عزیز احمد کے ناول "آگ" کا تجزیاتی مطالعہ                                       

ڈاکٹر طاہرہ سرور۔ اسسٹنٹ پروفیسر، لاہور کالج ویمن یونیورسٹی، لاہور

ABSTRACT
Aziz Ahmed (1914-1978) a noted Urdu writer, translator, critic and novelist is regarded a genuine creative voice against social injustice.This article is consisting of analytical study of his novel Aag (Fire) that published in 1946. Novel theme is based on miseries that a poor carpet waivers family in Kashmir must face, for three consecutive generations. However, at same time, Aziz Ahmed with due craft presents the larger picture, attached to the other end of the chain of cause and effects. He outlines the colonial policies and political struggle of the age as backdrop of this novel. It could be safely concluded that the novel in its theme and craft could be ranked as excellent creative presentation of social and political realities of its time.
 
Key Words: Aziz Ahmed; Novel Aag; Social Injustice and Literature; Carpet Waivers; Kashmir
 

   عزیز احمد کا شمار ایسی نامور شخصیات میں ہوتا ہے جن کی زندگی کا ہر لمحہ شعر و ادب کی تخلیق اور تاریخ و تنقید کی تصنیف و تالیف میں صرف ہوا۔ ان کا نام اور کام ادب کی تاریخ میں زندہ رہے گا۔ ناول ، افسانہ ، تنقید اور ترجمہ سب میں ان کا ایک مقام ہے ۔ عزیز احمد نے اپنا ناول "آگ" 1946 میں لکھا۔ دو سو بائیس صفحات پر مشتمل اس ناول کا موضوع دراصل وہ آگ ہے  جس کی لپیٹ میں ساری وادی کشمیر ہے۔ عزیز احمد نے ناول "آگ" میں ایک طرف تو انگریز حکومت کے خلاف وادی کشمیر میں اور ملک میں آزادی کی تحریکوں کو "آگ" قرار دیا۔ دوسری طرف قالین بافی کا کام کرنے والے کا ریگرجنہیں صرف معمولی معاوضے پر ملازم رکھا جاتا ہے اور ان کا خون نچوڑا جاتا ہے ۔ ان کے حالات دیکھ کر مصنف نےاس ناول کا نام آگ رکھا ہے اور حالات و واقعات کو بڑی خوبصورتی سے اس ناول میں بیان کیا ہے ۔1908ء سے 1945ء کے عرصے کو عزیز احمد نے اس ناول میں مہارت سے پیش کیا ہے۔
یہ ناول عزیز احمد کا پسندیدہ ناول ہے۔ اس سلسلے میں اس خط کا حوالہ دلچسپ ہو گا جو عزیز احمد نے چوہدری ریاض احمد کے نام 1964ء میں لکھا  تھا۔
اپنے ناولوں میں مجھے آگ سب سے زیادہ پسند ہے۔'کیوں' کا جواب دینا مشکل ہے
شاید اس لیے کہ کشمیر سے مجھے ہمیشہ محبت رہی ہے۔"(1)
"آگ " میں ایک کشمیری خاندان کی تین نسلوں کی کہانی بیان کی گئی ہے ۔ اس ناول میں کشمیری زندگی اور کشمیری سماج کو مرکزیت حاصل ہے۔ ناول دوحصوں میں منقسم ہے۔ پہلا حصہ "شنیدہ" کے عنوان سے ہےجس میں ابتدا کے آٹھ ابواب شامل ہیں۔ "شنیدہ " فارسی کا لفظ ہے جس کا مطلب سنی ہوئی بات ہے۔ عزیز احمد جو معلو مات رکھتے تھے یا جو باتیں تاریخی حوالوں سے جانتے تھے ۔ انہی معلومات کو عزیز احمد نے  ناول میں"شنیدہ " کے عنوان سے بیان کیا ہے۔دوسرا حصہ "دیدہ" کے عنوان سے ہے جس سے مراد ذاتی مشاہدہ ہے۔عزیز احمد نے کچھ عرصہ کشمیر میں گزار ا تھا لہٰذا "دیدہ" کے حصہ میں جو ابواب ہیں ان میں مصنف کا ذاتی مشاہدہ سامنے آتا ہے۔
