نازؔ خیالوی :ایک تجزیہ
ڈاکٹر فرحانہ قاضی
ABSTRACT
Naz Khialvi [1947-2010], a broadcaster by profession is less known yet endowed and versatile poet of Urdu language. His poetry book, Lahoe ky Phool [Flowers of Blood] available at Internet Archive, but is so far unpublished in paper form. This article is one of the first attempt to analyses the merits and demerits of his poetry along with introduction of his favorite themes, topics and genres.  Naz available poetry proves his talent in Ghazal, Qawalli and songs writer with sheer tilt in style to classicism of Urdu poetry.
Key Words:   Naz Khialvi; Urdu Poetry; Lahoe ky Phool; Faisalabad
تعارف:
نازؔخیالوی کا اصل نام محمد صدیق تھا لیکن ناز خیالوی کے قلمی نام سے شہرت پائی۔ ناز ۱۹۴۷ء کے تاریخی سن میں تانداں والہ، فیصل آباد، پنجاب پاکستان کے ایک قصبے خیالی میں پیدا ہوئے اور ۱۲دسمبر ۲۰۱۰ءکو وفات پائی۔ حجرۂ صابری کنجا وانی نزد تانداں والہ میں مدفون ہیں۔ ناز پیشے کے لحاظ سے ریڈیو نژکار یعنی Broadcaster تھے۔ ۲۷برس کے طویل عرصے تک ریڈیو فیصل آباد سے ”صندل دھرتی“ کے نام سے ایک پنجابی پروگرام کی میزبانی کرتے رہے لیکن ناز کا اصل کمال گیت نگاری، قوالی اور غزل گوئی ہے۔ اگرچہ کسمپرسی اور مالی زبوں حالی کے باعث ان کی رسائی اُن حلقوں تک نہ ہوسکی جو ان کے فن کو شہرت سے ہمکنار کرتے مگر مقامی سطح پر ادبی حلقوں میں ان کی پذیرائی ایک باکمال غزل گو کے طور پر ہوتی رہی۔
اُردو کے اس باکمال غزل گو کے کلام کو ان کی زندگی میں اور بعد ازاں بھی، تاحال طباعت کے مراحل تک پہنچنا نصیب نہیں ہوا لیکن سماجی رابطے کی ویب سائیٹ فیس بُک اور گوگل کروم پر اُن کے ایک شاگرد اور چند خیر خواہوں نے ان کے کلام کو منظر عام پر لا کر اُردو ادب کے قاری تک پہنچانے کی کوشش کرکے ان کی خوبصورت شاعری کا حق ادا کرنے کا بیڑا اُٹھایا ہے۔ سوشل میڈیا کے ذریعے ایک بڑی تعداد ان کے فن سے متعارف ہوچکی ہے اور بدستور ہو رہی ہے۔ پچھلے کچھ عرصے میں ان کے شاگردوں اور واقف کاروں کا ایک گروہ اس کوشش میں ہے کہ ان کے کلام کو کتابی صورت میں معنہ شہود پر لایا جائے۔ البتہ عکسی اور برقی صورت میں ان کا مجموعہ ”لہو کے پھول“ فیس بُک پر موجود ہے۔ زیرِ نظر مقالہ اسی ماخذ کے ذریعے ان کے کلام کے ایک عمومی تعارف اور مطالعے پر مبنی ہے۔
کلیدی الفاظ:
نازخیالوی، لہو کے پھول، روایتی اور جدید طرزِ تغزل، عصری اور تاریخی شعور، منفرد لب و لہجہ

 

 


         شعر اپنے آغاز سے لے کر لمحہ موجود تک انسان کے احساسات و جذبات ، قلبی واردات اور ماحول میں پنپنے والے واقعات کے اثرات کو قبول کرکے ان کی بابت ذاتی تاثرات کے بیان کے لیے مشہور ہے۔ عالمی ادبیات میں شاعری کی انفرادی خوبی ہی یہی ہے کہ یہ قلب انسانی کے احساسات کے بے ساختہ اظہار کا نام ہے ۔ یوں تو افسانہ نویس، ناول نگار،کہانی کار غرض ادب کے کسی بھی صنف پر طبع آزمائی کرنے والا فنکار احساسات و خیالات اور تاثرات ہی کی عکاسی کرتا ہے لیکن شعر کا خاصہ یہ ہے کہ اس میں احساس اور جذبہ اپنی خالص صورت میں تغزل اور درد مندی کے ساتھ پیش کیا جاتا ہے لیکن ایسے رچے ہوئے پیرائے میں ، جو دیگر اصناف میں ممکن نہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ اولین دور سے لے کر آج تک وہی شاعر قد آور تسلیم کیے گئے جنہوں نے قلب انسانی پر بیتنے والی کیفیت کی عکاسی مخصوص دل آویز اور دل موہ لینے والے انداز میں کی ہے۔ شاعری وارداتِ قلبی اور سماجی درد کو آمیز کرکے رچے ہوئے انداز میں الفاظ کے مخصوص دروبست کا نام ہے جو علامتی اور استعاراتی سطح پر پہنچ کر آپ بیتی کو جگ بیتی کے رنگ میں سامنے لاتی ہے۔ اس زاویے سے نازخیالوی کی شاعری کا مطالعہ کیا جائے تو ناز روایت اور تجزیے کو باہم آمیز کرکے شعر کہنے والے فنکار کے طور پر سامنے آتے ہیں ۔ ان کی شاعری اسلوبیاتی اور موضوعاتی سطح پر اگر ایک طرف انفرادی تجربے کی عکاس نظر آتی ہے تو دوسری طرف روایت سے جڑے رہنے کا حوالہ بھی ملتا ہے۔ ان کا مجموعہ (جو تاحال کتابی صورت میں نہیں آسکا) لہو کے پھول کا مطالعہ کیا جائے تو نازخیالوی کی شاعری کی کئی خصوصیات واضح ہوتی ہیں۔
اُن کے اشعار میں غزل کی روایت کے بڑے ناموں یعنی ولی دکنی، میر، درد، داغ، غالب، آتشؔ، مومنؔ، حالیؔ، امیرؔ، جوہر، اقبالؔ، حسرتؔ، فیضؔ اور فرازؔ  کے تغزل کی ایک رچی ہوئی صورت ملتی ہے اور معلوم ہوتا ہے کہ وہ اس پوری روایت سے نہ صرف یہ کہ شناسائی رکھتے ہیں بلکہ اس کو ساتھ لے کر آگے بڑھتے ہیں لیکن اس طرح کہ اس کا شعوری سطح پر احساس نہیں ہوتا البتہ قاری اُردو شاعری کے پورے منظر نامے کو اپنے سامنے سانس لیتے محسوس ضرور کرتا ہے۔ اس رُخ سے ان کی شاعری کا مطالعہ کیا جائے تو کئی ایک خصوصیات ملتی ہیں ان کے ہاں روایتی  اُردو شاعری کے کم و بیش تمام تر پختہ رنگ اپنی نکھری ہوئی صورت میں ملتے ہیں مثلاً خود داری و غیرت مندی کا احساس، عصری اور انسانی تاریخ کا عمیق مگر ہمدردانہ شعور، نا اہل طبقے کا برسرِ اقتدار آنا اور دادِ ستم دینا، انسانی عظمت کا احساس اور انسان کا نوعِ انسانی ہی کے ہاتھوں ذلیل و خوار ہونا، حساسیت و درد مندی، وطن سے وفاداری اور محبت، حق پرستی و حق گوئی، آئندہ پیش ہونے والے حالات  کاوقت سے پہلے ہی احساس ہونا، اپنا اور اپنے جیسے لوگوں کی بے دری اور بے گھری کا درد محسوس کرنا، ناقدریٔ زمانہ، غم دوراں اور غم جاناں کا تاسف و افسوس، غریبوں، ناداروں اور مظلوم طبقے کا ظلم و جور کی چکی میں مسلسل پستے رہنا، اخلاقیات اور مذہبی اقدار کی پاسداری، سخت سے سخت حالات اور عہد ظلمت میں زندگی جینے کا حوصلہ، امید و رجا کا دامن نہ چھوڑنا، زندگی کی حقیقت اور نوعیت پر غور و فکر، عارفانہ اور صوفیانہ طرزِ احساس، اور پھر امن اور سکون و راحت کے لیے انسانی خواہش کی شدت یہ سب وہ موضوعات ہیں جن کو نازؔ خیالوی نے اپنے جداگانہ اسلوب میں اس مہارت سے پیش کیا ہے کہ قاری اُن کے فن کا معترف ہوجاتا ہے اور اس چیزکا شعور اُنہیں خود بھی ہے اس لیے فرماتے ہیں:

 

لایا ہوں بزمِ شعر کی تزئین کے لیے
اشعار میرے سوچ کی جنت کے پھول ہیں


(۱)

 

 

 

 

شوکتِ فن کی قسم، حسنِ تخیّل کی قسم
دل کے کعبے میں اذاں ہو تو غزل ہوتی ہے


(۲)

 

 

 

 

نسلِ آئندہ کا بھی ہمدم دمساز ہوں میں
میرا فیضانِ ہنر اگلے زمانوں تک ہے


(۳)

         نسل آئندہ کا یہ ہمدم و دمساز نازؔ خیالوی ایک صاحب ِ کمال اور جرأت مند فنکار کے طور پر جو شعر کہتا ہے وہ اپنے اندر خاصے کی چیز ہے اور ادب و تحقیق کے طالب علم کے لیے اہمیت کا حامل بھی۔
ان کی شاعری کا موضوعاتی تجزیہ کیا جائے تو وہ چیز جو نمایاں نظر آتی ہے وہ ان کا تاریخ اور اپنے عصر کا پختہ اور کھرا شعور ہے۔ ان کے ہاں بیسویں اور اکیسویں صدی کا وہ مشرقی فرد اپنے پورے فہم و ادراک اور جذبہ و احساس کے ساتھ سانس لیتا ملتا ہے جو آج کے معاشرے کا ایک ذمہ دار اور حساس فرد قرار دیا جاسکتا ہے۔ وہ فرد جو ایک طرف وقت کی تیز رفتاری کا شکار زندگی کی بھول بھلیاں میں گم اور حیران و فکر مند کھڑا ہے تو دوسری طرف زمانے اور اہل زمانہ کے ہاتھوں خستہ و دلگیر بھی ہے۔ یہ ایک ایسا رانجھا ہےجو عصرِنو کے جھنگ میں حالات کا مارا ہوا ہے ،مفلسی جس  کی ہیر اور بھوک جس کی چوری ہے۔ ایسا فرد جو جانتا ہے کہ حالات کی اوج سے پتھر للکار للکار کر کہہ رہے ہیں کہ جو بھی سر اُٹھانے کی جسارت کرے گا اس کا سر سلامت نہ رہے گا۔ جسے معلوم ہے کہ جیب خالی ہو تو زندگی کے میلے سے نکل جانا اوردور ہوجانا  ہی بہتر ہے ۔ یوں اگر روح مردہ ہو تو جینے ہی کی حماقت نہیں کرنی چاہیے۔
اس فرد کا المیہ یہ ہے کہ اسے اچھی طرح سے معلوم ہے کہ زمانہ اپنے ساتھ کیا کیا ستم لا رہا ہے اور انسان اپنے اور اپنے ہم زادوں کے ہاتھوں انقلاب حال کی وہ بہار دیکھ رہا ہے کہ جس میں ہر پھول کے سینے میں خار پیوست ہے اور ایسی آمد فصل بہار ہوئی ہے کہ ہر کلی کی قبا تار تار ہوگئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس کا شوق مصوری بھی ادھورا رہ جاتا ہے۔ لہٰذا یہ تصویر تو بناتا ہے مگر اس ٹہنی بناچکنے کے بعد پرندہ بنانے کی جرأت اپنے میں نہیں پاتا اور وجہ اور کچھ نہیں بس شکاری کا خوف ہے۔ وہ شکاری جو تزئین گلستان کے بہانے باغ میں پھولوں کو تہس نہس کرنے کے ساتھ پرندوں کا بھی شکار کرتا ہے۔
یہ ایسا فرد ہے جو حالات کے ہاتھوں اس قدر مجبور ہو گیا ہے کہ بچوں کی حسرتوں کو پورا کرنے کے لیے اپنی بیاض بیچ ڈالتا ہے تاکہ اس کے بچے ٹیلی ویژن دیکھنے کے لیے غیر کے گھر نہ جائیں۔ عصری شعور اور تاریخی حوالے سے نازؔ کی فکر اتنی پختہ ہے کہ ایک آدھ شعر تو اپنے اندر پوری پوری داستانیں لیے ہوئے ہے۔ مثلاً ان کے ہاں سقوطِ ڈھاکہ اور سانحۂ مشرقی پاکستان سے متعلق ایسے اشعار ملتے ہیں جن میں ان واقعات کی پوری تفصیل محض دو مصرعوں میں مل جاتی ہے۔

 

 کیے ہیں کتنی بے دردی سے کچھ سفاک لوگوں نے
قلندر کے مقدس خواب کی تعبیر کے ٹکڑے


(۴)

         مذکورہ شعر میں تحریک پاکستان، اقبال کے خواب، قرار دادِ پاکستان، آزادیٔ ہند اور پھر اپنوں  کی عاقبت نا اندیشی اور غیروں کے مکر کی پوری کہانی کو نہایت فنکاری و چابکدستی سے بیان کیا گیا ہے۔ اس سلسلے میں ذیل کے اشعار بھی ملاحظہ کیے جاسکتے ہیں:


؂

اِدھر اپنوں کی عیاری، اُدھر غیروں کی مکاری
نہ یہ پہلو سلامت ہے نہ وہ پہلو سلامت ہے


(۵)

 

 

 

؂

نفرتیں جو بو رہے ہو عبرتیں کاٹو گے تم
اپنے ہاتھوں ہی سے اپنی شہ رگیں کاٹوگے تم


(۶)

         ان اشعار کے مطالعے کے بعد نازؔ کا فکر اور فن اُردو کے کسی بھی منجھے  ہوئے غزل گو سے کم معلوم نہیں ہوتا۔ ان کے ہاں تاریخ سے آگہی کا بھی ایک مضبوط حوالہ ملتا ہے جس نے ان کی فکر کو پختگی بخشی ہے۔ ان کے اشعار پڑھ کر واضح ہوتا ہے کہ انہیں دنیا کی معلوم تاریخ کے تمام نمایاں واقعات اور خاص طور پر تہذیب اور مذہب بالخصوص اسلام کے تاریخی ورثے سے پوری شناسائی حاصل ہے۔ جس کی کامیاب پیش کاری سے انہوں نے اپنی شاعری کو کلاسیکی روایت سے جوڑنے کی پوری کوشش کی ہے۔ اس ضمن میں ذیل کے اشعار ملاحظہ کیے جاسکتے ہیں:

 

نسلِ نو خیز تجھے اپنی بقا کی خاطر
اپنے اسلاف کے اسلوب میں ڈھلنا ہوگا


(۷)

 

 

 

 

ہیں قلم ہو کے بھی، مصروف علمداری میں
حشر تک حضرت عباس کے بازو برحق


(۸)

 

 

 

 

کیا تر و تازہ تھا تشنہ کامیوں کے درمیاں
ابنِ حیدر، کوفیوں اور شامیوں کے درمیاں


(۹)

نازؔ کے ہاں عصری شعور بھی ایک واضح خصوصیت کے طور پر موجود ہے ۔ ذیل کے اشعار سے اس کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے:

 

جیب خالی ہو تو میلے سے نکلنا بہتر
روح مردہ ہو تو جینے کی حماقت نہ کرے

 

 

اوجِ حالات سے للکار رہے ہیں پتھر
کوئی بھی سر کو اُٹھانے کی جسارت نہ کرے

 

 

حاکم وقت کرے عدل کی تعظیم اگر
کوئی مجرم کبھی توہین عدالت نہ کرے

 

 

میرے افکار پہ سائنس کا غلبہ ہی سہی
ہاں مگر میرے عقائد پہ حکومت نہ کرے


(۱۰)

 

 

 

 

خیر ہو اے ملتِ نو ترے حسن فکر کی
رکھ دیا تہذیب تو نے ناچنے گانے کا نام


(۱۱)

 

 

 

 

جو میرے تنزل کا سبب آج بنی ہے
جاری مرے بچوں میں وہ تعلیم نہ کرنا


(۱۲)

