پریم چند کے افسانوں میں خُود کُشی کا رُجحان

سفیراللہ خان ،پی ایچ ڈی سکالر، شعبہ اردو جامعہ پشاور

ڈاکٹرسلمان علی ،پروفیسر، شعبہ اُردو ،جامعہ پشاور 

ABSTRACT
Prem Chend (1880-1936) a prominent name of Hindi and Urdu fiction is realist and humanist that consistently changed his themes, as they dictated by real world around. This article is analysis and review of those characters of his short stories who choose to suicide. The review reveals that suicidal tendencies as presented by Prem Chend are caused by social economic and psychological reasons. It appears that for Prem Chend, social injustice, economic pressure and low self-esteem force individuals to commit suicide. Thus, for Prem Chend, suicide is not a choice, but it is purely matter of anguish or hopelessness that push a person to this extreme act.
 
Key Words: Prem Chend; Suicide; Suicide and Literature; Urdu Short Story
 

پریم چند جس دور میں لکھ رہے تھے وہ دور ناول کا ارتقائی دور تھا۔ناول کی تکنیک اور موضوعات کے ساتھ کچھ عرصہ چلنے کے بعد انھوں نے  موضوعات اور مسائل کے اظہار کے لیے ہم عصر ادیبوں سے راستہ الگ کر لیا۔ اُنھوں نے صنف افسانہ کو متعارف کرایا ۔مختصر انداز کی کہانیوں میں ابتدائی طور پران کے ہاں تو داستانوی اندازکی تاریخی کہانیاں نظر ا ٓجاتی ہیں لیکن وہ جلد ہی محدود موضوعات سے لامحدوداورحقائق کی دنیا میں آے۔ زمانہ ء ماضی کے شاندار قصوں کا بیان ہو یا حال کے تلخ حقائق کا انتخاب، بہبودِ انسان ، تعظیمِ انسان، عزت النفس ، خودی،خودداری کی حفاظت ہی ان   کے ادب کامطمع نظر رہے ہیں جس کے پیچھے، مقصدیت کا نظریہ کار فرما قرار دیا جا سکتا ہے۔یہ وہی مقصدیت ہے جس کا اظہار انھوں نے انجمن ترقی پسند مصنفین کے اجلاس میں پیش کیے گئے خطبے میں بھی کیا ۔
پریم چند کے افسانوں میں چاہے وہ ابتدائی دور کے تاریخی موضوعات پر مبنی افسانے ہوں یا بعد کے دور کے افسانے ،ان کا مطمع نظر، بہبودِ بشر ، انسانیت کا تقدّس اور رشتوں کی معنویت ہی رہا۔ اپنے کرداروں کے لیےکٹھّن اور مشکل راستوں کا انتخاب کیا۔کہیں یہ کردار اپنی خودی اور خود داری کو بچاتے بچاتے مشکلات سے گھبرا گئے اور حوصلہ ہار گئے جب کہ کہیں ان مشکلات پر حاوی ہو گئے ۔اسی طرح بعض جگہ یہ کردارکمزور ہو کر جامد یانفسیاتی گرہ کا شکار ہو گئے ۔ کبھی یہ کردارمستقبل سے خوف زدہ اور اِمکانات سے اس قدرمایوس ،حال کے مسائل سے اس قدر گھبرا گئے کہ انھیں موجودہ ماحول سے فرار کے لیے موت اور   خود کشی کے سوا کوئی راستہ دکھائی نہیں دیتا اور  کبھی انہی مجبور و مقہور اور خوددار کرداروں نے اپنے آنے والی نسل کے مستقبل کے لیے جان لینے کو ترجیح دی۔ کرداروں کی خود کشی کایہ اقدام اورماحول سے فرار یت کے اس نوعیت کے فیصلے کبھی عجلت میں، کبھی سوچ سمجھ کر،کبھی ایک منظم احتجاج و بغاوت کرتے ہوئے اور ایک جنگ لڑنے کے بعد سامنے آتے ہیں ۔
پریم چند کے افسانوں کا مطالعہ کرتے ہوئے “رانی سارندھا” اس نوعیت کا پہلا افسانہ ہے۔ جس کی فضا تاریخی ہے اور یہ کہانی شاہ جہاں کے عہد سے تعلق رکھتی ہیں۔راجا چمپت رائے بندیل کھنڈ کے علاقے اور چھاکاجرّی راجپوت ہوتاہے جو کسی بھی مغل بادشاہ کو خراج کی ادائیگی نہیں کرتا اور نہ ہی کسی کی بالا دستی تسلیم کرتا، قومی تاریخ ایک طرف خود اس کی ذات کسی کی طاقت و قوت کو تسلیم نہیں کرتی،  راجہ چمپت رائے کی سا ندھا سے شادی ہو تی ہے،سارندھاکی جنگجویانہ طبیعت، راجہ چمپت رائے کی رانی بننا اور براہ ِراست نظامِ حکومت ،کارکن ہوجانا اور جنگی معاملات میں مشاورت کا تجربہ انھیں راجہ کے قریب کر دیتا ہے ۔لیکن عالمگیری دربار کی طرف سے کالپی کی ریاست دیے جانے اور بادشاہ کے محکوم ہو جانے کی وجہ سے چمپت رائے کے اس فیصلے سے مطمئن نہیں ہوتی جس کا اظہار راجہ سے بھی کرتی ہے :
"اورچھا میں ،ےیہاں یک راجہ کی رانی تھی ےہاں ایک جاگیر دار کی لونڈی ۔۔۔شاہی نمک خوار کی کنیزہوں۔جس بادشاہ کے روبرو آپ سر خم نیاز کام کرتے ہیں،وہ کل آپ کا نام سن کر تھرتھراتا تھا،رانی سے باندی بن کر خوش ہونا میرے بس میں نہیں۔آپ نے یہ فراغت اور یہ محفلیں بڑی گراں قیمت دے کر خریدی ہیں۔” ( ۱)