عزیز احمد پلاٹ سازی کے فن سے بخوبی واقف ہیں اسی لیے انہوں نے اس ناول کے پلاٹ کی تشکیل ماہرانہ انداز میں کی  ہے ۔ عزیز احمد کے ناول "آگ" کے مطالعہ سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ انہوں نے فنی باریکیوں کو پیش نظر رکھ کر ہی موضوع کے لحاظ سے اپنے کرداروں کو پیش کیا ہے۔ ناول میں موجود کرداروں کے ذریعے کشمیر کی تہذیبی زندگی کی تصویریں ہمارے سامنے آجاتی ہیں ۔ "آگ " کا کینوس بہت وسیع ہے کیونکہ ان میں خواجہ غضنفر جو ، خواجہ سکندر جو، اور خواجہ نورجو کے حوالے سے تین نسلوں کی کہانی بیان کی گئی ہے جو مختلف حوالوں سے سامنے آتی ہے ۔ تینوں نسلیں ایک دوسرے سے قدرے مختلف ہیں اور یہ اختلاف سوچ کا  ہے ۔ناول میں واقعات کا تنوع ہے۔ عزیز احمد نے جہاں کشمیر کے تاجر اور امراء کی زندگی کو بیان کیا ہے ۔وہاں ہمیں غریب مقامی لوگوں خاص کر ہانجیوں اور ہاتوؤں کی زندگی کے بارے میں بھی معلومات حاصل ہوتی ہیں۔ اسی طرح سیاسی معاملات پر لوگوں کے خیالات بھی سامنے آتے ہیں۔ ناول میں واقعات کی ترتیب کا نظام با لکل فطری ہے اور واقعات کو آگے بڑھانے اور ان کے ارتقائی تسلسل کو برقرار رکھنے کے لئے عزیز احمد نے اپنے بیانات سے بھی مدد لی ہے۔
عزیز احمد کےہاں جزئیات نگاری بڑی توانا ، خوبصورت اور اثر انگیز ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ اپنے ناول کے موضوع ، کردار اور معاشرے کے ثقافتی پس منظر سے واقف ہیں ۔ کشمیر کی معاشرت کو بیان کرتے ہوئے عزیز احمد نے چھوٹی چھوٹی باتوں کو بھی نظر انداز نہیں کیا اورمقامی لوگوں کے رہن سہن سے ہمیں پوری واقفیت ہوجاتی ہے۔
پلاٹ کی تشکیل میں اہم دلچسپی کاہونا ہے اس کے بغیر قاری اپنی توجہ ناول میں زیادہ دیر تک برقرار نہیں رکھ سکتا ، ناول"آگ" میں مختلف مقامات ایسے ہیں جہاں قاری کی دلچسپی اور تجسس موجود ہے۔ناول کے آغاز ہی میں عزیز احمد درہ زوجی لاکے خطرناک راستے اور اولانش گرنے کا ذکر کرتے ہیں اور ہم دہل جاتے ہیں کہ کیا یہ قافلہ خیریت سے اپنی منزل پر پہنچ جائے گا ۔ یہاں دلچسپی کا عنصر موجود ہے ۔ علاوہ ازیں جب عزیز احمد کشمیری کھانوں ، رسوم و رواج ، رہن سہن اور کشمیری عوام کی مصروفیات اور طرز زندگی کو بیان کرتے ہیں تو ناول میں دلچسپی بڑھ جاتی ہے اور قاری کی توجہ ناول میں شروع سے لے کر آخر تک برقرار رہتی ہے۔
اچھے پلاٹ کے لیے تکنیکی ہنر مند ی کی ضرورت ہے پلاٹ کے اجزاء جتنی احتیاط سے مربوط ہوتےہیں پلاٹ اتنا ہی مکمل ، مؤثر اور دلکش ہو تا ہے ۔ عزیز احمد نے تمام کرداروں کا تعارف کروایا ہے ،قصہ سلیقے کے ساتھ ڈھلا ہوا ہے ،غیرضروری واقعات سے گریز ہے اور ناول کے پلاٹ میں فنی حسن و خوبی موجود ہے ۔ پلاٹ کے اجزاء مثلاً تنوع، دلچسپی، ربط، تسلسل اور وحدت کا بخوبی خیال رکھا گیا ہے ۔
کردار نگاری ناول کا لازمی جزو ہے کیونکہ واقعات کرداروں ہی کی بدولت آگے بڑھتے ہیں "آگ" کے کردار جیتے جاگتے اور اسی دنیا کے باسی ہیں۔ "آگ " کے تمام کردار کشمیر کے مخصوص ما حول اور معاشرے کی نمائندگی کرتے ہیں ۔ ناول میں پہلا کردار جو ہمارے سامنے آتاہے خواجہ غضنفر  جو کا ہے جو کشمیر کے مشہور تاجر اور قالین فروش ہیں۔ خواجہ غضنفر جوقدیم روایات کے پابند تھے مگر جدید رنگ کو بھی انہوں  اپنایا ۔ قالین سازی کی ساری تاریخ خواجہ غضنفر جوکو یاد تھی۔ وہ  اپنی معلومات سے گاہکوں کو مرعوب کرتے مثلاً وہ گاہک سے کہتے ہیں:
