فیض کی وطن دوستی
ڈاکٹر صوفیہ خشک/ سید ارتضیٰ حسن کاظمی
ABSTRACT:
Mutual relationship and degree between patriotism and literature is ages long discourse as well as question of enquiry. Faiz Ahmed Faiz [1911-1984] a prominent cultural icon of Pakistan and celebrated poet of Urdu pose very complex answers through his action and writings to this old philosophical premise. He was jailed by the state for his alleged involvement in plot against the state. This article, through evidence of his poetry and prose, reached to the conclusion that unlike other many poets of Urdu, Faiz patriotism was not based mere emotions and sentiments. He tackled with this question at intellectual level, and was firm that the geographic integrity of a country requires empowering its culture.
Key Words: Faiz Ahmed Faiz; Patriotism; Patriotism and Literature.

 

انسان خواہ کسی دین و مذہب کا ماننے والا ہو یا کوئی بھی نظریۂ حیات رکھتا ہو، اپنے ارضی رشتوں کو فراموش نہیں کر سکتا۔ ہر عہد کا انسان خاص جغرافیائی حالات،مخصوص سماج اور تہذیبی فضا کا نمائیندہ ہوتا ہے اور ان سب سے پیار اسے فطرت سے ودیعت ہوتا ہے۔اس پیار کا اظہار وطن دوستی کے زمرے میں آتا ہے۔شاعری انسانی جذبوں کی ترجمان ہوتی ہے اوروطنیت ایک ایسا جذبہ ہے جو علمی اورسائنسی ترقی کے باوجود بھی انسانی دلوں سے نکالا نہیں جاسکا۔اگراس پیار کے اظہار میں مخصوص سیاسی تصورات بھی شامل ہو جائیں تو یہ شاعری وطنیت کے ساتھ ساتھ قومیت کی بھی ترجمان ہوجائے گی اور اس کا دائرہ بھی وسیع تر ہو جائے گا۔اس میں مذکورہ بالا عناصر کے علاوہ احساسِ آزادی اور مذہبی اور تاریخی رجحانات کا تذکرہ بھی ملے گا۔اُردو شاعری میں ایسے موضوعات کو ہمیشہ سے اہمیت دی جاتی رہی ہے۔ایک سچے شاعر کے لیے ضروری ہے کہ وہ گرد وپیش کے حالات کا ادراک رکھتا ہو اور ایک عام آدمی کی سطح سے اُٹھ کر اپنے ماحول کی اس طرح تصویر کشی کرے کہ اُس دور کے مخصوص رجحانات کا علم ہو سکے۔اس کی چشمِ بصیرت حالات و واقعات پر گہری نظر رکھے ہوئے ہو۔وطن پرسی کو اگر تاریخ کے آئینے میں دیکھا جائے تو واضح ہوتا ہے کہ وطن سے انسان کی وابستگی ازلی اور دائمی تھی۔قدیم زمانے کا انسان اپنے علاقے ، اپنی سر زمین سے والہانہ محبت کرتا تھا۔ اس کے لیے ہی خون بہاتا تھا۔ طرح طرح کی موسمی اور جغرافیائی سختیاں اور صعو بتیں برداشت کرتا تھا مگر اس کو چھوڑنے کے لیے آمادہ نہ ہوتا تھا۔اس میں دفن ہونا اپنے لیے باعثِ اعزاز سمجھتا تھا۔بہت ممکن ہے کہ آج کل کے دور میں کہ جب ذرائع آمد ورفت بہت ترقی کر چکے ہیںیہ بات عجیب سی معلوم ہوتی ہو مگر اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ قدیم لوگ جس خطے میں رہتے تھے اُسے اپنا وطن تصور کرتے تھے اور اسے محض رزق کے حصول کی خاطرچھوڑ دینا ان کے نزدیک انتہائی نامناسب اور غیر اخلاقی تھا۔میرؔ کو اپنا وطن یعنی دِلی چھوڑ دینے کا قلق عمر بھر رہا۔
وطن سے اس والہانہ محبت کے باوجودبھی کلاسیکل شعرا کاکلام وطنیت کے موضوع سے پرے نظر آتا ہے۔میرؔ اور سوؔ دا کا زمانہ جو اُردو شاعری کا زریں دوربھی کہلاتا ہے ایسی شعری امثال سے تہی ہے۔اس کی وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ اُردو شاعری فارسی روایات کی امین تھی اور اس میں خاص موضوعات اور لب و لہجہ ہی معتبر تصور ہوتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ نظیرؔ اکبر آبادی جو مختلف موضوعات اور لب ولہجہ کے شاعر تھے اپنے عہد میں معتبر نہ ہو سکے۔سو برس عمر پانے کے باوجود بھی نظیرؔ اُردو شاعری کامزاج تبدیل نہ کر پائے۔تاہم انہیں یہ اعزاز حاصل ضرور ہوگیا کہ انہیں موجودہ دور میں اُردو کاباقاعدہ وطن پرست شاعر مانا گیا ہے۔نظیرؔ نے وطن کی چیزوں کاحوال جس قدر رغبت اور چاؤسے شاعری کے قالب میں اُتارا ہے اُس کی نظیر ماضی پذیر میں نہیں ملتی۔وطن کے لوگوں سے چاہت کا اظہارنظیرؔ کے ہاں شوخی اور ندرت لیے ہوئے ہے۔تلوک چند محرؔ وم نے نظیرؔ کے دور کے اُن شعراء کی روش کو گمراہ کن قرار دیا ہے جو وطنیت کے جذبے اور اظہار سے عاری تھے :
’’کلا سیکل شعراء میں سب سے پہلا شاعر جس کو اِحساس کی اِس گمراہی سے مستثنیٰ قرار دیا جا سکتا ہے ، نظیرؔ اکبرآبادی تھا۔ اِس کو بے شک اپنے وطن ، اپنے وطن کی چیزوں ، اپنے وطن کی روایات سے بڑی محبت تھی، اور جس طرح لہک لہک کر اُس نے ان تمام باتوں کا ذکر کیا ہے اِس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ بڑا وطن پرست شاعر تھا۔‘‘۱
آگے چل کر تلوک چند محروم لکھتے ہیں کہ نظیرؔ کے اس منفرد اُسلوبِ بیان اور منفرد موضوع تک کو کوئی دوسرا نہ پہنچ سکا۔نظیرؔ اکبر آبادی میرؔ اور غالبؔ کے دمیانی عرصے کے شاعر ہیں مگراُردو شاعری کے اس زریں دور میں بھی وطن دوستی کا موضوع پنپ نہ سکا۔البتہ الطاف حسین حالیؔ کو باقاعدہ وطن پرست شاعر ہونے کا اعزاز حاصل ہے:
’’ اس کے بعد کے عرصے تک کوئی شاعر اِس ذوق کا نہیں اُبھرا، یہاں تک کہ غالبؔ کا دور آگیا اور اس وقت سب سے پہلے حالیؔ نے وہ قدم اُ ٹھایا جسے اُردو شاعری میں وطن پرستی کی پہلی بنیاد سمجھنا چاہیے۔‘‘۲
مولانا الطاف حسین حالیؔ سے بڑامحبِ وطن کون ہو سکتا ہے۔ان کا درد مند دل عملِ مسلسل کے ذریعے معاشرے میں تبدیلی کا خواہاں ہوتا ہے۔وہ تعمیر کے جذبے سے سرشار ہو کر شاہراہِ ترقی کا انتخاب کرتے ہیں اور تخریب کے آسان راستے کو نہیں اپناتے۔ان کے لبوں پر شکایت نہیں بلکہ حرف و حکایت تھی ۔ تاریخی اور مشاہداتی علوم کا نہ خشک ہونے والا چشمہ تھا۔وہ معاشرے میں شخصی انقلاب برپا کرنے کے داعی تھے کیونکہ ان کی رائے میں ادارے اور معاشرے فرد کی مجموعی ذہنی حالت کے ترجمان ہوتے ہیں۔لہٰذا اِن کا ہدف ادنیٰ درجے کے وہ کام تھے جو بڑے انسانی منصوبوں کی تکمیل میں آڑے آتے ہیں اور ان کی اصلاح غیر معمولی تبدیلیاں پیدا کر سکتی ہے۔حالیؔ کے ان نظریات کی روشنی میں ہمیں یہ باور کرنے میں ذرا دیر نہیں لگنی چاہیے کہ وطن دوستی کا دائرہ بے حد وسیع ہے اورآبنائے تنگ سمجھ لینا خام خیالی ہے۔وطن دوستی کی راہ میں دوچار بہت سخت مقامات بھی آتے ہیں اور آزمائش کی کسوٹی پر پرکھے جانے کے بعد ہی جذبِ خالص اپنی پہچان حاصل کروا پاتا ہے۔ظلم اور جبر کی صورت میں ہی اس کے جوہر کُھلتے ہیں اور اس فشار میں اسے نئی نئی راہیں سوجھتی ہیں۔فرار کی بجائے اچھے وقت کا انتظار اوراس دوران صبر و ضبط کے ساتھ پامردی کا مظاہرہ وطن دوستی کا تقاضا ہے۔یہی وہ جذبہ ہے جو سیاسی وسماجی دباؤ کو کم کر کے معاشرے میں اعتدال و توازن پیدا کرتا ہے۔یہ وطن سے محبت ہی کی ایک صورت ہے کہ اندرونی خلفشار کو ختم کرنے کے لیے اہلِ وطن کی خوشحالی کے لیے کوشش کرتے رہنا اور اہل وطن کو متحد رکھنا ۔ مذید یہ کہ وطن میں بسنے والوں میں یہ احساس اُجاگر کرنا کہ وہ عظیم وطن کے وارث ہیں اور انہیں اس حوالے سے ثبوتِ وفاداری پیش کرنے کے لیے تیار کرنا بھی وطن دوستی ہے۔ملک و ملت سے محبت ہر درد مندشخص کے دل پر غلبہ حاصل کر لیتی ہے۔وہ وطن کے دکھ درد کو محسوس کرتا ہے۔ اس درد میں کراہتا ہے۔اس کی بگڑی بنانے میں اپنی توانائیاں صرف کر دینا چاہتا ہے۔اس صورت میں اگر اُسے کوئی راہ سُجھائی نہ دے تو یہی جذبہ سنگین صورتِ حال بھی اختیار کر سکتا ہے۔اس کے رنجور وملول رہنے سے وطن کی حالت نہیں سنورتی اور یوں تعمیر کے جذبے تخریب کی نذر بھی ہو سکتے ہیں۔شاعر کا کام یہ ہے کہ وہ قنوطیت کی بجائے رجائیت کو فروغ دے۔قوم کی صلاحیتوں کو مجتمع رکھے اور ان جذبات کو توانا رکھتے ہوئے کوئی سمت عطا کرے ۔ بصورتِ دیگر عمر بھر کا سفر رائیگاں بھی ہو سکتا ہے :
’’ جذبۂ حبِ وطن کا یہ پہلو اکثر نہایت شدید قسم کی منفی کیفییات نفسی پیدا کردیتا ہے۔حالات سے بیزاری یا تو بے عمل غصّہ کی شکل اختیار کر کے ہر نئی چیز سے انکار اور نفرت کو سب مشکلوں کا حل بتانے لگتی ہے، یا اگر قوائے عمل شل نہیں ہوتے ہیں تو نجات کے لیے تخریب کی راہ سُجھاتی ہے۔ اچھے اچھے اِس کا شکار ہو کر بے اثر و بے نتیجہ زندگیاں گزار دیتے ہیں۔ یہ کڑھتے اور جلتے ہیں مگر وطن کے دل کو اِن سے کوئی ٹھنڈک نہیں ملتی؛ یہ غصّہ اور نفرت میں اپنا خون سُکھاتے ہیں، پر اِس سے وطن کی رگوں میں خون نہیں دوڑنے لگتا؛ یہ اپنی سمجھ میں وطن کے لیے جان کھپاتے ہیں پر وطن کو اِس سے بالیدگی حاصل نہیں ہوتی۔ ‘‘ ۳
اس ذہنی اُلجھن سے آزادی حاصل کرنے کا ایک علاج یہ بھی ہے کہ وطن میں موجود قدرت کی فیاضیوں کا تذکرہ کیا جائے۔اس کی معطر صبحوں اور منور شاموں کواظہار کے نئے نئے زاویوں سے آشکارا کیا جائے۔قدرتی وسائل کی اہمیت نمایاں کرتے ہوئے عوام کے ہمت وحوصلے کو للکارا جائے۔دیہات اور شہر میں رہنے والوں کے اوصاف بیان کیے جائیں اور ان کی خوبیوں کووطن کے ماتھے کا جھومر بنا کر پیش کرنا بھی وطن دوستی ہے۔انسانی خوش حالی کے اسباب تلاش کرنے کی غرض سے سائنیسی ترقی اور اس کے ارتقاء کی منظر کشی کرنا بھی وطن دوستی ہے۔
اس حوالے سے نظیرؔ اکبرآبادی اور حالیؔ کے بعد جودوآوازیں بہت نمایاں ہوئیں وہ اختر شیرانی اور شبیر حسن خان جوشؔ کی ہیں۔اخترؔ شیرانی نے جہاں مظاہرِ فطرت اوروطن کے ندی نالوں سے عشق کیا وہاں وطن سے متعلق انسانی جذبات کو رومانیت کے چشمے سے سیراب کیا۔اس کے مقابل جوشؔ نے انقلاب کا جو نعرہ بلند کیا اُس سے اُردو شاعری کا مزاج کافی حد تک بدلا۔ان کی جدید نظموں میں موجزن جوش اور طنطنہ وطن سے اظہارِ محبت سے فطری مطابقت اور ہم آہنگی رکھتا تھا :
غلط کہتا ہے،گو وہ شخص جو تجھ سے یہ کہتا ہے ! !
کہہ بحرِ ہند کے امواج میں گوہر نہیں ملتا ! !
غلط گو یہ بھی ہے،یعنی وطن کے نفس کے اندر !
نظر میں خیرگی جس سے ہو وہ جوہر نہیں ملتا ! ۴

