ہے ۔ان کے خیال میں سید مبین صاحب (مرتب دیوان جان صاحب)اور مبارز الدین رفعت (مرتب کلیا ت شاہی)نے بھی ہاشمی بیجاپوری کی ریختی کے متعلق مسعود حسین رضوی ادیب کے مماثل رائے کا اظہار کیاہے لیکن اس کی ایک وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ انہوں نے ہاشمی بیجاپوری کے کلام کا بالاستیعاب مطالعہ نہ کیاہوگا۔ان کی شاعری کا ایک بہت بڑا حصہ اب موجود ہے جس کا مطالعہ کرنے کے بعد انہیں پہلا ریختی گو ماننے میں کسی عذر کی گنجائش باقی نہیں رہتی ۔(۱۳)ڈاکٹر جمیل جالبی بھی اس بات کی تائید کرتے ہیں کہ ہاشمی بیجاپوری کے ہاں عورتوں کے جذبات عورتوں کی زبان اور روزمرے میں بیان ہوئے ہیں ۔ان کے خیال میں یہ غزلیں مزاج کے حوالے سے ریختی سے بیحد قریب ہیں ۔(۱۴)
رہتی میں موضوعاتی حوالوں سے کچھ ایسے تجربے  بھی ہوئے کہ اگر وہ تنومند روایت کی صورت اختیار کرتے تو یہ صنف متنوع فکری رنگوں کے ساتھ اردو شعری روایت کا حصہ بن جاتی لیکن ہمارے شعرا نے اس کے اس پہلو کی طرف بھی کچھ سنجیدگی کے ساتھ توجہ نہ دی ۔مثلاً یوں تو ریختی کے تقریباً ہر دیوان کے آغاز میں حمد اور نعت موجود ہوتے ہیں لیکن وہ محض دواوین کی روایت کا حصہ ہیں ۔اس کے بعد کی غزلیں موضوعاتی اعتبار سے ریختی کے اپنے مخصوص مزاج کی آئینہ دار ہوتی ہیں ۔لیکن ان ریختییوں میں موضوعاتی حوالوں سے جدت نظرآتی ہے جس میں متصوفانہ خیالات کو پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے ۔یہ اردو ریختی میں ایک نیا تجربہ ضرورتھا لیکن یہ نیا تجربہ بھی اردو کی شعری روایت میں جڑ نہ پکڑ سکا۔اس حوالے سے سید محمد قادری خاکی کا نام خصوصاً لیا جاسکتاہے جس نے تصوف آمیز ریختی کو رواج دینے کی کوشش کی ۔مثلاً ایک شعر حوالے کے طور پر درج ہے ۔
مددسوں شاہزادہ کی ترقی پاکے اے خاکیؔ             کبھی وحدت کے دریامیں میرا میں پن ڈبوتی ہوں(۱۵)   
ریختی میں انگیختی کے رنگ بھرنے کے بعد یہ صنف رنگین کے ساتھ مخصوص ہو گئی ہے لیکن خود رنگین سے پہلے ایسے شاعر گزرے ہیں جنہوں نے نہ صرف یہ کہ ریختی کہی ہے بلکہ ان سے رنگین نے اچھا خاصا اثر قبول کیا ہوگا۔اس ضمن میں قیس حیدرآبادی کا نام قابل ذکر ہے جس نے ۱۲۳۰ھ میں وفات پائی ۔انہوں نے سعادت یار خان رنگین سے بھی قبل ریختی کہی ہے ۔جس کا ثبوت یہ ہے کہ رنگین کا دیوان قیس کی وفات کے انیس سال بعدیعنی ۱۲۴۹ھ میں منظر عام پر آیاہے ۔اس لیے سید تمکین کاظمی کے بقول رنگین کے کلام کا قیسؔ کے پیشِ نظر رہنا تقریباً ناممکن ہے ۔(۱۶)
ڈاکٹر سلیم اختر کے بقول ان کے متعلق قیاس کیا جاسکتاہے کہ رنگین نے اس دیوان سے ضرور اثر قبول کیاہوگا۔کیونکہ دونوں کے ہاں ہم طرحی غزلیں بہت ہیں ۔(۱۷)قیس ؔ نے اپنے دیوان ریختی پر بھی جو عبارت لکھی ہے اس سے ثابت ہوتاہے کہ انہوں نے بیگماتِ دہلی کی زبان سے متاثر ہوکر انہی کی زبان میں شعر کہے ہیں ۔جس کی بنیاد پر ان کا شمار دہلی اسکول کے ریختی گو شعراء میں ہونا چاہیے ۔(۱۸)لیکن سید تمکین کاظمی نے قیس حیدر آبادی کودبستان دکن کے ریختہ گو شاعروں کوچھوڑ کر دبستانِ دہلی کا پہلا ریختہ گو شاعر قرار دیاہے ۔(۱۹)نمونے کے اشعار ملاحظہ ہوں :
جس کی چڑیا کا یہ عالم ہے کہ اب اڑجائے                       میں نے باجی سے وہ کل شرط میں ہاری انگیا
کیابنالائی ہے منہارن ممانی چوڑیاں                           میں نہ پہنوں گی کبھی یہ آسمانی چوڑیاں
اب کے رکھی ہوں دوگانہ وہ طرحدار اصیل       نوجواں پتلی سی گوری سی دھواں داراصیل(۲۰)
تو نے چڑیا وہ بنائی ہے کہ بس بول اٹھے !                   تیرے ہاتھوں کے میں قربان گئی مغلائی!(۲۱)

          قیس حیدرآبادی کی ریختیاں پڑھ کر اندازہ ہو تاہے کہ ریختی کا مخصوص اسلوب رنگین سے کہیں پہلے منظرعام پر آیاتھااور قیس نے اس کی بنیاد رکھی تھی ۔قیس حیدرآبادی کی ریختیوں میں بھی وہ اوچھا اور بازاری پن بہت کم دکھائی دیتاہے جو بعد میں رنگین کی ریختیوں کی پہچان بن گیا۔یوں ریختی کے اس معصومانہ اور فطری انداز سے استعمال کا ایک فائدہ بھی ہوا اور وہ یہ کہ اس کی وجہ سے گھریلوزبان جو گھر کی چاردیواری تک محدود تھی ، منظرعام پرآگئی اور زنانی محاورات و اصطلاحات نظم ہونے کی وجہ سے محفوظ ہوگئے ۔(۲۲)
