اقبال کا تصور خدا اردو نظموں کی روشنی میں
انوار الحق
ABSTRACT
Sir Muhamad Iqbal [1877-1938] famous poet of Persian and Urdu language is popularly known as Philosopher Poet. Being a philosopher, he in his prose and poetry discussed the question of divine and possibility of the God. This article restricted its coverage to his Urdu poems and aimed to define the thoughts and premised presented by Iqbal about the Eternal. Results of the study shows that Iqbal consider the God not only creator of the universe but a necessity for human being and whole universe. The approaches and treatment of Iqbal of the topic however, is very much different from other Urdu poets and intellectuals, which are defined in detailed in the article.

اقبال بنیادی طور پر ایک شاعر ہونے کے علاوہ ایک عظیم فلسفی بھی ہیں اور ہر بڑے فلسفی کی مانند انہوں نے انسان کے بنیادی مسائل کے حوالے سے باقاعدہ ایک فلسفیانہ نظام مرتب کیا جو حقیقی ہونے کے علاوہ فطری بھی ہے جس طرح ہر بڑے فلسفی نے اپنے فلسفہ میں خدا کا تصور پیش کیا اسی طرح اقبال نے بھی ذات باری تعالیٰ کے حوالے سے نہ صرف پورا ایک تصوراتی نظام تشکیل دیا بلکہ وہی اس کا عقیدہ بھی ٹھہرا اور وہ ساری عمر مکمل استقامت کے ساتھ اس پر قائم بھی رہے اور اس کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ ان کے فلسفیانہ نظام کا ہر چھوٹے سے چھوٹا اور بڑے سے بڑا تصور حقیقی اسلامی اور خالص قرآنی تعلیمات سے ماخوذ ہے جس پر وہ عصر حاضر کے تقاضوں کے مطابق فلسفے کا رنگین غلاف چڑھادیتے ہیں۔ اقبال نے خدا، انسان اور کائنات کے حقیقی مقام ومرتبے کے تعین کے بعد یہ طے کرلیا کہ خدا خالق ہے انسان کا بھی اور کائنات کا بھی اور انسان مخلوق ہے اور انسان کا حقیقی مقام ، مقام عبدیت ہے اس آرٹیکل میں مذکورہ مباحث پر مزید بحث ہوگی۔
اقبال کی شخصیت اور شاعری کی مانند اُن کا فلسفہ و فکر بھی غیر معمولی عظمت و انفرادیت کا حامل ہے اور اِس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ وہ قرآنی و اسلامی تعلیمات کی حقیقی رُوح سے واقفیت کے علاوہ مذاہبِ عالم کا بھی گہرا مطالعہ رکھتے تھے،مزید برآں مشرق و مغرب کے فلسفے پر غیر معمولی دسترس کے علاوہ قدیم تواریخِ عالم اور جدید علوم و تحریکات پر بھی گہری نظر رکھتے تھے،لیکن ”اُن کی عمیق و دقیق فکر کو پناہ ملی تو قرآنِ حکیم میں ملی“۔( )
واقعہ یہ ہے کہ:”اقبال نے انسان کے بنیادی سوالات کو اسلام کی تعلیمات کے تناظر میں پیش کیا ہے کہ ہمارا تصوّرِ خُدا، تصوّرِ کائنات اور تصوّرِ انسان کیا ہونا چاہیے۔۔۔اقبال کے مطابق دورِ جدید میں انسان جن فکری اور عملی مسائل سے گزر رہا ہے اُن کے حل کے لیے ایک جامع فکری نظام کی ضرورت ہے اور وہ نظام علامہ کی نظر میں محض دینِ اسلام ہے،وہ مسلم معاشرتی روایات کے استحکام میں ہی نہ صرف مسلمانوں بلکہ عالمِ انسانیت کی فلاح کو مضمر سمجھتے ہیں“۔( )
           اِس حوالے سے وہ عالمِ انسانی کے لیے مثالی اقدار کے قیام کا ضامن اسلام کو ٹھہراتے ہوئے ڈاکٹر نکلسن کو ایک خط میں لکھتے ہیں :
