عصری نظم اور ماحولیاتی مسائل

ڈاکٹرطارق ہاشمی۔اسسٹنٹ پروفیسر، جی سی یونیورسٹی، فیصل آباد۔

ABSTRACT
This review article is an attempt to outline the views and degree of awareness of Urdu poets about environmental problems. By scanning nine major poets and their works, it is concluded that in Urdu poetry environmental issues are framed along urbanization. Urbanization being a direct outcome of colonial era, resulted in change of environment and eventually the human beings. Urdu poets not only presented the actual situation as it is found around them, but also offered the transformationin sensibilities and resulting change in mutual relations of human beings,  as they are affected by environment.
 
Key Words: Environmentalism; Environment and Literature; Environment-alism in Urdu Literature; Sensibilities
 

           جدید اُردو نظم کی سماجی شناخت کا بنیادی حوالہ شہروں میں تشکیل پانے والی وہ تیز رفتار اور مشینی زندگی ہے جس نے فطرت سے مرحلہ وار بُعد اختیار کیا ہے۔ جدید نظم گو شعرا نے اس سوال کو بنیادی اہمیت دی ہے کہ صنعتی ترقی کی صورت میں حیاتِ انسانی کن کن تبدیلیوں سے دوچار ہوئی ہے اور ان تبدیلیوں کی صورت میں  انسان کوکس نو ع کے گمبھیر مسائل  بطور فرد اور اجتماع پیش آئے ہیں۔ برصغیر پاک و ہند میں اگرچہ شہری فضا کی تشکیل یورپی تہذیب کی آمد او ربعدازاں مغربی تمدن کے تعارف کے ساتھ شروع ہو گئی تاہم ابتدا  میں  بعض مسائل اس شدت کے ساتھ رونما نہ ہوئے یا اُن کا ادراک قدرے بعد میں ہوا۔ شہری فضا، شہری ہونے کے باوجود اپنے  باطن میں قدیم دیہی ماحول میں خوشبو سے محروم نہیں ہوئی تھی لیکن رفتہ رفتہ جوں جوں تجارت اور کاروبار نے وسعت اختیار کی اور افراد کی بودوباش کو داخلی سطح پر متاثر کرنا شروع کیا تو ان مسائل کا نہ صرف احساس پیدا ہوا بلکہ حیاتِ انسانی کی اس تبدیلی پر اس بیتابی کا بھی کھل کر اظہارہونے لگا جس نے  بدلے ہوئے خارجی ماحول کے ذریعے اُس کے باطن کو متاثر کیا۔
مجید امجد کی نظم  توسیع شہر” حیاتِ انسانی کی مذکورہ تبدیلی پر کرب دروں کا اظہار ہے جس میں ایک شاعر درختوں کے کٹنے کے عمل پر نوحہ کناں ہے۔ اس نظم میں گاتی نہر کے کنارے بیس برسوں سے کھڑے گھنے درخت اُس دیہی تمدن کا استعارہ ہیں جو صدیوں تک قائم رہی اور انسان ان کی سائبانی میں فطرت سے مکالمہ کرتا رہا مگر آج فطرت اور اس کے جمالیاتی مظاہر سے گفتگو کا یہ باب بند ہو گیا۔
گری دھڑام سے گھائل پیڑوں کی نیلی دیوار
کٹتے ہیکل، جھڑتے پنجر، چھٹتے برگ و بار
سہمی دھوپ کے زرد کفن میں لاشوں کے انبار
آج کھڑا میں سوچتا ہوں اس گاتی نہر کے دوار
اس مقتل میں صرف اک میری سوچ لہکتی ڈال
مجھ پر بھی اب کاری ضرب اک اے آدم کی آل(۱)

مجید امجد کی اس نظم میں درخت محض ایک نباتی اکائی نہیں بلکہ زندہ ماحول کے محافظ ہونے کا استعارہ ہے۔ ڈاکٹر وزیر آغا کی ایک نظم میں درخت محض ماحول نہیں بلکہ اُس کی داخلی اور ذہنی کائنات میں بھی ارتقا کا وسیلہ بنتا ہے۔
پیپل کیا ہے؟ جوگی کا بے در سا ایک استھان
جھونکے، پتے، پنچھی، انسان ، سب اس کے مہمان
کھاٹ پہ لیٹا سوچ رہا ہوں، میں ، مورکھ، نادان(۲)

