نشاط سرحدی۔’شہرِ تہی دست‘کا مالا مال شاعر  
ڈاکٹر سید زیبر شاہ


ABSTRACT

NishatSarhadi is one of the prominent names in the KP literature."shehr e tahidast"is his fifth poetic adition in which his artistic and thinking evalution are highlighted. His poetry sheds light on the both the internal and external surfaces and he presented it in ghazal that is he has no limitation in topics,whether it is self revelation or the expression of the manners of the modern era, duty to raise a voice for the right of humanity or to revolt agaist the so called religious or political leaders.His art is expressive of his personal experiences and observations. To him the solution of every problem lies in thepropagantion or love. 

شاعری شعور و ادراک کا نام ہے،یہی وجہ ہے کہ شاعر حساس بھی ہوتا ہے اور بیدار بھی رہتا ہے۔وہ بہ یک وقت داخلی اور خارجی دو دنیاؤں میں زندگی گزارتا ہے اور وارداتِ ظاہر و باطن کا محض ایک تماشائی بن کر نہیں جیتا بلکہ زندگی کو ہر پہلو سے برتتا ہے۔ایک بڑا شاعر ہمیشہ زمان و مکان کی قیدسے آزاد رہ کر رونما ہونے والے واقعات اور امکانی صداقتوں کو نہ صرف اپنی ذات کے آئینے میں خود دیکھتا ہے بلکہ دنیا کو بھی اس میں شامل کرنے کی سعی کرتا ہے۔گویا کسی جغرافیائی حد بندیوں میں رہ کر ماضی ،حال اور مستقبل میں تقسیم ہونے کی بجائے وہ اپنے فن اور شخصیت کو ایک وحدت میں ڈھالنے کو ترجیح دیتا ہے کیونکہ اس کی نظر ، اس کی سوچ او ر بصیرت کا دائرہ لا محدود ہوتا ہے۔اسی لیے ہر بڑے شاعر کے ہاں شاعری کے کینوس پر محض آپ بیتی ہی کی نہیں بلکہ جگ بیتی کی تصویریں نظر آتی ہیں جنھیں وہ کمال مہارت سے مختصر الفاظ کے دلنشیں رنگوں میں بھر پور جامعیت اور کاملیت کے ساتھ سامنے لاتا ہے۔طارق ہاشمی کے بقول:
’’غزل کا مزاج ابتدا ہی سے داخلیت کی طرف مائل رہا ہے لیکن ایسا کبھی نہیں ہوا کہ یہ صنف اپنے خارجی ماحول سےبے نیاز رہی ہو۔
ذات کے پردے میں پوری کائنات کی تصویر کشی صنفِ غزل کا امتیازی وصف رہاہے۔غزل کا بظاہردروں بیں شاعر ہر دورمیں معاشرے
 کے ایک با خبر اور با شعور فرد کا کردار ادا کرتے ہوئے اپنے عہد کے مسائل کوبھرپور انداز میں پیش کرتا رہا ہے۔‘‘(1)                                                                                                                                                        
درج بالا اقتباس کی روشنی میں نشاط سرحدی کا شعری مجموعہ’ شہرِ تہی دست‘ پڑھنے کے بعد دل میں پہلا تاثر یہی پیدا ہوتا ہے کہ شہر تہی دست سہی مگر اس میں ایک ایساشاعرموجود ہے جو شاعری کی دولت سے مالامال ہے اور ان کا یہی سرمایہ درحقیقت شہر کے لیے نیک شگون ہے۔قدرت نے نشاط سرحدی کو شعور و ادراک کی نعمت سے نوازا ہے اس لیے ان کے پاس ہر قسم کے خیال کو مکمل شعریت اور تغزل کے ساتھ پیش کرنے کا قرینہ ہے۔وہ ایک بے پناہ شاعر ہیں اور شاعری ان کی سرشت میں شامل ہے ،نشاط سرحدی کے فنِ شعر کے حوالے سے طارق ہاشمی رقم طراز ہیں:
’’اپنی پانچویں شعری دستاویز کو نشاط سرحدی نے ’شہرِ تہی دست‘ کا عنوان دیا ہے مگر اس کے صفحات کا مطالعہ کریں تو وہ  خود ایسا دستِ ہنرمند
نظر آتا ہے کہ غزل ہو رباعی ہو یا کوئی اور صنف ،اپنی فنی دسترس سے نہ صر ف نبھاتا ہے بلکہ رفعت سے بھی نوازتا ہے۔‘‘(۲)
طارق ہاشمی کی مذکورہ بالا رائے کی بنیاد کسی مبالغے پر قائم نہیں،کیونکہ حقیقت یہی ہے کہ شاعری نشاط کی فطرت کا جزو لا ینفک ہے۔ شعر گوئی کے لیے کوئی جواز ڈھونڈناان کا وطیرہ نہیں ، وہ شعر کہتے ہیں اس لیے کہ وہ فطری طور پر ایک شاعر ہیں۔اس چیز کا اظہار انھوں نے مذکورہ مجموعہ کے پیش لفظ اور اپنی نظم ’جواز‘ میں کھل کر کیا ہے۔کتاب کے پیش لفظ میں وہ لکھتے ہیں:
’’دیکھا جائے تو کسی بھی شے کا جواز نظر نہیں آتا لیکن اسے ڈھونڈنا پڑتا ہے اس کے لیے تگ و دو کرنا پڑتی ہے اور یہی تگ و دو زندگی کی ترقی کی
 ضمانت ہے زندگی جمود کا شکار نہیں ہو پاتی مسلسل حرکت میں رہتی ہے جب زندگی تحرک پذیر ہو تو اس کے  لیے خود بخود جواز پیدا ہو جاتے ہیں
یہی جواز زندگی کے وجود اور مختلف فنون کی تخلیق کا سبب بنتے ہیں۔‘‘(۳)
شاید اسی لیے شعر و ادب میں جب غیر سنجیدہ رویے سامنے آتے ہیں تو ان کو شدید دکھ پہنچتا ہے کیونکہ وہ فن کے لیے خلوصِ نیت اور سنجیدگی کو شرطِ اوّلین سمجھتے ہیں۔ان کے خیال میں بعض مصنوعی رویے ادب کو نہ صرف یہ کہ نقصان پہنچاتے ہیں بلکہ ان کے سبب بہت سی علمی محفلیں بھی اجڑ جاتی ہیں ۔جدت کے نام پر شہرت حاصل کرنے کی کوشش کرنے والے ایسے لوگوں کو وہ معاف نہیں کرتے جوبے معانی انفرادیت کے نام پر ادب میں بے ادبی کے مرتکب ہوتے ہیں اور شعبۂ ادب کو ایک تجربہ گاہ بنا لیتے ہیں۔ایسے لوگوں پر شدید طنز کرکے وہ اپنا ردِ عمل ظاہر کرتے ہیں:

؂                 سینکڑوں ہیں ادب کے دعوے دار
پاس دارِ ادب نہیں ملتے(۴)
؂                 تنہائیوں کے بوجھ سے دبتے چلے گئے
علم و ہنر کے جتنے بھی جدت طراز ہیں  
شعرو سخن کے رنگ فقط کھوکھلے نہیں
بے لطف بھی ہوئے ہیں کہ بے سوز و ساز ہیں(۵)

اس ضمن میں وہ عہدِ حاضر کی مفاد پرستی اور مادیت پرستی کو بھی نظر انداز نہیں کرتے ،جن کے باعث فن کدے حوصلہ افزائی نہ ہونے کے سبب ویران ہوتے جا رہے ہیں اور فن اور فن کار دونوں کو نا قابلِ تلافی نقصان پہنچ رہا ہے۔فن کی اس ناقدری پر وہ خاموش نہیں رہتے بلکہ یہ کہنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔

؂                وقت نے اتنا بے حس کر ڈالا اُس کو
فن کا حامل بھی حساس نہیں ہوتا(۶)
؂                کھو گئے ہیں ظلمتِ شب کی سیہ بختی میں ہم
ڈھونڈتا رہتا ہوں میں سائے کو اور سایا مجھے(۷)

اس حقیقت کا اعتراف غالبؔ بہت پہلے کر چکے ہیں کہ جب مشکلیں تسلسل کے ساتھ سامنے آتی ہیں تو انسان رنج کا خوگر ہو جاتا ہے اور پھر اس کے لیے تکلیف ایک بے معانی شے بن جاتی ہے۔دیکھا جائے تو بے حسی موجودہ دور کا ایک انفرادی اور اجتماعی رویہ بن چکا ہے اس لیے فی زمانہ اس قسم کا رویہ ہر خاص و عام کا شیوہ ہی نہیں بلکہ سرمایہ بھی ہے۔تاہم قابلِ تحسین پہلو یہ ہے کہ نشاط سرحدی خود شاعر ہیں مگر فن کار ہوتے ہوئے بھی فن کار کی بے حسی کا اعتراف کرنا،اُن کی عظمت پر دلالت کرتی ہے۔اعترافِ گناہ کرنے میں وہ کوئی قباحت اور جھجھک محسوس نہیں کرتے بلکہ خود کو منافقت سے دور رکھ کر اپنی ذات کی کتا ب پڑھنے والوں کے لیے کھلی چھوڑ دیتے ہیں۔

؂                وہ تو ہیں مطئن مگر مجھ کو
اپنے افعال پر ندامت ہے(۸)

اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ نشاط سرحدی ایک درویش صفت انسان ہیں ،جن کے دل میں زیادہ کی تمنا نہیں ہے۔جو کچھ میسر و موجود ہے اسی پر صابر و شاکر رہتے ہیں۔ طبیعت کی اس عاجزی اور انکساری کے باعث ہی وہ ہمیشہ لوگوں کو اپنی ذات پر ترجیح دیتے ہیں اور کبھی ذاتی انا کی تسکین کی خاطر دوسروں کو رنج سے دوچار نہیں کرتے۔ مروّت ان کی شخصیت کا خاصا ہے اور یہی خوبی ان کے اندر ایک ایسی خود داری کو زندہ رکھتی ہے جو ان کو کسی پر بوجھ نہیں بننے دیتی۔اس حوالے سے ان کے ہاں جا بجا ایسے اشعار سے سامنا ہوتا ہے۔