لیکن اگر اسے موثر نصب العین بنانا اور عملی زندگی میں بروئے کار لانا چاہیں تو ایک ایسی مخصوص سوسائٹی تک اپنا دائرہ مخاطبت محدود کر دیں گے جو ایک مستقل عقیدہ اور معین راہِ عمل رکھتی ہو،لیکن اپنے عملی نمونے اور ترغیب و تبلیغ سے ہمیشہ اپنا دائرہ وسیع کرتی چلی جائے،میرے نزدیک اِس قسم کی سوسائٹی اسلام ہے۔۔۔“( )
دیکھا جائے تو علامہ پوری نوعِ انسانی کو درپیش مسائل اور عصرِ حاضر کے تقاضوں سے نبرد آزما ہونے کے لیے مکمل طورپر مذہبِ اسلام کی جانب نہ صرف خود رجوع کرتے ہیں بلکہ پوری دنیا کو مراجعت کی بھرپور دعوت دیتے ہیں،اقبال کا مذہب کی طرف یہ رجوع یا نوعِ انسانی کو مراجعت کے مشورے کا ہر قدم یقینا حقیقی فلاح کی طرف اُٹھتا نظر آتا ہے اور ان کا یہ اقدام اور دعوت یقینا قابلِ داد ہے،اقبال کے اِس قابلِ قدر اقدام کا خوب صورت جواز ڈاکٹر حمید تنولی یوں پیش کرتے ہیں :
اسلام کی تہذیبی زندگی میں ندرت اور نئے آفاق کی تلاش و نہاد مذہب اور ایمان سے ممکن ہوئی، اسلام نے مذہب کا روایتی تصوّر بالکل بدل کر رکھ دیا، جو رسوم و روایات پر مشتمل تھا۔اسلام نے بندے کا خالق سے تعلق بحال کرکے اُسے حقیقت تک رسائی کا شعور اور راستہ فراہم کیا،یہاں ایمان اور اُس کی تفصیلات محض عقیدہ یا تصوّر نہیں بلکہ زندگی کی فعال حقیقت ہے“( )
اقبال کی فکر کو چوں کہ مذہب میں پناہ ملی،تاہم اُن کی فکر کے تمام روشن زاویے مذہب کے منبع و مرکز سے پھوٹتے نظر آتے ہیں اور یوں جب اُن کی فکر نظم کے پیکر میں ڈھلتی ہے تو دیگر متعلقاتِ نظم کی مانند مذہبی کرداروں کی پوری ایک کھیپ اُن کی نظموں کو وقار و تمکنت بخشتی ہے،لیکن جس طرح اسلام نے مذہب کے روایتی تصوّرات کو بدل کر (بطور دین) ایک مکمل ضابطہحیات کی صورت اختیار کی،ٹھیک اُسی طرح علامہ نے اپنی اُردو نظموں میں کرداروںکے روایتی تصوّر کے محدود دیواروں کو توڑ کر نہ صرف اُردو نظم کو نئے توانا اور آفاقی موضوعات سے آشنا کیا بلکہ پوری اُردو شاعری کے دامن کو غیر معمولی فنی و فکری وُسعتوں سے مالا مال کیا۔
علامہ کی نظموں میں ذہنی و فکری ارتقا کی مانند اللہ کی نسبت، اُن کا تصوّرِ الہٰ (فلسفہ کی حد تک) تین ادوار سے گزرتا ہے،”بانگِ درا“ کی نظموں ”ایک مکھڑا اور مکھی، ایک گائے اور بکری،بچے کی دُعا، ہمدردی، ایک پرندہ اور جگنو“ وغیرہ متعدد نظموں میں ”اللہ تعالیٰ“ کی ہستی کا بیان ایک روایتی انداز میں ہوا ہے،مثلاً :
یہ سوچ کے مکھی نے کہا! اس سے بڑی بی
اللہ نے بخشا ہے بڑا آپ کو رتبا
                                            (بانگ درا ص:۷۵)
میرے اللہ برائی سے بچانا مجھ کو
نیک جو راہ ہو اُسی راہ پہ چلانا مجھ کو
                                            (بانگ درا ص:۵۶)
تجھے جس نے چہک، گل کو مہک دی
اُسی اللہ نے مجھ کو چمک دی
                                         (بانگ درا ص:۸۴۱)
