رحمان بابا ؒ  کا پیغام منظوم اُردوتراجم کی روشنی میں

ڈاکٹراباسین یوسفزئی۔ اسسٹنٹ پروفیسر، شعبہ پشتو، اسلامیہ کالج یونیورسٹی،  پشاور۔

ڈاکٹرفرحانہ قاضی۔ اسسٹنٹ پروفیسر، شعبہ اردو، جامعہ پشاور۔

 
ABSTRACT
Abdur Rehman, mostly known as Rehman BaBa is the greatest poet in the history of Pustho Literature. He was born in the high hills of Mohmand. He was a man of character and great charisma. He wrote magnificent poems which gave him timeless fame. Musicians usually uses his poetry for singing while lay men uses his  couplets  in their daily lives as a word of wisdom.The following article is a brief  study of his meaningfull message-based poetry through the urdu translations made by various researchers.
 

مخلص:
شاعرِ انسانیت حضرت رحمان بابا ؒ پشتو زبان کے سب سے مشہور ومقبول شاعر ہیں۔ وہ ایک مجذوب سالک، فنافی المحبوب اور لسان الغیب شاعر تھے عبد الرحمن مہمند ( جن کو پختون عقیدت سے رحمان بابا کہتے ہیں) کی شعر گوئی کا آغاز ستر ہویں صدی عیسوی کے وسط میں ہوا جو آٹھارویں صدی عیسوی کی پہلی چوتھائی تک جاری رہا ۔ تین مغل شہنشاہوں شاہجہان اورنگ زیب اور شاہ عالم کا دور دیکھا۔
یہ ایک افسوناک المیہ ہے کہ شیکسپئیر کی طرح عظیم رحمان باباؒ کی زندگی کے حالات طویل تحقیق کے بعد بھی پوری طرح نہیں کھُل سکے۔ ان کی پیدائش اور وفات کی قطعی تاریخوں کا تعین نہیں ہو سکا ۔ البتہ اتنا کہا جا سکتا ہے کہ انہوں نے سو سال کے لگ بھگ عمرپائی ۔
عمرِ دراز پائی کہ ہے راستی پسند
خوش ہیں مثال سرو خود اپنی بقا پہ ہم (۱)
والد کا نام عبد الستار خان  جبکہ قبیلہ مہمند ، غوریا خیل سڑبن سے تعلق ہے۔ پشاور کے قریب بہادر کلی میں پیدا ہوئے ۔ہزار خوانی میں رہائش پذیر رہے اور وہیں پر سپرد خاک ہیں۔ ان کے پشتو کلام کا منظوم ترجمہ اُُردو میں وقتاََفوقتاََہوتارہاہے۔ذیل میں ان تراجم کی روشنی میں انکے کلام کا تجزیہ کرنے کی کو شش کی جارہی ہے۔
کلیدی الفاظ: شاعرانسانیت،رحمان بابا،اُردوتراجم،تصوف و انسان دوستی،آفاقی اور عالمگیرپیغام۔
رحمان بابا ؒ نے جب شعرو سُخن کے میدان میں قدم رکھا تو اُس وقت بابائے پشتو خوشحال خان خٹک جیسے قد آور شاعر کا طوطی بول رہا تھا۔ مگر رحمان کی شُستہ بیانی کے جادو نے عوام سے اپنا لوہا منوایا ۔ رحمان باباؒ محبت کے دیوتا ہیں۔ انسانی شرف اور عشق حقیقی ان کی شاعری کا اوڑھنا بچھونا ہے۔ دیگر پختون شعراءکے برعکس قبیلہ جاتی امتیازات ، جغرافیائی حدود اوررنگ ونسل سے ماوراءہیں۔  فرماتے ہیں۔
میں مست ِ ازل عشق کی مٹی سے بنا ہوں
داودزئی ہوں میں نہ اضاخیل نہ مہمند(۲)

یہ آدم زاد ہیں ہمزاد ، انہیں آزار مت دے
وگرنہ زندگی تیرے لئے آزار ہوگی (۳)

تیری ہی طرح سارے رحمان کے بندے ہیں
رحمان ہر اک بندہ یک رنگ ہے یکساں ہے (۴)
حسن مطلق اور حقیقی شاعری کا پر تو پشتو کلاسیکی شاعری کا جزوئے لاینفک ہے۔ مگر دریائے تصوف کے دلیر شناور رحمان بابا ؒ نے عشق وتصوف کے ثقیل اور پر مغز مضامین کو نہایت ہی آسان پیرائے میں بیان کرکے اُن پر قبولیت کی مُہرثبت کردی ہے۔ رحمان بابا ؒ کی نظریاتی تحریک کی بنیادیں انسان دوستی ، امن اور محبت پر ایستادہ ہیں۔ انہوں نے بجائے اندھی تقلید کے اپنے لئے الگ انفرادی رنگ تراشا اور جداگانہ راہ تلاشی۔ ان کے ہاں مضامین کے تنوع کی کوئی قلت نہیں ۔ داخلی اور خارجی طور پر عشق حقیقی نے اُن کے لہجے کو سوزو گداز بخشاہے۔ دنیا بھر میں بہت کم ایسے شعراءملیں گے جو رحمان باباؒ جتنے مقبول ہوں۔ ان کی مقبولیت کا یہ عالم ہے کہ آپ کو کوئی ایسا پختون نہیں ملے گا جس کو رحمان باباؒ کے دو چار اشعار از بر نہ ہوں۔ عقیدت مند ان کے دیوان سے فال نکالتے ہیں۔
