نثار عزیز بٹ کے ناولو ں کا مختصر تجزیہ

نیلم پی ایچ ڈی سکالر، شعبہ اردو، جامعہ پشاور

ڈاکٹرروبینہ شاہین، پروفیسر، شعبہ اردو، جامعہ پشاور

ABSTRACT
The article scans and analyzed novels by lesser acclaimed but gifted with richly craft female author Nisar Aziz Butt. Her novels been analyzed in the article along with views of other critics. It is discovered that Nisar could be termed as the most neglected female author of Urdu, as the themes, techniques and treatment by her pen prove her to stand along with giants of Urdu fiction. It is concluded that the quality and perspective presented in her novels are gifts of her in-depth and diverse reading; while her neglect is mainly due to her personal choice to be away from limelight.
 
Key Words: Urdu Novel; Urdu Female Authors; Urdu and Feminism
 

نثار عزیز بٹ اپنے عہد کی بڑی ناول نگار ہیں اردو ادب کی تاریخ میں ان کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔انھوں نے ایک صوفی جیسی ریاضت سے اپنے تخلیقی سفر کو جاری رکھا،جو آج تک رواں دواں ہیں۔ان کو ادب کے سنجیدہ قارئین نے سراہا۔مگر ناقدین نے ان کو وہ اہمیت نہیں دی جس کی یہ حقدار ہیں۔اس کی بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ نقاد کے پاس بھی اتنا علم ہونا چاہیے۔ جتنا علم نثار عزیز بٹ کے پا س ہے کیونکہ کسی بھی فن پارے کو پرکھنے کے لئے مطلوبہ علم ضروری ہے۔بدقسمتی سے اردو ناقدین میں سے معدودے چندکے    اس علم سے بہرہ مند ہیں کسی کے پاس مطلوبہ علم نہیں۔ دوسری بڑی وجہ نثار عزیز بٹ کی اپنی گوشہ نشینی ہے، کیونکہ وہ سستی شہرت پر یقین نہیں رکھتیں۔ وہ اپنے فن کو عبادت کی طرح اپنی ذات کے نہاں خانے میں چھپائے تمام عمر مصروفِ عمل رہی۔اس بارے میں مقبول و معروف افسانہ نگاراور خاکہ نگارممتاز مفتی لکھتے ہیں:
“میں نے نثار عزیز سے کہا کہ محترمہ تو جوہر بار ناول کا کھاگ لے کر بیٹھ جاتی ہے۔اور یوں چارایک سال کے لئے تخلیقی کام میں کھو جاتی ہے تو چھوٹی تحریریں کیوں نہیں لکھتی۔کوئی افسانہ، کوئی آپ بیتی، کوئی سفر نامہ،انشائیہ۔ بولی: نہیں لکھتی۔میری مرضی۔ میں تو ناول لکھنا پسند کرتی ہوں۔ میں نے کہا: بے شک ناول لکھ لیکن ساتھ ساتھ چھوٹی تحریریں بھی چھپتی رہیں تو کیا حرج ہے۔اُس نے ایک زور دار قہقہہ لگایا، بولی: آپ کا مطلب ہے، اپنا ڈھول بجاتی رہوں۔ ڈھول نہیں، میں نے کہا: اپنے وجود کا احساس دلائے رکھنا ضروری ہوتا ہے۔نہیں،وہ بولی: میں سیلف پروجیکشن کواچھا نہیں جانتی صاحبو! ایمان سے کہنا،آپ نے کبھی کوئی خاتون دیکھی ہے ۔جو سیلف پروجیکشن کو اچھا جانتی ہو۔۔۔۔۔ ۔میں تو آج تک یہ سمجھتا رہا کہ خاتون آدھی سیلف ہوتی ہے اور آدھی پروجیکشن۔” (۱)
نثار عزیز بٹ کی زندگی کا مقصد لکھنا پڑھنا رہا ہے انھوں نے جو کچھ لکھا ،اس کے ساتھ انصاف کیا۔انھوں نے سیلف پروجیکشن کے لئے نہیں لکھا۔ نثارعزیز بٹ نے بہت پڑھا،چاہے وہ خیبر پختونخوا کا پسماندہ علاقہ ہو یا کراچی کی مصروف زندگی ہو۔ان کی منزل کوئی نہ کوئی لائبریری ہی ٹھہری۔ جہاں سے انھوں نے اپنے ذہن وقلب کو منور کیایہاں تک کے جب نثارعزیز بٹ نے یورپ کا سفر کیا تو وہاں بھی جگمگاتی تفریح گاہوں اور دوکانوں کی بجائے لائبریوں کی سیڑھیاں ان کو زیادہ بھلی لگتی۔ عام خواتین کی طرح انھوں نے بجائے دوسری مصروفیات کے لکھنے پڑھنے کو اپنا مقصد بنایا۔اس بارے میں ممتاز مفتی کہتے ہیں:
"۱۹۳۲ء سے آج تک میں نے صرف تین نثر نگار دیکھی ہیں جن کے انداز میں مردانہ دم خم ہے۔ایک تو عصمت تھی جو طرحدار ہونے کے باوجود گہری بات کرتی تھی اور وہ بھی مردانہ وار ۔۔۔ایک نثار عزیز ہے جو خاتون ادیبہ ہونے کے باوجود پھلجھڑیاں نہیں چلاتی۔حسیات کی بجائے ذہن کو بروئے کار لاتی ہے ۔اورمردانہ وار کندھے جھٹک کر بات کرتی ہے۔۔۔۔۔۔” (۲)
یہی وجہ ہے کہ ان کے ناولوں کا کینوس عالمی صورتِ حال کا  پوری طرح احاطہ کرتا ہے۔ان کے ناولوں کی عورت ایک روایتی کردار کے بجائے کہیں استحصال اور کہیں باغی بن کر ابھرتی ہے بلکہ بطور ایک فرد معاشرے میں اپنا کردار دیکھتی ہےنہ صرف فرد بلکہ ایک مکمل فرد جسے صنفِ نازک بن کر کوئی رعایت نہیں چاہیے اور نہ ہی وہ سر تسلیم خم کیے ہر اچھی برُی بات کی تقلید کرتی ہے۔بلکہ اپنے شعور کی آنکھ سے خود اپنے فیصلوں پر قادر ہوجسے سہاروں کی ضرورت نہ پڑے۔ یوں تو اردو میں عرصے سے اچھے ناول لکھے جاتے رہے لیکن ایسی تصانیف گنی چنی ہیں۔جنھیں ہم صحیح معنوں میں ناول کہہ سکتے ہیں۔جو ناول کی تکنیک پر پورے اترتے ہیں۔