قیس حیدرآبادی کے بعد ریختی کے حوالے سے انشا اور رنگین کا دور آتاہے ۔اس دور میں پہنچتے ہی ریختی میں وہ تمام باتیں پیداہوئیں جوریختہ کی بدنامی کا باعث بنی ہیں اور یوں ریختی موضوعاتی اعتبار سے انگیختی میں تبدیل ہو گئی ۔رنگین کے ساتھ ساتھ انشا نے بھی اس کی طرف خصوصی توجہ دی۔ یوں تو محمد حسین آزاد کا یہ دعوی غلط نہیں کہ ریختی میں انشاء کی طبع رنگین نے بھی رنگین سے کم سگھڑاپا نہیں دکھایاہے ۔(۲۳)لیکن رنگین نے اس میں مضامین کے اعتبار سے وہ گندگی بھری ہے جو شاید اس سے پہلے اردو اور فارسی کی تمام شعری اصناف  میں ناپید تھی ۔بقول ڈاکٹر صابر علی خان رنگین کے مقابلے میں جان صاحب اور انشاء کے دیوان میں کہیں زیادہ تہذیب و شائستگی اور متانت نظرآتی ہے ۔(۲۴)
انگیختی کی تخلیق میں رنگین کے ماحول اور شخصیت کا اچھا خاصا عمل دخل تھا۔اس لیے کہ وہ خود بھی ایک رئیس زادے تھے ۔ان کے والد ایک بہت بڑی جاگیر کے مالک تھے۔بادل کا پرگنہ چوراسی گاؤں کے ساتھ اس میں شامل تھا۔لہٰذا امیرانہ ٹھاٹھ کے ساتھ زندگی گزارناان کا وطیرہ تھا اور اس کے ساتھ ساتھ صاحب قلم بھی تھے اور صاحب سیف بھی تھے ۔(۲۵)امیرانہ ٹھاٹھ باٹ ان کی شخصیت میں ایک عجیب سیمابیت پیداکرنے کا باعث بنی تھی ۔جس نے ان کے دل میں چمن کی کلی کلی سے رس نچوڑنے کی عادت ڈالی تھی ۔خود ان کا یہ شعر ان کی شخصیت کے اس پہلو کی طرف اشارہ کرتاہے :
میں اک جاپہ دل کو لگاتا نہیں                        مجھے رہنا اک جاپہ آتا نہیں (۲۶)
جیسا کہ امارت کا فطری تقاضا ہوتاہے کہ روپوں کی بہتات جسم کے تقاضوں کو بڑھا دیتی ہے اور دلی ریاضت میں کمی کا باعث بنتی ہے ۔کچھ ایسا ہی رنگین کے معاملے میں ہوا ہے ۔ان کی شاعری میں وہ جذباتی ریاضت دکھائی نہیں دیتی جو مثلاً ہمیں میرؔ کے ہاں ملتی ہے ۔یہاں پر فاصلوں کے ساتھ محبت کا کوئی حوالہ موجود نہیں ہے ۔یہاں جذبات خلوص کی آگ میں تپ کر کندن نہیں بنتے بلکہ جسم کے بھنور میں پھنس کر ٹھنڈے ہوجاتے ہیں لیکن صرف ایک فرق کے ساتھ ۔اور وہ یہ کہ جسم کے ان تقاضوں کے ساتھ جب ایک فنکاربازارِ جسم میں داخل ہوتاہے تو تب بھی وہ فنکار ہی رہتاہے اور یوں وہ وہاں پر بھی فن کے کچھ نئے زاویے ضرور تراش لیتاہے ۔یہی معاملہ رنگین کے ہاں بھی ہے ۔اس سلسلے میں ان کا اپنا بیان ملاحظہ کیجیے ۔ریختی (انگیختی)کے دیوان ’’انگیختہ ‘‘میں لکھتے ہیں ؛
’’بیچ ایام جوانی کے یہ نامۂ سیاہ اکثر گاہ بگاہ عرسِ شیطانی کے عبارت سے جس سے تماش بینی خانگیوں کی سے کرتا تھا۔اور اس قوم کی ہرایک فصیح پر دھیان دھرتاتھا۔ہر گاہ چند مدت جو اس وضع اوقات پر بسر ہوئی تو اس عاصی کو ان کی اصطلاح اور محاوروں سے بہت سی خبریں ہوئی ۔پس واسطے انہیں اشخاص کے عام بلکہ خاص بولیوں کو ان کی زبان میں اس بے زبان ہیچمدان نے موزوں کر کے مرتب کیا۔‘‘(۲۷)
کسبیوں کے ہاں اٹھک بیٹھک کے نتیجے میں عورتوں کی اصطلاحات اور محاورات سے واقفیت نے ان کے دل میں اس خیال کو جنم دیا کہ وہ ان کی مخصوص بولی کو اپنی شاعری میں جگہ دے دیں ۔یہ بہت اچھی خواہش تھی لیکن ان کی بدقسمتی یہ تھی کہ ا ن کی دلچسپی محض بازاری عورتوں میں تھی یوں شریف زادیوں کی زبان اور ان کے جذبات اور احساسات کو جگہ دینے کی گنجائش کم ہوگئی اور یوں لکھنو میں یہ صنف غلط راستوں پر چل نکلی ۔اردو ریختی یا باالفاظ دیگر انگیختی میں جتنے بھی مخرب الاخلاق باتیں ہیں اس کو رواج دینے میں رنگین کی انگیختی نے اہم کردار اداکیاہے ۔اس نے جہاں ریختی کو نقصان پہنچایا تو اس کے ساتھ ساتھ اس سے خود رنگین کی شخصیت اور شاعرانہ قد کاٹھ کو بھی نقصان پہنچا ۔بقول مجید یزدانی رنگین کی بدنامی ان کے نام پر اس انداز سے غالب آگئی کہ وہ ایک مشہور زمانہ گمنام بن کر رہ گئے ۔(۲۸)
