ایوب خاور کی نظم میں تراکیب : ایک مطالعہ
ڈاکٹر الطاف یوسفزئی
Abstract:
Ayoub khawar is one of the prominent and seasoned poet of the modern age. He made different Style of poetry and unique diction and new trends in his creative work. He also aware from poetic tools and beauty of urdu poetry. In this article the writers analyzed the classic and modern Terms used in the poetry of Ayoub Kawar.
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کلیدی الفاظ : نظم ، ایوب خاور،اصطلاحات،تراکیب، محاورات۔ ضرب الامثال،تخلیقی قوت، شاعرانہ       عمل، مفہوم کی ترسیل، الطاف یوسف زئی، صدف جدون
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
زبان کے دوسر ے شعبوں سے کہیں زیادہ تراکیب سازی کا عمل شاعری میں جاری رہتا ہے۔ شاعر نہ صرف مستعمل تراکیب کو برتتا ہے بلکہ نئی تراکیب بھی وضع کرتا ہے اور یہ عمل اس کے تخلیقی عمل کا حصہ ہوتا ہے۔اپنی کتاب اصطلاحی مباحث میں ڈاکٹر عطش درانی ظہیر مشرقی کی ترا کیب و اصطلاحات کے بارے میں وضاحت کو یوں بیان کرتے ہیں
‘‘الفاظ ہوں محاورات ضرب الامثال ہوں یا اصطلاحات ہم سب ان سے جو کام
لیتےیہیں وہ یہ ہے کہ ہم اپنے جذبات ومحسوسات اور تصورات و خیالات کو دوسروں
تک پہنچانے کی سعی کرتے ہیں۔ یہ سعی اس وقت مشکور ہوتی ہے جب بولنے والے کے
ذہن میں مستعمل الفاظ کے معنی واضح ہوں اور سننے والا بھی ان الفاظ کے وہی معنی اخذ
کرے جن معنوں میں وہ بولے جارہے ہیں۔ چنا نچہ ہر معاشرے میں استعمال کئے
جانے والے الفاظ و اصطلاحات کا ذخیرہ اتنا تو ضرور موجود ہونا چاہیے کہ اس
معاشرے میں رائج تصورات و خیالات کو آسانی سے واضح الفاظ میں سامعین تک
(۱)      پہنچایا جاسکے
شاعر اپنے تصورات و خیالات کو اپنی تمام تر معنویت کے ساتھ قاری کے ذہین پر نقش کرنے کی خاطر مروج و مستعمل تراکیب و اصطلاحات ہی کو استعمال میں نہیں لاتا بلکہ نئی تراکیب سازی کے نئے عمل سے بھی گزرتا ہے۔ یہ عمل ایک تخلیقی اور شاعرانہ عمل ہے اور یہ بھرپور تخلیقی قوت کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ ایک وسیع المطالعہ اور زبان کے لسانی نظام پر حاوی شاعر ہی ایک شاعرانہ خیال کو نئی تراکیب کے ساتھ زیادہ موثر اور معنی خیز انداز میں پیش کر سکتا ہے اس حوالے سے ایک صا ئب رائے ملاحظہ ہو :
  ‘‘زبان، اس کے الفاظ و اسالیب،محاورات و امثال پر غور کیجیے تو ان کے پیچھے ایک پرکار
تخیل اور زبردست تخلیقی قوت کارفرما نظر آتی ہے جس میں فطانت کے ساتھ شعریت بھی
)        ) رچی ہوئی ہے یعنی پُرتخیل استعارے مستقل اصطلاح بن گئے ہیں۔  ’’   (۲