ڈپٹی نذیر احمد اور پریم چند کے ناولوں سے لے کر اب تک اردو ناول کئی انقلابات سے دو چار ہوتا رہا۔اس کے کینوس میں نما یاں تبدیلی پیدا ہوئی۔ آج اس کا مفہوم زیادہ وسیع ہو گیا ہے اور مغرب کے بڑھتے ہوئے اثرات کے زیر اثر زندگی کےتقاضے تیزی سے بدلنے لگے ہیں اور اب اس میں خارجیت کے ساتھ ساتھ داخلیت کی جھلکیاں بھی جا بجا نظر آنے لگی ہیں۔ اب  گزشتہ ادب کی یعنی ۱۹۳۶ء سے پہلے کے ادب کی سب سے بڑی خصوصیت فنکاروں کی قنوطیت تھی۔اس قنوطیت کی کئی وجوہات تھیں۔کچھ تو سیاسی حالات کے ساتھ شامل ہو کر ہمیں ترکے میں ملی اور کچھ ادبی روایت کے طور پر ہم تک پہنچی۔تقسیمِ ہند کے بعد بدلتے ہوئے پیچیدہ سماجی حالات کی وجہ سے یہ قنوطیت دوبارہ ابھری۔ایک صدی غلامی کے بعدآزادی آئی۔آزادی اپنے ساتھ خون کا دریا لائی۔فرقہ وارانہ فسادات ایک نئے ملک کی صعوبتیں آپس کے اختلافات، بے روز گاری، ان تمام حالات میں ادبی تخلیق کے امکا نات بعض لحاظ سے محدود ہو گئے۔ لیکن اس کے باوجود حساس فنکاروں نے ہمیشہ،ہر دور میں خواب دیکھے۔بہتر اور شاندار زندگی کے خواب، ترقی اور بلندی کے خواب۔نثار عزیز بھی ان فنکاروں میں شامل تھیں۔انھوں نے بھی ایک خواب دیکھا اور اس خواب کی تعبیر ان کا پہلا ناول “ نگری نگری پھرا مسافر “ ہے۔یہ ناول مصنفہ کی پہلی کوشش ہے اور اس کوشش میں وہ کافی حد تک کامیاب نظر آتی ہیں۔
پہلےناول سے پیشتر محترمہ نثار عزیز بٹ کی چند کہانیاں اور تنقیدی مضامین شا ئع ہو چکے ہیں۔لیکن انھوں نے ناول کو اپنایا۔اس حوالے سے نثارعزیز بٹ تذکرہ کرتی ہیں:
“ناول مجھے بچپن سے ہی پسند تھے۔میں نے بہت سے انگریزی اور اردو ناول میٹرک میں ہی پڑھ لئے تھے۔اس لئے میں نے ناول ہی کو اپنایا۔” (۳)
نثارعزیز بٹ کا پہلا ناول”نگری نگری پھرا مسافر” افگار کی داستان ہے۔جو بچپن سے حد درجہ جذباتی ہے۔وہ منصور کی پر ستش کرتی ہے لیکن جب منصور افلاطونی محبت کی بلندیوں سے لڑھک کر جسمانی محبت کا  قائل ہو جاتا ہے۔تو افگار کی محبت چپکے سےختم ہو جاتی ہے۔مسافر یکایک اپنے آپ کو ویرانی میں پاتا ہے اور ایک بار پھر زند گی کا سفر شروع ہو جاتا ہے یہ سفر ناول کے آخری صفحے تک جاری ہے۔اس ناول کا اگر تجزیہ کیا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ مرکزی خیال آدرش کی اسیری کے تحت خود پرست کردار کی شخصیت کا تحفظ ہے۔ پورے ناول میں کوئی ایسا مقام نہیں۔جہاں افگار نے زمانے، حالات یا مضبوط سے مضبوط مد مقابل شخصیت کے آگے ہتھیار ڈالے ہوں۔ اس کی نفسیات کی پرت در پرت تہیں وہ طلسم ہے۔جو اس کی دکھ بھری زندگی میں جھانکنے پر مجبور کر دیتے ہیں۔
نثار عزیز نے اپنے پہلے ناول کا نام اردو کے نامور شاعر میرا جی کے ایک شعر سے اخذ کیا ہے شعر کچھ یوں ہے:
نگری نگری پھرا مسافر گھر کا رستہ بھول گیا
کیا ہے تیرا ؟کیا ہے میرا؟ اپنا پرایا بھول گیا(۴)

افگار کی زندگی کا سفر دو محاذوں پر جاری و ساری دکھا یا گیا ہے۔ داخلی محاذ پر وہ خود اپنے آپ سے بر سر پیکار ہے اور خارجی محاذ پر بھی وہ کسی کے آگے سر جھکانے کو تیار نہیں۔ یہ وہ سفر ہے جو زندگی کے آخری سانس تک جاری رہے گا۔یہاں سفر کو ئی منزل نہیں تراشتا بلکہ خود ہی منزلِ  مقصود بن جا تا ہے۔ افگار بچپن کی محرومیوں کا شکار۔۔۔۔وہ لڑکی ہے ۔جسے تقدیر نے مایوس حالات کے بھنور میں لا پھینکاہے۔ قدرت نے اسے زبردست حساس ذہن عطا کیا ہے۔وہ ٹی بی کے مرض میں مبتلا ہے۔ مختلف قوتیں اس کی شخصیت کی توڑ پھوڑ کے لیے اسے اپنے حصار میں لینے کی کوشش کرتی ہیں۔لیکن وہ اس  چیلنج کا حوصلہ مندی کے ساتھ مقابلہ کرتی ہے۔اس طرح شعوری طور وہ اپنی عمر سے آگے دوڑتی نظر آتی ہے اور اپنی تمام تر محرومیوں کا مقابلہ کرنے کے لیے اس نے اپنے لیے جو آدرش تخلیق کیا ہے۔اسے پانے کے لیے وہ داخلی اور خارجی دنیاؤں میں مائل بہ سفر ہے گو کہ وہ دیگر کرداروں سے سماجی طور سے مربوط ہے لیکن کسی طرح بھی ان کی انفردی زندگیوں میں دخیل نہیں،البتہ دیگر تمام کردار اس پر اندازہونا چاہتے ہیں لیکن وہ ایک ہی جست میں ہر حصار سے باہر نکل جاتی ہے جیسے وہ کوئی بے قرار و بے چین روح ہو۔
افگار کے داخل کی تلاش اور کھوج  کسک سے عبارت ہے۔خارج میں افسردگی کا ماحول ہے اور سینی ٹوریم اس سفر کی بڑی گزر گاہ ہے۔جو اس کے دکھوں میں مزید اضافہ کرتی ہے۔سینی ٹوریم کا ماحول ، موت سے مقابلہ کرتے دیگر کرداروں سے ربط و ضبط اور ان کے المناک انجام کے تصور سے لرز جاتی ہے تاہم اسے اطمینان ہے کہ و ہ اس دکھ بھری دنیا میں تنہا نہیں،بلکہ اس جُلومیں دیگر لوگ بھی جل رہے ہیں۔ پھر ا س کا آدرش بھی اسے موت کے کرب کو برداشت کرنے کا حوصلہ دیتا ہے۔
عام آدمی آدرش کے بغیر زندگی گزار دیتا ہے لیکن ایک حساس شخص جو زندگی کے تمام محرکات کو اپنی ذات کی شکست و ریخت کے لیے بر سر پیکار دیکھتا ہے۔لاشعوری طور سے محرومی کے احساس کو کسی خواہش یا آدرش میں بدل دیتا ہے جو اسے زندگی گزارنے کا وسیلہ مہیا کر تا ہے۔ منصور اس کی پہلی خواہش اور پہلی چاہت کے طور پر ناول میں سامنے آتا ہے۔وہ خاموشی سے اس کا مقابلہ کرتی ہے اور اس کا آدرش اسے روحانی مقام تک لے گیا ہے۔افگار سمجھتی ہے کہ منصور صرف روحانی راستوں کا مسافرہے ۔وہ اس کے لیے مہاتما بن جاتا ہے لیکن ایک دن اس کے خواب ریزہ ریزہ ہو جا تے ہیں۔جب منصور وارفتگی کے عالم میں اس کی سانسوں کے قریب آ جا تا ہے۔اس کے ساتھ دونوں مخالف سمتوں میں کھو جاتے ہیں کیونکہ منصور روحانی محبت کے بجائے جسمانی محبت رکھتا ہے جبکہ افگار روحانی محبت پر یقین رکھتی ہے۔ افگار چونکہ فطری طور سے بے قرار روح ہے۔اس لیے وہ چند قدم آگے بڑھتی ہے۔اس سفر میں عرفان، عابد اور نعیم ملتے ہیں۔عرفان جذباتی ہے اور یہ جانتے ہوئے بھی کہ افگار ٹی بی کی مریضہ ہے۔ اپنی چاہت کو اندیشوں اور وسوسوں پر فوقیت دیتا ہے۔اس طرح عرفان کا آدرشی کردار افگار کے مقابلے میں ایک غیر آدرشی کردارہے جو اپنے طرز عمل سے افگار کو اس کی خود پسند دنیا سے نکا لنے پر آمادہ کرتا ہے لیکن ناکام ہو کر اپنی دنیا بسا لیتا ہے۔ افگار کے اس رویے کے متعلق ڈاکٹر خالد اشرف کہتے ہیں:
“ نگری نگری پھرا مسافر” کی ہیروئن افگار جو انتہائی خواب زدہ اور  رومان پرست ہے۔منصورسے محبت کرتی ہے لیکن عشق میں جدائی  کی کسک بر قراررکھنے اوراپنے جذبہ عشق کو ابدی بنانے کے لئے اس  سے شادی نہیں کرتی۔ وہ اِس قدرسیمابی مزاج کی حامل ہے کہ  مختلف اوقات میں مختلف مردوںکو اپنی طرف ملتف کرتی ہے۔لیکن کسی کے  ساتھ بھی کامیاب زندگی بسرنہیں کرپاتی اور آ خر میں وہ تنہا رہ جا تی ہے۔” (۵)
نعیم کے بارے میں افگار کی رائے یہ ہے کہ عام سا ہے مغرور لگتا ہے اور خاموش رہتا ہے۔اسی سے ملتی جلتی رائے افگار عابد کے بارے میں رکھتی ہے۔اس لیے وہ عابد کو بھی مسترد کرتی ہے۔غرض یہ کے اس کردار میں مفاہمت کا کوئی پہلو نہیں زندگی جیسے کہ ہے وہ قبول نہیں کرتیں۔ وہ قدروں اور زندگی کے تمام مروجہ اصولوں کے خلاف بغاوت پر آمادہ ہے اس طرح وہ اپنے آپ کو ایسے مقام پر لا کھڑا کرتی ہے۔ جہاں وہ زمانے کی گرفت سے آزاد ہے۔اس کے اردگرد کے کردار اسے دنیاوی پابندیوں میں جکڑنے کی کوشش کرتے ہیں ۔لیکن وہ سب کی خواہشات کو نظر انداز کر دیتی ہےوہ اپنے سفر کو روک نہیں سکتی۔البتہ جب وہ گھٹن کا شکار ہوتی ہے تو ماحول کے بدلنے کو ترجیح دیتی ہے اور ملک چھوڑ جاتی ہے جو کہ آدرشی ذات کی فراریت پسندی کا اشارہ ہے۔ہو سکتا ہے اس فراریت میں اسے سکون کے لمحات میسر آنے کی امید ہو ویسے بھی وہ سکون،امن اور پناہ کی خواہشات رکھتی ہے ،جو ازلی ہے۔
یہ خواہش بظاہر معصوم ہے لیکن تصوف کی سطح پر یہ انسان کی اپنی ذات اور کائنات سے بلند تر ہو کر اپنے آپ کو دیکھنے کی ازلی خواہش کا اظہار ہے۔ایک نقاد کا خیال ہے کہ زندگی میں قانون تلافی کا عمل جاری ہے۔ اس عمل کے تحت ہم دیکھتے ہیں کہ کسی شخصیت کی کمتری کے خلا کو دوسری شخصیت کی برتری پرُ کر کے اسے کامیاب بناتی ہے یا پھر یہ کہ انسان کے دکھوں، غموں اور بدنصیبوں کی تلافی خود ہمارے مذہبی عقائد میں موجود ہے۔دراصل افگار چٹان کی طرح مضبوط عینیت پسند کردار ہے جو مفاہمت کے بجائے آدرش کے ہاتھوں فنا ہونے میں اپنی بقا تلاش کرتی ہے۔جسے ہم آدرش کی اسیری کا المیہ بھی کہہ سکتے ہیں۔
نثار عزیز بٹ کا دوسرا ناول”نے چراغے نے گلے” آٹھویں دہائی کے اوائل میں منظر عام پر آیا۔اس دوران کئی اور ناول مثلاََ آبلہ پا، خدا کی بستی، تلاش بہاراں، اداس نسلیں ، آگ کا دریا،اور دوسرے ناول وغیرہ بھی چھپ چکے تھے۔ناول کے سنجیدہ قارئین نے “ نے چراغے نے گلے”کو بھی پسندکیا  اس ناول کا کینوس “ نگری نگری پھرا مسافر” کے مقابلے میں کافی وسیع ہے۔
نثار نے اس میں بر صغیر کے تمام سیاسی، معاشرتی،تاریخی اور سماجی رجحانات کو اپنا موضوع بنایا ہے۔یہاں کئی کردار ہیں اور کہانی کئی سطحوں پر پھیل گئی ہے۔ہندوستان سے لے کر انگلستان تک تحریک پاکستان سے محبت اور انگریزوں سے نفرت کا پہلوخدیجہ مستور کے ناول “آنگن” کی طرح یہاں بھی موجود ہے۔تاہم سیاسی و تاریخی حقائق کا بیا نیہ انداز سے تذکرہ اور مؤرخ کی طرح اپنے ذاتی خیالات کو اس میں گڈ مڈ کر دینے کے عمل کو قاری شدت سے محسوس کرتا ہے لیکن اس کا مثبت پہلو یہ بھی ہے کہ اس عمل کو وہ اپنے شعور کی توسیع کا ذریعہ بھی سمجھتا ہے،کچھ ناقدین اسے فنی کمزوری سے تعبیر کرتے ہیں۔تاہم اس سے ناول کے مجموعی تاثر پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ اس ناول میں پس منظر کے طورپر جنگ آزادی، تحریک خلافت، سائمن کمیشن کی آمد، سول نافرمانی کی تحریک سے لیکر برصغیر پاک وہند کے بٹوارے تک کے حالات کو تفصیل کے ساتھ پیش کیا گیا ہے۔ ڈاکٹر سید جاوید اختر اس بارے میں کچھ یوں رقم طراز ہیں:
“یہ ناول اُردو زبان کے گنتی کے چند ناولوں میں سے ایک ہے۔جس میں عصر حاضر کی تاریخ کو پس منظر کے طور پر استعمال کیا گیا ہے” (۶)
مرزا ادیب کے تحقیق کے مطابق یہ ناول فارسی کے ایک شعر سے متاثر ہوکر لکھا گیا ہے کیونکہ اس ناول کا عنوان کم ازکم اس شعر کے ایک مصرعے سے ماخوذ ہے۔ ان کے خیال کے مطابق:
“نے چراغے نے گلے” مغل شہزادی جہاں آرا کے ایک شعر کا حصہ ہے اور پورا شعر یوں ہے۔
برمزار ماغریباں نے چراغے نے گلے
نے پروانہ سوز و نے صدائے بلبلے (۷)

ناول کو موضوع اور عنوان کے حوالے سے دیکھا جائے تو اس کا عنوان انسان کے اندر کی دنیا کی غمازی کرتا نظر آتا ہے۔ عنوان صاحب تحریر کی مزاجی کیفیت کا آئینہ دار ہو تو موضوع کی اہمیت بڑھ جاتی ہے نثار کے یہاں ہر کرداراپنے آدرش کے آئینے میں دیکھا جا سکتا ہے۔جمال افروزسیدھی سادی لڑکی ہے اور اس کا آدرش اس کا شوہر ضیاء اللہ ہے۔جس کی خدمت کرنا اس کا اولین فرض ہے ضیاء اللہ کا والد پرانے خیا لات رکھتا ہے اور نوکری چھوڑ کر اپنی زندگی عباد ت میں گزارتا ہے۔عبادت اور اعلیٰ اقدار اس کا آدرش ہے۔
نثار عزیز بٹ نے زندگی کی مکمل پس منظر کی خاطر آدرش کی اسیری اور اس اسیری سے رہائی دونوں پہلوؤں کا احاطہ کیا ہے۔مثلاََ دیوان چند کا لڑکا من موہن اسی شخصیت کا پرتو ہے۔وہ عینیت پسند ہے اور زند گی سے مفاہمت نہیں کرتا۔اس کے برعکس اس کی بہن پدمنی اپنی سوچ کے دائرے سے باہر اپنے آدرش کا گلہ گھونٹ دیتی ہے۔وہ اپنا مذہب تبدیل کر کے آئی سی ایس آفسر منیر سے شادی کر لیتی ہے۔