رنگین کی ریختیوں میں صحت مندانہ خیالات اور جذبات کی شدید کمی ہے ۔یہاں جذبات کی ساری کثافتیں جمع ہو گئی ہیں ۔جنسی بے راہرویاں کئی ایک حوالوں سے رنگین کے ہاں موجود ہیں اور وہ بھی ڈھکے چھپے انداز سے نہیں بلکہ کھلے انداز سے ۔اگر رنگین کی انگیختیوں میں یہ جنسی جذبے علامتوں کی صورت اختیار کر لیتے یا ایمائیت سے بھرپور لب و لہجے کے ساتھ ظہور پذیر ہوتے تو ادبی اہمیت کے حامل ہوتے لیکن شاعری جو تہذیب و شائستگی کی آبیاری کرتی ہے ، جو جذباتی سطح پر پڑھنے اور سننے والوں کو تہذیبی متانت سے آشنا کردیتی ہے ۔جو زندگی کے مسائل کے متعلق گہرا شعور پیداکرنے کی کوشش کرتی ہے ۔جو استحصال زدہ طبقات کے لیے دل میں ہمدردیوں کی ایک دنیا آبادکرتی ہے ۔جو زندگی کی ناہمواریوں کو اس مقصد کے لیے ابھارتی ہے تاکہ پڑھنے یاسننے والوں کی سنجیدہ توجہ اس طرف پھر جائے اور سماج ان مسائل کے متعلق سوچنے پر مجبور ہوجائے ، رنگین کی ا نگیختی اس جذبے سے مکمل طور پر خالی ہے ۔یہ ایک فنکار کی غیر ہمدردانہ جذباتی وابستگی ہے جو پڑھنے والوں کے دل میں ضرور کھٹکتی ہے ۔ان انگیختیوں میں رنگین تماشائی کی حیثیت سے موجود ہے ۔ایک ایسے تماشائی کے روپ میں جو جسم کی حد تک کسبیوں سے سروکار رکھتاہے ۔جو شاعری میں محض اپنی دکان چمکانے کی غرض سے کوئی اچنبھا دکھانے کی فکر میں ہے ۔جو امرا کے دل کو خوش کرنا چاہتا ہے ۔(۲۹)اور سامعین سے سستی داد بغیر ریاضت کے لینے کا خواہاں ہے ۔جب تخلیق کے لیے جذبہ اس نوع کا ہو گا تو نتیجتاً فن اپنے عظیم مقاصد کے حصول کے لیے کو ئی سنجیدہ کاوش نہیں کرسکے گا۔
اس تماشے میں رنگین نے کسبیوں کے ہاں کے تمام جنسی پہلو ؤں کا بڑی رازداری کے ساتھ مشاہدہ کیاہے ۔جن میں سے ایک ہم پہلو نسوانی ہم جنسیت بھی ہے ۔لکھنو تہذیب کے جن پہلوؤں کو بھی ہمارے افسانوی ادب کا پہلو بنایا گیاہے تواس میں اس حقیقت کی طرف بالکل بھی اشارے نہیں ملتے ۔مثلاً فسانہ عجائب میں نسوانی ہم جنسی سے متعلق کچھ اشارے نہیں ملتے یہی معاملہ فسانہ آزاد کا بھی ہے ۔ایسا اس لیے ہوا ہے کہ ایسے حقائق کا اظہار ادبی اقدار کے منافی ہے ۔باقی افسانوی ادب میں بھی نسوانی ہم جنس پرستی کے حوالے سے کچھ مواد موجود نہیں ہے ۔اس میں کوئی شک نہیں کہ عصمت چغتائی نے لحاف وغیرہ میں اس موضوع کو برتا ہے لیکن وہ عمومی انداز سے ہے ۔جس کا لکھنو کی فضاء سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔یہ رنگین ہی تھے جس نے انگیختی میں لکھنوکے طوائفانہ معاشرت کی اس تلخ حقیقت سے بھی نقاب کشائی کی ہمت کی ہے ۔لیکن اس فرق کے ساتھ کہ انہیں پڑھنے کے بعد قاری کے دل میں اس مخصوص طبقے کے مسائل اور ان کادرد، ان کی آہ اور کراہ بہت کم سنائی دیتے ہیں ۔اس میں وہ فنی اورفکری گہرائی ناپید ہے جو سنجیدگی کے ساتھ قاری کو اس طبقے کے متعلق سوچنے پر مجبور کر دے اور اس کے دل میں ہمدردانہ جذبات ابھارنے کا باعث بنے ۔
ڈاکٹر سلیم اختر ریختی کی تخلیق کے وقت کے لکھنوی معاشرے پر بات کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اس دور کے معاشرے میں کسی حد تک نسوانی پن پیدا ہوچکاتھا۔عورت کجرویانہ انداز سے مرد کے اعصاب پر سوار تھی ۔جس کا اندازہ اس بات سے ہوسکتاہے کہ انشا نے دریائے لطافت میں بحروں کے نام ہی پری جانم ، پری جان ، وغیرہ رکھے تھے ۔واجد علی شاہ نے حسین عورتوں کی ایک زنانی فوج تیار کر رکھی تھی ۔اور ان کے بعض پلٹنوں کے نام اختری ، نادری وٖغیرہ رکھے تھے۔ڈاکٹر سلیم اختر کے بقول ایسے حالات میں ریختی کے وجود پر نہیں بلکہ اس کے عدم وجود پر تعجب ہونا چاہیے تھا۔(۳۰)اس سلسلے میں جو کجرویاں ریختی کاحصہ ہیں ان میں اس دور کے سماج کا بھی بہت بڑا ہاتھ ہے جو تہذیبی اقدار کے برعکس متضاد رویوں کو پروان چڑھانے کی کوشش کر رہاتھا۔
اس حوالے سے ڈاکٹر سلیم اختر لکھتے ہیں :
’’لکھنو معاشرے میں گھر کی عورتیں مردوں کی ذہنی یا جسمانی ضروریا ت کے لیے ناکافی تسکین مہیا کرتی تھیں ۔مردوں نے باہر کی زندگی کو اصل زندگی سمجھا تھا اور عورتوں نے مردوں کے سلوک سے دل برداشتہ ہو کر ہم جنسیت کو شعار بنایا۔‘‘(۳۱)
ہم جنسیت کے کون کون سے رنگ یہاں موجود ہیں اس کا تجزیہ غیر مناسب نہیں ہو گا۔یہاں پر کچھ لفظیات کے معانی کو سمجھنا ضرور ی ہے ۔دیوان رنگین و انشا کے آغاز میں بیگمات کی زبان کی ایک فرہنگ دی گئی ہے ۔جس میں اس طبقے کی زبان کے حوالے سے اصطلاحات کی وضاحت کی گئی ہے ۔دیوان رنگین میں دوگانہ ، الاچی ، گوئیاں ، زناخی  وغیرہ کا اکثر ذکرآتاہے ۔جس کی تھوڑی وضاحت ضروری ہے ۔
