وجود کی معنویت اور انور سجاد

ڈاکٹر رانی صابر علی۔ اسسٹنٹ پروفیسر شعبہ  اردو، پوسٹ گریجویٹ کالج برائے خواتین ساہیوال

ABSTRACT

Anwar Sajjad (b. 1934) famous art critic, drama writer, drama artist and culture figure of south-Asia is one of the pioneer novel writers in Urdu language on themes related to Existentialism. This brief article is an attempt to analyze his famous novel “Khushiyon ka Baagh” (Garden of Delights). It is exposed that, as name suggests, the theme and main idea of the novel is influenced byHieronymus Bosch, and his famous painting “The Garden of Earthly Delights”. However, the plot and story distract very strikingly where Anwar Sajjad presents his peculiar world view and the very rationale of human life informed by Existentialism. At political backdrop the novel claims that poverty and problems of the poor nations are results of policies and plans by few rich nations. Thus, the novel presents a unique blend of existentialism and post-colonialism in its themes and treatment.
 
Key Words: Anwar Sajjad; Hieronymus Bosch; Urdu Novel; Existentia-lism; Postcolonialism; Khushion ka Baagh;

انورسجاد(1934) کا'' خوشیوں کا باغ" جو کہ 1981ء میں سامنے آیا۔ وجودی فکر کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ یہ ناول بنیادی طور پر بوش کی تصاویر سے متاثر ہو کر لکھا گیا ہے۔بوش پندرہویں صدی کے وسط میں پیدا ہوا اور 1510ء میں فوت ہو گیا۔ بوش کو اپنے دور میں بہت قدرومنزلت حاصل تھی۔مصوری پر اُس کے نقوش بہت گہرے ہیں۔اس کا ذکر اس لیے بھی اہم ہے کہ اس نے روایات سے ہٹ کر شاعری کی اس کے دور میں جادو اور شیطانی طاقتوں پر لوگوں کا اعتقاد بہت زیادہ تھا۔جبکہ کلیسا اس کے بالکل خلاف تھا۔  کلیساء کے نزدیک جادو ہر روپ میں بہت برا تھا۔ بوش سے پہلے پوپ بھی جادو کے خلاف اپنی مہم چلا چکا تھا۔بوش کے زمانے تک جادو کے خلاف باقاعدہ عدالتی نظام قائم ہو گیا اور کلیساء کی محبت کے دعویداروں  نے تشدد پسندی سے بھی کام لیااور بہت سے لوگوں کو موت کے منہ میں اُتاردیا۔ بوش کی تصاویر مختلف موضوعات پر ہیں تاہم انور سجاد نےاس کی فیٹسی پر مبنی تصاویر سے جو کچھ اخذ کیا اُسے"خوشیوں کا باغ" میں بیان کرنے کی کوشش کی ہے۔ بوش کی تصویر" زمینی خوشیوں کا باغ" میں مصنف کا یہ احساس واضح ہے کہ  گناہوں کے بعد ایک فطری خوف پیدا ہوتا   ہے ۔اس پینٹنگ کے تین حصے ہیں اول حو اکی تخلیق دوئم خوشیوں کا باغ اور سوئم موسیقی کا جنم۔ناول نگار نے آغاز میں جس کا ذکر کیا ہے۔یہ ایک ایسا شہر ہے ۔جہاں نااُمیدی ،مایوسی اور ناکامی نے ڈیرے ڈال رکھے ہیں۔ یہاں پر ہر فرد اپنے وجود کی معنویت ایک المناک ویرانے سے موسوم کرتا ہے۔ ان کی ہستی ایک ایسا شہر ہےجہاں پر کوئی بھی کسی سےمخلص نہیں ہے۔ریا کاری، دھوکا، فریب ، سازشیں اور آپس کی منافقت نے دلوں کو نہ صرف یہ کہ ایک دوسرے سے دور کر دیا ہے۔بلکہ ہر لمحہ فرد کو اپنے عقب سے کسی نہ کسی وار کا خطرہ ہے۔ اس ناول میں مرکزی کردار بھرے پرے شہر میں تنہا ہے۔
جسموں کے اوپر رکھے سر ایک دوسرے سے لاتعلق ہیں اورکسی دوسرے وجود سے انکاری ہیں اس معاشرےمیں ہر طبقے کے لوگ ہیں گول گپے،جوس کی ریڑھیاں لگانے والوں سے لے کر بڑے بڑے صنعتکار جو سوچی سمجھی اسکیموں کے تحت زندگی کی بازی جوا سمجھ کر کھیلتے ہیں۔
"بڑے عجیب ہیں یہ لوگ اسٹاک مارکیٹ کے منجھے
            ہوئے اپنی داستانیں خوب سوچ سمجھ کر داؤ لگاتے ہیں" (1)