اس ناول میں آدرش بذاتِ خود بڑا وسیع پس منظر رکھتا ہے۔نثار عزیز نے ہندوستان میں رہنے والی دونوں بڑی قوموں یعنی مسلمانوں اور ہندوؤں کا آدرش انگریزوں سے آزادی بتا یا ہے۔
من موہن کا آدرش جمال افروز ہے لیکن ان دونوں کے درمیان مذہب کی دیوار ہے وہ جمال افروز کے سحر میں گرفتا ر ہے۔لیکن مذہب ان دونوں کے راستے جدا کر دیتا ہے۔جمال افروز کی شادی کے بعد بھی وہ اس کے سحر سے باہر نہیں نکلتا۔انگریز لڑکی آئیوی کی قربت کے باوجود وہ جمال افروز کو فراموش نہیں کر پا تا۔غرض یہ کردار مایوسی اورغیر یقینی صورت حال کا شکار رہتا ہے ہر آدرشی انسان کی طرح یہ مایوسی اس کے نفسیات کے اہم عنصر ہے۔
ہندوستان میں وقوع پذیر ہونے والے حالات و واقعات اور ایک غلام ملک میں غلامی کی زنجیروں میں جکڑے رہنے والے فرد کا مصنفہ احساس دلاتی ہیں۔اسے اپنے ملک کے سیاسی و سماجی مصائب و مشکلات کا بھی احساس ہے پھر انگلستان میں حصول تعلیم کے دوران اپنے آقاوؤں کے آزاد سماج کا مشاہدہ اس کی مایوسی بڑھانے کا سبب بنتا ہے۔اسی وجہ سے وہ اپنی دوست آیؤی کے قریب ہونے کے باوجود اس سے دور ہے۔جس طرح انگریز ہندوستانیوں سے دور تھے۔من موہن کو اپنا آدرش آیوی لیے وہ “نگری نگری پھرا مسافر” کی “افگار” کی طرح بے قرار و بے چین رہتا ہے۔اس کی شخصیت کا استحکام شائد آدرش کی اسیری ہی میں ہے۔
پدمنی ناول میں جمال افروز کے بعد اہم کردار ہے وہ جس سے محبت کرتی ہے وہ ہرجائی نکلتا ہے نثارعزیز بٹ نے اس کردار کی روایتی سوچ میں تبدیلی اور آدرش کی اسیری سے رہائی کی علامت کے طور پر پیش کیا ہے وہ جس سے محبت کرتی ہے ۔وہ اسی جذباتی صدمہ پہنچاتاہے تو وہ ردعمل کے طور پر اپنے ہندو سماج سے بغاوت پر آمادہ ہوگئی اور مذہب تبدیل کر کے منیرسے شادی کر لی۔ منیرکا آدرش چونکہ ہندوں پر حکمرانی ہے،اس لیے وہ پدمنی کے معیار پر پورا اترتا ہے۔
“نے چراغے نے گلے” کے آخری ابواب میں ان مسائل کا تفصیلی ذکر ملتا ہے جو آزادی سے متعلق ہیں۔اس میں بے را ہ روی، فرقہ وارانہ فسادات،عورتوں کا اغوا اور ڈکیتی کی وارداتوں کا ذکر ہے ۔خورشیدکی سوچ ناول نگار کے خیالات کی ترجمان ہے۔ناول کاکردار خورشید بھی دیگر اہم کرداروں کی طرح آدرشی کردار ہے۔اس کا آدرش مذہبی تعصبات،نسلی منافرتوں اور زبان ورنگ کے فرق سے آزاد انسانیت پرست معاشرہ ہے جو اسے کہیں نظر نہیں آتا۔خورشید کی سوچ نثار عزیز کے فلسفیانہ مزاج کو ظاہر کرتی ہے۔کہیں کہیں خورشید کی گفتگو سے قاری بوریت کا شکار ہونے لگتا ہے۔لیکن یہ بھی سچ ہے کہ ہر اچھے ناول میں فلسفیانہ گفتگو لازمی امر ہے اور اس سے ناول کے خیالات بھی آشکار ہوتے ہیں۔
نثار عزیز بٹ کے تیسرے ناول” کارو ان وجود” ایسے دور میں منظر عام پر آیا۔جب کہ ایک عرصے سے ناولوں کی شدت سے کمی محسوس کی جا رہی تھی۔ویسے اسی دور میں دیگر ناولوں کی اشاعت بھی نیک شگون ہے۔مثلاََ ََ َ انتظار حسین کا ناول”بستی”، انیس ناگی کاناول”دیوار کے پیچھے”اورامتیاز علی تاج کا “پا گل خانہ” جو اس بات کی علامت ہے کہ ہمارے ادیبوں نے ناول کی جانب توجہ دینا شروع کر دی ہے اور اسی لئے پاکستان میں آٹھواں عشرہ ناولوں کا عشرہ قرار دیا جاسکتا ہے۔
“کاروان وجود” کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ کہانی ایک جیسی تماشاگاہ ہے۔اس اعتبار سے تاریخ،فلسفہ، سیاست،مذہب،بین الاقوامی امور اور سائنس،غرض کہ جو کچھ بھی منتشر اجزا کے طور پر بکھرا پڑا ہے۔وہ سب اس”تماشے” کاحصہ بن جاتا ہے۔”کاروان وجود” ظاہری صورت کے اعتبار سے”بیانی”اور نفسیاتی طرز تحریرکا ناول ہےنثارعزیز بٹ اپنے ادراکات کی بعینہ تصویر کھینچتی ہوئی ملتی ہیں۔فرق یہ ہے کہ یہ تصویر مختلف فریمزمیں ہے اور اس طرح یہ سلسلہ تصاویر کی شکل اختیار کرلیتاہے۔وقت پر حاوی آنے کی ایک کوشش موہوم جسے آخری تجزیے میں قارئین کے حُسن نظراور تدوین پر چھوڑ دیا گیا ہے۔اس ناول کا کلیدی نقطہ اس شعر کو قرار دیا جا سکتا ہے۔
ٹھہرتا نہیں کاروانِ وجود
کہ ہر لحظہ ہے تازہ شانِ وجود
ناول کی کہانی سارہ ضیا اور ثمر صالح کے اردگرد گھومتی ہے۔یہ ناول بھی نثارعزیز بٹ کے گزشتہ ناولوں کی طرح تقسیم ہند کے تناظر میں آگے بڑھتا ہے۔ناول کا مرکزی کردار سارہ تقسیم ہند کے حق میں تھی یا اس کے خلاف۔اس بحث میں پڑنے کے لیے شعوری”بیانات” پر نہ جائیے کہ یہ بیانات بڑے گمراہ کن بھی ہوسکتے ہیں۔قاری سارہ کی شخصیت کے اندر جاری و ساری ان عوامل پر نظر دوڑائے جو اندرونی منطق کے مطابق اہم فیصلے کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔سارہ کیا تھی ایک برہم شدہ بزم کی نوحہ گر تھی لیکن وہ وقت گزرنے کے ساتھ حالات سے سمجھوتے کرتی ہےاگر انسان اندر سے زندہ ہے ، تو وہ غلط فیصلے نہیں کرتا۔غلط فیصلے صرف اسی صورت میں سرزد ہوتے ہیں جب انسان ہیجان پرور بے شناختی کی زد میں آ جاتا ہے۔سارہ وہ اس دنیا میں کہ آئینہ خانۂ حیرت میں مگن ہے۔ ایک  تصویر  دوسری تصویر میں ڈال کر اسے ورطہء حیرت میں مبتلا رکھتی ہیں میں ڈال دیتی ہے۔