الائچی : بہنیلی یا سہیلی ۔باہم الائچی کھاکر بنائی ہوئی دوست۔گوئیاں ، آلی ، الائچی بہن :بیگمات قلعہ جب کسی سے بہناپا کر کے الائچی کے دانے باہم کھاتی تھیں تو اسے الاچی کہا کرتی تھیں ۔چنانچہ مشہور ہو گیا ہے کہ بیگمات قلعہ میں سے مرزا فخرو ولیعہد کی والدہ صاحبہ نے ایک نواب زادی سکینہ نامی بیگم کو الائچی بہن بنایااور اس کی خوشی میں ایک گاؤں انہیں بخشا۔جو اس دن سے آج تک الائچی پور مشہو ر اور ضلع میرٹھ تحصیل غازی آبادمیں پرگنہ لونی میں واقع ہے ۔(۳۲)
زناخی :۔بیگمات قلعہ کے ہاں زناخی کا رشتہ سب سے زیادہ مضبوط اور قابل قدر گنا جاتاتھا۔جب انہیں کسی کو زناخی بنانا منظور ہو تاتھاتو باہم ملکر زناخ یعنی کبوتر یا مرغ کے سینے کی جڑی ہوئی ہڈی توڑی جاتی تھی اور یوں یاری پکی یاری میں بدل جایا کرتی تھی ۔بعض ناواقف لوگ جو کہتے ہیں کہ چپٹ باز عورتوں کا یہ لفظ اور اس کے معنی ہمراز و ہمدم و طبق زن ہیں ۔یہ بہتان ہے ہاں اگر یہ لکھنو میں یہ معنی لیے جائیں تو عجب نہیں۔(۳۳)یوں سید احمد دہلوی اس لفظ کوسہیلی کے معنوں میں استعمال کیا ہے ۔
دیوان رنگین و انشامیں فرہنگ دیوان رنگیں میں لکھا ہے کہ الائچی ، دوگانہ ، گوئیاں اور زناخی وغیرہ یہ تمام رشتے اکثرباہم چپٹی کھیلنے والیوں کے ہوتے ہیں ۔(۳۴)درج ذیل اشعار سے بھی ہم جنسیت کی طرف کھلے اشارے ملتے ہیں اس لیے انگیختی کا مطالعہ سید احمددہلوی کے بیان کی تردید کرتاہے کہ یہ نام محض سہیلیوں کے لیے استعمال کیے جاتے تھے ۔
میرے گھر میں زناخی آئی کب                      یہ نگوڑی بھلانہائی کب
صبر میر ا سمیٹتی ہے وہ                               شب کو بولی تھی چارپائی کب
وہ نجنتی تو اپنے گھر میں نہ تھی                        پاس اس کے گئی تھی دائی کب(۳۵)
لوگ یا ں چونک اٹھے اپنے پرائے سارے           مرمٹی تو نے غضب ایسی ہے اک ماری چیخ
تسپہ مکراتی ہے مردار اری شابش ری                 تیرے منہ سے ابھی نکلی ہی نہیں ساری چیخ
ہے یہ قحبہ اسے رنگیں کے حوالے کر دے            میر ی انا کو دوگانا میں ترے واری چیخ(۳۶)        
اب الاچی کو میں اپنے گھر بلاؤں دور پار              اس کو میں اپنی چھپر کھٹ پر سلاؤں دور پار
وہ نگوڑی کھینچے ہے اب دور کتنا آپ کو                 بن بلائے اب میں اس کے پاس جاؤں دور پار(۳۷)
اب میری دوگانا کو مرا دھیان ہے کیا خاک           انسان کی انا اسے پہچان ہے کیا خاک(۳۸) 
شوق مجھ کھوج مٹی کو جو ہے اس بات سے کم     بولتی مجھ سے دوگانا ہے بہت رات سے کم
مان کرتی ہے عبث اپنی وہ جوبن پہ دوا                     گات میری بھی زناخی کی نہیں گات سے کم
کہے وہ کچھ ہے سمجھتی ہے یہ بس کچھ کا کچھ                 دائی واقف ہے دوگانا کے اشارات سے کم(۳۹)
چھپ کے مل مجھ سے دوگانا تیری واری جاؤں               مفت میں ایسا نہ میں کہیں ماری جاؤں(۴۰)    
میرے سمدھی سے تشفی تیری اتنی ہے کہ بس               تجھ کوزنہار نہیں ہے مری پروا سمدھن (۴۱)   
میں کروں اپنی زناخی اس کو                                 جس کی صورت میری باجی سی ہو(۴۲)        
ٹیس پیڑو میں اٹھی اوہی مری جان گئی                             مت ستا مجھ کو دوگانا تری قربان گئی
تجھ سے جب تک نہ ملی تھی مجھے کچھ دکھ ہی نہ تھا                ہاتھ ملتی ہوں بری بات کو کیوں مان گئی
میں ترے پاس دوگانا ابھی آئی تھی چلی                         میرے گھرمیں تو عبث کرنے کو طوفان گئی(۴۳)
چھاتی میں اپنی زناخی کی سراہوں اے جیا                    میں نے اس کی چھاتیوں کو توم کر گالا کیا
کچھ نہ دم مارا مری خاطر سے اس نے زینہار                  میں نے جس جس طور سے چاہا تہہ و بالا کیا(۴۴)
کٹ مستی پن کو میری زناخی کے دیکھ کر                      کرتی ہے چاک اپنا گریبان ڈومنی
سکہ یہی بٹھایا ہے باجی نے ان دنوں                        آنے نہ پائے یاں کوئی مہمان ڈومنی    (۴۵)