          شاعری کی دیگر خصوصیات میں ایک اہم خصوصیت الفاظ کامحاوراتی، استعاراتی اور اصطلاحی استعمال ہے۔ اور ساتھ ہی ساتھ الفاظ کی ایسی بندش کہ وہ ایک نئی ترکیب میں ڈھل کر نئی معنویت قائم کریں۔ شاعری میں تازگی،وسعتِ مفہوم اور گہرائی نئی تراکیب کے سبب ہی پیدا ہوتی ہے۔پہلے سے استعمال شدہ تراکیب شاعری میں جدت کاموجب نہیں بن سکتیں۔ خیالات و جذبات کے نکھرے ہوئے اظہار کے لیے تازہ اور توانا تراکیب تخلیق کی جاتی ہیں۔ نئی تراکیب کے بارے میں وہ اعتراضات بھی اب دم توڑ چکے ہیں کہ جن کا حوالہ آصف اسلم فرخی نے اپنے مضمون میں ان الفاظ میں دیا ہے :                                                                                                              
‘‘جدیدیت کے بارے میں ایک عام خیال یہ ہے کہ جدید ادب ہمیشہ تجرباتی،ابہام سے
)                       پُر،مشکل اور بعید از فہم ہوتا ہے لیکن یہ بھی کوئی کلیہ نہیں ہے۔’’ (۳
ایوب خاور کی نظموں میں نئی تراکیب کی کثرت ہے۔ انھوں نے جس طرح کےا لفاظ چُنے ہیں اور جو نئی تراکیب تخلیق کی ہیں اس سے واضح ہوتا ہے کہ زبان پر تخلیقی دسترس رکھتے ہیں۔ اپنے خیال اور جذبے کی شدت اور وسعت کو موثر انداز میں پیش کرنے کے لیے اگر پہلے سے رائج تراکیب و اصطلاحات ان کی مدد نہیں کر رہے تو وہ نئی تراکیب تخلیق کرنے کا تخلیقی ملکہ رکھتے ہیں۔ وہ نئی تراکب بندی اور اصطلاحات سازی کے ساتھ ایک کیفیت کو اس کی پوری شدت کے ساتھ،ایک ماحول کو اس کے تمام رنگو کے ساتھ اور ایک المیے کو اس کی خاص حالت و کیفیت کے ساتھ نظم کرتے ہیں۔جو منظر اور ماحول اور حالت و کیفیت خود انھوں نے تخلیقی سطح پر محسوس کی ہوتی ہے وہ قاری پر بھی طاری کر دیتے ہیں۔ الفاظ و تراکیب میں تازگی نہ ہو تو خیال کی ترسیل میں ایک دھیما پن اور جھول سا آجاتا ہے۔ جب کہ نئی تراکیب نئے شعری ماحول کا احساس دلاتی ہیں۔ ایوب خاور کے ہاں تراکیب بندی و اصطلاح سازی کی تازہ کاریاں وافر ہیں۔چند مثالیں ملاحظہ کیجیے
عمر کا بے رنگ سناٹا :
کون سے دشت وجبل ہیں
کہ جن میں تیری عمر کا بے رنگ سناٹا
سفر طے کررہا ہے ( ۴
تقدیر کی چمپا چمیلی :

                   اور یہ کن کمزور دیواروں کے سائے میں تیری تقدیر کی چمپا چمیلی
بُجھ رہے ہیں (۵

طنابوں کی شکست آثار مُٹھی :
ماں یہ تو ہے یا کوئی خیمہ
طنابوں کی شکست آثار مُٹھی سے نکل کر
زرد موسم کی ہوا مےں
لڑکھڑاتا ہے (۶

اَن کہے لفظوں کی شبنم/ ہونٹوں کی لرزتی پتیاں :
نہ ہم نے تیرے لرزتی ہونٹوں کی پتیوں پر
اَن کہے لفظوں کی شبنم تیرتے دیکھی (۷)
دشتِ شبِ رزم  :
مگر اس دشتِ شبِ رزم کے سناٹے میں
وہ اندھےرا ہے کہ ان ہاتھوں سے گرتے ہوئے لمحے
نہیں دیکھے جاتے (۸