کیا جدید تمدنی زندگی انسان کا مورکھ پن ہے؟ شاید اس سوال کا جواب نفی میں آئے لیکن اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ فطرت سے  دوری کی قبولیت یقینا مورکھ پن ہے۔ ڈاکٹر وزیر آغا کے نزدیک اس طرزِ عمل نے انسان کو اُس کی اصل سے یوں الگ کیا ہے جیسے کسی شیر خوار بچے کو اُس کی ماں سے جدا کر دیا جائے۔ درخت مامتا کا پہلا روپ ہے۔ اپنی نظم “ماں” (پہلا روپ) میں اس تعلق کو ایک تمثیل کے ذریعے یوں واضح کیا ہے:
وہ برگد کا اک پیڑ تھی
جس کے مانوس، گہری، خنک چھاؤں میں
ہم نے عمریں بتائیں
وہ مخمل کا اک نرم چھنار تھی
جس کے پتوں میں چھپ کر
مہکتی ہوئی دودھیا شاخ کو تھام کر
ہم نے میٹھی سی راحت کا انعام پایا
وہ پتوں کے پنکھے سے
شاخوں کی لوری سے ہم کو سلاتی رہی
مسکراتی رہی
اور پھر ایک دن
اک بگولا اُٹھا
پیڑ جڑ سے اکھڑ کر پرے جا پڑا
اور چھتنار کی ٹھنڈی چھاؤں میں بیٹھے ہوئے ساری پنچھی
بھیانک سی چیخوں کے کہران میں اڑ پڑے۔۔آسماں کی طرف پھر بکھرتے گئے چار سو(۳)
یہ پرندے جس آسمان کی طرف محوِ پرواز ہوئے ہیں یہ کون ساآسمان ہے اور جدید ماحولیاتی فضا نے اُس کے نیلے رنگ کو کتنا متاثر کیا ہے؟ ان سوالات کا جواب انیس ناگی کی نظم “زرد آسمان” میں ملتا ہے۔ اس نظم میں عصری انسان کے وجودی کرب کی ہمہ پہلو عکاسی کی گئی ہے۔ عصری انسان جو محض زندگی کی تیز رفتاری میں اقدار ہی سے دور نہیں ہوا بلکہ معاصر انسان اور خدا سے بھی بیگانہ ہو چکا  ہے۔ وہ آتشیں جنگوں کی ہولناکیوں سے بھی متاثر ہے اور مشینی زندگی کی زہر آلود فضا سے بھی ۔
یہ نظم اپنے اندر صنعتی زندگی سے وابستہ حصول زر کی اُس دوڑ کی تصویر کشی بھی کرتی ہے جو عصری انسان کو تاریخ کے اُن افراد سے جوڑ دیتی ہے جنھوں نے عذابِ خداوندی کا سامنا کیا مگر اس انجام سے قبل اُن آیتوں پر عمل نہ کیا جو انھیں صراطِ مستقیم پر گامزن ہونے کے لیے اتاری گئیں۔ ماضی کے ان افراد نے تو شاید انسانوں کاقتل عام کیا مگر فی زمانہ یہ قتال انسان کے خارجی ماحول کے اُن عناصر تک پھیل گیا جس کے باعث وہ سانس لے رہا ہے۔
ہمارے سیاہ و سفید گھوڑوں کی ٹاپوں سے اڑتی دھول
گھبراہٹ میں بھاگتی ہوئی موٹروں کے سائیلنسروں سے نکلتی ہوئی نیلی لکیر
اور ہمارے لاحاصل مشقت میں کانپتے ہوئے بدنوں کی نہ ختم ہونے والی تھکن
سانسوں میں گھل کر ایک بددعا کی طرح بلندہوتی ہوئیں نیلے آسمان کے ازل کے نیچے
ایک زرد آسمان کی چھتری کا پھول بن جاتی ہیں
اور ہم دونوں آسمانوں کے نیچے، زخمی طایروں کی طرح چیختے ہوئے
ان شہروں کی چھتوں پر پرواز کرتے ہوئے
جہاں زر کی تلاش میں سٹھیائے ہوئے ہجوم
شدّاد کی جنت کی تلاش میں اپنے زوال سے بے خبر ہیں
نئی پناہ گاہیں ڈھونڈتے ہیں
لیکن زرد آسمان تمام سمتوں کو ہماری تمام حسوں سے اوجھل کر کے
ایک قدیم ویرانے کی طرح پھیل جاتا ہے(۴)
جدید متمدن زندگی میں ماحولیاتی آلودگی نے نہ صرف فضا کو مکدر کیا ہے بلکہ خود انسانی تشخص بھی مجروح ہوا ہے۔ ایک ہی ماحول کے رہنے والے لوگ ایک دوسرے کے لیے اجنبی ہو گئے ہیں۔ تبسم کا شمیری کی نظم “لمحے لمحے کا اجنبی” میں ایک ایسے کردار کی تمثیل پیش کی گئی ہے جو تلاشِ رزق میں نکلا ہوا ہے مگر آلودہ فضا اُس کے چہرے کے خدوخال کو اس طرح مسخ کر دیتی ہے کہ اُسے اپنی ہی گلی کے لوگ پہچاننے سے انکار کر دیتے ہیں۔
تبسم کاشمیری کی یہ نظم دھواں داراور غبار آلود فضا میں انسانی  گمشدگی کا ایک الم انگیز نوحہ ہے۔ ایک انسان جو تلاشِ رزق کے بعد سماج میں اپنی ایک نئی اور معتبر پہچان کا طلب گار ہے لیکن شہری فضا کی آلودگی اُسے یہ پہچان دینے کے بجائے اُس کی موجودہ شناخت ہی چھین لیتی ہے اور اُس کے ہم عصر افراد اُسے بری طرح دھتکار دیتے ہیں۔
وہ کالی سڑکوں پہ گھومتا تھا