پریم چند نے اس پس منظر میں رانی کے کردار کو ترتیب دیاہے۔رانی سارندھا کے یہ الفاظ پریم چند کے نظریہ تعظیمِ بشر اور مقامِ انسان کی عکاسی کرتے ہیں کہ انسان اپنی کوشش اور جدو جہد کے باعث جو مقام حاصل کرتا ہے اس کا انسان غرور کر سکتا ہے ۔پریم چند اس کے مقام کی مکمل تحفظ چاہتے ہیں۔پریم چند نے اس افسانے میں افسانے کی فضا کو اس دو ر کے تناظر میں دکھانے کے لیے رزم وبزم کی خوب عکاسی کی ہے ۔ایک لڑائی میں ملنے والی مال غنیمت میں رانی جب ایک عراقی نسل کا گھوڑا لے آتی ہے اورراجہ کے بیٹے ،چھتر سال سے یہ گھوڑاخان صاحب چھین لیتا ہے تو رانی سارندھا اس گھوڑے کو واپس لانے کے لیے عالمگیر کے خلاف خون کی ندیاں بہا دینے، منصب، جاہ وحشمت کو داؤ پہ لگا دینے سے بھی گریز نہیں کرتی۔شاہی فوج سے لڑائی میں بندیل سپاہی ایک ایک کرتے گرتے جاتے ہیں ۔توراجہ چمپت رائے صورت حال کی نزاکت کو سمجھ جاتا ہے۔راجہ، رانی سے طویل مکالمے کے بعدکہتا ہے :
"۔۔۔کیا تم  مجھے اس لیے دشمنوں کے ہاتھ میں چھوڑ جاؤ گی کہ بیڑیاں پہنے ہوئے دلی کی گلیوں میں نشانہ تضحیک بنوں؟ ۔رانی نے متخیر ہوتے ہوئے راجا کی طرف دیکھا،ان کا مطلب نہ سمجھی۔۔۔ اپنا تیغہ میرے سینے میں چھبو دو۔"  (۲)
راجہ چمپت رائے کی سپاہیانہ غرور،تمکّن،جاہ وحشمت اس وقت شاہی فوج کے سپاہ سالار کے رحم وکرم پرہوتی ہے۔جیسے ہی سپاہی اس کے قتل کرنے کےارادے سے بڑھتے ہیں تو رانی اسی وقت راجہ کے حکم کے مطابق اپنا تیغہ راجہ کے حکم کی تعمیل میں راجہ کے سینے میں چبھو دیتی ہے۔یہاںیہ اقدام سپاہیانہ مسلک سے متصادم فعل ہے لیکن یہ بھی ایک قابل قبول جواز ہے کہ راجہ کو قیدی بننے اور دلی کی گلیوںمیں رسوا ہونے سے موت کہیں زیادہ آسان نظر آتی ہے۔راجہ چمپت رائے کا موت چننے کا انداز خودکشی ہے۔لیکن پریم چند نے اسے “خود داری “ سے تعبیر کیا ہے۔
راجہ کا رانی کے ہاتھ مرنا ایک طرح کی “رحمی موت “ یعنیmircy killing بھی قرار دی جا سکتی ہے۔یہاں، رانی کی موت بھی خود کشی کی موت ہے۔رانی کی موت سے پہلے پریم چند نے شاہی سپاہیوں کو مغلوب دکھایا ہے لیکن یہاں پریم چند کا کرداروں کی مثالیت کو برقرار رکھنے کا مسئلہ درپیش ہے ۔
رزم وبزم کی اس فضا میں افسانہ” راجہ ہردول” اسی تاریخی اور سپاہیانہ انداز کو لیے ہوئے ہے۔رعایا کے ساتھ انصاف اور عدل کی یہ کہانی اپنے اندر عقیدت اور وفا جیسے جذبات کی خوب صورت پیش کش ہے ۔زورِ پہلوانی کے مناظر اور بندیل عورتوں کی اپنے سورما شوہروں کے لیےدعائوں کی تصویر کشی بھی ہے۔ محبت سے آشنا دل بھی اور جبر سے بہتے آنسو ؤں کا بیان بھی ہے ۔افسانہ کا انجام بھی انہی گرم آنسوؤں کے درمیان ہوتا ہے جو قربانی کے احسان مند ہیں اوراقرار کے “ہاں”سے بھاری پلکوں کے آنسو ہیں۔
ریاست اُورچھا کے راجہ ،جھوجھار سنگھ کے شاہجہانی خلعت پہننے کے بعد اپنا سب کچھ اپنے چھوٹے بھائی راجہ ہردول کودے کر دربار کے لیے مزید فتوحات اور کارناموں کے سفر پر روانہ ہوجاتا ہے ۔کچھ عرصہ بعد واپسی پر اپنی تلوارچھوٹے بھائی راجہ ہردول کے ہاتھ میں دیکھتا ہے جس سے اسے کافی پریشانی لاحق ہو جاتی ہے کہ شاید اس کے بھائی نے اس کے تخت پر قبضہ کر لیا ہے جو اس زمانے کا دستور تھا۔اس کا یہ شک مزید قوی ہو جاتا ہے جب ہردول روایت کے مطابق اس کی پیشوائی نہیں کرتا ۔ یہ واقعہ اس کے اندر بغاوت اور شک و شبے کو جنم دیتا ہے حالانکہ یہ غلط فہمی کا نتیجہ ہوتا ہے ۔ اس پرمستزادیہ بات جلتی پر تیل کاکام کر جاتی ہے جب رانی اُسے سونے کے بجائے چاندی کے تھا ل میں کھانا پیش کر دیتی ہے اور ہردول کو سونے کے تھال میں۔یوں “ تھالوں کےاُلٹ پھیر”جھوجھار سنگھ کے نزدیک تخت اور محبت کی اُلٹ پھیرہےجوایک قابل تعزیر فعل ہے ۔اس کےنزدیک اس کا کفّارہ ہردول کے قتل کی صورت میں ہی ادا ہو سکتا ہے ۔رانی اور راجہ کے درمیان ہونے والی گفتگو کا پتہ رات ہی کو راجہ ہردول کو چل جاتا ہے۔ وہ اپنی زندگی کا بلیدان دے کر ایک پاک دامن عورت کو بچانے کا فیصلہ کرتا ہے ،باوجود اس کے، کہ اسے پیڑے میں زہر کی موجودگی کا پتہ ہوتا ہے ،ہردول سنگھ پیڑہ کھا لیتا ہے ۔ہردول سنگھ کے لیے اپنی جان لینا کیسا ہے؟:
"اس وقت ایک عورت کو اس کے خون کی ضرورت تھی اور مردانہ حمیت اس کی متقاضی تھی کہ خون اسے دیاجائے۔۔۔ اس کارِخیر میں زیادہ شش وپنج کرنے کی ضرورت نہیں۔۔۔"(۳ )
پریم چند نے ہردول کوسپاہیانہ خوبیو ں کا حامل ،فن پہلوانی سے آگاہ،اسرار سلطنت سے واقف بتایا ہے اسی طرح یہ کردار عورت کی عزت و عصمت کا امین اور راجپوتی شان اور دبدبے کو قائم رکھنے کے مسلک کو پورا کرتا ہے۔