سبک انداز پلکیں/رگوں کی ڈوریاں/ حسنِ سخن انداز :
 محبت سے بھرا اک دن 
تیرے دامن میں کھیلے کے لیے 
 میرے سبک انداز پلکوں پر اُترتا ہے
 تیری خوشبو میں گُھلتا ہے رگوں کی ڈوریوں میں باندھ کر مجھ کو
 تیرے حسِ سخن انداز کی چوکھٹ پہ لاتا ہے (۹

چراغِ لمس کی لو :
وہ دل جس مےں مےرے دل کا سمندر گونجتا ہے
وہ لب جن کے کناروں سے چراغِ لمس کی لوپُھوٹتی ہے (۱۰

کم سِن و کم خواب نگاہیں :
وہ تذبذب کہ جسے کم سِن و کم خواب نگاہوں کے بھروسے نے
گلاب اور چمبیلی کی مہک بخشی ہے (۱۱

کم خواب صفت جسم :
           
 رقص کی تیز سبک گرم بہاو
میں تجھے
دیکھنے والوں کی
وحشت میں سلگتی آنکھیں
سر سے نوکِ کفِ پا تک
تیرے سُرتال میں بھیگے ہوئے
کم خواب صفت جسم پہ جب رینگتی ہیں (۲۱

بلائے زوال و قحط :
نصابِ بہار کو دلِ خستہ حال کی دھڑکنوں میں دھڑکنے والی
دعاوں کا وہ مزاج دوں وہ مزاج دوں جو کبھی ملالِ خزاں
کی زد میں نہ آسکے جو کبھی بلائے زوال و قحط کی دسترس
میں نہ آسکے مگر اےک امن کا پھول اس مےں کھِلا رہے (۳۱
سکوتِ شب زاد :
کہ صبح ہونے سے پہلے پہلے سکوتِ شب زاد کی معیت
میں،سطحِ مرقد پہ زرد لمحوں کے بیچ،جو کچھ صدائے زنجیر کو
متاعِ صبا سے کہنا تھا،کہہ چکی ہے (۴۱

دوامِ عکسِ ملال :
گزشتہ عمروں کی دھول معزول خلوتوں
میں چراغ کی بے لباس لو سے گریز پا ہے اور آئینے
بے صفات و متروک تخت و ایواں کے حشم کو دوامِ عکسِ ملال
کا غسل دے رہے ہیں (۵۱

منافق زاد سچائی :
دلوں کی دھڑکنیں خوشبو سے عاری اور ہاتھوں کی
سبک پوریں عداوت اور منافق زاد سچائی سے بوجھل ہیں (۶۱

لہجے کی گہری دھند/ٹھٹھرتے جھوٹ سچ / سردار لمحے/ مصلحت کی سبز کائی :
محبت تم نے کب کی ہے       
محبت میں کی ہے جانِ جاں تم سے
تمھارے منفرد لہجے کی گہری دھند سے
اس دھند کے اندر ٹھٹھرتے جھوٹ سچ سے
جھوٹ سچ اور مصلحت سے
مصلحت کی سبز کائی سے کہ جس کائی کی گیلی سرد سطحوں پر میری اس عمر کے
سردار لمحے ثبت تھے (۷۱

لمس کے مصرعے/ لبِ نم ساز :
کچھ اپنے لمس کے مصرعے میرے دل میں اُتارے
ہیں،لبِ نم ساز کے نم میں کئی نظمیں بھگو کر میرے
شانوں پر بکھیری ہیں ( ۸۱

برہنہ خاموشی/بدنام تنہائی :
کسی ٹکڑے کے نُکڑ میں
برہنہ خاموشی اوندھی پڑی ہے اور کسی آئےنے کے بے وزن دروازے
کسی چوکھٹ سے لگی بدنام تنہائی،خود اپنے ضبط کے ٹکڑے
چُباتی ہے (۹۱