ان کے کلام کے ایک اُردو مترجم فرماتے ہیں۔
پشتو میں ہیں یہ دولت و خوشحال بھی غلام
رحمان اس زبان میں ہیں بے نظیر ہم (۵)

شعر رحمن جو سُنے نہ کرے
شعرِ خوشحال کا خیال تلک (۶)
نغمہ ہائے عشق و محبت ، ذکر ِ حُسن و جمال ، درسِ اخلاق اور معاشرتی برائیوں پر تنقید اس قادر الکلام شاعر کے دلپسند موضوعات رہے ہیں۔ بصیرت دانائی اور تجربے کی چاشنی نے ان کے کلام میں وقا ر پیدا کیا ہے۔ اظہار بیان اور غنائیت نے مٹھاس بھر دی ہے۔ فکری رفعت کے ساتھ ساتھ شعری محاسن کا بھر پور التزام واہتمام موجود ہے۔ بے شمار لوگوں نے ان کے کلام کو مختلف زبانوں میں ترجمہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ ان کی غنائیت اور سلاست کا کمال دیکھئے کہ اکثر ترجمے منظوم ہیں۔ امیر حمزہ خان شنواری ، رضا ہمدانی ، فارغ بخاری، پروفیسر محمد زمان مضطر اور پروفیسر محمد طہٰ خان نے مختلف ادوار میں رحمان بابا ؒ کی شاعری کا جزوی طور پر اُردو منظوم ترجمہ کیا ہے مگر پروفیسر طہٰ خان نے بابا ؒ کی تمام تخلیقات کا منظوم اُردو ترجمہ شائع کرکے نئی تاریخ رقم کر دی ہے۔ انہوں نے بیشتر غزلوں میں بحور وقوافی اور تشبیہات واستعارات کے سانچے میں رہ کر اپنے کام سے انصاف کرنے کی کوشش کی ہے مثالیں ملاخط کریں:
حُسن روشن کا کیا ترے ہو جواب
مہر کی ہے حسد سے یہ تب وتاب

چشم نرگس ترے لئے بیمار
اور غنچہ پہ خون ِ دل غرقاب
سُرخ آنکھیں میری ہیں غم سے یوں
جیسے خیمے سیاہ ، سُرخ طناب
زلف جو پیچ وتاب ہے رُخ پر
بال کو آگ کی کہاں ہے تاب
آشنا جب ہوئے ترے غم سے
ہوگئیں سب مسرتیں نایاب (۷)
ہر زبان کا اپنا روز مرہ اور محاورہ ہوتا ہے۔ اصل اور ترجمے میں فرق ضرور ہوتا ہے مگر تخلیق کار کی روح میں جھانکنے والے مترجم کبھی مایوس نہیں لوٹتے  اشعار ملاحظہ ہوں :
شاہوں کو سیم و زر کے جو انبار سے ملا
وہ لطف عاشقوں کو رُخ یار سے ملا
بالین یار پر وہ جلے شمع کی طرح
رشتہ ہو جس کے درد کا بیمار سے ملا
قدرت نہ دے جو حسن تو مشاطگی ہے عیب
ہم کو سبق یہ چہرۂ بدکار سے ملا
پروانے کو تو آگ سے حاصل ہوا وہی
بلبل کو جو مزا گل و گلزار سے ملا(۸)
انگریزی میں بابا کے منتخب کلام کو پہلی بار The Nightingale of Peshawar کے نام سے جنز انوالڈسن نے شائع کیا۔ جبکہ چند برس پیشتر بابا ؒ کے تمام کلام کو انگریزی ترجمے کے ساتھ رابرٹ سامپسن نے مغربی دنیا کے سامنے پیش کرکے بے حد داد وصول کی۔مرد قلندر کی شاعری عام انسانی جذبات کا اظہار نہیں ہے۔ نہ محض جوانی کی ترنگ ہے۔ وہ درد مندوں کے لئے مرہم اور صحت مندوں کیلئے ہم دم ہیں۔  اہل مجاز کیلئے مرقعّ مجاز اور اہل حقیقت کیلئے چشمۂ حقیقت ۔ اس وجہ سے ان کی دونوں طرح کی شاعری رنگینی سے بھر پور ہے۔ جسے سن اور پڑھ کر لوگوں کا جی نہیں بھرتا:
ماہ و خورشید و جمال یار تینوں ایک ہیں
سرو ، صنوبر ، قدِ دلدار تینوں ایک ہیں
اک بھی کوئے صنم کی آئے جو میری طرف
مشک و عنبر ، خاکِ کوئے یار تینوں ایک ہیں
جابرو جور آشنا ، حکاّم ظالم کے سبب
گھر، پشاور، گورِ تیرہ تار تینوں ایک ہیں (۹)
ایک اور غزل کے چندترجمہ شدہ اشعار:
سائل ہیں صرف صدقۂ محبوب کے لئے
زندان مال وزر میں نہیں ہیں اسیر ہم