؂                ہمارے پاس قناعت پسند دل ہی تو ہے                                
سو ہم فقیروں کو دل کی یہ سلطنت ہے بہت(۹)
؂ جہان والوں کو ان کا جہاں مبارک ہو
میرے لیے تو فقط فکرِ عاقبت ہے بہت(۱۰)
مگر اس کا مطلب یہ ہر گز نہیں کہ ان کی سوچ و فکر کا مرکز و محور فقط اب ان کی ذات ہی ہے۔ان کی شاعر ی ایک دو رُخی تصویر ہے جس کی ایک طرف تو ان کی ذات کے رنگ بکھرے ہوئے ہیں مگر دوسری طرف ان کے عہد کی متحرک تصویریں نظر آتی ہیں۔اپنے عہد کے آئینے میں وہ زمانوں کے نشیب و فراز کو دیکھتا ہے تو ذات کے آئینے میں اردگرد کے معاشرتی رویوں کو اُجاگر کرتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ ان کے کلام میں داخل ا ور خارج دونوں سطحوں کی ہنگامہ خیزی بھر پور اور مؤثر انداز میں سامنے آتی ہے۔اس ضمن میں ڈاکٹر غلام حسین ذوالفقار کی یہ رائے خاص اہمیت کی حامل ہے کہ،’’ شاعری قدیم ہو یا جدید، اپنے عہد کے معاشرے کی تہذیب کے ساتھ ساتھ اس کے مستقبل کی تعمیر میں بھی حتی المقدور حصہ لیتی رہی ہے۔‘‘(۱۱)نشاط سرحدی کی شاعری نے بھی سیاسی ،معاشرتی اور سماجی بنیادوں کے ساتھ گہرا رشتہ قائم رکھا ہوا ہے۔  
دورِ جدیدکا ایک بڑا المیہ یہ ہے کہ ترقی کا ایک طویل سفر طے کرنے کے بعد بھی ہم طبقاتی نظامِ معاشرت کے عذاب سے اپنا دامن چھڑانے میں کامیاب نہیں ہوئے ،عصر ی تناظر میں اجتماعی بے حسی کے باعث عوام الناس پر طاری مردم بے زاری ہویا لیڈرانِ وقت کی نااہلیوں کے تذکرے وہ ہر پہلو پر برملا اظہار کرنے کی قدرت رکھتے ہیں۔وہ جانتے ہیں کہ ایسے نظام میں زبان کھولنا ایک بڑا جرم سمجھا جاتا ہے مگر وہ اپنے ضمیر کی آواز پر صاحبانِ اقتدار اور مذہبی و سیاسی راہنماؤں کی اصل حقیقت سامنے لانے میں کسی قسم کے پس و پیش سے کام نہیں لیتے۔انا کے زعم میں گرفتار اُن لیڈروں کا جبر وہ خاموشی سے سہنے کے لیے تیار نہیں جو غلط اور صحیح میں تمیز نہیں کرتے اور جن کا مقصد عوام کو کُچل کر آگے بڑھنا ہوتا ہے۔                                                                                                                                                                                                                       

؂                جو جبر ہی کی راہ پہ ہیں گامزن تمام
وہ جابرانِ شہر تہی دست ہی تو ہیں(۱۲)
؂                ہر ایک شخص کے لب پر یہی فسانہ ہے
فقیہہ شہر کا ہر فعل مشرکانہ ہے(۱۳)

اس سلسلے میں وہ ان تمام سیاسی اور مذہبی راہنماؤں کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں جو اپنی شعلہ بیانی سے معاشرے میں منافرت پھیلا کر انسانیت کی بنیادوں کو کھوکھلا کرنے کے درپے رہتے ہیں۔

؂                عالم دھواں دھواں جو نہ کرتے تو کرتے کیا
شعلہ بیانِ شہر تہی دست ہی تو ہیں(۱۴)

؂                سکھائی جائے گی پھر اس کی آڑ میں نفرت
محبتوں کے سبق یوں پڑھائے جائیں گے(۱۵)

بلا شبہ ان بڑے اور با اختیار لوگوں کی منافقانہ اقدامات ہی کی وجہ سے عوام میں بھی منافقانہ رویے پروان چڑھتے ہیں جو آہستہ آہستہ سارے معاشرے میں سرایت کرکے ایک وبا کی شکل اختیا ر کر لیتے ہیں۔موجودہ دور میں ہمارے معیارات بالکل بدل چکے ہیں اور ہم سب اُلٹی چا ل چلنے لگے ہیں۔ذیل کے اشعار کو بھی اگر ہم سیاسی اور سماجی تناظر میں دیکھیں تو شاعر کا حقیقت پسندانہ نقطۂ نظر بالکل واضح ہو کر سامنے آتا ہے۔اس حقیقت سے کون انکار کر سکتا ہے کہ ہمارے ہاں معصوم اور مجرم کی تفریق ختم ہو چکی ہے ۔نا انصانی اور عدم مساوات کی اس فضا میں جو جتنا بڑا منافق،چالاک اور عیّار ہے اسے اتنا ہی بڑا مقام اور مرتبہ حاصل ہے ۔ ایسے لوگ اپنی تمام تر خباثتوں کے باوجود ہر قسم کے سیاہ و سپید کے مالک بنے رہتے ہیں۔

؂                جب سزاوار بے خطا ٹھہرے
زندگی کیوں نہ پھر سزا ٹھہرے
؂                کج ادا لوگ خوش ادا ٹھہرے
کچھ تو معیار شہر کا ٹھہرے(۱۶)

؂                  مصروف سر پر ستیِ مقتل میں رات دن                     
قانون دانِ شہر تہی دست ہی تو ہیں(۱۷)


