رباعیاتِ صادقین۔۔۔۔۔۔اِجمالی جائزہ

ڈاکٹر سرفراز

ABSTRACT:

Sadequain [1930-1987] an international acclaimed painter and calligraphist also composed poetry in Urdu language. This article is an attempt to analyze the Rubai [Four lines poem with fixed and standard meter.] wrote by him. In terms of treatment Sadequin’s Rubai show a surprising fresh diversion from classic forms and expression. The common themes of his Rubai are sustained urge for critical thinking and freedom of expression along with optimism and self-belief.

Key Words: Sadequain; Urdu Rubai; Paiter Poets; Pakistani Literature.

 

          اردو کی شعری اصناف میں جس صنف کو اس کی تکنیک کے لحاظ سے نہایت مشکل تصور کیا جاتاہے ‘وہ ”رباعی“ہے۔لفظ ”رباعی“عربی لفظ ”رُبع“سے ماخوذہے جس لغوی معانی ”چار،چوتھائی“کے ہیں۔(۱)عربی زبان کے علمِ صرف میں ”رباعی“ایسے لفظ کو کہتے ہیں جو چار حروف سے مل کر بنا ہو۔اسی مناسبت سے عقلا اور استادانِ سخن نے ”رباعی“ایسی مختصر نظم کو کہا جو چار مصرعوں(دو شعروں)پر مشتمل ہو۔
          علمِ عروض میں رباعی کے لیے چوبیس اوزان مختص ہیں جو دو دائروں‘دائرہاخرب(مفعولُ)اور دائرہاخرم (مفعولن) میںمنقسم ہیں۔رباعی میں ان دونوں دوا ئر کے اوزان کا اختلاط جائز اور روا ہے۔ہندی عروض ”پنگل“کے ماترک قواعد کے مطابق رباعی کا ہر مصرع دس(۱۰)صوتی ماترے رکھتا ہے اور بیس(۲۰)حرفی ماتراوںکا حامل ہوتاہے۔ہیئت کے لحاظ سے رباعی کی دو قسمیںہیں :
(۱)خصّی رباعی               (۲)غیر خصّی رباعی
          خصّی رباعی سے مراد آج کے دور کی مروجہ رباعی ہے یعنی ایسی رباعی جس کا تےسرا مصرع ردیف و قافیہ کا پابند نہ ہو۔غیر خصّی رباعی سے مراد وہ رباعی ہے جس کے چاروں مصرعے ردیف و قافیہ کے پابندہوںلیکن اس غیر خصّی رباعی کو قبولِ عام حاصل نہ ہوسکا۔ڈاکٹر فرمان فتح پوری لکھتے ہیں :
ابتداََ رباعی کے چاروں مصرعے باہم مقفیٰ ہوتے تھے بعدازاں تےسرے مصرعے سے قافیہ حذف ہوگیا اور اسے رباعی کہنے لگے گویا چاروں مصرعے ہم قافیہ ہوں تو رباعی غیر خصّی اور تیسرے میں قافیہ نہ ہو تو رباعی خصّی کہیں گے۔فارسی اردو کی رباعیات کے مطالعے سے پتا چلتا ہے کہ خصی رباعی کو قبولِ عام حاصل ہوتا گیا اور غیر خصّی رفتہ رفتہ متروک ہوگئی۔“(۲)
          ابتداََ رباعی کو دوبیتی‘چہارمصرعی ‘جفتی اور ترانہ بھی کہتے تھے۔”ترانہ“کے حوالے سے نجم الغنی نے شمس الدین محمد بن قیس کا بیان یوں نقل کیا ہے کہ
ترانہ اس کو اس لیے کہتے ہیں کہ اربابِ موسیقی نے اس وزن پر اچھے اچھے راگ بنائے ہیں۔عربی میں ایسے اشعار کو قول بولتے ہیں۔“(۳)
          عجم کے فارسی شعرا کے ہاں رباعی کا عروج دکھائی دیتا ہے ۔ابو شکور بلخی اور رودکی کی رباعیات سامانی دور کی ہیں ۔دورِ سلاجقہ کے رباعی گو شعر انے رباعی کو بامِ عروج تک پہنچایا۔ابو سعید ابولخیر‘حکیم عمرخیام‘اس دور کے اوّلین رباعی گو شاعر ہیں۔متاخرین میں مولاناجامیؒ ‘سحابی استرآبادی‘امیرخسروؒ ‘بو علی قلندرؒ‘میرزا عبدالقادر بیدل‘مولانا غلام قادر گرامی کے اَسما شامل ہیں۔اُردو کے کلاسیکی شعرا میں سے کم و بیش ہر شاعر نے کچھ نہ کچھ رباعیات کہی ہیں لیکن جن شعرا نے باقاعدہ رباعی کو اپنا شعارِ سخن بنایا ان میں عزم مدراسی‘غمگین ‘میر احمد علی اثر‘عبدالباری آسی‘قوس حمزہ پوری اور مہاراجہ کشن پرشاد صاحبِ دیوان رباعی گو شاعر ہیں۔
          حمدیہ اور نعتیہ رباعیات کے حوالے سے محمد علی اثر‘دانش فرازی اور علامہ فدوی باقوی کی رباعیات قابلِ ستایش ہیں۔اردو ادب کے وہ شعرا جنھوں نے دیگر اصناف میں طبع آزمائی کے ساتھ ساتھ رباعی میں بھی نام کمایا ان میں میر انیس‘شاد عظیم آبادی‘جوش ملیح آبادی‘فانی بدایونی‘رضا علی بیگ وحشت‘فراق گورکھپوری‘رمیش تنہاکے اسما قابلِ قدرہیں۔
          صادقین نہ صرف وطنِ عزیز کے عظیم مصور تھے بل کہ رباعی گو شاعر بھی تھے۔ان کی رباعیات ان کے باکمال مصورانہ افکار کی غمازہیں۔
جو نقش تھے پامال بنائے مَیں نے
پھر اُلجھے ہوئے بال بنائے مَیں نے
تخلیق کے کرب کی جو کھینچی تصویر
تو اپنے خدوخال بنائے مَیں نے(۴)

