فکر اقبال کی تشکیل میں تعلیمات و انوار محمدی ﷺ کی معنویت

  (اردو نظموں کے تناظر میں)

ڈاکٹر انور الحق۔  شعبہ اردو، جامعہ پشاور۔

ABSTRACT:

The rays of the revolutionary thoughts of Muhammad (PBUH) could be easily observed in the Urdu as well as in Persian poetry of Allama Muhammad Iqbal. That is the only source of inspiration for Iqbal and the effect of the glorious thought of that great personality in human history has influenced the poetry of Iqbal. Iqbal has analyzed the all the contemporary systems of life for example Capitalism , Socialism , Communism , democracy , fascism and compared these systems with Islamic way of life and  with the thoughts of Muhammad (PBUH). In this research paper the researcher has analyzed the affects of teachings of Muhammad (PBUH) on the poetry of Iqbal in full detail.
 
Key Words: Iqbal; Iqbal and Religion; Iqbal and the Prophet; Religion and Literature

علامہ اقبال کی پوری شاعری میں حیات و تعلیماتِ محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا موضوع ایسا پُر بہار، جاں فزا اور دل کشا موضوع ہے جس نے کلامِ اقبال کو غیر معمولی وُقعت، قوت، صلابت اور کیف و سرور کی حیرت انگیز کیفیات بخشی ہیں۔پھر جہاں تک علامہ اقبال کی اُردو نظموں میں ذکرِ رسولﷺ کا تعلق ہے، تو وہ ” بانگِ درا “ سے لے کر ” ارمغانِ حجاز “ تک فنی و فکری دونوں حوالوں سے غیر معمولی تنوع کا حامل ہے، جس کے لیے اقبال نے حضورِ پُر نورؐ کے حقیقی نام ( محمدؐ ) کے علاوہ احمدؑ، ختم الرسلؑ، رسالتِ پناہؑ، رسالتِ مآبؑ، رسولِ امینؑ، رسول مختارؐ، رسولِ پاکؐ، رسولِ عربیؐ، رسولِ ہاشمیؐ، سرورِ عالمؐ، سید ہاشمیؐ، شہ لولاکؐ، شہنشاہِ معظمؐ، صاحبِ لولاکؐ، کملیؐ والے، مصطفیٰؐ اور مولائے کلؐ جیسے عظیم القابات استعمال کیے  ، البتہ یہ حقیقت اپنی جگہ مسلم ہے کہ علامہ ہمیشہ ملتِ اسلامیہ سے شکوہ سرا رہے کہ حقیقی محمدی تعلیمات فراموش کرکے ”آج کے مسلمان“، تقلیدِ فرنگ میں الحاد، بے دینی اور فرسودگی سے بھر پور تعلیمات کے پیرو بن گئے، یہ اظہار اُن کی معروف نظم ”جوابِ شکوہ “میں  خوبصورت انداز میں  ملتا ہے۔