یہ وہ چیز ہے جس نے ہمارے معاشرے میں تاحال طبقاتی نظام کو پھلنے پھولنے کا بھر پور موقع فراہم کیا ہے۔آج بھی امیر کے لیے آگے بڑھنے کے تمام راستے نہ صرف کھلے رہتے ہیں بلکہ مقتدر طبقوں کی سرپرستی میں وہ ہموار بھی کیے جاتے ہیں۔زندگی کے تمام تر مصائب و آلام کا بوجھ غریب کے کندھوں پر ڈال دیا جاتا ہے ۔ اس ضمن میں نشاط سرحدی بعض مقامات پر ایسا علامتی طرزِ اظہار اپنا تے ہیں کہ طبقاتی نظام پر ان کا گہرا طنز جدید لہجے میں رچ بس کر بھر پور شعریت کے ساتھ سامنے آتا ہے۔                                                                                                                                                                                                                      

؂                کیا ملتی روشنی اسے بینائی چھِن گئی
سورج کو چاہنے کی سزا مل گئی اسے(۱۸)

؂                میری جڑوں میں بیٹھ کے پھلتا رہا ہے خود
بڑھنے دیا نہ عمر بھر اس شخص نے مجھے(۱۹)

اگر یہ کہا جائے کہ ایسے مقامات پر ان کی شاعری میں فیضؔ کی بازگشت سنائی دیتی ہے تو غلط نہ ہو گا،کیونکہ نشاط سرحدی بھی معاشرے میں پھیلے ہوئے طبقاتی نظام کو ببانگِ دہل رد کرتے ہیں تاہم پیرویِ فیضؔ میں وہ اپنے فن کو پروپیگنڈہ بننے سے مکمل طورپر محفوظ رکھتے ہیں اوتلخیوں کے بیان کے وقت بھی زندگی کی لطافتوں کو مدِ نظر رکھتے ہیں۔
قبل اس کے کہ ہم اِن خوشنما رنگوں کے سحر میں کھو جائیں ان کی شاعری کے اس پہلو کو اُجاگر کرنا بہت ضروری ہے جس میں وہ وقتِ حاضر کے مفاد پرستانہ اور دوہری شخصیت رکھنے والوں کو بے نقاب کرکے ان کی شاطرانہ چالوں کا پردہ چاک کرتے ہیں۔اس ضمن میں وہ دوستوں کے خود غرضانہ رویوں پر اظہارِ تاسف کرنے کے ساتھ ساتھ عدم اعتماد کی فضا،قربتوں کے فقدان کے گلے شکوے،ٹوٹ پھوٹ کا شکار خاندانی ڈھانچے پر بھی ملال کا اظہار کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ان کو یقین ہے کہ گھروں کے اندر اور باہر ایک دوسرے سے بے زاری کے یہ رویے اجتماعی نقصانات کا پیش خیمہ ثابت ہوتے ہیں۔پرت در پرت چھپی ہوئی شخصیتوں اور اجتماعی بے چہرگی میں وہ خود کو بھی دستیاب نہیں ہوتے یہی وجہ ہے کہ ان کے ہاں کھوج کا یہ سفر ذات اور معاشرے کو دریافت کرنے کا حوالہ بن جاتا ہے۔اس سفر کے کسی موڑ پر بھی وہ معاشرتی رویوں سے غافل نہیں رہتے۔

؂                اس بستی میں جتنے گھر ہیں
بے چہر ہ لوگوں کے گھر ہیں(۲۰)
مجھ سے نشاط گریزاں ہیں کیوں
وہ جو میرے اپنے گھر ہیں(۲۱)
 کھو نہ دوں محفل احباب پرکھنے سے کہیں
اپنے یاروں کو پرکھنے سے بھی خوف آتا ہے(۲۲)
 کیا کروگے نشاط سے باتیں
جب کہ مشکل ہے اس کا ملنا بھی(۲۳)

اس دورِ ابہام کا اصل مسئلہ یہی ہے کہ ہر چیز کو اس قدر مبہم بنایاجاتا ہے کہ مسائل سلجھنے کی بجائے پیچیدہ تر ہوتے جاتے ہیں۔قابلِ افسوس بات یہ ہے کہ ہم جس طرح اپنے حال کوتباہ اور مستقبل کو تاریک کر رہے ہیں ،اس کے بعد ہمارے پاس تصورِ ماضی کے سوا کچھ بھی نہیں بچتا ہے۔اس المیے کی طرف اشارہ کرتے وقت ’ شہرِ تہی دست‘کے شاعر کی بصیرت کو داد د نہ دینا ناانصافی ہو گی کیونکہ ماضی کے تجربات اور حال کا ادراک رکھنے والا یہ شاعر بڑے غیر محسوس طریقے سے آنے والے کل کی نشان دہی کرجاتے ہیں۔ان کی ایک مکمل غزل پیش گوئیوں پر مشتمل ہے جن میں سے اکثر کا مشاہدہ آج کل ہم کر بھی رہے ہیں۔اس غزل کے یہ شعر ملاحظہ ہوں۔

؂                اتارے جائیں گے کیسے عذاب لوگوں پر  
ثواب دونوں جہاں کے کمائے جائیں گے  
جواب جن کا نہ ہو گا کسی کے پاس کوئی  
کچھ اس طرح کے سوالات اٹھائے جائیں گے  
نہ ہو گا کچھ بھی سنانے کو عہد نو میں نشاطؔ  
پرانے عہد کے قصے سنائے جائیں گے(۲۴)

