مجید امجد کی شاعری میں  فطرت نگاری

ڈاکٹر انتل ضیاء  ۔ لیکچرار، بینظیر ویمن یونیورسٹی، پشاور

ڈاکٹربسمینہ سراج۔ اسسٹنٹ پروفیسر، شعبہ اردو، بینظیرویمن یونیورسٹی،  پشاور

ABSTRACT
Majeed Amjad (1914-1974) is considered as one of the prominent voice of Urdu poetry after Second World War. This article focused on analyses of nature and elements of naturalism as it is presented in his works. It is discerned that Majeed relates nature not only for its esthetic value but also utilize it as symbols and tool of communication for internal emotions and thoughts as well. Majeed in his early poems express nature through personification, but in later age poems he depicts it mere as property of human being.
 
Key Words: Majeed Amjad; Nature in Urdu Poetry; Naturism

 

فطرت کے مظاہر کائنات کا نقش اولین ہے۔ ہمارے شعراء نے فطرت کے مختلف مناظر کو اپنی شاعری کا موضوع بنایا۔ مظاہر فطرت کی طرف متوجہ ہونے کی وجہ ان مظاہر کا حسنِ بے کراں ہے اور پھر شعراء نے ان مناظرِ فطرت کے ایسے پہلوؤں کو تلاش کیا، جو فرد کے احساسِ حسن اور ذوق کی تسکین کا سبب بنتے ہیں۔ مجید امجد بھی ان شعراء میں ہے جن کی شاعری کا ایک  اہم پہلو مظاہر فطرت سے لگاؤ اور ان کی تصویر کشی  ہے۔ دیکھا جائے تو اپنوں کی طرف سے دیئے گئے دکھ اگر ناآسودگی کا سبب بنتے ہیں، تو جہانِ قدرت کی رنگینی اسے حیرت میں مبتلا کر کے مظاہر فطرت کا متلاشی بنا دیتی ہے۔ مجید امجد بنیادی طور پر نظم کا شاعر ہے لیکن اُن کی غزل بھی فطری حسن کی بھرپور غماز ہے ۔  ان کی شاعری میں ایک خاص جذباتی ، وجدانی اور جمالیاتی اظہار ملتا ہے۔ مجید امجد ذات سے نکل کر کائنات میں جس چیز کی طرف مائل ہوتے ہیں وہ ہے فطرت اور کائنات کے رنگ، جو ان کی نظموں میں فطرت نگاری کا بڑا سبب ہے۔ اس حوالے سے عقیل احمد صدیقی لکھتے ہیں :
"مجید امجد کی شاعری میں "ذات" کا اظہار عموماً دو طریقوں سے ہوا ہے۔ "شبِ رفتہ" میں یہ اظہار اکثر براہِ راست انداز سے ہوا ہے۔ ایک طرف ان کی ذات ہوتی ہے، جو محروم ہے اور دوسری طرف وسیع کائنات اور اس کے جابہ جا بکھرے ہوئے مظاہر ہوتے ہیں۔ ان مظاہرات میں مجید امجد اپنی ذات کی محرومیوں کا درد بھرا نغمہ سناتے ہیں۔ ایسا کرتے ہوئے وہ اپنے "شعری پر سونا" کو اپنی محروم ذات میں مدغم کر دیتے ہیں، لیکن چند ایک ابتدائی نظموں کی رومانیت سے قطع نظر وہ اکثر کائنات کا مفہوم متعین کرتے آتے ہیں" ) ۱ (
مجید امجد انسانی زندگی کی ابتداء اور کائنات کی تخلیق کے حوالے سے کافی متجسس نظر آتے ہیں۔ اس لئے وہ کائنات اور زندگی کے ارتقا  میں خاصی دلچسپی لیتے ہیں، لیکن ان کے خیالات و نظریات میں سائنسی طرزِ فکر کارفرما نظر آتا ہے۔  سائنسی اندازِ فکر کے ساتھ ساتھ فطرت سے لگاؤ نے کائنات کے مظاہر کو شاعرانہ فکر کے لئے خام مواد کا ذریعہ بنایا، جس کی بنا پر تخلیق ہونے والی شاعری فطرت کا خوبصورت عکس بن کر سامنے آئی۔
روندیں تو یہ کلیاں نیشِ بلا، چومیں تو یہ شعلے پھول
یہ غم یہ کسی کی دین بھی ہے، انعام عجب انعام(۲)