لیکن نظم ”شکوہ، خطاب بہ نوجوانانِ اسلام، شمع اور شاعر، جوابِ شکوہ اور فاطمہ بنت عبدللہ“ کے علاوہ ”بانگِ درا“ کے حصہ دوم و سوم کی متعدد نظموں میں ”اللہ تعالیٰ“ کی ہستی کے متعلق علامہ کے فکری زاویے معنی آفرین انداز میں سامنے آتے ہیں،اور یہ سلسلہ ”بانگِ درا“ کی معروف نظم ”شکوہ“ سے ایک انوکھے انداز میں شروع ہوتا ہے،جس میں علامہ کا تابِ سخن اُنھیں اللہ تعالیٰ سے شکوؤں پر مجبور کرتا ہے،جس میں وہ کہتے ہیں کہ ہر چند شیوہتسلیم و رضا میں مشہور ہیں ہم، لیکن سازِ خاموش کی مانند فریاد سے معمور ہونے کی وجہ سے قصہدرد سنانے پر ہم مجبور ہیں ہم، یوں خوگرِ حمد کے گلوں شکوؤں کا ایک طویل سلسلہ شروع ہوتا ہے کہ سلجوقی،تورانی، ایرانی، ساسانی، یہودی، یونانی اور نصرانی ہم (مسلمانوں) سے قبل موجود تھے،لیکن اعلائے کلمتہ اللہ کے لیے پہلے ہم نے تلوار اُٹھائی،خشکی ، دریاؤں اور تپتے ہوئے صحراؤں میں لڑے، پورپ کی کلیساؤں میں اذانیں دیں اور تلواروں کی چھاؤں سر بہ کف قیصر و کسریٰ کو نیست و نابود کرکے ہر دل پر نقشِ توحید بٹھایا۔بہرحال نظم کے فکری زاویوں سے ہر صاحبِ نظر با خبر ہے،اِس لیے مزید تفصیل باعثِ تکرار ہے،لیکن اِن تمام شکوؤں کا بھرپور جواب اُنھوں نے خود ”جوابِ شکوہ“ میں دیا،اِسی طرح دیگر نظموں میں ”اللہ تعالیٰ“ کے ساتھ ہم کلامی کے علاوہ اُس کی وحدانیت و عظمت کے راگ بھی مخصوص انداز میں الاپے،جس کی مزید ٹھوس صورتیں ”بالِ جبریل“ کی نظموں ”مسجدِ قرطبہ، جبریل و ابلیس اور لالہصحرا“ کے علاوہ ”رُباعیات“ میں بھی پائی جاتی ہیں،مثلاً :
نہ چھوڑ اے دل فغانِ صبح گاہی
اماں شاید ملے، اللہ ھو میں
                                            (بالِ جبریل ص:۶۰۵)
شوق میری لے میں ہے، شوق میری نے میں ہے
نغمہ اللہ ھو، میرے رگ و پے میں ہے
                                            (بالِ جبریل ص:۱۲۵)
غواصِ محبت کا اللہ نگہباں ہو
ہر قطرہ دریا میں، دریا کی ہے گہرائی
                                            (بالِ جبریل ص:۸۴۵)
آخری دور میں علامہ کی نظموں میں ذاتِ باری تعالیٰ کے بارے میں ان کے تصوّرات پہلے اور دوسرے دور کی تکمیل نظر آتے ہیں اور اِس دور میں اللہ کی ربوبیت، ذات، کرامات، کمالات اور خصوصاً وحدانیت وغیرہ جیسے اہم تصوّرات کو وہ اپنے فکر و فلسفہ اور شعر کے پیکر میں سمو کر اپنا جبینِ نیاز اللہ کے حضور جھکاتے نظر آتے ہیں،اور یہ سلسلہ ”ضربِ کلیم“ کی نظموں سے ”ارمغانِ حجاز“ کے آخر تک جاری رہتا ہے،مثلاً :
نظر اللہ پہ رکھتا ہے مسلمانِ غیور
موت کیا شئے ہے فقط عالمِ معنی کا سفر
                                            (ضربِ کلیم ص:۷۷۶)
ہر لحظۂ مومن ہے نئی آن نئی شان
گفتار میں کردار میں اللہ کی برہان
                                            (ضربِ کلیم ص:۵۸۶)
جہاں اگرچہ دگرگوں ہے قُم باذن اللہ
وہی زمیں، وہی گردوں ہے قُم باذن اللہ
                                            (ضرب کلیم ص:۱۸۶)
اللہ کی دین ہے جسے دے
میراث نہیں بلند نامی
                                            (ضربِ کلیم ص:۹۰۷)
اللہ کو پا مردیمومن پہ بھروسا
ابلیس کو یورپ کی مشینوں کا سہارا
                                            (ارمغان حجاز ص:۳۲۸)