جوشؔ ملیح آبادی کی اس بھر پور آواز کے بعد گویا اُردو شاعری میں ایک نئے دور کاآغاز ہوا ۔ شعر وشاعری کو نیا آہنگ عطا ہوا اور یوں شعرا ء بے باکی اور جرأت سے اظہارِ رائے کرنے لگے۔تحریکِ پاکستان اور قیامِ پاکستان کے بعد ملک جن جن نازک ادوار سے گزرا اور فرقہ واریت کی دلدل میں اُترا اس کا شدید ردِ عمل اُردو ادب میں دیکھا جاسکتا ہے۔ملکی اتحاد اور اتفاق کی اہمیت کو اُجاگر کرنے کی غرض سے مختلف مکاتیبِ فکر کے شعراء نے اپنے نظریات کی روشنی میں وطن دوستی کی تفسیریں اور تعبیریں سُپردِ قلم کیں وہ اُردو ادب کا گراں مایہ اثاثہ ہیں۔ان کا زاویۂ نظر مختلف ضرور ہے مگر منتہائے نظر ایک ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ناقدین نے اِن تخلیقات کو قدر کی نگاہ سے دیکھا۔فیضؔ اور بھی اسی دور کے شعراء ہیں جنہوں نے وطن دوستی کے حوالے سے مختلف اندازِ فکر اختیار کیا۔ان کے موضوعات میں جد وجہدِ آزادی اور حب الوطنی کے علاوہ حالات کی گھٹن کا تذکرہ بھی شامل ہے۔ ہر چند کہ غزل کی حُسن و قبا پر ایسے موضوعات گراں گزرتے ہیں لیکن فیضؔ کی فنکارانہ صلاحیتوں نے دوسرے ممتازشعراء کی طرح اس عہد کی تمام صورتِ حال کو نظموں کے ساتھ ساتھ غزل کے پیراہین میں بھی سلیقہ شعاری کے ساتھ اُتار دیا۔فیضؔ ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے اوراِن کی شخصیت کی تعمیراور تربیت مختلف زاویوں سے ہوئی۔وہ دانشور، صحافی،نقاد،ملٹری مین، ترقی پسند تحریک کے سر گرم کارکن اورسیاّحِ نزدیک ودور ہونے کے ساتھ ساتھ ایک درد مند دل رکھنے والے محبِ وطن پاکستانی تھے۔قیامِ پاکستان کے بعدفیضؔ کی ملک سے محبت کو زیرِ بحث لانا اہمیت کا حامل ہے کیونکہ ان کی یہ محبت محض یک رُخی نہیں بلکہ اس کی مختلف سطحیں ہیں۔فیضؔ ایک متوازن شخصیت کے مالک تھے مگر نظم اور نثر دونوں میں وطن سے متعلق اظہار ایک جذباتی احساس لیے ہوئے ہے۔ ان کی زندگی میں جابجا ایسے واقعات ملتے ہیں جن کا تجزیہ ہمیں دعوتِ فکر و نظر دیتا ہے کہ فیضؔ اپنی تحریک سے تو عہدِ وفا نبھا رہے تھے مگر اس کے ساتھ ساتھ وطن سے محبت کا جذبہ بھی ان کے لیے سرمایۂ حیات سے کم نہ تھا۔فیضؔ لیلائے وطن کی زلفِ روزگار کو سنوارنے کے لیے بھی اسی قدر متفکر رہتے تھے جس قدرزلفِ جاناں کے خم سنوارنے کی فکر اِنہیں لاحق تھی :
چاہا ہے اسی رنگ سے لیلائے وطن کو
تڑپا ہے اسی طور سے دل اس کی لگن میں۵

