مجید امجد کی شاعری میں فلسفہ وجودیت
ڈاکٹر علی کمیل قزلباش
ڈاکٹر محمد طاہر بوستان

ABSTRACT:
Majeed Amjad [1914-1974] a celebrated and talented poet of Urdu represents the generation that witnessed the hardships of two great wars and resultant Cold War. This article aimed to gage his attitude and treatment of Existentialism. His voluminous poetry, very diverse in themes and styles, presents center theme of struggle. In his poetry it is conveyed; through glorifying determination, courage, understanding and cognizance; that against all shattered values of humanity and social decline, the always available and practical option is struggle at individual level.

Key Word: Majeed Amjad; Existentialism and Urdu; Human Struggle and Poetry.

مجید امجدوہ فنکار ہے جن کے ہاں منفرد رویے کار فرما ہیں ۔وہ فرد کے فکرونظر کے مسائل ، فرد کے عمل اور طرز عمل و اندازِ زندگی کی وجودیت پسندانہ انداز میں دیکھتا اور سمجھتا ہے ۔ سماج ، معاشرے اور باہر کی دنیا پیش اانے والے واقعات کو وہ فرد کی موضوعیت کے حوالے سے پرکھتا ہے اور ان کی حقیقت کی تلاش فرد کی داخلیت میں کرتا ہے ۔ یوں ہر فرد اپنے وجود کے حوالے سے آزاد ہے اور یہ آزادی اسے زندگی کے امکان سے نبرد آزما رکھتی ہے۔ جب یہ کہا جاتا ہے کہ ادب نے فرد کے جذبوں کو اولیّت دی تو اس سے مراد یہ ہو تی ہے کہ فرد کی موضوعیت کو اہمیت دی گئی ۔ یوں نتیجتاً فرد کے اثبات ذات کی راہ ہموار ہو تی ہے اور اس کے وجود کو تسلیم کیا جاتاہے ۔ عصری مسائل کی موجودگی میں وجودیت کی فلسفیانہ وجد آفرینی کا اثر مجید امجد کی شاعری میں در آیا اور اسی طرح جب معاشرے میں بگاڑ پیدا ہو جاتا ہے اور مذہبی اقدار و سماجی روایات دم توڑتی ہیں تو فرد نظر انداز ہو جاتا ہے یوں نتیجے کے طور پر فرد موضوعیت اور داخلیت کی طرف رجوع کر تا ہے ۔ یہی وجدان مجید امجد کی شاعری میں نمایاں ہے ۔ جیسے کہ وہ لکھتے ہیں:۔  
میں شاعر ہوں میری جمالیں نگہ میں  
ذرا بھی نہیں فرق ذرے میں مہ میں  
جہاں ایک تنکا سا ہے میری رہ میں  
ہر اک چیز میرے لیے ہے فسانہ  
ہر اک دوب سے سن رہا ہوں خزانہ  
مرے فکر کے دام میں ہے زمانہ  
’’
نظم شاعر۔۔۔۔۔‘‘ ) ۱ (
یہاں شاعر خواب نہیں دیکھ رہا بل کہ اسے اپنے ’’ہونے‘‘ کا ادراک مل رہا ہے اور وجودی سطح پر زمانے سے نبرد آزما ہو نے کا تہیہ کر رہا ہے۔ کیوں کہ اگر وہ ایسا نہ کرے تو وجود کی نفی ہو تی ہے لہٰذا کہا جا سکتا ہے کہ وہ کامل جدو جہد پر یقین رکھتا ہے اور وجد آفرینی اور سر شاری کے ساتھ اپنی منزلوں کی طرف بڑھتا ہے ۔ اس لیے تو یوں کہتا ہے :۔  
میں سینے میں داغوں کے دیپک جلائے  