علامہ کے مطابق افرادِ امتِ مسلمہ جواہر جہاں گیری و جہاں بانی کھو بیٹھے ، اُن کے ہاتھ بے زور اور دل الحاد سے بھر گئے اور ” بُت شکنی “ پر اُتر آئے، مادیت، الحاد، تشکیک اور سرمایہ داری کے بُتوں کی پُوجا میں مذہب اور دینِ اسلام کو خیر باد کہہ گئے، اوصافِ حجازی کھو کے یہود و نصاریٰ کی تمدن اپنا لی اور محمدیؐ ہونے کی بجائے سید، مرزا، افغان، شیعہ، سُنی، وہابی، بریلوی، دیوبندی اور اہلِ حدیث وغیرہ میں بٹ گئے۔ اسلاف کی عظمت کھو کے اغیار کی عظمت دلوں میں سمالی، لہٰذا اِسی لیے تو حکمران سے غلام بن گئے، اِسی حالت میں وہ اُمتِ مسلمہ کے ضمیر کو اپنی  نظموں میں خوب  جھنجھوڑتے ہیںاور اِس حوالے سے اقبال کے مخاطب تمام انسان ہیں، کیوں کہ حضورؐ تمام انسانوں کے لیے رحمتہ اللعلمین بن کر آئے نہ کہ صرف مسلمانوں کے لیے اور اس لیے’’ جہاں جہاں رب اللعلمین کی ربوبیت ہے، وہاں وہاں محمد مصطفیؐ کی رحمتہ اللعلمینی کے پرچم لہرا رہے ہیں۔“(۱)
اقبال کی اُردو نظمیں حضورؐ کے مبارک تذکرے سے بھری پڑی ہیں اور وہ اِس وجہ سے کہ اقبال کے مردِ مومن کی سب سے بہترین مثال حضورِ اکرم رؐ کی ذات مبارکہ ہے، ”رسولِ اکرمؐ کی ذات کی صورت میں اُن کے سامنے مکمل ترین انسان کا نمونہ موجود تھا اور اِسی پر اُنھوں نے اپنے مردِ مومن کا تصوّر استوار کیا۔“۔(۲) اِسی لیے تو علامہ اقبال کی فکری اور قلبی آشفتگی کا مرکز و محور اُسوہحسنہ اور سیرتِ مقدّسہ کی وہ ادائیں ہیں جو حکمتِ قرآن سے جلا پاتی ہیں، اور پھر وہ عشقِ مصطفیؐ کے نغمات کی صورت میں اُن کے کلام میں ضیا بار ہو جاتی ہیں۔ یوں تو علامہ کی نظموں میں جلال و جمالِ مصطفویؐ کے ہزاروں کرشمے جلوہ گر ہیں، لیکن ”واقعہ معراج “ کو انہوں نے جدید علمِ کلام کی صورت میں دیکھا، پرکھا اور پھر تصوّراتِ قرآنی کے تناظر میں نظم کے رنگین لبادے جس انداز میں پیش کیا وہ واقعی قابلِ داد ہے، اقبال نے اِس واقعہ کو انسان کی غیر معمولی امکانی شخصیت اور تسخیرِ زماں و مکاں کی ایک نادر کڑی کے طور پر پیش کیا  اور اس حوالے سے "بانگِ درا "  کی چھوٹی سی نظم  "شبِ معراج "  قابل ِ داد ہے۔  ضربِ کلیم،  میں بھی معراج  کے عنوان سے ”چار“ اشعار پر مشتمل ایک نظم شامل ہے، لیکن ”ضربِ کلیم“ تک پہنچتے پہنچتے اُسلوب کے ساتھ ساتھ فکر و فلسفہ میں بھی پُختگی اور وُسعت نمایاں طور پر ہے۔اقبال کے اِس نقطہ نظر کے حوالے سے ڈاکٹر بصیرہ عنبرین لکھتی ہیں :
علامہ نے اُسے ( واقعہ معراج کو ) انسانی قویٰ کی بیداری، حرارت، جرات و ہمت اور صبر و استقامت کے استعارے کے طور پر پیش کیا ہے“۔(۳)
زمان و مکان کی تسخیر حیاتِ انسانی یا انسانی خودی کی معراج ہے، علامہ زندگی میں تڑپ اور مقصدِ زندگی کو پانے کے لیے دل میں عشق کے جذبے کی سرشاری کے علاوہ اس میں قوتِ اخلاقِ رسولؐ کی بّراقی چاہتے ہیں، جو عشق ہی سے حاصل ہو سکتی ہے ۔۔۔ یہ عشق، اقبال کی نظر میں شعاعِ آفتاب ہے جس کے سوز سے انسان کے قلب و نظر میں حرارت پیدا ہوتی ہے اور یہی سورج کی کرن فکر و نظر کو علمی حسن عطا کرتی ہے، اقبال  ضربِ کلیم کی نظم ’’ایک فلسفہ زدہ سید زادے کے نام ‘‘  میں دین کو سر محمد  ؐ و ابراہیم ؑ قرار دیتے ہیں ۔لیکن چُوں کہ اُمتِ مسلمہ کے افراد بعض تو تقلیدِ فرنگ اور تہذیب و تمدنِ مغرب کی پیروی میں دین ِ حقیقی کو مکمل بُھلا بیٹھے اور بعض نے غلط عقائد و رسومات سے دینِ اسلام کی حقیقی رُوح مسخ کر دی، یہی چیزیں اقبال کے دل کے لیے کٹاری اور خنجر بن جاتے ہیں، اور اسی کا شکوہ وہ ” ضربِ کلیم “ کی نظم ” اے رُوح محمدؐ “ میں حضورِ پُر نورؐ  سے بہت دل گداز انداز سے کرتے ہیں ۔
علامہ نے اپنی نظم ” امرائے عرب “ میں مُسلم دُنیا کو یہ منضبط، مبسوط اور جان دار فلسفہ دیا کہ حضورؐ کی ذات تما م دُنیا کے بکھرے مسلمانوں کے لیے وحدت کی ایک مضبوط ڈور ہے، لہٰذا عرب سے مراد عراق، نجد یا حجاز نہیں بلکہ اس سے مراد ترکی، ایران، افغانستان، پاکستان الغرض جہاں جہاں محمدؐ کا اُمتی ہے وہ عالمِ عربی کا حصہ ہے، لہٰذا تاریخ گواہ ہے (اقبال سے پہلے بھی) کہ جب جب اس فلسفہ پر اُمتِ مسلمہ چلی جہاں گیری و جہاں بانی اُن کے ہاتھوں میں تھی، اور جہاں اِس تعلیم کو بُھلایا دیا وہاں غلامی کی چکی کے نیچے آگئے، اور اس کی طرف علامہ نے اپنی نظم ” اہلِ مصر “ سے میں بھی واضح اشارہ کیا ہے۔اقبال کا کمال یہ ہے کہ جہاں اُنھوں نے اُمتِ مسلمہ کو غلامی سے نجات دلانے اور دوبارہ عظمتِ رفتہ حاصل کرنے کا فلسفہ دیا، وہاں فرنگی سیاست کو اپنی نمائندہ نظم ” ابلیس کا فرمان اپنے سیاسی فرزندوں کے نام “ میں بہ کمالِ رعنائی  بے نقاب کیا  ہے ۔
مذکورہ نظم میں اقبال نے مومن کی ساری قوت و توانائی ، طنطنہ و دبدبہ، رعب و جلال، قوتِ ایمانی اور جذبہقربانی کی وجہ، اس کے بدن میں رُوحِ محمدؐ کی موجودگی کو قرار دیا، اور صرف یہی نہیں بلکہ اقبال نے بنی نوعِ انسان کے جملہ مسائل کا حل آئینِ پیغمبر ( دینِ محمدیؐ ) کو قرار دیا، جس کا اظہار (ابلیس کی زبانی) ”ابلیس کی مجلسِ شوریٰ“ میں  بھی واضح انداز میں  کیا ہے۔
مذکورہ نظم کے آ خری حصے  کو مخصوص سیاق و سباق اور پس منظری حوالوں میں دیکھا  جائےتو ابلیس اپنے جملہ مشیروں کے ساتھ پورے وثوق سے دعویٰ کرتا ہے کہ مشرق و مغرب کا سارا سیاسی و معاشرتی نظام ابلیسی فارمیٹ کے تحت چل رہا ہے، اسلام کے علاوہ سارے قوانین ابلیسی قوانین ہیں، لہٰذا اس سے ابلیس کو کوئی خطرہ نہیں، ہاں ابلیس کو اگر سخت خطرہ ہے تو آئینِ پیغمبر (حقیقی اسلامی قوانین ) سے ہے، کیوں کہ (پوری دنیا) من حیث المجموع تمام ابلیسی نظاموں سے تنگ ہے اور دنیا آئینِ پیغمبر کے علاوہ کہیں بھی سُکھ، چین اور فلاح کی کوئی راہ نہیں، کیوں کہ اسلام نہ صرف ”حافظ ناموسِ زن“ ہے بلکہ مرد آزما اور مردِ آفریں بھی ہے، لہٰذا اقبال جس پیغام کو پوری نوعِ انسانی کی فلاح کے لیے پیش کرنا چاہتے ہیں وہ یہ ہے کہ پوری انسانیت دُنیا و آخرت کی عظیم کامیابیوں کے لیے آئینِ پیغمبر حضرت محمدؐ کی پابند ہوجائے۔