ان اشعار میں نازؔ خیالوی کا عصری شعور اور معاشرتی عکاسی اپنی پوری فنکارانہ پختگی کے ساتھ ملتی ہے۔ جس طرح کے رواں لہجے اور بیانیہ اسلوب میں انہوں نے عصرِ حاضر کا نوحہ بیان کیا ہے ، یہ ایک چابکدست فنکار ہی کا کام ہے۔ ان اشعار کے مطالعے سے واضح ہوتا ہے کہ شاعر انپی تخیلاتی دنیا کا باسی نہیں بلکہ اپنے اردگرد سانس لیتی انسانیت کی حقیقی دنیا میں جینے والا فرد ہے جو معاشرتی تلخیوں اور حالات کی ستم ظریفیوں سے خوب واقف ہے اور جو ایک حساس فنکار ہونے کے ناطے ان واقعات و معاملات کی باریکیوں پر نگاہ رکھے ہوئے ہی نہیں ہے بلکہ ان کو اپنے شعور اور احساس کے ساتھ آمیز کرکے ایک دلنشین پیرائے میں بیان کرنے کی قدرت بھی رکھتا ہے۔ نازؔ کا  کم و بیش تمام تر کلام اسی خصوصیت کا حامل ہے جس میں سے چند ایک اشعار ذیل میں مزید درج کیے جاتے ہیں:

 

شوق مصوری بھی، شکاری کا خوف بھی
ٹہنی تو بن گئی تھی، پرندہ نہیں بنا

(۱۳)

 

 

 

 

پیوست پھول پھول کے سینے میں خار ہے
یہ انقلابِ حال کی پہلی بہار ہے
سنتے رہو کہ آمدِ فصلِ بہار ہے
لیکن کلی کلی کی قبا تار تار ہے

 

(۱۴)

 

 

 

 

بیچ دوں گا میں بیاضِ شعر بچوں کے لیے
غیر کے گھر جائیں کیوں وہ ٹیلی ویژن دیکھنے


(۱۵)

 

 

 

 

نقیب حق کا ہوں میں عصرِ نو کے کوفے میں
یزیدِ وقت کا خنجر مری تلاش میں ہے


(۱۶)

 

 

 

 

عصرِ نو کے جھنگ میں حالات کا رانجھا ہوں میں
ہیر میری مفلسی ہے، بھوک ہے چُوری میری


(۱۷)

مذکورہ اشعار میں اگر ایک طرف انفرادی وارداتِ قلب اور داخلی دنیا کے سود و زباں کی عکاسی ملتی ہے تو دوسری طرف حالات کے جبر اور خارجی عوامل و وقائع کا بیانیہ بھی ملتا ہے۔ یوں نازؔ کی شاعری میں کسی فکری تشنگی کا احساس نہیں ہوتا بلکہ ایک سچے فنکار  کی طرح ان کے ہاں عصری حالات اور لمحۂ موجود کے مکمل شعور  اور شعار کا نوحہ سنائی دیتا ہے۔ وہ نہ صرف ایک نباض کی طرح دُکھتی رگوں پر ہاتھ رکھتے ہیں بلکہ معاشرے کے جسم میں موجود مرض کی نشاندہی کرتے ہوئے اس کے لیے علاج بھی تجویز کرتے ہیں۔ جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ فن برائے زندگی کے اصول سے نہ صرف واقف ہیں بلکہ اس کے علمبردار بھی ہیں اور اس پر قادر بھی۔ لیکن اس طور سے کہ ان کو اپنے فن کی صحت کا بھی احساس ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حالات کی ستم ظریفیوں اور وقت کے جبر سے ملنے والی تلخیوں کا ذکر کرتے ہوئے شعر کا نازک پیکر مجروح نہیں ہونے دیتے۔ مذکور بالااشعار میں کس فنکاری سے انہوں نے تہذیبِ عصر حاضر کے بُودے معیار کی قلعی کھولی ہے اور کس طرح جدید تعلیم کے نام پر لائے جانے والے مریضانہ اور زوال دوست نصاب اور طریقۂ تعلیم کی مذمت کی ہے اور پھر کس خوبصورتی کے ساتھ یہ سمجھایا ہے کہ تہذیبی اقدار کی باز آفرینی کے لیے اجداد کے اسلوب میں ڈھلنا ہوگا۔
نازؔ خیالوی کی پختہ فکری کی دیگر مثالیں ملاحظہ کریں:

 

کیا بات ہے ہر دور میں کیوں تیرے کرم سے
محروم ترے چاہنے والے ہی رہے ہیں


(۱۸)

نازؔ خیالوی کے ہاں عارفانہ اور صوفیانہ نیز درویشانہ طرزِ فکر بھی واضح اور عمیق صورت میں موجود ہے بلکہ اس سلسلے میں نازؔ  اُردو کی کلاسیکی غزل کے صف اوّل کے غزل گو میر دردؔ کی روایت کی کڑی معلوم ہوتے ہیں جن کے لیے تصوف و معرفت اور طرزِ درویشی قال نہیں بلکہ حال کا درجہ رکھتی تھی۔ نازؔ کی شاعری پڑھ کر بھی ایسا لگتا ہے کہ انہوں نے اس طرز کے اشعار برائے شعر گفتن نہیں کہے بلکہ وہ حقیقی معنوں میں ایک درویش صفت فنکار ہیں۔ ان کے جو تھوڑے بہت سوانحی حالات معلوم ہوئے ہیں ان سے واضح ہوتا ہے کہ اپنے اشعار  میں انہوں نے جن صوفیانہ اور درویشانہ موضوعات کو جگہ دی ہے وہ ان کی زندگی کا وطیرہ رہے ہیں اور ان کو انہوں نے محض موضوعات کے طور پر نہیں برتا بلکہ پہلے ان کو خود زندگی میں برتا اور بعد میں شعر بنایا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نازؔ کا اصل کمال انہی عارفانہ اور صوفیانہ اشعار میں رکھتا ہے۔ اس سلسلے میں ان کی مقبول عام قوالی جو عالمی شہرت یافتہ  قوال نصرت فتح علی خان نے گائی ہے  ایک مثال کا درجہ رکھتی ہے۔ جس کا عنوان ہے "تم اک گورکھ دھندہ ہو" یوں تو یہ مکمل نظم نازؔ کے نظریۂ معرفت و تصوف پر مبنی ہے اور اس میں ان کا عارفانہ تصور کھل کر پیش ہوا ہے لیکن ذیل میں اس کا صرف چند ایک بند نقل کیے جاتےہیں جس سے اس پوری نظم کا مزاج سمجھنے میں مدد ملے گی:

 

دل پہ حیرت نے عجب رنگ  جما رکھا ہے
ایک الجھی ہوئی تصویر بنا رکھا ہے
کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ چکر کیا ہے
کھیل کیا تم نے ازل سے یہ رچا رکھا ہے
روح کو جسم کے پنجرے کا بنا کر قیدی
اس پہ پھر موت کا پہرا بھی بٹھا رکھا ہے
دے کے تدبیر کے پنچھی کو اُڑانیں تم نے
دامِ تقدیر پر بھی ہر سمت بچھا رکھا ہے
کرکےآرائیش کونیں کی برستوں تم نے
ختم کرنے کا بھی منصوبہ بنا رکھا ہے
لا مکانی کا بہر حال ہے دعویٰ بھی تمہیں
نحنُ اَقرَبُ کا بھی پیغام سُنا رکھا ہے
یہ برائی وہ بھلائی یہ جہنم وہ بہشت
اس الٹ پھیر میں فرماؤ تو کیا رکھا ہے
جرم آدم نے کیا اور سزا بیٹوں کو
عدل و انصاف کا معیار بھی کیا رکھا ہے
دے کے انسان کو دنیا میں خلافت اپنی
اک تماشا سا زمانے میں بنا رکھا ہے
اپنی پہچان کی خاطر ہے بنایا سب کو
سب کی نظروں سے مگر خود کو چھپا رکھا ہے

 

 

 

تم اِک گورکھ دھندہ ہو

 

