محمد حامد سراج کے نمائندہ افسانوں میں یادِ ماضی اور کرداری ناسسٹلجیا کا  جائزہ

ڈاکٹر انتل ضیاء

 

Abstract
Mohammad Hamid Siraj is the known Urdu writer. He is famous for his Urdu Short Stories (Afsana). He writes in broad behavior by exploring the comcepts of love, beauty and their contradictions and heavily integrated the use of metaphors, smiles and personifications. He fills his sotries with current issues related to corrupt politicians, war against terrorism and extriemism etc.
The theme of this article belongs to Nostalgia in Hamid Siraj Short Stories. Nostalgia can be termed acute sense of the past or remembering something from the past. So Most of Hamid Siraj famous Afsanas were discussed here in the light of Nostalgia.

           انسان ماضی کی یادوں سے اکثر وابستہ رہتا ہے، اس طرح وہ کبھی لمحہ موجود میں غم کا مداوا کسی خوشگوار یاد سے کرتا ہے یا پھر ایسا بھی ہوتا ہے کہ وہ گزرے ہوئے غم کی یاد سے براہِ راست قرب محسوس کرتا ہے۔ فرد کا کردار کسی نہ کسی طور پر ناسٹلجیا میں گرفتار ہوتا ہے یہ کردار افسانوی بھی ہو سکتا ہے اور ادیب کا بھی۔ جامد سراج کے افسانوں پر بات کرنے سے پہلے  میں ناسٹلجیا کا مختصر تعارف کرنا چاہونگی۔  ناسٹلجیا کا مفہوم غالباً خانہ اُداسی لیا جاتا ہےجو یکسر غلط ہے۔ خانہ اُداسی سے مراد HOMESICKNESSہےنہ کہ ناسٹلجیا جو بظاہر لاطینی لفظ معلوم ہوتا ہے۔ حقیقتاً دو یونانی الفاظ NOSTOS بمعنی "واپسی" اور ALGOS بمعنی "درد" ہیں۔ لفظی طور پر ناسٹلجیا کے معنی درد آلود واپسی ہو گا ۔اس اعتبار سے لفظ ناسٹلجیا کو  ہم "پس کربیہ"بھی کہہ سکتے ہیں لیکن یہ کرب ماضی کی جانب واپسی سے  مشروط و منسوب ہے۔ افسانہ "قدیمی کرسی اور کتاب کی مرمت" حامد سراج کے ان افسانوں میں شامل ہے جس میں ماضی کی یادوں سے وابستگی کا اظہار ملتا ہے۔ انسان ماضی میں جذبوں، رشتوں اور واقعات سے ہی لگاؤ نہیں رکھتا بلکہ بے جان چیزیں بھی جیسا کہ کرسی، میز، کتابیں وغیرہ بھی یاد کا حصہ ہوتے ہیں۔ اس افسانے میں کردار 'میں' کی یاد کا سبب بھی ایک پرانی کرسی بنتی ہے جو اسے ماضی سے منسلک کر کہ ناسٹلجیا میں گرفتار کرتی ہے۔
"یہ قدیم فولڈنگ کرسی وکٹورِین عہد کی یاد دلاتی ہے۔ نانا جان پولیس میں ایس پی تھے ۔جب کوئٹہ سے ریٹائر ہو کر گاؤں لوٹے تھے تو چھ وکٹورین کرسیاں بھی سامان میں ساتھ تھیں۔ شعور سنبھالنے پر میں نے نانی امّاں سے چار کرسیاں مانگ لی تھیں۔ ننیہال کی یہ آخری نشانی میں نے اب تک سنبھال رکھی  ہے۔ یہ عہدِ رفتہ ہے اسے صرف کرسی خیال نہ کیا جائے۔ کیا محبت صرف جان داروں سے کی جاتی ہے۔ میرا تعلق ان کرسیوں سے بھی صلہ رحمی کا ہے۔"   ۱؎
کردار 'میں' نے یہ کرسیاں اپنی نانی سے لی تھیں اس لیے محبت اور اُنس کی کیفیت محسوس کرتا ہے اور ماضی سے وابستگی ناسٹلجیا کا سبب بھی بنتی ہے۔ اسی طرح کردار 'میں' اپنی کتابوں کی الماری میں جب کتابوں کا جائزہ لیتا ہے تو اس میں کچھ کتابیں بوسیدہ  ہوچکی ہوتی ہیں تو کچھ کو دیمک لگی ہوئی ہوتی ہے۔ ایسے میں وہ دل گرفتہ ہو جاتا ہے اور اسے کتابوں کی مخدوش حالت پر افسوس ہوتا ہے۔ ایک کتاب جو دیوان سنگھ مفتوں کی خود نوشت سوانح عمری ہے اس کی حالت بھی بوسیدہ نظر آتی ہے اور کردار 'میں' اس حوالے سے ناسٹلجیا کا شکار ہوجاتا ہے۔
"تیس برس پہلے راولپنڈی کے ایک بک اسٹال سے میں نے یہ کتاب خریدی تھی۔۔۔ انہماک سے اس کا مطالعہ کیا تھا۔ یہ دیوان سنگھ مفتوں کی خود نوشت ہے اور اس کا شمار اُن  قابلِ قدر سوانح میں ہوتا ہے جو زندہ رہتی ہیں ۔"   ۲؎
یہاں پر کردار 'میں' کی کتابوں سے محبت بھی سامنے آتی ہے کہ وہ اس کی بوسیدگی سے اداس ہوتا ہے۔ تاریخ کی کتابیں دیکھ کر وہ اپنے آپ کو تاریخ کی گرفت میں محسوس کرتا ہے اور کہتا ہے۔
"تاریخ نے میرے پاؤں پکڑے۔ میرے سامنے ریک میں ابو ا لقاسم فرشتہ کی ”تاریخِ فرشتہ“ تھی۔ میں نے کتاب اٹھائی تو گتے کی جلد ریک میں ہی رہ گئی۔ کتاب میرے ہاتھ میں تھی۔ کتاب کی پشت پر گوند سوکھ چکی تھی۔  سرِ ورق اور پسِ  ورق کو اٹھا کر میں نے ان پر سے گرد جھاڑی۔ تاریخی واقعات چیونٹیوں کی مانند قطار باندھے نظر آئے۔ آپ کو فکر مندی کیوں ہو رہی ہے۔ میرا قطعی یہ ارادہ نہیں کہ میں ابوالقاسم فرشتہ کی تاریخِ فرشتہ اور دیوان سنگھ مفتوں کی ناقابلِ فراموش سے واقعات کشید کر کے اس تحریر کو تاریخ بنا ڈالوں۔ تاریخ تو ہم خود ہیں۔۔۔ ہمارا کردار ہی تاریخ مرتب کرتا ہے۔ ہمارے فیصلے تاریخ کے صفحات کو روشن کرتے ہیں یا عاقبت نا اندیش ذہنوں کے فیصلے تاریکی کے غار میں دھکیل دیتے ہیں۔"   ۳؎
کردار کے گھر کی دیوار بھی بوسیدہ   ہوگئی اور وہ اس کی مرمت روپے نہ ہونے کی وجہ سے نہیں کر سکتا۔ یہاں پر اس افسانے میں معاشی تنگی بھی کرب  کی کیفیت میں مبتلا کرتی ہے۔ یہ ایک ایسا کرب ہے جو حالات اور ماحول کی بدولت وقوع پذیر ہوا ہے۔ کردار کی بیٹی اس کو چائے کی پیالی لاکر دیتی ہے، مگر وہ اپنے ماضی میں ان یادوں کے ساتھ منسلک ہوتا ہے جن میں بےفکری اور اپنائیت کا احساس موجود ہوتا ہے۔ وہ اپنی لائبریری میں کھڑا کتابوں اور اس قدیم کرسی کے بارے مین ناسٹلجیائی کیفیت میں گرفتار ہوتا ہے۔
"میں لائبریری میں کھڑا تھا۔
صدیاں میرے اندر دھڑک رہی تھیں۔ بارش تھم چکی تھی۔ میں نے قدیمی فولڈنگ کرسی کوکھولا۔ وہیں لائبریری میں کرسی پر جسم کو ڈھیلا چھوڑ کر آنکھیں موند لیں، جو کتابیں میں نے مرمت کی تھیں وہ میری گود میں دھری تھیں۔"   ۴؎