          تخلیق کار جس تخلیقی کرب سے گزرتا ہے اور کوئی شہ پارہ تخلیق کرلینے کے بعد اُسے جو تسکین و مسرت حاصل ہوتی ہے اس کا احساس صادقین کی مذکورہ بالا رباعی میں موجودہے۔
          صادقین کی رباعیات میں مظاہرِ فطرت کی تصویرکشی نہایت عمدگی کے ساتھ ملتی ہے۔انھوں نے اپنی رباعیات میں حسِ باصرہ ‘حسِ سامعہ‘حسِ شامہ اور حسِ ذائقہ سے تعلق رکھنے والے مظاہر کوبہ خوبی لفظوںمیں تصویرکیاہے۔
شعلہ ہے شرارہ ہے چھلاوا کیا ہے
جو پھوٹتا دل میں ہے وہ لاوا کیا ہے
اِس کو ہی بہاتا ہوں ‘متاعِ عاشق
ہے خونِ جگر اس کے علاوہ کیا ہے(۵)

          صادقین کو اپنی ذات کی تنہائی میں گفتگو کرتی کچھ پرچھائیاںہر رات نظرآتی ہیں تو وہ بے اختیار پکار اٹھتے ہیں :
تنہا ہے مری ذات نظر آتی ہیں
کرتی ہوئی کچھ بات نظر آتی ہیں
ہاں پردہخلوت پہ نہ جانے کس کی
پرچھائیاں ہر رات نظر آتی ہیں)

          خوشبو کو چکھنے کا خواہاں‘نادرونایاب کو دل میں رکھنے کا تمنائی اور حُسن کو پرچھائیں میں دیکھ کر بھی پرکھ لینے کا دعویدار شاعر اپنے خیالات کو رباعی میں اس طرح سموتاہے :
خوشبو ہی اگر آئے تو چکھ لیتے ہیں
نادر ہو تو دل میں اُسے رکھ لیتے ہیں
ہم حُسنِ خدوخال و قد و قامت کو
پرچھائیں بھی دیکھیں تو پرکھ لیتے ہیں)

          صادقین اعلیٰ جمالیاتی ذوق کے حامل شاعر تھے۔وہ ایک حُسن پرست مصورتھے۔جہاں انھوں نے اپنی تخلیقی قوت حُسن کی گوناگوںاداوں سے بھرپور نقوش تراشنے پر صرف کی ہے وہیں بہ طور شاعرنسائی حُسن کو مختلف النوع پہلووں سے محسوس کیا اوراُسے شعری پیراے میں بیان بھی کیاہے۔صادقین کی حُسن پرستی ‘حسرت کی طرح ”دیکھنا بھی تو انھیں دُور سے دیکھا کرنا“نہیںہے بل کہ ان کے احساسات پر جنسی غلبہ ہے۔
ہاں اوج پہ حُسن ہے حسینہ تیرا
ہاں رشکِ گلاب ہے پسینہ تیرا
نیلا پیلا ہے گھورتا ہے مجھ کو
آنکھیں نظر آتا ہے یہ سینہ تیرا)