چارپائی کا بولنا، چیخ کا نکلنا، بن بلائے ایک شادی شدہ ہم جنس پرست عورت کا پہنچنا، اسے اپنی چھپرکٹ پرسلاناحالانکہ کسی سماجی مجبوری کے تحت وہ اپنے آپ کو دور کھینچنے لگی ہے ،لیزبین (Lesbian )کا اپنی محبوبہ کی چھاتیوں کی جسامت کا تذکرہ جو بلوغت کی ایک علامت ہے ، سمدھنوں کے ایک دوسرے سے تعلقات اور ایک دوسرے کے شوہروں سے رشک اور حسد کا جذبہ ، اور خوف کے باوجود اپنی محبوبہ سے ملنے کی خواہش اور مجبوریوں کی وجہ سے چھپ چھپ کر ملنا ، نسوانی ہم جنس پرستی کے حوالے سے کئی ایک تلخ حقائق برہنہ کر کے رکھ دیتی ہیں۔رنگین کی انگیختی میں جذباتی ثقافتوں سے بھری ہوئی عکاسی جگہ بہ جگہ موجود ہے جس نے ان کی شاعری کے اخلاقی مقام و مرتبے کو سخت نقصان پہنچایاہے ۔اور اس کی وجہ سے انگیختی کافی بدنام بھی ہوئی ہے لیکن بعض مقامات پر نسوانی ہم جنس پرستی ہی کی بنیاد پر بڑی اچھی تصویریں پینٹ کی گئی ہیں ۔مثلاً سراپا نگاری کے حوالے سے ذرا اس تصویر پر ایک نظر دوڑائیے ۔جس میں ایک عاشق یا ہم جنس پرست عورت کی نظر سے ایک دوسری خوبصورت عورت کو دیکھنے کی کوشش کی گئی ہے ۔اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ تصویر کشی ایک مرد شاعر نے کی ہے لیکن اپنے مشاہدے کی بنیاد پر اس نے عورت کی نفسیات اور دلچسپیوں کو مدنظر رکھاہے ۔اگر عورت کی زبان سے اپنی محبوبہ کی تصویرکشی کی جاتی تو اس قسم کی ہوتی ۔
ہے اجی میری دوگانا کی سجاوٹ خاصی                          چنپئی رنگ غضب تس پہ کھنچاوٹ خاصی
سر کے تعویذ ستم اور فتح پینچ عجیب                             بال مہکے ہوئے چوٹی کے گندھاوٹ خاصی
سب سے گفتار جدی سب سے نرالی نکھ سکھ                    دانت تصویر ہیں مسی کی جماوٹ خاصی
شہر آشوب دھڑی تس پہ لکھاتھاکافر                           سن جو چھوٹا ہی تو ہے منہ کی بھلاوٹ خاصی
گر جگت بولے تو پرکالۂ آتش ہو زباں                           اور رک جائے تو رکنے میں رکاوٹ خاصی
اس کی بس گات کی کیابات ہے کیا کہنا ہے                      چھب درست ایسی ہے بازو کی گلاوٹ خاصی
کرتی جالی کی پڑا سر پہ دوپٹہ اچھا                                قہر پاجامہ اور انگیا کی کساوٹ خاصی
قطع چوں کلیا عجب گھیر ہے دامن کا طلسم                       آستیں چست بہت اور اچاوٹ خاصی
لہر لہرائی ہو ئی تس پہ وہ طوفانی حباب                            گھوکھرو ار بنت کی ہے بناوٹ خاصی
سسکی بھرنی وہ غضب اور جھجکنا زیبا                            اوہی کے ساتھ پھر ابرو کی جھکاوٹ خاصی
پہونچیاں واچھڑی جی کان کی بالی بیداد                         نورتن ویسی ہی پتی کی جڑاوٹ خاصی
ناز زیبندہ حیاآفت و عشوہ جادو                                غمزہ و ظلم ادا اور رکھاوٹ خاصی
اچپلاہٹ و ہ فسوں اور چمٹنا ہے ہے                              پھر ملاقات میں کافر و ہ رچاوٹ خاصی
کیوں نہ ایسے سے پھنسے دل اجی انصاف کرو                     گفتگو سحر ، کمر خوب، لگاوٹ خاصی
بند پاجامہ کی چنپا میں ثریا کی چمک                              وہ پریزاد دھریں اور بناوٹ خاصی
پاؤں میں کفش بھبوکا وہ مغرق ساری                           سرو قد اور ہے رانوں کی ڈھلاوٹ خاصی
سب سے سب بات جدی سب سے انوکھی رفتار                سب سے پوشاک الگ سب سے سجاوٹ خاصی
اس کا اظہار کروں تجھ سے میں کیا کیا رنگیں                      دست و پا تحفہ ہیں مہندی کی رچاوٹ خاصی (۴۶)
ان اشعار میں تمام نسوانی پسند و ناپسند کے معیار کو سامنے رکھا گیاہے ۔سجاوٹ، پوشاک ، مہندی ،مسی ، چوٹی کی گندھاوٹ، پاجامہ ، انگیااورپہونچیوں وغیرہ کا نسوانی اشتیاق کے ساتھ تذکرہ کسی عورت اور خاص کر ایک طوائف کے معیار حسن کا اندازہ لگایا جاسکتاہے کہ وہ ہم جنس پرستی میں کس معیار کو سامنے رکھتی تھی ۔
رنگین کی انگیختیوں کی بدنامی کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ اس میں جنسی جذبات کو ملفوف کیے بغیر بے باکی سے بیان کیا گیاہے ۔اس میں سنجیدگی کی کسی حد تک کمی ہے اور سرور و انبساط کشید کرنے کا محرک زیادہ ہے ورنہ اگر وہ فنی خلوص کے ساتھ کسبیوں کی زندگی کے تمام تر مسائل معصومانہ توجہ سے بیان کرنے کی کوشش کرتے تو اردو ریختی کےنذیر اکبرآبادی بن جاتے ۔انہوں نے طوائف میں اتنی توجہ لی ہے جتنی صنف انگیختی کے فوری تقاضے بنتے ہیں ۔جذبات یا فن کی ریاضت ایک گراں مرحلہ ہوتاہے جسے طے کرنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں ہوتی۔