یوں تو فیضؔ نے بے شمار اسفار کیے مگر ان میں خود ساختہ جلا وطنی کے اسفار نمایاں اہمیت کے حامل ہیں۔ فیضؔ ایک مشنری جذبہ کے تحت بیروت میں قیام پذیر تھے اور ان کا یہاں قیام ان کے عظیم المرتبت انسان ہونے پر دلالت کرتا ہے ۔انتہائی نازک حالات میں صرف انسانی ہمدردی کے تحت دیارِ غیر میں قدم جمانا دشوار گزار مرحلہ تھا مگر یہ ان کی اپنی ہی تدبیر تھی۔یہاں رہتے ہوئے فیضؔ نے بہت مصروف زندگی بسر کی اور بیروت کے لوگوں کے ساتھ دکھ درد میں شریک رہے۔اس دوران انہوں نے خون آشام مناظر بھی دیکھے مگرانہیں اس طور اطمینانِ قلب نصیب تھا کہ وہ خیر سگالی کے ایک پیام بر بن کر انسانیت کی بقاء کا چارہ کیے ہوئے تھے۔اس ہنگامہ خیزی میں بھی ایک ان کے دل کے تاروطنِ عزیزکے شام وسحر سے بندھے ہوئے تھے۔وہ پاکستان کے لیے تڑپتے تھے اور اِس ماحول میں بھی ایسی گنجائش نکال لیتے تھے کہ وطن سے وابستگی کو کوئی حیلہ یا سامان میسر آ سکے جو انہیں وطن سے کسی پل دور نہ ہونے دے۔فیضؔ کو بھارت جانے کے مواقعے بھی میسر آئے جہاں انہیں غیر معمولی پذیرائی بھی ملی اور ان کے مخالفین کو بہت کچھ کہنے کو موقع بھی میسرآیا۔اس حوالے سے ان پر کڑی تنقید بھی کی گئی۔دوسری جانب فیضؔ اس پذیرائی کے باوجود وہ وطن سے اظہارِ محبت کی اہمیت اور ضرورت سے ناآشنا نہ تھے۔اِسی وطن کی خاطر فیضؔ نے صحافت کا پیشہ اختیارکیا اوراس نوزائیدہ ریاست میں صحافت کی عمدہ روایات کی داغ بیل ڈالنے کی کوشش کی۔ اس شعبے میں مولانا چراغ حسن حسرت ؔ ان کے رفیقِ کار تھے جو بذاتِ خود ایک بے باک صحافی اور مایہ نازادیب تھے۔وطن کی خدمت کا یہ سنہری موقع تھا اور فیضؔ یہ موقع گنوانا نہیں چاہتے تھے۔وطن سے محبت کا یہی تقاضا تھا کہ بے خوف ہوکر وطن دشمن عناصر کو بے نقاب کیا جائے اورانہیں پنپنے کا موقع فراہم نہ کیا جائے۔
ہر چند کہ فیضؔ کے مخالفین نے کو ئی ایسا موقع ہاتھ سے نہ جانے دیا جس میں فیضؔ کے وطن دوست ہونے کو مشکوک بنایا جاسکے مگر فیضؔ وطن دوستی کی میزان پر ہمیشہ پورا اُترے۔لینن ایواڈ کی تقریب میں شرکت پر طوفان برپا کرنے والے رفتہ رفتہ خاموش ہو گئے۔اس کی بنیادی وجہ ان کا وہ جذبِ صادق تھا جو اُنہیں وطن کی اُلفت میں بے چین اور بے قرار رکھتا تھا۔وہ جہاں بھی گئے وطن سے محبت کا جذبہ ان کے ہمراہ رہا اور کوئی دوسری قوت ان کے اس جذبے کو دبانے میں ناکام ہی رہی۔وہ اس حقیقت کو پا چکے تھے کہ پاکستان ہی وہ سر زمین ہے جوان سے ثبوتِ وفاداری کاتقاضا کرتی ہے ۔چنانچہ جب فیضؔ نے لینن انعام وصول کیا اور لندن آگئے تو ان کی بے چینی میں روز افزوں اضافہ ہونے لگا۔یہ وطن دوستی کی وہ جذباتی اساس تھی جو کسی قسم کے خوف وخطر کو ان پر حاوی نہ ہونے دیتی تھی اور آپ مخالفین کی کسی بھی بات کو خاطر میں نہ لاتے تھے۔فیضؔ کو اس وطن سے بے پناہ محبت تھی اوراسی وطن دوستی کے بے لوث جذبے نے فیض ؔ کو صدمات سے بھی دو چار کیا۔فیضؔ کی شاعری کواِن حادثات سے الگ کر کے نہیں دیکھا جاسکتا۔فیضؔ کی زندگی میں جو دوچار سخت مقام آئے ان میں سے ایک مشرقی پاکستان کا المیہ بھی شامل ہے۔اس سلسلے میں ان کی ایک نظم ’’ ڈھاکہ سے واپسی پر‘‘ خصوصی اہمیت کی حامل ہے :
کب نظر میں آئے گی بے داغ سبزے کو بہار ! !
خون کے دھبے دُھلیں گے کتنی برساتوں کے بعد
تھے بہت بے درد لمحے ختمِ دردِ عشق کے ! ! ! !
تھیں بہت بے مہر صبحیں مہرباں راتوں کے بعد۶