چُپ کی بکل/ مردہ لفظوں کی جگالی :
کبھی تو ایک گہری چُپ کی بکل مار کر بیٹھے ہوئے ہیں
مردہ لفظوں کی جگالی کر رہے ہیں (۲۰

بے لباس صدیاں :
ہوائیں بھی بادباں بھی میرے ہیں
سمندر کے سکوت میں
بے لباس صدیوں کے ریزہ ریزہ جمال کے سب
 نشاں بھی میرے ہیں (۲۱

اَن سلی خوشبو/ کشیدہ کار حرف/ سطروں کی ریشم :
کس زاویے سے خود کو خود سے جوڑ کر دیکھوں
ابھی تو مجھ کو اپنی اَن سلی خوشبو کو سینا ہے
مجھے بھی کچھ کشیدہ کار حرفوں اور کچھ سطروں کے
ریشم کی ضرورت ہے (۲۲
یہ مثالیں اس بات کی دلیل ہیں کہ ایوب خاور کی شاعری میں تراکیب کا استعمال ان کی شعری زبان کا تخلیقی حصہ ہیں۔ ان تراکیب کے ذریعےوہ اپنے خیالو کو وسعت اور عظمت کے ساتھ نظم کرتے ہیں اور پڑھنے والوں کو نہ صرف شاعرانہ زبان  بلکہ معنی و مفہوم کے گہرے اثر میں لے کر ان کی بصیرت پر حاوی ہوتے ہیں۔ ایوب خاور کا کمال یہ ہے کہ جو تراکیب وہ اپنی شاعری میں استعمال میں لاتا ہے وہ مبہم اور پیچیدہ نہیں بلکہ اُن کے تراکیب ایک ادبی اور لسانی رفعت رکھتے ہیں۔
طویل تراکیب:
جس طرح ایوب خاورکی بعض نظموں کے مصرعے اپنی طوالت میں اردو شاعری میں ان کا ایک منفرد تجربہ ہے اسی طرح ان کی بعض وضع کردہ تراکیب بھی طویل ہیں۔چار چار لفظوں کی یہ ترکیب بندی ان کے اعجازِ فن میں شمار کی جاسکتی ہے۔ایسی تراکیب معنی کی ترسیل میں دشواری پیدا نہیں کرتے بلکہ معنی و مفہوم کی نئی جہات وا کرتے ہیں۔ طویل تراکیب کی چند مثالیں ملاحظہ ہوں :
نگاہِ ساقئ سیمیں بدن :
نگاہِ ساقئ  
سیمیں بدن جیسے اشارے،زاویے،دلداریوں 
کی اوٹ میں بے مہریوں کی سوختہ سامانیاں،جو کچھ
دلِ عشاق کو کھڑکی سے ملتا ہے  (۲۳
 تہہ خانۂ عمرِ گزشتہ :
 ابھی تہہ خانۂ عمرِ گزشتہ کا یہ دروازہ کُھلا
تو دھیان میں آیا کہ اتنی ڈھیر ساری عمر مٹی میں ملا کر جو
خسارہ ہاتھ آیا ہے،دوبارہو نہیں سکتا (۲۴

کم خواب صفت جسم :
  رقص کے تیز سبک گرم بہاو
میں تجھےدیکھنے والوں کی  
وحشت میں سلگتی آنکھیں
سر سے نوکِ کفِ پا تک
تیرے سُر تال میں بھیگے ہوئے
کم خواب صفت جسم پہ جب رینگتی ہیں (۲۵

مصروف عزاداریٔ مہتاب ِ سخن :
ہونٹ مصروف عزاداری مہتابِ سخن
اور سرِ دیدہ و دل
ایک تسبیحِ الم جاری ہے (۲۶