رنگین کی مثال تو بھونرے کی مانند ہے جو ہر ایک پھول کی خوشبو کشید کرنا چاہتاہے یا ہم جنس پرستی کا تذکرہ کرکے جذباتی سطح پر کچھ فوری سکون حاصل کرنا چاہتاہے ۔ مثلاً درج ذیل اشعار میں بھی اس حقیقت کو آسانی سے محسوس کیا جاسکتاہے ۔ اوریہ سمجھنے میں بھی کوئی مشکل درپیش نہیں کہ رنگین اس کوچہ ٔ رنگین کے شناور تھے ۔جن کے ساتھ رنگین کے تعلقات ہیں ان میں شریف زادیاں بھی ہیں ۔جنہیں گھر میں بدنام ہونے کا خوف ہے ۔ایسی بھی جوبن بلائے رنگین کی مہمان بننے کے لیے تیار ہیں ۔رنگین کو عیش کی محفلوں میں بلایا جاتاہے ۔رنگین کی طرف سے جسم کی پیاس بجھانے کے حوالے سے پیش قدمی کا بھی ذکر ہے حالانکہ کچھ کو نامحرم ہونے کا احساس بھی ہے ۔ اور ایسی بھی لڑکیاں ہیں جنہوں نے مکتب جسم کا پہلا سبق رنگین کے ہاں سیکھا ہے اور روز رنگین کے ہاں نئی پری جانے کی بھی کوئی کمی نہیں ہے ۔
کچھ احتیاج نامہ و پیغام کی نہیں              رنگیں کے پاس جانے کو تیار ہوں جیا(۴۷)
دل کی میں سادی تھی کمبخت کہ اس سے انا           نہ کیا میں نے تو مال و دل و ایمان دریغ
آج رنگیں کو بلاتی ہوں میں اور گھرمیں مری           کچھ مہیا ہی نہیں عیش کا سامان دریغ(۴۸)  
الٰہی کون بھنڈ قدما ہواہے مجھ پہ دیوانہ                کہ ہے میرے گلے کی ٹوٹتی زنجیر آئے دن (۴۹)
جدی اس سے بھلا کب تک رہوں میں               بری اس سے بھلا کب تک رہوں میں
چمٹتاہے وہ سوسو بار آکر                            بچی اس سے بھلا کب تک رہو ں میں
برا مجھ کو سمجھتاہے گا رنگیں                         بھلی اس سے بھلا کب تک رہوں میں (۵۰)
جب تلک چھوٹی تھی میں باجی نہیں تھی جانتی         اب خدا کے فضل سے کرتی ہوں ہر دم اوہی آہ
کل نہیں پڑتی کسی کل کیا کروں بے کل ہوں میں       مجھ سے کرواتاہے اس کے ہجر کا غم اوہی آہ
کیا کروں ناچار رنگیں کی خوشی کے واسطے              سیکھتی میں بھی چلی ہوں اب تو کم کم اوہی آہ (۵۱)
توتو محرم نہیں مت ہاتھ لگا چھاتی کو                             سخت بے رحم ہے تو اوہی مری جان گئی
تیرے صدقے گئی رنگیں غزل اک اور تو کہ                   جگت استاد ہے تو میں تجھے پہچان گئی(۵۲)      
میری پروا نہیں رنگیں کو اری انا جان                          اس کے پاس ایک نئی روز پری جاتی ہے (۵۳)
رنگیں سے اور مجھ سے ہوجائے جس سے غٹ پٹ              بتلادے ایسی کوئی تدبیر میری باجی (۵۴)
پھنس ان دنوں گئی ہے وہ رنگیں کے دام میں                   مجھ سے تو کچھ چھپا نہیں رہتا کہیں کا بھید(۵۵)
مرا ترا چرچا ہے سب شہر میں                                 بھلا آؤں کیونکر میں ہر رات روز
گئے ہیں مرے گھر میں سب تجھ کو تاڑ                          کیا کر نہ رنگیں اشارات روز(۵۶)
جب دولت کی فراوانی ہو ، خاندانی وجاہت موجود ہو اور آدمی فنکار بھی ہو تو پھر ایسی صورت میں نئے جسم کا حصول کچھ مشکل نہیں ہوتا۔رنگین نے اپنے ایک بیان میں(جس کا تذکرہ کیا جاچکاہے ) بھی اس کا اعتراف کیاہے کہ کسبیوں کو اس نے کافی قریب سے دیکھا اور تب ہی انہوں نے ان کی بولی اور محاورات میں شعر کہنے کی کوشش کی ہے ۔یہاں پر ہمیں اس کی جنسی بے راہروی کی طرف بڑے توانا اشارے ملتے ہیں ۔انگیختی کی تخلیق اخلاقی حوالوں سے ایسا بگڑا ہوا شاعر ہی کرسکتا تھا۔یہ بگڑا ہوا شاعر جب بگڑاہٹ پر اترتاہے تو پھر زندگی کی کوئی بھی اعلیٰ قدر خاص طور پر جنسی معاملات میں اس کے لیے کوئی خاص اہمیت نہیں اور نہ ہی کوئی اخلاقی قدر ان کے آڑے آسکتی ہے اور وہ بڑے کھلے بندوں عورتوں کی زبانی ان حقائق کا بیان فراوانی کے ساتھ کرتاہے، جنہیں ہمارا تہذیبی مزاج بہ مشکل ہی برداشت کرسکتاہے ۔مثلاًکچھ اشعار آپ کی نظر سے گزرچکے ہیں اور اب ذرا ان اشعار کو بھی ملاحظہ کریں ۔
کلی سی ہے آج ملواؤں                      پیٹ اپنا دکھا جنائی کو
درد کھاتی ہوں میں مروڑی کے                     غم نہیں کچھ مرا جنائی کو
بچہ سیدھاہے یا کہ ہے پائل                          نہیں معلوم کیا جنائی کو (۵۷)
آج کیوں تو نے ووگانا یہ صبورا باندھا                   ٹھیس لگتی ہے بھلاکیوں کہ بچہ دان بچے (۵۸)
اے دوگانہ تو مجھے لوٹنے کو آئی پھیر                   پھر سٹک جاوے گی گھر پر میری ستھرائی پھیر