"قدیمی کرسی اور کتاب کی مرمت" میں کردار ماضی کی یادوں سے وابستگی کی بنا پر حال سے کچھ لمحوں کے لیے بے خبر ہو جاتا ہے ، جبکہ "لالٹین جلتی رہی" میں رشتوں کا انہدام اور پامالی کا عمل ناسٹلجیا کا سبب بنتا ہے۔ تہذیبی زوال کے ساتھ ساتھ فرد کے تصورات میں بھی تبدیلی آتی رہی۔ مادیت پرستانہ سوچ محبت کے تمام رویوں کو ختم کرنے کا سبب بنتی رہی۔ لالچ اور حرس کی وجہ سے بھائی بھائی سے بے دل ہوگیا۔ یہی المیہ اس افسانے میں کردار عاصم کی ناسٹلجیا کا سبب بنتا رہا۔ کردار اپنے چچا سے بہن، بھائیوں کی بے مروتی کا گلہ کچھ یوں کرتا ہے۔
"چچا۔۔۔ابا دنیا سے گئے تو میرا ایک ہی قصور تھا میں گھر میں سب سے بڑا تھا۔ حتی المقدور میں نے معاملات کو حل کیا۔ بہنوں اور بھائیوں کو زمین کا ٹھیکہ  پورا  پورا  ادا کرتا ہوں۔ فیکٹری کی آمدن میں بھی کبھی ڈنڈی نہیں ماری۔ لیکن میں حیران ہوں کس دن کس وقت ہماری باہمی محبت کی دہلیز کو دیمک لگی۔ چھوٹی چھوٹی باتیں کب بھانبڑ بن گئیں۔ میں فرشتہ نہیں ہوں مجھ میں بھی خامیاں ہو ں گی۔ لیکن میری مکمل آنکھ اس وقت کھلی جب مجھے وقت نے گواہی دی کہ میری بہنوں کے دل میں میری محبت دم توڑ گئی ہے۔ کیوں کیسے کب۔۔۔نہیں معلوم۔۔۔ عورتوں کی ُکڑ ُکڑ میں میرے بھائیوں نے کب نفرت پالی اس کا کوئی سراغ نہیں مل سکا۔ زمینوں کے معاملات کی شکایات، فیکٹری کے مالی امور میں ان کی بدگمانی۔۔۔! مجھ سے بات کر لی ہوتی جب ابا کے بعد ان کا حصہ ان کو ادا کر سکتا ہوں تو شکایات کے ازالہ بھی کرتا۔ "   ۵؎
بہن بھائیوں کی طرف سے دی جانے والی تکلیف عاصم کے لیے اذیت ناک درد کی صورت اختیار کر لیتی ہے۔ رشتوں میں، رویوں میں تلخی آجائے تو پھر زندگی بڑی بےمزہ اور پریشان کن محسوس ہوتی ہے۔ لمحہ موجود کی تلخی کا بیان کردار کچھ یوں کرتا ہے۔
"میری ایک بہن کو گلہ ہے۔۔۔ہم ان کو پروٹوکول نہیں دیتے۔۔۔یہ  پروٹوکول کیا ہوتا ہے۔۔۔؟
اپنوں میں تو اپنائیت ہوتی ہے۔ صلہ رحمی میں تکلّفات کا کیا گزر۔۔۔گزشہ برس میری بہنوں نے عیدی واپس بھجوا دی۔ آپ یقین کریں میں نے تینوں کوزیرو میٹر گاڑیاں نکلوا کر دیں۔ مجھے کوئی پروٹوکول کوئی ریٹرن نہیں چاہیے تھا۔ جانے وہ کون لوگ ہیں جن کی باتیں سن کر وہ مجھ سے نفرت کرنے لگی ہیں چچا کہیں ہم آپس میں سوتیلے تو نہیں۔۔۔۔!"   ۶؎
یوں رشتوں کا انہدام اور توڑ پھوڑ بھی ناسٹلجیا کی تخلیق کا اہم سبب بنتا ہے۔ اس کردار میں لمحہ موجود کی ناقدری اور بے حسی ماضی کی محبت اور رشتوں کی قربت کی یاد دلاتی ہے۔ وہ آہستہ آہستہ  ماضی کے سنہرے دنوں کی پنہائیوں میں چلا جاتا ہے، جب تہذیب کی قدریں مختلف تھیں۔ اس وقت جب لوگ مہمان بن کر ایک دوسرے کے گھر جاتے تو مہینوں گزارتے تھے اور میزبان مہمان کو رحمتِ خداوندی سمجھتے تھے۔ عاصم جب اپنے چچا کے گھر جاتا ہے تو اس وقت اسے تہذیبی رویوں  کا یہ فرق ناسٹلجیا میں گرفتار کرتا ہے۔
"برسوں میں شاید وہ پہلی بار آئے تھے یا وہ آئے ہوں اور انہیں یاد نہ ہو۔ کیا واقعی مہمان آئے ہیں۔۔۔؟ کیا ایسے تو نہیں مصروفیات کی چکا چوند میں ہمیں خبر ہی نہیں ہوتی کہ مہمان آئے ہیں۔ لالٹین کے عہد میں تو رشتہ دار ایک دوسرے کے گھروں میں مہینوں قیام کیا کرتے تھے ۔"   ۷؎
عاصم اپنی مشینی طرز زندگی کی وجہ سے مختلف بیماریوں کا شکار ہوگیا تھا۔ اسی لیے وہ کچھ دن اپنے چچا کے گھر گزار کر واپس جاتا  ہےتو پر سکون ہوجاتا ہے ۔ اب جب عاصم اپنے چچا کو فون کرتا ہے تو اس کا فون اس کے چچا کے لیے ناسٹلجیائی کیفیت کا باعث بنتا ہے۔
"اس رات بھی بارش ہو رہی تھی۔
لالٹین دونوں کمروں کے درمیان رکھی روشن تھی۔
فون کی گھنٹی پراس نے ریسیور اُٹھایا  تو اس کی آواز میں خوشی تھی۔
”کس کا فون تھا۔۔۔“بیوی نے پوچھا۔
”عاصم تھا۔ ان کے معاملات طے پاگئے ہیں۔“
”مسائل حل ہو گئے۔“
دونوں میاں بیوی بہت خوش تھے۔ بہو کہہ رہی تھی اب یہ نیند کی دوائی کے بغیر سو جاتے ہیں۔ بلڈ پریشر کی دوائی بھی کم ہو گئی ہے۔ تیرا بھی شکریہ ادا کر رہے تھے۔۔۔بہت خوش تھے۔۔۔بہت خوش تھے۔۔۔ بہت۔۔۔ خوش۔۔۔!
”یہ آپ کانپ کیوں رہے ہیں۔۔۔؟“
اس نے لالٹین کی لو اُونچی کی۔
”کچھ نہیں۔۔۔بلڈ پریشر والی گولی نکال دے اور ہاں لالٹین جلتی رہے مجھے اندھیرے سے  خوف آتا ہے۔“
”فون پر اور کون سی ایسی بات ہوئی کہ تم دکھی ہو گئے۔۔۔“
”کچھ نہیں اپنے بچے یاد آگئے۔ کئی سال گزر گئے اب تو کبھی فون بھی نہیں آیا۔“ یکایک اس کی آنکھوں پر دکھ کی بارش تیز ہو گئی اور خوش بخت کے ہاتھ میں پکڑی ہوئی لالٹین زور زور سے بھڑکنے لگی۔"   ۸؎
حامد سراج کے افسانوں میں ایک طرف تو تہذیبی یادیں ہیں تو دوسری طرف محبت اور رومان کے حوالے بھی ناسٹلجیا کی کیفیات کا بیان ملتا ہے۔ "بوسیدہ آدمی کی محبت" میں ایک ایسے کردار کو پیش کیا ہے جو اپنی محبت کی یادوں میں گرفتار ناسٹلجیا کا شکار ہے۔ اس افسانے میں ادیب کا ناسٹلجیا اس حوالے سے نظر آتا ہے کہ وہ اپنے دوست کی کہانی اور اس کی کیفیت یاد کرتا ہے۔ جب اس کا دوست اپنی محبت کی پیکر تراشی کرتا ہے تو راوی کو بھی اسی کیفیت کا احساس ہوتا ہے اور وہ صنم اسے اپنے سامنے سانس لیتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ راوی اپنے دوست کو کچھ یوں یاد کرتا ہے۔