پاکستان اپنے قیام کے فوراً بعد ہی بہت سے مسائل میں گھرِ گیا ۔فیضؔ کا دل مصیبت کی ہر گھڑی میں کُڑھتا تھا۔اُنہوں نے اس ساری صورِ حال کا نہایت باریک بینی سے مشاہدہ کیااور ایک شاعر ہونے کے ناتے ان کے یہ مشاہدات اور احساسات ایک تخلیقی ردِ عمل کے طور پر سامنے آئے۔اپنے وطن کے مستقبل سے متعلق اِن کی بڑھتی ہو ئی تشویش اِن کی بہت سی نظموں میں جذباتی رنگ لیے ہوئے ہے۔ وطن دوستی کا جذباتی رنگ ان کے آخری شعری مجموعے تک پھیلا ہوا ہے۔غبارِ ایاّم کی نظم ’’ تم ہی کہو کیا کرنا ہے‘‘ میں مشکلات سے بھری زندگی، جدِ وجہداور روشن خیالی کے ساتھ ساتھ مُستقبل کے خوف کی ملی جُلی کیفیات وطن سے جذباتی لگاؤ کا پتہ دیتی ہیں :

جب اپنی چھاتی میں ہم نے  
اس دیس کے گھاؤ دیکھے تھے
تھا ویدوں پر وشواس بہت
اور یاد بہت سے نسخے تھے
یوں لگتا تھا بس کچھ دن میں
ساری بپِتا کٹ جائے گی
اور سب گھاؤ بھر جائیں گے۷

ترقی پسند ادب بنیادی طور پر انسان دوست اَدب ہے۔جمہور کی آواز کو دبانے والی ہر قوت کے خلاف مزاحمت اس کے منشور کا حصہ ہے۔ملک میں ترقی اور تبدیلی کے بغیر اس کے خواب شرمندۂ تعبیر نہیں ہو سکتے۔اجتماعی رویوں کے فروغ کے لیے عوام کی اپنے وطن سے والہانہ محبت اور جذبات کا اظہار کرنا بھی ترقی پسند اَدب کے لیے ناگزیر ہے۔ ترقی پسند اَدب ہر اس تحریک کا حصہ رہا ہے جو طاقت اوراختیار کو چند ہاتھوں میں مرتکز کرنے کو بجائے جمہور کے حوالے کر دے کیونکہ استحصالی طبقے کی حکمرانی اسے کسی طور گوارا نہیں۔فیضؔ کے نزدیک تووطن اور وطن میں بسنے والے افراد ہی ان کا حقیقی سرمایہ تھے جو وطن دوستی کے اٹوٹ رشتوں میں گندھے ہوئے تھے۔فیضؔ کی کوششیں پاکستان کے اُس نظام کو تبدیل کرنے کے لیے تھیں جوانسانوں کے درمیان استحصالی رشتوں کو مضبوط کرتا تھا۔یقیناً یہ سرمایہ دارانہ نظام تھا جو وہ استحصالی قوتوں کواستحکام اور دوام بخشنے کی فکر میں تھا۔ فیضؔ جاگیر دارانہ نظام سے بھی عاجز تھے لہٰذا وہ اس کی بنا پر ظہور پانے والے رشتوں کو ختم کرنے والے نظام کی فکر میں بھی کمر بستہ رہے ۔ عدل اور مساوات جیسی اقدار کے حصول کے لیے آپ کو بھاری قیمت چُکانا پڑی اوراپنے جذبِ صادق کا ثبوت فراہم کرنے کے لیے اُنہیں زنداں کی تاریکیوں میں بھی اُترنا پڑا۔فیضؔ نے ایک بامقصد زندگی بسر کی اور محض مادی تسکین کو منتہائے نظر نہ بنایا بلکہ لوگوں کے دکھ درد میں شریک ہو کر ان کے دکھ درد کو کم کیا۔ ان کا یہ عمل بھی ان کے ہم وطنوں کے لیے اطمینان کا باعث ہے کہ انہوں نے اپنے گردو پیش کی حقیقتوں سے منہ موڑنے کی بجائے ان کا ادراک حاصل کیا اور ان کو بدلنے کے لیے مشاہد ے کے ساتھ ساتھ مجاہدہ بھی کیا۔ان کی یہ جدو جہد اور کوشش پسِ زنداں بھی جاری رہی کیونکہ یہ ان کے فکر و احساس کا فطری جزو تھا۔ان کے دل میں پیدا ہونے والی خلش اور جلن اس باعث تھی کہ وہ اپنے وطن کے حوالے سے بہت سے خواب دیکھتے تھے۔صرف یہی نہیں بلکہ فیضؔ نے اس راہ میں پیش آنے والی دشوار گھاٹیوں اور کھائیوں کو کرید کرید کر عیاں کیا۔حقیقت اور جمال کی تلاش کرنااور اس تلاش کو تحریک کی صورت میں اپنانا فیضؔ ہی کی کرشمہ سازی تھی۔اِن کے معاصرین اور ہم خیال ان کی غیر معمولی استقامت اور صبر وبرداشت کے قائل تو تھے ہی مگر وہ ان کی شاعرانہ عظمت کے معترف بھی نظر آتے ہیں۔ سید سجاد ظہیرؔ اس حوالے سے لکھتے ہیں
’’ یہ بھی صحیح ہے کہ چونکہ ہمارے بہت سے تجربے، زندگی اور اپنے وطن کو ثمر بار اور حسین بنانے کے متعلق ہمارے خواب، ہمارا درد، ہماری نفرتیں اور رغبتیں، مشترک تھیں، اس لیے فیضؔ کے ان اشعار سے میں غیر معمعولی طور پر متاثر ہوتا تھا۔‘‘۸

اس حوالے سے فیضؔ کی بیشتر نظمیں حسین علامتوں اور مرصع نگاری کا نمونہ پیش کرتی ہیں۔ایک ایسے ملک کو جسے فیضؔ نے محبوبہ کی طرح چاہا تھا، اس کی زلفوں کو وہ پریشاں دیکھنے کے روادارنہ تھے۔وہ ہر حال میں اپنے نظریے کو مقدم سمجھتے تھے :

یہ رات اُس درد کا شجر ہے
جو مجھ سے تجھ سے عظیم تر ہے
عظیم تر ہے کہ اس کی شاخوں
میں لاکھ مشعل بکف ستاروں
کے کارواں، گھر کے کھو گئے ہیں
ہزار مہتاب، اس کے سائے
میں اپنا سب نور ، رو گئے ہیں۹

ان کی نظموں میں اپنے دیس کی بو باس اور مہک رچی بسی ہے۔اسی خوشبو کے طفیل عوام کے دماغ ردشن اور دل پُر نور ہوئے۔قیامِ پاکستان کے بعد ایک مسلسل سماجی عمل کے تحت ہر ایک پاکستانی کو باعزت زندگی بسر کرنے کا حق حاصل ہونا چاہیے تھا۔وہ احساسِ تمانیت جو عہدِ فِرنگ میں اسے حاصل نہ ہو سکا، اس کا احساس اپنے دیس میں لیے جانے والے ہر سانس سے نصیب ہونا چاہیے تھا۔فیضؔ کے نظریے کے مطابق زندگی کا مقصد زندگی میں پیش آنے والی مشکلات کے خلاف بنرد آزما ہونا ہے۔ ان مصائب کے سامنے ہتھیار ڈال دینا ان کے مسلک میں شامل نہیں۔ ان کی رائے میں بے سمت اور بے مدار دائروں میں حرکت کرنے کی بجائے ہمیں اپنی منزل کا تعین جلد از جلد کرنا چاہیے۔ان کی ایک نظم ’’ صبحِ آزادی‘‘ جو ۱۴ِ اگست کے موقع پر لکھی گئی، مایوسیوں کے بادل تلف کر کے ہمیں جہدِ مسلسل پر آمادہ کرتی ہے۔اس نظم میں اُنھوں نے محض طنز کے نشتر ہی نہیں آزمائے بلکہ نئی سحر کا نیا خواب دیکھنے والوں کونیا خیال، نیا حوصلہ اور نیا منشور بھی عطا کیا ہے۔ ان کے مطابق ہمیں اس وقت تک سکون میسرنہیں آسکتا جب تک نگارِ صبح کا چہرہ لہو لہو ہے اور ہمیں اس وقت تک اطمینانِ قلب نصیب نہیں ہو سکتا جب تک کہ ہم اندھیروں کو زائل کرنے میں کامیاب نہ ہو جائیں :
ابھی چراغِ سرِ رہ کو کچھ خبر ہی نہیں
ابھی گرانئ شب میں کمی نہیں آئی
نجاتِ دیدہ و دل میں کمی نہیں آئی
چلے چلو کہ وہ منزل ابھی نہیں آئی۱۰