دیکھ تو میرے نلے میں ہے یہ کیابٹہ سا               ناف کے نیچے میرے ہاتھ تو اے دائی پھیر(۵۹)
مضامین و خیالات کی یہی گراوٹ ہے جو شرفاء اور خواص کے مزاج کے ساتھ میل نہیں کھاتی تھی ۔روزمرہ او رغیر رسمی گفتگو میں ان باتوں کا ذکر معیوب سمجھا جاتاہے اور پھر جب یہ غزل جیسی صنف کا حصہ بنتے ہیں ، جس کے مزاج کا غالب پہلو ہی جذبات اور احساسات کی تطہیر رہاہے ، تو پڑھنے والوں کو گراں گزرتاہے ۔ثقہ شاعروں نے شروع میں اس طر ز کو کچھ زیادہ پسند نہیں کیا۔مثلاً انشاء نے رنگین پرسخت تنقید کی ہے اور بتایاہے کہ اس کا باپ رسالدار تھا۔تیغ اور برچھی ہلانے والا۔لیکن اس کے بیٹے کے مزاج میں شہداپن اور رنڈی بازی کارنگ کہاں سے آگیا۔جس نے ریختہ کوچھوڑ کر ریختی ایجاد کی ہے ۔اس واسطے کہ بھلے آدمیوں کی بہوبیٹیاں پڑھ کر مشتاق ہوں اور ان کے ساتھ اپنا منھ کالاکرے ۔انہوں نے ایک کتاب بنائی ہے جس میں رنڈیوں کی بولی لکھی ہے ۔(۶۰)
اسی بنیاد پر رنگین کی شاعری کے متعلق ڈاکٹر صابر علی خان کا خیال صحیح ہے :
’’ممکن ہے جنسیات کی تاریخ یا جنسیاتی ادب میں اس تحریر کا کوئی درجہ ہو اردو شاعری یا ادب کی تاریخ سے یہ خارج ہے ۔‘‘(۶۱)
ڈاکٹر صابرعلی خان نے ان کے کلام کے متعلق رائے دی ہے کہ ان کے کلام کا بڑا حصہ ذاتی تجربات ، مشاہدات، واقعات و واردات پر مبنی ہے ۔ان میں صداقت اور صاف گوئی کے عناصر موجود ہیں اور اگر ان کے کلام کے فحش حصے کو نظرانداز کردیں تو باقی سرمایہ نہایت اہم ہے ۔(۶۲)جہاں تک ان کی فحش شاعری کا تعلق ہے وہ ان کی انگیختی ہے ۔اس میں کوئی شک نہیں کہ ان انگیختیوں میں بعض اشعار موضوعاتی اعتبار سے پاکیزہ خیالات کے حامل ہوتے ہیں لیکن ان کا تناسب بہت زیادہ کم ہے ۔انگیختی کی وجہ سے رنگین کو وقتی فوائد ضرور ملے ہوں گے۔اخلاقی حوالوں سے پست امرانے ان کی تعریف بھی کی ۔وقتی فیشن کے طور پر عوام نے بھی اسے سراہا۔لیکن ان انگیختیوں میں چونکہ تطہیر جذبات کا عنصر کم اور جذباتی آلودگی کا سامان زیادہ ہے اس لیے نہ تو اس دور کے عظیم شعرا نے اس صنف کی طرف کوئی خاص توجہ دی ہے اور نہ ہی یہ بعد میں آنے والے ناقدین کی سنجیدہ توجہ کا مرکز بنے ہیں لیکن ایک صنفی عجوبے کے طور پر اس کامطالعہ غیر سود مند بالکل بھی نہیں ہے اور بعض مقامات پر خیالات کے ایسے جواہر پار ے ہیں جو قاری کی وجہ کا مرکز بنتے ہیں ۔اگر چہ وہ سستے اور بازاری جذبات کی کہرمیں لپٹے ہوئے ملتے ہیں ۔

حوالہ جات:
۱۔سلیم اختر ، ڈاکٹر، ریختی کا سماجی و تہذیبی پسِ منظر،مشمولہ ،اردو شاعری کا فنی ارتقاء ، فرمان فتح پوری ، ڈاکٹر، الوقار پبلی کیشنز ، واپڈا ٹاؤن ، لاہور، ۲۰۱۵ء ،ص،۳۷۱
۲۔تفصیل کے لیے کتاب ’’ہاشمی بیجاپوری از محمد احسا ن اللہ ، اختر احسان ، ۲۵۸کیولری گراؤنڈ ، لاہور کینٹ، اپریل ۱۹۸۲ء ۔ صفحہ ۱۴۴ تا ۱۹۴ملاحظہ کی جاسکتی ہے ۔
۳۔ محمد احسان اللہ ، ہاشمی بیجاپوری ، اختر احسان ، ۲۵۸کیولری گراؤنڈ ، لاہور کینٹ، اپریل ۱۹۸۲ء ۔ص،۱۵۴
۴۔ایضاً، ص،۱۶۵            ۵۔ایضاً، ص،۱۸۲            ۶۔ایضاً، ص،۱۸۳
۷۔سلیم اختر ، ڈاکٹر، ریختی کا سماجی و تہذیبی پسِ منظر،مشمولہ ،اردو شاعری کا فنی ارتقاء ، فرمان فتح پوری ، ڈاکٹر، الوقار پبلی کیشنز ، واپڈا ٹاؤن ، لاہور، ۲۰۱۵ء ،ص،۳۷۸
۸۔محمد احسان اللہ ، ہاشمی بیجاپوری ، اختر احسان ، ۲۵۸کیولری گراؤنڈ ، لاہور کینٹ، اپریل ۱۹۸۲ء ۔ص،۱۴۹
۹۔ایضاً، ص،۱۵۰،۱۵۱
۱۰۔سلیم اختر ، ڈاکٹر، ریختی کا سماجی و تہذیبی پسِ منظر،مشمولہ ،اردو شاعری کا فنی ارتقاء ، فرمان فتح پوری ، ڈاکٹر، الوقار پبلی کیشنز ، واپڈا ٹاؤن ، لاہور، ۲۰۱۵ء ،ص،۳۷۸
۱۱۔کوثر چاند پوری ،ریختی اور اس کے فنکار، مشمولہ ،اردو شاعری کا فنی ارتقاء ، فرمان فتح پوری ، ڈاکٹر، الوقار پبلی کیشنز ، واپڈا ٹاؤن ، لاہور، ۲۰۱۵ء ،ص،۳۹۶
۱۲۔محمد احسان اللہ ، ہاشمی بیجاپوری ، اختر احسان ، ۲۵۸کیولری گراؤنڈ ، لاہور کینٹ، اپریل ۱۹۸۲ء ۔ص،۱۵۲
۱۳۔ایضاً، ص،۱۵۲
۱۴۔فاروق ارگلی،صنف ریختی پر ایک نظر،مشمولہ ریختی ، مرتبہ فاروق ارگلی ، فرید بکڈپو لمیٹڈ، دہلی ، ۲۰۰۶ء ۔ص، ۹
۱۵۔تمکین کاظمی، سید،لکھنو اور دلی اسکول کے ریختی گوشعراء،مشمولہ ،اردو شاعری کا فنی ارتقاء ، فرمان فتح پوری ، ڈاکٹر، الوقار پبلی کیشنز ، واپڈا ٹاؤن ، لاہور، ۲۰۱۵ء ،ص،۳۷۹