" وہ پیکر تراشی کرتا تھا اور اپنی محبوب کی اداؤں سے ماحول کو معطر کرتا تھا۔ وہ لڑکی جس سے اسے محبت تھی اس کا ہیولا سانس لیتا محسوس ہونے لگا تھا۔ وہ متشکل ہوتی چلی گئی اپنی تمام تر   اداؤں سمیت وہ میرے سامنے نہیں تھی، پھر بھی تھی! "   ۹؎
دوست کا کردار اپنی محبوبہ کی شدید چاہت کی یاد میں گرفتار ہے۔ وہ محبوبہ جس نے اسے اتنا چاہا کہ شاید ہی کسی دوسرے شخص نے کبھی اس قدر محبت کے جذبے میں سرشاری محسوس کی ہو۔ اس لیے اس کی کیفیت کرب ناک حد تک دل سوز تھی۔ اس محبت کے نادر لمحوں کی گرفت میں  ناسٹلجیائی کیفیت میں مبتلا نظر آتا ہے جب وہ کہتا ہے۔
"وہ بول رہا تھا اور میں سن رہا تھا۔
”وہ مجھے اتنا ٹوٹ کے چاہنے لگی تھی کہ کسی نے کسی کو کیا ٹوٹ کے چاہا ہوگا۔ صرف وہی تھی جو میرے دُکھ سکھ محسوس کرتی تھی، بانٹتی تھی، میرا خیال رکھتی تھی، میں جسے گھر کے ہر فرد نے نظر انداز کیا۔ میں تو خود کشی کے آخری کنارے پر کھڑا کسی اور جہاں کو دیکھنے کے لیے بے تاب تھا، جب اس نے مجھے اپنی مرمریں بانہوں کے حصار میں لے لیا۔ اس روز مجھے یقین ہوگیا زندگی میں ایک ہستی ایسی ضرور ہو جو اُسے ٹوٹ کر چاہے جس سے دُکھ بانٹے جا سکیں۔ جو اپنا وقت وار دے۔ جب وہ فون کے اس سرے پر ہوتی جو بے جان پلاسٹک سے بنا تھا تو اس کی آواز بے جان چیزوں میں جان ڈال دیتی۔ اس کی آواز میرے بدن اور  رُوح  کے خلیوں میں زیست بن کے تیرتی، میں میں نہ رہتا وہ ہوجاتا۔۔۔ میں گراہم بیل کو دُعائیں  دیتا۔ وہ میرا اتنا زیادہ خیال رکھتی تھی کہ تمہیں اب بتاپانا  میرے لیے ممکن نہیں ہے۔"۱۰؎
اس کردار کی یاد میں وہ لمحے بھی تازہ  ہیں جب وہ اپنی شوخ و چنچل محبوبہ کی پسند کی موسیقی سنتا ۔ وہ اپنی شدید محبت کا اظہار اپنی یادوں کے  الفاظ تراشتے ہوئے یوں کرتا ہے ۔
" موسیقی میں وہ نصرت فتح علی خان کی پوجا کی حدتک پر ستار تھی، سردھنتی تھی سُروں  پر!اسے موسیقی کا دیوتا مانتی تھی۔ کبھی کبھی کمرہ بند کرکے ڈیک پوری آواز میں کھول لیتی۔
آجا تینوں اکھیاں  اُڈیکدیاں۔ دِل واجاں ماردا۔۔۔
ڈیک کی آواز سے کھڑکیوں کے شیشوں میں تھرتھراہٹ پیدا ہوتی وہ لرزتے، تھرتھراتے یوں لگتا ابھی ریزہ ریزہ  ہو جائیں گے۔ اس کی آنکھوں سے بھی موسیقی بہنے لگتی بچوں کی طرح کھلکھلاتی، چھیڑتی تنگ کرتی اور کہتی۔۔۔ سن رہے ہو۔۔۔، ۔۔۔ دھیان سے سنا کرو اور نصرت فتح علی خان مسلسل کہہ رہا ہوتا۔
”تینوں اکھیاں  اُڈیکدیاں، د ِل  واجاں ماردا“
وہ کہتی ”تم جہاں بھی رہوگے یہ دل تمہارے لیے دئیے کی مانند جلتا رہے گا۔ میں آنسوؤں کے تیل سے اسے روشن رکھوں گی۔ اگر میں مربھی گئی نا۔۔۔ تو میری کھلی آنکھوں میں تیرا انتظار  ٹمٹماتارہے گا۔“
”میں اس کے منہ پر ہاتھ رکھ دیتا۔ میں اور کر بھی کیا سکتا تھا۔“
”ایسی دُکھ دینے والی باتیں نہ کیا کرو۔۔۔“
وہ کھلکھلا کر ہنستی اور کہتی ”موت توازلی حقیقت ہے۔"   ۱۱؎
یہ افسانہ کرداری لحاظ سے اور موضوعاتی لحاظ سے مکمل طور ناسٹلجیا کا عکاس ہے۔ کردار کا  رومانوی  طرزِ حیات بھی اسے اس کیفیت سے دوچار کرتا ہے اور حامد سراج اس کی تصویر کشی بہ حسن  و خوبی کرتے ہیں۔ راوی کے دوست کا کردار اس لیے بھی ناسٹلجیا میں گرفتار ہے کہ اس قدر ٹوٹ کر اسے کوئی نہیں چاہ سکتا۔ اس لیے بھی وہ ناآسودگی اور نارسائی کی بدولت اس لمحے کے حصار سے نہیں نکل پاتا۔
افسانہ "پانچ روپے کا متروک نوٹ" ایک ایسے کردار کی کہانی ہے جو غربت اور مفلسی کے ہاتھوں مجبور ہوکر جسم فروشی کی طرف راغب ہوجاتی ہے۔ جب وہ یہ دھندہ شروع کرتی ہے تو تھکن کا شکار ہوجاتی ہے، مگر اپنے بیمار شوہر کے علاج کے لیے اسے مجبوراً یہ کام کرنا پڑتا ہے۔ ایک رات عادل جو کہ اس کی بچپن کے زمانے سے ساتھی تھا اس کا وقت خریدتا ہے اور اس کو مکمل رات آرام کے لیے چھوڑ دیتا ہے۔ صبح جب چوکیدار کے ہاتھ اسے ایک لفافہ ملتا ہے جس میں پانچ روپے کا متروک نوٹ ہوتا ہے تو یہ کردار کو ناسٹلجیا کی کیفیت سے دوچار کرتا ہے۔
"اس نے آہستگی سے لفافہ کھولا تو حیران رہ گئی۔ لفافے میں پانچ روپے کا متروک نوٹ رکھا ہوا تھا۔۔۔اچانک نوٹ سے ایک لہر نکلی اور اس کے وجود کو چیر گئی۔۔۔یہ نوٹ۔۔یہ نوٹ۔۔۔یہ نوٹ تو بچپن میں میں نے عادل کو دیا تھا۔۔۔تو کیا وہ۔۔۔؟ گلیاں محلے چہرے اس کے اندر چیخنے لگے اور وہ وہیں دہلیزپر ڈھیر ہوگئی۔۔۔! "   ۱۲؎
محمد حامد سراج کے ایک اور افسانے "آواگون" میں راوی کا کردار اپنے پرانے محلے میں کسی کام سے جاتا ہے۔ جہاں وہ محلے اور گلیوں کے ناموں کے ساتھ ساتھ اپنے بچپن اور ماضی میں چلا جاتا ہے اور کردار کا ناسٹلجیا جنم لیتا ہے۔
"میں ایک مدت ایک مدت بعد یہاں آیا تھا۔ اسی بیچ والے عرصہ میں بہت کچھ بدل گیا تھا لیکن کلوریاں والی گلی کے ساتھ ریشماں والی گلی کا اجنبی نام آیا تو عین اسی سمے اس کی نامانوسیت معدوم ہوچکی تھی کہ اس کے ساتھ میرا بچپن جڑا ہوا تھا۔ تب میں گئوشالہ پرائمری سکول میانوالی میں پانچوں کا طالب میں پانچویں کا طالب علم تھا اور میں اسی گلی سے ہوکر گزرا کرتا تھا۔"   ۱۳؎