فیضؔ نے پاکستانی تہذیب اور اسلامی تہذیب کو الگ الگ نہیں سمجھا۔اپنے نظریات کی روشنی میں نہ صرف تنازعات کا خاتمہ کر نے کی جِد وجہد کی بلکہ شکوک و شبہات دور کر نے کے لیے بھی میدانِ کارزار میں اُترے ۔وہ کسی صورت بھی اسلامی تہذیب اور پاکستانی یا قومی تہذیب میں تصادم نہیں چاہتے تھے۔ان کے نزدیک دونوں تہذیبوں کی مرکزیت ایک ہے لہٰذا اِن میں تضاد کا کوئی جواز نہیں۔وہ تمام اسلامی ممالک کی تہذیبوں کو اِسلامی تہذیب سمجھتے تھے۔ان کے مطابق اسلامی تہذیب ایک آفاقی تہذیب ہے جو مختلف صورتوں اور مختلف حالات میں مسلم قومیتوں میں جلوہ گر ہوتی ہے۔اس طرح وہ اسلامی تہذیب سے انکار نہیں کرتے بلکہ ہر اسلامی ملک کی تہذیب کو اسلامی تہذیب سمجھتے ہیں۔ تاہم وہ کسی ایک اسلامی ملک کی تہذیب کو پوری دنیا کے اسلام کی تہذیب تصور نہیں کرتے۔ یہی ان کی وطن دوستی کی نظریا تی اساس ہے :
’’اسلام کیونکہ عالمگیر مذہب ہے اِس لیے ہر مسلمان قوم کاکلچر اسلامی کلچر ہے۔ ہر مسلمان قوم کی تہذیب اِسلامی تہذیب ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہر اِسلامی ملک کی ایک قومی تہذیب بھی ہے۔ اس دونوں باتوں میں کوئی تضاد نہیں ہے۔ ‘‘۱۱

جیسا کہ اس مضمون کی ابتدا اس تمہید کے ساتھ کی گئی کہ وطن دوستی یا ملی شاعری کا دائرہ محدود نہیں۔ یہ محض اپنے دیس کے لیے سُریلے گیت لکھنے کا نام نہیں اور نہ ہی محض اس کے قدرتی مناظر سے دل بہلانے کا نام ہے بلکہ وطن دوستی کا تقاضا تو یہ ہے کہ سیاسی اور سماجی انتشار کے دور میں جبر وتشدد کے خلاف صدا بلند کی جائے۔ملک وقوم کے افراد کو سماجی انصاف کے حصول میں رکاوٹ ڈالنے والوں اور منزلِ مقصود کو فراموش کر دینے والوں کے اصل عزائم سے باخبر رکھا جائے۔ یہی کام فیضؔ نے کیااور اپنے مشاہدے اور تجربے کی روشنی میں ایک بھر انداز میں صدائے احتجاج بلند کی۔ ان کی شاعری اس حقیقت کی ترجمان ہے کہ حالات کا تقاضا یہ نہیں تھاکہ اپنے اردگرد پھیلی ہوئی مایوسی ، ہوسناکی، جبر اور ریشہ دوانی کے مقابل مظلومیت کا نوحہ اور شکستہ افکارپر ماتم کا ڈھونگ رچایا جائے۔ اس کے برعکس ضرورت اس امر کی تھی کہ پوری طاقت اور توانائی کے ساتھ اس نظام کے خلاف صف آراء ہوا جائے جس میں انسانی زندگی سے متعلق ڈرامہ کھیلا جا رہا تھا۔ ترقی پسند تحریک ہر اُ س تحریک کا حصہ رہی کہ جس میں انسانی حقوق کے علم برداروں نے انسان کو اس کے محروم کروہ حقوق دلوانے کی کو شش کی۔حصولِ پاکستان کے لیے جلائی گئی تحریک کی بھی ایک جلیل القدر تاریخ ہے جس میں فیضؔ خاموش تماشائی نہیں تھے۔ وہ اسی کوششِ پیہم کا تسلسل چاہتے تھے۔سپاہ گری کو چھوڑ کر قلمی جہاد اختیار کرنے والے فیضؔ نے اس کی بھاری قیمت بھی ادا کی :

’’
تحریکِ آزادی کا یہ جیالا تحریکِ پاکستان کے معرکوں میں بھی ہراول رہا۔ پاکستان ٹائمز کے اجراء پر مدیرِ اعلیٰ مقرر ہوا تو صحافتی محاذ پر قلمی جہاد کے معرکے سر کرتا رہا، پاکستان وجود میں آیا تو تعمیرِ وطن کے مراحل سامنے آئے۔جس پاکستان کے خواب دیکھے ان کی تعبیر حسبِ مُراد نظر نہ آئی تو احتجاج کی صدا بلند کی۔ اور اربابِ اقتدار کو یہ طرزِ نوا پسند آئی تو سازش کیس میں دھر لیے گئے اور قید و بند کے مصائب جھیلناپڑے۔‘‘۱۲

فیضؔ کا واسطہ وطن کی رعنائیوں سے نہیں بلکہ بد نمائیوں سے بھی رہا۔ترقی پسند ادب زندگی کی بدصورتیوں کو بھی اس طور عیاں کرتا ہے کہ اس میں حسن و زیبائش پیدا ہو جاتی ہے۔فیضؔ کی رائے میں شاعر کی زندگی مشاہدے سے نہیں بلکہ مجاہدے سے تعبیر ہے۔یوں تو ان کی زندگی کے شب وروز اس بات کی گواہی دینے کے لیے کافی ہیں مگر اہم بات یہ ہے کہ ا س راہ کا انتخاب فیض ؔ نے خود کیا تھا۔قید وبند کے صدمات کو جھیلنافیضؔ جیسے رومان پسند شاعر کے لیے آسان نہ تھا مگر وطن سے محبت کا جذبہ ان پر اس قدر غالب آچکا تھا کہ وہ اس مشکل سے بھی نِلوہ نکل گئے :
’’فیضؔ وطن دوستی اور انسان دوستی کی جن راہوں پر گامزن ہوئے اس میں ہزار آفتوں کا سامنا تھا، جسم وجاں کی قربانیاں درکار تھیں۔ الحمدﷲکہ فیض ؔ کسی مصیبت کا سامنا کرنے سے نہ ہچکچایا۔نگارِ وطن کی حرمتِ آزادی اور پھر تزئین و تجمیل کے شوق نے جس جس قربانی کا تقاضا کیا، پیش کردی۔‘‘۱۳
فیضؔ کبھی حرفِ حق لکھنے سے گریزاں نہ ہوئے بلکہ یہی حرفِ حق ان کی وطن دوستی اور اور فرض شناسی کی دلیل ہے۔بہاروں کے مسکن کو خزاں رسیدہ لکھناان کا معانی خیز احتجاج ہے :