پریم چند ایک آدرش وادی افسانہ نگار ہیں اور وہ انسان کی تعظیم اور تقدّس کے سلسلے میں جس کردار کی تخلیق کر دیتے ہیں۔ اس کردار کو یہ حوصلہ بھی دے دیتے ہیں کہ وہ ضرورت کے وقت اپنے مقصد کی خاطر ایک ایسا قدم اٹھا سکے جس سے اس کردار کی تخلیق کو ایک نئی معنویت مل سکے۔ اس کے افسانوں میں خودکشی جیسے انتہا پسندانہ عمل کے پیچھے کہیں ایک پورا فلسفہ ہے ،کہیں یہ کسی عمل کا ردّعمل ہے۔ کہیں یہ بغاوت واحتجاج کی ضرورتّ ،تو کبھی کرداروں کی خودداری و غرور کی ضرورت اور کبھی اُن کی کمزوری اور مجبوری کا پیش خیمہ ۔ اسی نظریے کے تناظر میں پریم چند کا افسانہ “ستی “ بھی یہی نظریاتی جنگ وجدل کا ماحول لیے ہوئے ہے۔
"ستی" میں پریم چند نے محبت اور جنگ و جدل کے معاملے میں عورت کو مثالی کردار میں پیش کیا ہے ۔جسے رومان پرور فضا اور شوہر کے لاڈ پیار اور نرم گوشی سے زیادہ اس کے مار دھاڑ اور سپاہیانہ للکار سے محبت ہے ۔اس ناقابلِ شکست بہادر عورت کو ایک سورما رتن سنگھ اپنی غیرمعمولی بہادری ،استغنیٰ اور اس کی سپاہیانہ اوصاف سے شکست دے دیتاہے۔اس کے نزدیک اس کاشوہر ایک مثالی بہادر جنگجو ہی ہو سکتا ہے ۔یہی کردارجب جنگ میں بزدلوں کی طرح ساتھیوں کو مرواکرآتا ہے توچنتا دیوی کی ا نا کو شدید چوٹ لگ جاتی ہے ۔اس طرح جنگ سے جان بچا کر بھاگ آنا اس کے نزدیک بزدل جنگجو شوہر کی موت ہے۔یہی وجہ ہے کہ اس کا ردّعمل بیوی سے زیادہ قوم کے ایک رکشک یا قوم پر جان نثار کرنے والی رانی کا ہے۔ مثالیت اورنظریہ عز ت النفس کے تناظر میں یہ  چنتا دیوی کے آیئڈیل کی موت ہے اور خودکشی جیساردّعمل دکھانا،دراصل اس کے آدرش اور نظریے کی موت کا کفارہ  ہے:
“پیاری میں تو ابھی زندہ ہوں یہ تم نے کیا کر ڈالا؟۔
۔۔۔چتا سے آوازآئی تمہارا نام رتن سنگھ ہے مگرتم میرےرتن سنگھ نہیں ہو۔۔۔آگ کے لپٹے چنتا کے چہرے تک پہنچ گئے آگ میں کنول کھِل گیا۔
چنتا صاف لہجے میں بولی! خوب پہچانتی ہوں تم میرےرتن سنگھ نہیں ہو۔ میرارتن سنگھ سچا سوُرماتھا۔وہ اپنی حفاظت کے لیے اپنے ا س نکمّے جسم کو بچانے کے لیے اپنے چھتری دھرم کوترک کر سکتا تھا؟” (۴)
عورت اور ا س کی وفا، بہادری اور شجاعت کے پس منظر میں افسانہ “راجپوت کی بیٹی”قابلِ ذکر کہانی ہے۔پربھا ،رائے صاحب کی بیٹی مندار کے راج کمار سے منسوب ہو جاتی ہے لیکن عین شادی کے دن بارات سے پہلے چتوڑ کے رانا محل کا گھراؤکرکے پربھا کو ساتھ لے جاتا ہے اور یہ واقعہ ایک نئی کہانی کو جنم دے دیتاہے۔پربھا کا رانا کے ساتھ چلے جانا،جنگی حکمت عملی اور حب الوطنی کے علاوہ کچھ نہیں ہوتا۔کیونکہ وہ اپنی دانست میں اپنی ایک جان کے لیے سینکڑوںسورماؤں کا خون نہیں بہانا چاہتی لیکن جھالاوار والے اس طرح نہیں سوچتے ۔خود پربھا کے باپ رائے صاحب بھی اس کو  "بے غیرت" کہہ دیتا ہیں ۔پربھا، رانا کے محل آ کر چندحیثیتوں سے سوچتی ہے ۔اسے قوم کی عزت بھی عزیز ہے۔ باپ کے نام کی بھی پرواہ ہے اور مندار کے راج کمار سے مجبور اََکی جانے والی بے وفائی کا احساس بھی ہے۔موجودہ صورت میں بیٹی کا فرض ،محبوب کی وفا اور شوہر کی پتی ورتا جیسے فرائض یہ دنیاوی اور روحانی لازمے و خاصے اس کو نفسیاتی اُلجھن سے دوچار کر دیتے ہیں ۔کشمکش و آزمائش نے کوئی پہلا، دوسرا یا تیسرا راستہ نہیں چھوڑا ہے۔سب سے اہم مسئلہ ان حیثتوں میں اوّلیت اور اہمیت کا مسئلہ ہے۔وہ اس بات کے لیے پریشان ہے کہ کس رشتے کونظرانداز کیاجائے اور کس رشتے  کو نہیں؟ اسے تینوں رشتوں سے عقیدت ،وفا، تعظیم اور لاج نے باندھ رکھا ہے۔باپ کی نظر میں وہ ایک  "بے غیرت" بیٹی ہے جب کہ مندار کے راج کمار کے لیے وہ ایک "بے وفا محبوبہ"  ہے اور رانا کے ساتھ تعلق بنانے میں اسے خود تامّل ہے۔چنانچہ اسی نفسیاتی کشمکش میں وہ خود کو ذمہ دار سمجھتی ہے ۔ اس کے نزدیک یہ مسئلہ ایک بلیدان کا طلبگار ہے۔ اس کے بغیر اس کے نزدیک عقیدت ، وفا اورپتی ورتا کی تشریح نہیں کی جاسکتی۔باپ (راؤ  صاحب)کی نظر میں وہ ایک “بے حیا “اور “بے غیرت “ بیٹی ہے۔راج کمار کی نظر میں ایک “بے وفا”محبوبہ ہے۔
پریم چند نے یہاں بھی عورت کی مثالیت کے پیشِ نظر اس کردار میں توانائی بھر دی ہے۔اس کا یہ کردار کہیں بھی اپنے آپ کو کسی بھی حیثیت میں ناکام نہیں دکھانا چاہتا۔رات کو جب مندار کے راج کمار، رانا کے محل میں گھس جاتا ہے تو وہ اسے اپنے ساتھ جانے کا اصرار کرتا ہے ۔لیکن وہ مندار کے راج کمار کو اپنے قریب بھی نہیں آنےدیتی۔انتہائی ذہنی کش مکش کی فضا اس وقت بن جاتی ہے جب جھالاوار کے رانا اور مندار کے راج کمار کا آمنا سامنا ہو جاتا ہے ۔یہاں یہ کردار اپنے ترجیحات کا تعین کرتا نظر آتا ہے:
" راج کمار نے اینٹھ کر رانا پر تلوار چلائی۔رانا۔۔۔ وار خالی دے کر راج کمار کی طرف جھپٹے۔دفعتاََ پربھا جو ایک سکتے کے عالم میں ایک طرف کھڑی تھی، بجلی کی طرح کوند کر راج کمار کے سامنے کھڑی ہو گئی۔رانا وار کر چکے تھے، تلوار کا پورا ہاتھ اس کے شانے پر پڑا اور سینے تک چلا گیا ۔خون کا فوارہ چھوٹنے لگا۔ ۔۔اور دم زدن میں پربھا کے چہرے پر مردنی سی چھا ئی آنکھیں بجھ گئیں اور چراغ ٹھنڈا ہو گیا۔" ( ۵)
پربھاکا اپنے لیے خود کشی جیسی موت کا چننا، نفسیات کے پس منظر میں اس کا جارحانہ اقدام ہے لیکن اس کے علاوہ اس کے پاس کوئی دوسرا راستہ نہیں۔اسے باپ کے غرور کو نبانا ہے اور قوم سے وفا بھی۔
راجپوتی شان و شوکت اور سپاہیانہ دم خم ،غرور اور تمکّنت و قربانی کو ایک طرف رکھ کر جب ہم افسانے “آہ بے کس “ کا مطالعہ کرتے ہیں تو واقعی پریم چند ہمیں حقائق کی دنیا میں لے آتےہیں جہاں ہماری ملاقات ایک بیوہ برہمنی سے ہو جاتی ہے ۔ یہ ایک اصلاحی افسانہ بھی قرار دیاجاسکتاہے جس میں دھوکہ دہی اور نام نہاد مدد گاروں کے گندھے دھندے اور مکروہ اعمال کو طشت از بام کیا گیاہے۔ افسانے کا کردار منشی رام سیوک کچہری میں ایک اچھی جانی پہچانی حیثیت کا مالک ہے اور نجی زندگی میں حد درجہ بد عنوان۔لیکن اس کے باوجود آس پاس کے علاقوں کے بوڑھے اور بے آسرا لوگ  اپنی  امانتیں ان کے پاس رکھتے ہیں جن کے واپس کرنے کی نوبت کم ہی آتی ہے بلکہ آتی ہی نہیں ۔قانون و عدالت کا خوف ہی اسے نہیں ہوتا جس کی وجہ منشی جی کی زباندانی اور قانونی اثر ورسوخ ہوتا ہے ۔مونگا اپنے شوہرکے پنشن کی رقم منشی جی کےپاس بطور امانت رکھت لیتی ہیں۔کچھ عرصہ بعد مونگابچ جانے والی رقم کا تقاضہ کرتی ہے تو اسے صاف جواب ملتا ہے۔ مونگایہ معاملہ پنچائت بھی لے جاتی ہے لیکن “پگڑی کی نگری “میں منشی جی کےفتح یاب ہوجاتاہے۔وہ صرف  دھمکی ہی دے سکی۔پہلے تو اس نے  اس معاملے کو “یہاں سے “وہاں”پر ٹالے رکھالیکن بعد کی صورت حال  اُسے ذہنی اور نفسیاتی طور پر جامد کر دیتی ہے۔دن بھر ،سوتے جاگتے،اُٹھتے بیٹھتےبددعائیں دیتی ،گالیاں بکتی ہے۔ منہ سے عجیب عجیب آوازی نکالتی،وحشت کے غلبےاورہزیان کی کیفیت میں رہنے لگتی ہے۔ اس کی یہ مریضانہ نفر ت، ایذاکوشی جو ایذا رسانی کی خواہش کی انتہا تھی ،کو جنم دیتی ہے۔ وہ سوائے اس کے، کہ خودکواذیت، بھوک وپیاس،جاڑے و سردی سے دوچار کرے ،کچھ حاصل نہ کر سکی اور دوسرے ہی دن:
"گاؤں بھر میں خبر پھیل گئی کہ مونگا منشی جی جے دراوزے پر دھرنا دینے بیٹھی ہے ۔۔۔دوپہر ہوا مونگا نے کھانا نہیں کھایا۔شام ہوئی باوجود ہزرا اصرار کے اس نے پھر کھانا نہیں کھایا۔۔۔ مونگا نےیہ رات بے آب و دانہ کاٹی اور سویرا ہوتے ہی جب دروازے پر دیکھا تو بے حس و حرکت پڑی ہوئی تھی اس کی جان نکل چکی تھی ۔۔۔"(۶)
پریم چند نے اس افسانے میں نظریہ آواگون اور مافوق الفطرت عناصر کو بھی افسانے کا حصہ بنایا ہے اور مونگا کی موت کے بعد مونگا کی بھٹکتی روح کے ذریعے منشی اور اس کے خاندان کوانجام تک پہنچایا ہے ۔
پریم چندکے افسانوں کے کردار کمزور  اور مجبور وبے بس ہونے کی صورت میں موت سے دوچار ہو ں تو وہ مافوق الفطرت کرداروں،  بھوت پریت کی شکل میں ظالموں اور اپنے قاتلوں سے انتقام لیتے ہیں ۔ اس قسم کے کردار لانے کی وجہ اُن کا استحصال پسندوں اور جابروں کے خلاف غصہ اور انتقام لینے کی دلچسپی قرار دی جا سکتی ہے۔”قربانی”،”ڈامل کا قیدی”، “بھوت”،”آہ بیکس “وغیرہ اسی نوعیت کے افسانے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ خود کشی سے دوچار ہو جانے کے بعدمونگا نے وہ سب کچھ کیا جو اس کے لیے مادی وجسمانی طور پر نا ممکن تھا۔اسی تناظر میں پریم چند کا افسانہ “قربانی” بھی اسی مافوق الفطرت عناصر کے ساتھ ساتھ حقیقت پسندانہ فضا میں تحریر کیا گیا ہے ۔ جاگیردارانہ نظام اور اس کی خامیوں پر ایک خوبصورت تحریر ہے جو ایک طرف کسان کے مسائل اٹھاتا ہے تو دوسری طرف ان قوتوں کے سبب مجبور کرداروں کی نشان دہی بھی کرتا ہے جو بے کسی، مجبوری اور محرومی کے سبب اپنی بقا کے لیے خود کشی کے علاوہ کسی اور راستے کا انتخاب کر ہی نہیں سکتے۔
افسانے “قربانی “کا گردھاری نہ تو تخت سنگھ کی طرح خودی کی خصوصیات سے متصف ہے نہ مستغنی ہے اور نہ ہی سمجھ دار۔یہ وہ کسان ہے جس کی عقل محدودہے ، جو کھیت سے شروع اور کھیت پر ہی ختم ہو تی ہے۔اپنے باپ ہرکھوکی کی خوب دھوم دھام سے کریا کرم کر کے سارے پیسے خرچ کر ڈالتا ہے نئے قوانین کے مطابق ہرکھوکی موت کے بعدگردھاری کویہی کھیت اپنے نام لکھاہیں جس  کے لیے رقم کی ضرورت پڑتی ہے لیکن لالااونکار ناتھ کے، نذرانے کی رقم پوری نہ ہونے باعث کھیت اس کے ہاتھ سے نکل جاتے ہیں۔افسانے میں زمین اور کِسان کے رشتے کو بڑے المیاتی انداز میں اُبھارنے کی کوشش کی گئی ہے۔زمین کی اہمیت کسان کے لیے کیا ہے ؟۔عظیم الشان صدیقی لکھتے ہیں :