اقبال نے حضورِ اکرمؐ کی سیرتِ مبارکہ کی عظمت کو مزید اُبھارنے کے لیے متضاد کردار ” بو لہب “ کا استعمال کرکے، حضورؐ کے طریقوں سے ماسوا طریقوں کو ” بو لہبی “ قرار دیا۔ اقبال نے مادیت، الحاد، ثنویت، جمہوریت، وطنیت وغیرہ جتنے بھی منفی ابلیسی نظریے ہیں اُن کو ” بو لہبی “ قرار دیا، مزید برآں دینِ محمدیؐ کی اصلی رُوح کو مجروح کرنے یا اس کی راہ میں روڑے اٹکانے کی اجازت وہ کسی کو نہیں دیتے، یہاں تک کہ ” حسین احمد مدنیؒ جیسی ہستی نے جب دہلی کے ایک جلسے میں تقریر کے دوران کہا کہ قومیں اوطان سے بنتی ہیں، یہ بیان: ۹/ جنوری : ۸۳۹۱ءکو دہلی کے جرائد ” تیج“ اور ” انصاری “ میں شائع  ہوا جس پر اقبال نے  مولانا صاحب کی غیر معمولی مخالفت بوجوہاتِ خاص کی  اور وہ معروف ِ  زمانہ قطعہ لکھا جو ارمغانِ حجاز کی آخری نظم سے پہلے درج ہے اور پھر ان سے اخباری خط وکتابت کے ذریعے طویل عرصے تک مذکورہ مسئلہ پر بحث جاری رکھی کیونکہ مولانا صاحب کا مذکورہ مشورہ اپنی غایت و ماہیت کے حوالے سے یقینا ملت اسلامیہ کے لیے نقصان دہ تھا۔ حضورِ اکرمؐ کی ذات با برکات سے علامہ کو جتنی گہری محبت اور اُن کی تعلیمات پہ جتنا پُختہ یقین ہے وہ کسی سے ڈھکی چُھپی بات نہیں، اقبال کے نزدیک یہ جہاں، یہ زندگی، یہ دین، یہ ایمان، یہ مسلمان اور یہ مسلمانی سب کچھ اسمِ محمدؐ ہی کا فیضان ہے، خیمہ افلاک آپؑ ہی کے نام کی برکت سے کھڑا ہے، اور نبضِ ہستی بھی آپؐ ہی کے طفیل جاری ہے، جس کا اظہار  وہ ” بانگِ درا “  کی  معروف نظم  جواب ِ شکوہ کے آخری شعر میں   بھر پور انداز میں کرتے ہیں۔
علامہ کو زندگی بھر زیارتِ رسولِ پاکؐ اور حج کی آرزو رہی اور یہی آرزو وہ قبر میں بھی لے گئے، یہ اظہار نہ صرف اُن کے کلام سے ہوتا ہے بلکہ ” خطوط “ میں بار ہا شدّت سے اُنھوں نے اِس خواہش کا اظہار کیا، وفات سے قبل : ۳۱/ جون :۱۹۳۷ءکو ایک خط میں لکھتے ہیں کہ” تنہا خواہش جو ہنوز میرے دل میں خلش پیدا کرتی ہے، یہ رہ گئی ہے کہ اگر ممکن ہو سکے تو حج کے لیے مکہ  جاؤ۔(۴) اِس حوالے سے حکیم احمد شجاع لکھتے ہیں کہ میں نے اقبال کو متعدد بار دیکھا ہے کہ  حضورِ اکرم ؐ کے ذکر کے ساتھ ہی وہ اشکبار ہوجاتے۔