زرد پتوں کا بن جو مرا دیس ہے
درد کی انجمن جو مرا دیس ہے ! !۱۴

فیضؔ کا لہجہ اس قدر تلخی میں گھلاہوا اس لیے ہے کہ زندگی کے تجربات نے انہیں ان سنگلاخ راہوں سے بھی متعارف کروا دیاہے جوکھردری حقیقتوں سے اٹی پڑی تھیں۔اس کے علاوہ ترقی پسند تحریک کی عملاً ناکامی کے باعث انہیں اس غمِ ناکامی کو اپنے خون کی گردش میں شامل کرنا پڑا۔ظاہر ہے ایسی صورتِ حال میں طاغوتی طاقتیں کب چین سے بیٹھنے دیتی ہیں۔گھٹن کی اِس فضا میں بھی انسان دوستی اور وطن ودستی نے ان کی داد رسی کی اور چشمۂ تخلیق کو خشک نہ ہونے دیا۔ان کی اس غیر متزلزل محبت کوان کے ہم عصروں نے محسوس کیا اور ان کے نغمات کی سِحر کاری اور فسوں کا تذکرہ اِن الفاظ میں کیا

’’
زنداں کی سنگین دیواروں میں سے بھی ان کے حوصلہ مند دل سے وہ بیتاب ہو کر نکلتے رہے جو عوام زندگی اور مادرِ وطن کی محبت سے لبریز تھے۔ ان کے نغمات کے پیروں ی سرسراہٹ پاکستان اور متعدد دوسرے ممالک کی سر زمین پر سُنائی دیتی رہی اور لاکھوں انسانوں کے دِلوں کو گرماتی رہی۔‘‘۱۵

انہیں جیل خانوں میں فیضؔ نے اپنی زندگی کے پانچ قیمتی سال گنوا دیے۔ان پر لگنے والے الزامات کا تذکرہ ہی کیا جن کا بارِ ثبوت کوئی نہ اُٹھا سکا اور مجبوراً فیضؔ کو کہناپڑا کہ سارے فسانے میں اس کا ذکر نہ تھا مگر جب اہلِ ہوس مدعی ااور منصف بن جائیں تومنصفی چاہنے کی خاظر فیضؔ کو وکیل کی ضرورت بھی پڑی۔فیضؔ کی شاعری میں وطن دوستی کا اظہار تجرباتی ہے، محض مشاہداتی یا جذباتی نہیں کیونکہ وطن میں رہتے ہوئے اچانک ان کے لیے ملک کی سرحدیں اجنبی ہو گئیں۔مہر ووفا کی ساری بارگاہیں سونی ہونے لگیں اور ان کا داخلی دجوداُداسیوں میں ڈوب گیا۔اُمیدوں کے چراغ گل ہونے لگے تو دل کے داغ لَو دینے لگے :

’’
اپنے وطن میں جلاّ وطنی اور کربِ تنہائی کا یہ تجربہ بڑا دور رس اور معنی خیز تھا۔ ایسا لگتا ہے کہ کہ یہ اِن کے داخلی وجود میں جذب ہوکر ہمیشہ کے لیے اُن کی حسیّت کا ایک حصہ بن گیا۔‘‘۱۶  

صرف یہی نہیں فیضؔ نے اپنی زندگی کے دوران اس وطن جو نشیب وفراز دیکھے ان میں ۱۹۷۷ ؁ء کا مارشل لاء ان کے لیے سوہانِ روح بن گیا۔بربریت کے اس دور میں بھی آپ نے وطن اور اہلِ وطن کی حالتِ زار کا ایسا اثر آفریں نقشہ کھینچا جو آئندہ کسی آمر کی تدبیر اور بہروپ کو زیادہ دیرپنپنے کا موقع نہیں دے گا :

دل کو صد لخت کیا سینے کو صد پارہ کیا ! !
اور ہمیں چاک گریباں نہیں کرنے دیتے
اُن کو اسلام کے لُٹ جانے کا ڈر اتنا ہے
اب وہ کافر کو مسلماں نہیں کرنے دیتے !۱۷

فیض ؔ تمام عمر وطن سے دوستی اس طور نبھاتے رہے کہ وہ اُن چہروں کی بے نقاب کرتے رہے جو تیسری دنیا کے ممالک میں مختلف ڈھونگ رچا کرفسطائیت کو مسلط کرتے ہیں۔ فیضؔ کی شاعری اور افکارنے ہمیں آمریت کی مختلف شکلوں سے جو معرفت عطا کی ہے وہ آج بھی ان قوتوں کے خلاف ہمارا موثر ہتھیار ہے۔موجودہ دور میں کسی بھی قوم کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنی بقا کے لیے اپنی تہذیب و ثقافت کو فروغ دے کیونکہ ثقافتی جنگ زمینی جنگ سے زیادہ خطرناک ہوتی ہے۔ترقی کے اس دور میں دنیا کی ہرقوم کو رسل ورسائل اور ابلاغ کے موثر نظام کی بدولت ہمہ وقت ثقافتی یلغارکا سامنا ہے۔ فیضؔ کی رائے میں اس صورتِ حال سے نمٹنے کے لیے دوباتیں بہت ضروری ہیں۔ اوّل یہ کہ ہم اپنی تہذیب پر فخر کرنا سیکھیں اور دوم یہ کہ تاریخ سے جو کچھ ملا ہے اور ہماری تہذیب میں رچ بس چکا ہے اُسے قبول کر لیں۔
فلسطین میں قیام کے دوران فلسطین کی مقدس سر زمین کے حوالے سے لکھتے ہیں :

یہ دیس مفلس و نادار کجکلاہوں کا
یہ دیس بے زر ودینار بادشاہوں کا
کہ جس کی خاک میں قدرت ہے کیمیائی کی
یہ نائبانِ خداوندِ ارض کا مسکن
یہ نیک پاک بزرگوں کی روح کا مدفن۱۸

فیضؔ اس نکتہ سے واقف تھے کہ کوئی بھی معاشرہ ٹھوس ثقافتی بنیادوں پر ہی قائم رہ سکتا ہے۔اسی لیے انہوں نے جابجا اس کی اہمیت پر زور دیا ۔ اہم بات یہ ہے کہ اس سلسلے میں ان کا انداز تحکمانہ نہیں بلکہ عاجزانہ تھا۔ہم جانتے ہیں کہ فیضؔ اشتراکی نظریات سے وابستہ تھے اور ایک ممتاز دانشور کی حیثیت سے پوری دنیا میں جانے جاتے تھے۔مگر یہ حقیقت ہے کہ جب کبھی بھی کوئی قومی نوعیت کا معاملہ زیرِ بحث آیا تو اُنہوں نے سب وابستگیوں کو پس انداز کر کے ملکی مفادات کو ترجیح دی اور ایک سچے پاکستانی کی حیثیت سے سوچا۔اُن کا ذاتی کرداراور فنی تخلیقات نظریۂ پاکستان سے متصادم نہیں۔ اُن کی صلح جو ئی ملکی اور سماجی معاملات کی حساسیت کا مکمل ادراک رکھتی تھی۔اس حوالے سے جمال نقوی کی یہ رائے معتبر ہے :