سیہ دھوئیں کو وہ پھانکتا تھا
وہ کانپتا تھا ، وہ سوچتا تھا
“کہ میرا چہرہ بدل گیا ہے؟”
کبھی وہ ہاتھوں کو گھورتا تھا، کبھی وہ کپڑوں کو پھارٹا تھا
کبھی وہ بالوں کو نوچتا تھا
۔۔۔۔۔۔
شام گزری تو لمحے لمحے کا اجنبی اپنے گھر کو لوٹا
لوگ نکڑ پہ کچھ کھڑے تھے
“کون ہو تم؟” وہ پوچھتے تھے
“میں وہی ہوں جو صبح گزرا تھا اِس گلی سے”
“نہیں نہیں وہ نہیں ہو وہ اور کوئی تھا۔ دوپہر کو بھی تم نہیں تھے
تمہارا چہرہ تو مختلف ہے  (۵)
کشور ناہید کی نظم “پیدائش سے پہلے” آلودہ ماحول میں بے چہرگی کے خوف سے بچنے کی استدعا ہے۔ نظم میں یہ واضح نہیں کہ نظم کے مرکزی کردار کا مخاطب کون ہے لیکن استدعا کرنے والا اِس گرد آلود اور بے شجر فضا سے شدید ہراساں دکھائی دیتا ہے ۔ یہ استدعا بظاہر ایک فرد سے ہے لیکن نظم میں وسیع تر فضا یہ ظاہر کر رہی ہے کہ یہ مکالمہ اپنے عصر کے اُن تمام انسانوں سے ہے جو اس فضا کو تشکیل دے چکے ہیں اور اب اس آلودہ فضا میں سانس لینے پر مجبور ہیں۔ اس نظم کا تخاطب خدا کی طرف بھی ہو سکتا ہے اور استدعا کرنے والا کردار اُس سے یہ دعا کر رہا ہے کہ وہ دنیا میں آنا تو چاہتا ہے مگر اس دنیا کا اُس آلودگی سے پاک ہونا ضروری ہے جس میں وہ اپنی زندگی کی ابتدا  کرنے جا رہا ہے۔
نظم کی فضا انسانی شعور پر ایک طنز یہ بھی ہے کہ انسانوں کو معلوم ہوتا ہے کہ وہ رحم ِ مادر ایسی پاکیزہ فضا سے نکل کرکسی آلودہ فضا میں چلے جاتے ہیں۔ وہ اپنے خالق سے یہ استدعا تک نہیں کرتے کہ وہ اس ماحول کو پاکیزہ کر دے۔
میری پیدائش سے پہلے وعدہ کرو
مجھے اُس پانی کے قریب نہیں لے کر جاؤ گے
جو کھیتوں کے بجائے، گھروں میں پھیل جانے کو بڑھتا ہے
اُس دھوپ کی پہچان نہیں کراؤ گے
جو قحط بن کر میرے جیسے آنگنوں کو بھوک میں بدل دیتی ہے(۶)
کشور ناہید نے جس آلودہ فضا کی عکاسی کی ہے رفیق سندیلوی کی نظم میں اُسی کے لیے مگرمچھ کے رحم کا استعارہ استعمال کیاگیا ہے۔ نظم میں پیش کیا گیا کردار ماں سے اپنے دکھ کو بیان کر رہا ہے۔ ماحولیاتی تناظر میں ماں کا یہ کردار مادرِ فطرت ہے۔ نظم میں پیش کی گئی فضا میں رحم نہنگ اور تالاب دونوں آلودگیوں کی عکاسی کی گئی ہے۔
نظم کا مرکزی کردار اس آلودگی کے باعث اپنے جنم کو جنم ہی نہیں سمجھتا کہ وہ جن فضاؤں میں سانس لے رہا ہے، اُس میں اور مگرمچھ کے پیٹ کے اندرونی ماحول میں کوئی فرق نہیں۔ وہ اُس لمحے کے انتظار میں ہے جب اُسے حقیقی جنم نصیب ہو گا اور وہ ایک پاکیزہ ماحول میں سانس لے گا۔
دیکھتا ہوں
گرم گہرے لیس کے دریا میں
کچھووں، مینڈکوں
جل کیکڑوں کے پارچوں میں
سالم ہوں
نبود وبود کے تاریک اندیشوں میں
باہر کون ہے
جو ذات کے اس خیمۂ خاکستری کے
پیٹ کے پھولے ہوئے
گدلے غبارے پر
ازل سے کان رکھ کر
سن رہا ہے
سرپٹخنے
ہاتھ پاؤں مارنے
کروٹ بدلنے کی صدا
پانی کا گہرا شور ہے
اندر بھی، باہر بھی
برہنہ جسم سے چمٹے ہوئے
کائی کے ریزے
مجھے پھر سے جنم کی خاطر
زچگی کے اک کلاوے نے
اگلنے کے کسی وعدے نے
صدیوں سے مجھے جکڑا ہوا
ماں!
مگرمچھ نے مجھے نگلا ہواہے!! (۷)
رفیق سندیلوی  کی نظم “تندور والا”(۸)میں جس گلوبل وارمنگ کی استعاراتی تصویر کشی کی گئی ہے، حسین عابد کی نظم “جنگ” میں اُسی عالمی صورتِ حال کا نقشہ اتارا گیا ہے، جو اس کا اصل سبب ہے۔
دنیا بھر میں گزشتہ چند برسوں میں جو موسمیاتی تغیرات، انسان کو ہولناک خطرات سے دوچار کرنے کے لیے رونما ہو رہے ہیں۔ حسین عابد کی اس نظم میں اُن اسباب کو بیان کیا گیا ہے جن کا تعلق عالمگیر معاشی جنگ اور اُس سے وابستہ صنعتی سرگرمیوں سے ہے۔
زمیں اپنے محور پہ گردش میں ہے
رات دن کے تسلسل یہ سورج کا فرمان لاگو ہے لیکن
کہیں رات دن کی طرح جگمگانے لگا ہے
کہیں دن کی پیشانی تاریک ہے