وجود کی بے بسی اور اس کی حسّوں کے ہر قسم کے انکاری ممکنات نے مصنف کا زاویہ زندگی کی طرف منفی بنا دیا ہے۔وہ ایسے معاشرے میں سانس لے رہا ہےجہاں  پر سیاسی بحران اور جبری طاقتیں اُسے اقتصادی بحران کی طرف لے جاتی ہیں۔ اس کا وجود کل میں مدغم ہو کرا پنی طاقت اور حیثیت کھو دیتا ہے۔ راوی کےذہن میں بہت سے سوالات کھلبلاتے ہیں۔وجودی فلسفہ اُسے اکساتا ہے  کہ وہ اپنے ہو  نے کو ثابت کرے اور دنیا میں اپنے ہونے کو اپنے عمل سےواضح کرے؛
"آپ جو جیل میں ہیں وہ طریقے سمجھ نہیں پاتے جو آپ کو جیل میں بھیجنے والے اختیارکرتے ہیں ۔یہ باہر والے چور کبھی جیل میں نہیں آئے ۔ میں سمجھتا ہوں کہ ان باہر والوں میں سے بہت سے ایسے ہیں جنہیں جیل میں ہونا چاہیے۔۔۔۔۔۔۔ایسا کوئی نظام ، کوئی، قانون موجود نہیں ۔قانون اس کی حفاظت کرتا ہےجس کے قبضے میں دنیا ہے۔قانون کا مقصد کبھی یہ نہ تھا کہ اس سے انصاف کا کام لیا جائے جب کوئی جرم کرتا ہے تو اس سے یہ مطلب نہیں لیا جاتا کہ مجرم                                   نےاخلاقی امن برباد کرنے کی کوشش کی ہے۔"(2)
انور سجاد کا نقطہ نظر ہے کہ عالمی اقتصادی طاقتیں بظاہر تو دوسری اقوام کو قوت دیتی ہیں لیکن سیاسی آزادی کے دوران ہی مالدا ر قو میں ان کا استحصال کر کے ان کو معاشی بحران میں دھکیل دیتی ہیں۔یہی وجہ ہے کہ آج تک ان اقوام کی حالت نہیں بدلی ہےاور ان کا مقدر قحط، بھوک اور خسارہ ہے۔ چیف اکاؤنٹنٹ،انکم ٹیکس کے گوشوارے بڑی کامیابی سے مکمل کرتا ہے۔ مگر جب ماں کی وفات والی رات بھی اسے زبردستی یہ کام کرنا پڑتا ہےتو خود بخود اس کا قلم انکاری ہوجاتا ہےاور ایسی غلطیاں کر جاتا ہےجس کی سزا اسے بعد میں بھگتنی پڑتی ہے۔ وہ ایک ایسے معاشرے میں ر ہ رہا ہےجہاں اُس کی ہر غلطی کی سزا ملے گی اور کسی بھی غلطی پر اُس کی معافی نہیں ہے۔ استحصالی معاشرےکو مصنف طنزیہ انداز   میں بار بار صاحبان، مہربان ،اور قدر ان کے لفظوں سے پکارتا ہے۔کیونکہ یہ طاقتیں کٹھ پتلی انسانوں کی ڈوریاں ہلاتی ہیں اور اپنی مرضی کے مطا بق کام لیتی ہیں۔انسانوں کی کوئی اہمیت نہیں سوائے اس کے کہ وہ بچہ جمورا کی طرح ہاتھوں اور پیروں پر طمانچے کھاتے ہیں۔
"زندگی امیدوں کی اجارہ داری ہے جناب سفید اُمیدوں کا سرچشمہ ہے جناب مجھے اپنے رنگ سے نفرت ہے جناب میرا رنگ کوئی نہیں جناب شکریہ۔ جناب آپ کا وفادار غلام آپ کی صحبت اور نظر کرم  کا   بھکاری جناب۔۔۔۔۔"(3)
''خوشیوں کا باغ" میں راوی ،اس کی محبوبہ اس کی بیوی بچے،زانی عورت،استاد سپرنٹنڈنٹ جیل اور کمپنی کے ڈی ایم کے کردار ہیں جوا پنے ہونے کا احساس راوی کی زبانی بتاتے ہیں۔