’’
انہوں نے اپنے ذاتی مفادات ، تعلقات اور نظریات کے بجائے قومی مفادات اور سماجی معاملات کو ہمیشہ اہمیت دی۔‘‘۱۹
مذہبی ورثے کے بعدثقافت کی بحث کے دوران جو نکتہ فیضؔ کے پیشِ نظر رہا وہ تاریخی ورثہ تھا اور وہ برِ صغیر کے عظیم علمی اور ادبی سرمائے کو مشترکہ سرمایا خیال کرتے تھے۔برطانیہ سے الگ ہوجانے کے بعد کیٹس، شیلے اور ملٹن آج بھی امریکن کے لیے محترم ہیں، اسی طرح فرانسیسی ادب بیلجیم کے فرانسیسی علاقے میں آج بھی مقبول ہے اور جرمنی اور آسٹریا الگ الگ مملکتیں ہونے کے باوجود ایک ہی جرمن ادب سے حظ اُٹھا سکتی ہیں اور اس سارے عمل میں کسی کی آزادی کو کوئی خطرہ لاحق نہیں ہوتا ۔ اسی تناظر میں وہ اقبال ؔ کے علاوہ میرؔ اور غالبؔ کے اثاثے کو بھی بہت اہم گردانتے تھے کیونکہ بہر طور مسلمانانِ ہند بھی اسلامی تہذیب کے خد وخال کی نمائندگی کرتے تھے

’’
فیضؔ صاحب پاکستان میں بعض اصحاب کے اس نظریے پر بہت رنجیدہ خاطر ہوا کرتے تھے کہ ہر وہ چیز جس کا تعلق ہندوستاں سے بھی ہے، پاکستان کے لیے زہرِ ہلاہل ہے۔‘‘۲۰
ہماری اس سرزمین کویہ اعزاز حاصل ہے کہ یہاں دنیا کی قدیم ترین اور مہذب ترین تہذیبوں نے نہ صرف جنم لیا بلکہ ارتقا کی کئی منازل بھی طے کیں۔یہی وجہ ہے کہ ان سب تہذیبوں کا ورثہ ملک کے طول وعرض میں پھیلا ہوا ہے۔اس کے علاوہ اسلامی تہذیب اور عقائدبھی ہماری ثقافت کا طرۂ امتیاز ہیں۔ان دونوں کی حفاظت کرنا ہم سب پر واجب ہے کیونکہ ہمارا مستقبل انہیں سے جڑا ہوا ہے۔ان میں سے کسی ایک سے صرفِ نظر کر کے ہم خود کو ناقابلِ تافی نقصان پہنچائیں گے۔ فیض ؔ کے منظورِ نظر بھی یہی حقیقت تھی جس کا برملا اظہار انہوں نے بار بار کیا ۔فیض ؔ اس عقیدے کے قائل تھے کہ یہ کوشش عبث ہے کہ دنیا کے تمام اسلامی ممالک کی تقافت کو ایک ہی رنگ میں رنگ دیا جائے۔تمام اسلامی ممالک کانظریہ ایک ہے مگر پہچان الگ الگ ہے۔علاقائی اور مقامی اثرات کے تحت ان کا لباس ، خوراک اور رہن سہن جدا جدا ہیں ۔ہمیں بحیثیت پاکستانی یہاں کے مخصوص رسم و رواج ، زبان اور ادب کو اپنانا چاہیے کیونکہ یہ صدیوں کے ارتقا اور انسانی ریاضت کا حاصل ہیں۔ کسی بھی قومیت اور کسی بھی علاقے کی ثقافت کو اس پر فوقیت نہیں دی جاسکتی۔جمال نقوی نے فیضؔ کے اس تصور کی ترجمانی یوں کی :

’’
اس سلسلے میں فیضؔ صاحب کا کہنا ہے کہ اسلامی مملکتیں تو اور بہت سی ہیں اِن میں پاکستان کی انفرادیت اِس کے عوام مخصوص مزاج، زبان و رسم و رواج، اور اَدب وغیرہ آتے ہیں۔ اس پر یکسوئی سے غور کرنے کے لیے ہمیں پاکستانی قومیت اور ثقافت سے شرمانا نہیں چاہیے، اِسے ہم اپنی معاشرتی زندگی کا ایک جز قرار دیں۔‘‘۲۱

بیروت میں قیام کے دوران ان خیالات کی وضاحت فیضؔ نے اپنی شاعری میں پیش کی :
او میرے وطن! او میرے وطن! او میرے وطن
مرے سر پر وہ ٹوپی نہ رہی
جو تیرے دیس سے لایا تھا
پاؤں میں وہ اب جوتے بھی نہ رہے
واقف تھے جو تیری راہوں سے
مرا آخری کُرتا چاک ہوا
ترے شہر ے جو سلوایا تھا۲۲

وطن دوستی کا ایک تقاضا یہ بھی ہے کہ یہاں کے عوام کو ایک ثقافت کی لڑی میں پرو دیا جائے۔علاقائی ثقافت سے بڑھ ملکی ثقافت کو فروغ حاصل ہونا چاہیے۔ یہ ایک ثقافت فیضؔ کے نزدیک پاکستانی ثقافت کہلائی جائے اورسارے ملک میں اسے قدر کی نگاہ سے دیکھا جانا چاہیے۔یہ وہ ثقافت ہوگی جو پوری دنیا میں پاکستان کی پہچان کروائے گی۔ ثقافت کی ہم آہنگی ملکی استحکام کا باعث ہوتی ہے جبکہ اس کی عدم ہم آہنگی خلفشار اور افراتفری کو دعوت دیتی ہے۔ اس کی واضح مثال فیضؔ کے نزدیک سر زمینِ ہندوستان ہے جہاں تاریخی، جغرافیائی اور مذہبی اختلافات نے زور پکڑا اور اس کی تقسیم کا مرحلہ آگیا۔ فیضؔ کی رائے میں اگرثقافتی اختلافات کو کم نہ کیا جاسکا تویہ سلسلہ مذید سنگینی اختیار کر سکتا ہے :
’’ہندوستان میں صرف دو نہیں بلکہ بیس کلچر تھے اور اِس وقت بھی موجود ہیں اور اِسی لیے ہندوستان میں اِس وقت وہ سارے فسادات موجود ہیں۔ ہندوستان میں بہت سے کلچر تھے لیکن اِن میں کچھ باتیں مشترک بھی تھیں اور بہت سی چیزیں مختلف بھی۔چونکہ ایک کلچر نہیں تھا اِسی لیے پاکستان بنا اور اِسی وجہ سے ممکن ہے ہندوستان کی تین چار ٹکڑے اور ہوں اور بہت ممکن ہے کہ ہندوستان ایک ملک نہ رہے۔ اس میں مذید تقسیم ہو۔‘‘۲۳
فیضؔ کے نزدیک وطن دوستی کا تقاضا یہ ہے کہ خواص کی بجائے عوام کے مسائل کو سمجھنے کی کوشش کی جائے۔ان کی مشکلات کو دور کیا جائے اور ان کا حل نکالا جائے تاکہ
ان لوگوں کی زندگی میں اُمید کی کوئی کرن داخل ہو سکے :
وہ جنہیں تابِ گران باریئ ایاّم نہیں !
اُن کی پلکوں پہ شب وروز کو ہلکا کردے
جن کی آنکھوں کو رُخِ صبح کو یارا بھی نہیں
اُن کی راتوں میں کوئی شمع منور کردے !
جن کے قدموں کو کسی رہ کا سہارا بھی نہیں  
اُن کی نظروں پہ کوئی راہ اُجاگر کر دے !۲۴