جیسا کہ پہلے بھی یہ عرض کیا جا چکا ہے اور اِس بات کی گواہی علامہ کی تمام منظوم اور منثور تحریروں سے باآسانی ملتی ہے کہ خُدا کی ہستی کے متعلق علامہ کے تصوّرات من حیث المجموع خالص اسلامی اور قرآنی تعلیمات سے ماخوذ ہیں،لیکن تفہیم میں آسانی کی خاطر اسے ”تین“ جہتوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے،پہلے دور (:1901ء تا :1908ء) میں اقبال روایتی انداز میں خُدا کو حسنِ ازل سے تعبیر کرتے ہیں،لیکن اِس سے قطعاً یہ متصوّر نہ کرنا چاہیے کہ اقبال خالص وحدت الوجودی عقیدے کے قائل تھے،جیسا کہ بعض صاحبانِ علم نے (جس میں یوسف سلیم چشتی اور علی عباس جلال پوری جیسے اہلِ نظر حضرات بھی شامل ہیں) اِس قسم کی ٹھوکریں کھائی ہیں،البتہ اِس دور میں علامہ کسی حد تک ”تصوّف“ کے روایتی انداز کے زیرِ اثر رہے،جس کا اعتراف اُنھوں نے خود اِن الفاظ میں کیا ہے :
مجھے اِس امر کا اعتراف کرنے میں کوئی شرم نہیں کہ میں ایک عرصے تک ایسے عقائد و مسائل کا قائل رہا جو بعض صوفیا کے ساتھ خاص ہیں اور جو بعد میں قرآن شریف پر تدبر کرنے سے قطعاً غیر اسلامی ثابت ہوئے ۔۔۔ میرا مذہب یہ ہے کہ خدائے تعالیٰ نظامِ عالم میں جاری و ساری نہیں بلکہ نظامِ عالم کا خالق ہے اور اس کی ربوبیت کی وجہ سے یہ نظام قائم ہے،جب وہ چاہے گا،اس کا خاتمہ ہو جائے گا“( )
دوسرے دور (1908ء تا :1920ء)میں قیامِ یورپ کے دوران اُنھوں نے فلسفہشرق و غرب کا عمیق مطالعہ کرنے کے علاوہ قرآنی تعلیمات پر گہرا غور و تدبر کیا،”اس دور میں اُن کے ہاں خُدا جو آخری اور قطعی حقیقت ہے، ذاتِ مطلق اور انائے مطلق ہے،خُدا کو ابدی حسن سے تعبیر کرنے کا نظریہ اب باقی نہیں رہا،اور حسن کو اس کے ابتدائی مرتبے سے گھٹا کر خُدا کی صفت قرار دیا گیا۔۔۔توحید پر یقین کو نفس الامری حقیقت تسلیم کیا جا رہا ہے، کیوں کہ اس کی بدولت افرادِ قوم اور بنی نوعِ انسان میں مقصد اور قوت کی وحدت قائم ہو جاتی ہے۔۔۔خُدا کی یافت کے بعد (انسان) اُس کی ذات میں جذب ہو کر اِس طرح فنا نہیں ہوتا کہ اپنی ذات کا یقین باقی نہ رہے، اِس کے برعکس خُدا یعنی اُس کی صفات کو امکان بھر اپنی ذات میں جذب کر لینا چاہیے،اِس امکان کی کوئی حد مقرر نہیں ہے، خُدا کو اپنے اندر جذب کر لینے سے انا کی نشوونما ہوتی ہے،اور جب انسان میں یہ انا”انائے فوق“ تک ترقی کر جاتی ہے تو وہ خلیفتہ اللہ کے منصب پر فائز ہو جاتا ہے“۔( )
تیسرے دور میں علامہ کے ہاں تصور خُدا کا جو مجموعی تاثر بنتا ہے وہ کچھ یوں ہے کہ اُن کے مطابق ” خُدا بحیثیتِ مجموعی ایک حقیقت ہے اور حقیقت بحیثیتِ مجموعی اصلاً رُوحانی ہے،رُوحانی اِن معنوں میں کہ خُدا کی ہستی فرد اور انا ہے، اس کوانا اِس لیے تصوّر کرنا چاہیے کہ انسانی خودی کی طرح وہ وحدت کا ایک تنظیمی اصول ہے،وہ خود ایک ایسا نظام ہے جو تعمیرِ اغراض کے پیشِ نظر متجانس اجزا کو باہم متحد اور اپنی ہستی حی و قیوم کے جاری کردہ اوامر کو ایک مرکزی نقطہ پر مرکوز کرتا ہے،وہ اِس لیے بھی انا ہے کہ ہمارے افعال اور ہماری عبادات کا اِس کی طرف سے جواب ملتا ہے،کیوں کہ خودی کی تصدیق کا معیار یہی ہے کہ وہ دوسرے کی خودی کی پکار کا جواب دے،در حقیقت خُدا ”مقید“ انا نہیں ہے،بلکہ ”انائے مطلق“ ہے، اِس لیے کہ وہ ہر شئے پر قادر ہے اور کوئی چیز اس کے احاطہقدرت سے باہر نہیں ہے“( )