تپتے، سرد، مرطوب خطوں سے اُٹھتے بخارات
بادِ شمالی، جنوبی، سموم و بہاراں
کی تشکیل کے عمل خود کار میں ہیں
بخارات کی ماہیت کا تعین مگر
اب کسی اور کے ہاتھوں میں
جسے صرف بادِ تجارت سے دلچسپی ہے(۹)
اس عالمی بادِ تجارت نے فطری ماحول کو متاثر تو کیا ہے لیکن عام انسان زمین پر اپنی زندگی کرنے پر مجبور ہے کہ اُسے کوئی طاقت پرواز نہیں دی گئی کہ وہ کسی اور کُرے پر ہجرت کر جائے۔ جاوید شاہین کی نظم “پانی، درخت اور پرندے” میں پرندوں کی زمین سے ہجرت کا المیہ بیان کیا گیا ہے۔ اس نظم میں پرندوں کو محض فطرت کے مظہر کے طور پر نہیں دکھایا گیا بلکہ مفکر اور متفکر وجود ظاہر کیا گیا ہے۔
نظم کا مرکزی کردار ایک ایسی جگہ کھڑا ہے جہاں ماضی میں پانی کے جھرنے تھے اور انسانوں کو درختوں کا گھنا سایہ دستیاب تھا مگر اب یہ سائبانی عدم دستیاب ہے،۔ اس بنجر اور بے آباد فضا کو دیکھ کر نظم کا مرکزی کردار اپنے ہم عصر فرد کو اپنا اندیشہ بیان کرتا ہے:
کہیں ایسا تو نہیں کہ وہ ہجرت کر گئے ہوں؟
خدا نہ کرے
یہ تو دل ہلا دینے والا خیال ہے
ایک برا شگون
اگر یہ صحیح ہے
تو پھریقینا انھوں نے سوچا ہوگا
کہ جہاں دیکھتے ہی دیکھتے پانی غائب ہوگیا
درختوں کی پناہ گاہیں ویران پڑ گئیں
وہاں گزر کیسے ہو گی
پھر تو وہ بہت دور اندیش نکلے
ہم تم سے زیادہ(۱۰)
نصیر احمد ناصر کی نظم “ابد کے پرندو” میں زمین اور اُس کی ماحول دشمن فضا سے ناراض پرندوں کو آخری بار منانے کی کوشش کی گئی ہے۔ نظم کا مرکزی کردار گھر کے صحن کو آراستہ کر کے کھڑا ہے مگر اُس سے کلام کرنے والا کوئی نہیں۔ اُس کی آراستگی کی یہ کوشش بھی آخری ہے اور اس امید پہ ہے کہ روٹھے ہوئے پرندے واپس آجائیں گے اور یہ بھی ممکن ہے کہ ان پرندوں کی واپسی سے وہ لوگ بھی لوٹ آئیں جو اُسے چھوڑ کر چلے گئے۔
نظم “ابد کے پرندو” تخلیق کار کے لہجے اور نظم کی تمثالی فضا میں خوبصورت ارتباط نظر آتا ہے۔ پرندوں سے جس اسلوب میں شاعر مخاطب ہوا ہے اُس میں التجا کا عنصر بھی ہے مگر انسان اور فطرت کے تعلق کا مان بھی نظر آتا ہے۔
ابد کے پرندو!
مرے پاس آؤ
مری چھت پہ بیٹھو
اتر آؤ نیچے
اتر آؤ، اتنی بلندی پہ اُڑنے کا حاصل فقط لازمینی ہے
دیکھو، یہی دور بینی ہے
نیچے اتر کر فلک سے
مری چھت سے جھانکو زمیں پر
مری بالکونی میں چہکو
مرے گھر کے پیڑوں پہ اُچھلو
ہر اک پھل کا رس چوس لو، خوب چونچیں بھی مارو
مرے ساتھ کھیلو
میرے لان میں کرسیاں ہیں
ابھی گھاس بھی سبز ہے اور تراشی ہوئی ہے
مگر بیٹھنے والے سب جا چکے ہیں
میں خود بھی کھڑا ہوں
ابھی چل پڑوں گا
تمہارے پروں کی ہری پھڑپھڑاہٹ سنوں گا
تو کچھ دیر رک ر ک کے دیکھوں گا
پودوں کو، پھولوں کو، مہکے ہوئے منظروں کو
انھی منظر وں میں کہیں میں بھی تھا، تم بھی تھے، زندگی تھی