شہرِ تہی دست کے کسی نا معلوم عدو نے شہر کو برباد کر کے رکھ دیاہے۔ایک طرف ہم انا کی جنگ میں ہمیشہ محبت کو قربان کرنے کا سودا کرکے بھی شرمندہ نہیں ہوتے تو دوسری طرف کچھ نا معلوم طاقتیں زندگی کی رونقوں اور دل کشیوں کو تاراج کرنے میں مصروفِ عمل ہیں۔حسنِ حیات کی بربادی کے یہی نوحے معاشرے کے ہر فرد کے ہونٹوں پر جاری ہیں اور نشاط سرحدی کو اس کا مکمل ادراک ہے۔بقول طارق ہاشمی؛

’’وہ(نشاط سرحدی) ایک خاص طرح کی تمثالیں تراشتا ہے اور ان سے جو شعری پیکر معرضِ وجود میں آتا ہے ان کے اندر معنی کی تہ در تہ
 سطحوں کا ایک خاص اہتمام کرتا ہے ۔اس کا لب و لہجہ عام روز مرہ استعمال ہونے والی زبان سے زیادہ مختلف نہیں لیکن سخن طرازی کا کمال یہی
 ہے کہ وہ روز مرہ زبان کے عام الفاظ کو اس طرح استعمال کرے کہ وہ عام نہ رہے اور نشاط سرحدی کے ہاں عام کو خاص بنانے کا وصف بدرجہ
 اتم موجود ہے۔‘‘ (۲۵)

؂                تیرے ہونٹوں کے گلاب اور بھی کھل اٹھیں تو کیا  
اک سے اک بڑھ کے ہے پھولوں کو مسلتا ہوا شخص  
کیا ستم ہے کہ ہر اک موڑ پہ ملتا ہے مجھے  
روتے بچے کی طرح آنکھوں کو مَلتا ہوا شخص(۲۵)

نشاط سرحدی ایک باشعور شاعر ہیں وہ جانتے ہیں کہ جنگ تبا ہی و بربادی کے سوا کچھ بھی نہیں دے سکتی اسی لیے وہ جنگ اور فسادات سے شدید نفرت اور بے زاری ظاہر کرتے ہیں۔اس حوالے سے ان کے مجموعہ میں’ جنگ‘ کے عنوان ایک بڑی مؤثر نظم موجود ہے۔ اُن کو بڑی شدت کے ساتھ یہ احساس ہے کہ زمین پر انسانوں کے بیچ ہونے والی یہ جنگ ازل سے ابد کی طرف جا رہی ہے اس لیے ان کو ہر قدم پر ایک تشویش بھی لاحق رہتی ہے۔ان کا سارا کلام اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ وہ ایک امن پسند روح ہے اس لیے امن کا داعی ہے۔ موجودہ صورتِ حال کے انتشار میں جب وہ ملک کے شیرازے کو بکھرا ہوا دیکھتے ہیں تو ان کو گہرا دکھ ہوتا ہے ۔وہ اس بات پر افسردہ رہتے ہیں کہ آ ج کے بدقسمت آدمی کو انساں ہونا بھی میسر نہیں۔تاہم اس سلسلے میں بھی وہ صرف ہاتھ مَلتے ہوئے نظر نہیں آتے بلکہ اس جبرِ مسلسل اور انبارِ مصائب سے نکلنے کا حل بھی تلاش کرتے ہیں۔مگر افسوس کہ اتنے آسان حل کے ہوتے ہوئے بھی ہم اس پر عمل پیرا نہیں ہونے کو تیار نہیں۔

؂                مختلف ہوتی بہت صورتِ احوال اِس سے  
متفرق جو نہ ہوتے سبھی یکجاں ہوتے  
امنِ عالم کے لیے اتنا بھی کافی تھا نشاطؔ  
اور ہم کچھ بھی نہ ہوتے فقط انساں ہوتے(۲۶)

لیکن جب ان کو کوئی ہم نوا اور ہم خیال نہیں ملتا تو (وقتی طور پر سہی) وہ اجتماعی بے حسی اور اردگر د پھیلے ہوئے ناروا رویوں کے باعث شدید احساسِ تنہائی کا شکار ہو جاتے ہیں یہاں تک کہ ان کو اپنا آپ بھی دستیاب نہیں ہوتا۔اس حوالے سے ان کی نظم ’تنہائی‘میں عہدِ حاضر کا کرب اوران کا احساسِ تنہائی بولتا ہوا نظر آتا ہے۔اس نظم میں موجودمنظر شاعرانہ سہی لیکن محسوس کرنے پر انتہائی کریہہ لگتا ہے۔موجودہ صورتِ حال میں تنہائی کے سبب ہر انسان میں ایک عجیب طرح کا خوف جنم لے چکا ہے کیونکہ جس طرف بھی نگاہ اٹھائی جائے بے یقینی اور عدم اعتماد کے عفریت منڈلاتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ماضی کے مٹ جانے کا خوف،مستقبل کی تباہی کا خوف اور حال کے ضائع ہونے کا خوف،غرض خوف نے مختلف صورتوں میں عصرِ حاضر کے انسان کے اعصاب کو جکڑ رکھا ہے۔ایسے حالات میں معاشرے کے اندر جب انسانیت اپنا اعتبار کھو دیتا ہے تو خونی رشتوں کا تقدس بھی پامال ہو جاتا ہے اور دوست بھی دشمن لگنے ہیں۔