بہر حال حضورؐ کے حیات و تعلیمات کے حوالے سے  ان کی اردو نظموں میں  بالِ جبریل کی نظم  ’’ ذوق و شوق ‘‘ کا چوتھا بند  ضرب المثل  کی حیثیت  اختیا ر کر چکا ہے ۔ اِس طرح تعلیماتِ محمد ؐ کے حوالے سے اُن کا آخری و حتمی فیصلہ یوں ہے :
کی محمدؐ سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں

                                                                           بانگِ درا ص:308
اقبال ایک عظیم فلسفی اور عظیم تر شاعر تھے، اِس لیے اُنھوں نے فکر و دانش کے مستند ترین اور زرخیز ترین ذرائع چُنتے ہوئے اُنھیں اپنے فکر و فلسفے کا حصہ بنایا پھر اسی فلسفے کی روشنی میں حیات و کائنات کے پیچیدہ مسائل سُلجھانے کی کوشش کی اور یہ ایک حقیقت ہے کہ فکر و دانش اور انسانی علم کے ذریعے کے طور پر نبوت کا مقام سب سے بلند اور مقدم ہے، نبوت کے مطالعے کے بغیر ہم اس ذریعہ علم کی پوری طرح تفہیم نہیں کر سکتے، اِ س لیے کہ کائنات ، علم کے مابعد الطبیعیاتی ذرائع، اس کی وُسعتوں اور حدود کا علم نبوت کے مطالعے ہی سے ہو سکتا ہے“(۵)
اقبال کا دعویٰ محض مولویانہ دعویٰ نہیں بلکہ ایک فطری اور منطقی انداز میں انہوں نے نبوت اور علمِ وحی کو جدید سائنسی اعتبارات کے سانچے میں پیش کیا، اِس لیے ”نبوت اور انبیائے کرام قرآنِ پاک کی روشنی میں“ اقبال کا محبوب اور شوق انگیز موضوع رہا ہے، کیوں کہ اُن کے نزدیک انبیاءکرام اللہ تعالیٰ کی برگزیدہ مخلوق اور انسانیت کے لیے کامل اور شاہ کار نمونے ہیں، جن سے زیادہ خوب صورت تخلیق کائنات میں کوئی نہیں ۔۔۔ علامہ اقبال نے انبیائے کرام کی حیات اور سیرت و کردار کی جو امثال بطورِ نمونہ پیش کی ہیں اور جس انداز سے پیش کی ہیں کسی ذہین سے ذہین انسان، بڑے سے بڑے عالم یا بہت بڑے عقل مند دانا کے لیے بھی اُن کو جھٹلانا ممکن نہیں ۔۔۔ علامہ اقبال فرماتے ہیں کہ انسان کی رہنمائی کے لیے انبیائے کرام کے گروہ سے زیادہ کوئی اور گروہ مفید نہیں ہو سکتا۔“(۶)
اقبال کا کمال یہ ہے کہ اُنھوں نے ”دورِ قدیم کے اسرائیلی“ روایات اور دورِ جدید کے الحادی رویّوں پر مبنی تصوّرات، جو بے دین لوگوں نے انبیائے کرام یا نبوت کے حوالے سے مشہور کیے تھے، اُن کا نہ صرف عقلی و منطقی اور فطری انداز میں رد پیش کیا بلکہ نوعِ انسانی کو نبوت اور انبیا کے حقیقی مقام سے آشنا کیا، اور پوری نوعِ انسان کو سلسلہ نبوت اور تعلیماتِ انبیا ( حقیقی نہ کہ تحریف شُدہ ) کی پیروی کا بھرپور درس دیا، یہ ہے نمودِ مذہب کا اصلی راز جس کو سطحی خیال کے لوگوں نے نہیں سمجھا اور اسے غلطی سے اُنھوں نے اصولِ مذہب کی خوں ریزیوں اور عالمی جنگوں کا محرک تصوّر کیا ہے۔(۷)