نت نئے نقش بناتے ہو مٹا دیتے ہو
جانے کس جرم تمنا کی سزا دیتے ہو
کبھی کنکر کو بنا دیتے ہو ہیرے کی کنی
کبھی ہیروں کو بھی مٹی میں مِلا دیتے ہو
زندگی کتنے ہی مردوں کو عطا کی جس نے
وہ مسیحا بھی صلیبوں پہ سجا دیتے ہو
خواہش دید جو کر بیٹھے سر طور کوئی
طور ہی برقِ تجلی سے جلا دیتے ہو
نارِ نمرود میں ڈلواتے ہو خود اپنا خلیل
خود ہی پھر نار کو گلزار بنا دیتے ہو
چاہِ کنعان میں پھینکو کبھی ماہِ کنعاں
نور یعقوب کی آنکھوں کا بُجھا دیتے ہو
بیچ یوسف کو کبھی مصر کے بازاروں میں
آخر کار شہِ مصر بنا دیتے ہو
جذب و مستی کی جو منزل پہ پہنچتا ہے کوئی
بیٹھ کر دل میں انا الحق کی صدا دیتے ہو
خود ہی لگواتے ہو پھر کفر کے فتوے اس پر
خود ہی منصور کو سولی پہ چڑھا دیتے ہو
اپنی ہستی بھی وہ اک روز گنوا بیٹھتا ہے
اپنے درشن کی لگن جس کو لگا دیتے ہو
کوئی رانجھا جو کبھی کھوج میں نکلے تیری
تم اسے جھنگ کے بیلے میں رلا دیتے ہو
جستجو لے کے تمہاری جو چلے قیس کوئی
اس کو مجنوں کسی لیلیٰ کا بنا دیتے ہو
سوہنی گر تم کو مہیوال تصور کرے
اس کو بپھری ہوئی لہروں میں بہا دیتے ہو
خود جو چاہو تو سرِ عرش بُلا کر محبوب
ایک ہی رات میں معراج کرا دیتے ہو
تم اک گورکھ دھندہ ہو
آپ ہی اپنا پردہ ہو
تم اک گورکھ دھندہ ہو

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 



(۱۹)

ان اشعار میں نازؔ نے جذب و معرفت کی جو تہہ در تہہ باریکیاں بیان کی ہیں وہ قال نہیں حال کا حاصل قرار دی جاسکتی ہیں اور اس میں اُن کے طرزِ زیست کا بڑا ہاتھ ہے ۔ جاننے والے جانتے ہیں کہ وہ ایک صاحب ِ دل درویش منش فرد تھے  جنہوں نے تمام تر مالی اور معاشی بدحالی کے باوجود اپنی فقیری اور درویشانہ طرزِ بود و باش کا وقار مجروح نہیں ہونے دیا اور ایک سچے عارف کے رنگ میں زندگی کے ماہ و سال گزار دیے۔ انہوں نے اپنے اشعار میں پیش کردہ اپنے عقائد و نظریات اور افکار و خیالات کے مطابق اپنی زندگی کے اصول وضع کیے اور عمر بھر ان کے ساتھ نبھاہ  کرتے رہے بلکہ درست طور پر کہا جائے تو یہ کہ اُن کا بھرم رکھنے کی حتی الوسع کوشش کرتے رہے۔ کیونکہ وہ جانتے تھے کہ اصل شعور و آگہی معرفت اور تلاش حق میں ہی ملتی ہے۔ لہٰذا فرماتے ہیں:

 

عشق کا گر مرید ہوجائے
علم، خواجہ فرید ہوجائے
آگہی کے نگار خانے میں
روشنی کچھ مزید ہوجائے

 


(۲۰)

معرفت و حق شناسی کے اس بیان میں نازؔ کے مذہبی شعور کو بھی دخل ہے۔ اُن کا ذہن ایک مثبت مذہبی عقیدہ رکھنے والا ذہن معلوم ہوتا ہے جس کی تربیت اور ساخت میں مذہبی  رنگ واضح اور نمایاں طور پر کار فرما ہے۔ اُن کے کلام کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ مذہب کے نام  پر چند رسومات و توہمات پالنے والے فرد نہیں بلکہ صحت مند مذہبی شعور رکھنے والے فرد تھے۔ انہیں مذہب کے بنیادی اصولوں اور اصل اقدار کا علم تھا اور وہ انہیں نہ صرف اپنی زندگی میں لاگو کرنے کی کوشش کرتے رہے بلکہ اشعار میں بھی پیش کرتے ہیں۔ ان کے درج ذیل اشعار کو پڑھ کر واضح ہوتا ہے کہ اُن کا مذہبی شعور کس قدر پختہ اور حقیقت پسند ہے:

 

وہ بلندی کے ہر مسافر کو
امتحاناً نشیب  دیتا ہے


(۲۱)

 

 

 

 

نکال پھینکو دلوں سے بتانِ بغض و عناد
نہیں تو حلقۂ اسلام سے نکل جاؤ


(۲۲)

 

 

 

 

رائیگاں جائے گی بے روح عبادت نہ کرے
بے عمل شخص کسی کو بھی نصیحت نہ کرے


(۲۳)

 

 

 

 

یوں بجھا کر نہ اُمیدوں کے ستارے جاؤ
سن ہی لے گا وہ کبھی اس کو پکارے جاؤ
قرض جتنے ہیں سرِ خاک اُتارو سر سے
اس سے پہلے کہ تہہِ خاک اُتارے جاؤ




(۲۴)

مذہبی حوالے سے نازؔ کے کلام میں اُن کی پختہ عقیدی اور مذہبی شعور بھی ملتا ہے۔ ان کے شعروں سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک صاحبِ ایمان فرد کی طرح اور صحت مند مذہبی سوچ رکھنے والے کے طور پر انہیں انسان اور خدا کے تعلق ،اس تعلق کے قواعد و ضوابط، لوازمات اور حدود کا اندازہ ہے اور انہیں اس بات کا یقین ہے کہ مذہب چند روایتوں اور رسوم کا نام نہیں بلکہ ایک ضابطۂ حیات اور نظام ِ حیات کا نام ہے۔ اس کا تعلق چند رسومات سے نہیں بلکہ اعمال کے ایک ایسے مجموعے سے ہے جس کا ایک زاویہ معاشرتی ذمہ داریوں کی طرف بنتا ہے تو دوسرا زاویہ فرد کے اندرون میں موجود کیفیات و احساسات اور اعتقادات و اعمال سے بنتا ہے۔ لہٰذا جب تک فرد ان دونوں زاویوں سے واضح پر تیقن اور آگاہ  نہ ہو تو اس کا مذہبی تصور مکمل نہیں ہوتا۔ اس حوالے سے ان کے کلام میں بے حد معنی خیز او ر معنی آفریں اشعار ملتے ہیں۔ ذیل میں ان کو ملاحظہ کریں۔

 

گو نہیں دیکھا مگر وائے خلوصِ بندگی
مانتا ہوں نازؔ میں اُس کو خدا جیسا بھی ہے


(۲۵)

 

 

 

 

دریچے رحمتوں کے نازؔ مجھ پر کھلتے جاتے ہیں
مجھے جوں جوں گناہوں پر ندامت ہوتی جاتی ہے


(۲۶)

 

 

 

 

عقل والوں کو نشاں بھی نہیں ملتا اس کا
عشق والوں کی پہنچ اس کے ٹھکانے تک ہے


(۲۷)

 

 

 

 

محروم ہی رہوگے مرادوں کی دھوپ سے
جب تک کہ نیتوں میں  خلل کا درخت ہے


(۲۸)

 

 

 

 

احساسِ جرم کتنا بہار آفریں ہے تو
پلکوں کی ٹہنیوں پہ ندامت کے پھول ہیں


(۲۹)