یا پھر غزل میں کہتے ہیں:
روش روش پہ ہیں نگہت فشاں گلاب کے پھول
حسین گلاب کے پھول، ارغواں گلاب کے پھول(۳)

           مجید امجد کے ہاں نظم اور غزل دونوں حوالوں میں فطرت کے حسن کا ذکر ملتا ہے۔ فطرت کے مظاہر کو مجازی عشق اور محبوب کے حوالے سے تشہیر کی قبا میں بھی پیش کیا اور نظم میں اس حسن کے خارج اور باطن کا بیان بھی گہرائی کا حامل ہے۔مشاہدہ کائنات کے حوالے سے اشیا سے شاعر کا قریبی تعلق بہت اہمیت کا حامل ہے۔ مجید امجد کے ہاں یہ تعلق بہت عمیق اور گہرا ہے۔ مجید امجد نے خارج کی دنیا کو باطن سے مربوط رکھا اور جن اشیاء کا بیان کیا ان میں اپنی دلی کیفیات کا رنگ بھر دیا۔ ان کی نظم "ریل کا سفر"  فطرت نگاری کے بیان کے ساتھ ساتھ شاعر کی دلی کیفیات کو فطرت کے نظاروں سے ہم آہنگ کرنے کا ایک خوبصورت نمونہ ہے۔
یہ کپاس کے کھیتوں کی بہاریں
یہ ڈوڈوں کو چنتی ہوئی گلغداریں
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔۔۔۔۔۔
یہ چھوٹی سی بستی، یہ ہل اور یہ ہالی
یہ صحرا میں آوارہ، بھیڑوں کے پالی
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
یہ نہروں میں بہتا ہوا مست پانی
یہ گنوں کی رت کی سنہری جوانی(۴)

اس نظم میں شاعر کی اندرونی کیفیات کا اظہار بھی فطری ہے اور مظاہر فطرت کے بیان میں بھی ایک ربط و تاثر ملتا ہے۔ شاعر کو فطرت میں موجود فرد کی زندگی اور زندگی سے وابستہ حسنِ سادگی اور قدرت کے قریب نظاروں نے بے انتہا متاثر کیا ۔ اس کے لفظیات اس کے جذبات کو بہتر سے بہترین قالب دے کر پیش کرتے ہیں۔ انسان جس گاؤں یا شہر میں پیداہوتا ہے، بڑا ہوتا ہے یا پھر زندگی کا ایک طویل عرصہ گزارتا ہے اس سے محبت بھی فطری طور پر اس کے دل میں جنم لیتی ہے۔ اسی طرح  اپنے دیس، اپنے شہر سے فرد کی وابستگی اور لگاوٹ فطرت کا ودیئت کردہ جذبہ ہے، یہی وجہ ہے کہ نظم میں شاعر کہتا ہے۔
کشش ہے فسوں ہے نجانے وہ کیا ہے
جو گاڑی کو کھینچے لیے جا رہا ہے
مرا خطہ نور و رنگ آ گیا ہے
مرا سُکھ بھرا دیس جھنگ آ گیا ہے(۵)