"جناب عیسوی صدی میں ادھر ایک بادشاہ تھا نا! بڑا عادل، خدا ترس ، اس کا نام زین العابدین تھا۔ وہ سکندر بت شکن کا بیٹا تھا ۔ تو جناب زین العابدین سمر قند تیمور لنگ کے دربار میں قالین بافی کے کمالات ہنر دیکھتا تھا ۔ تو وہ جناب .........اس نے جناب قالین بافوں کو سمر قند سے طلب کیا اور اس طرح کشمیر میں قالین بننا شروع ہوگئے اور بھی بہت کاریگر اس نے بلوائے تھے۔ آپ نے مرزا حیدر کا شغری کی تاریخ رشید ملاحظہ فرمائی ہے ؟ جناب اسے ضرو ر ملاحظہ فرمائیں ۔ بے مثال تاریخ ہے ۔ مرزا حیدر کشمیر آ کے سلطان شاہ کا وزیر بھی ہو گیا تھا ۔ وہ لکھتا ہے ماوراء النہر میں سمر قند اور بخارا کے سوا کا ریگر باقی نہیں مگر کشمیر میں کاریگر افراط سے ہیں اس زمانے میں طرح طرح کا کاریگر کشمیر میں بیٹھا تھا اور قالین اور شالین اور شالین کے سوا دوسرے ہنر، کاریگری ، صنعت کاری میں کمال دیتا تھا۔یہ سب سلطان زین العابدین کی برکت سے تھا ۔"(2)
اسی طرح سے خواجہ غضنفر جو گاہکوں کو مرعوب کرنے کے لیے تاریخی حوالے دیتا ہے۔ کوئی قالین گاہک کو دکھانے کے بعد کہتا :
"جناب دیکھئے یہ قالین اخوند جہاں نما کے ہاتھ کا بنا یا ہوا ۔ اس کی قیمت صرف بیس ہزار ہے۔"(3)
حقیقت یہ تھی کہ وہ قالین خواجہ غضنفر جونے کشمیر میں سات سال پہلے بنوایا تھا اور وہ قالین اخوند جہاں نما کے مشہور قالین کی نقل تھا ۔ اسی طرح خواجہ غضنفر جواپنی باتوں سے گاہکوں کو متاثر کرتے اور کم قیمت  قالین مہنگے داموں بیچنے میں کامیاب ہو جاتے۔خواجہ غضنفر جو قالین کے ساتھ ساتھ تاریخی عجائبات اور قیمتی پتھر بھی بیچتے اور مبالغہ آرائی سے گاہکوں کو متاثر کرتے ۔ بہت سی اشیاء جو انہوں نے مقامی لوگوں سے حاصل  کی ہوئی تھی انہیں مشہور ہستیوں سے منسوب کر کے منافع کماتے۔ خواجہ غضنفر جو موقع  شناسی کا مظاہرہ کرتے ہوئے انگریزی بھی پڑھ لیتے۔ اسی طرح انہیں انگریز گاہکوں سے لین دین میں مدد ملتی۔
ناول کا دوسرا اہم کردار خواجہ سکندر جو کا ہے جو ناول کا مرکزی کردار ہے ۔اسی کے حوالہ سے کہانی آگے بڑھتی ہے۔ سکندر جو ملک التجار خواجہ غضفر کا بیٹا ہے سکندر جو علی گڑھ سے تعلیم حاصل کرتا ہے ۔ "کرزن فیشن" کےمطابق وہ داڑھی ، مونچھ دونوں منڈواتا ہے اور اپنے انگریزی "ٹوید یا سرج" کے سوٹ پر ہمیشہ بڑی پابندی سے استرخوانی سمور کی ٹوپی پہنے رہتا ہے ۔سکندر جو کے بارے میں مصنف لکھتے ہیں:
"میرا ہیرو ایک امیر تاجر اس کے جذبات میں گہرائی نہیں اس کے دل میں سچے عشق کی آگ یا تو بھڑکی نہیں ۔ یا اگر زون کی لڑکی فضلی کے لئے بھڑکی بھی تو وہ جھوٹی آگ تھی جہنم کی آگ نہیں،لالے کی آگ نہیں، پھلجڑی کی آگ ، پٹاخے کی آگ ، اس کا دماغ زیادہ سے زیادہ پیسہ کمانے اور زیادہ سے زیادہ عورتوں کو پھانسنے کے علاوہ اور کسی فکر سے آشنا اس نےکبھی ابن خلکان کا نام نہیں سنا اور اپنے ہم چشم کشمیری تاجروں یا بمبئی کے سیٹھوں اور فلم کے ستاروں کے عشق کی داستانوں کے علاوہ کسی اور تاریخی واقعے سے واقف نہیں۔"(4)
خواجہ سکندر جو کی صورت میں عزیز احمد نے کشمیر کے ایک ایسے متمول تاجر کے کردار کو پیش کیا ہے جس کی ساری زندگی عیاشیوں میں گذرتی ہے۔ اس کی اولاد جب تک چھوٹی تھی اس کی محبت کو ترستی تھی اور جب بڑی ہوگئی ہے تو وہ اس سے نفرت  کرتی   ہے ۔کشمیر کے حالات سے خواجہ سکندرجو کو کوئی خا ص دلچسپی نہیں ہے۔ انہیں سیاست سے اور کشمیر یوں کی سیاسی جدوجہد سے کوئی خاص واسطہ نہیں ہے۔ تیسرا کردار انور جو کا ہے ۔ انور جو ایک تعلیم یافتہ نوجوان ہے اور سکندر جو کا بیٹا ہے ۔ ابتدا  میں انور جو بھی اپنے والد اور دادا کی روش پر چلنے لگتا ہے لیکن ایک واقعہ اس کو بدل دیتا ہے جب وہ ایک چھوٹی سی لڑکی کو بھوک کی وجہ سے دم توڑتا دیکھتا ہے اس واقعہ سے اس کی سوچ ہی بدل جاتی ہے ۔ انور جو کو قا ئد اعظم سے گہری عقیدت ہے ۔ جب بھی انور جو قا ئداعظم کا نام اخبار میں کہیں پڑھتا ہےتو اس کا چہرہ ادب اور اعتقاد سے سنجیدہ ہو جاتا ہے۔ قائد اعظم کی حمایت میں انور جو اکثر مقامات پر گفتگو کرتا ہے۔  مثلاً:
"کاش اس وقت جناح صاحب بھی یہی اعلان کردیں۔ کانگریس کے ساتھ مل کر وہ بھی انگریزوں کو الٹی میٹم دے دیں تب تو ہم انگریز وں کو یوں نکال دیں گے ۔"(5)
مجموعی طور پر انور جو کے کردار کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اس کی عادات اپنے دادا خواجہ غضنفر جو اور باپ سکندر جو سے میل نہیں کھاتیں۔ اسے اپنے کاروبار کی ہمہ وقت فکر رہتی ہے جو سکندر جو کی وجہ سے رفتہ رفتہ تباہ ہو رہا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے والد کے دوستوں اور عزیزوں سے اکثر شکایت کرتا ہے ۔
ایک کردار شعبانا ہانجی کا ہے جس کا تعارف مصنف اس طرح کرواتے ہیں:
"شعبانہ ہر علم کا عالم اور فن کا ماہر تھا۔ گورا رنگ ، اس پر چیچک کے نشان ، چھوٹی سی بھوری بھوری آنکھیں ، سر پر کشمیری کام کی ٹوپی ، بدن پر جبہ، شلوار پہننا وہ ابھی تک برا سمجھتا تھا۔ یہ شعبانا غضنفر جو کا خاص آدمی تھا۔"(6)
شعبانہ ہانجی کے کردار میں مصنف نے ان لوگوں کی زندگی کو پیش کیا ہے جن کا پیشہ کشمیر میں کشتیاں چلانا ہے۔ اس زمانے میں کشمیر میں ہاوس بوٹوں اور لکڑی کے ڈونگوں میں رہائش کا انتظام موجود تھا ۔ جن کے مالکان معاوضے پر لوگوں کی سیرو تفریح کا بندوبست کرتے تھے ۔ شعبانا ہانجی معاشی طورپر ترقی کرنے کے ساتھ ساتھ حالات سے بھی با خبر رہتا ہے ۔ایک کردار ظہری صاحب کا ہے جو خواجہ غضنفر جو کے دوست ہیں اور حال ہی میں علی گڑھ میں بی اے کی ڈگری لے کر آئے تھے۔ وہ بات بات میں یہ کہتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں کہ کشمیر کی خرابیوں کا واحد علاج جمہوری حکومت ہے ۔ خواجہ غضنفر جو سے کہتےہیں:
"با خدا خواجہ صاحب اپنے ملک کی حالت دیکھ کر کے میری آنکھوں میں خون اتر آیا ہے ۔ہم لوگوں سے بھیڑ بکریاں ، گھوڑے خچر اچھے ہیں ۔ وہ مار کھاتے ہیں تو کبھی  سرکشی بھی کرتے ہوں گے ۔ ہم کو تو کسی چیز کا احساس ہی نہیں ۔ یہ بھوک دیکھیے ۔ یہ غریب دیکھیے ۔ افلاس دیکھ کر میرا خون کھولتا ہے۔"(7)
ظہری صاحب جمہوریت کے نعروں کے ساتھ انقلابی نظمیں بھی لکھتےہیں۔ مگر پھر مہتاب جنگ کے مشورے پر سرکاری ملازمت کر لیتے ہیں اور ان کا جمہوری حکومت کا نعرہ ہمیشہ کے لیے ختم ہو جا تا ہے ۔ میجر صاحب کا کردار ناول میں اہم ہے ۔ تاریخ فلسفہ ، ادب انہیں ہر علم پر عبور حاصل ہے ۔ ان میں نہایت اعلیٰ درجے کی سیاسی بصیرت موجود ہے ۔ وہ نہایت با اصول اور دیانت دار انسان ہیں ۔ کشمیر کی زندگی اور سیاسی حالات پر تبصرہ کرتے ہیں ۔ بہت سے کشمیری مسائل سے آگہی میجر صاحب کے ذریعے سے ہی حاصل ہوتی ہے ۔
ناول میں کچھ کردار ایسے ہیں جو مختصر تو ہیں لیکن بھر پور تاثر قائم کرتے ہوئے اپنے اپنے طبقے کے نمائندگی کرتےہیں ۔ مثلاً رمضان بائی ، جمال دار گوجر اس کی بیوی ، عبد الرب اور امداد وغیرہ ۔ ان کرداروں کے ذریعے کشمیر میں مقامی لوگوں کے مسائل سامنے آتے ہیں کہ غریب لوگ کشمیر میں کس طرح زندگی گزار رہے ہیں۔  انہیں لکڑی، خوراک اور مناسب علاج معالجے کی سہولیات میسر نہیں ہیں اور وہ کسمپرسی کی حالت میں زندگی گزار رہے ہیں ۔
کچھ کردار ایسے ہیں جو ناول میں تھوڑی دیر کےلیے آکر دیر پا اثر چھوڑتے ہیں ۔ ان میں سے ایک کردار زون کا ہے ۔ زون کشمیری حسن کا مجسمہ ہے ۔ زون کی مرقع نگاری میں مصنف کے قلم کا جوہر خوب چمکا ہے ۔ انہوں نے اسے لفظوں میں مجسم کر کے ہمارے سامنے لا کھڑا کیا ہے ۔ زون غریب کشمیری عورت ہے مگر غربت اس کے حسن کو ماند نہیں کر سکی۔اس کی بد قسمتی  کہ اس کے ماموں زاد بھائی رمضان رقابت کے مارے زون کے چہرے پر تیزاب گرا دیتاہے اس طرح زون کی صورت ہمیشہ کے لیے بگڑ جاتی ہے ۔