یوں دیکھا جائے تو اقبال کا نظریہتوحید موجودہ زمانے کا ایک بہترین اور مکمل انقلابی نظریہوحدانیت ہے،”درحقیقت اسلام کا عقیدہتوحید یہی ہے جس کے اقبال مفسّر،ترجمان اور علم بردار ہیں،خودی کا تصوّر بھی توحید پر مبنی ہے،اللہ تعالیٰ خالق ہے، کائنات کا بھی اور انسان کا بھی، انسان کا جسم ارضی عناصر سے بنایا گیا ہے،پھر اُسے رُوح یا خودی عطا کی گئی،یہ رُوح اللہ کا امر ہے،گویا انسان پر صفاتِ الہیٰ کا پرتو ہے،(خاکی و نوری نہاد بندہمولا صفات) اللہ انسان کا حقیقی نصب العین ہے،اُس کی محبت و عبادت سے شخصیت میں استحکام پیدا ہوتا ہے،عبادت اس کے اوامر و نواہی کی پابندی کا نام ہے۔اللہ کی محبت کا تقاضا یہ ہے کہ انسان اپنی شخصیت میں زیادہ سے زیادہ خُدائی صفات کی جھلک پیدا کرے،یہی محبت اخلاقی جدوجہدکا محرک جذبہ ہے، اِس جدوجہد سے انسان کی خودی تابندہ و مضبوط کردار کی حامل بنتی ہے“۔( )
لیکن وحدت الوجود کے ”تصوّرِ اللہ“ کے بارے میں برخود غلط تعبیرات اور متعدد علمائے اقبالیات کا اقبال کو خالص ”وحدت الوجودی“ ثابت کرنے کے غلط تاویلات نے مذکورہ مباحث کو سلجھانے کی بجائے مزید اُلجھا دیا، حالاں کہ ”اقبال وہ پہلے فلسفی ہیںجس نے نظریہ وحدت الوجود“ کے خلاف نہایت جرات کے ساتھ آواز بلند کی،اور اس کے ردّ عمل کے طور پر دُنیا کے سامنے ”خودی“ کے نام سے اپنا جدید نظریہ پیش کیا،اُنھوں نے واضح الفاظ میں بتایا کہ نظریہ ”وحدت الوجود“ جو شیخ اکبر محی الدین ابن عربی کی بدولت اسلام میں عام ہواہے،غلط ہے اور حقیقت کے خلاف ہے،انسان، انسان ہے اور خُدا،خدا، ایک خالق ہے دوسرا مخلوق، دونوں کا حیات کے کسی مرحلے پر بھی ”اتحاد“ وجود میں نہیں آ سکتا“۔( )
یوں اِس مسئلے کو اگر مخصوص سیاق و سباق میں دیکھا جائے تو اکثر اکابرین کی مانند متعدد علمائے اقبالیات اِس بات کا ادراک نہیں کر سکے کہ توحید ایک خالص مذہبی مسئلہ ہے،اور ”وحدت الوجود“خالص فلسفیانہ بحث،باایں ہمہ توحید کی ضد کثرت نہیں بلکہ شرک ہے،علامہ کے مطابق ”اسلام کی رُوح توحید ہے اور اس کی ضد کثرت نہیں بلکہ شرک ہے،خُدا، انسان اور کائنات کا خالق ہے،اُس نے امر ”کُن“ سے اِن دونوں کو پیدا کیا، ”آمر و مامور“ اور ”خالق و مخلوق“ میں کلی مغائرت ہے، آمر اپنے فعل”امر“ سے اور خالق اپنے فعل ”تخلیق“ سے خارج ہے،اِس سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ اقبال کے عقیدے میں ”فنا“ کے معنی ”فنا فی احکام اللہ“ ہے،جیسا کہ صوفیا کا عام مسلک ہے،اِ س لیے اُن کے نزدیک ”اتحاد بذاتِ حق“ کوئی شئے نہیں،انسان ایک خالص انفرادی شخصیت کا مالک ہے،وہ انفرادی زندگی کا مالک ہے، وہ ”تخلقو با اخلاقِ اللہ“ پر عمل کرکے اپنی شخصیت اور انفرادیت کو جس قدر بڑھاتا ہے اسی قدر درجہکمال کو پہنچتا ہے،انجامِ کار وہ ”انسانِ کامل“ کے منصب عظمیٰ پر فائز ہو جاتا ہے، پس اللہ کی ”انفرادیت“ اور انسان کی ”انفرادی“ شخصیت میں کوئی تضاد نہیں“۔( )
دیکھا جائے تو سلوک میں ”سالک“ کی آخری منزل ،جیسا کہ صوفیا کا عام عقیدہ ہے ”اتحادِ وجود“ ہے، توحید میں اِس سے آگے ایک اور منزل ہے جو ”مقامِ عبدیت“ کہلاتا ہے، اور وہی انسان کا اصل مقام ہے،بہرحال اقبال نے اپنی نظموں میں خُدا کی ہستی کے بارے میں جو تصوّرات پیش کیے ہیں اُن کا مجموعی تاثر گذشتہ بحث میں با آسانی دیکھا جا سکتا ہے۔ اور وہ اس قدر فطری اور قابل تقلید تصور اور عقیدہ ہے جو نہ صرف دنیا  بلکہ آخرت  میں بھی تمام نوعِ انسانی  کی فلاح وکامیابی کیا ضامن ہے۔