مجید امجد ذات کے حوالے سے خارج سے وابستہ ہے۔ وہ اپنی  ذات، اپنے احساس کے اظہار کے لئے فطرت کے مظاہر کا سہارا لیتے ہیں، پھول اور رنگوں کا بیان کرتے ہیں۔اکثر وہ ذات اور کائنات کے خارجی ماحول کے درمیان تضاد کو پیش کر کے اپنے احساس کی ندرت کو پیش کرتے ہیں۔ کیونکہ ذات اور کائنات میں ہم آہنگی پیدا کرنے کی کوشش تو ہر انسان کی ہوتی ہے مگر تضاد کی طرف کوئی ایک دو لوگ ہی مائل ہوتے ہیں۔  عقیل روبی ان کے بارے میں لکھتے ہیں:
"ابتدائی نظموں میں گمان یہ گزرتا ہے کہ وہ سماجی مسائل سے اس طرح وابستہ ہیں، جس طرح کوئی ترقی پسند شاعر۔ جبکہ ان نظموں میں سماج محض ذات کے اظہار کے لئے ایک حوالے کے طور پر آیا ہے۔ بعد کی نظموں میں سماج تقریباً غائب ہوگیا ہے اور اس کی جگہ فطرت کے مظاہر نے لے لی ہے، جو یقیناً ماحول اور ذات کے اظہار کے لئے مناسب استعارہ بننے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔"(۶)
مجید امجد کی فطرت پرستی میں ایک اہم عنصر اپنے وطن، اپنے شہر سے محبت بھی ہے۔ شاعر اپنے دیس کے دریاؤں، چناروں، کہساروں، کھیتوں سے بے انتہا محبت کرتا ہے، اس لئے راہ چلتے مختلف نظارے اس کی سوچ کو اپنی گرفت میں لے لیتے ہیں اور وہ دریاؤں میں بہتے ہوئے پہانی کے شور سے محظوظ ہوتا ہے، تو کھیت میں کھڑی گنے کی فصل کو دیکھ کر اسے دائرہ قرطاس میں لے آتا ہے۔ اسی طرح جھنگ کے علاقے سے بھی اس کی فطری وابستگی تھی، اس لئے وہ اس خطے کو نور بھرا خطہ کہتا ہے۔ مجازی محبت کے حوالے سے بھی شاعر محبوب سے وارفتگی اور انس کی کیفیت کا بیان کرتے ہوئےفطرت کی خوشبو کا سہارا لیتے ہیں۔ فطرت کے مظاہر کا دلفریب منظر جب محبوب کی آنچل کے ساتھ یکجا ہوتا ہے تو انسانی فطرت اور مظاہر فطرت مل کر شاعر کی لذت طلب کو بڑھا دیتے ہیں۔ مجید امجد اس کا اظہار نظم "ہم سفر" میں کچھ یوں کرتے ہیں:
ابھی ابھی سبز کھیتوں پر
جو دور تک مست آرزوؤں کی موج بن کر لہک رہی ہیں
سیاہ بادل جھکے ہوئے تھے
اور اب، حسین دھوپ میں نہاتی فضائیں زلفیں چھٹک رہی ہیں

طول پٹڑی کے ساتھ رقصاں
مہیب پیڑوں کے گونچتے جُھنڈ! دراز سایوں سے بچتی راہیں
کہ جن کی موہوم سرحدوں پر
نکل کے گاڑی کی کھڑکیوں سے، تری نگاہیں مری نگاہیں
الگ الگ آکے تھم گئی ہیں
اور ایک اندازِ بے کسی میں، مآل امروز سوچتی ہیں!(۷)
جذبے اور احساس کے بیان میں مناظر فطرت مجید امجدکے لئے ایک محرک کا کام کرتے ہیں۔ یہاں پر محبت کے رومانوی حوالوں کے ساتھ ساتھ فطرت کی وابستگی لازمی ہے، جس کے امتزاج سے شاعر اپنے تخیل کو لفظوں کا جامہ پہناتا ہے۔ مظاہر فطرت کی طرف رغبت سے مجید امجد کا احساسِ جمال نکھر کر سامنے آتا ہے۔ سرسبز کھیتوں میں مست ہواؤں کی موج پر لہکتی ہوئی حسین محبوبہ کا تصور اور اس کی نگاہوں سے نگاہوں کا چار ہونا کیفیت کو اور پُر کیف بنا دیتا ہے۔ آسمان پر اُڑتے ہوئے طیور، پیڑوں کے جھنڈ کی وجہ سے روش کا سایہ دار ہو جانا اور ایسے میں محبوب کی قربت کا تصور حسن فطرت اور حسن بشر کے ملاپ سے نظارہ امر ہو جاتا ہے، جو شاعر کی سوچ کے دریچوں سے نکل کر اشعار کا پیکر اختیار کر لیتا ہے۔ وہ زندگی کے اندر چھپی ہوئی اور جاری و ساری معنویت کو محسوس کرتے ہیں۔ مظاہر فطرت کی طرف بھی اُن کا جھکاؤ جذباتی ہے تجزیاتی نہیں۔ اس حوالے سے ڈاکٹر وزیر آغا لکھتے ہیں۔
"مجید امجد کے مشاہدے کی یہ خوبی بڑی دلکش ہے کہ اشیا کی طرف اس کے جھکاؤ کا انداز جذباتی ہے تجزیاتی نہیں،  اس کے نزدیک یہ اشیا بے جان نہیں بلکہ ان میں سے ہر شے کی اپنی شخصیت ہے۔" ( ۸)
مجید امجد کی داستانِ محبت جذباتی ہے۔ اس لئے ان کے اشعار میں یہ جذباتی احساس اکثر و بیشتر ملتا ہے۔ مجید امجد جھنگ میں پیدا ہوئے۔ ان کا بچپن اور جوانی یہاں گزری، اس لئے یہاں کی گلی کوچوں میں موجود نظارے اس کی یادوں کو تازہ رکھنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں اور اس کی فکر کی تصویر کشی میں ان کی جھلک بھی نمایاں نظر آتی ہے۔ فطرت کے نظام میں انسان کے ہاتھوں جو تبدیلیاں رونما ہورہی ہیں اس پر مجید امجد  کا احساس مجروح ہوتا ہےجس کا تذکرہ ان کی نظم "توسیع شہر" میں کچھ یوں ملتا ہے۔
"بیس برس سے کھڑے تھے جو اس گاتی نہر کے دوار
جھومتے کھیتوں کی سرحد پر، بانکے پہرے دار
گھنے، سہانے، چھاؤں چھڑکتے، بور لدے چھتنار
بیس ہزار میں بک گئے سارے ہرے بھرے اشجار