چائے کے باغات کے مینجر کا کردار تین صفحات پر سامنے آتا ہے۔لیکن پورے ناول پر پھیل جاتا ہے۔اس کی بیوی کا تجزیہ اور شوہر کے ساتھ اس کے تعلقات اور ان کے نتیجے میں اس کی زندگی جس طرح سے متاثر ہوتی ہےناول میں اس کا بیان خاص دلچسپی سے کی گیا ہے۔ یہاں پر ناول نگار کا انقلابی نظریہ کھل کر اُسی وقت سامنے آتا ہے جب ہجوم مشتعل ہو کر مینجر پر حملہ کر دیتا ہے۔باغی اور انقلابی اس پر اس قدر تشدد کرتےہیں کہ وہ شہر چھوڑ کر بھاگ جاتا ہےاور مزاروں پر حاضر ی دیتا ہےاور چلے کاٹنے شروع کر دیتا ہے۔ کرداروں پر جنگ کا خوف ہے۔جنگیں جو ملکی سالمیت کو نقصان پہنچاتی ہیں  ملکوں کو بے سکونی سے ہمکنار کرتی ہیں ۔ایسی ہی جنگ کے خوف کا اثر کرداروں پر اس قدر ہے کہ صرف خوف ہی سے راوی کی بیوی کاحمل ضائع ہو جاتا ہے۔ ناول میں سزا کے لیے اُن لوگوں کو پیش کیا گیا ہے جو نچلے طبقے سے تعلق رکھتے ہیں اس سے اوپر گریڈ کے لوگوں کے لیے صرف مراعات ہیں۔ان کےلیے کوئی سزا نہیں۔
"زیادہ علم خطرناک ہو تا ہے"کے ضمن میں جو واقعہ مصنف نے پیش کیا ہے اس کے ذریعے علم کی قدر نہ ہونے کا احساس دلانے کی کوشش کی ہے۔واقعہ اگرچہ مختصر ہے مگر اس کے معانی کے لیے بہت سے صفحات درکا  ر ہیں۔
ناول میں بہت سی حکائتیں ہیں جن کے ذریعے سیاسی رہنماؤں اور لیڈر وں پر لطیف طنز کیا گیا ہے کہیں پر رومانی طرز عمل ہےمگر معاشرتی بے حسی کا لبادہ اوڑھ کر آتا ہے۔کم عمر کی نوجوان لڑکی کے اُبھرتے اور جوان ہوئے احساسات کیا چاہتے ہیں اور زندگی کو کس طرح سے گزارنا چاہتے ہیں ان سوالوں کا جواب انور سجاد نے دینے کی کوشش کی ہے ۔سرمایہ دارنہ نظام نے جس طرح ہر چیز پر اپنا قبضہ جما لیا ہےاور مشینوں کی کھڑکھڑ اہٹ نے جس طرح دل و دماغ بند کئےہیں  روبوٹ قسم کے انسان بنا دئیے ہیں چیف اکاؤنٹنٹ اس کی نمائندگی کرتا ہے۔یہ سرمایہ دارانہ نظام اس قدر خوبصورت طریقے سے حملہ کرتا ہے کہ آغاز میں اس کی دی گئی مراعات کے سامنے دنیا کی ہر طاقت  ہیچ نظرآتی ہے۔مگر جب تک اس کی حقیقت کے اثرات کھلتے ہیں تب تک دماغ اتنا شل ہو چکا ہوتا  ہے کہ پھر کچھ اور کرنے کے قابل نہیں رہتا ۔ انور سجاد کے ناول میں اسی صورت حال کو بڑے جذباتی اندا ز میں پیش کیا گیا ہے۔ ناول کا یہ حصہ دیکھیے؛
اور یہ بھی سنا ہے کہ سرمایہ دار خوشحال معاشروں نے ہٹلر کے  دور سے لےکر آج تک منظم گروہی قتل میں بے پناہ مہارت حاصل کر لی ہے اور ان کی آخری ضرورت خام مال اور منڈیوں پر قبضہ ہی نہیں بلکہ آدم کی اس نسل پر مکمل قبضہ ہے۔جنہیں زندگی کے معانی سے  منہا کر دیا گیا ہے کہ بالآخر وہ ان کی ہڈیوں پر اپنے بھی اہرام تعمیر کر سکیں۔ بے حقیقت ، محرومیوں ،ذلتو ں کے                                   مارے لوگ  افتادگان خاک" (4)