محفل میں ادا نماز کر لی میں نے
وہ چشم تھی نیم باز کر لی میں نے
فیتے سے نگاہ کے جو اک ہی پل میں
پیمائشِ جسمِ ناز کر لی میں نے)

صادقین نسائی حُسن کو لباس کی رکاوٹ کے بغیر دیکھنے کے تمنائی واقع ہوئے ہیں ۔یہاں تک کہ بدن بھی انھیں وصال کی حقیقی مسرت کے حصول میں رکاوٹ لگتا ہے :
فانوس کی روشنی میں جھلکی پوشاک
اور جب تن شفاف سے ڈھلکی پوشاک
سائے ترے اَعضا کے ترے اَعضا پر
نظروں میں مری وہ بھی تھے ہلکی پوشاک(۱۰)

          صادقین کے یہاں شہوت پرستانہ خیالات جنسی نا آسودگی کو ظاہر کرتے ہیںاور یہی جنسی نا آسودگی انھیں ہر پل مضطرب و بے قرار رکھتی ہے لیکن یہ بھی کہنا درست نہ ہوگا کہ وہ محض شہوت پرست تھے ۔حُسن سے ان کا لگاؤمثبت ہے۔وہ حُسن کو فن کی ضرورت قرار دیتے ہیں۔ ڈاکٹرمحمد علی صدیقی لکھتے ہیں :
صادقین نے فکری طور پر ترقی پسند نظریات اور بالخصوص جوش سے استفادہ کیاہے۔انھیں جمال پسند تو ہونا ہی تھا لیکن وہ اپنی رباعیات میں جن خیالات کی آبیاری کرتے ہیں وہ ایک Free Thinkerکے خیالات ہیں جو اپنے معاشرے کو آزاد دیکھنا چاہتاہے۔“(۱۱)
          اس لحاظ سے ان کی ایک درج ذیل رباعی ملاحظہ فرمائیں جس سے نہ صرف ان کی جمال پسندی ظاہر ہوتی ہے بلکہ یہ بھی پتا چلتا ہے کہ وہ انسانی حُسن کی رعنائیوں اور مظاہرِ فطرت کی خوب صورتی کو کس درجہ یکجا بیان کرنے کی قدرت رکھتے ہیں :
بے حد تھا کرم اس کا مرے حال پہ رات
نظریں تھیں جوانی کے خدوخال پہ رات
فانوس کا زاویہ تھا ایسا اُس کے
اِک گال پہ دن تھا تو تھی اِک گال پہ رات(۱۲)

          علاوہ ازیں وہ حُسن پرست اور جمال پسند ہونے کے ساتھ ساتھ انسان اور کائنات کی بے ثباتی سے بھی آشنا تھے ۔وہ سارتر کے خیالات سے متاثر دکھائی دیتے ہیں۔ان کی بعض رباعیات میں وجودیت کی فکر صاف جھلکتی ہے۔
صَر صَر کے مناروں میں ہے جن کا مسکن
سچّائی اور ان کے درمیاں ہے چلمن
ہم گند کے نالے میں پڑے ہیں ہم پر
ہے عالمِ بالا کی حقیقت روشن(۱۳)

مینار کے ساکنو! صداقت مَیں ہوں
جس سے تمھیں گھِن آئے وہ حالت مَیں ہوں
یہ زندگی کیچڑ ہے تو اس کیچڑ میں
سارا ہی سَنا ہُوا ہوں لَت پَت مَیں ہوں(۱۴)

          صادقین کے ایسے افکار انسان کو محض یاسیت‘مایوسی ہی کا درس نہیں دیتے بل کہ اُسے عالمِ رُقاد سے بیدار ہونے اور اپنے وجود کی بقا کے لیے جہدِ مسلسل کی تعلیم دیتے ہیں۔انسان کو اس کائنات کے حقائق کے نظارے کی دعوت دیتے ہیں اور اسے تحقیق و مشاہدہ کی طرف مائل کرتے ہیں۔
عبرت کے مناظر ہیں سنبھل کر دیکھو
اس تنگ و طویل پل پہ چل کر دیکھو
کیا ٹھوس حقائق کا ہے عالم اک بار
تم خواب کی دنیا سے نکل کردیکھو(۱۵)