ہجراں میں ہے رفیق ہمارا خیال دوست
یوسف کے ساتھ گویا ہوئے ہیں اسیر ہم
جلتا ہے دل تو شمع بھی ہنستی ہے بزم میں
ہیں دردِ زندگی پہ تبسم پذیر ہم
پشتو میں ہیں یہ دولت وخوشحال بھی غلام
رحمان اس زبان میں ہیں بے نظیر ہم (۱۰)
ان کی شاعری کا منبع و محور اللہ کی ذات وصفات ہیں۔ وہ اپنے دور کے جیدّ عالم تھے۔ قرآن وحدیث اور اسلامی تعلیمات سے بخوبی واقف تھے۔ فلسفہ وحکمت ، عشق و محبت اور سوز وگداز کی آمیزش نے ان کی شاعری کو آفاقیت بخشی ہے۔ ان جتنی شہرت ابھی تک پختونوں میں کسی کو نصیب نہیں ہوئی ۔ آپ کسی بھی محفل میں جائیں ، علماءکی محفل ہو یا صوفیاءکی ، عشاّق کی محفل ہو یا رِندانِ مست کی ان کا کلام چھایا رہتا ہے۔
رحمان باباؒ کی مقبولیت کا یہ عالم ہے کہ اُن کے اشعار ضرب الامثال کی جگہ لے چکے ہیں۔ شیریں بیانی ، عام فہمی اور سادگی وسلاست اگر کسی شاعر کا خاصہ ہے تو وہ رحمان باباؒ سے بڑھ کر کون ہو سکتا ہے۔ وہ پشتو شاعری میں ایک نئے مکتبہ ٔ فکر ، اسلوب اور طرز کے بانی مانے جاتے ہیں۔ انہوں نے اپنی غزل میں اپنا ہی رنگ بھر دیا۔ منزّہ خیالات اور پاکیزہ جذبات سے بھر پور رحمان باباؒ کی غزل کے چند اشعار نمونے کے طور پر ملا حظہ ہوں:
اُگائے پھول تو دنیا گل وگلزار ہوگی
جو کانٹے بوئے ساری زندگی پُر خار ہوگی
چلائے دوسروں پر تیر تو یہ بھی سمجھ لے
انہی تیروں سے تیری جان پر بوچھار ہوگی
بزرگوں نے کہا ہے چاہ کن را چاہ درپیش
تو یوں اُفتادگی سے زندگی دوچار ہوگی
یہ آدم زاد ہیں ہمزاد انہیں آزار مت دے
وگرنہ زندگی تیرے لئے آزار ہوگی
خدا شاہد اگر دنیا کا تو رکھے گا پردہ
تو دنیا بھی ترے عیبوں کی پردہ دار ہوگی
شکستہ ظرف کی آواز ہو جاتی ہے پھیکی
تمہاری گفتگو آئینہ کردار ہوگی
صغیرہ کو صغیرہ کہہ کے کرنا ہے کبیرہ
جو یکجا ہوں گناہوں کی بڑی مقدار ہوگی
بہت کھاتا ہے پتھر میں نخلِ ثمردار
برُوں سے کر بھلائی زیست میوہ دار ہوگی
نہیں ڈوبے گی ہر گز نوح کے طوفان میں بھی
اگر دل کی یہ کشتی آدمی بردار ہوگی
بدی سرزدنہ ہو رحمان کے دست وزباں سے
اگر سر زد ہو اُس کے لب پہ استغفار ہوگی (۱۱)
طبعی طور پر کچھ لوگ اعلیٰ طبقے کیلئے شاعری کرتے ہیں تو کچھ ادنیٰ طبقے کیلئے اور کچھ شعراءکے کلام میں تمام طبقہ ہائے زندگی کے لوگوں کے مسائل کی نشاندہی کی جاتی ہے مگر رحمان باباؒ کے کلام میں ایسا اعجاز ہے  جو مذکورہ تمام طبقوں کے لوگوں پر اثر کرتا ہے۔ ان کے حکیمانہ اور زندگی سے بھر پور نکتے لوگوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیتے ہیں:
ترے کلام میں منکر کو بھی کلام نہیں
ترا کلام ہے رحمان بولتا اعجاز (۱۲)
ممتاز محقق اور نقاد دوست محمد خان کامل مومند لکھتے ہیں:
ترجمہ: "اس بات میں اختلاف کے پہلو نکل سکتے ہیں کہ پشتو کا سب سے بڑا شاعر کون ہے؟ مگر اس بات پرشرق و غرب کے پشتو کے تمام علماءاور نقاد متفق ہیں کہ آج تک پشتو کا سب سے مشہور اور ہردلعزیز شاعر رحمان باباؒ ہی ہے“ ۔ (۱۳)
اسی مقبولیت اور ہر دلعزیزی کے سبب ایک طویل عرصے سے ہرسال موسم بہار میں رحمان باباؒ کی برسی نہایت عقیدت و احترام سے منائی جاتی ہے۔ تین دن تک اُن کے مزار پر معتقدین کا تانتا بند ھا رہتا ہے۔ پختونوں کے ہر علاقے سے شعراءٹولیوں کی شکل میں آتے ہیں اور سارا سارا دن مقالے ، تقریریں اور اشعار پڑھتے اور سنتے ہیں:
رہتا ہے اک ہجومِ خلائق مزار پر
لگتا ہے بعدِ مرگ بھی بازارِ اولیاء
دنیا میں ایسی گرمیٔ بازار ہے کہاں