"دیہی معاشرے میں زراعت ، زمین سے انسان کے دیر پا ذہنی ، جذباتی اور روحانی رشتے کا مطالبہ کر تی ہے ۔ ۔۔ اور جب یہ رشتے منقطع ہو جاتے ہیں تو نہ صِرف ذرے سو جاتے اور کھیت بنجر ہو جاتا ہے بلکہ وہ کسا ن بھی ٹوٹ کر بکھر جا تا ہے جس کی داخلی اور خارجی زندگی کی جوت جگانے اور اس کے مشاغل ومراتب ، حقوق وفرائض کے تعیّن وتسلسل میں زمین بنیادی حیثیت رکھتی ہے۔" ( ۷)
گردھاری کا حیثیت کی تبدیلی سے منفی انداز سے دوچار ہونا، ایسٹ انڈیا کمپنی کا وہ حیلہ و ہتھکنڈا تھا جو کمپنی کے زرعی نظام نے جاگیرداروں کو دیا تھا۔ گردھاری  بیلوں کو فروخت کرتا ہے لیکن رقم پوری نہیں ہوتی اور اگلی ہی صبح غائب ہوتا ہے ۔ بیوی سبھا گی اسے بہت ڈھونڈتی ہے مگر بے سُود ۔ دوسری شام سبھاگی اُسے بھاگتے اورکنویں میں چھلانگ لگاتے ہوئے دیکھ لیتی ہے ۔ گِردھاری کا ،خود کشی کے اس انتہا پسندانہ ردّعمل کے پس منظر میں ایک طرف اگر ایسٹ انڈیا کا معاشی نظام ہے تو دوسری طرف اس دور کی وہ ذہنیت بھی شریک ہے جو مادیت پرستی اور جاگیردارانہ نظام کی دین ہے۔
افسانہ “سوت”بھی خود کشی کے پس منظر میں سامنے آتا ہے ۔اس افسانے میں پریم چند نے پورے سماج کو چھوڑ کر صرف ایک جز گھر کو موضوع بنایاہے۔یہاں گھریلو مسائل اور محرومی نے ایک طرف اگر عورت کو قربانی کے قابل بنایا ہے تو وہیں انہی مسائل نے اس کے سمجھنے اور سوچنے کی قوت کو مفلوج کر دیا ہے ۔  بغض و عناد اور جلن و حسد جیسی ، فطری اور جبلی مسائل و اوامر سامنے آئےہیں۔اسی طرح یہاںگھریلو سطح پر قوت اوربالا دستی کے لیے تصادم کی فضا کو انسانی جبلتوں اور  عورت کی نفسیات کو سامنے رکھ کر کرداروں کوتشکیل دیا گیا ہے۔
پنڈت دیو دت کی اولاد کی محرومی کے احساس کو ختم کر نے کے لیے گوادری ایک ایسا کام کرتی ہے جو  ہندوستانی  بیوی کی حیثیت سے بالکل متصادم ہے۔ دوسری طرف اس احساس کے خاتمے میں ذاتی احساس کمتری (بانجھ پنے ) جو عضویاتی محرومی کا سبب ہے، ایک بڑا محرک ہے۔مشرقی ازدواجی زندگی میں اولاد ایک گھریلوسیاسی سمجھوتہ ہوتا ہے ۔جس کے سبب شوہر اور بیوی ایک دوسرے کے ساتھ نہ چاہتے ہوئے بھی خاموشی سے ایک دوسرے کے لیے نرم گوشہ رکھتے ہیں۔تاہم شوہراور بیوی کے درمیان اولاد کے علاوہ کسی تیسرے کا آنا “تیسری قوت” کا آنا ہے اور” تیسری قوت” اکثر و بیشترمسائل کو جنم دیتی ہےاور اس کی تشکیل میں مدد دیتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ یہاں شوہر کی پتی ورتا ،محبت اور اس کی کمی دور کرنے کا جذبہ اتنا مضبوط نہیں رہ پاتا جتنا حسد،جلن اور نفرت ومسابقت سے کمزور پڑجاتا ہے۔پریم چند نے گوادری کی صورت میں عورت کو دو نوں جذبوں سے پیش کیا ہے جو اس کے انسانی نفسیات سے آگہی اور عمرانی پہلوؤں سے واقفیت کی بہترین مثال ہے۔وہ عورت، جس نے پتی ورتا کے لیے اپنے مقام کے تقسیم کی قربانی دی اور شوہر کو بے نام نہیں ہونے دینا چاہا، اسی پختہ فکر و سوچ کی عورت کے، اندر کی عورت نے اسے اپنے “اصل عورت”کی طرف لوٹنے پر مجبور کر دیا۔جب وہ  مقصد میں بھی کامیاب نہیں ہوتی تو نفسیاتی گرہ کا شکارہو  کر خودکشی ہی کو تمام مسائل کے حل کے طور پر دیکھتا ہے۔
گوادری کی قسمت اچھی ہوتی ہے۔ اس کا سوتن کا انتخاب خود اس کی مرضی ہوتی ہے جبکہ شوہر بھی نوکر پیشہ ہونے کے سبب کسی معاشی مسئلے سے دوچار نہیں رہتی لیکن یہاں افسانہ "مزارِآتشیں"  کی رکمنی کے لیےسوتن ،انتخاب نہیں ایک تھونپا ہوا فیصلہ ہے بلکہ یہ کہنا مناسب ہوگا کہ اس کی ذات اور حیثیت سے انکار ہے ۔
افسانے میں رکمنی کے کردار پر، پریم چند نے بڑی محنت کی  ہے ۔ اسے سوتن کا درد دیا۔ اسے کام کاج اور پیاگ کی ضرورت (پیسہ) کے معاملے میں یہاںسلیا سے کمزور دکھایا۔ہندوستانی ازدواجی زندگی کے تناظر میں رکمنی ایک پتنی کی حیثیت سے ایک مکمل ہندوستانی ناری ہے جس کے لیے لاکھ صدموں کے باوجودپیاگ جیسانشئی اور شدت پسندپتی ،بھگوان اورپرمیشور ہوتا ہے۔جو اسی کی  ذات سے خود کو جڑا ہوا سمجھ کر اپنے آپ کو مکمل سمجھتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سلیا کی شکایت پر پیاگ کی مار نے، رکمنی کو بھگوان اور پرمیشور سے دور نہیں کیا۔ وہ اب بھی پیاگ سے محبت کرتی ہے اور اس کی نظر میں، پیاگ اب بھی پر میشور اور بھگوان ہیں ۔لیکن اس کا ثبوت اس کے پاس نہیں۔موقع پا کر وہ یہ ثبوت دھونڈ لیتی ہے :