۱۶۔ایضاً، ص،۳۷۹
۱۷۔سلیم اختر ، ڈاکٹر، ریختی کا سماجی و تہذیبی پسِ منظر،مشمولہ ،اردو شاعری کا فنی ارتقاء ، فرمان فتح پوری ، ڈاکٹر، الوقار پبلی کیشنز ، واپڈا ٹاؤن ، لاہور، ۲۰۱۵ء ،ص۳۷۵
۱۸۔تمکین کاظمی، سید،لکھنو اور دلی اسکول کے ریختی گوشعراء،مشمولہ ،اردو شاعری کا فنی ارتقاء ، فرمان فتح پوری ، ڈاکٹر، الوقار پبلی کیشنز ، واپڈا ٹاؤن ، لاہور، ۲۰۱۵ء ،ص،۳۸۰
۱۹۔ایضاً، ص،۳۸۳
۲۰۔سلیم اختر ، ڈاکٹر، ریختی کا سماجی و تہذیبی پسِ منظر،مشمولہ ،اردو شاعری کا فنی ارتقاء ، فرمان فتح پوری ، ڈاکٹر، الوقار پبلی کیشنز ، واپڈا ٹاؤن ، لاہور، ۲۰۱۵ء ،ص،۳۷۶
۲۱۔تمکین کاظمی، سید،لکھنو اور دلی اسکول کے ریختی گوشعراء،مشمولہ ،اردو شاعری کا فنی ارتقاء ، فرمان فتح پوری ، ڈاکٹر، الوقار پبلی کیشنز ، واپڈا ٹاؤن ، لاہور، ۲۰۱۵ء ،ص،۳۸۰
۲۲۔تمکین کاظمی ، مرتب، تذکرہ ٔ ریختی ،شمس الاسلام پریس ، چھتر بازار، حید رآباد دکن ، ۱۹۳۰ء۔ ص،۳۵
۲۳۔کوثر چاند پوری ،ریختی اور اس کے فنکار، مشمولہ ،اردو شاعری کا فنی ارتقاء ، فرمان فتح پوری ، ڈاکٹر، الوقار پبلی کیشنز ، واپڈا ٹاؤن ، لاہور، ۲۰۱۵ء ،ص،۳۹۳
۲۴۔صابرعلی خان ، ڈاکٹر ، سعادت یار خان رنگین ؔ،انجمن ترقی اردو پاکستان ، ۱۹۵۶ء ۔ص، ۴۰۷
۲۵۔مجید یزدانی ، سعادت یار خان رنگین ؔ، مشمولہ ،تاریخ ادبیات مسلمانانِ پاکستان و ہند(ساتویں جلداردو ادب دوم )، پنجاب یونیورسٹی لاہور۱۹۷۱ء ،ص، ۳۱۵
۲۶۔ایضاً، ص، ۳۱۵
۲۷۔سلیم اختر ، ڈاکٹر، ریختی کا سماجی و تہذیبی پسِ منظر،مشمولہ ،اردو شاعری کا فنی ارتقاء ، فرمان فتح پوری ، ڈاکٹر، الوقار پبلی کیشنز ، واپڈا ٹاؤن ، لاہور، ۲۰۱۵ء ،ص،۳۷۵
۲۸۔مجید یزدانی ، سعادت یار خان رنگین ؔ، مشمولہ ،تاریخ ادبیات مسلمانانِ پاکستان و ہند(ساتویں جلداردو ادب دوم )، پنجاب یونیورسٹی لاہور۱۹۷۱ء ، ص، ۳۱۴
۲۹۔ایضاً، ص،۳۳۰
۳۰۔سلیم اختر ، ڈاکٹر، ریختی کا سماجی و تہذیبی پسِ منظر،مشمولہ ،اردو شاعری کا فنی ارتقاء ، فرمان فتح پوری ، ڈاکٹر، الوقار پبلی کیشنز ، واپڈا ٹاؤن ، لاہور، ۲۰۱۵ء ،ص،۳۷۱
۳۱۔ایضاً، ص،۳۶۸
۳۲۔سید احمد دہلوی ، فرہنگ آصفیہ جلد اول ، نیشنل اکاڈمی ، ۹ ، انصاری مارکیٹ ، دریا گنج دہلی ، ص، ۲۱۱
۳۳۔سید احمد دہلوی ، فرہنگ آصفیہ جلد دوم، نیشنل اکاڈمی ، ۹ ، انصاری مارکیٹ ، دریا گنج دہلی ،۱۹۷۴ء ص، ۴۱۳
۳۴۔دیوانِ رنگین و انشا، مرتبہ نظامی بدایونی ، نظامی پریس، بدایون ، س۔ن ، ص، ۴
۳۵۔ایضاً،ص،۲۶            ۳۶۔ایضاً،ص،۲۹             ۳۷۔ایضاً،۳۱،۳۲            ۳۸۔ایضاً،ص،۳۶
۳۹۔ایضاً،ص ،۳۸            ۴۰۔ایضاً،ص، ۴۰            ۴۱۔ایضاً،ص، ۴۱                ۴۲۔ایضاً،ص،۴۵
۴۳۔ایضاً، ص، ۵۰
۴۴۔ایازاحمد،(مرتب)کلیات ریختی،مرکزی ادارہ برائے ہندوستانی زبان ،میسور،انڈیا،۲۰۱۰ء۔ص،۳۲
۴۵۔دیوانِ رنگین و انشا، مرتبہ نظامی بدایونی ، نظامی پریس، بدایون ، س۔ن ،ص،۵۹
۴۶۔ایضاً، ص، ۴۸،۴۹
۴۷۔دیوانِ رنگین و انشا، مرتبہ نظامی بدایونی ، نظامی پریس، بدایون ، س۔ن ، ص،۲۶
۴۸۔ایضاً، ص، ۳۵           ۴۹۔ایضاً، ص، ۴۰            ۵۰۔ایضاً، ص،۴۳           ۵۱۔ایضاً، ص،۴۷
۵۲۔ایضاً، ص، ۵۰            ۵۳۔ایضاً، ص، ۵۲            ۵۴۔ایضاً، ص،۵۳
۵۵۔ایازاحمد،(مرتب)کلیات ریختی،مرکزی ادارہ برائے ہندوستانی زبان ،میسور،انڈیا،۲۰۱۰ء۔ص،۲۶
۵۶۔ایضاً، ص،۳۷
۵۷۔دیوانِ رنگین و انشا، مرتبہ نظامی بدایونی ، نظامی پریس، بدایون ، س۔ن ،ص، ۴۶
۵۸۔ایضاً،ص، ۶۴
۵۹۔ایازاحمد،(مرتب)کلیات ریختی،مرکزی ادارہ برائے ہندوستانی زبان ،میسور،انڈیا،۲۰۱۰ء۔ص،۳۶
۶۰۔سلیم اختر ، ڈاکٹر، ریختی کا سماجی و تہذیبی پسِ منظر،مشمولہ ،اردو شاعری کا فنی ارتقاء ، فرمان فتح پوری ، ڈاکٹر، الوقار پبلی کیشنز ، واپڈا ٹاؤن ، لاہور، ۲۰۱۵ء ،ص،۳۷۶،۳۷۷
۶۱۔صابرعلی خان ، ڈاکٹر ، سعادت یار خان رنگین ؔ،انجمن ترقی اردو پاکستان ، ۱۹۵۶ء ۔ص، ۴۰۸
۶۲۔مجید یزدانی ، سعادت یار خان رنگین ؔ، مشمولہ ،تاریخ ادبیات مسلمانانِ پاکستان و ہند(ساتویں جلداردو ادب دوم )، پنجاب یونیورسٹی لاہور۱۹۷۱ء ،ص، ۳۱۵

اوپر جائیں  |   پرنٹ کیجئےِ
انگریزی ورژن ای میل چیک کریں مرکزی صحفہ پرنٹ پسندیدہ سائٹ بنائیں رابطہ کیجئے www.shahzadahmad.com www.shahzadahmad.com