تحلیل نفسی کے لیے وجودیت اہم مو ضو ع ہے،وجودیت میں خو د پسند ی نر گسیت کا حصہ ہے۔ جس سے سماجی رشتے اور آئیڈ یل تشکیل پا تے ہیں۔ ثمر خو د پسند ی کا شکار ہے۔ نثار عزیز بٹ کے تمام ناولوں میں کردار آئیڈ یل کی تلاش میں سر گر دان نظر آتے ہیں ۔ بقول ڈاکٹر ممتاز خان :
“ نثار کے ہاں آدرش کی اسیری ایک اہم تھیم ہے۔ جس کے تجز یے  کو انہوں نے تین ناولوں کے مشترک کینو س پر کامیابی سے پھیلا دیا ۔  جسکی زد میں گز شتہ دہایؤں کا پرُ آشوب سیاسی،معا شر تی اور تا ریخی  ماحول فر د کی نفسیا تی تحلیل اوراس کے نازک خیالات و احساس لمحہ بہ لمحہ بدلتی زندگی کی قد ریں سب کچھ ہی آگیا ہے۔”  (۸)
تقسیم ہند کے وقت کی سارہ کے لیے استعارہ”بیانی اور توضیحی”نوعیت کا تھا لیکن اب یہ احساسِ ذمہ داری کے وزن تلے دبی ہوئی ایک ایسی حقیقت کا روپ دھار چکا ہے۔جسے عالمی تاریخ کے وسیع و عریض تناظر میں بھی محسوس کیا جا سکتا ہے اور اس احساس کے ساتھ خود جاں بھی ہوا جا سکتا ہےسو سارہ نا دیدہ اور دیدہ زخموں سے چور ہے۔وہ بتدریج ایک زیادہ بامعنی اور مربوط باطنی حسن کی تلاش میں ظاہری حُسن سے محظوظ ہوتی جارہی ہے۔
“کاروانِ وجود” لامحدود کی خواہشات میں گرفتار کردار کی کہانی ہے۔جس کی زندگی کا بظاہر سپاٹ سفر محض اس دور کا سیدھا سادھا المیہ نہیں ہے۔بلکہ اس میں اوڈیسیئس(Odysseus )کے سفر کی طرح اپنی منزل پر پہنچنے کے بعد بھی یک گونہ تشنگی کا احساس جاری و ساری ملتا ہے ۔تماشا دیکھنے والوں کے لیے تماشا”امید”پر ختم ہوتا دکھائی دیتا ہے لیکن نثار عزیز بٹ سارہ کا پورٹریٹ بالغ نظری اورچابکدستی سے کھینچا ہے کہ کردارناول کے اختتام پر ختم نہیں ہو پاتا۔ایسا لگتاہے کہ یہ سب ان کی خواہش کے مطابق ہو۔
“کاروانِ وجود “ اپنے نام کی رعایت کے بغیر ایک ایسے وجودیت پسند کردار کی کہانی ہے۔جس نے سب سے پہلے اپنا اثبات کیا، اور پھر اس حوالے سے اپنے سماج کا معاملہ صرف یہیں پر آکر نہیں رکتا، بلکہ یہ جدید اردو ادب کو ترقی نسواں کے ایک نئے مفہوم سے روشناس کرتا ہے۔ترقی نسواں کی یہ خواہش اس قدر”آفاقی” ہے کہ نثارعزیز بٹ نے معاشرے میں عدل و انصاف کی حکمرانی کے تصور کی کسوٹی ہی اس معیار کو ٹھہرایا ہے کہ معاشرے میں انسانی رشتوں کو باہم یک دگرکس حد تک آزادی میسر ہے۔
نثار عزیز بٹ اپنی’خواہشوں‘کی تکمیل کے لیے ماضی کے بنجر اور سنگلاخ قبائلی نظام کے جمود سے انصاف کی متقاضی ہیں۔ ان کا نمائندہ کردار سارہ ایک اعلیٰ اور ارفع آدرش کی طاقت سے سرشارہے ۔جس کی بدولت وہ اپنی صدی، سیارے اور ہم جنسوں سے محبت اور غیر مشروط محبت کے راستے پر گامزن ہو چکی ہے نثار عزیز نے سارہ کی شکل میں اردو ناول کو ایک ایسا کردار عطا کیا ہے جو زمانے کی پیچیدگیوں پر حاوی ہونے کی بھرپور کوشش کرتا ہے۔
ناول کا اہم اور دوسرا مرکزی کردار “ثمرصالح” ہے۔ثمر صالح کولوگوں سے دور رہنے کے باوجودایسا لگتا ہے جیسے وہ محبت کی متلاشی ہے ۔ ایک سہارے کی جو اس کی ذات کو مکمل کر دے۔جو اسے ابدی سکون عطا کر دے لیکن اس کا ہیولیٰ نما آدرش اس قدر اُونچائی پر فائز ہے کہ انسان کی نظریں اس تک پہنچ پا تیں۔پھر ایک ایسا لمحہ بھی آتا ہے۔جب وہ اپنی بےقراری اور تنہائی کے کرب کی شدت سے مغلوب ہو کر اندھیر ے میں چھلانگ لگادیتی ہے۔
آدرش کی اسیری اور زندگی سے مفاہمت کے درمیان ایک ازلی کشمکش پائی جاتی ہے۔نثار عزیز بٹ کا کمال یہ ہے کہ انہوں نے زندگی کے حقائق کا منفی تاثر قبول کرنے کی بجائے زندگی کی گہرائی کا شعور حاصل کرکے اس گہرائی سے ایک آفاقی حقیقت دریافت کی ہے۔نوے کی دہائ میں منظرعام پر آنے والے اردو کے چند اہم ناولوں میں نثار عزیز بٹ کے ناول”دریا کے سنگ”کی بھی اہمیت ہے۔ بھی ایعنی خود کلامی میں لکھا  گیا ہے۔ (Monologueیہ ناول صیغۂ واحد متکلم اور مونولاگ کی تکنیک کی خاص اہمیت ہے۔
یہ جدید عہد کے ایک تنہا اور حساس شخص کی یا دداشت پر مبنی ذاتی کہانی ہے۔اس کہانی میں دریا،زندگی کے بہاؤ کا ایک ایسا استعارہ ہے کہ جس سے راوی کی زندگی پھوٹتی ہے۔دریا کے بغیر واحد متکلم کی زندگی کے معنی متعین نہیں ہوتے۔وہ دریا کے ساتھ ہے اور دریا اس کے ساتھ۔اس کی زندگی کا محور دریا ہے۔اس کے رشتے ناطے دریا کے ساتھ جڑے ہیں۔راوی دریا کے کنارے اپنی زندگی کی ہی نہیں پوری کائنات کی معنویت تلاش کرتا ہے۔
ناول کے کردار (ساجد) کی  زندگی،اختیار اور جبر دونوں کے مابین چلتی ہے۔اس میں دریا کا سا بہاؤ تو ہے مگر خود اختیاری کا انجذاب بھی ہے۔یہ بات اس کے کردار کو اہم بناتی ہے۔وہ نہ صرف یہ کہ اپنے فیصلے خود کرتا ہے بلکہ وہ اُن کاذمہ دار بھی بنتا ہےزندگی اوراپنے فیصلوں کا دکھ بہ یک وقت اٹھاتا ہے اور جیتا ہے۔زندگی نے اُسے محرومی دی،یہ محرومی اُس کی تقدیر میں لکھ دی گئی تھی،اگرچہ یہ بات بقول اُس کے تجسس کا باعث تو نہ بنی،مگر زندگی کے متعلق بہت سے سوالات پیدا کرنے کا باعث ضرور بن گئی اور اسی وجہ سے وہ خود مختار ہونے کی تگ و دو کو اپنا شعار بناتا ہے۔اُسے اس بات کا تجسّس نہیں ہوتا کہ اس کے ماں باپ کون ہیں مگر یہ کرید ضرور لگ جاتی ہے کہ اس کے پیچھے کون سی کہانی پوشیدہ ہے؟ وہ اس گزری کہانی کو تو نہیں جان سکتا لہٰذا وہ اس سے معذور رہتا ہے۔مگراس کی کمی وہ اس طرح پورا کرتا ہے کہ اس کی آنے والی زندگی کی جو کہانی بنتی ہے اُسے وہ بہت خوبی سے ہمیں سناتا ہے لیکن اس کہانی میں اس کی تنہائی،بے چینی،لاپروائی کا عنصر، فراریت کا پہلو اور ایک گہری اداسی کا احساس ہمیں بتاتا ہے کہ وہ تقدیر کی محرومی سے اپنا دامن کبھی نہیں چھڑا سکا۔