میں اشکوں کے تاروں کا بر بط اٹھائے  
خیالوں نغموں کی دنیا بسائے  
رہِ زیست پر بے خطر جا رہا ہوں  
کہاں جا رہا ہوں ، کدھر جا رہا ہوں  
نہیں جانتا ہوں ، مگر جا رہا ہوں
’’
نظم شاعر۔۔۔۔۔‘‘ (۲ (
یہ مجید امجد کا کمال ہے کہ وہ فرد کے وجود کو دنیا وی وجود کے ساتھ اس طرح جوڑ دیتا ہے کہ پوری کائنات زندہ وجود محسوس ہو نے لگتی ہے ۔ یہ انہی کا کمال ہے کہ وہ جب بھی فرد کے ’’ہونے ‘‘ کا احساس دلاتا ہے تو دنیا ور دنیا کی اشیا ء کو ساتھ ساتھ لے کر چلتا ہے ۔ مجید امجد کے ہاں اکثر و بیشتر کو ئی شے (جاندار یا بے جان )علامت کے طور پر آتی ہے بل کہ بسا اوقات ایسا بھی ہو اکہ مکمل وجود کے اظہار کے لیے انہوں نے محض کسی ایک جذبے یا احساس یا قدر کو علمات بنا کر پیش کیا ۔ یوں اس کی شاعری میں فلسفیانہ گہرائی پیدا ہو ئی اور اس کے افق روشن تر ہو تے چلے گئے ۔ اس حوالے سے ان کی نظمیں گدلے پانی (۳)، دروازے کے پھول (۴)اے ری چڑیا (۵)صاحب کا فروٹ فارم(۶)اور ان خارزاروں میں (۷) زندہ مثالیں ہیں۔ مجید امجد فرد کے داخل کے اسرار کو سمجھتا ہے اور وجود کے یقین کامل پر اسے مکمل اعتماد ہے ۔ زیست کی طولانی راہوں میں لمحہ موجود کے ساتھ نبرد آزما ہو نے کے لیے ’’لاکھ اشارے‘‘ ’’لاکھ باتیں ‘‘ اور لاکھ سندیسے ‘‘ایک خاص سمت اشارہ کر رہے ہیں ۔ زندگی کے امکانات کی طرف ۔۔۔۔۔۔ اور یہ فرد کی آگہی اور خود اعتمادی ہے کہ وہ امکانات کے طے کرکے مستقبل کی طرف فیصلہ کن جست لگا دیا کرتا ہے ۔ یہاں امکان در امکان کا سلسلہ ہے ۔ تصوف کی زبان میں ’’ہونی کے سو رنگ ‘‘والا قصہ ہے ۔ وجود بے کراں جذبوں کے ساتھ زیست کی بقا کی جنگ لڑتا ہے ۔ یہ بات زہن نشین کر لینی چاہیے کہ فرد اپنے وجود کے حوالے سے کبھی بھی جھوٹی توقعات قئم نہیں کرتا بل کہ وہ صرف لمحہ موجود کی جہد پر یقین رکھتا ہے ۔  
لاکھ اشارے جو ہیں ان بوجھے بھی  
لاکھ باتیں جو ہیں گو یائی سے دور
دور ____دل کے کنجِ ناموجود میں  
روز و شب موجود، پیچاں ، ناصبور
کون اندھیری گھاٹیوں کو پھاند کر
جائے ان پر شور سناٹوں کے پار  
گونجتے ہیں لاکھ سندیسے جہاں  
کان سن سکتے نہیں ان کی پکار  
یہ جبینوں پر لکیریں موج موج  
کتنے افسانوں کی ژولیدہ سطور
انکھڑیوں میں تِر مِراتی ڈوریاں  
کتنے قصوں کی زبان بے شعور  
وجودیت پسندی اتنی پرانی روایت ہے جتنی خود انسانیت کی تاریخ ۔ فرد کو اپنی زات کے اثبات کی تلاش اس وقت بھی ہوا کر تی تھی جب وہ اوہام و اصنام کی پرستش کیا کرتا تھا اور شاید یہ اثبات ذات کی تلاش ہی ہیجس نے انسانیت کو ارتقا، حرکت ، تغیر اور تبدیلی سے آشنا کرایا ۔ اگر فرف اپنی ذات پر اعتماد کی بحالی کے لیے کوشاں نہ ہو تا اور اگر وہ ہاتھ پیر جوڑ کر بیٹھتا تو شاید انسانیت صدیوں کا سفر کبھی بھی طے نہ کر سکتی ۔ یہ وجو دیت پسندی ہی ہے جس نے فرد کو ہر انتشار و افتراق اور ہر بحران سے نکلنے کی راہ سمجھائی اور فرد کو خود آگہی اور خود شناسی کے حوالے سے ستاروں پر کمندیں ڈالنے کی ترغیب دی ۔ نتیجتاًفرد مستقبل سے نبرد آزما ہو تا رہا ۔ اس کی ذات کے عرفان اور اس کے من کی تاب ناکی اس کے مستقبل کو اجالوں میں لا کھڑا کیا۔ مجید امجد کی نظم ’’ہزاروں راستے ہیں‘‘ ( ۸)اس ضمن میں خوب صورت مثال ہے ۔نظم کے دو اشعار ملاحظہ ہوں ۔
ہزاروں راستے ہیں منزلیں ہیں  
سمندر اور صحرا بھی ہیں حائل  
مگر رہبر ستارے کی شعاعیں  
ہیں ہر رہروکے سینے کی متاعیں  
یہاں ’’راستے ‘‘ اور ’’منزلیں ‘‘ اپنی نوعیت کے لحاظ سے وہ ’’امکانات ‘‘ ہیں جن کے حصول کے لیے فرد کوشاں ہو ا کر تا ہے ۔’’ سمندر اور صحرا ‘‘ وہ مشکلات اور رکاوٹیں ہیں جو راستوں میں حائل ہیں اور ’’رہبر ستارے کی شعاعیں ‘‘ فرد کے جذب دروں اور خود آگہی کی شعاعیں ہیں جو اس کے سفر میں اس کے ساتھ ساتھ چلتی ہیں ۔ جبھی تو وہ کہتا ہے ۔
زیست کی صہبا کی رو تھمتی نہیں تھمتی نہیں  
ٹوٹتے رہتے ہیں نشے ، پھوٹتے رہتے ہیں جام (۹ (
ہستی کے امکان کا نام ’’وجود‘‘ ہے ۔ شاید انہیں حقائق کے پیشِ نظر ڈاکٹر نوازش علی نے مجید امجد کے متعلق یوں کہا ہے۔  
’’
ہاں زمان و مکان تسلسل حیات ہی کے دو مختلف رخ ہیں  
حرکت اور سکون ایک ہی چیز کے دو روپ ہیں یا یوں کہیے کہ امجد کے  
ہاں معروض کی بجائے ’’ناظر‘‘کو بنیادی اہمیت حاصل ہے ۔‘‘ (۱۰ (
ناظر شاعر خود ہے ۔ اس کے من میں جذبوں تلاطم ہے ۔ یوں زندگی اور زندگی کی کیفیات خالصتاًایک داخلی یا موضوعی کیفیت میں ڈھلتی محسوس ہو تی ہیں ۔نظم ’’نئے لوگو‘‘(۱۱)کے پس منظر میں چھپی موضوعی کیفیت اور جذب دروں کی آشفتگی ملاحظہ ہو ۔  
’’
کچھ ایسی ہی آگیں میرے آگے بھی تھیں  
مرے گرد بھی آپس میں جکڑی ہو ئی جلتی لپٹوں کے کچھ ایسے ہی جنگلے تھے  
جن سے باہر دور ادھر وہ پھول نظر آتے تھے جن پر میرے چہرے کی زردی تھی
میں کہتا تھا ۔۔۔اور میں اب بھی کہتا ہوں  
اِک دن شعلوں کی یہ باڑ بجھے گی ۔  
اِک دن اس پھلواڑی تک ہم بھی پہنچیں گے جس کی  
بہاریں ہماری روحوں کے اندر ڈھلتی ہیں
لیکن میں کہتا ہوں ، اک یہ ترنگ ہی تو سب کچھ ہے  
جو باقی رہتی ہے .......اور جو تمہارے پا س ہے ‘‘ 
فرد کے اندر چھپی خوبیوں اور قوتوں کا عرفان ہی اسے بلند ترین نصب العین متعین کرنے پر مجبور کر تا ہے ۔ اس کی حدود و قیود کا تعلق دنیا وی مسائل سے نہیں ہو اکر تا بل کہ اس کی نوعیت بھی وجو دی ہو تی ہے ۔ یہ وہ محدودیت ہو تی ہے جو وجود کے آڑے آتی ہے ۔اس کی ایک شکل موت کی صورت میں سامنے آتی ہے مگر اس کے باوجود وجود وقت سے نِبرد آزما ہو تا ہے اور خود نئی قدروں کی تخلیق کر تا ہے ۔ اپنی ذات پر اعتماد اس حد تک بڑھتا ہے کہ دنیا اسے حقیر دکھائی دیتی ہے ۔ مگر ساتھ ساتھ اس کی خود آگہی اس کے اندر احساس ذمہ داری اجاگر کر تی ہے ۔دنیا کا چھوٹا پن اس کی اپنی زات کی تونگری ، دنیا کے واقعات کا ہنگامی پن اور اس کا اپنا عرفان ذات ، فرد کو ایک کرب سے آشنا کرا دیتا ہے ۔ وہ اپنے آ پ کو تنہا محسوس کر تا ہیاور اپنے ہی جیسے خود آگاہ اور خود بین لوگوں کی تلاش میں نکل کھڑا ہو تا ہے ۔ لیکن دوسروں کے رویے عجیب ہو تے ہیں ۔ وہ سچائی کا پارکھ ہو تا ہے ۔ سچائی اس کی موضوعیت ہی کی شکل ہو تی ہے ۔ سچائی کا معیار بھی فرد کی موضوعیت ٹھہر تی ہے ۔ فرد کے ارد گرد پھیالا ہجوم اس موضوعیت کو تسلیم نہیں کرتا ۔ جیسے کہ مجید امجد لکھتے ہیں۔
اپنے لیکھ یہی تھے منوا
ورنہ میرا سچ تو سب کا علم ہے اور سب پر ظاہر ہے  
میرا سچ تو ہے اس پنجر میں جینے والی اک بے بس آگاہی جس کو سب نے پرکھا ہے  
میری سچائی کو سمجھنے والے ، میرے سچ کے حق میں سچے ہو تے  
تو یوں ان کے دلوں میں ، اک اک قبر نہ ہو تی ، میرے آنے والے دنوں کی  
جیسا کچھ بھی ان کا گمان ان آنے والے دنوں کے بارے میں ہے  
پھر میرا دل کیوں نہ دکھے جب میں یہ دیکھوں  
میری سچائی کو سمجھنے والے  
میری بابت اپنے علم کو جھٹلانے کی کوشش میں ، ہر گری ہو ئی رفعت کو اپناتے ہیں  
پہلے میرے ہو نے کو اپنے دل میں دفنادیتے ہیں  
اور پھر میرے سامنے آکر میرے سچ پر ترس کھاتے ہیں  
اور یوں مجھ کو جتاتے ہیں کہ انہیں سب علم ہے ، میرا سچ دم توڑ چکا ہے  
میری سچائی کو سمجھنے والے بھی جب یوں کہتے ہیں  
کون اس وار کو سہہ سکتا ہے  
میرے دل میں میرے سچ کے قدم اکھڑنے لگے ہیں  
اب کو ئی تو اک اور جھوٹی سچی ڈھارس منوا ،  
آخر جینا تو ہے  
اور جینے کے جتنوں میں زخمی چیونٹی کی بے بس آگاہی بھی عقل کل ہے ‘‘ ( ۱۲ (
فرد کی آگہی اور جذبے ہی وہ پھول ہیں جو ہمہ وقت اس کو اپنی طرف بلاتے ہیں مگر حرص و ہوا ، بغض و عناد ، بے قدری اور بے توقیری ، مجبوری اور محرومی کی آگ آڑے آتی ہے ۔ جب کہ فرد کی آگہی اور خود بینی میں ان منفی جذبوں کے لیے کوئی جگہ نہیں ہو ا کرتی ۔ کیوں کہ مصدقہ وجود کا یہی وطیرہ ہو تا ہے ۔ ڈاکٹر نواز علی کے بقول :۔  
وہ فکر و آگہی اور تخلیقی سچائی کی ایک ایسی منزل پر مقیم ہے جہاں کلیّات  
و نظریات اپنے معانی و مفاہیم کی بے مائیگی کا احساس دلانے لگتے ہیں۔‘‘ (۱۳ (
مصدقہ وجود کے سامنے یہ دنیا اور اس کے بنائے گئے قوانین ، اُصول اور ضابطے کوئی اہمیت نہیں رکھتے ۔ وہ تو خود نگر ہو تا ہے اور دنیا کی رہنمائی کر تا ہے ۔ ایک رجائیت ، ایک عزم اور ایک حوصلہ اس کا کل اثاثہ ہو تا ہے ۔ اس کے انداز و اطوار اس کے جوہر قطعاًطے شدہ نہیں ہ وتے ۔ وہ ہر لمحہ ایک نیا فیصلہ کرنے میں آزاد ہوا کر تا ہے ۔ کارل جسپر (Karl Jasper)نے لکھا ہے ۔