جنگِ آزادی: ۱۸۵۷ءمیں ناکامی کے بعد مسلمان صرف سیاسی طور پر غلام نہیں ہوئے بلکہ دورِ اقبال تک پہنچتے پہنچتے وہ مذہبی، تہذیبی اور معاشرتی سطح پر ”فرنگی رنگ“ میں رنگنے لگے اور اس کی سب سے بڑی وجہ انگریزوں کی حکومت کے بعد ہند اسلامی تہذیب اور مغربی تہذیب کے تصادم کے نتیجے میں پیدا ہونے والے وہ الحادی، انتشاری اور بے دین رویّے تھے جو بڑی پُھرتی سے مسلمانانِ ہند کی مذہبی اور تہذیبی تشخص کو مٹا رہے تھے۔
علامہ اقبال نے مخصوص قرآنی اور حقیقی تناظر میں آدمؑ تا محمد ؐ عظیم انبیائے کرام کے سیرت و تعلیمات کو نظم کے پیکر میں فلسفہ اور جدید علمِ کلام کے رنگین غلاف میں پیش کیا اور سلسلہ نبوت کو آدم ؑ تا محمد ؐ ایک ہی بتایا اور یہ درس دیا کہ بنی نوعِ انسان ”وحدتِ ادیان“ کی بجائے وحدتِ دین کے قائل ہو جائیں، فکرِ اقبال کی نئی جہتوں سے پردہ اُٹھاتے ہوئے زیب النسا سرویا لکھتی ہیں :
علامہ اقبال نے انبیائے کرام کی تلمیحات کے ذریعے ایک اور پیغام دیا ہے اور یہ پیغام اپنے اندر ایک اٹل حقیقت رکھتا ہے “(۸)
یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ انبیاءکرامؑ نے اعلیٰ ترین الہامی افکار و تعلیمات کی بنا پر تاریخِ عالم کا رُخ موڑ کر انسانیت کو حُسن، صداقت، خیر، بھلائی، امن و آشتی،انصاف، ارتقا، خوش حالی اور مساوات غرض بے شمار آفاقی اوصاف سے آشنا کیا تاہم اقبال نے بھی انبیائے کرامؑ کے اِن ہی عظیم ترین افکار کے بازیافت کی روشنی میں، عصرِ حاضر کے تاریک اندھیروں کا سینہ چاک کرنے کی بھرپور کوشش کی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات
۱۔        ڈاکٹر ارشاد شاکر، اعوان ، جاوید نامہ حواشی و تعلیقات ، بزم اقبال لاہور۔ ۲۰۱۸  ص:490
۲۔       ڈاکٹر ملک حسن اختر، اطرافِ اقبال، لاہور، بزمِ اقبال:1992ء،ص:199
۳۔       ڈاکٹربصیرہ عنبرین، محسناتِ شعرِ اقبال، لاہور،بزمِ اقبال :2010ء،ص:244
۴۔       ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی، ( مرتب) ،خطوطِ اقبال، لاہور، مکتبہ خیابانِ ادب :1967ء،ص:167        
۵۔       زیب النسا ء سرویا، (دیباچہ) کلامِ اقبال میں انبیائے کرام کا تذکرہ ،  اقبال اکادمی لاہور، 2012ء ، ص ن
۶۔        ایضاً
۷۔       علامہ محمد اقبال، مقالاتِ اقبال ( مرتبہ) سید عبدالواحد معینی، لاہور،:1988ء، ص:180
۸۔       زیب النسا،سرویا کلام اقبال میں انبیائے کرام کا تذکرہ، لاہور، اقبال اکادمی2012ء،ص:18

بنیادی ماخذ:   علامہ محمد اقبال ، کلیات اقبال اُردو ، فضلی سنز کراچی، اشاعت ہفتم، نومبر ۲۰۱۱ء

 


اوپر جائیں  |   پرنٹ کیجئےِ
انگریزی ورژن ای میل چیک کریں مرکزی صحفہ پرنٹ پسندیدہ سائٹ بنائیں رابطہ کیجئے www.shahzadahmad.com www.shahzadahmad.com