ہوتی ہے جیسے گرمیٔ بازار اولیاء
پہنچا ہے ایک گام میں از فرش تابہ عرش
دیکھی ہوئی ہے میں نے یہ رفتار اولیاء(۱۴)
ایوب صابر اس بارے میں رقم طراز ہیں:
"جہاں تک شہرت ، مقبولیت اور ہر دلعزیزی کا تعلق ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ رحمان باباؒ اپنے زمانے سے لیکر اب تک پشتو کے سب سے مقبول شاعر ہیں“۔ ایسے گھرانے خال خال ہوں گے جن میں دو کتابیں نہ ملتی ہوں۔ ایک قرآن پاک اور دوسری دیوانِ رحمان باباؒ یہ میرے اپنے مشاہدے کی بات ہے کہ اکثر پشتون خواتین ناخواندہ ہونے کے باوجود جہاں گھر وں میں قرآن پاک کی تلاوت کرتی ہیں وہاں رحمان باباؒ کا دیوان بھی پڑھتی ہیں اور ان کو رحمان باباؒ کے وہ اشعار ازبر ہیں جو پشتو میں ضرب الامثال بن گئے ہیں اور عام بول چال میں استعمال ہوتے ہیں“۔ (۱۵)
کہتے ہیں کہ رحمان باباؒ کی کافی شاعری ہم تک تحریری صورت میں پہنچنے سے پہلے ہی ضائع ہو چکی ہے۔ کئی علاقوں میں لوگوں کے سینوں میں محفوظ ہے مگر دیوان میں اس کا کوئی تذکرہ موجود نہیں۔ غیر مستند اشعار کے بارے میں نقادوں کی رائے یہ ہے کہ عام طورپر پختونوں کو جو اشعار پسند آتے ہیں ان کو رحمان باباؒ سے منسوب کیا جاتا ہے۔ اس لئے اس قسم کے اشعار کو دیوان میں شامل نہیں کیا گیا۔
 دیوان عبدا لرحمان مومند بار بار شائع ہونے اور کئی مستند نقادوں کی نظر سے گزرنے کے بعد بہترین حالت میں ہمارے پاس موجود ہے۔ اس دیوان میں الہامی قوت کو آپ انتہائی بلندیوں پر دیکھ سکتے ہیں۔ ان کا شاعرانہ خلوص قابل ذکر اور فنکارانہ قدرت جداگانہ اور یگانہ ہے۔
مے نوش سبھی حلقہ بنا لیتے ہیں
گر ہاتھ میں ساقی کے ہو جامِ اخلاص
شیرینیٔ گفتار پہ حیرت کیسی
ہے گفتۂ رحمان کلامِ اخلاص (۱۶)
ادب کا طالب علم رحمان باباؒ کا کلام پڑھنے کے بعد ایک روحانی مسرّت محسوس کرتا ہے۔ اس کی وجہ انہوں نے خود درجہ بالا اشعار میں بیان کی ہے۔ انہوں نے جس موضوع پر بھی طبع آزمائی کی ہے خلوص دل سے اُس موضوع کو مسخرّکرکے رکھدیاہے۔ اُن کے سینے میں اللہ تعالیٰ نے وہ علم ودیعت کیا ہے۔ وہ جذبہ اور روحانیت عطا فرمائی ہے جس کے سامنے پہاڑ رائی بن جاتے ہیں۔ جو زندگی کے نشیب و فراز میں بھی استقامت کا دامن ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔
پادری ہیوز لکھتے ہیں:
ترجمہ: " پٹھانو ں کے ہر طبقے اور خاص و عام میں رحمان باباؒ کے اشعار یکساں طور پر پسند کئے جاتے ہیں۔ حجرے، چوپال ، کھیت کھلیان ، پنگھٹ اور گھروں میں رحمان بابا ؒ کے اشعار لوک گیتوں کی طرح گائے جاتے ہیں “۔ (۱۷)
عبد الحئی حبیبی فرماتے ہیں:
ترجمہ:  "رحمان بابا کے اشعار بہت سادہ ، سلیس اور رواں دواں ہیں اور اشعار کے مضامین عموماً عشقیہ ، اخلاقی ، دینی اور اجتماعی ہیں اور ان میں تصوّف کا بہت بڑا حصہ بھی موجود ہے۔ پشتو نوں میں اس دیوان کو غیر معمولی شہرت حاصل ہے۔ کسی دوسرے شاعر کے دیوان کو اتنی شہرت نصیب نہیں ہوئی تمام پشتون رحمان باباؒ کی شاعری کے عاشق ہیں “ ۔ (۱۸)
سی ای بِڈولف اپنی کتاب افغان پوئیٹری میں لکھتے ہیں:
"رحمان پٹھانوں کا محبوب شاعر ہے۔ اس کے شعر بچوں ، بوڑھوں ، عورتوں اور مردوں کو حفظ ہیں۔ اس قوم کا کوئی فرد ایسا نہیں ہوگا جسے رحمان کا کوئی شعر یاد نہ ہو" (۱۹)
یہ پشتو زبان کی خوش بختی ہے کہ ان جیسے عظیم المرتبت صوفی اور بے بدل شاعر سے بہرہ مند ہوئی ؛
میں نیکی ہوں بُرائی کی جزاہوں
ہوں پانی، آگ کی لیکن سزا ہوں
قناعت کی ہے اطلس زیر خرقہ
میں اندر شاہجہاں بار گدا ہوں