جدید ترقی نے مواصلاتی انقلابِ کے بل پر ساری دنیا کو ایک شہربلکہ ایک گاؤں بنا کر رکھ دیا ہے لہٰذا کوئی ثقافت آج اپنے خول میں بند نہیں رہ سکتی۔ہر طرف ثقافتی یلغار کا سماں ہے۔ فیضؔ کے مطابق ہمیں اس یلغار سے کوئی خطرہ نہیں جب تک کہ ہم اپنی ثقافت کا اصل جوہر زائل نہ کریں اور اس کی حفاظت پر مامور رہیں۔فیضؔ کے مطابق وطن دوستی کا یہ تقاضا ہے کہ ہم سب مل کر پاکستان کی مجموعی تاریخ اور علاقائی ثقافتوں سے تیار ہونے والے رنگا رنگ پھولوں کے اس گلدستے کی خوبصورتی کو دوآتشہ کرنے کی کوشش میں مصروف رہیں۔اس حوالے سے ہمیں ان خیالات کی بھی حوصلہ شکنی نہیں کرنی چاہیے جو علاقائی ثقافتوں کی آبیاری کرنے پر زور دیتے ہیں۔ہمیں یہ بات بخوبی سمجھ لینی چاہیے کہ اگر اس پر زور نہ دیا جائے تو گلدستے کے بکھرنے کا بھی احتمال ہوتا ہے۔ہماری اپنی تہذیب میں علم وحکمت کی تلاش اور عہدِ جدید سے نمو پانے والے نظریات کی سائنسی چھان پھٹک کی مکمل گنجائش موجود ہے۔ ہمارے عقائد میں ابھی اس درجہ لچک موجود ہے کہ اجتہاد کا راستہ اختیار کرتے ہوئے بنیادی اُصولوں پر قائم رہتے ہو ئے بھی نئے نئے خیالات کو اپنا ناایک خوش آئیندتبدیلی خیال کی جاتی ہے :
’’ اول اول تو یہ کہ علمی اور تحقیقی فضا پیدا کرنی ہے جس میں کہ محض مفروضات محض نعرہ بازی اور محض سطحی خیالات کو دخل نہ ہو بلکہ جس کا تعلق حقائق سے ہو۔ غور و فکر سے ہو۔دوسرا کام یہ کہ آپ کو سیاسی طور پر ایک ایسا مساویانہ نظام قائم کرنا ہے جو آپ کے مختلف علاقائی گروہوں اور ان کی مقامی تہذیبوں کو فروغ دے سکے تاکہ ایک طرف وہ آزادی سے اپنی زندگی بسر کر سکیں اور ساتھ ہی ساتھ قومی اتحاد اور قومی یک جہتی میں بہت قریب رشتے آپس میں پیدا کر سکیں۔تیسرا کام ایک ایسا اقتصادی نظام پیدا کرنا ہے جس میں تہذیب اور علم کی رسائی آپ کے سب عوام تک ہو۔‘‘۲۵

فیضؔ کے شعری اورنثری سرمائے کی روشنی میں ہم بخوبی یہ نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں کہ وطن سے فیضؔ کی دوستی کی جڑیں بہت گہری اور محبت کی اساس نہایت مضبوط ہے۔فیضؔ کی وطن دوستی جذباتی، نظریاتی،تجرباتی اورشعوری سطح پرآ کرقاری سے مکالمہ کرتی ہے اور اسے بصیرت کی اُس بلند سطح پر فائز کرتی ہے جو موجودہ ملکی صورتِ حال کے تناظر میں ناگزیر ہے۔
حوالاجات
۱۔تلوک چند محرومؔ ،کاروانِ وطن،نئی دہلی،مکتبہ جامعہ لمیٹڈ،۱۹۶۰ء،ص۲۲
ٓ۲۔تلوک چند محرومؔ ،نئی دہلی،مکتبہ جامعہ لمیٹڈ،کاروانِ وطن،۱۹۶۰ء،ص۲۳
۳۔ذاکر حسین،حالیؔ محبِ وطن،دہلی، اُردو گھر،۱۹۴۳ء،ص۲۰
۴۔جوشؔ ملیح آبادی، خود پرست لیڈر، مشمولہ آیات و نغمات،لاہور،مکتبہ اُردو، ۱۹۴۱ء،ص۵
۵۔فیضؔ ، دستِ صبا، مشمولہ نسخہ ہائے وفا، لاہور، مکتبۂ کاروں،س ن،ص۱۴۵
۶۔فیضؔ ، شامِ شہرِ یاراں، مشمولہ نسخہ ہائے وفا،لاہور، مکتبۂ کاروں،س ن،ص۵۲۷
۷۔فیضؔ ، غبارِ ایاّم، مشمولہ نسخہ ہائے وفا،لاہور، مکتبۂ کاروں،س ن،ص۶۷۴
۸۔سجاد ظہیر،رودادِ قفس، مشمولہ نسخہ ہائے وفا،لاہور، مکتبۂ کاروں،س ن، ص۱۹۷
۹۔فیضؔ ، زنداں نامہ،مشمولہ نسخہ ہائے وفا، لاہور، مکتبۂ کاروں،س ن،ص ۵۴
۱۰۔فیضؔ ، دستِ صبا، مشمولہ نسخہ ہائے وفا،لاہور، مکتبۂ کاروں،س ن، ص۱۱۸
۱۱۔فیض احمد فیضؔ ، ہماری قومی ثقافت، کراچی، ادراۂ یادگارِ غالبؔ ،۱۹۷۶ء، ص۲۷
۱۲۔شیر محمد حمید، فیضؔ سے میری رفاقت،مشمولہ نسخہ ہائے وفا،لاہور، مکتبۂ کاروں،س ن،ص۵۰۱
۱۳۔شیر محمد حمید، فیضؔ سے میری رفاقت،مشمولہ نسخہ ہائے وفا،لاہور، مکتبۂ کاروں،س ن،ص۵۰۱
۱۴۔فیضؔ ، سرِ وادئ سینا، مشمولہ نسخہ ہائے وفا، لاہور، مکتبۂ کاروں،س ن،ص ۴۲۳۔۳۸۹
۱۵۔الیگزانڈرسرکوف،ایک حوصلہ مند دل کی آواز(ترجمہ سحر انصاری)، مشمولہ نسخہ ہائے وفا، لاہور، مکتبۂ کاروں،س ن،ص ۳۸۵
۱۶۔قمر رئیس،فیضؔ کی غزل مشمولہ فیض فہمی،،لاہور، دی ریکونر پبلی کیشنز،۲۰۱۱ء،ص۵۰۲
۱۷۔فیضؔ ، غبارِ ایاّم، مشمولہ نسخہ ہائے وفا،لاہور، مکتبۂ کاروں،س ن،ص۷۰۱
۱۸۔فیضؔ ، مرے دل میرے مسافر، مشمولہ نسخہ ہائے وفا،لاہور، مکتبۂ کاروں،س ن،ص۶۴۴
۱۹۔جمال نقوی، ڈاکٹر،فیضؔ کا فکری ابلاغ،کراچی، ماس پرنٹرز،۲۰۱۱ء،ص۱۱۴
۲۰۔میجر محمد اسحاق،رودادِ قفس، مشمولہ نسخہ ہائے وفا، لاہور، مکتبۂ کاروں،س ن،ص۲۲۲
۲۱۔جمال نقوی، ڈاکٹر،فیضؔ کا فکری ابلاغ،کراچی، ماس پرنٹرز،۲۰۱۱ء،ص۷۷
۲۲۔فیضؔ ، شامِ شہرِ یاراں، مشمولہ نسخہ ہائے وفا،لاہور، مکتبۂ کاروں،س ن،ص۵۸۶
۲۳۔فیض احمد فیضؔ ، ہماری قومی ثقافت، کراچی، ادراۂ یادگارِ غالبؔ ،۱۹۷۶ء،ص۲۶
۲۴۔فیضؔ ، سرِ وادئ سینا، مشمولہ نسخہ ہائے وفا، لاہور، مکتبۂ کاروں،س ن،ص ۴۲۳۔۴۲۴
۲۵۔فیض احمد فیضؔ ، ہماری قومی ثقافت، کراچی، ادراۂ یادگارِ غالبؔ ،۱۹۷۶ء،ص

اوپر جائیں  |   پرنٹ کیجئےِ
انگریزی ورژن ای میل چیک کریں مرکزی صحفہ پرنٹ پسندیدہ سائٹ بنائیں رابطہ کیجئے www.shahzadahmad.com www.shahzadahmad.com