ناول میں کچھ خاکے ایسے ہیں جن میں بھرپور تصویریں ہمارے سامنے آجاتی ہیں۔یہ  خاکے ان غیر ملکی سیاحوں کے ہیں جو کشمیر آتے ہیں ۔ عزیز احمد نے اپنے ناول میں تمام کرداروں کو عمدگی سے پیش کیا ہے ۔تمام کردار اپنے طبقے کی بھرپور عکاسی کرتے ہیں ۔ خاص طور پر مقامی لوگوں کی زندگی پر روشنی پڑتی ہے ۔ عبدالسلام لکھتےہیں :
"غریب ہانجیوں کی زندگی کو عزیز احمد نے بڑی عمدگی سے پیش کیا ۔ ہانجی رحمانہ ، شعبانہ ، اس کا لڑکا، بیوی جمال دار گوجر اور اس کی بیوی کے جو حالات بیان کیے گئے ہیں۔ان کا حلیہ اور ان کے رہن سہن کی جو تصویر پیش کی گئی ہے ۔ وہ انتہائی کامیاب ہے ان کی زبانی یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ ریاست میں ان کے ساتھ کیا سلوک کیا جاتا ہے ۔”(8)
عزیز احمد نے براہ راست واقعات اور حالات کو اس ناول میں پیش نہیں کیا بلکہ اپنے کرداروں کے ذریعے واقعات کی اہمیت اور اثرات پر اس طرح روشنی ڈالی ہے کہ زندگی اپنی پوری حشر ساما نیوں کے ساتھ قاری کی نگاہوں کے سامنے آجاتی ہے بقول ڈاکٹر اسلم آزاد:
“عزیز احمد کرداروں کو فعال اور متحرک رکھنے کے فن سے واقف ہیں یہی وجہ ہے کہ جن کرداروں کو اپنے ناولوں میں پیش کرتے ہیں وہ حقیقی اور فطری معلوم ہوتے ہیں۔”(9)
ناول میں منظر نگاری کی ایک خاص اہمیت ہے ۔ کامیا ب منظر نگاری سے ناول میں جان پڑجاتی ہے  ۔منظر نگاری کی وجہ ہی سے زمان و مکان کاتعین کیا  جاتا ہے ۔ اوقات اور موسموں کا بیان ، کمروں اور مکانوں کے خاکے ، آبادیوں کے نقشے اور دیگر مرقع اسی سے متعلق ہیں۔ کشمیر کا فطری حسن کسی تعارف کا محتاج نہیں ۔ عزیز احمد کو منظر نگاری کے بہت سے مواقع ملے اور یہ ایک حقیقت ہے کہ انہوں نے اس کا حق ادا کردیا ۔ عزیز احمد نے ناول میں عمدہ منظر نگاری کی ہے ۔ قاری کی نگاہوں کے سامنے سارا ماحول سمٹ آتا ہے اور وہ محسوس کرتا ہے کہ وہ خود بھی اس سارے منظر کا ایک حصہ ہے ۔ ناول کے پہلے باب میں ابتدا ہی زوجی لا کی منظر کشی سے ہوتی ہے ۔ برف باری کے منظر کا بیان دیکھیے:
"لداخ میں بارش ہوتی ہی نہیں ۔ ہزاروں فیٹ کی چوٹیوں پر برف ہی برف تھی اور نیلے آسمان کی طرف دیکھ کر مسکرا رہی تھی .......”(10)
ناول میں درے کا اور اس کے انتہائی دشوار گزار علاقے سے قافلے کے گزرنے کا منظر مصنف نے بڑی عمدگی کے ساتھ پیش کیا ہے ۔ اسی طرح پہلے باب کے آخر میں ندی اور چشموں کا منظر نہایت خوبصورتی سے بیان کیا گیا ہے مثلاً:
"سندھ ندی رو پہلی لیس کی طرح تاجو اس اور سونا مرگ کے مرغزار کے تین طرف شور مچاتی ، جھاگ اڑاتی، پتھروں سے ٹکراتی ، پتھروں کو کنکر بناتی ، چوکور پتھروں کو مدور بناتی بہہ رہی تھی۔ زوجی لا اور کولو ہوئی کے پہاڑ اولانش کا برفانی عصا تھامے کھڑے تھے ۔ تاجواس کے سپید گلیشیر پر چھوٹے  چشموں کا ٹھنڈا، سیر کرنے والاپانی رل کرتا ہوا بہہ رہا تھا۔”(11)
قاری پانی کے “ رل رل “ کرنے کی آواز اپنے کانوں میں محسوس کرتا ہے اورمکمل طور پر اس میں گم ہوجاتا ہے ۔ باب “جھیل “ میں منظر نگاری کی مثالیں عام ملتی ہیں  اور جہاں قدرتی مناظر کو عمدگی سے بیان کیا ہے وہاں معاشرتی منظر نگاری بھی بڑے عمدہ طریقے سے کی ہے ۔ناول میں عزیز نے جابجا  رواں سلیس نثر ، چھوٹے چھوٹے لفظوں کے ذریعے انتہائی لطف اندوز اور دلکش منظر صفحہ قرطاس پر بکھیر دیے ہیں ۔