؂                خوفِ آئندہ و ماضی سے لرز اٹھتا ہوں  
ہر گزرتے ہوئے لمحے سے بھی خوف آتا ہے  
اس قدر ہم کو ستایا ہے جہاں والوں نے  
امن کے اڑتے پرندے سے بھی خوف آتا ہے(۲۷)

یہاں اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ اس قسم کا خوف شاعر کو مایوسی اور نا امیدی کی طرف نہیں دھکیلتا ۔وہ زندگی کے سفر میں حرکت و عمل کے قائل ہیں اس لیے اگر باہر کا دروازہ بند پاتے ہیں تو اپنے داخل کی طرف ایک نیا راستہ کھول لیتے ہیں۔اپنی ذات پر یہی انحصار ان کی مثبت شخصیت کا خاصا ہے۔اسی خوبی کے زیرِ اثر وہ بہت سے معاملات میں سب کچھ جان کر بھی اپنوں کے رویے سہ جاتے ہیں اور مروتاً خاموش رہنے کو ترجیح دیتے ہیں ۔وہ شاعر ہیں اور اپنے ان تجربات اور معاشرتی رویوں سے اپنا فن کشید کرتے ہیں۔شعر کے سببِ تخلیق پر بات کرتے ہوئے ڈاکٹر غلام حسین ذولفقار لکھتے ہیں :

’’شاعری تنہا نشینی کی پیدا وار ضرور ہے،لیکن تخلیق کے مرحلے کے بعد یہ قاری اور سامع کے سامنے آتی ہے۔شعر و ادب کی
تخلیق انسان کی اس فطری خواہش کے تابع ہے کہ وہ اپنے جذبات و احساسات سے دوسروں کو آگاہ کرے۔‘‘(۲۸)

یہی سبب ہے کہ نشاط سرحدی بھی اگر کہیں کوئی خلا موجود ہو تووہ صرف اسے محسوس کرنے ہی پر اکتفا نہیں کرتے بلکہ جس چیز کی کمی سے خلا پیدا ہوا ہو اس کی نشا ن دہی بھی کرتے ہیں گویا صرف مرض ہی نہیں بتاتے ،اشاروں اشاروں میں علاج بھی بتا دیتے ہیں لیکن ادب کے تقاضوں کو ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے براہِ راست پند و نصائح سے اجتناب کرتے ہیں۔                                                                    

ہو گئے بے کیف منظر شہر کے  
جگنوؤں اور تتلیوں کی ہے کمی(۲۹)
زندگی کا ساز بجتا ہے مگر
اس میں کچھ کومل سُروں کی ہے کمی(۳۰)

ان کو کامل یقین ہے کہ اس کمی کو صرف عشق و محبت ہی سے پوراکیا جا سکتا ہے۔اس جذبے کی سچائی اور مسیحائی پران کے یقینِ کامل نے ان سے ’پیار کا جادو‘ اور ’درماں‘ جیسی نظمیں لکھوائی ہیں۔ان دونوں نظموں میں وہ تمام تر قباحتوں اور خباثتوں کا شافی علاج پیار محبت کو قرار دیتے ہیں۔ اسی جذبے کی سرشاری میں بے شمار تلخیوں کے باوجود ان کے ہاں لطیف جذباتِ انسانی کا لطیف پیرایۂ اظہار واضح طور پر محسوس کیا جا سکتا ہے۔وہ وارداتِ عشق کی تمام تر باریکیوں کو ذات کی گہرائیوں میں پالنے والے شاعر ہیں اس لیے محبت کی ہر ہر ادا کو محسوس کرنا اور اس سے لطف اٹھانا ان کا مشغلہ ہے۔مگر ان کے نزدیک شیوۂ عشق حسن کو رسوا کرنے کا نام نہیں بلکہ ادب کے پہلے قرینے کو سامنے رکھ کر خاموشی سے سب کچھ سہنے کا نام ہے۔یہی وجہ ہے کہ وہ جب عشق کا بیان کرتے ہیں تو اس عشق میں گہرائی کے ساتھ گیرائی بھی نظر آتی ہے، کیونکہ وہ ہر لمحہ عشق سے زیست کا مزہ لینے والے شاعر ہیں۔

؂                رقص کرتے ہوئے لمحاتِ زِ خود رفتہ کے ساتھ
عالمِ شوق میں کچھ دیر تھرکتے ہم بھی
ہم پہ بھی پڑتا اگر پَر توِ خورشید کبھی
چاند تاروں کی طرح خوب چمکتے ہم بھی(۳۱)
 دل و دماغ پر اب تک اثر اسی کا ہے
نشاطؔ کرب کی لذت بھی کس بلا کی تھی(۳۲)

ان کے مجموعے ’شہرِ تہی دست‘ میں شامل ایک نظم ’وہ عشق نہ اِس عشق کے آثار کہیں ہیں‘میں بھی عشق کا دائرہ بہت وسیع نظر آتا ہے۔عشق کے حوالے سے ان کا نقطۂ نظر ذیل کے شعر میں بہت نمایاں ہو کر سامنے آتا ہے جس میں انھوں نے عشق کے مثبت اثرات کو اجاگر کیا ہے۔                                                                                                                                                          