بلاشبہ ایوب خاور اپنی تراکیب کے ذریعے ایک شاعرانہ کیفیت کوپوری شدت کے ساتھ ایک فکری ماحول کو اس کے تمام تر رنگوں کےساتھ اور ایک المیے کواس کی خاص حالت وکیفیت کے ساتھ نظم کرتے ہیں۔ان کی وضع کردہ تراکیب محض لسانی اور فنی مشق نہیں ہیں بلکہ خاص مفہوم کی ترسیل کے وسیلے ہیں جو رمزیت و اشاریت، علامتکی خوبیوں سے لیس نظر آتے ہیں۔ تراکیب کا خوبصورت استعمال ایوب خاور  کے شاعرانہ خیال کوپھیلاؤ کی بجائے ان کی نظموں کو اختصار  اور ارتکاز  کے قالب میں بند کر کے قاری کے ذوق سلیم کو محظوظ کرتا ہے۔

 

 

 

 

 
حوالہ جات
۱۔ ڈاکٹر عطش درانی،اصطلاحی مباحث،مقتدرہ قومی زبان اسلام آباد،سن ندارد،ص۶۶
۲۔ ڈاکٹر اعجاز راہی،تحقیق اور اصول ِ وضع اصطلاحات پر منتخب مقالات،مقتدرہ قومی زبان اسلام آباد، ۱۹۸۶،ص ۱۱
۳۔آصف اسلم فرخی ،جدیدیت کیا ہے (مضمون مشمولہ) ماہنامہ نوبہار ایبٹ آباد،جلد ۲، شمارہ۳۳، ۱۹۸۷ء،ص ۱۶
۴۔گل موسم خزاں،الحمد پبلی کیشنز،لاہور،۱۹۹۲ءص۲۹
۵۔ایضاََ،ص۲۹
۶۔ایضاََ،ص۳۰
۷۔ایضاََ،ص۳۷
۸۔ایضاََ،ص۳۴
۹۔تمھیں جانے کی جلدی تھی،الحمد پبلی کیشنز،لاہور،۱۹۹۸ءص۶۸
۱۰۔گل موسم خزاں،الحمد پبلی کیشنز،لاہور،۱۹۹۲ءص ۵۶
۱۱۔ایضاََ،ص۷۶
۱۲۔بہت کچھ کھو گیا ہے،الحمد پبلی کیشنز،لاہور، ۲۰۰۹ءص۳۸
۱۳۔گل موسم خزاں،الحمد پبلی کیشنز،لاہور،۱۹۹۲ءص۷۲
۱۴۔ایضاََ،ص۵۷
۱۵۔ایضاََ،ص۶۷
۱۶۔تمھیں جانے کی جلدی تھی،الحمد پبلی کیشنز،لاہور،۱۹۹۸ءص۱۴۴
۱۷۔گل موسم خزاں،الحمد پبلی کیشنز،لاہور،۱۹۹۲ءص۹۳
۱۸۔ایضاََ،ص۹۱
۱۹۔بہت کچھ کھو گیا ہے،الحمد پبلی کیشنز،لاہور، ۲۰۰۹ءص۴۲
۲۰۔تمھیں جانے کی جلدی تھی،الحمد پبلی کیشنز،لاہور،۱۹۹۸ءص۱۴۴
۲۱۔ایضاََ،ص۱۵۰
۲۲۔بہت کچھ کھو گےا ہے،الحمد پبلی کیشنز،لاہور، ۲۰۰۹ءص۲۸
۲۳۔گل موسم خزاں،الحمد پبلی کیشنز،لاہور،۱۹۹۲ءص۱۰۹
۲۴۔ایضاََ،ص۱۱۷
۲۵۔بہت کچھ کھو گیا ہے،الحمد پبلی کیشنز،لاہور، ۲۰۰۹ءص۹۳
۲۶۔گل موسم خزاں،الحمد پبلی کیشنز،لاہور۱۹۹۲ءص۲۰

اوپر جائیں  |   پرنٹ کیجئےِ
انگریزی ورژن ای میل چیک کریں مرکزی صحفہ پرنٹ پسندیدہ سائٹ بنائیں رابطہ کیجئے www.shahzadahmad.com www.shahzadahmad.com