“یکایک رکمنی درخت کے سامنے کے نیچے سے بے تحاشا دوڑتی ہو ئی آ ئی۔ اس نے پیاگ کے سامنے سے آکر تختہ سوزاں کو دونوں ہاتھوں پر لے لیا اور پیاگ بے ہو ش ہوکر زمین پر گر پڑا۔رکمنی اس کاشانہ سوزاں کو لیے ہوئے ایک ہی سیکنڈ میں آخری کھیت کے ڈانڈے پر پہنچی مگر اتنی دیر میں اس کے ہاتھ جھک گئے تھے اور جلتی ہوئی جھونپڑی اس کے سر گر پڑی اور ایک لمحہ میں وہ شعلو ں کا نوالہ بن گئی ۔کچھ دیر تک منڈیا میں جنبش ہوتی رہی اور پھر سکون ہو گیا۔”  ( ۸)
رکمنی کا، اس نوعیت کا فعل ایک مافوق الفطرت فعل نہیں  بلکہ یہ انسانی امکان کے اندر فعل ہے۔ یہ بات محبت اور خلوص کے معاملے میں سمجھ سے بالا تر نہیں ۔اس کااندازِ مجنونانہ سے پیاگ کو محبت کا ثبوت دیناخودکشی کے اس زمرے میں ضرور رکھا جا سکتا ہے جس میں کوئی فرد  خود کشی کسی ایسے دوسرے مرد کو احساس دلانے کے لیے کرتا ہے ۔ جس نے اُسے رد کیا ہو۔ پریم چند کے افسانوں میں ہمیں بنیادی طور پر جو نقطہ نظر دکھائی دیتا ہے وہ انسان کی تعظیم،بہبود اور اس کا احترام ہے۔وہ سماجی اونچ نیچ  کے معاملے میں ایک غیرمتزلزل مزاحمتی سوچ رکھتے ہیں۔اس معاملے میں وہ نام نہادلیبرل،مذہب پرستوں اور سماج کے سدھار کا دعویٰ کرنے والوں کو سخت تنقید کا نشانہ بناتے ہیں۔وہ ہمیں ان کی منافقت اور سفاّک منافقانہ سوچ کے نتائج سے خبردار کرتے ہیں۔ “مزار ِالفت” میں چھوت اچھوت کے مسئلے نے ایک گھریلوخاتون کو خودکشی پر مجبور کر دیا ۔اس افسانے میں پریم چند نے نام نہاد روشن خیالوں اور سیکولر ذہن رکھنے والوں پر تنقید کی ہے کہ جو لوگ روشن خیالی کا ڈھونگ رچاتے ہیں،سنجیدہ نوعیت اور پیچیدہ مواقعوں پر انتہائی کمزور موقف رکھتے ہیں ۔ ایک عورت محض اس سوچ کے حامل سماج میں اپنی گھریلو زندگی ان کی منافقت اور بنیادی تنگ نظری کی نذر کر دیتی ہے۔
افسانہ "بینک کا دیوالیہ" کا کردار  شیو داس  دودھ کے کاروبارکو ڈوبتا دیکھ کر معاشی وسائل کے ہاتھ سے چلے جانے کے بعد اسی نوعیت کا انتہا پسندانہ فیصلہ کرتا ہے ۔پریم چند نے اس افسانے میں اس دور کے نواب اور بادشاہوں کی گزر بسر اور ان کے مالی وسائل کے بارے میں بتایا ہے کہ ایسٹ انڈیا کمپنی کے آنے کے بعد یہ طبقہ اس قدر مالی حوالے سے کمزور ہو گیا تھا کہ یہ بینک سے قرض لے لے کر ریاستوں کے مالی معاملات چلاتے تھے۔دیکھاجائے تو پریم چند نے اس افسانے میں اُنیسویں صدی کے آخر کا دور بتانے کی کوشش کی ہے جب بینکوں کا چلن ابتدائی مرحلے میں تھا اوربینک کاروبار اور سرمائے کے حوالے اس قدر ترقی یافتہ نہ تھے ۔شیو داس ایک آہیر کا بیٹاہے  جس نے لکھنؤ سے آکربڑے مشکل حالات میں یہا ں دودھ کاروبار شروع کیالیکن ریاست برہل کی رانی کے بینک سے قرض لینے اور بر وقت لوٹائے نہ جانے کے باعث بینک دیوالیہ ہوجاتا ہے۔ شیو داس بینک کا کھاتہ دار ہونے کے سبب اس اُلٹ پھیر میں آ جاتا ہے  اور یہ مسئلہ اس کے لیے ناقابل ِحل ہو جاتا ہے ،جس کا نتیجہ اس کی خود کشی کی صورت میں نکلنا ہے :پریم چند لکھتے ہیں؛
"یکایک ایک عورت نے روتے ہوئے کہا ہائے میرےراجا!تمھیں بس کیسے میٹھا لگا؟۔۔۔اس غریب نے زہر کھا کر جان دی ہے۔ہائے اسے کیسے زہر میٹھالگا؟ہائے اس میں کتنا درد ہے ؟۔کتنی حسرت ہے ؟کتنی حیرت!زہر تو کڑوی چیزہے۔وہ کیوں کر میٹھی ہوگئی۔” (۹)
شیو داس کے ردّعمل  اور انتہا پسندانہ فیصلے کے پسِ منظر میں، اس کی ماضی کی حوشحالی ، حال کا مالی بحران اور احساسِ محرومی جیسے عوامل ہیں۔وہ اپنے مستقبل میں اپنے لیے کوئی کشش یا لطف محسوس کرنے سے قاصر ہے۔مستقبل سے مایوس اور اُلجھنوں میں قید مادیت پرستانہ رویوں سے مغلوب ومفلوج شیوداس کی طرح، افسانے “دست ِغیب” کا کردارلالہ جیون داس بھی ایک ایسا ہی کردار ہے جس کے سامنے سب سے بڑا مسئلہ بیوی بچے کا مستقبل ہے۔جیون داس بستر ِمرگ پڑے چھ مہینے  میں اس کاسارا آثاثہ ہاتھ سے چلا جاتا ہے ۔ فکر و سوچ نے اسے نفسیاتی طور پر جامد کر دیا  ہے اور اس کا ذہن باربار ایک ہی نقطے پر آکررُک جاتا ہے ۔میرے بعد ان بے کسوں کا کیاحشرہوگا؟۔اس کے نزدیک اب بیوی بچے کے لیے باعزت زندگی  گزارنے کا ٹھکانہ  نہیں رہتا۔ خودی کے سبب اپنی بیوی یا بیٹے کو کسی کےآگے ہاتھ پھیلاتے ہوئے نہیں دیکھ سکتا۔بیٹے کو مسائل اور بیوی کو بے سہارا ،تقدیر کے رحم وکرم پر چھوڑنے کے لیے تیار ہے نہ خاندان کی عزّت وناموس پر حرف لانے کے لیے۔اس کے پاس اپنی دانست میں اِن تمام مسائل کا ایک ہی حل ہے کہ دونوں کو زہر پلا دیاجائے ۔جیون داس یہ مشکل مرحلہ طے کرلیتا ہے اور پھر فرار کا راستہ اختیار کرتا ہے ۔اُلجھنوں سے گھٹے گھٹےدَم اورشعور و ادراک سے عاری ،فرار کی یہ کوشش اس کے نزدیک سکون کا سبب ہے لیکن تقدیر کو یہ فیصلہ منظور نہیں ہوتا ۔وہ جس کو زہر سمجھ رہا تھا وہ اصل میں سینے کی کمزوری کا دوا۔