جن کی سانس کا ہر جھونکا تھا ایک عجیب طلسم
قاتل تیشے چیر گئے اُن ساونتوں کے جسم

گری دھڑام سے گھائل پیڑوں کی نیلی دیوار
کٹتے ہیکل، جھڑتے پنجر، چھٹتے برگ و بار
سہمی دھوپ کے زرد کفن میں لاشوں کے انبار

آج کھڑا میں سوچتا ہوں اس گاتی نہر کے دوار
اس مقتل میں صرف اِک میری سوچ، لہکتی ڈال
مجھ پر بھی اب کاری ضرب اک، اے آدم کی آل،" ( ۹)
وقت کا تصور مجید امجد کے ہاں ایک اہم عنصر ہے۔ اس نظم میں بھی شاعر بیس برس سے کھڑے اشجار کی زندگی کا تسلسل دیکھتا ہے مگر انسان کی ضروریات کی بدولت فطرت کے یہ حسین پیکر کاٹ دیئے جاتے ہیں، جس پر شاعر دل گرفتہ ہے۔ منظر کا بیان بڑی جذئیات کے ساتھ کرتے ہوئے وہ اپنے گہرے دکھ کا بیان کرتے ہیں کہ یہ حسین اور دلکش پیکر سماجی اور معاشرتی ضرورت کی بھینٹ چڑ گئے۔ صبح شام کے اوقات بھی مجید امجد کی شاعری میں مناظر فطرت کی عکس بندی کا سبب بنتے ہیں۔ ڈاکٹر سید عامر سہیل اس کے بارے میں لکھتے ہیں۔
"مجید امجد کے سماجی و عمرانی شعور کا ایک اہم پہلو اُن کی قوتِ مشاہدہ ہے اور اس مشاہدے سے وہ جو نتیجہ اخذ کرتے ہیں وہ بہت گہرا اور دُور رَس  ہوتاہے۔ ان کی شاعری کا دائرہ ذات سے شروع ہوتا ہے اور پھیلتا ہوا معاشرے، وقت اور پھر کائناتی سوالات کو اپنے اندر سمیٹ لیتا ہے۔ اس سارے مطالعے میں وہ زمین سے جڑے رہتے ہیں۔ یہاں کے موسم، مناظر، طبقات ہی ان سوالات کا حصہ بنتے ہیں۔ اس لئے مجید امجد کے یہاں جو ماحول اور فضا ملے گی اور اس سے جو موضوعات اخذ ہوں گے وہ صرف انھی کی شاعری کا خاصہ ہے۔"   (۱۰)
مجید امجد اپنے اردگرد کی اشیاء اور مناظر کا بڑا گہرا احساس رکھتے ہیں۔ ماحول اور اشیاء کے تجربے سے شاعر کا تخیل تخلیق پاکر شعر کی صورت پاتا ہے۔ اپنی نظم "کوہ بلند" میں فطرت کے حسن کی طرف پیش قدمی اپنی ذات کے حوالے سے کرتے ہیں کہ اے اونچے اور بلند و بالا پہاڑ کبھی تو میری ذات کی طرف جھک کر دیکھ۔ مجید امجد فطرت کے ان مناظر سے ان کی عظمت، رفعت کی وجہ سے متاثر ہیں۔ شاعر کو ان کی رفعت اور عظمتِ پھیلاؤ اور وسعت میں قوت کا احساس ہوتا ہے، لیکن اس رفعت کی بنا پر وہ جھک کر نہیں دیکھ سکتا، شاعر کہتا ہے۔
تو ہے لاکھوں کنکریوں کے بہم پیوست دِلوں کا طلسم،
تیرے لئے ہیں ٹھنڈی ہوائیں، ان بے داغ دیاروں کی،
جن پر پیلے، سرخ، سنہرے دنوں کی حکومت ہے،
ایک یہی رفعت،
ترے وجود کی قدر بھی ہے اور قوت بھی،
ترے وجود کی قدر بھی ہے اور قوت بھی،
تیرا وجود جس پال سے لے کر اوپر کی ان نیلی حدوں تک ہے،
تو اس اونچی مسند پر سے جھک کر دیکھ نہیں سکتا،
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
کبھی تو اپنی خاطر میری سمت بھی جھک کر دیکھ،(۱۱)
شاعر ذات کے حوالے سے فطرت کے نظاروں سے ہم کلام ہوتے ہیں اور اس کی  طلب کرتے ہیں کہ اس سخت اور بلند کوہ کی نظر اس کی طرف جھک کر دیکھے یا پھر ذات  ہی کے حوالے سے وہ محبوب کی یاد میں بے قرار ہوکر اپنے آنسوؤں اور دکھ کو شفق کے رنگوں سے تشبیہہ دیتے ہیں۔ فطرت کے حسن کی عکاسی مجید امجد کی غزل میں بھی مختلف انداز میں ملتی ہے۔ غزل میں بھی شاعر کائنات کے مظاہر کی طرف متوجہ  ہوتا ہے۔محبوب کی بے وفائی اور ظلم و ستم کا بیان کرتے ہوئے وہ تشہبیہ کا وسیلہ مظاہر فطرت کو بناتے ہیں۔
شفق کے رنگ آنکھوں میں سحر کی اوس پلکوں پر
نہ آئے پھر بھی لب پر چرخِ نیلی فام کے شکوے(۱۲)
شفق کی سرخی ، رت جگوں اور غم کی سرخی جو آنکھوں میں اُتر آتی ہے اسی طرح مضطرب دل کا غم جب آنسو بن کر پلکوں تک آتا ہےتو شاعر کے لئے فطرت سے ہی اس کا استعارہ مددگار ثابت ہوتا ہے اور وہ درد کی کیفیت کا بیان کرتا ہے۔ زندگی کی گہما گہمی اور روزمرہ ماحول کے کاموں میں وہ پھولوں، درختوں، ندی نالوں اور کرنوں کے وجود کو محسوس کرتا ہے اور انسانی زندگی میں اثر افروز فطرت کو اپنی شاعری میں بیان کرتا ہے۔ جیسا کہ نظم "دروازے کے پھول" میں کہتا ہے۔
صبح کی دُھوپ ان پھولوں کا دفتر تھی، جس میں
روز اُن کی اِک مسکراہٹ  کی حاضری لگتی،
شام کے سائے اُن کی نیندوں کا آنگن تھے!