راوی اپنی چادر کو رفو کرنے کی غرض سے اس علاقے میں جاتا ہے اور پھر بچپن کی گلیاں اسے وقت اور زمانے کی قید سے آزاد کر دیتی ہے۔ راوی اپنے آپ کو بہت پیچھے وقت میں محسوس کرتا ہے اس کے بچپن کی مہک اور خوشبو اس کو اردگرد محسوس ہوتی ہے جس کا غبار وہ کچھ یوں کرتا ہے۔
"کلوریاں والی گلی تک میں اپنے بچپن کی انگلی تھام کر پہنچ گیا۔ اس گلی میں داخل ہوکر مجھے یوں لگا کہ کچھ بھی نہ بدلا تھا۔ مانوس دیوار و در سے جاچکے وقت نے پلٹ پلٹ کر مجھے بلانا اور بہلانا شروع کر دیا تھا۔ میں گلی کے اندر دور تک گھستا چلا گیا حتی کہ مسجد لوھاراں کے بغل میں موجود حافظ والی ہٹی آگئی جہاں سے ٹافیاں، بتاشے، ریوڑیاں، ٹانگری، اور مونگ پھلی لینا معمول تھا۔ یہیں قلفی والی ریڑھی لگا کرتی جو شام ڈھلنےتک گلی میں موجود ریا کرتی تھی۔ اس ریڑھی سے ہم ایک آنہ، دو آنہ کی قلفیاں لیا کرتے تھے۔ کچھ آگے نکڑ پر منیاری کی دکان تھی اور پھر وہ مکان جہاں سے روزانہ شام کو نانی اماں کے کہنے پر میں دودھ لایا کرتا تھا۔"  ۱۴؎
افسانہ "ڈِنگ" مکمل طور پر کرداری ناسٹلجیا کا غماز افسانہ ہے۔ ڈِنگ ایک ایسی ہستی تھی جس کو حکومت نے خالی کرایا اور اس میں بسنے والے لوگوں کو دوسری جگہ منتقل ہونے کا حکم دیا۔ اس پر سارے گاؤں میں بے چینی اور بے قراری کی کیفیت تھی ۔ بشارت احمد اس افسانے کا ایک ایسا کردار ہے جو اپنی بستی سے دوری کے احساس ہی سے ناسٹلجیا میں مبتلا ہو جاتا ہے۔
"ایک خوف پوری بستی میں سرایت کرگیا۔ اگلی صبح وہ گھرسے نکلا۔ اس نے دیکھا چھپرتلے مدھانی خاموش ہے۔ ماں آج لسی نہیں ملے گی ؟ چارپائی  پر بیٹھی  متفکرماں سے اس نے پوچھا۔ لسی ؟ آج تو ماں نے بھینسوں کا دودھ بھی نہیں نکالا۔ اس کی بہن نے کہا اس نے بھینسوں کے ڈکارنے کی آواز سنی۔ تو ان بے زبانوں کو بھی معلوم ہوگیا ہے کہ بستی خالی کرائی جا رہی ہے۔
اچانک ایک خیال اس کے دماغ میں کوندا۔ پلٹ کر اس نے گھرکے در و دیوار کو دیکھا۔
کیوں نہ میں اپنے اس گھرکو اپنے اندر تعمیر کر لوں ! وہاں سے تو اسے کوئی بھی گرا کر اپنا منصوبہ شروع نہیں کر سکے گا۔ یہ خیال اسے اتنا بھایا پہلے اس نے سارے کمرے اپنے اندر تعمیر کیے۔ صحن میں لگے تلسی کے پودے  کھرپے سے نکال کر اپنے اندر لگائے۔  چھپر بنایا، اس میں بھینسیں اور گائے باندھی۔ بکریوں کی چرنیاں تک اس نے ترتیب سے رکھیں۔ کیکر کا درخت لگانے میں اسے بہت محنت کرنا پڑی۔ کیکر کے ایک بڑے ٹہن   پر لگا، رسے کا جھولا جو وہ ہر سال عید پر جھولا کرتے تھے، اسے بھی اس نے نظر انداز نہیں کیا۔ جب اسے یقین ہوگیا کہ پورا گھر ساز و سامان سمیت اس کے اندر تعمیر پا گیا ہے تو وہ  سر شار   ہوگیا۔"   ۱۵؎
بشارت احمد اپنے گھر سے وابستگی کی بنا پر ناسٹلجیا کی کیفیت میں مبتلا ہوتا ہے کہ اس کو چھوڑنے کا کرب اس کے وجود کے لیے سب سے بڑھ کر ہے۔ یہ بستی مہاجرین کی آباد کردہ تھی، جو ایک دفعہ اپنے وطن کو چھوڑ کر بچھڑاوے کے عذاب سے گزر چکے تھے۔ بشارت مہاجرین کے ڈیرے پر یہ سماں دیکھتا ہے۔
"بشارت احمد گھومتے گھومتے مہاجرین کے ڈیرے پرپہنچا  تو پنچایت کا سماں تھا۔ فجردین اونچی آواز میں بول رہا تھا۔ باب الدین کو اپنی دکان کے علاوہ یہ فکر بھی دامن گیر تھی کہ مہاجرین کی نئی بستی کا نام کیا ہوگا ۔۔۔؟"   ۱۶؎
اس افسانے کا کردار بشارت احمد ماضی کا  سارا منظر اپنے چشم تخیل سے دیکھ رہا ہوتا ہے۔ کیونکہ ڈِنگ کی بستی کو خالی کرایا جاچکا ہوتا ہے۔ بستی خالی کرنے سے پہلے بھی بشارت غم اور دکھ میں مبتلا تھا اور بستی سے ہجرت کرنے کے بعد تو وہ مکمل طور پر بستی، اس کے گھروں، چوپالوں ، جانوروں اور تمام چیزوں کے حوالے سے ناسٹلجیا کا شکار ہو گیا تھا۔ اس نے مالٹے خریدے اور بیوی نے پوچھا کہ کدھر جارہے ہو تو اس نے کہا کہ۔
"آج میں ڈِنگ  جا رہا ہوں۔
کیا مطلب ہے آپ کا۔۔۔ اس ویرانے میں؟
ہاں اسی ویرانے میں جہاں آبادی ہے۔
ہونہہ، آبادی۔۔۔ ! ان کھنڈرات میں حشرات الارض  اور درندوں کا بسیرا ہے۔ میں نہیں جانے دوں گی آپ کو۔۔۔
کچھ نہیں ہوگا۔
اس نے مالٹے اٹھائے اور چل دیا۔۔۔وہ  ڈِنگ والے پل کے آخری سرے پر پہنچا تو فوجی چوکی پر چوکس جوانوں نے اسے روکا۔۔۔کہاں جانا ہے، آپ کو۔۔۔ ؟
اگر اجازت ہو تومیں اپنی اجڑی بستی دیکھنے جا رہا ہوں۔ اس نے مسکرا کر کہا۔ فوجیوں نے اسے جانے کی اجازت دے دی۔ فوجی چوکی سے دو فرلانگ کے فاصلے پر ڈِنگ کی حدود شروع ہوتی تھی اورپہلا  گھر سکندرمستی خیل کا تھا۔
دو فرلانگ۔۔۔ صدیاں اس کے سامنے دیوار ہوگئیں۔ مالٹوں کا وزن ایک دم بڑھ گیا اور اس کے کندھے دکھنے لگے۔ چوتھائی صدی بعد وہ ان نارنجی کرنوں کی تلاش میں آیا تھا جو کیکے کی شاخوں میں اٹکی تھیں۔ اسے تو یہ خبر بھی نہیں تھی کہ کیکر زندہ بھی ہوگا  یا نہیں۔
کچی پگڈنڈی پر بشارت احمد نے قدم دھرا ہی تھا کہ اس کی مڈھ بھیڑ غلام علی ہلالی سے ہوگئی۔
بشارت احمد کہاں کا ارادہ ہے؟
یار۔۔۔ ڈِنگ  جا رہا ہوں۔۔۔ بشارت احمد عجلت میں تھا۔
وہاں تو کچھ بھی نہیں۔ جنگلی پڑ کیکر ہیں۔ حشرات الارض  اور درندوں کا بسیرا ہے۔ ایک روز میں بھی گیا تھا۔ ہم ہلالیوں کے گھروں کی جگہ پربھی اب کیکر ہی کیکر ہیں۔
غلام علی تمھارا گھر سکندرمستی خیل کے گھرکی دائیں جانب گلی میں مڑ کر ملک عطا محمد جمالے خیل کے گھر سے تھوڑا پہلے بائیں جانب ہی تھا۔۔۔
ہاں۔۔۔ تو پھر۔۔۔ یہ تم کیوں پوچھ رہے ہو؟
میں وہاں جاؤں گا، تمھاری ماں کے ہاتھ سے لسی پیوں گا، تمھارے بابا سے فصلوں کی کاشت پر تبادلہ خیال کروں گا ۔"   ۱۷؎
بشارت کو اسی کا دوست غلام علی سمجھاتا ہے کہ حقیقت کی دنیا میں آؤ۔ وہ بستی اب حقیقت میں موجود نہیں بلکہ وہ کھنڈر بن گئی ہے۔ مگر بشارت احمد ذہنی طور پر یہ ماننے کے لیے تیار نہیں تھا۔ وہ اپنے دوستوں اور اپنے خاندان کے بزرگوں کو یاد کرتا ہے جوبستی  ڈِنک کی اجڑنے پر  مختلف علاقوں میں مقیم  ہوگئے تھے۔ ان کا اتحاد اور قربت ختم ہوگئی تھی  اور یہ بھی وہ وجوہات تھیں جن کی بدولت بشارت احمد اور اس کے دوست قاسم ہلالی کے والد سخت ناسٹلجیا کا شکار نظر آتے ہیں۔
" قاسم ہلالی کا گھر ریلوے اسٹیشن کی شمالی سمت پانچ چھ گھروں کے درمیان اپنی تنہائی پر نوحہ  کناں ہے۔ اس کا بوڑھا باپ غلام قادر گھنٹیا کا مریض ہے۔ وہ چارپائی پر اسیر، شیشم تلے بیٹھا ڈِنگ میں گزری زندگی کی یادوں کے سہارے زندگی جی رہا ہے۔ ہمارا گھر خانقاہ سراجیہ کی نئی آبادی میں اپنی پہچان کھو بیٹھا ہے۔ ملک حیات مرزے خیل نے ”چاہ مرزے والا“ کے نام سے موسوم جو بستی بسائی ہے وہاں بھی کچھ بے نام و نشاں ہلالی قوم کے افراد رہتے ہیں۔ غلام علی کی آنکھیں بھر آئیں۔ بشارت احمد سکندرمستی خیل کے گھرکے سامنے رکا۔ وہ جنگلی کیکروں کے درمیان کھڑا تھا۔ اس نے اونٹ ڈکرانے کی آواز سنی۔ وہی اونٹ جسے تڑکے تڑکے سکندرمستی خیل جوت کر کھیتوں کا رخ کرتا تھا۔ کیا اونٹ یہاں نہیں ہے؟ جانور کہاں چلے گئے۔ ان بے زبانوں کا تو نام و نشان مٹ گیا۔ ہماری برادری جو مختلف شاخوں میں بٹی ، پھر بھی یک جان تھی۔ جانے کون کہاں جا بسا ؟ کتنے بھائی تھے کتنے؟  بشارت احمد نے ذہن پر زور دیا۔
ہمارے جدّامجد تین بھائی تھے۔ تلوکر خاندان انہی تین بھائیوں سے کتنا پھلا پھولا، بار آور ہوا۔ کوئی تو ان کا نام، ان کی تاریخ بھی محفوظ کر لیتا۔ کیا وہ صرف محکمہ مال کے کاغذات میں ہی۔۔۔ اس کی آنکھیں اشک بار ہوگئیں۔"   ۱۸؎
بشارت کا کردار اپنی موجودہ زندگی اور ماحول سے خوش نہیں تھا ۔ وہ اپنی پرانی بستی میں گزری ہوئی زندگی اور ماحول کی یاد کے شدید لپیٹ میں تھا۔ شدتِ غم سے اس کی آنکھوں سے آنسوں کی لڑی جڑ رہی تھی۔ وہ اپنی بستی کے جانوروں سے بھی ایسی انسیت اور دل بستگی محسوس کرتا ہے کہ ان کو  بھلانے کی لاکھ کوشش کے باوجود انھیں بھول جانا اُس کے لیے ناممکن تھا۔ یہ ساری کیفیت درج ذیل اقتباس سے واضح ہوتی ہے نیز کردار کا ناسٹلجیا بھی صاف انداز میں چھلکتا دکھائی دیتا ہے۔