میں چپ ہوں غنچہ صد لب کی مانند
میں مثل بوُ خموشی میں صدا ہوں
صداقت سے درازی عمر کی ہے
مثالِ سرو میں دائم ہرا ہوں
ہو مژدہ بھولے بھٹکے عاشقوں کو
کہ میں رحمان اُن کا رہنما ہوں (۲۰)
رحمان باباؒ کی روحانیت اور تصور ِ جمال اپنی مثال آپ ہے۔ طرز سُخن دانی کی جدت نے اُن کو تمام شعراءمیں ممتاز بنا رکھا ہے۔ خلوت پسندی کا عنصر شاید اُن کی طبیعت میں دوسروں کی نسبت زیادہ تھا۔ حُسن و جمال کی کیفیت بھی دوسروں سے یکسر مختلف ہے۔ ان کے سینے میں ایسی دنیا آباد ہے جس کے ہر گوشے میں لطف و سرور اور مستی وطرب کے چشمے پھوٹتے نظر آتے ہیں۔ کہیں صوفیانہ جذب ومستی کی وجہ سے تو کہیں بیان کی شیرینی کی وجہ سے۔ اپنے بارے میں جو کچھ ارشاد فرمایا وہ مِن وعَن سچ ثابت ہوا:
شیرینیٔ گفتار کا قائل ہے زمانہ
اس گل کی حلاوت سے سُخن میرا ہے گل قند
اس درجہ ہے شیرینیٔ گفتار زباں میں
شیر ینی فروش اس کی یہاں کھاتے ہیں سو گند(۲۱)
ہر زبان کی ابتداءشاعری سے ہوتی ہے۔ شاعری زندگی کے حقائق کو دیکھ کر وجود میں آتی ہے۔ جذبہ تخیّل اور زبان کی شیرینی شاعری کیلئے لازم ہیں مگر رحمان باباؒ کے ہاں بڑی شدید سحرا نگیزی بھی ہے جو کسی اور شاعر کے ہاں اتنی شدت سے نہیں پائی گئی۔ یہ وہ رحمان باباؒ ہیں جن کے اشعار زبان زد عام ہیں۔ ہر طبقے کے لوگ اس سے حظ اُٹھاتے ہیں۔ حجرہ ہو یا مسجد ، جرگہ ہو یا محفل ان کے اشعار راج کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ ان کا کلام لوگ گھروں میں خیر و برکت کیلئے رکھتے ہیں۔
دنیا کے تقریباً تمام صوفیائے کرام کے افکار آپس میں ملتے جلتے ہیں تصوّف کے نظریات ہر علاقے ہر مذہب اور ہر ملک کے لوگ اپنے انداز سے جانتے ہیں مطلب یہ کہ اس کو کئی مکاتب میں تقسیم کیا گیا ہے۔ مگر صوفیانہ افکار میں لاکھ اختلاف موجود ہومنبع اور مقصد تقریباً ایک ہی ہے۔ سب کا پیغام یہی ہے کہ یہ کائنات یہ موجودات جس کا ہم مشاہدہ کرتے ہیں مطالعہ کرتے ہیں۔ ایک ذات اور ایک ہستی کے طفیل ہیں جس کی تمام کڑیاں ذاتِ حقیقی سے جا ملتی ہیں۔ انسان کی خواہش ہوتی ہے کہ اُس ذات باری کی قربت اور ملاقات کا شرف حاصل کرسکے اور اس کا وسیلہ علم وعرفان ، زہدو عبادت اور ریاضت و مجاہدہ ہے ۔ جو کسی مُرشد، رہبر اور قاصد کے ذریعے ہی ممکن ہے۔
وحدت الوجود اور وحدت الشھود کے دو بنیادی نظریات کی وجہ سے تصوّف نے رفتہ رفتہ ایک مستقل فلسفے اور ما بعد الطبعیات کی شکل اختیار کی ۔پشتو ادب میں تصوّف کی روشنی بایزید انصاریؒ کی روشانیہ تحریک کے ذریعے متعارف ہوئی۔ اُن شعراءمیں مرزا خان انصاری سر فہرست ہیں۔ مذکورہ نظریات کے طفیل جذبۂ عشق کو جلا ملتی ہے۔ صوفیانہ عقائد میں عشق بیک وقت علمی نظریہ ، مذہبی واخلاقی فریضہ اور ضابطۂ عمل ہے۔ جو عقلی اور علمی وجوہات ورحجانات کے برعکس محبوب کے علاوہ ہر چیز کی نفی کرتا ہے۔ صوفیائے کرام عشق ہی کو صحیح اور حقیقی علم حاصل کرنے کا وسیلہ سمجھتے ہیں۔ عقل کو عشق کا تابع سمجھتے ہیں ۔کہتے ہیں اگر عشق عقل کی پاسبانی نہ کرے تو عقل گمراہ ہو جاتی ہے۔ اسی لئے علامہ اقبال نے فرمایا:
بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق
عقل ہے محوِ تماشائے لب بام ابھی (۲۲)
پروفیسر طہٰ خان یوں رقم طراز ہیں:
"اُردو زبان میں میرا نیس سے زیادہ قادر الکلام ، غالب سے زیادہ ذہین اور اقبال سے زیادہ تعلیم یافتہ شاعر کوئی نہیں مگر پشتو زبان کے شاعر رحمان باباؒ کے کلام میں انیس کی قدرت کلام ، غالب کی ذہانت اور اقبال کا علم واگہی جا بجا نظر آتا ہے“۔ (۲۳)