صبح کو ہم اپنے اپنے کاموں پر جاتے، تو اس سبز سڑک کے موڑ پہ
تازہ دم پھولوں کے رنگ برنگے تختے ہم سے کہتے،
"کرنوں کا یہ دھن سن کا ہے، سب کا، اس میں
جیو، جیو، سن مل کر! سنگت سے ہے نگت"(۱۳)
مجید امجد کی شاعری میں ارضی اشیاء کا تصور اور احساس نمایاں ہے۔ وہ کائنات میں موجود اشیاء کا بڑا گہرا مشاہدہ کرتے ہیں اور وہ اشیاء جو اس کے ماحول کا حصہ ہیں اس کی شاعری کا حصہ بن کر سامنے آتی ہیں۔ جیسا کہ گلیاں، آنگن، کھڑکیاں، سڑک کنارے پھول اور اس طرح کی بے شمار دوسری اشیاء جو شاعر کے ماحول اور خارجی منظر کا حصہ ہیں ان کی غزل اور نظم میں در آئی ہیں۔ ڈاکٹر وزیر آغا ان کے بارے میں لکھتے ہیں۔
"قریبی اشیاء سے شاعر کے اس تعلق میں بھی جملہ حسیات کا حصہ ہے۔ وہ محض ماحول کو دیکھنے پر اکتفا نہیں کرتا بلکہ اس کی آوازوں کو سنتا ہے۔ اس کے لمس کو محسوس بھی کرتا ہےاور ہر لحظ زندگی کی دھڑکن کو اپنے دل کی دھڑکن سے ہم آہنگ بھی پاتا ہے۔"(۱۴)
شاعر صرف خارجی عوامل اور عناصر پر اکتفا نہیں کرتا بلکہ خارجی مناظر کے باطن سے پھوٹنے والے احساس اور جذبے کو قلم بند کرتا ہے وہ سمندر، پہاڑ، ندی نالوں، اُفق، چاند ستاروں کے بیان میں صرف ان کی خارجی ہئیت تک محدود نہیں رہتا بلکہ اپنی ذات کے باطن سے اس کا رشتہ جوڑ دیتا ہے۔ اس حوالے سےڈاکٹر وزیر آغا مزید لکھتے ہیں:
"مجید امجد کی نظموں میں قریبی اشیاء کے وجود کا گہرا احساس ہوتا ہے۔ چنانچہ اس کیفیت کو شاعر نے بار بار "پابہ گل" کی ترکیب سے واضح کیا ہے لیکن شاعر کی وسعت نظر مادی مظاہر کے تجزیے میں بھی اپنا رنگ دکھائے بغیر نہیں وہ سکی۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ مجید امجد نے زمینی مظاہر کے لیے بالعموم جمع کا صیغہ استعمال کیاہے۔ وہ کسی ایک دریا، ایک سمندر یا ایک پہاڑ کو زندگی سے کاٹ کر علیحدہ نہیں کرتا بلکہ دریاؤں، سمندروں اور پہاڑوں کو ایک ہی منظر کے چوکھٹے میں سجا کر پیش کر دیتا ہے۔ تاہم اس کی نظر محض حقائق کی مادی توضیع تک محدود نہیں۔"(۱۵)
مجید امجد فطرت کے مناظر کے بیان میں امیجری کے رنگ بھرتےہیں۔ ان کی نظم میں تصورات اور کیفیات  ایسا پیکر بن جاتے ہیں جو ہمارے ذہن کی سکرین پر چلتی پھرتی تصویروں کی صورت اختیار کر لیتے ہیں۔ مجید امجد نے مظاہر فطرت کو اپنی شاعری میں علامت کے طور پر بھی استعمال کیا ہے۔ جیسا کہ "دھوپ" کو مجید امجد نے بعض نظموں میں زندگی کی علامت کے طور پر استعمال کیا ہے۔اس حوالے سے ڈاکٹر سید عامر سہیل لکھتے ہیں:
"فطرت سے اخذ شدہ علامات میں ایک علامت "پرندے" کی بھی ہے، جو مجید امجد کے یہاں خاص معنویت کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ اس علامت کا پہلا عکس ان کی نظم "بن کی چڑیا" میں نظر آتا ہے۔ نظم میں ایک چڑیا اپنے من کی کہانی سنا رہی ہے، یہ کہانی زندگی کے کئی زاویوں سے پردہ اُٹھاتی ہے مگر ظالم تنہائی کے سبب میدان، وادیاں اور ٹیلے سبھی بہرے ہوچکے ہیں۔ چڑیا کا یہ الاپ ایک شاعر کے نغموں سے مماثل ہے کہ ایک شاعر زندگی کے اَن دیکھے منظروں کو بھی دیکھنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور اس گہرے بھید کو اپنی شاعری میں بیان کرتا ہےمگر کوئی بھی اس کے نغموں پر کان دھرنے کو تیار نہیں ہے تاہم شاعر چڑیا  کی طرح اس بات سے بے نیاز ہے کہ کوئی اس کی بات سن بھی رہا ہے یا نہیں۔ درحقیقت اس نظم میں اُس تخلیقی وفور کی طرف اشارہ ہے جو زندگی کے بھید جاننے اور اسے بیان کرنے پر اکساتا ہے، چند مصرعے ملاحظہ ہوں:
کیا گاتی ہے، کیا کہتی ہے، کوئی اس بھید کو کھولے؟
جانے دور کے کس اَن دیکھے دیس کی بولی بولے
کون سنے، ہاں کون سنے راگ اس کے، راگ، البیلے
سب کے سب بہرے ہیں، میداں، وادی، دریا، ٹیلے
ظالم تنہائی کا  جادو، ویرانوں پر کھیلے
دور سرابوں کی جھلمل روحوں پر آگ انڈیلے
نوک نوکِ خار کھلنڈرے ہرنوں کو کلپائے
گانے والی چڑیا اپنا راگ الاپے جائے"(۱۶)
مجید امجد کی نظم میں امیجری کا رنگ خارج سے باطن کی طرف سفر کرتا ہے۔ ان کی بعض نظموں میں دنیائے آب وگل کی مصوری اور جذئیات کے خوبصورت نمونے ملتے ہیں۔ قراۃالعین طاہر، مجید امجد کے بارے میں کچھ یوں رقمطراز ہے:
"عصرِ حاضر کے ایک اہم اور منفرد شاعر مجید امجد کی شاعری سے منظرنگاری کو الگ نہیں کیا جاسکتا اور جب ہم مجید امجد کے لینڈاسکیپ کی بات کرتے ہیں تو اس میں لہلہاتے کھیت، بہتے دریا، جھومتے درخت، شور کرتے جھرنے، سب ہی کچھ موجود ہے۔ مجید امجدصرف فطرت کی تصویر کشی ہی نہیں کرتے بلکہ روزمرہ زندگی کے مظاہرو  مناظر، خواہ وہ فطرت کا چہرہ مسخ کر کے ہی وجود میں آئے ہوں۔ ہرے بھرے درختوں کی قطار کے بجائے تپتی تارکول کی سیاہ سڑک کی ہی تصویر  کھینچ رہے ہوں۔ وہ جذئیات تک قاری کے سامنے لے آتے ہیں۔"  ( ۱۷)
مجید امجد کے ہاں خاص طور پر پنجاب کے دیہات کا فطری ماحول نظر آتا ہے۔ فطرت سے محبت مجید امجد کی سرشت میں موجود تھی۔ وہ اپنی مٹی سے ذہنی اور جذباتی طور پر وابستہ ہیں اور یہ وابستگی ان کی غزل اور نظم میں فطرت نگاری کی صورت میں سامنے آتی ہے۔ ڈاکٹر رشید احمد گوریچہ اپنے مضمون "مجید امجد کی نظمیں یا اوراقِ مصور" میں لکھتے ہیں:
"مجید امجد کے ہاں زندگی کے مختلف مظاہر کی تصویریں کیمرہ فوٹو نہیں بلکہ مصور کے موئے قلم کا نتیجہ معلوم ہوتی ہیں۔ کیمرہ مین کوئی تصویر بناتے ہوئے اس کے پس منظر یا پیش منظر میں کوئی کمی بیشی نہیں کر سکتا۔ جب کہ مصور تصویر بناتے ہوئے اپنے باطنی احساسات و جذبات سے مغلوب ہوتا ہے۔ اس کے خارج میں جو منظر موجود ہوتا ہے وہ اس سے جو تاثر قبول کرتا ہے اس کو موئے قلم سے کینوس پر رنگوں اورر لکیروں کی مدد سے ابھارتا ہے۔ کہیں شوخ کہیں کہیں ہلکے رنگ استعمال  کرتا ہے۔ بعض خطوط نمایاں اور بعض خفی کر کے خاص تاثر پیدا کرتا ہے۔ جب کہ شاعر الفاظ کی مدد سے جو تصویریں بناتا ہے اس میں اپنے تخیل کی مدد سے کئی اضافے بھی کرتا ہے اور اس سے نتائج بھی اخذ کرتا ہے۔ مجید امجد کے ہاں تصویر کاری کا یہی فن ملتا ہے۔ " ( ۱۸)
مجید امجد کا مشاہدہ کافی گہرا ہے۔ وہ لفظوں کی بجائے تصویروںمیں سوچتا ہے۔ مجید امجد وہ شاعر ہے جس کو صرف محبوب کی معصومیت اور پانی کی گرتی آبشاروں میں ہی حسن نظر نہیں آتا بلکہ وہ اپنی روزمرہ زندگی میں موجود فطری مظاہر اور تمام مناظر کو موضوع بناتا ہے۔ ان کی شاعری کی تصویروں میں ماحول، معاشرے اور کائنات کی مختلف صورتیں نظر آتی ہیں۔ مجید امجد فطرت سے شعوری اور لاشعوری طور پر وابستہ نظر آتے ہیں۔ ان کی بیشتر نظموں کا آغاز فطرت کے کسی منظر سے ہوتا ہے۔ مجید امجد کی شاعری میں کائناتی مسائل اور زندگی کی چھوٹی چھوٹی  خوشیاں موجود ہیں جو اس کی شاعری کو فطرت کا عکاس بنا دیتی ہیں۔
مجید امجد زندگی میں پوشیدہ رازوں کا متلاشی ہے، اس لئے وہ کائنات میں موجود ہر ذرے، فرد، چرند، پرند، نباتات و جمادات کو بہ نظر غائر دیکھتا ہے اور پھر فطرت کے یہی عناصر اس کی نظم اور غزل میں کرداروں کی صورت میں چلتے پھرتے نظر آتے ہیں یا پھر وہ جذبوں کی نمائندگی کے لئے مظاہر فطرت سے تشبیہ، استعارہ اور علامت اخذ کرتا ہے۔مجید امجد کی شاعری بحیثیت مجموعی شاعر کے وجود سے نکل کر معاشرے، ماحول اور روزمرہ کی زندگی کی مکمل محاکات پیش کرتی ہے۔ انھوں نے  بھاری بھرکم الفاظ کا استعمال نہیں کیا بلکہ عام، سادہ اور مانوس الفاظ میں اپنا مدعا بیان کیا ہے۔ وہ بے جان اشیاء کو بھی اپنی شاعری میں جاندار بنا کر ان کی ایک خاص شخصیت پیش کرتے ہیں۔ ان کے ہاں موضوعات اور اسلوب دونوں حوالے سے تبدیلی رونما ہوتی ہے، جس کی بنا پر جدید شعراء میں ان کا ایک منفرد مقام ہے۔