مضبوط اعتقادی نظام نے نازؔ کے فکر کو چند ایسی خاصیتیں فراہم کی ہیں جس کی بنیاد پر اُن کا کلام ایک تو انا آواز کی صورت میں  اُردو ادب میں اپنی شناخت کراتا ہے۔ مثلاً اُن کے ہاں ایک واضح احساس خود داری اور غیرت مندی محسوس ہوتی ہے ۔ ایسی خود داری اور غیرت مندی کہ وہ سر تو کٹا دیتے ہیں مگر دستار اُترنے نہیں دیتے اور یہ اس وجہ سے کہ وہ جانتے ہیں کہ ہاتھ پھیلانے کے بعد ہستی تو رہ جائے گی مگر انا نہیں رہے گی ۔ یہی وجہ ہے کہ وہ آرزو کو لفظ کی پوشاک پہنانے سے گریز کرتے ہیں تاکہ انہیں اپنا آپ برہنہ نہ لگے۔ نیز وہ دربار سے نکال دیا جانا تو قبول کرلیتے ہیں مگر اس رنگ میں رنگنا نہیں چاہتے جو بادشاہِ وقت کی خواہش اور حکم ہے۔ ایسا کرنے کی وجہ یہ ہے کہ اُن کی غربت غیرت کے قرینے میں ڈھلی ہوئی ہے اس لیے وہ فاقے  تو قبول کرلیتی ہے مگر کسی در کی سوالی نہیں رہنا چاہتی۔ نازؔ کی انا اور خود داری کا اندازہ اس چیز سے لگایا جاسکتا ہے کہ وہ اشعار کی داد بھی تالی کی صورت میں نہیں چاہتے کیونکہ اُن کے مطابق اچھے شعر کی داد اور قیمت تالی نہیں ہوتی بلکہ دادِ سخن کا معیار تو اُن کی نظر میں حرفِ صداقت کو ببانگ دل ادا کرنا اور بصد تکریم قبول کرلینا ہے۔
اُن کے اشعار کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ اُن کے لیے خود داری و غیرت مندی کی معراج یہ ہے کہ انسان کو اگر بہرطور مرنا ہے تو پسپا ہو کر کیوں مرا جائے، کیوں نہ لڑتے ہوئے مرا جائے۔ احساسِ انا کو توانا رکھنے کی خاطر ہی وہ تلقین کرتے ہیں کہ ارباب زر سے رابطہ رکھنا چھوڑ دیا جائے۔ حالانکہ مفلسی کا عالم یہ ہے کہ جرمِ طلب پر مسلسل مجبور کر رہی ہے لیکن ان سے ہنر کے ساتھ غداری نہیں ہوتی۔ اس غداری کے وہ قائل اس لیے بھی نہیں کیونکہ ان کے خیال میں حرفِ صداقت دربار کے ماتھے پر لکھوایا جائے تو جچتا نہیں ہے۔ چنانچہ وہ ایوانوں کی طرف کبھی حسرت سے نہیں دیکھتے، انہیں اس بات کا بھی ادراک ہے کہ ان کی روح زخم کھا کھا کر نکھر گئی ہے اور متاع ہوش لٹاکر انہیں شعور ملا ہے اور اس شعور نے ان کے شعروں کو گلستانِ غزل کی دلنشیں کلیاں بنا دیا ہے اور یہ بات اُ نہوں نے اپنے استاد احسان دانشؔ سے سیکھی ہے ۔ کم از کم وہ اپنے کلام میں تو ایسا ہی دعویٰ کر رہے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ انہوں نے فاقوں کے ہاتھوں تنگ آکر شعر کی اقلیم کو نیلام نہیں کیا۔ یعنی اپنے استاد کے مطابق و ہ عظمت فن میں امر ہوگئے اور دولت سے ہار نہیں مانی۔
نازؔ کے ہاں فکری سطح پر اس انتہا درجے کی خودداری اور غیرت مندی کا سبب یہ ہے کہ وہ عظمت انسان کے علمبردار ہیں اور انہیں بنی نوع انسان کے تقدس و احترام کا حددرجے احساس ہے لہٰذا اُن کا دل و دماغ اور اُن کا احساس  و شعور برداشت نہیں کرسکتا کہ مجبوریوں میں اور جاہ و حشم کے حصول کے لیے انسان اپنی عظمت کو داؤں پر لگا دے۔ بلکہ اس کے برعکس وہ ہر حال میں جینے کا حوصلہ بحال رکھنے کی بات کرتے ہیں اور مشکل سے مشکل حالات میں بھی امید و رجا کا دامن تھامے رکھنے کی تلقین کرتے ہیں۔ نیز وہ حق پرستی اور حق کا بول بالا ہونے کا تصور بھی رکھتے ہیں اور روشنی کو حق کی علامت سمجھ کر اس کی ستائش کرتے ہیں چاہے وہ کسی بھی روپ میں کیوں نہ ہو۔ حق پرستی ہی کی وجہ سے وہ کربلا کے واقعے کو انسانی تاریخ اور ورثے کا مینارۂ نور قرار دیتے ہیں اور اس کی روشنی کو نہ ختم ہونے والا سرمایہ قرار دیتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ قلندر جب بھی تکبیر بلند کرتے ہیں تو وقت کے خیبر میں دراڑیں پڑجاتی ہیں اور انہیں یہ بھی معلوم ہے کہ جس قدر بھی ان کا راستہ روکا جائے آفتاب اور ماہتاب اپنی روشنیوں کا سفر جاری رکھتے ہیں اور بارہا موجوں کے ہاتھوں ٹوٹنے کے بعد بھی حباب دریا کی سطح پر اپنا سفر جاری رکھتے ہیں۔ لہٰذا وہ حق پرستی کی حمایت کا نعرہ بلند کرتے ہوئے ظلم کے کلاف آواز اُٹھانے کی ترغیب دیتے ہیں۔ البتہ اس سلسلے میں وہ آنے والے حالات کی سختی اور ابتلاؤں سے بھی باخبر ہیں ۔ وہ جانتے ہیں کہ اس حق پرستی کی قیمت انسانیت بہت عرصے تک اور بہت بھاری صورت میں ادا کرے گی بلکہ کہیں کہیں تو ایسا لگتا ہے کہ انہوں نے جدید دنیا یعنی اکیسویں صدی کے موجودہ اور آئندہ پیش آنے والے حالات کی پوری پوری پیشن گوئی کردی ہو اور یہ ایک بڑے فنکار کا کمال ہوتا ہے کہ وہ وقت کی نبض پر ہاتھ رکھ کر بتاسکتا ہو کہ آنے والا وقت اپنے ساتھ کیا کیا امکانات لائے گا یا لاسکتا ہے۔ ان تمام حوالوں  سے نازؔ کے ہاں بیسیوں  اشعار ملتے ہیں جن میں سے چند ایک نمونے کے طور پر درج کیے جا رہے ہیں:

 

بہت مہنگی پڑے گی پاسبانی تم کو غیرت کی
جو دستاریں بچا لیتے ہیں ان کے سر نہیں رہتے
پٹخ دیتا ہے ساحل پر سمندر مردہ جسموں کو
زیادہ دیر تک اندر کے کھوٹ اندر نہیں رہتے




(۳۰)

 

 

 

 

جب اپنے زورِ بازو پر بھروسہ کرلیا میں نے
جو چاہا پالیا میں نے جو چاہا کرلیا میں نے
بڑوں سے مل کے چلنے کا یہی نقصان کیا کم ہے
کہ دنیا کی نظر میں خود کو چھوٹا کر لیا میں نے




(۳۱)

 

 

 

 

جب سے دستارِ فضیلت پائی ہے دربار میں
جانے کیوں شانوں پہ اپنا سر نہیں لگتا مجھے


(۳۲)

 

 

 

 

یار وسائل سے نواز اُن کو یا غیرت دے دے
بیچ دیتے ہیں ضرورت میں جو ایمانوں کو


(۳۳)

 

 

 

 

یاروں کسی جلاد کی تعظیم نہ کرنا
مرجانا مگر ظلم کو تسلیم نہ کرنا


(۳۴)

 

 

 

 

بہت لذیذ نہیں ہیں مگر حلال تو ہیں
میں اپنے خشک نوالوں کی خیر مانگتا ہوں


(۳۵)

 

 

 

 

سر جھکایا ہے نہ دستار اُترنے دی ہے
یہ الگ بات کہ سر کٹ گیا دستار کے ساتھ


(۳۶)

 

 

 

 

غربت مری غیرت کے قرینے میں ڈھلی ہے
فاقوں میں کسی در کی سوالی نہیں ہوتی
معیار ہے نازؔ اور ہی کچھ دادِ سخن کا
اشعار کی قیمت کبھی تالی نہیں ہوتی




(۳۷)

 

 

 

 

میں حرفِ صداقت ہوں وہاں جچ نہ سکوں گا
دربار کے ماتھے پہ نہ لکھوائیے مجھ کو


(۳۸)

جبکہ عظمت انسانی، بہرحال میں زندہ رہنے کا حوصلہ برقرار رکھنے، امید ورجا اور حق پرستی و حق شناسی اور آئندہ آنے والے حالات کی نباضی کے حوالے سے بھی نازؔ کے ہاں ایسے اشعار ملتے ہیں جو اپنی جگہ خاصے کی چیز ہیں۔ ذیل میں نمونے کے طور پر چند اشعار درج کیے جاتے ہیں:

 

تارے ہیں میری آنکھ کے یہ دلفگار لوگ
میں جانتا ہوں نازؔ یہ عظمت کے پھول ہیں


(۳۹)