"اس کی آنکھیں اشک بار ہو گئیں۔ بشارت احمد کے اندر جھڑی لگ گئی۔ جھڑی اور بارش  جو کچے مکانوں کو کھا جاتی ہے، پختہ مکانوں کی بنیادیں کھوکھلی کر دیتی ہے۔ بشارت احمد کے اندر جھڑی لگ گئی۔ اُسے لگا، وہ زمین بوس ہو رہا ہے۔ نام اس کے ذہن میں بے ترتیب ہوتے چلے گئے۔ ملک مستی خان، ملک مرزاخان، ملک ہستی خان، تینوں شاخیں برگ وبار لائیں۔ ملک مستی خان کی اولاد مستی خیل کہلائی۔ اسی شاخ میں احمد خان نامی نوجوان نے سلسلہ نقشبندیہ میں نام پایا  اور سرخیل الاولیاء  ہوئے۔ مولانا ابو السعد احمد خانؒ ریلوے اسٹیشن کی مشرقی سمت انھوں نے ایک بستی بسائی اور اپنے شیخ خواجہ سراج الدینؒ کے نام پراس کا نام خانقاہ سراجیہ رکھا۔ ہستی خیل اسی بستی کی مشرقی سمت نہر کے  اُس  پار جا آباد ہوئے ہم مرزے خیل ! ہمارا مرکز ڈنگ تھا۔ ہم بکھر گئے۔ میرے مرحوم چچا عطامحمد، غلام محمد، محمدشیر  اور ماموں محمد افضل نے سامان ٹرالیوں پر لادا اور خانقاہ  سراجیہ کی نئی آبادی میں ضم ہوگئے۔ دوست محمد نے چاہ مرزے والا جا ڈیرہ لگایا۔
بشارت احمد نے ایک مالٹا چھیلا۔ وہ تاریخ کا طالب علم نہیں تھا لیکن تلوکر خاندان کی تاریخ، افراد اور کردار اس کے اندر کروٹیں لے رہے تھے۔ وہ داہنی جانب گلی میں مڑا۔ ایک نیولا اسے سر اٹھاکر دیکھ رہا تھا۔
وہ مسکرایا۔
یہ وہی نیولا ہوگا جو ہمارے گھر کیکر پر چڑھتے گلہری کو سر اٹھا کر دیکھا کرتا تھا۔ چوتھائی صدی پہلے بشارت احمد نے جو بستی اپنے اندر تعمیر کی تھی آج وہ اس کے دیوار و در سے لپٹ کر رونا چاہتا تھا۔ اس نے اپنے مرحوم چچا ملک عطامحمد کے چوبارے کی جگہ کو حسرت سے دیکھا۔ اسے ایسے لگا، اس کا چچا چارپائی کے پائے کے ساتھ تیترکی تھیلی لٹکائے ہاتھ میں تیتر سنبھالے اسے سہلا رہا ہے۔ شیشم تلے تاش کے پتے بکھرے پڑے ہیں ۔"   ۱۹؎
بشارت احمد راستے کی دھول، چرند پرند کی آوازوں کو بھی ماضی سے حال میں آتے ہوئے محسوس کرتا رہا ہے۔ وہ مکمل طور پر ماضی میں سانس لے رہا تھا۔ مسجد کے لاؤڈسپیکر پر اسے اذان کی آواز سنائی دے رہی تھی، آٹے کی چکی کی تک تک بھی اسے سنائی دے رہی تھی۔ یہاں پر حامد سراج چھوٹی چھوٹی جزئیات کا ذکر انتظارحسین کے سے انداز میں کرتا ہےکہ  کردار بشارت احمد اپنی بستی میں لوٹ جاتا ہے تو درخت، پیڑ پتھر اس کے خیال میں متحرک ہو کر ناسٹلجیا کا محرک بنتے ہیں۔ وہ اپنے ویران اور کھنڈر گاؤں جاتا ہےجہاں آبادی کا نشان نہیں مگر چشمِ تخیل میں وہ ان بیتے ہوئےدنوں میں اپنے گھر اور گاؤں کی گلیوں میں گھوم رہا ہوتا ہے۔
"اپنے گھرکی راہ لینے سے پہلے اس نے ”ڈیرہ  فقیراں والا“ جانے کا فیصلہ کیا۔ ڈیرہ فقیراں والا ڈِنگ میں تقدس کی علامت تھا۔ وہ اپنی بستی کی اس مرکزی علامت کو کیسے نظر انداز کر سکتا تھا۔ وہ ٹیڑھے میڑھے راستوں پرچلتا رہا۔ اس کے حافظے میں ساری یادیں، باتیں، دیوار و در، درخت، چرند پرند، مسجد کا لاؤڈ سپیکر، آٹے کی چکی کی تُک تُک کی دل کش آواز، حتیٰ کہ کچی راہوں پر ڈھور ڈنگروں کا گوبر بھی نہیں بھولا تھا جسے گاؤں کی غریب لڑکیاں اکٹھا کر کے سوکھ جانے پر بطورِ ایندھن استعمال کرتی تھیں۔
اس کے قدموں میں صدیوں کی تھکن تھی۔ اس کے وجود میں زمانے گم تھے۔ وہ چلتا رہا، بے سمت، بے آواز قدموں کے ساتھ۔ اسے شرینہ کے درخت کی تلاش تھی۔ جس کے سائے کا پھیلاؤ   دو کنال تھا۔ اس گھنے  شجرِ سایہ دار کے نیچے فقیرمحمد امیر سے لوگ ملنے کو آتے۔ جوق در جوق، قطار اندر قطار، بس ایک روحانی کشش انھیں کھینچ لاتی۔ لوگ اپنی باطنی تشنگی کی سیرابی کو اس چھتناور درخت کا رخ کرتے۔ فقیرمحمد  امیرکا سایہ  شرینہ کے سائے سے کہیں زیادہ گھنا، میٹھا اور آرام  دہ تھا۔ لوگ دعاؤں کی سوغات سے مالا مال لوٹتے۔ مہمان نوازی اس گھرکے افراد کی گھٹی میں شامل تھی۔ بشارت احمد نے دور تلک نظر دوڑائی۔ شرینہ کا وجود کہیں نہیں تھا۔ لیکن فضا میں ایک مہک تھی۔ ایک فقیر اور درویش منش انسان کے وجود کی مہک، بان کی چار پائی پر آلتی پالتی مارے بیٹھے فقیرمحمد امیر ! کُرتا ململ کا، تہمند باندھے چہرے پرکرنیں نور کیں، سادگی کا مرقع، عہدِ صحابہ کی یادگار، انہی چودہ سو سال پہلے کی محبتوں کے امین، مہمان نواز ایسے کہ امراء و غرباء کے ہاتھ خود دھلاتے، کھانا سامنے لاکر پروستے، ان کی باتیں سنتے غور اورتوجہ سے، دکھ بانٹتے، دائیں ہاتھ سے ان کے کام آتے، بائیں ہاتھ کو خبر تک نہ ہونے دیتے۔
بشارت احمد چھپر تلے بیٹھا شرینہ کے سائے کو سرکتے ہوئے  دیکھتا رہا۔ شرینہ کا سایہ نہیں اس کے سامنے وقت ڈھل رہا تھا۔ یا وہ خود ڈھل رہا تھا۔ لوگ ایک ایک  کر کے  جا رہے تھے۔ وہ تھا، فقیرمحمد  امیر تھے اور یاد کی تیز ہوا تھی، سب ریزہ ریزہ، کرچی  کرچی وہ لوٹنا چاہتا تھا۔ اس کی جھولی دعاؤں سے بھر گئی تھی۔ اس کے قدموں میں صدیوں کی تھکن  اور دھول تھی۔ وہ چلتا رہا چلتا رہا۔"۲۰؎
بشارت احمد کو اس بات کا دکھ بھی ہے کہ اگر حکومت نے یہاں کچھ تعمیر نہیں کرنا تھا تو پھر اتنی بڑی آبادی کو تکلیف دینے کی کیا ضرورت تھی، جنہیں غریب الوطنی کے عذاب میں مبتلا کیا گیا۔
"اپنے گھر میں وہ ایسے لمحے داخل ہونا چاہتا تھا جب شام ڈھل رہی ہو اور نارنجی کرنیں کیکر سے لپٹ کرکُر لا رہی ہوں۔ حکومت نے ہزاروں ایکڑ اراضی خالی کرالی تھی اور فیکٹریاں بہت دور مشرقی سمت تعمیر کی گئی تھیں۔ وہ سوچتا رہا اور چلتا رہا۔ اگر یہاں کچھ بھی تعمیر نہیں ہونا تھا تو مخلوقِ خداکو کیوں اُجڑنے کے عذاب میں مبتلا کیا گیا ۔"  ۲۱؎
بشارت احمد کا کردار اس لیے بھی ماضی کی یادوں میں زیادہ شدت سے مبتلا ہے کہ لمحہ موجود اسے پھر اس کرب سے دوچار کرنے پر تلا ہوا ہے۔ جس سے وہ ایک دفعہ ڈِنگ چھوڑتے وقت گزرا تھا۔ اس افسانے میں سارے مناظر ناسٹلجیا کے محرک ثابت ہوتے ہیں اور کردار بشارت احمد ہر لمحہ اور ہر کیفیت کی یاد میں کرب سے گزرتا ہے۔ مصنف کردار کے اس حوالے کو کچھ یوں بیان کرتا ہے۔
"وہ اپنے ماضی کی تلاش میں اس اجڑے کھنڈر میں شاید کبھی نہ آتا لیکن جس روز خانقاہ سراجیہ، اس سے ملحقہ نئی آبادی، چاہ مرزے والا، سیفن پل، مافی والا، لال والا، سعید آباد، مدنی کے ڈیرے اورگرد و نواح میں پھیلے مکینوں میں یہ خبر گردش کرنے لگی کہ فیکٹریوں کے زہریلے اثرات کے پیشِ نظر ایک بار پھر قریب آباد ہو جانے والی بستیوں کو وہاں سے اٹھا لینے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ یہ ہولناک خبرجنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی تھی اوربشارت احمد اندر سے ٹوٹ پھوٹ گیا تھا۔ کیا ایک بار پھروہی عذاب ہوگا۔ فیصلہ بدل دینا کس کے بس میں تھا؟ جیسے بھنوں مراثی کو اوپر والوں کی طاقت کا اندازہ نہیں تھا بالکل ویسے ہی ہر شخص بے بس اور مجبور تھا۔ اپنی سوچوں میں غلطاں  و پیچاں بشارت احمد ”ڈیرہ  فقیر والا“ سے جب راہوں کی دھول پھانکتا اپنی گلی میں داخل ہوا تو اس کے پاؤں من بھرکے ہوگئے۔ جیسے کشش ثقل بڑھ گئی ہو۔ قدم اٹھانا اسے دوبھر ہوگیا۔ اس نے اجڑے مکانوں کی بنیادوں کو غور سے دیکھا۔ مکانات کی جگہ جنگلی کیکر اُگ  آئے  تھے۔ زرعی زمین جو حکومت نے ٹھیکے پردے رکھی تھی، اس لیے جب وہ ٹیوب ویل  پر پہنچا تو ڈِنگ  انگڑائی لے کر اس کے اندر زندہ  ہوگیا۔ ٹیوب ویل چل رہا تھا۔ لمبے قد  اور خشخشی داڑھی والا ایک بلوچ جس نے زمین ٹھیکے پرلے رکھی تھی، کھیتوں کو پانی دے رہا تھا۔
بشارت احمد کا دل بھر آیا۔