ناول میں زبان و بیان کی بہت اہمیت حاصل ہے ۔پلاٹ خواہ کتنا ہی منظم و مربوط کیوں نہ ہو مواد کتنا ہی دلچسپ ہو ، کردار کتنے ہی بھرپور ہوں اور مناظر جس قدر بھی حسن رکھتےہوں اگر مصنف کو زبان پر عبور نہیں تو ہر چیز اپنا حسن کھو دیتی ہے ۔ “آگ” کی زبان انتہائی صاف ، سادہ اور رواں ہے ۔ عزیز احمد نے مختلف طبقات کے افراد کے لسانی فرق کو ملحوظ رکھا ہے ۔ انہوں نے اپنے مخصوص انداز میں تمام واقعات اور تفصیلات کو بیان کیا ہے اور یہ تفصیلی انداز اور بیانیہ انداز قاری کی طبیعت پر گراں نہیں گزرتا بلکہ قاری اس سے کرداروں کے اندرونی جذبات و احساسات کو زیادہ بہتر طریقے سے سمجھ سکتا ہے ۔ اس ناول میں ہمیں زبان کے مختلف رنگ نظر آتے ہیں ۔ کہیں انداز بیانیہ ہے وہ حصے جہاں وہ تفصیلات بیان کرتے ہیں یا منظر کشی کرتے ہیں یا بات کی اطلاع بہم پہنچاتے ہیں ۔زبان کا حسن اپنا ہی رنگ لیے ہوئے ہے۔عزیز احمد نے ناول میں جہاں مکالمہ نگاری سے کام لیا ۔وہاں بھی ان کی خصوصی مہارت ظاہر ہوتی ہے۔ مکالمہ کا ہر لفظ اپنی جگہ اہم ہوتا ہے ۔ عزیز احمد کے کرداروں کے مکالمے ان کے ماحول ، حالات و واقعات اور جذبات و احساسات کی بھرپور ترجمانی کرتے ہیں ۔مثلاً شعبانا ہانجی کی گفتگو وہی ہے جو اس طبقے کے لوگ بولتےہیں :
"کشمیر کی جہالت کی بات ہم سے پوچھو ۔ہائے ہائے ہائے یا اللہ۔یا محمد الرسول اللہﷺ یہاں تو جناب ہم نے اپنی آنکھ سے دیکھا ہے ۔تھوڑے سال پہلے تو ہم بالکل جانور کے موافق تھا ۔بات کرنے کا تمیز نہیں تھا ۔ اب جناب جب سے انگریج۔۔۔۔۔۔۔یہ فرنگی ٹورسٹ لوگ ادھر آنے لگ گیا ہے ۔جب سے جناب ہم لوگوں کے برین میں ذرا ذرا عقل آگیا ہے ۔” (12)
ایک اور جگہ دیکھیے:۔
"پدر سوختہ ۔ کیا اندھا ٹکر دے گا ؟ہوش "(13)
یا پھر جمال دار گوجر کی گفتگو :
“جناب ہم گوجر ہے ۔ ہم کو گوجر لوگ بولتا ہے ۔جناب نے ادھر آتے ہوئے یا شاید جناب ادھر واپل جنگن کیا ہوگا ۔ تو ادھر دیکھا ہوگا ۔ اوپر اونچے پہاڑ پر ہم گوجر لوگ کا گاوں مکان ہوتا ہے ۔۔۔”( 14 )
اسی طرح خواجہ غضنفر جو کی عیارانہ گفتگو اس کی تاجرانہ ذہنیت کی بھرپور عکاسی کرتی ہے اور جہاں ناول کے کردار سیاسی گفتگو کرتے ہیں زبان کا رنگ اسی انداز کا ہوجا تا ہے ۔ان تمام لوگوں کے مکالمے بے ساختہ اور فطری ہیں ۔ان میں کہیں بھی مصنوعی پن اور شعوری کوشش نظر نہیں آئی۔ان کی روانی اور برجستگی دیکھ کر محسوس ہوتا ہے کہ الفاْط خود بخود مصنف کے قلم سے نکلے ہیں۔
عزیز احمد کے اس ناول کی سب بڑی خوبی زندگی سے اس کا گہرا تعلق ہے ۔زندگی یک جہت نہیں ہے ۔ اس میں کئی جہتیں ہیں ، موڑ ہیں ، پیچیدگیاں ہیں ، نفسیاتی اور نفسانی الجھنیں ہیں۔ عزیز احمد نے ان سب چیزوں کو عمدگی سے بیان کیا ہے اور اس کو ہم سچائی کہیں گے ۔ “آگ میں موجود کہانی کے کرداروں کی زندگی کا ایک پہلوان کی جنسی رغبتیں ہیں۔ زندگی یک پہلو یا یک رخی نہیں ہم دیکھتے ہیں کہ ناول میں موجود بعض کرداروں کی مفلسی ان سے ایسے ایسے کام کرواتی ہے جو شاید عام حالات میں وہ نہ کرتے۔ مثلاً زون اور خواجہ غضنفر جو کے تعلقات ہیں اور یہ تعلقات کاروبای نوعیت کے ہیں۔ زون صرف روپے کے حصول کے لیے خواجہ غضنفر جو کے پاس جاتی ہے لیکن یہی زون جب خوشحال ہو جاتی ہے اور رجبا نان بائی فضلی کو بھی زون کی طرح ذریعہ کمائی بنانا چاہتا ہے تو زون اپنے خاوند سے لڑائی کرتی ہے کہ اب ہمارے پاس رقم ہے ۔ہم خوشحال ہیں تو ایسا نہ کیا جائے۔
عزیزاحمد کا قلم بے باک ہے ۔وہ اس حسین وادی میں رہنے والے حسین لوگوں کی بہت سی ایسی عادتوں کو بیان کرتے ہیں کہ گھن محسوس ہونے لگتی ہے ۔انہوں نے جو کچھ دیکھا اس کوبیان کرنے میں کچھ ہچکچاہٹ محسوس نہیں کی۔مثلاً یہ کہ کشمیر میں مقامی لوگ عموماً  گندے رہتے ہیں۔ناول میں اسی غلاظت کے حوالے سے مندرجہ ذیل بیا نات دیکھیے:
"سر پر وہ ٹوپ پہنےتھی، جس پر زردویزی کا کام پھیکا پڑگیا تھا اور ٹوپ پر سر کے تیل کی وجہ سے ایک انچ میل چڑھا ہوا تھا۔ وہ بار بار ٹوپ کے نیچے اپنے سر کوکھجاتی اور ایک جوں یا لیکھ نکال کر دونوں انگوٹھوں کے ناخونوں کے درمیان اسے چٹ سے مار دیتی۔۔۔پھیرن کا رنگ کسی زمانےمیں سبزہوگا اب تو اس کا رنگ صرف میلا تھا۔۔۔”(15)
"مٹی اور کیچڑ کی ڈھلوان سے ڈھلکی ہوئی اتر کے ندی کے کنارے بیٹھ گئی ندی میں کیچڑ اور غلاظت گویا سطح پر تیر                   ہی رہا تھا۔ اس نے اسی میلے پانی سے آفتابہ بھرا اور منہ دھونے لگی۔۔۔”(16)
"ادھیڑ جوان عورتیں جہلم میں اپنے بچوں کو آب دست دے رہی تھیں اور اسی پانی سے کھانے کے برتن کھنگال رہی تھیں۔۔۔”(17)
ناول کے مطالعہ سےہم بخوبی کشمیری معاشرت سے روشناس ہو جاتے ہیں۔ عزیز احمد کا انداز نظر تجزیاتی اور فلسفیانہ ہے۔ وہ احوال و واقعات پر سرسری نظر نہیں ڈالتے بلکہ ان کی نوعیت کے مطابق ان کا تجزیہ کرتےہیں ۔پہلے باب میں ہی جب وہ درہ زوجی لا کے حوالےسے لکھتے ہیں کہ اس راستے سے انسان آئے،مہاجنی نظام آئے ، سامراج آئے، جراثیم آئے، قالین آئے،نمدے آئے، مذاہب آئے، تعصبات آئےتو تحریر میں کس قدر گہرائی پیدا ہو جاتی ہے۔  درہ زوجی لا محض ایک درہ نہیں رہ جاتا وہ زوجی لا کو ہمالیہ کی پاک پیشانی پر قلنک کا ٹیکہ قرار دیتے ہیں۔ “کلنک کا ٹیکہ” بڑا معنی خیز ہے کیونکہ  ایک صاف شفاف پاکیزہ ماحول اور زندگی میں آلودگی اس کے حوالہ سے داخل ہوتی ہے۔ ناول میں نویں باب میں بھی مصنف کا فلسفیانہ انداز اس طرح سامنے آتا ہے جب وہ لکھتے ہیں:
"اور موڑ کے قریب اس طرف سے آتی ہوئی ایک لاری میر کشمیر لائن کی، اس کی پیشانی پر “خدا حافظ”لکھا ہوا َ۔۔۔۔مگرخدا حافظ زندگی کےلیے یا موت کے لیے؟۔(18)
لاری پر لکھےہوئے”خداحافظ”  کےالفاظ مصنف کےاندر سوچ پیدا کرتےہیں کہ یہ الفاظ زندگی کے لیے ہیں یا موت کےلیے۔مزید لکھتے ہیں:
"سڑک کنارے بند کے پاس بیٹھا ہوا کوئی مزدور پتھروں کو توڑتا نظر آتا کہ یہی پتھر سڑک پر بچھائے جائیں۔ دھوپ میں اس کا سردی ، گرمی کا ستایا ہوا چہرہ پسینے اور جلدی بیماریوں کے عرق سے چمک اٹھتا اور کہیں جائے پناہ نہ ملتی تو بارش میں اس کے کپڑے شرابور ہو جاتے۔ بہار میں اور جاڑوں میں اس کے کپڑو ں سے پندرہ گز کے فاصلے تک تعفن کی بو آتی۔ اس کی میلی کشمیری ٹوپی، اس کے سر پر منڈھی ہوئی، اس کے جسم کی طرح میل سے داغدار نظر آتی اور راہگیر سوچتا۔ “پیٹ بھرنے کے اس سے آسان ذرائع بھی تو دنیا میں ہیں”یہ فرہاد جو عمر بھر پتھر پھوڑتا رہا ہے ، پھوڑتا رہے گا۔ اس کے پیش نظر شیریں کی تصویر بھی نہیں۔ بجائے شیریں کی تصویر کے بھوک کی تصویر ہے اور وہ کوئی حسین رومی ایرانی شہزادی نہیں۔ وہ ہزاروں منہ والا اژدہا ہے جو ہر آنت میں گھس گھس کے پھنکارتا ہے۔ اس پتھر کوٹنے والے نے کئی نسلوں سے تیشہ مار کر خود کشی کر لی ہے۔ "(19)
مصنف ان مزدوروں کےبارے میں سوچتے ہیں جن کا کام سڑک کے کنارے بیٹھ کر پتھروں کو توڑنا ہے تا کہ یہ پتھر سڑک پر بچھائے جا سکیں۔ وہ سوچتے ہیں کہ کیا یہ مزدور عمر بھر پتھر ہی توڑتا رہے گا۔ یہ پتھر وہ اپنے پیٹ بھرنے کے لیے رزق کے حصول کے لیے کرتا ہے اور اس مزدور کو یہ پرواہ اور ڈر نہیں کہ پہاڑ سے کوئی پتھر اس کے اوپر گر جائے اور وہ جہلم میں جا گرے۔ وہ اپنے کام میں مشغول ہے اور قسمت پر بھروسہ رکھتا ہے۔ دسویں باب میں عزیز احمد کا تجزیاتی اور فلسفیانہ انداز دریائے جہلم کے حوالہ سے سامنے آتا  ہےجب وہ لکھتے ہیں کہ کشمیر کا یہ دریا بہت خوبصورت ہے لیکن انسان نے جا بجا رکاوٹوں سے اس کی خوبصورتی اور تیزی چھین لی ہے۔