 

 

 

 

سجدے کو تو ہیں آج بھی تیار فرشتے
انسان زمانے میں مگر ہے کہ نہیں ہے


(۴۰)

 

 

 

 

میں شاہ کے الطاف سے ایسے ہی بھلا ہوں
خیرات کی پوشاک نہ پہنائیے مجھ کو


(۴۱)

 

 

 

 

امر لا تقنطوا کا متوالا
کس طرح نا اُمید ہوجائے


(۴۲)

 

 

 

 

صورت حال بہر حال بدلنی ہے ہمیں
اپنا ہر طور، بہر طور بدلنا ہوگا

 

 

گرنا ممکن تو نہیں راہِ عمل میں لیکن
گر بھی جایں تو ہمیں گر کے سنبھلنا ہوگا
لوگ کہتے ہیں ہمیں عزم و شجاعت کے چراغ
ہم کو بپھری ہوئی آندھی میں بھی جلنا ہوگا




(۴۳)

 

 

 

 

روشنی حق کی علامت ہے کسی روپ میں ہو
وہ ستارہ ہو، شرارہ ہو کہ جگنو برحق


(۴۴)

 

 

 

 

ان بہتر جانثاروں کے ہیں لاکھور جانثار
کتنے بازو اور کتنی گردنیں کاٹوگے تم


(۴۵)

 

 

 

 

ظلم کو جھیلنا تہذیب سے غداری ہے
سخت ظالم ہے جو ظالم سے بغاوت نہ کرے


(۴۶)

 

 

 

 

خزائیں نا اُمیدی کی مرے دل میں نہیں آتیں
سدا اس باغ میں لا تقنطوا کے پھول کھلتے ہیں


(۴۷)

آنے والے حالات کی تلخی اور درپیش خطرات کو جس طرح نازؔ نے محسوس کیا اور اس کے لیے ایک باشعور اور مخلص فنکار ہونے کے ناطے جو لائحہ عمل اپنانے کا رستہ انہوں نے دِکھایا ، اُسے جان کر واضح ہوتا ہے کہ حالات پر ان کی نظر کی عمق اور گہرائی کے ساتھ تھی اور وہ اپنے معاشرے کے مسائل اور پھر ان کے حل پر کتنی ذمہ داری کے ساتھ سوچتے رہے ہیں ۔ ذیل کے اشعارسے اُن کی بصیرت کا اندازہ ہوتا ہے:

 

بندوق نے وہ اُگلے شرارے کہ الاماں
مرغابیوں کا غول سرِ آب جل گیا


(۴۸)

 

 

 

 

یا چھوڑ دے شکار پرندوں کا کھیلنا
یا پھر یہ سبز رنگ کا چوغہ اُتار دے


(۴۹)

 

 

 

 

فرقہ وارانہ تعصب کی عملداری میں
قتل کرتے ہیں مسلمان، مسلمانوں کو


(۵۰)

 

 

 

 

پھر جمع نہ کر پاؤگے صدیوں میں بھی خود کو
نازؔ اپنی اکائی کبھی تقسیم نہ کرنا


(۵۱)

 

 

 

 

مل کے رستہ روکنا ہوگا ہمیں سیلاب کا
گاؤں میں اک جھونپڑا تیرا بھی ہے میرا بھی ہے


(۵۲)

غزل کی روایت سے وابستگی اور ایک حقیقت پسند شاعر ہونے کے ناطے نازؔ کے کلام میں جبر کے خلاف آواز اُٹھانے اور مزاحمت  کا جو رویہ ملتا ہے اس نے نازؔ سے لا تعداد ایسے اشعار کہلوائے ہیں جو غزل کے سرمائے میں گراں قدر اضافہ ہیں۔ وہ نہایت واشگات لیکن فنکارانہ انداز میں ظلم و جبر، ناانصافی، بد نیتی، شریر پرمبنی قوتوں اور معاشرتی بربریت کی نشاندہی کرتے ہیں اور بہت ہی مؤثر لہجے میں اپنے عہد کی بدحالی کا نوحہ بیان کرتے ہیں۔ اس سلسلے میں وہ کسی لاگ لپیٹ کے بھی قائل نہیں اور اس سے کام لیتے ہیں وہ بین السطور بات کرنے کے بھی روادار نہیں بلکہ اس کے برعکس وہ دوٹوک اور سیدھے سادھے الفاظ میں واضح بات کرتے ہیں ۔ ایسا انداز جو اُردو غزل کی تاریخ میں چند ایک شاعروں کا خاصا ہی رہا ہے ورنہ عام طور پر علامت اور استعارے کے وسیلوں کو بروئے کار لایا جاتا ہے حتیٰ کہ صف اوّل کے بڑے غزل گویوں کے ہاں بھی یہی صورت ہے۔ اس سلسلے میں غزل کے علامتی اور رمزیہ اندازِ بیاں کا حیلہ تراشا جاسکتا ہے لیکن بہر حال یہ  ایک حقیقت ہے کہ یہ حوصلے اور ہمت کا بھی معاملہ ہے اور اس اخلاقی جرأت کا بھی جس کا متحمل نہ ہر فرد ہوسکتا ہے اور نہ ہر فن کار۔
نازؔ خیالوی کا کلام پڑھ کر احساس ہوتا ہے کہ اخلاقی سطح پر بھی اور فنکارانہ ایمانداری کے حوالے سے بھی اُن میں یہ خاصیت موجود تھی کہ وہ ہر اُس چیز کی نشاندہی کرنے کی جرأت رکھتے ہیں جو ان کے مطابق انسانیت کے اصولوں کے خلاف ہو اور بطور ِ ایک فنکار کے بھی ان کو اپنی ذمہ داری کا شعور تھا کہ فن کا حق تب تک ادا نہیں ہوسکتا جب تک فن کار اپنے گردوپیش  میں وقوع پذیر ہونے والے حالات کا بے لاگ اظہار نہ کرے۔ ذیل میں نازؔ کے عصری شعور کے حامل اشعار نمونے کے طور پر درج کیے جاتے ہیں:

 

ہر زمانے میں ثبوت عشق مانگا جائے گا
"لال" ماؤں کے چڑھیں گے سولیوں پر اور بھی
آفتاب اُبھرا ہے جس دن سے نئی تہذیب کا
ہوگیا تاریک انساں کا مقدر اور بھی
جب چلی تحریک تعمیرِ وطن کی دوستو!
ہوگئے برباد کچھ بستے ہوئے گھر اور بھی
جس قدر باہر کی رونق میں مگن ہوتا گیا
بڑھ گئی ہے رونقی انساں کے اندر اور بھی
بستیوں پر حادثوں کی چاند ماری کے لیے
بڑھ رہے ہیں روح کی جانب ستمگر اور بھی

 

 




(۵۳)

 

 

 

 

کہاں کے منصف و عادل، فقہیہ  و محتسب کیسے
انہیں کے ہیں یہ سارے ان کو سارے کچھ نہیں کہتے


(۵۴)

 

 

 

 

دیر میں ہوتے ہوئے بھی کچھ نہیں بے فیض لوگ
جیسے غاروں کے خزانے ، جیسے قبروں کے چراغ


(۵۵)

 

 

 

 

جس کے سائے میں لڑکپن کی بہاریں کھیلیں
اب جواں ہاتھ وہی بوڑھا شجر کاٹتے ہیں


(۵۶)

 

 

 

 

کیا جئیں اہلِ حق وہاں کہ جہاں
لمحہ لمحہ یزید ہوجائے


(۵۷)

 

 

 

 

جو کلی بھی کھلی ہنس کے چپ ہوگئی
کتنا پُرخوف ماحول میرا رہا


(۵۸)

 

 

 

 

ہے طلوعِ سحر میں دیر ابھی
شب گزیدوں میں جان باقی ہے


(۵۹)