اس نے ٹیوب ویل سے ٹھنڈا میٹھا پانی پیا اور گھرکی طرف قدم بڑھائے۔ کانٹوں سے دامن بچاتے ہوئے وہ اپنے گھرکے صحن میں چوتھائی صدی بعد داخل ہوا۔ وقت تھم گیا۔ پرندوں نے پرواز روک لی۔ اسے اپنا آپ سنبھالنا مشکل ہوگیا۔ جانوروں کی چرنیاں جوں کی توں موجود تھیں۔ بس ان کا سیمنٹ اکھڑ گیا تھا اور اینٹیں کلر زدہ ہوگئی تھیں۔ چھپر کی بنیادوں کو اس نے غور سے دیکھا۔ تانبے کے ایک گلاس پراس کی نظر پڑی، بالکل اچانک وہ چونکا، رویا اور گلاس اٹھا لیا۔ اپنے والد ملک فتح شیر کو یاد کیا، چھلکا اور چھلکا، یہ وہی گلاس تھا جس میں اس کا بابا لسی پیا کرتا تھا، شاید ماں سامان میں اسے ساتھ رکھنا بھول گئی۔ اس کا بابا اسے لڑکپن میں ہی حالات کے بے رحم دھاروں پر چھوڑ گیا تھا۔ اس نے گلاس سنبھال لیا۔ اسے بہت بڑی سوغات ہاتھ آگئی تھی۔"   ۲۲؎
بشارت سارا دن ڈِنگ کے کھنڈرات میں اپنے غم کی شدت کو کم کرنے کے لیے گھومتا رہا مگر درد تو بڑھ گیا تھا۔ وہ جتنا اپنی بےقراری سے فرار پانے کی کوشش کر رہا تھا، یادوں میں اور اس سے آلپٹی تھی اور ایسے میں شدید ناسٹلجیائی کیفیت سے اسے گزرنا پڑا، جس میں کرب کے ساتھ ساتھ حال کی ناآسودگی اور افسردگی تھی۔
"اس نے کیکر کے تنے پر ہاتھ رکھا تو رسے جھول کر پینگ ہوگئے۔ اس کا جی چاہا وہ جھولا جھولے۔ بابا سے عیدی لے۔ گاؤں کی ہٹی سے ریوڑیاں اور ٹانگریاں خریدے۔ ڈِنگ کی گلیوں میں کھیلتے رنگ برنگے کپڑے پہنے بچوں کے ساتھ عید منائے، پٹھوگرم کھیلے، والی بال کا میچ دیکھے، چپلی کے انعقاد کا اعلان ہو اور وہ  دریائے سندھ کے کنارے کا رخ کرے۔
وہ کیکر کے ساتھ ٹیک لگائے  کھڑا تھا۔ ایک بار پھر اُجڑنے کا خوف اس کی رگوں میں اودھم مچا رہا تھا۔ کسی لمحے کچھ بھی ہوسکتا تھا۔ وہ وہیں بس جانا چاہتا تھا۔ انہی کھنڈرات میں، کیکروں کی چھاؤں میں اپنی جھونپڑی بسا لینا چاہتا تھا۔
وہ ایک پل کو سمیٹتا لوٹ رہا تھا تو ایک دوسرا پل اس کے سامنے پھیل رہا تھا۔ کاندھے جھکے ہوئے تھے۔ کہولت نے اسے ایک آن میں آ لیا تھا۔ گھر پہنچا تو شام ڈھل چکی تھی۔ ہر کہیں ملگجے اندھیرے میں سیاہی حلول کر گئی تھی۔ بستر پر دراز ہو کر اس نے آنکھیں موند لیں۔ یوں جیسے پھیلتا لمحہ اس طرح معدوم ہو جائے گا۔ مگر صدیوں کی تھکاوٹ اس کے بدن میں اترتی چلی گئی۔ "   ۲۳؎
محمد حامد سراج کے افسانوں میں ادیب کا ناسٹلجیا کردار کی صورت میں جنم لیتا ہے۔ ان کے بعض افسانوں میں ماضی کی باز آفرینی کا استعمال شدت سے ہوا ہے۔ جیسا کہ افسانہ "ڈِنگ" میں ماضی بار بار متحرک ہو کر کردار کی زندگی میں لوٹ آتا ہے۔