راوی جو کہ چیف اکاؤنٹنٹ ہے جیل میں ہے۔ اس سے تمام مراعات چھینی جا چکی ہیں۔اس کے گھر والوں کو کمپنی کا  خوبصورت بنگلہ اور گاڑی چھوڑنی پڑی ہے۔ کیونکہ بے حسی کے لبادے میں سے اچانک ہی وہ شخص نکل آتا ہے جس کو ایک عرصے سے اپنی پہچان بھو ل چکی تھی۔ اس ناول میں بوش ایک اساسی کردار کے طورپر موجود ہےکیونکہ مصنف اسی کا نظریاتی کردار ہے ۔ اس کے بارے میں فاخرہ تحریم کا خیال ہے 
"واحد متکلم ایسا کردار ہے ۔ جو اپنے ناول  "خوشیوں کا باغ" میں درحقیقت اس عہد کا بوش نظر آتا ہے بوش کے عہد اور موجودہ دور میں پوری مطابقت موجود ہے  اس عہد کے معتقدات و تصورات اس عہد میں بھی برابر مرو ج ہیں نیز انسانوں کی اجتماعی کیفیت اور فرد کی ذاتی حالت دونوں زمانوں میں ایک جیسی دکھائی دیتی ہے" ۔ (5)
انورسجاد نے چھوٹی بڑی حکایتوں اور مختلف علامتوں کے ذریعے فرد کی بے چینی ، عدم تحفظ،معاشی ناہمواری اور بے یقینی کو اپنے ناول میں سمویا ہے۔ سیاسی، سماجی ،معاشی اور اقتصادی تبدیلیوں کو چھوٹے بڑے کرداروں کے ذریعے بیان کیا گیا ہےاور بعض اوقات صرف ایک سطر میں پورا سیاسی اور سماجی منظر نامہ بیا ن کر دیا ہے۔
انور سجاد کا ناول"جنم روپ" جو کہ1985ء میں سامنے آیا اس کا موضوع زمین اور اس کے ہونے کا احساس ہے یہ دھرتی وہ ہے جسے پاکستان کا نام دیا گیا ہےاور اب یہ دھرتی پامال ہو تی دکھائی گئی ہے۔عورت اور دھرتی کو ایک جیسے عمل کا متقاضی دکھایا گیا ہے۔
دونوں ہی بے بس ہیں۔اور آزادی سے دور ہیں۔" جنم روپ" میں بھی بوش ہی کا عکس ہے اس کی تکنیک بھی وہی ہے جو "خوشیوں کا باغ" کی ہے۔یوں لگتا ہے کہ جیسے مصنف کے ذہن میں کچھ واقعات ہیں جن کو وہ جوڑنا چاہتا ہے اگرچہ اس کوشش میں کہانی متاثر ہوتی ہے مگر مصنف ہر حال میں اسے اختتام تک لانا چاہتا ہے۔ "جنم روپ" اپنے تاثر میں ویسا تو نہیں جیسے'' خوشیوں کا باغ ''ہے لیکن پھر بھی یہ اپنی بھر پور آواز رکھتا ہے اور اندھیرے کو اُجالے میں بدلنے کی ایک خوبصورت سعی بن کر کہانی سے دلچسپی رکھنے والوں کے جذبہ شوق کو اُبھارتا ہے۔

حوالہ جات

1 ۔       انور سجاد"خوشیوں کا باغ" سنگ میل پبلی کیشنز لاہور 2010ص20
2 ۔       ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ص 24
3 ۔       ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ص28
4 ۔       ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ص99
5 ۔       فاخرہ تحریم "اُردو ناول کے بیس سال" غیر مطبوعہ مقالہ برائے ایم فل اُردو بہاؤ الدین زکریا یونیورسٹی ملتان 2005ص30


اوپر جائیں  |   پرنٹ کیجئےِ
انگریزی ورژن ای میل چیک کریں مرکزی صحفہ پرنٹ پسندیدہ سائٹ بنائیں رابطہ کیجئے www.shahzadahmad.com www.shahzadahmad.com