حوالہ جات

۱۔        عقیل احمد صدیقی      جدید اردو نظم نظریہ و عمل (۱۹۳۲ء تا ۱۹۷۰ء)   ص ۳۱۷
۲۔        خواجہ محمد زکریا (ترتیب) کلیاتِ مجید امجد        ص ۱۳۸
۳۔       ایضاً                  ایضاً                            ص ۱۵۵
۴۔       ایضاً                  ایضاً                            ص ۲۱۸
۵۔       ایضاً                  ایضاً                            ص ۲۱۹
۶۔        عقیل احمد صدیقی      جدید اردو نظم نظریہ و عمل (۱۹۳۲ء تا ۱۹۷۰ء)   ص ۳۲۳ تا ۳۲۴
۷۔       خواجہ محمد زکریا (ترتیب) کلیاتِ مجید امجد        ص ۱۱۶
۸۔       وزیر آغا، ڈاکٹر         مجید امجد کی داستانِ محبت           ص۴۰۴
۹۔        خواجہ محمد زکریا (ترتیب) کلیاتِ مجید امجد        ص ۳۵۲
۱۰۔       سید عامر سہیل، ڈاکٹر   مجید امجد نقش گر ناتمام             ص ۱۷۶
۱۱۔       خواجہ محمد زکریا (ترتیب) کلیاتِ مجید امجد        ص ۴۷۰
۱۲۔       ایضاً                  ایضاً                            ص ۳۰۲
۱۳۔      ایضاً                  ایضاً                            ص ۵۸۳
۱۴۔      وزیر آغا، ڈاکٹر         نظم جدید کی کروٹیں              ص۹۸
۱۵۔      ایضاً                  ایضاً                            ص ۱۰۳
۱۶۔       سید عامر سہیل، ڈاکٹر   مجید امجد نقش گر ناتمام             ص ۳۳۵ تا ۳۳۶
۱۷۔      حکمت ادیب           (مرتب)  مجید امجد ایک مطالعہ    ص ۵۴۹
۱۸۔      ایضاً                  ایضاً                            ص ۵۷۱             

کتابیات

۱۔        عقیل احمد صدیقی۔ جدید اردو نظم نظریہ و عمل (۱۹۳۲ء تا ۱۹۷۰ء) بیکن بکس اردو بازار لاہور۔ ۲۰۱۴ء
۲۔       خواجہ محمد زکریا ۔ (ترتیب)  کلیاتِ مجید امجد               الحمد پبلی کیشنز لاہور۔    ستمبر ۲۰۰۶ء
۳۔       وزیر آغا، ڈاکٹر۔ مجید امجد کی داستانِ محبت      معین اکادمی، لاہور۔           ۱۹۹۱ء
۴۔       سید عامر سہیل، ڈاکٹر۔ مجید امجد نقش گر ناتمام۔ پاکستان رائٹرز کوآپریٹو سوسائٹی لاہور۔ ۲۰۰۸ء
۵۔       حکمت ادیب          (مرتب) مجید امجد ایک مطالعہ   جھنگ ادبی اکاڈمی جھنگ۔ ۱۹۹۴ء

اوپر جائیں  |   پرنٹ کیجئےِ
انگریزی ورژن ای میل چیک کریں مرکزی صحفہ پرنٹ پسندیدہ سائٹ بنائیں رابطہ کیجئے www.shahzadahmad.com www.shahzadahmad.com