ہندوستان اور پاکستان ایک ایسا خطہ ہے جس میں اکثر لوگ ہجرت کے کرب سے گزرے ہیں۔ دوسرا وہ اسلامی تہذیب اور نئی تہذیب کے امتزاج میں پلے بڑھے ہیں۔ نئی تہذیب کی ابتدا ہی میں فرد نے اپنی تہذیب میں ماضی کا کھوج لگانا شروع کر دیا تھا۔ محمد حامد سراج کے افسانوں میں کردار اسی بدولت ناسٹلجیا میں گرفتار دکھائی دیتا ہے۔ محمد حامد سراج کے ہاں گاؤں، دیہات اور ان سے منسلکہ کردار وقت اور ماحول  کے ہاتھوں ناسٹلجیا کا شکار نظر آتے ہیں۔ اسی طرح دور جدید میں   پاکستانی معاشرہ جس دہشت گردی اور خوف سے گزر رہا ہے اس کا بیان بھی محمد حامد سراج کے افسانوں میں بڑے متوازن انداز میں ہوا ہے۔ افسانہ "ایک اور داؤ" ایسے ہی حالات پر لکھا ہوا افسانہ ہے۔ جس میں مٹھو کا پولیس میں بھرتی ہونے کے بعد خودکش حملے میں شہید ہوجانا، شمائلہ کے لیے محبت میں بربادی کا سبب تو بنا ہی، اس کے لیے یادوں کا ایک حسین سرمایہ بھی ہمیشہ کے لیے چھوڑ گیا۔ اس افسانے مین دیہات کی خوبصورت عکاسی بھی اور محمدحامد سراج کے کھرے اور سادہ انداز کے ساتھ ساتھ کرداری ناسٹلجیا بھی۔ افسانہ "لاٹین جلتی رہے" بھی نئی تہذیب اور نئے معاشرے کے پیدا کردہ مسائل میں مبتلا کردار کا بیان ہے۔ جسے پناہ اپنے چچا کے گھر، گاؤں میں لالٹین کی روشنی میں ملتی ہے اور وہاں کردار کا ناسٹلجیا ابھرتا ہے۔بحیثیت مجموعی حامد سراج کے افسانوی کردار اور ادیب بذات خود ماضی کی یادوں میں گاہے گاہے گرفتار ہو کر ناسٹلجیا کا شکار نظر آتے ہیں۔