’’
اس عہد کے بارے میں نئی بات یہ ہے کہ فرد اپنے آپ اور اپنی  
ہستی کے بارے مکمل طور پر با شعور ہو گیا ہے وہ اس دنیا میں تشدد آمیز خوف
کے مقابلے میں اپنے آپ کو کمزور محسوس کر تا ہے وہ انقلابی سوال پوچھتا ہے ۔۔۔
وہ آزادی اور نجات کے لیے جدو جہد کرتا ہے ۔اپنی حدود و قیود کو شعوری طور پر قبول کرتے  
ہوئے وہ اپنے لیے بلند ترین نصب العین متعین کرتا ہے اسے اپنی ذات کی گہرائیوں  
میں اور مافوق الادراکیت کی درخشندگی میں مطلقّیت کا تجربہ ہو تا ہے ۔‘‘ (۱۴ (
مجید امجد کی شاعری میں ہمیں یہی رویہ نظر آتا ہے کہ زندگی اور وجود کی حقیقت تک پہنچنے کے لیے وہ ’’وجود بزاتِ خود‘‘(یعنی دنیا اور مختلف اشیاء)کو ایک زینے کے طور استعمال کر تا ہے ۔ یا مجید امجد کے نزدیک دنیا اور دنیا کی مختلف اشیاء ایسا آئینہ ہیں جس میں وہ فرد کے وجود کا عکس تلاش کرتا ہے ۔ وہ کہتے ہیں:۔
جہاں ہے اور سکوت نیم شب ہے  
میرا قلب پتاں ہے اور میں ہو ں (۱۵ (
وجود تو ہو تا ہی مافوق الادراک ہے ۔ اسے حیطۂ فکر میں لانا عقل کا کام نہیں ، نہ ہی اصطلاحات کے ذریعے اسے سمجھا جا سکتا ہے کیوں کہ ہر اصطلاح کا ایک خاص لگا بندھا مفہوم ہوا کر تا ہے جب کہ وجود بے کراں ہے ۔جذب دروں پر یقین اور ’’وجود‘‘کے مافوق الادراک ہو نے کا احساس نظم ’’۲۹۴۲کا ایک جنگی پوسٹر ‘‘(۱۶)سے بھی عیاں ہے ۔ انسان کے جذبہ پر اتنا کامل یقین اُردو شاعری میں کم نظر آتا ہے ۔ اس نظم کا ایک شعر ملاحظہ ہو ۔
پھاند جاؤ حدیں زمانوں کی  
تھام لو باگ آسمانوں کی  
داخل کی بے کرانیوں پر مجید امجد کو اتنا یقین ہے کہ وہ کبھی کبھی صوفی لگتا ہے ۔ ’’سازفقیرانہ‘‘(۱۷)کچھ ایسی ہی کیفیات سے پردہ ہٹاتی ہے ۔ اس نظم میں ’’دل کا ایک کونا‘‘زمانے کی بے کرانیوں پر محیط ہے ۔ ’’نظام دہر‘‘ زوال آمادہ نظر آتا ہے اور نظم کے بین السطور سے جذب دروں پر یقین و اعتماد ہویدا ہے ۔
چمن چمن میں بَہ طغیانِ رنگِ لالہ پِھرو
ختن ختن میں بہ انبوہِ صد غزالہ پِھرو  
روش روش پہ بچھی ہے سپاہیوں کی بساط
پَلک پَلک یہ جلا کر چراغِ لا لہ پِھرو
جذب دروں کی کیف آوری پر مجید امجد کو جتنا یقین ہے ۔ اس حوالے سے ان کی بہت سی نظموں کی مثالیں دی جا سکتی ہیں ۔ ایک مثال ان کی نظم ’’مرے خدا مرے دل‘‘(۱۸)کے بین السطور میں فر دکی موضوعیت کسی موج کی طرح موجود ہے ۔ فرد اپنی ذات کے تیقّن کے حوالے سے زندگی اور زندگی کے آلام و مصائب سے نبرد آزما ہو نے کے حوصلے سے معمور ہے ۔  
بدن کے دھبوں پہ رختِ حریر کی ہے پھبن  
مری کِرن کی نہ چَھب نوچ لیں میں ڈرتا ہوں  
کہیں یہ آگ نہ بجھ جائے جس کے انگ میں ہے  
ترے دوام کی انگڑائیاں میں سوچتا ہو ں  
نہیں ، یہ ہو نہ سکے گا ، جو یوں ہوا بھی تو پھر
نہیں ابھی تو یہ اک سانس !ابھی تو ہے کیا کچھ