فکری مو ضوعات سے ہٹ کر اگر عروضی حوالے سے صادقین کی رباعیات کو دیکھا جائے تو ان کی رباعیات زیادہ تر دائرہاخرب(مفعولُ)کے اوزان کی حامل ہیں‘بہت کم رباعیات ایسی ہیںجن میں دائرہاخرم(مفعولن)کے اوزان برتے گئے ہیں۔یہاں ایک رباعی بہ طور نمونہ پیش کی جاتی ہے جس کے چوتھے مصرعے میںدائرہاخرم کا وزن”مفعولن فاعلن مفاعیلن فع“برتاگیاہے۔
روشن ہے جو اب ہے حال میرا تجھ پر
ہاں ختم ہے اب کمال میرا تجھ پر
ہے کتنے ہی گیسووں میں ہو کر پہنچا
شانہ بن کر خیال میرا تجھ پر(۱۶)

چوتھے مصرعے کی تقطیع درج ذیل ہے :
شانہ بن۔۔کر خیا۔۔لَمِیرَا تُج۔۔۔پَر
مفعولن۔ فاعلن۔ مفاعیلن۔فَع

          محولہ بالا رباعی کے پہلے تین مصرعے دائرہاخرب کا وزن ”مفعول مفاعلن مفاعیلن فع“رکھتے ہیں۔
          فکری حوالے سے صنف رباعی میں جہاں پند و نصائح کے مضامین کی کثرت ہے وہیں ایک گوشہ شعرا کے رندانہ خیالات سے بھی بھرپور ہے۔صادقین کی رباعیات میں ”مے و مینا و جام و سبو“کا ذکر ان کی خمریہ و رندانہ فکر کی غمازی کے ساتھ ساتھ عمر خیام کے اسلوبِ رباعی کی بھی یاد تازہ کرتا ہے۔
معشوق لیے جام بکف جاتا ہوں
تھم تھم کے بجاتا ہُوا دَف جاتا ہوں
عرفی مری بستی میں تھا آیا اب مَیں
معمورہعرفی کی طرف جاتا ہوں(۱۷)

یاں شعر ہے اور جام ہے آئی آواز
تیرا یہاں کیا کام ہے آئی آواز
پوچھا ہی تھا اس گلی کو کہتے کیا ہیں؟
یہ کوچہخیام ہے “ آئی آواز(۱۸)

خمریہ اندازِ فکر کے علاوہ بعض رباعیات زبان و بیان کی مکالماتی ندرت سے بھی بھرپور ہیں :
جب میری تھی منتظر تو حالت کیا تھی
اُف سولہ سنگھار میں وہ صورت کیا تھی
اس شوخ سے آتے ہی کہا تھا میں نے
ہم سے یہ تکلف کی ضرورت کیا تھی(۱۹)

صادقین کی حسب ذیل رباعی ملاحظہ فرمائیں کہ رباعی میں لفظ”ہاں“ کی تکرار سے کس درجہ غنائیت پیدا ہوئی ہے اور قوافی”جاں،جاناں،ہاں“کے ساتھ لفظ ”ہاں“نے بہ طور ردیف استعمال ہو کررباعی کے چوتھے مصرعے کے آہنگ کو دوآتشہ کر دیا ہے :
کیا چاہتے مجھ کو ہو مری جاں!ہاں!ہاں !
اس پر مرا یہ کہنا کہ”جاناں“!ہاں!ہاں !
اک لمحہنازک تھا تو کی تھی میں نے
اس شوخ کی ہر بات پہ ہاںہاں!ہاںہاں ! (۲۰)

مذکورہ رباعی کے مصاریع کے آہنگ کی تال میل جس انداز سے یکجا ہوئی ہے اس سے ”لَے کاری “کا پورا لطف اٹھایا جا سکتا ہے۔صنفِ رباعی کے چوبیس اوزان کا یہ تخصص ہے کہ وہ پرُشکوہ آہنگ رکھتے ہیں یہ شاعر کی فنکارانہ صلاحیت پر ہے کہ وہ انھیں کس سلیقے سے برتتا ہے۔ فکری و فنی خصائص کے لحاظ سے صادقین کی رباعیات ،اردو ادب کے شعری سرمائے میں منفرد مقام و مرتبہ کی حامل ہیں۔صادقین کی رباعیات موضوعاتی لحاظ سے توانا اور تنوع کی حامل ہیں ۔صادقین کا اسلوبِ رباعی سلیس‘سادہ‘عام فہم اور زبان و بیان کی فصاحت و بلاغت سے بھرپور ہے۔ان کی رباعیات کی ایک خاصیت یہ بھی ہے کہ وہ رباعی کی کلاسیکی روایت سے بھی جڑی ہوئی ہیں۔ان کے یہاں نیم کلاسیکی رچاﺅ بھی ملتا ہے اور مضامینِ تازہ کی نضارت بھی جھلکتی ہے۔صادقین کی رباعیات ان کے مصورانہ افکار کے ساتھ ساتھ شاعرانہ جذبات کی بھی غماز ہیں اور ایک تخلیق کار،فن کار کے تخلیقی کرب کی بھی عکاس ہیں۔صادقین کے مصورانہ شہ پاروں کی طرح ان کے شاعرانہ افکار بھی رباعیات کی صورت اردو ادب میں ہمیشہ زندہجاوید رہیں گے۔