پریم چندکایہ افسانہ کافی انوکھے اور مافوق الفطرت واقعات کو لے کر آتا ہے ۔ان کے ہاں اس قسم کے واقعات پلانٹ کرنے کا مقصد اکثر اصلاحی پہلو ہوتاہے۔ اس سلسلے میں وہ کرداروں سےاپنے مخصوص تخلیقی توانائیوں کوبھروئے کار لاکر  اس طرح اعمال و افعال سر زد کرواتے ہیں کہ ہمیں وہ قطعی طور پر اجنبی نظر نہیں آتے اور نہ فطرت ِانسانی سے متصادم نظر آتےہیں۔تقدیر اور انسان کے تصادم اور انسان کی شکست کی فن کارانہ پیشکش میں انھوں نے کہیں بیانیہ اور کہیں مکالماتی انداز اختیار کیا ہے۔ یہاں پریم چند کا قارئین تک اپنا مقصد پہنچانے کا انداز اور پیش کش فلسفیانہ ہے ۔انھوں نے جیون داس کو تقدیر کے ہاتھوں شکست کھاتے ہوئے دکھایا ہے۔ پندرہ سال بعدجب  اس کی  ملاقات اپنے بیٹے سے ملاقات ہو جاتی ہے تووہ احساس جرم کے سبب واپس اسی راستوں پر سفر کرنے لگتا ہے ۔وہ اپنے ماضی کا فیصلہ دہراتا ہے لیکن اب یہ اس کی ذات تک محدود ہے:
"مشرق کی طرف سے تنویر نظر آنے لگی تھی۔جیون داس گھر سے نکلے۔ انھوں نے اپنے وجود ونفس کو فنا کر دینےکاعزم کر لیاتھا۔اپنے گناہوں  کی آنچ سے اپنے خاندن بچانے کا فیصلہ کر چکے تھے۔ اپنی ہستی کو مٹا کر اپنی ندامت کو مٹا دینے کا تہیہ کر لیا تھا۔۔۔ آفتاب پردہ اُفق سے باہر نکلا ، اسی وقت جیون داس گومتی کی لہروں میں سما گئے۔” ( ۱۰)
معاشی نوعیت کے بحران میں کرداروں کی خودکشی جیسے شدت پسندانہ اقدامات یاردّعمل کے باب میں افسانہ “کفارہ “کا ذکر بھی کیا جانا درست ہو گا ۔ افسانے کے کردار سبودھ چندر کو،کسی دوسرے انسان کو محض رنجیدہ کرنایا تکلیف دینایاخفا کرنا نہیں آتا تھا لیکن اس کوایک ایسی مخالفت(جو اس کے علم میں نہیں) کا سامنا اس شخص(مداری لال) سے ہے جو اس کے بچپن اورسکول ساتھی ہوتا ہے اور جسے وہ اپنا دوست سمجھتاہے جس پر اسے شروع دن سے بھروسہ ہوتا ہے :
“  تم دفتر  میں ہو۔یہ بہت اچھا ہوا، میری تو سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ کیسےکام چلے گا؟۔ میرے لیےیہ کام بالکل نیاہے۔جہاں جاتا ہوں میری خوش نصیبی میرے ساتھ جاتی ہے۔۔۔یہاں آیا تو تم ملے۔” ( ۱۱)
بچپن کی یہ مخالفت اور جلن جو ماحول کے سبب پلتے پلتےیہاں بڑی  اور کافی جارحانہ ہوجاتی ہے اور پیشہ ورانہ نوعیت کی حسد اور جلن میں بدل جاتی ہے ۔مداری لال ایک دن سبودھ چندر کے کمرے میں میز پر پڑے روپے اُٹھا لیتا ہے اور سبودھ چندر ایک اُلجھن میں پھنس جاتا ہے ۔اپنی طبیعت کے سبب ایک ایماندار شخص کے پاس اپنی بدنامی کے داغ کو مٹانے کے لیے خود کشی کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں ہوتا اور اسی رات سبودھ چندر نے خود کشی کر لیتا ہے ۔
پریم چند نے اس افسانے میں انسانی نفسیات،اُلجھنوں اور حسد و جلن کی آمیزش سے اس افسانے کا پلاٹ ترتیب دیاہے۔یہاں انہوں نےاحساس جرم جیسے نفسیاتی عوامل کو بھی خوب نبھایا ہے ۔
معاشرے کے نام نہاد بھائی چارے،مذہب پرستی، برادری ازم اور تضادات و منافقت سے متعلق “ زادِراہ” پریم چند کی ایک اہم تخلیق ہے۔یہاں پریم چند نے حسد کو برادری اور مذہب کے پردوں میں ملبوس دکھا کر، منافقتوں سے ہونے والی تباہی کو بیان کیا ہے ۔ مذہب وبرادری بنیادی طور پر انسانیت کی خوشحالی اور مجبور ومقہور لوگوں کے حقوق کے لیے مضبوط ڈھال ہے لیکن پریم چند کے افسانوں میں یہ ادارے زیادہ تر باہمی چپقلش ، عداوت اور حسد کے سلسلے میں بطور ہتھیار استعمال کرتے ہیں۔  جہاں مخالف کی تباہی وبر بادی اور استحصال کے سارے حربے ختم ہو جاتے تو مذہب وبرادری کا استعمال کیا جا تا ہےجو ایک مہلک وتباہ کن ہتھیار ہے ۔سیٹھ رام ناتھ کی ساری نقد دولت اس کے علاج پر اُٹھ جاتی ہے لیکن برادری والے ہر صورت میں برہم بھوج کرنا چاہتے ہیں جس کے لیے بیوہ کسی صورت راضی نہیں ہوتی اس لیے وہ اپنے مقصد کے لیے مذہب کو سیڑھی بنا دیتے ہیں ۔یعنی مذہبی اور جذباتی ہتھکنڈے کو آزما کر راضی کرنا چاہتے ہیں۔ پریم چند نے یہاں برادری کی طرف سے براہم بھوج کے پیچھے نتائج ومقاصد کو یوں لکھا ہے:
“دولت مند کے زندہ رہنے سے دکھ بہتوں کو ہو تا ہے اور سُکّھ تھوڑوں کو ۔ اُن کے مرنے سے دُکھ چند کو ہوتا ہے اور سُکھ زیادہ کو ۔ اب مہابر ہمنوں ۔۔۔پنڈت جی۔۔۔ برادری۔۔۔ اور پٹی داروں کا تو پوچھنا ہی کیا۔ “  (۱۲)