جو بات شیخ سعدیؒ اور حافظ شیرازی ؒ کہتے ہیں۔ وہی دوسرے الفاظ میں رحمان باباؒ کے ہاں ملتی ہے اور بعینہ وہی چیز علامہ اقبال کی شاعری کا بھی اوڑھنا بچھونا ہے۔ یہ اسلئے کہ ان تمام کا نقطۂ نظر اور منبع فکر ایک ہی ہے۔ مولانا روم ، شاہ عبدالطیف بھٹائی ، سلطان باہو اور خواجہ غلام فرید بھی اسی راہ کے سالک ہیں۔ یہ روشن افکار سب میں مشترک ہیں۔ سب نوع انسانی کو عموماً اور امت مسلمہ کو خصوصاً اتفاق ، اتحاد، محبت اور بھائی چارے کا درس دیتے ہیں سب کے درمیان صدیوں کے فاصلے ہیں مگر روحانی ربط نے نقطہ ہائے نظر میں بے حد مماثلت پیدا کردی ہے اور یہی وہ مشترک قدریں ہیں جوتصوّف کی بدولت جنم لیتی ہیں:
خلیل اللہ کے کعبے سے بہتر خانۂ دل ہے
اسے آباد رکھے گا جو ہوگا محرمِ دل وہ
زمیں بستہ ہیں سارے عالمِ اسفل کے باشندے
فلک پیماہوں میں حاصل ہوا مجھ کو دِم دل وہ (۲۴)
رحمان باباؒ کی شاعری کا بڑا حصہ اخلاقیات پر مبنی ہے۔ وہ انسانی معاشرے میں اخلاقی انقلاب برپا کرنے کے خواہش مند ہیں۔ اسی لئے دیگر مضامین کے ساتھ وہ اپنی شاعری میں ایک بے باک نقاد حیات و سماج کے طور پربھی اُبھرتے ہیں وہ حقوق العباد کو سب سے اولین درجہ دیتے ہیں۔ اس جہاد میں وہ خود کو معاف کرتے ہیں نہ دوسروں کو ، بادشاہوں سے ڈرتے ہیں نہ حکام سے اور یہی ایک سچے اور سُچے تخلیق کا رکی سب سے بڑی خوبی ہوتی ہے:
ہے زیرِ خرقہ اطلس وکم خواب زیب تن
گوہیں فقیر بیٹھے ہیں تخت غنا پہ ہم
آئینہ ہیں دکھاتے ہیں دنیا کو اُس کی شکل
رکھتے نہیں یقین کسی رو ریا پہ ہم (۲۵)
ان کے پندو نصائح کی دنیا دیکھئے:
پھر باطل و حق دیکھے یہ موقع نہیں ہوتا
انسان دوبارہ یہاں پیدا نہیں ہوتا
اک بار نکل جائے اگر بند سے باہر
پھر بند میں واپس کبھی دریا نہیں ہوتا
گزرا ہوا ہر لمحہ تو مردہ ہے لحد کا
رونے سے تو مردہ کوئی زندہ نہیں ہوتا
اونچا جو بہت اُڑتا ہے اونچا نہیں ہوتا (۲۶)
ایک اور جگہ فرماتے ہیں:
پیٹ کے دوزخ میں تو بھرلے اگر سارا جہاں
تیرے حق میں پھر نہ اُٹھے گا کوئی دستِ دعا
خوب ہے گر اپنی محنت سے خمَیدہ ہو کر
کیوں کمر کے گرد مالِ مفت کا پٹکا بندھا
بزم میں بہتر ہے تیرا ہم نشیں ہو دیو زاد
صحبت بد سے مگر محفوظ رکھے کبریا
غیر کی مرضی کا بھی رکھنا خیال اے خود پسند
حکمِ ربیّ تو نہیں دنیا میں تیری ہی رضا (۲۷)
معتبرونا معتبر سب لوگوں پر وہ شخص تنقید کر سکتا ہے جس کا اپنا دامن صاف ہو۔ رحمان باباؒ چونکہ دنیا کے عیش و عشرت سے کوئی وابستگی نہیں رکھتے تھے ۔ مال و منال اور جاہ و جلال میں ان کو ذرہ برابر دلچسپی نہیں تھی ۔ شاہی دربار اُن کو ایک آنکھ نہیں بھاتے تھے ۔ اسی لئے ان کے لہجے میں صداقت اور تاثیر زیادہ ہے۔ انہوں نے اپنی غزل میں جا بجا  الفاظ، تشبیہات اور لب و لہجے میں مجاز کا سہارا لیا ہے مگر کسی شاعر کیلئے اس کے علاوہ کوئی راستہ نہیں ہوتا کہ وہ مجاز کو حقیقت کیلئے بطور سیڑھی استعمال کرے:
جو بے عمل کوئی عالم ہے تو اُسے یہ سمجھ
کہ جیسے طفل کوئی بازیٔ کتاب کرے (۲۸)
رحمان بابا ؒ اپنے قارئین کو علم حاصل کرنے کیلئے اُبھارتے ہیں اور علم کو عمل کے بغیر کچھ نہیں سمجھتے ۔ ان کا خیال ہے کہ انسان کا شرف علم ہی کی وجہ سے ہے۔ صرف اور صرف علم ہی کی وجہ سے معاشرے کی بگھڑتی ہوئی اخلاقی اور روحانی حالت کو سنبھالا دیا جا سکتا ہے اور پھر وہ علماءجو عمل کے ذریعے نیک وبد کا تصور بھی قائم کر لیتے ہیں۔ وہ معاشرے کیلئے بے حد اہم اور ناگزیر ہوتے ہیں۔ وگرنہ علم کے ہوتے ہوئے عمل کی کمی نہ صرف خود اس کیلئے بلکہ پورے معاشرے کیلئے خطرناک ہوتی ہے:
مکے کی بزرگی کا اثر آ نہیں سکتا
سو بار بھی گھومے جو گدھا کعبے کے اطراف
طاعت میں بہت خرّم و اورنگ تھے اشراف
سر صدقہ منصور تھے وہ گر چہ تھا نداف
ان چاروں مذاہب میں کوئی فرق نہیں ہے
ہم لوگ مگر خود ہیں زباں آورو حرّاف (۲۹)
ہم اگر عام انسانی معاشرے کو دیکھیں تو عزت واحترام کے علاوہ معاشرہ بھی علم ہی کے ساتھ منسلک ہے۔ آپ کسی بھی میدان میں جائیں ۔ اس میں علم کے بغیر آپ ایک قدم بھی آگے نہیں بڑھ سکتے ۔ گویا علم کے بغیر انسان کچھ بھی نہیں ہے۔ رحمان بابا ؒ کی خواہش ہے کہ اپنے معاشرے کے تمام افراد کو علم وعمل دونوں کیلئے تیار کریں اور یہی اُن کے علم کا نچوڑ ہے کہ اُن کی نظروں میں دنیا کی کوئی حقیقت نہیں ہے کیونکہ وہ مال وزر اور شان و شوکت کو عارضی اور فانی سمجھتے ہیں:
انسانیت نہیں ہے زر و سیم کی غلام
سونے کا بُت بنا مگر انساں  نہ بن سکا (۳۰)
خیالات اور جذبات کے اعتبار سے رحمان بابا ؒ جتنے بڑے صوفی دکھائی دیتے ہیں۔ فنی اعتبار سے اس سے کئی گنا بڑے شاعر ہیں۔ تصوف شاید کچھ لوگوں کی نظر میں بے کیف اور دقیق موضوع ہو مگر رحمان باباؒ کے کلام میں موجود مٹھاس اور رنگینی اس بات کی غمازی کرتی ہے کہ فکر وفن دونوں اعتبار سے ان کا کوئی ثانی نہیں۔
کوئی شاعر جب شاعری کے تمام اسرار ورموز پر حاوی ہو جاتا ہے تو اس کی شاعری تضّع اور بناوٹ سے پاک ہو جاتی ہے۔ ان کے اشعار میں اتنی روانی آ جاتی ہے جیسے عام باتیں  اور یہ  خوبی صرف اور صرف رحمان باباؒکے کلام میں موجود ہے۔ ان کے اشعار باوجود عام فہم ہونے کے مفاہیم اور موضوعات سے بھرپور ہیں۔ رحمان باباؒ کی یہی خوبی اُن کو تمام شعراءمیں ممتاز کرتی ہے۔ ابلاغ کی چُستی کی وجہ سے وہ اتنے کامیاب ہیں کہ پختون قوم میں انتہائی قابلِ احترام اور نابغۂ روزگار شخص کو  " بابا"  کا خطاب دیا جاتا ہے جو بہت کم لوگوں کے حصے میں آتا ہے۔ اس فہرست میں رحمان باباؒ ؒ سر فہرست ہیں۔وہ پختون دانش کا معتبر حوالہ بن چکے ہیں ۔ ان کی شاعری تعصبات ، تکلفات اور عام انسانی خواہشات سے بالاتر ہے۔ ان کا پیغام امن، محبت اور بھائی چارہ ہے:
اُس یار کا قیام کہیں ہے نہ کوچ ہے
اُس کی تلاش میں سفر بے تکان رکھ
رحمان تیری باتوں کو سمجھیں گے اہل عقل
نادان سے اُمید نہ کچھ میری جان رکھ (۳۱)


حوالہ جات

۱۔        رحمان بابا، کلیات ِ رحمان بابا ( اُردو ترجمہ : پروفیسر طہٰ خان)نومبر ۲۰۰۶ء، پشتو اکیڈمی پشاور یونیورسٹی ، ص ۲۴۹
۲۔        رحمان بابا، کلیات ِ رحمان بابا ( اُردو ترجمہ : پروفیسر طہٰ خان)نومبر ۲۰۰۶ء، پشتو اکیڈمی پشاور یونیورسٹی ، ص ۱۳۶
۳۔       رحمان بابا، کلیات ِ رحمان بابا ( اُردو ترجمہ : پروفیسر طہٰ خان)نومبر ۲۰۰۶ء، پشتو اکیڈمی پشاور یونیورسٹی ، ءص ۴۵۶
۴۔       رحمان بابا، کلیات ِ رحمان بابا ( اُردو ترجمہ : پروفیسر طہٰ خان)نومبر ۲۰۰۶ء، پشتو اکیڈمی پشاور یونیورسٹی ، ص ۶۰۵
۵۔       رحمان بابا، کلیات ِ رحمان بابا ( اُردو ترجمہ : پروفیسر طہٰ خان) نومبر ۲۰۰۶ء، پشتو اکیڈمی پشاور یونیورسٹی ، ص ۲۵۶
۶۔        رحمان بابا، کلیات ِ رحمان بابا ( اُردو ترجمہ : پروفیسر طہٰ خان)نومبر ۲۰۰۶ء، پشتو اکیڈمی پشاور یونیورسٹی ، ص۲۱۵
۷۔       امیر حمزہ شینواری ، دیوانِ عبدالرحمن دوم ایڈیشن ، ۱۹۸۷ء، پشتو اکیڈمی پشاور یونیورسٹی، ص ۷۰