ابد کے پرندو!
مرے پاس آؤ
نہیں تو مجھے پاس اپنے بلا لو
مجھے اپنے اجلے پروں کی ، ابد خیز چھایا بنا لو
مجھے اپنی کایا بنا لو
تمہیں دیکھتے دیکھتے تھک گیا ہوں
میں اڑنے لگا ہوں!! (۱۱)
عصری نظم نے جدید متمدن طریقہ زندگی کا احاطہ کرتے ہوئے ماحولیاتی مسائل کا متنوع جہتوں سے تخلیقی اظہار کیا ہے۔ ایک طرف تو ہمارے شعرا نے فردِ نو کا خواب دیکھتے ہوئے ایک ایسے انسان کا تصور پیش کیا تھا جس کے ظہور کے بعد کرۂ ارض پر دیو کا سایہ پاک ہو جانا تھا لیکن دوسری طرف زمینی حقائق یہ  ہیں کہ یہ سایہ بڑھ کر زرد آسمان بن گیا ہے۔ انسانی کشت و خون تو صدیوں سے چلا آرہا تھا مگر فی زمانہ مسائل نے ایسی گمبھیر شکل اختیار کی ہے کہ درختوں کا قتل بھی شروع ہو گیا ہے۔ ایک طرف انسان اپنے معاشی مسائل کے باعث ہجرت پہ مجبور کر دیے گئے ہیں تو دوسری طرف آلودہ ماحول نے پرندوں کو بھی نقل مکانی کا پروانہ دے دیا ہے۔
ماحولیاتی آلودگی نے کرۂ ارض کو ایسا بدشکل کر دیا ہے کہ انسان اس دنیا میں آنے سے پہلے خدا سے ماحول کی پاکیزگی کا عہد لیتا ہے مگر اپنے جنم کے بعد خود کو بطن مادر سے باہر لیکن آلودگی کے باعث رحم نہنگ کے اندر محسوس کرتا ہے۔
جدید متمدن ماحول میں ایک عام آدمی اس امر پر حیران نظر آتا ہے کہ وہ جن موسموں میں سانس لینے پر مجبور کر دیا گیا ہے۔ اس کے ابر وباراں تجارتی خداؤں کی دسترس میں آگئے ہیں۔ کاش وہ پرندوں کی طرح طاقتِ پرواز رکھتا تو کسی کشادہ اور تازہ ماحول کی طرف ہجرت کر جاتا، وہ پرندوں کو آواز دیتا ہے ، انھیں واپس بلاتا ہے مگر طائرانِ خوش رنگ و خوش نوا اس فضائے بد رنگ میں پلٹنے کو آمادہ نہیں۔
معاصر نظم گو شعرا نے ماحولیاتی مسائل کی عکاسی کرتے ہوئے اپنے عصر کے کئی ایک حقائق کو ایک امتزاج کے ساتھ پیش کیا ہے اور اس حقیقت سے پردہ اٹھایا ہے کہ ماحولیاتی مسئلہ فی نفسہٖ کوئی اکائی نہیں ہے بلکہ اُن متنوع مسائل میں سے ہے جو ایک دوسرے کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔ معاش اور آبادی کے مسائل سے لے کر عالمگیر تجارتی جنگ کے مسائل تک ایسے معاملات ہیں جو ماحول کو بدشکل بنانے میں اپنا اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔ ماحولیاتی مسائل پیش کرتے ہوئے جدید نظم نگاروں کا استعاراتی طرزِ اظہار بھی توجہ کھینچتا ہے۔ بعض نظمیں ابہام کے باوجود اپنی مجموعی فضا کے باعث معنوی سطح پر نہ صرف مفہوم واضح کرتی ہیں بلکہ اثر انگیزی کے لحاظ سے بھی اہم ہیں۔ ان نظموں میں اسلوب کی سطح پر تاثیر کا بڑا سبب تمثیلی اور تمثالی ماحول ہے۔ شعرا نے ماحول کی آلودگی یا دوسری صورت میں پاکیزگی اور شادابی کے اظہار کے لیے اپنے موضوع سے مناسبت کی حامل پُرتاثیر تصاویر بنائی ہیں نیز عام اور حساس افراد کے کردار بھی لائق توجہ ہیں جو خارجی ماحول کی تبدیلی کے باعث انسان کی داخلی متاثرہ فضا کا ایک متاثر کن اظہار ہیں۔