حوالہ جات
محمد اقبال علامہ، کلیاتِ اقبال، مرتب، فضلی سنز کراچی، اشاعت ہفتم، 2011ء


            امرت سری، علامہ عرشی، مرتب، ڈاکٹر تصدق حسین راجا، اقبال پیام برِ اُمید، لاہور، فیروز سنز، بارِ اوّل: ۰۹۹۱ء، ص:۱۵

            حمید تنولی، ڈاکٹر،معاصر تہذیبی کشمکش اور فکرِ اقبال،لاہور، اظہار سنز، ۵۱۰۲ئ، ص ۵۳۱

            محمد اقبال، علامہ، مکاتیبِ اقبال، مرتبہ شیخ عطا محمد:۵۰۰۲ءص:۶۴۳

            حمید تنولی، ڈاکٹر، معاصر تہذیبی کشمکش اور فکرِ اقبال، ص ۵۴۱

            محمد اقبال، علامہ،مقالاتِ اقبال، مرتبہ، ڈاکٹر وحید قریشی، لاہور، اقبال اکادمی:۳۸۹۱ءص:۱۶۱

            ایم، ایم شریف، مضمون ، باری تعالیٰ ، مشمولہ، دائرہ معارفِ اقبال، جلد اول، ص:۸۵۴

            ایضاً

            ایوب صابر، ڈاکٹر، اقبال کی فکری تشکیل (اعتراضات و تاویلات کا جائزہ) اسلام آباد، نیشنل بک فاﺅنڈیشن ۷۰۰۲، ص ۳۰۱

            ابوسعید نور الدین، ڈاکٹر، مضمون، وحدت الوجود، مشمولہ: دائرہ معارفِ اقبال، لاہور، بہ اہتمام شعبہاقبالیات، پنجاب یونی ورسٹی اورئینٹل کالج لاہور: ۰۱۰۲ءجلد دوم، ص:۹۴۶

          ایضاً

اوپر جائیں  |   پرنٹ کیجئےِ
انگریزی ورژن ای میل چیک کریں مرکزی صحفہ پرنٹ پسندیدہ سائٹ بنائیں رابطہ کیجئے www.shahzadahmad.com www.shahzadahmad.com