وہ بہ یک وقت زندگی کے دھندوں میں ملوث بھی دکھائی دیتا ہے،اور زندگی سے ایک سطح پر الگ بھی نظر آتا ہے۔وہ لوگوں سے تعلق میں آتا ہےاور بے تعلقی اور تنہائی کی کیفیت سے دو چار بھی رہتا ہے۔ساجد اصل میں بیسویں صدی کے اُس حسّاس انسان کی نمائندگی کرتا ہے۔جس کا دو سطحوں پر زندگی بسر کرنا مقدر ہے اور یہ زندگی محض مغرب کے انسان کی ہی نہیں رہی،مشرق کا شہری انسان بھی اب دوغلی اور کھوکھلی زندگی گزارنے پر مجبور ہوتا جا رہا ہے۔
اجنبیت کے واضح نہ سہی مگر مدھم نقوش ساجد کی زندگی کا حصّہ ہیں۔اس کی زندگی میں تین خواتین اہم ہیں۔ان میں کوثر اور ثریا کا ان کی زندگی میں اہم کردار ہیں۔کوثر اس کی بیوی ہے اور ثریا اس کے دائمی کرب کا حصہ بلکہ منبع بن جا تی ہے۔ کرب،فراریت،داخلی بے چینی اور اکتاہت کا پہلو ساجد کو قریہ قریہ نگر نگر لیے پھرتا ہے۔وہ دنیا کے مختلف شہروں کا سفر اختیار کرتا ہے مگر کامل سکون سے پھر بھی محروم رہتا ہے۔موت اس کے پیاروں کو اس سے چھین لیتی ہے پہلے اس کے والدین جن کے بارے میں وہ نہیں جانتا، پھر اس کا بچہ اور آخر کار کوثر۔ ساجد کے بقول وہ کوثر سے فاصلہ بڑھاتا ہے کہ وہ بھی موت کے منہ میں نہ چلی جائے مگر پھر بھی سب موت کے بے رحم ہاتھوں کا شکار ہوتے ہیں۔ بلاشبہ نثارعزیز کا یہ ناول فلسفیانہ انداز و اطوار کا حامل ہے۔اسے اگرچہ مکمل فلسفیانہ ناول نہیں کہا جا سکتا مگر یہ مختلف فلسفیانہ لہروں پر مبنی ناول ضرور ہے۔
نثار عزیز بٹ کا شمار ان لکھاریوں میں ہوتا ہے جو اپنے فن کی خدمت میں صلے کے بغیر لگی رہتی ہیں۔ان کے ناولوں کا کینوس بیسویں صدی کے سماجی اور سیاسی ماحول کی عکاسی کرتا ہے لیکن ساتھ ہی ناول نگار کی عصری حسیت انہیں اکیسویں صدی کے قدموں کی چاپ بھی محسوس کر لیتی ہے۔ان کے اولین ناول “نگری نگری پھرا مسافر” ، “نے چراغے نے گلے” اور “کاروانِ وجود” اپنے اندر شکست و ریخت کا نوحہ پیش کرتے ہیں لیکن “دریا کے سنگ” تک پہنچنے تک نثارعزیز بٹ وقت کے دھارے کو دریا کی روانی کی طرح فطری عمل قرار دیتے ہوئے اس کے تغیر کو قبول کر لیتی ہیں اور روشن مستقبل کا استقبال کرتی نظر آتی ہیں۔
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ نثار عزیز موجودہ عہد کی نہایت اہم ناول نگار ہیں۔ان کی تصانیف سے سرسری گزرنا ممکن نہیں ۔ان کےحسنِ اخلاق کے علاوہ ان کی ادبی حیثیت بھی اپنی وقعت اور اپنا اعتبار رکھتی ہے۔اردو ناول کی غیر جانبدار تاریخ جب بھی لکھی گئی،نثار عزیز بٹ کا نام اس میں نمایاں تر ہو گا۔انہوں نے ناول نگاری کی روایت کو جدید جہتوں سے آشنا کیا۔
روایت کی ایک کڑی جو ان کے ہر ناول میں ابھر کر سامنے آتی ہے۔ یعنی عشق و محبت لیکن اس عشق و محبت کو اگر افلاطونی محبت کے زمرے میں رکھا جائے تو بات ٹھیک سمجھی جائے گی کیونکہ انہو ں نے محبت کو جنس سے دور رکھنے کی کو شش کی ہےاور محبت کو  گہرے شعور کے ساتھ برتا ہے اور یوں  ان کے ناول کسی ادبی تحریک کے تتبع میں لکھے جانے والے ناولوں سے مختلف ہیں۔ ان کے ناول “نگری نگری پھرا مسافر” ،”کاروان وجود” اور “دریا کے سنگ” ایسی کہانیاں ہیں جو ناول نگار کی ذاتی ایج پر دالالت کرتی ہیں وہ کسی نظام یا فلسفہ یا کسی ادبی  تحریک کی اندھی مقلد نہیں ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے  ہاں کسی ادبی تحریک کی فکری  پر چھا ئیاں یا عصری  ادبی فیشن کے فکری نقوش دکھا ئی   نہیں دیتے۔البتہ نے “چراغے نے گلے” میں رومان کے ساتھ مقا بلے میں  تاریخ کا پہلو زیادہ غالب ہے۔
مغربی تحریکات کے زیر اثر بہت سے ناول نگاروں نے مختلف فلسفوں اور تکنیک کو برتا۔ان میں وجودیت ،تاثرات ،علامت اور شعور کی رو اہم ہیں۔ان میں عزیز احمد کا “ایسی بلندی ایسی پستی”،قراۃ العین حیدر کا “آگ کا دریا”،ڈاکٹر احسن فاروقی کا” سنگم”، عبداللہ حسین کا”اداس نسلیں” اور خالدہ حسین نے بھی اپنے ناولوں”وجودیت”اور “شعور کی رو”کے اثرات کو قبول کیا ہے لیکن نثار عزیز نے ان مغربی تحریکات اور فلسفوں سے مختلف انداز میں اثر لے کر اپنا سفر جاری رکھا ہے۔ ان کےتمام ناول کم و بیش آٹو بیو گرافکل نوعیت کے ہیں۔جس میں انھوں نے اپنی ذات اور قریبی لوگوں کو بیان کیا ہے۔ البتہ ان کے ناول “نے چراغے نے گلے”کو نیم تاریخی اور نیم ثقافتی ناول کہا جا سکتا ہے۔ اب ہم نثار عزیز بٹ کے ناولوں کا تقابل ان کے ہم عصر اہم ناول نگاروں کے ناولوں سے کریں گے۔تاکہ ہمیں معلوم ہوسکے کہ وہ ادبی دھارے سے کس قدر جڑی ہوئی ہیں ۔ان میں قرۃ العین حیدرکے  ناول خدیجہ مستور،عبداللہ حسین،بانو قدسیہ،جمیلہ ہاشمی اور الطاف فاطمہ اہم نام ہیں۔جنہوں نے اردو ناول کے سفر میں بڑا اہم کردار ادا کیا ہے۔