 

حوالاجات


حوالہ

نام مصنف

نام کتاب

صفحہ نمبر

۱؎

محمد حامد سراج

چوب دار (افسانہ قدیمی کرسی اور کتاب کی مرمت)

ص ۶۷

۲؎

ایضاً

ایضاً

ص ۶۸

۳؎

ایضاً

ایضاً

ص ۲۸ تا ۲۹

۴؎

ایضاً

ایضاً

ص ۳۱

۵؎

ایضاً

چوب دار (افسانہ لالٹین جلتی رہے)

ص ۷۸ تا ۷۹

۶؎

ایضاً

ایضاً

ص ۷۹

۷؎

ایضاً

ایضاً

ص ۷۶

۸؎

ایضاً

ایضاً

ص ۸۱ تا ۸۲

۹؎

ایضاً

چوب دار (بوسیدہ آدمی کی محبت)

ص ۸۷

۱۰؎

ایضاً

ایضاً

ص ۸۸

۱۱؎

ایضاً

ایضاً

ص ۸۸ تا ۸۹

۱۲؎

ایضاً

بخیہ گری (افسانہ پانچ روپے کا متروک نوٹ)

ص ۱۱۴

۱۳؎

ایضاً

بخیہ گری (افسانہ آواگون)

ص ۱۵۶

۱۴؎

ایضاً

ایضاً

ص ۱۵۶ تا ۱۵۷

۱۵؎

ایضاً

وقت کی فصیل (افسانہ ڈِنگ)

ص ۳۰ تا ۳۱

۱۶؎

ایضاً

ایضاً

ص ۳۱

۱۷؎

ایضاً

ایضاً

ص ۳۵ تا ۳۶

۱۸؎

ایضاً

ایضاً

ص  ۳۶ تا ۳۷

۱۹؎

ایضاً

ایضاً

ص ۳۷

۲۰؎

ایضاً

ایضاً

ص ۳۷ تا ۳۸

۲۱؎

ایضاً

ایضاً

ص ۳۸

۲۲؎

ایضاً

ایضاً

ص ۳۹

۲۳؎

ایضاً

ایضاً

ص ۴۰

کتابیات


نمبر

نام مصنف

نام کتاب

پبلشر/ناشر

سن اشاعت

۱؎

محمد حامد سراج

چوب دار

پورب اکادمی ،اسلام آباد

طبع دوم ۲۰۰۹ء

۲؎

ایضاً

وقت کی فصیل

ایضاً

۲۰۰۹ء

۳؎

ایضاً

بخیہ گری

الفتح پبلی کیشنز، راولپنڈی

۲۰۱۴ء

 

 

 

اوپر جائیں  |   پرنٹ کیجئےِ
انگریزی ورژن ای میل چیک کریں مرکزی صحفہ پرنٹ پسندیدہ سائٹ بنائیں رابطہ کیجئے www.shahzadahmad.com www.shahzadahmad.com