ابھی تو جلتی حدوں کی حدیں ہیں لا محدود  
ابھی تو اس مرے سینے کے ایک گوشے میں  
کہیں لہو کے تَریڑوں میں برگِ مرگ پہ اِک  
کوئی لرز تا جزیرہ سا تیرتا ہے جہاں  
ہر اک طلب تری دھڑکن میں ڈوب جاتی ہے  
ہر اک صدا ہے کوئی دُور کی صدا ، مرے دل  
مرے خدا ، مرے دل  
مجید امجد میں کتنا عزم اور حوصلہ موجود ہے ۔وہ اپنی ہستی اور اپنے وجود کی تابندگی کے لیے فرد کو با حوصلہ اور با عزم دیکھنا چاہتا ہے کیوں کہ اپنے حق کے لیے لرنا اور آگے بڑھنا بھی تو فرد کے وجود کا لازمی خاصہ ہے ۔ یہاں دو باتیں ذہن نشین کرلینا ضروری ہے ۔ ایک یہ کہ ہمارے سماج کی قدریں تلپٹ ہو رہی ہیں فرد کی ذات بے بضا عتی کا شکار ہے اور دوسرا یہ کہ کچھ ظالم اور جابر وہ ہیں جو فرد کو اس کا حق نہیں دینا چاہتے ۔ اسی وجہ سے ایک ایسے خیال کے دکھ مجید امجد کی آنکھوں میں پھر جاتے ہیں جن کی ثقافت جانے کتنے عرصے سے اپنا مسکن ڈھونڈ رہی ہے ۔اس لیے مجید امجد زندگی کے جوہر حقیقی کی تلاش میں ہیں ہر منزل ان کے لیے سنگِ میل ہے جو نئی منازل کی نشان دہی کرتی ہے ۔ وہ زندگی کی سماجی اور معاشرتی وا بستگیوں کا احترام کرتے ہوئے بھی اس کی بے کرانی اور لا محدودیت اپنے ہاں محسوس کرتے ہیں ۔مجید امجد کے ہاں وجود کی بے مثل انفرادیت اور جذبوں پر تیقن کا اظہار بہت ملتا ہے ۔ مخصوص عصری مسائل کی موجودگی میں وجودیت کی فلسفیانہ وجد آفرینی کا اثر مجید امجد کی شاعری میں بھی در آیا اور یہ تاثر ان کی کچھ تخلیقات کے بین السطور سے صاف جھلکتا محسوس ہو تا ہے ۔مجید امجد کے ہاں وجودی موضوعیت یا جذب دروں کی اہمیت کی باز گشت محسوس ہو تی ہے کیوں کہ وہ بھی سماجی حالات کے تناظر میں اپنے اندر جھانکنے اور اپنے اندر کے حوالے سے بیرون کو دیکھنے اور پرکھنے پر مجبور ہو جاتا ہے ۔  


حوالہ جات  
۱۔ مجید امجد۔ کلیات مجید امجد ص۔ ۷۳
۲۔ ایضاً  
۳۔ایضاً ص۔ ۵۶۱
۴۔ ایضاً ص۔۵۷۳
۵۔ایضاً ص۔ ۴۹۸
۶۔ ایضاً ۔ ۳۷۶
۷۔ ایضاً ص۔ ۶۵۵
۸۔ ایضاً ص۔ ۱۳۶
۹۔ ایضاً ص۔ ۱۳۱
۱۰۔ نوازش علی۔ ڈاکٹر ۔ ’’مجید امجد کا تصور شاعری _عمل خیر کا تسلسل‘‘ مشمولہ دستاویز راولپنڈی اپریل تا جون ۱۹۹۱ء ص۔ ۱۳۱
۱۱۔ مجید امجد۔ کلیات مجید امجد ص۔۵۷۱
۱۲۔ ایضاً ص۔ ۵۴۴
۱۳۔ نوازش علی۔ ڈاکٹر ۔ ’’مجید امجد کا تصور شاعری _عمل خیر کا تسلسل‘‘ مشمولہ دستاویز راولپنڈی اپریل تا جون ۱۹۹۱ء ص۔ ۱۱۶
۱۴۔ Karl Jasper : The origin and goal of history "trans:Mlcae!Bullok New /London 1953 page-2
۱۵۔ مجید امجد۔ کلیات مجید امجد ص۔ ۱۹۵
۱۶۔ایضاً ص۔۱۲۲
۱۷۔ ایضاً ص۔۱۱۱
۱۸۔ ایضاً ص۔ ۴۱۰ *

اوپر جائیں  |   پرنٹ کیجئےِ
انگریزی ورژن ای میل چیک کریں مرکزی صحفہ پرنٹ پسندیدہ سائٹ بنائیں رابطہ کیجئے www.shahzadahmad.com www.shahzadahmad.com