۸۔       رحمان بابا، کلیات ِ رحمان بابا ( اُردو ترجمہ : پروفیسر طہٰ خان)نومبر ۲۰۰۶ء ، پشتو اکیڈمی پشاور یونیورسٹی ، ص۶۸۔ ۷۰
۹۔        پروفیسر محمد زمان مضطر ، مراتِ رحمان ( منظوم اُردو ترجمہ ) ۱۹۹۳ء، بزم ریاض سُخن اوگی ص۶۰
۱۰۔       رحمان بابا، کلیات ِ رحمان بابا ( اُردو ترجمہ : پروفیسر طہٰ خان) نومبر ۲۰۰۶ء، پشتو اکیڈمی پشاور یونیورسٹی ، ص۲۵۵
۱۱۔        رحمان بابا، کلیات ِ رحمان بابا ( اُردو ترجمہ : پروفیسر طہٰ خان) نومبر ۲۰۰۶ء ، پشتو اکیڈمی پشاور یونیورسٹی ، ص۴۵۵۔۴۵۷
۱۲۔       رحمان بابا، کلیات ِ رحمان بابا ( اُردو ترجمہ : پروفیسر طہٰ خان) نومبر ۲۰۰۶ء ، پشتو اکیڈمی پشاور یونیورسٹی ، ص۱۶۸
۱۳۔      دوست محمد خان کامل مومند ، رحمان بابا ؒ ( تاریخی ، علمی اور ادبی جاج) ۱۹۵۸، د چاپزے خیبر بازار پشاور، ص ۵۱
۱۴۔      پروفیسر محمد زمان مضطر ، مراتِ رحمان ( منظوم اُردو ترجمہ ) ۱۹۹۳ء، بزم ریاض سُخن اوگی ،ص ۲۲
۱۵۔      پشتون لسان الغیب ( رحمان باباؒ ) مولفین پروفیسر محسن احسان، محمد جاوید خلیل ، ۲۰۰۰ء ، پشتو اکیڈمی پشاور یونیورسٹی،   ص ۲۰۔ ۲۱
۱۶۔       پروفیسر محمد زمان مضطر ، مراتِ رحمان ( منظوم اُردو ترجمہ ) ۱۹۹۳ء، بزم ریاض سُخن اوگی ،ص۱۹۳
۱۷۔      رحمن باباؒ ( رحمان بابا غیر ملکی مشاہدے کی نظر میں ) فارغ بخاری ، رضا ہمدانی ، دوسری اشاعت مارچ ۱۹۸۷ء، ص ۲۱
۱۸۔      رحمن باباؒ ( رحمان بابا غیر ملکی مشاہدے کی نظر میں ) فارغ بخاری ، رضا ہمدانی ، دوسری اشاعت مارچ ۱۹۸۷ء، ص ۲۱۔ ۲۲
۱۹۔       رحمن باباؒ ( رحمان بابا غیر ملکی مشاہدے کی نظر میں ) فارغ بخاری ، رضا ہمدانی ، دوسری اشاعت مارچ ۱۹۸۷ء، ص ۲۱
۲۰۔      فارغ بخاری رضا ہمدانی ، رحمن بابا لوک ورثہ اشاعت گھر اسلام آباد ( دوسری اشاعت) مارچ ۱۹۸۷ء، ص ۶۱
۲۱        رحمان بابا، کلیات ِ رحمان بابا ( اُردو ترجمہ : پروفیسر طہٰ خان) پشتو اکیڈمی پشاور یونیورسٹی ، نومبر ۲۰۰۶ءص۱۳۵
۲۲۔      اقبال ، کلیات اقبال ، اُردو ، شیخ غلام علی اینڈ سنز لاہور ، جنوری ۱۹۸۹ء، ص ۲۷۸
۲۳۔      کلیات رحمان باباؒ ، مقدمہ پروفیسر طہٰ خان ، پشتو اکیڈمی پشاور یونیورسٹی ، نومبر ۲۰۰۶ءص۸
۲۴۔      رحمان بابا، کلیات ِ رحمان بابا ( اُردو ترجمہ : پروفیسر طہٰ خان) پشتو اکیڈمی پشاور یونیورسٹی ، نومبر ۲۰۰۶ءص۴۰۶
۲۵۔      رحمان بابا، کلیات ِ رحمان بابا ( اُردو ترجمہ : پروفیسر طہٰ خان) پشتو اکیڈمی پشاور یونیورسٹی ، نومبر ۲۰۰۶ءص۲۴۹
۲۶۔      کلیات رحمان باباؒ ، مقدمہ پروفیسر طہٰ خان ، پشتو اکیڈمی پشاور یونیورسٹی ، نومبر ۲۰۰۶ءص۱۹۔ ۲۰
۲۷۔      کلیات رحمان باباؒ ، مقدمہ پروفیسر طہٰ خان ، پشتو اکیڈمی پشاور یونیورسٹی ، نومبر ۲۰۰۶ءص۲۶
۲۸۔      رحمان بابا، کلیات ِ رحمان بابا ( اُردو ترجمہ : پروفیسر طہٰ خان) پشتو اکیڈمی پشاور یونیورسٹی ، نومبر ۲۰۰۶ءص۵۲۰
۲۹۔      رحمان بابا، کلیات ِ رحمان بابا ( اُردو ترجمہ : پروفیسر طہٰ خان) پشتو اکیڈمی پشاور یونیورسٹی ، نومبر ۲۰۰۶ءص۱۹۹۔ ۲۰۰
۳۰۔      رحمان بابا، کلیات ِ رحمان بابا ( اُردو ترجمہ : پروفیسر طہٰ خان) پشتو اکیڈمی پشاور یونیورسٹی ، نومبر ۲۰۰۶ءص۴۱۶
۳۱۔      رحمان بابا، کلیات ِرحمان بابا (اُردو ترجمہ : پروفیسر طہٰ خان) پشتو اکیڈمی پشاور یونیورسٹی ، نومبر ۲۰۰۶ء ص۳۶۷۔ ۳۶۸


اوپر جائیں  |   پرنٹ کیجئےِ
انگریزی ورژن ای میل چیک کریں مرکزی صحفہ پرنٹ پسندیدہ سائٹ بنائیں رابطہ کیجئے www.shahzadahmad.com www.shahzadahmad.com