؂                یہ جہاں عالمی دوزخ کی طرح ہو جاتا  
ہم اگر عشق و محبت سے گریزاں ہوتے(۳۳)

اسی طرح ان کے ہاں حسن و عشق کی روایتی کش مکش بھی موجود ہے اوربعض مقامات پر عاشقوں کے لبادے میں بو الہوسوں کا وادیِ عشق میں داخل ہونے پر طنز یہ اظہار بھی نظر آتا ہے۔تاہم عشق کے ضمن میں گلشنِ وطن سے جذبۂ محبت اور اِس کا دردِ دل رکھنے اک حوالہ کسی طور بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ۔ان کے مجموعے میں جگہ جگہ اپنی مٹی اور وطن سے محبت کا اظہار ملتا ہے لیکن ایک غزلِ مسلسل میں چمن سے محبت کا اظہار او راس کی خاطر دردِ دل رکھنا ان کی حب الوطنی کو بڑے مؤثر انداز میں نمایاں کرتا ہے۔وہ اپنے چمن کے لیے دل میں موجود دردِ عشق کو ہر چیز پر فوقیت دیتے ہیں اور وطن کو نقصان پہنچانے والوں پر افسوس کا اظہار کرکے ان کے عمل کو دردِ دل میں اضافے کا باعث سمجھتے ہیں۔                                                                                                                                                 

؂                چمن میں رہنے سے رہتا نہیں ہے دردِ دل
چمن سے دور رہیں تو ستائے دردِ دل
یہ دردعشق چمن کا تو ہے عطا کردہ
جہاں کی نعمتیں کیوں لیں،بجائے دردِدل
تمام رنج و الم بھو ل بھول جاتا ہے
چمن کو دیکھتے ہی گنگنائے ،دردِ دل(۳۴)
 دور اس سے کہیں جانے کو بھی کرتا نہیں دل
شہرِ غم ناک میں رہنے سے بھی خوف آتا ہے(۳۵)

فنی حوالے سے بھی ان کی شاعری ان کی قادر الکلامی پر دلالت کرتی ہے ۔دیکھا جائے تو ان کے پاس قوافی اور ردیفوں کی کوئی کمی نہیں یہی وجہ ہے کہ ان کی غزلیں طوالت کے لحاظ سے دیگر شعرا کی نسبت اپنی ایک خاص انفرادیت رکھتی ہیں جو بہ یک وقت ان کی خوبی بھی ہے اور کسی حد تک خامی بھی کہی جا سکتی ہے کیونکہ بعض غزلوں میں خیال کی تکرار سامنے آتی ہے۔اسی طرح وہ لفظوں سے کھلینے والے ایسے کھلاڑی ہیں جو لفظوں کو سجاتے سنوارتے ہیں اور ایک ہی لفظ کو کئی کئی معنوں میں گھول کر استعمال کرنے سے بخوبی آگاہ ہیں،بلکہ بعض اوقات تو ایسے الفاظ و تراکیب کا استعمال کرتے ہیں جو بظاہر بڑے غیر شاعرانہ اور کھردرے نظر آتے ہیں لیکن ان کا کمال یہ ہے کہ وہ ایسے الفاظ میں بھی غیر محسوس طریقے سے شعریت کی چاشنی ملا کر ان کو ایک گُداز پن عطا کردیتے ہیں،’’کیونکہ زبان کے مسائل کے ادراک کے ساتھ ساتھ وہ بیان کے فہم سے بھی آگاہ ہیں‘‘(۳۶)،اس حوالے سے ذیل میں درج شعر ملاحظہ ہوں:                                                                                                                 

؂                وہ مجھے ٹالتا ہی رہتا ہے                                
گویا تحریکِ التوا ہوں میں(۳۷)
 عشق میں ہوتی ہے چھٹی حس بھی تیز
ہجر کے غم دیکھتے ہیں دور سے(۳۸)
 ہوتی نہیں تشکیلِ نو شخصیت کی
جب تک دل کا ستیا ناس نہیں ہوتا (۳۹)

اس سلسلے میں ان کے ہاں اشعار میں محاوروں اور ضرب الامثال کے علاوہ کچھ نادر تراکیب کا استعمال بھی لائقِ توجہ ہے جو ان کے جدید لب و لہجے کی تشکیل میں بنیا دی کردار ادا کرتی ہیں۔چونکہ اپنے عہد کی تاریکیاں ان کی آنکھوں میں بسی رہتی ہیں اس لیے ان کے ہاں، ’رات‘ ،’شب‘ ،’تاریکی‘ ،’ظلمت‘ اور شہر وغیرہ جیسے الفاظ نمایا ں نظر آتے ہیں جو ان کے اسلوب میں خصوصی اہمیت کے حامل ہیں۔ان کی شاعری کا جدید لب و لہجہ اگر چہ ایک الگ مقالے کا متقاضی ہے تاہم یہاں نمونے کے طور پر کچھ اشعا ر درج کیے جاتے ہیں۔                                                                                                        