عزیز احمد نے “آگ” میں اپنے ذاتی احساسات کو قلمبند کیا ہے اور ان کے مشاہدے میں بڑی گہرائی ہے۔انہوں نے کشمیر میں مقامی لوگوں کی زندگی کا انتہائی قریب سے مشاہدہ کیا اور ان کے مسائل کو ناول میں عمدگی سے بیان کیا ہے۔ “آگ” کے متعلق عزیز احمد کی رائے ہے:
"آگ سے میں مطمئن نہیں ہوں۔کشمیر کی وادی کے مسلمانوں کی زندگی کو میں نے باہر سے دیکھا ہے۔۔۔آگ میں کشمیری مسلمان گھرانوں کا بیان بڑا خارجی سا ہوگیا ہے اور ناول کے ابتدائی حصہ میں بیانیہ عنصر قصہ پر بھاری ہو گیا ہے۔اس کا آخری حصہ بڑی عجلت میں لکھا گیا ہے۔"(20)
بقول عبد السلام:
"عزیز احمد تو کہتے ہیں کہ وہ انکسار کے قابل نہیں ہیں۔مگر حقیقت یہ ہے کہ وہ یہاں صرف انکسار برت رہے ہیں۔ “آگ میں کشمیر کی زندگی جیسی بھی پیش کی گئی ویسی ہمیں کسی بھی اردوناول میں نظر نہیں آتی۔”(21)
مجموعی طور پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ “آگ” ایک توانا اور دلکش ناول ہے۔ جا بجا کرداروں کے ذہن میں شعور کی رو بھی چلتی نظر آتی ہے۔ناول میں کشمیری مسلمانوں کی غربت ، کسمپرسی اور ان کے حکمرانوں کی زیادتیوں کا بیان بھی موجود ہے۔عزیز احمد کو اس بات کا شدید احساس ہے کہ یہ قوم ہنر مند اور محنتی ہےلیکن ان کے ہنر کی قدر نہیں کی گئی اور بہت زیادہ محنت کے باوجود کشمیری قوم زندگی کی سہولیات سے محروم ہے۔ عزیز احمد نے ناول میں نوع بہ نوع جلووں سے ایک منظر آراستہ کیاہے جو رنگا رنگ ہونے کے ساتھ ساتھ ہم آہنگ بھی ہے۔ زبان و بیان کی خوبیوں ، کامیاب کردار نگاری اور بہترین منظر نگاری نے اس ناول کی اہمیت کو بڑھا دیا ہے اور یہ ہی خوبیاں اس ناول کی کامیابی اور شہرت کا باعث بنی ہیں اور ان ہی کی بنا پر "آگ" نے اردو ناول کی صف میں اپنا ایک منفرد مقام بنا لیا ہےبقول ڈاکٹر اسلم آزاد :
"موضوع اور اس کے عہد کے سیاسی و سماجی ، معاشی و تہذیبی حالات اور مسائل کی پیش کش نے “آگ” کو عصری تاریخ بنا دیا ہے۔۔۔ " (22)


 

حوالہ جات

1۔       رسالہ سویرا نمبر 67، سویرا پریس لاہور ، س-ن، ص نمبر 253۔
2۔       عزیز احمد ،" آگ" تخلیقات لاہور، 2000 ،ص نمبر19-20۔
3۔        ایضاً، ص نمبر 20۔
4۔       ایضاً،ص نمبر 53۔154۔
5۔       ایضاً، ص نمبر 173۔
6۔       ایضاً،ص نمبر 33۔
7۔       ایضاً، ص نمبر 35۔
8۔       عبد السلام ، ڈاکٹر ، اردو ناول بیسویں صدی میں "، اردو اکیڈمی سندھ، 1973ء، ص نمبر 483۔
9۔       اسلم آزاد ، ڈاکٹر ، "اردو ناول آزادی کے بعد ، دریا گنج نئی دہلی،1990ء، ص نمبر 62۔63۔
10۔     عزیز احمد ، "آگ" تخلیقات لاہور،2000ء، ص نمبر 7۔
11۔     ایضاً، ص نمبر 14۔   
12۔     ایضاً، ص نمبر 37۔
13۔      ایضاً، ص نمبر 39۔
14۔     ایضاً، ص نمبر 134۔
15۔     ایضاً ، ص نمبر 28۔
16۔     ایضاً ، ص نمبر 29۔
17۔     ایضاً ، ص نمبر 57۔
18۔     ایضاً
19۔     ایضاً ص نمبر 104-105۔
20۔     عزیز احمد ، "ہوس" ، مکتبہ جدید لاہور،1951ء ص نمبر 164۔125۔
21۔     عبد السلام، ڈاکٹر ، "اردو ناول بیسویں میں" ، اردو اکیڈمی سندھ، 1973ء ص نمبر 483۔
22۔     اسلم آزاد ، ڈاکٹر ، "اردو ناول آزادی کے بعد، دریا گنج نئی دہلی، 1990ء،ص نمبر 58۔

اوپر جائیں  |   پرنٹ کیجئےِ
انگریزی ورژن ای میل چیک کریں مرکزی صحفہ پرنٹ پسندیدہ سائٹ بنائیں رابطہ کیجئے www.shahzadahmad.com www.shahzadahmad.com