نازؔ خیالوی کے کلام کے تجزیے سے اُن کے وسیع مطالعے، شدتِ احساس اور انسان دوست فکر و احساس کا ثبوت ملتا ہے۔ مذکورہ بالا اشعار میں اُن کی متذکرہ خاصیتیں اپنی جھلک دِکھا رہی ہیں۔ دراصل اُن کی والہانہ انسانی ہمدردی اور انسان دوستی ایسی صفت ہے جو ان کے فن کو معاشرتی درد کا ترجمان بنا دیتی ہے اور یہاں آکر ہمیں ان کے فکری ڈانڈے ترقی پسند تحریک سے وابستہ شعراء سے ملتے دکھائی دیتے ہیں۔ خاص طور پر ان کے ہاں فیض احمد فیضؔ جیسا طرزِ احساس نظر آتا ہے جس کے باعث وہ غریبوں اور ناداروں کے درد کے ترجمان بن جاتے ہیں اور نہایت دلنشین  انداز میں اس طبقے کی حالتِ زار بیان کرنے لگتے ہیں،بلکہ کبھی کبھی تو ایسا لگتا ہے کہ جیسے وہ اپنے دور سےآگے نکل کر اگلے زمانوں کے درد کی عکاسی کرنے پر قادر ہوں اور یہی دراصل ایک بڑا فن کار ہونے کی نشاندہی ہے کہ وہ نہ صرف اپنے وقت سے جڑا ہوتا ہے بلکہ حال میں رہتے ہوئے ماضی کی روایت اور مستقبل کے امکانات کی بات ہی کرتا ہے۔ گویاایک طرح سے وہ ایک نقطۂ اتصال پر موجود ہوتا ہے جہاں سے  آنے والے زمانوں کی کڑیاں بھی روایت سے مل جاتی ہیں۔ ذیل کے اشعار میں مظلوم و نادار طبقوں  کے درد کی ترجمانی، روایت اور آئندہ سے جڑنے کی خاصیت نیز ناقدریٔ زمانہ، نا اہل و بے ظرف کے برسرِ اقتدار آنے اور اختیار مند ہونے، بے دری اور بے گھری کے احساس جبکہ ساتھ ہی ساتھ وطن سے شدید محبت، حساسیت و دردمندی اورزندگی کی حقیقت جیسے موضوعات پر نازؔ خیالوی کی فنکارانہ چابکدستی ملاحظہ کریں:

 

دل میں کیا سوچ کے ماں باپ نے پالے بچے
اور حالات نے کس رنگ میں ڈھالے بچے
آپ کھولیں تو سہی ان پہ درِ رزق حلال
پھر نہ توڑیں گے کبھی رات کو تالے بچے
نور ماں باپ کی آنکھوں کا ہوا کرتے ہیں
ایک ہی بات ہے گورے ہوں یا کالے بچے
گھر سے نکلے تھے کھلونوں کی خریداری کو
ہوگئے بردہ فروشوں کے حوالے بچے

 

 


(۶۰)

 

 

 

 

نمو کی قوتیں صدمات میں دم توڑ دیتی ہیں
غم و آلام بچوں کو جواں ہونے نہیں دیتے


(۶۱)

 

 

 

 

بے نواؤں کے مقدر میں ہے رُلتے پھرنا
کبھی گھر بار کی خاطر، کبھی گھر بار کے ساتھ


(۶۲)

 

 

 

 

تو مگن تھا اپنے کتّے پالنے کے شوق میں
مرگئے بھوکے کئی مجبور تیرے شہر میں
جن کے سر سہرا ہے نازؔ اس شہر کی تعمیر کا
گھر سے ہیں محروم وہ مزدور تیرے شہر میں




(۶۳)

 

 

 

 

جا بسے چاند نگرمیں بھی کئی لوگ مگر
ہم زمیں پر بھی رہے خانہ خرابوں کی طرح


(۶۴)

 

 

 

 

بانٹ دے گا وقت اہلِ زر میں ساری نعمتیں
مفلسوں کے واسطے حرفِ دعا رہ جائے گا


(۶۵)

جبکہ بے کسوں اور ناداروں کے درد کا احساس نازؔ کے ہاں کچھ اس صورت میں ملتا ہے:

 

کئی ڈھیر اس نے ریشم کے بُنے تھے
یہ میت بے کفن جس کی پڑی ہے


(۶۶)

 

 

 

 

جس نے ساری زندگی سونا اُگایا کھیت میں
اپنی بیٹی کو نہ چاندی کا بھی زیور دے سکا


(۶۷)

 

 

 

 

لٹاؤ مال نہ مردوں کے مقبروں کے لیے
خراب حال ہیں زندہ ابھی گھروں کے لیے


(۶۸)

 

 

 

 

کروڑوں لوگ فاقوں سے نہ مرتے نازؔ دنیا میں
روش اپنی اگر کچھ اہلِ زر تبدیل کرلیتے


(۶۹)

 

 

 

 

کھوئی کھوئی ہوئی بے  کار جوانی میری
اُترا اُترا ہوا ماں باپ کا بوڑھا چہرہ


(۷۰)

 

 

 

 

یہ لازم ہے غریبوں کے حقوق ان کو دئیے جائیں
فقط خیرات سے تو دور ناداری نہیں ہوتی


(۷۱)

انسانی معاشرے کا ایک المیہ ہمیشہ سے یہ رہا ہے کہ وہ عہدے ، مراتب اور اختیارات جو معاشرے کے ذمہ دار ،باکردار، بااُصول اور عالی ظرف لوگوں کو ملنے چاہیے تاکہ وہ رفاع عامہ کے  کام کرسکیں اور حق بحق دار رسید کا اصول پورا ہو، اکثر ایسے عہدوں پر نااہل، بے ضمیر، طالع پرست، ابن الوقت ، کم ظرف اور خود غرض ٹولہ بُرا جمان ہو کر خوب خوب کھل کھیلتا ہے اور اپنی عاقبت نا اندیشیوں، اپنی بے حکمی، بے شعوری اور نا اہلی کے سبب انسانیت کو خون کے آنسو رُلاتا ہے ۔ کوئی بھی حساس فنکار جب اپنے اردگرد ایسی صورتِ حال دیکھتا ہے تو اُس کا قلم اس کے خلاف چلنے لگتا ہے اور اس کا زورِ  بیان مزاحمت کی کوشش میں صرف ہوتا ہے۔ نازؔ خیالوی کے ہاں بھی ایسے اشعار ملتے ہیں جس میں انہوں نے ایسی صورتِ حال کی دہائی دی ہے اور اس پر افسوس کا اظہار کیا ہے ۔ ذیل میں چند اشعار نمونے کے طور پر درج کیے جاتے ہیں:

 

رکھ دیے بالشتیوں نے پاؤں میرے کاٹ کر
میں قد آور تھا، مجھے قد آوری مہنگی پڑی


(۷۲)

 

 

 

 

ان کو مسند پہ بٹھانے کے ہیں مجرم سارے
دیکھنا یہ ہے کہ کس کس کا وہ سر کاٹتے ہیں


(۷۳)

 

 

 

 

مجھے لٹوا دیا ذوقِ نظر کی کم نگاہی نے
میں سونا جان کر بازار سے پیتل اُٹھا لایا


(۷۴)

 

 

 

 

تم بادشاہِ وقت کے لے پالکوں میں ہو
جو دل میں ہے کرو تمہیں سب اختیار ہے
کیا اور گل کھلائے یہ دیکھیں بہارِ نو
اب تک تو نازؔ جو بھی ہوا آشکار ہے

 

(۷۵)

 

 

کسی کے زخم پہ مرہم نہ رکھ سکی دنیا
یہ سنگدل تو فقط انگلیاں اُٹھا جانے



(۷۶)

 

 

 

 

گردشِ وقت کے روندے ہوئے انسانوں کا
کوئی مصرف نہیں ٹوٹے ہوئے برتن کی طرح


(۷۷)

 

 

 

 

خاک دنیا کے خداؤں نے اُڑا دی میری
اے خدا بن کے میں نائب ترا اچھا اُترا
قتل ہونے کا نہیں غم مجھے صدمہ یہ ہے
میرے سینے میں مرے بھائی کا نیزہ اُترا

 

(۷۸)

متذکرہ بالا موضوعات و خیالات کے علاوہ نازؔ کے کلام میں دیگر فکری زاویے بھی ملتے ہیں جن سے اُن کی ذہنی کشادگی، قادرالکلامی ، شعوری بلندی، وسیع النظری اور بالغ فکری کا ثبوت ملتا ہے۔ ایک مضبوط حوالہ جو نازؔ کی شاعری میں ملتا ہے وہ وطن سے والہانہ عقیدت اور محبت کا جذبہ ہے۔ جسے انہوں نے اپنے اشعار میں خوب شدت سے برتا ہے۔ نیززندگی کی ماہیئت و اصلیت کا بیان بھی نازؔ کے ہاں ایک اہم موضوع کے طور پر موجود ہے۔ تیرہ نصیبی، بے گھری اور بے دری کا مار دینے والا احساس بھی اُن کے  اشعار میں جگہ جگہ ملتا ہے۔ نیز روایتی اور کلاسیکی غزل گوؤں کی طرح شاعرانہ تعلیٰ پر مبنی اشعار بھی موجود ہیں۔ اس سلسلے میں چند ایک اشعار نمونے کے طور پر ملاحظہ ہوں:

 

فکر کے رنگ میں کیا ڈھلی زندگی
بن گئی مستقل بے کلی زندگی
میں غم زندگی میں تڑپتا رہا
مسکراتی رہی منچلی زندگی
ٹہنی ٹہنی پہ اشکوں کے غنچے کھلے
درد کی رُت میں پھولی پھلی زندگی
تم چلے ہو تو اس کو بھی لیتے چلو
میرے کس کام کی کھوکھلی زندگی

 

 


(۷۹)

 

 

 

 

عنبر و خوشبو کی مانگوں بھیک کیوں اغیار سے
سرزمینِ پاک کی مٹی ہے کستوری مجھے


(۸۰)

 

 

 

 

آوارہ ہی دیکھا ہے تجھے شام سویرے
اے نازؔ کہیں تیرا بھی گھر ہے کہ نہیں ہے


(۸۱)

 

 

 

 

نجات اب تو مجھے دے اے ذوق در بدری
کہ مدتوں سے مرا گھر مری تلاش میں ہے


(۸۲)

 

 

 

 

تو بھی ہارا نہیں دولت سے بقولِ دانش
عظمتِ فن ہے تری نازؔ امر، تو برحق


(۸۳)

 

 

 

 

نکھر گئی ہے مری روح زخم کھا کھا کر
متاعِ ہوش لٹا کر میں باشعور ہوا


(۸۴)

علاوہ ازیں روایت کے مطابق نازؔ خیالوی کے ہاں نعتیہ اشعار بھی ملتے ہیں لیکن اس سلسلے میں ہم دیکھتے ہیں کہ یہ اشعار صرف برائے شعر گفتن نہیں کہے گئے بلکہ ان میں نازؔ کے دلی جذبات جھلکتے ہیں اور اُن کا نبیﷺ کے لیے لگاؤ اور تقدس و احترام ملتا ہے۔ نیز اہلِ بیت اطہار کی شان میں بھی کہے گئے اشعار ملتے ہیں۔ مثلاً:

 

دونوں جہاں ہیں اُنؐ کی عنایت کے معترف
وہؐ دو جہاں کے واسطے رحمت کے پھول ہیں


(۸۵)

 

 

 

 

حوصلہ کس میں ہے دشمن کو دعا دینے کا
یہ روایت بھی محمدؐ کے گھرانے تک ہے


(۸۶)

 

سنتِ شاہؐ اُمم کا ہوں میں لذت آشنا
خاک سے بہتر کوئی بستر نہیں لگتا مجھے


(۸۷)

الغرض اس تجزیے سے معلوم ہوتا ہے کہ نازؔ خیالوی ، اُردو شاعری بالخصوص غزل کے سرمائے میں ایک خوش گوار اور بامعنی اضافہ ہیں جن کا ایک کلام ایک طرف کلاسیکی روایت سے جُڑی کڑی قرار دیا جاسکتا ہے تو دوسری طرف آئندہ کے امکانات کے لیے ایک سنگ میل بھی۔


 

حواشی


۱۔

نازؔ خیالوی، لہو کے پھول

ص۸۱

۲۔

ایضاً

ص ۱۲۶

۳۔

ایضاً

ص۲۰۳

۴۔

ایضاً

ص۱۸۵

۵۔

ایضاً

ص۲۰۶

۶۔

ایضاً

ص۱۷۲

۷۔

ایضاً

ص۱۹۰

۸۔

ایضاً

ص۱۱۰

۹۔

ایضاً

ص۲۱۷

۱۰۔

ایضاً

ص۶۶

۱۱۔

ایضاً

ص۱۸۲

۱۲۔

ایضاً

ص۲۲۹

۱۳۔

ایضاً

ص۶۹

۱۴۔

ایضاً

ص۷۲

۱۵۔

ایضاً

ص۱۸۳

۱۶۔

ایضاً

ص۶۱

۱۷۔

ایضاً

ص۱۱۷

۱۸۔

ایضاً

ص۲۰۱

۱۹۔

www.hamzashad.com

 

۲۰۔

نازؔ خیالوی، لہو کے پھول

ص۸۹

۲۱۔

ایضاً

ص۲۴۴

۲۲۔

نازؔ خیالوی، لہو کے پھول

ص۲۴۶

۲۳۔

ایضاً

ص۶۶

۲۴۔

ایضاً

ص۸۳

۲۵۔

ایضاً

ص۱۲۰

۲۶۔

ایضاً

ص۱۲۴

۲۷۔

ایضاً

ص۲۰۳

۲۸۔

ایضاً

ص۲۱۵

۲۹۔

ایضاً

ص۸۲

۳۰۔

ایضاً

ص۸۔۷

۳۱۔

ایضاً

ص۱۱

۳۲۔

ایضاً

ص۱۴

۳۳۔

ایضاً

ص۲۲۱

۳۴۔

ایضاً

ص۲۲۹

۳۵۔

ایضاً

ص۲۴۴

۳۶۔

ایضاً

ص۱۷

۳۷۔

ایضاً

ص۷۷

۳۸۔

ایضاً

ص۲۱۹

۳۹۔

ایضاً

ص۸۲

۴۰۔

ایضاً

ص۱۱۲

۴۱۔

ایضاً

ص۲۱۸

۴۲۔

ایضاً

ص۹۰

۴۳۔

ایضاً

ص۱۸۹

۴۴۔

ایضاً

ص۱۰۹

۴۵۔

ایضاً

ص۱۷۲

۴۶۔

ایضاً

ص۶۶

۴۷۔

ایضاً

ص۱۳۸

۴۸۔

ایضاً

ص۱۰۸

۴۹۔

ایضاً

ص۱۳۵

۵۰۔

ایضاً

ص۲۲۰

۵۱۔

ایضاً

ص۲۳۰

۵۲۔

ایضاً

ص۲۳۱

۵۳۔

ایضاً

ص۴۵۔۴۴

۵۴۔

ایضاً

ص۵۴

۵۵۔

ایضاً

ص۵۷

۵۶۔

ایضاً

ص۸۴

۵۷۔

ایضاً

ص۹۰

۵۸۔

ایضاً

ص۱۱۹

۵۹۔

ایضاً

ص۱۴۸

۶۰۔

ایضاً

ص۱۰۔۹

۶۱۔

ایضاً

ص۱۵

۶۲۔

ایضاً

ص۱۷

۶۳۔

ایضاً

ص۶۵

۶۴۔

ایضاً

ص۲۰۲

۶۵۔

ایضاً

ص۲۱

۶۶۔

ایضاً

ص۹۵

۶۷۔

ایضاً

ص۱۵۱

۶۸۔

ایضاً

ص۱۷۸

۶۹۔

ایضاً

ص۱۸۶

۷۰۔

ایضاً

ص۱۹۶

۷۱۔

ایضاً

ص۲۱۳

۷۲۔

ایضاً

ص۹۳

۷۳۔

ایضاً

ص۸۴

۷۴۔

ایضاً

ص۱۰۳

۷۵۔

ایضاً

ص۷۲

۷۶۔

ایضاً

ص۱۸۰

۷۷۔

ایضاً

ص۳۲

۷۸۔

ایضاً

ص۳۸۔۳۷

۷۹۔

ایضاً

ص۱۰۱

۸۰۔

ایضاً

ص۱۱۶

۸۱۔

ایضاً

ص۱۱۳

۸۲۔

ایضاً

ص۶۱

۸۳۔

ایضاً

ص۱۱۰

۸۴۔

ایضاً

ص۸۷

۸۵۔

ایضاً

ص۸۲

۸۶۔

ایضاً

ص۲۰۴

۸۷۔

ایضاً

ص۱۴

کتابیات:
۱۔      http://archive.org/details/LahoorkePhoolMukammal

 

اوپر جائیں  |   پرنٹ کیجئےِ
انگریزی ورژن ای میل چیک کریں مرکزی صحفہ پرنٹ پسندیدہ سائٹ بنائیں رابطہ کیجئے www.shahzadahmad.com www.shahzadahmad.com