حوالہ جات

 

۱۔        مجید امجد، کلیات مجید، مرتب: ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا، ماورا پبلی کیشنز، لاہور،۱۹۹۱ء، ص۳۲۶
۲۔       ڈاکٹر وزیر آغا، چہک اُٹھی لفظوں کی چھاگل، مکتبہ فکر و خیال، لاہور، ۱۹۹۱ء، ص۱۸۳
۳۔       ایضاً، ص۲۲۵
۴۔       انیس ناگی، زرد آسمان، جمالیات، لاہور، ۱۹۸۵ء، ص۲۲۹
۵۔       تبسم کاشمیری، تمثال،قوسین ، لاہور، ۱۹۸۴ء، ص ۷۲
۶۔        کشور ناہید،فتنہ سامانی دل، سنگ میل پبلی کیشنز ، ۱۹۸۵ء،ص۱۹۴
۷۔       رفیق سندیلوی، غار میں بیٹھا شخص ، کاغذی پیرہن، لاہور، ۲۰۰۷ء، ص۶۲
۸۔       ایضاً، ص۲۳
۹۔        حسین عابد، دھندلائے دن کی حدت، دستاویز مطبوعات، لاہور، ۲۰۱۰ء، ص۳۷
۱۰۔      جاوید شاہین، عشق تمام، سنگ میل پبلی کیشنز، ۱۹۹۳ء،ص۱۶۰
۱۱۔       نصیر احمد ناصر، ملبے سے ملی چیزیں، سانجھ پبلی کیشنز، لاہور، ۲۰۱۳ء، ص۲۳

اوپر جائیں  |   پرنٹ کیجئےِ
انگریزی ورژن ای میل چیک کریں مرکزی صحفہ پرنٹ پسندیدہ سائٹ بنائیں رابطہ کیجئے www.shahzadahmad.com www.shahzadahmad.com