سیٹھ رام ناتھ کے برِہم بھوج کے انتظام میں سیٹھ کی موجود ہ جائیداد پر قبضہ ہے جس کے لیے  برادری والے۔ برادری اور مذہب کے نام کو استعمال کرتے ہیں۔ مذہب کا یہ سلسلہ مکان بیچنے ،  سوشیلا اور اس کے بچوں کے رزق کے حوالے سے ان نام نہاد پنچوں کے حیلوں،جواز اور مذہبی دلائل دینے تک دکھایا  ہے۔ سو شیلا اپنے اور بچوں کے مستقبل کے واسطے دے دے کر آنسو بہاتی ہے لیکن  دھرم اور برادری سے مجبور، احتجاج کے باوجود شکست کھاجاتی ہے ۔ وہ لمحہء حال کو بچا پاتی ہے نہ مستقبل۔ عظیم الشان صدیقی ، افسانے میں اس قسم کی صورت حال کو اس طرح دیکھتے ہیں  :
"زادِ راہ” اس حقیقت سے نقاب اٹھاتا ہے جہاں اس کا رقیب، ظالم شوہر یا تنہا کوئی مرد نہیں ہے بلکہ پورا سماج اور اس کے رسم ورواج کے ٹھیکیدار ہیں جو دھرم ، تو ہمات اور سماج کی آٓڑ میں مظلومیت سے استفادہ کرنے کو اپنا حق تصّو ر کرتے ہیں۔۔۔ بیوہ سو شیلا اور اس کے بے سہارا یتیم بچوں  کے لیے سماج قوت بننے کے بجائے استحصال کا ذریعہ بن جا تا ہے ۔ غیر صحت مند سماج میں غریب خاندان کی کسی عورت کے لیے شوہر کی موت صرف جذبات وخواہشات اور کفالت ہی کے لیے جہنم پیدا نہیں کر تی بلکہ اس کے وسائل او ر تحفظات بھی خطرے میں پڑ جاتے ہیں۔۔۔”(۱۳)
پریم چند نے یہا ں مذہبی قدروں اور اصولوں کو غلط انداز سے پیش کرنے والوں ، نام نہاد مذہب پرستی کرنے والوں اور رشتوں کی معنویت سے متعلق بہت سے سوالات اُٹھائے ہیں ۔سوشیلا کےخاندان کی ناکامیاں مسائل اور مصبتیں یہیں ختم نہیں ہوتی ۔ بھیم چند اسے شادی کے لیے تنگ کرتے ہیں وہ کبھی دھرم اور کبھی برادری کی بات کرتا ہے۔ جس کے لیےریوتی کبھی بھی تیارنہیں اور وہ فیصلہ کرتی ہے :
“تیسرے پہر تک ساری برادری میں خبر پھیل گئی، سیٹھ رام ناتھ کی کنیاگنگا میں ڈوب گئی۔” (۱۴)
پریم چند کے مذکورہ افسانوں میں “خودکشی “کو کرداروں کے مسائل کے ردعمل کے باب میں پیش کیاگیا ہے۔جہاں تک اس انتہا پسندانہ ردعمل کا تجزیہ کیا جاتا ہے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ اس کا سب سے بڑا سبب کرداروں کی کسی مقصد کے ساتھ حد درجہ اٹیچ مینٹ اور ذاتی خلوص ہے۔
اس طرح کسی مقصد میں ناکامی یا محرومی کا احساس بھی ایک محرک ہے جو ان کے اندر جبلتِ مرگ کو توانائی دے کر دنھیں قتل یا خودکشی پر آمادہ کرلیتا ہے۔ یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ یہ کردار، مقصد یا خواہش سے جتنے مخلص تیں اتنے ہی زیادہ قیمت دینے کے لیے بھی تیار تیں۔ کردار چاہے تاریخی افسانوں کے ہوں، دیگر موضوعات پر مبنی افسانوں کے، پریم چند نے ان کو ان کے ردعمل کے تناظر میں پوری فن کاری کے ساتھ پیش کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مرنے کے باوجود یہ کردار ام ہوگئے ۔


حوالہ جات:

۱۔پریم چند،رانی سارندھا،کلیات پریم چندجلد۹،ناشر،قومی کونسل برائے فروغ اردو نئی دہلی،۲۰۰۳ء،ص۔165
۲۔ پریم چند ،رانی سارندھا،کلیات پریم چند جلد۹،         ایضاََ                ص۔178
۳۔پریم چند ،راجہ ہردول،کلیات پریم چند جلد ۹،         ایضاََ                ص۔256
۴۔پریم چند،ستیّ، کلیات پریم چند جلد ۱۲                 ایضاََ                ص۔162
۵۔پریم چند،راجپوت کی بیٹی،کلیات پریم چند جلد ۱۰      ایضاََ                ص۔98
۶۔پریم چند ،آہ بے کس ،کلیات پریم چند جلد ۹            ایضاََ                ص۔290
۷ ۔عؑظیم الشان صدیقی،افسانہ نگار پریم چند کا تنقیدی و سماجی محاکمہ ،ایجوکیشنل  پبلشنگ ہاؤس دہلی،سن،    ص۔63
۸۔پریم چند ،مزار آتشیں،کلیات پریم چندجلد۱۲          ایضاََ                ص۔244
۹۔پریم چند ،بینک کا دیوالیہ،کلیات پریم چند جلد۱۰        ایضاََ                ص۔298
۱۰۔پریم چند ،دست غیب،کلیات پریم چندجلد۱۰        ایضاََ                ص۔468
۱۱۔پریم چند ،کفارہ،کلیات پریم چند ،جلد   ،قومی کونسل برائے فروغ ِاُردو نئی دہلی،۲۰۰۳ء ص۔509
۱۲۔پریم چند ،زاد راہ ،کلیات پریم چند(13)                                   ص ،508
۱۳۔عظیم الشان صدیقی ،افسانہ  نگار پریم چند کا تنقیدی و سماجی محاکمہ    ایجوکیشنل پبلشنگ ہاوس، دہلی ۲۰۰۳ ص ۲۱۳
۱۴۔پریم چند ،زاد راہ ،کلیات پریم چند (جلد ۱۳)، قومی کونسل برائے فروع اُردو نئی دہلی، ۲۰۰۳ء ص 509


اوپر جائیں  |   پرنٹ کیجئےِ
انگریزی ورژن ای میل چیک کریں مرکزی صحفہ پرنٹ پسندیدہ سائٹ بنائیں رابطہ کیجئے www.shahzadahmad.com www.shahzadahmad.com