؂                اتنی مصروفیت معاذا للہ
بھول بیٹھا وہ سانس لینا بھی(۴۰)
 شہر آلودہ کر دیا سارا
شہر والوں نے اُجلے ہاتھوں سے(۴۱)
 جہاں ہوگونگے لوگوں کی عمل داری
وہاں اہلِ زباں مصلوب لگتے ہیں(۴۲)
 کتنا بے تاب ہے اک لقمۂ تر کے لیے تو
پُر سکوں کتنا ہے آفاق نگلتا ہوا شخص(۴۳)
 ظہور ہو نہ سکا لازوال ہستی کا
نہ مٹنے والے مہمات کا ظہور ہوا(۴۴)
 سب کے دل باغ باغ ہو جائیں
گلستاں میں اگر صبا ٹھہرے(۴۵)
 ہونے لگی ہیں اور بھی کچھ تیز تر نشاطؔ  
لوگوں کو سبز باغ دکھانے کی کوششیں(۴۶)
 مہنگی پڑیں نہ،اہلِ جہاں کومجھے ہے خوف
اس بار خود سے آنکھ چرانے کی کوششیں(۴۷)

بلاشبہ نشاط سرحدی کا شمار ادبیاتِ خیبر پختونخواکے ان گنے چنے شعرا میں کیا جاسکتا ہے جو اپنی قادر الکلامی کی بدولت استادِ فن کہلائے جاتے ہیں۔ان کے فن اور فکر دونوں کا کینوس بہت وسیع ہے اسی لیے ان کے ہاں بہت سی نادر اور انوکھی ترکیبیں جگہ جگہ نظر آتی ہیں جیسے،’آنکھوں کی سرد گلیاں‘ ،’کلامِ خوشتریں‘ ،’تبسم ریز لمحے‘ ، ’پلکوں کا شامیانہ‘ ،’شہر زر نگار‘ ،’سوتیلی نگاہوں‘ ،’خمارِ دانۂ گندم‘ اور ’عالمی دوزخ‘وغیرہ کا استعمال جس شاعرانہ انداز میں کیا ہے اس سے ان کے بڑے اور صاحبِ اسلوب شاعر ہونے میں کوئی شبہ باقی نہیں رہتا ۔

حوالہ جات :

۱طارق ہاشمی، اردو غزل۔نئی تشکیل، اسلام آباد، نیشنل بک فاؤنڈیشن،۲۰۰۸ء،ص۔۳۵۷
۲طارق ہاشمی، شعریاتِ خیبر۔عصری تناظر، فیصل آباد، روھی بکس،۲۰۱۶ء،ص۔۸۹
۳نشاط سرحدی، ’شہرِ تہی دست ،پشاور، جدون پرنٹنگ پریس،۲۰۱۳ء،
۴ایضاً،ص۔۲۸
۵ایضاً،ص۔۵۱
۶ایضاً،ص۔۱۰۲
۷ایضاً،ص۔۱۲۵
۸ایضاً،ص۔۸۹
۹ایضاً،ص۔۴۹
۱۰ایضاً،ص۔۵۰
۱۱غلام حسین ذوالفقار،ڈاکٹر، اردو شاعری کا سیاسی اور سماجی پس منظرتالیف،لاہور، سنگِ میل پبلی کیشنز، ۲۰۰۸ء، ص۔۴۱
۱۲نشاط سرحدی، محولہ بالا، ص۔۸۱
۱۳ایضاً،ص۔۱۵
۱۴ایضاً،ص۔۱۲
۱۵ایضاً،ص۔۴۰
۱۶ایضاً،ص۔۱۱۶
۱۷ایضاً،ص۔۷۷
۱۸ایضاً،ص۔۹۷
۱۹ایضاً،ص۔۶۸
۲۰ایضاً،ص۔۶۹
۲۱ایضاً،ص۔۱۲۲
۲۲ایضاً،ص۔۱۲۷
۲۳ایضاً،ص۔۱۵
۲۴ایضاً،ص۔۵۴
۲۵طارق ہاشمی،شعریاتِ خیبر۔عصری تناظر، فیصل آباد، روھی بکس،۲۰۱۶ء،ص۔۹۰
۲۶نشاط سرحدی، محولہ بالا،ص۔۲۵
۲۷ایضاً،ص۔۱۲۰
۲۸ایضاً،ص۔۶۲
۲۹غلام حسین ذولفقار، ڈاکٹر، محولہ بالا، ص۔۰۹
۳۰نشاط سرحدی، محولہ بالا،ص۔۶۳
۳۱ایضاً،ص۔۰۸
۳۲ایضاً،ص۔۹۶
۳۳ایضاً،ص۔۲۵
۳۴ایضاً،ص۔۱۷
۳۵ایضاً،ص۔۱۲۱
۳۶ایضاً،ص۔۱۲۹
۳۷گوہر رحمان نوید، صوبہ سرحد میں اردو ادبپس منظر و پیش منظر،پشاور، یونیورسٹی پبلشرز،۲۰۱۰ء،ص۔۹۵
۳۸نشاط سرحدی، محولہ بالا،ص۔۷۴
۳۹ایضاً،ص۔۱۰۲
۴۰ایضاً،ص۔۱۲۶
۴۱ایضاً،ص۔۳۴
۴۲ایضاً،ص۔۴۴
۴۳ایضاً،ص۔۵۶
۴۴ایضاً،ص۔۱۰۴
۴۵ایضاً،ص۔۴۱
۴۶ایضاً،ص۔۱۰۷
۴۷ایضاً،ص۔۱۰۶

اوپر جائیں  |   پرنٹ کیجئےِ
انگریزی ورژن ای میل چیک کریں مرکزی صحفہ پرنٹ پسندیدہ سائٹ بنائیں رابطہ کیجئے www.shahzadahmad.com www.shahzadahmad.com