 

 

 

 

 

 

 

 

حوالہ جات

 

۱۔محمد عبداللہ خان خویشگی‘فرہنگِ عامرہ‘اسلام آباد:مقتدرہ قومی زبان‘۲۰۰۷ء‘ص۲۸۶۔
۲۔ڈاکٹر فرمان فتح پوری ‘اُردو رباعی(فنی و تاریخی ارتقا)‘کراچی:مکتبہعالیہ‘۱۹۸۲ء‘ص۳۰۔
۳۔مولوی نجم الغنی رام پوری‘بحرالفصاحت(حصہ دوم:علم عروض)‘لاہور:مجلس ترقی ادب‘۲۰۰۱ء‘ص۲۳۵۔
۴۔صادقین‘رباعیاتِ صادقین‘لاہور:نثار آرٹ پریس‘۱۳۹۰ھ‘ص۱۔
۵۔ایضاََ‘ص۱۷۔
۶۔ایضاََ‘ص۲۱۔
۷۔ایضاََ‘ص۲۵۔
۸۔ایضاََ‘ص۲۸۔
۹۔ایضاََ‘ص۲۳۔
۱۰۔ایضاََ‘ص۲۶۔
۱۱۔ڈاکٹر محمدعلی صدیقی‘نکات لاہور‘پیس پبلی کیشنز‘۲۰۱۳ء‘ص۱۹۱۔
۱۲۔صادقین‘رباعیاتِ صادقین‘ص۲۶۔
۱۳۔ایضاََ‘ص۲۹۔
۱۴۔ایضاََ‘ص۳۰۔
۱۵۔ایضاََ
۱۶۔ایضاََ‘ص۱۰۔
۱۷۔ایضاََ‘ص۳۔
۱۸۔ایضاََ‘ص۱۔
۱۹۔ایضاََ‘ص۱۶۲۔
۲۰۔ایضاََ‘ص۱۷۷۔
         

ملخص

          صادقین نہ صرف وطنِ عزیز کے عظیم مصور تھے بل کہ رباعی گو شاعر بھی تھے۔ان کی رباعیات ان کے باکمال مصورانہ افکار کی غمازہیں۔صادقین کی رباعیات میں مظاہرِ فطرت کی تصویرکشی نہایت عمدگی کے ساتھ ملتی ہے۔انھوں نے اپنی رباعیات میں حسِ باصرہ ‘حسِ سامعہ‘حسِ شامہ اور حسِ ذائقہ سے تعلق رکھنے والے مظاہر کوبہ خوبی لفظوںمیں تصویرکیاہے۔صادقین کی رباعیات موضوعاتی لحاظ سے توانا اور تنوع کی حامل ہیں ۔صادقین کا اسلوبِ رباعی سلیس‘سادہ‘عام فہم اور زبان و بیان کی فصاحت و بلاغت سے بھرپور ہے۔ان کی رباعیات کی ایک خاصیت یہ بھی ہے کہ وہ رباعی کی کلاسیکی روایت سے بھی جڑی ہوئی ہیں۔ان کے یہاں نیم کلاسیکی رچاﺅ بھی ملتا ہے اور مضامینِ تازہ کی نضارت بھی جھلکتی ہے۔صادقین کی رباعیات ان کے مصورانہ افکار کے ساتھ ساتھ شاعرانہ جذبات کی بھی غماز ہیں اور ایک تخلیق کار،فن کار کے تخلیقی کرب کی بھی عکاس ہیں۔صادقین کے مصورانہ شہ پاروں کی طرح ان کے شاعرانہ افکار بھی رباعیات کی صورت اردو ادب میں ہمیشہ زندہ جاوید رہیں گے۔

اوپر جائیں  |   پرنٹ کیجئےِ
انگریزی ورژن ای میل چیک کریں مرکزی صحفہ پرنٹ پسندیدہ سائٹ بنائیں رابطہ کیجئے www.shahzadahmad.com www.shahzadahmad.com