قراۃ العین حیدر کا بڑا اور عظیم ناول”آگ کا دریا”ہے،جس نے تکینک اور اسلوب کے حوالے سے اردو کی روایت میں بڑی انقلابی تبدیلی پیدا کی۔”آگ کا دریا” برصغیر کی آزادی کے بارہ سال بعد وجود میں آیا۔اس میں مہابھارت سے پہلے کا دور ،مسعودغازی، غزنوی اور پھر مغلوں اور انگریزوں کے دور اور پھر آخر میں برصغیر کی تقسیم ایک تسلسل ہے۔قرۃالعین نے اودھ کے نوابوں اور امراء کا المیہ اپنے ناولوں میں بیان کیا ہے کیونکہ تقسیم کے بعد یہی طبقہ مسائل کا شکار ہوا۔نثار عزیز کے کردار بھی اپر مڈل کلاس سے تعلق رکھتے ہیں۔ قراۃ العین نے اڑھائی سو سالہ پرانی تاریخ کو ادبی پیرائے میں بیان کیا ہے جب کہ نثار عزیز نے اپنے “نے چراغے نے گلے” میں ۱۹۲۲ء ؁ سے ۱۹۴۷ء ؁ تک کے عرصے کو بیان کیا ہے۔کینوس کا واضح فرق ہے ،پلاٹ تکنیک کا واضح فرق ہے۔شعور کی رو کا استعمال نثار عزیز کے ہاں نہیں ملتا،قراۃ العین حیدر نے تاریخ کو فکشن کا فنی روپ دیا ہے۔
انتظار حسین کا ناول”بستی”ان کی ذاتی ڈائری کی تکنیک میں لکھا گیا ہے۔اس ناول میں علامت نگاری کا استعمال بھی کیا گیا ہے۔ جو قیامِ پاکستان کے پس منظر میں تاریخ و سیاست کو بیان کرتا ہے لیکن نثار عزیز نے پہلی مرتبہ صوبہ خیبر پختونخواکے ثقافت اور خوبصورت علاقے کی منظر کشی کو ناول میں شامل کر کے برصغیر کی  تہذیبی تاریخ بیان کرنے کی کوشش کی ہے۔
بانو قدسیہ نے اپنے ناول”راجہ گدھ” میں تخلیقی عمل سے معاشرتی رومانس کو داخلی اور خارجی دونوں حوالوں سے حقیقت نگاری کا ترجمان بنایا۔لیکن نثار عزیز نے معاشرتی مسائل سے زیادہ کرداروں کی نفسی اور ذہنی دنیا کو منکشف کیا ہے۔بانو قدسیہ اپنے تازہ ترین ناول “حاصل گھاٹ” میں نثار عزیز بٹ کی اپروچ کے قریب آتی ہوئی محسوس ہوتی ہے کیونکہ بانو قدسیہ نے اس ناول میں مشرق و مغرب کے درمیان ایک مکالمے کی صورت پیداکی ہے۔اسی طرح نثار عزیز بٹ کے ناولوں میں بھی جدت اور روایت کی کشمکش کو بیان کیا گیا ہے۔
عبداللہ حسین کے ناول”اداس نسلیں”میں بھی وجودی فلسفے کے اثرات ملتے ہیں۔اس ناول میں پاکستان کے بننے سے پہلے کے سیاسی اور تہذیبی کہانی اور ماضی کے ہندوستان میں پسماندہ نسلوں کے تجربات اور روایات پھوٹتے دکھائی دیتے ہیں۔ ہیں۔نثار عزیز کے ناولوں میں بھی فلسفہ وجودیت کے اثرات ملتے ہیں۔اور اس کے ساتھ ساتھ مصنفہ نے تہذیب سے زیادہ تاریخ کو نمایاں طور پر ابھارنے کی کوشش کی ہے۔
خدیجہ مستور کا ناول”آنگن” قیام پاکستان سے پہلے اور قیام پاکستان کے بعد کے واقعات پر محیط ہے۔یہ ناول پوری مسلمان گھرانوں کے آنگن کی کہانی پیش کرتا ہے۔اس میں افراد کے بحرانی لمحوں کی کہانی ہے،یہ تہذیبی اور سماجی ناول ہے سیاسی نہیں۔جزوی اعتبار سے تو یہ ناول نثار عزیز بٹ کے ناولوں کے قریب ہے کیونکہ اس میں سیاست نمایاں پہلو نہیں ہے۔
جمیلہ ہاشمی کا ناول “تلاش بہاراں”آزادی سے قبل اور آزادی کے بعد کے دور کا احاطہ کرتا ہےاس کا نقطہ عروج فساد ہے۔اس ناول پر رومانی اندازِ بیان غالب ہے۔شعریت اور رومانوی اندازِ بیان اس ناول کا اہم عنصر ہے ۔ یہی رومانوی اندازِ بیان اور شعریت کا استعمال نثار عزیز کے ناولوں میں بھی ملتا ہے۔ الطاف فاطمہ کا ناول”دستک نہ دو”میں بھی رومانوی اندازِ فکر اپنایا گیا ہے۔اگر دیکھا جائے تو نثار عزیز بٹ بھی اس رجحان کی نمائندگی کرتی نظر آتی ہیں۔ ان نمایاں ناول نگاروں اور نمائندہ ناولوں کا تقابلی جائزہ لینے سے ہمارے سامنے نثار عزیز بٹ کے فنی و فکری خدوخال روشن ہوتے ہیں۔انھوں نے روایت سے استفادہ بھی کیا ہے اور کئی جگہوں پر انحراف بھی کیا ہے۔ان کے ہاں جدت بھی ہے اور روایت بھی۔ان کے ناولوں میں اچھوتا پن بھی ہے اور قدامت پرستی بھی۔ان کے ناول ان کی علمی بصیرت کا نچوڑ ہیں۔ان کے نام کو اہم ناول نگاروں کی فہرست سے خارج کرنا ممکن نہیں۔ان کی اپنی ایک حیثیت اور پہچان ہے۔اور ان کو موجودہ دور کا اہم ناول نگار کہا جائے تو غلط نہ ہو گا۔انور سدید نثار عزیز بٹ کے بارے میں یوں رقم طراز ہیں:
“اس میں شک نہیں کہ ہمارے ہاں بھی مغرب کی طرح اصنافِ ادب پر مقبولیت اور عدم مقبولیت کے ادوار رونما ہوتے رہے۔لیکن ناول ایک ایسی صنفِ ادب ہے جو ہمارے ادب میں نسبتاََ کم لکھے جانے کے باوجود ہر دور میں کسی نہ کسی حد تک ارتقاء کا اگلا قدم اٹھاتی رہی ہے۔ اردو ناول نے ڈپٹی نذیر احمد،راشد الخیری، پریم چند سے لے کر قراۃ العین حیدر،نثار عزیز بٹ،جوگندر پال اور مشرف عالم ذوقی تک تقریباََ ایک صدی سے زیادہ سفر طے کرلیا تھا۔یہ عرصہ مغرب میں ناول کے ارتقائی سفرکے مقابلے میں اگرچہ زیادہ نہیں ہے۔تاہم اس حقیقت سےانکار ممکن نہیں کہ مقبول روایتی ناولوں کی افراط میں متعدد ایسے ناول لکھے گئے ۔جن پر اردو ادب فخر کر سکتا ہے۔اور جن کا ترجمہ مغرب کو بھی حیرت زدہ کر سکتا ہے۔” (۹)
ڈاکٹر انور سدید نے نثار عزیز کو اہم ناول نگاروں کی فہرست میں شامل کیا ہے۔لیکن ہم اس چیز کا اندازہ نہیں لگا سکتے کہ اردو کے کون سے ناول مغربی ادب کے ہم پلہ ہیں اور کون سے ناولوں کا ترجمہ مغرب کو حیرت زدہ کر سکتا ہے۔ڈاکٹر انور سدید کی رائے کو ہم مسترد نہیں کر سکتے اور نہ ہی اس سے کلی طور پر اختلاف کیا جا سکتا ہے۔تا ہم راقمہ کی رائے میں یہ خیال مبالغہ آرائی پر مبنی تصور کیا جا سکتا ہے۔کیو نکہ مغربی ادب ،اردو ادب کے مقابلہ میں کافی وسیع ہے۔میرزا ادیب نثار عزیز بٹ کے فن و فکر پر تبصرہ کر تے ہوئے یوں کہتے ہیں:
“مصنفہ اردو ادب کے عام ناول نگاروں سے با لکل الگ تھلگ نظر آتی ہیں۔ خواتین ناول نگاروں کی صف میں تو وہ بڑی حد تک اجنبی محسوس ہوتی ہیں جب سے کچھ خواتین ناول نگاروں کے ناول سکرین پر آئے ہیں۔ہماری اکثر خواتین ناول نگاروں کی یہ کوشش رہی ہے۔ کہ وہ کوئی ایسا ناول لکھیں جو فلمایا بھی جا سکے چنانچہ ناول جن کا پچھلے دنوں میں نے مطالعہ کیا ہے ان میں ان کی لکھنے والی خواتین کا انداز فکر اور انداز تحریر غیر مبہم طور پرارادے کی عکس نمائی کرتا ہوا محسوس ہوتا ہے ہوسکتا ہے شعوری طور پر انہوں نے ایسی کوشش نہ کی ہو۔مگر ان کی نیم شعوری کیفیت پر یہی ارادہ اپنی پرجھائیں ڈالتا ہوا دکھائی دے رہا ہے۔ان کے مقابلے میں “نے چراغے نے گلے “کی مصنفہ کی فکر ہر قسم کے خارجی لالچ یا تر غیب سے مکمل طورپرآزاد رہی ہے۔”(۱۰)
میرزا ادیب نے نثارعزیزبٹ کو خواتین ناول نگاروں کی فہرست میں سب سے الگ مقام پر فائز کیا ہے اور بہت حد تک ان کی رائے سے اتفاق ممکن ہے کیونکہ انھوں نے بہت کم لکھا۔مگر جو لکھا اس سے بھر پور انصاف کیا۔اگرچہ ادبی منظر نامہ میں ان کے صرف چار ناول اور ایک آپ بیتی نظر آتی ہے لیکن کیفیت کے اعتبار سے ان تصانیف کی قدر و قیمت بہت زیادہ ہے۔نثار عزیز کے مقام و مرتبہ پر بات کرتے ہوئے معروف شاعرہ ادا جعفری اپنی سوانح عمری میں لکھتی ہیں:
“اس میں کوئی شک نہیں کہ نثار موجودہ عہد کی نہایت اہم ناول نگار ہیں۔ان کی تصانیف سے سرسری نہیں گزرا جا سکتا۔نثار کے حسن اخلاق اور جمال کردار کے علاوہ ان کی ادبی حیثیت بھی اپنی وقعت اور اپنا اعتبار رکھتی ہے۔” (۱۱)
نثارعزیز بٹ کو اردو ادب کی تاریخ میں نظر انداز نہیں کیا جا سکتاکیونکہ ان کی تحریروں میں فن سے زیادہ فکری توانائی موجود ہے جو آنے والے ہر ذہین قاری اور نقاد کو متاثر کرے گی۔ اس میں شک نہیں کہ نثار عزیز بٹ نے جو لکھا وہ خلوص،لگن،محبت اور تہذیبی شعور کے ساتھ لکھا۔اور وہ اردو ادب کی ایک سنجیدہ ناول نگار ہیں۔
آنے والا دور نثار عزیز بٹ کی ان مجاہدانہ کوششوں کی پذیرائی کرے گا۔کیونکہ انھوں نے ناول لکھنے والوں کے لیے نئی راہیں کھو ل دی ہیں۔اگرچہ انھوں نے ناول کی تکنیک میں نئے تجربات کئے ہیں اور ناول کو ایک ایسا بیانیہ انداز دیاہے۔ جو دلچسپی اور دلکشی کا حامل ہے اہل نقد شائد اسے درست نہ سمجھے لیکن راقمہ کے خیال میں (Brain Wave)جسے ان کے ناولوں کو اسی تکنیک کے ذریعے پرکھا جا سکتا ہے۔نثارعزیز بٹ نے پلاٹ کی فنی باریکیوں کو ان الفاظ میں بیان کیا  ہے:
“قاری کو پلاٹ میں ڈوب کر پڑھنے کا سلیقہ آنا چاہیے۔تب جا کر وہ ناول کے سمندر کے گہرے پانیوں تک رسائی حاصل کر سکتا ہے۔”(۱۲)
پلاٹ کی تکنیک میں ایک خیال کے بعد دوسرا خیال آتا ہے اور ایک واقعے کے بعددوسرا (Brain Wave) واقعہ اور اس طر ح ایک بے ترتیب سلسلہ رواں دواں ہوتا ہے۔جس کو زیرک نقاد اورذہین قاری ہی سمجھ کربنیادی فلسفے اور کہانی کو ڈھونڈنے میں کامیاب ہو سکتا ہے۔اگرچہ آزاد نظم میں خیال اہم ہےبحر یا قوافی نہیں۔اس کے نمائندہ شاعر مجید امجد اور میرا جی جیسے نا بغہ روز گار ہو سکتے ہیں اور ان کو اردو شاعری کا مجتہد خیال کیا جا تا ہے تو نثار عزیز بٹ نے بھی ناول کی دینا میں یہی کچھ کیاانہوں نے فنی پہلوؤں پر زیادہ توجہ نہیں دی۔لیکن اپنے ناولوں کے ذریعے سے جو فکری توانائی دی ہےاس کو ان کے فنی معائب پر قربان نہیں کیا جا سکتا۔
نثار عزیر بٹ کی ایک انفردیت جو اُن کو قرۃ العین حیدر (کی  استثنا کی صورت کے علاوہ) کے ساتھ دوسرے لکھنے والوں سے منفرد بناتی ہیں وہ ان کا انگریزی،فرانسیسی اور روسی ادب کا مطالعہ ہے اور جس کے اثرات ہم ان کے ناولوں اور آپ بیتی میں جا بجا دیکھتے ہیں۔عالمی ادب کا اتنا گہرا مطالعہ ان کے ہم عصر وں میں نظر نہیں آتا۔ممتاز احمد خان کی بات قابل توجہ ہے کہ:
“نثار عزیز بٹ ابھی تک اپنی تخلیقی صلاحیتوں اور امکانات کے ساتھ فکشن کی پل صراط پر رواں ہے۔دیکھنا صرف یہ ہے کہ وہ کب اس پل صراط کو طے کر تی ہیں۔” (۱۳)


حوالہ جات

۱۔        ممتاز مفتی خاتون سپاہی،نثار ایک کہنہ مشق تخلیق کار ہے،بزم کتاب لاہور میں پڑھا گیا،۲۹ مارچ۱۹۸۱ء
۲۔       ممتاز مفتی۔ خاتون سپاہی، نثارایک کہنہ مشق تخلیق کارہے،بزم کتاب لاہور میں پڑھاگیا، ۲۹مارچ ۱۹۸۱ء
۳۔       نثار عزیز بٹ۔ گئے دنوں کا سراغ نیاز احمد سنگ میل پبلی کیشنزز۲۰۰۴ء
۴۔        میراجی کلیات میراجی مرتب:ڈاکٹرجمیل جالبی اردومرکزلند ن ۱۹۸۱ ء           ۷۱۹
۵۔        خالداشرف ڈاکٹر۔ برصغیرمیں اردوناول تقسیم کار،ایجوکیشنل پیلیشنگ ہاؤس کوچہ پنڈت دہلی۱۹۹۴ء  ۱۳۶
۶۔        جاوید اختر ڈاکٹرسید۔ اُردو کی ناول نگار خواتین، سنگ میل پبلی کیشنز،لاہور۔         ۱۹۹۷ء    ۱۸۶
۷۔        میرزا ادیب ۔ مضمون،نے چراغے نے گلے   فنون لاہور۔ ۱۹۷۳ء، ۱۹۰
۸۔        ممتاز خان ڈاکٹر ۔ تین ناولوں کا مثلث آدرش کی آسیری اور نثار عزیزماہنامہ اردو سرگودھا،۱۹۸۳ء، ۲۵۳
۹۔        انور سدیدڈاکٹر۔  ادب کہانی۔۱۹۹۷۔ مکتبہ فکر و خیال،لاہور۔  ۲۰۰۱ء            ۱۷۸
۱۰۔      میرزاادیب۔  فنون، مدیر احمد ندیم قاسمی،لاہور ۱۹۷۴ء     ۱۹۲۔۱۹۱
۱۱۔       ادا جعفری جو رہی سو بے خبری رہی، مکتبہ دانیال،کراچی  دسمبر           ۱۹۹۵ء      ۱۴۸۔۱۴۷
۱۲۔      نیلم ۔ نثار عزیز بٹ سے انٹرویو بمقام لاہور ۱۴،۱۵ اکتوبر   ۲۰۱۴ء  
۱۳۔      ممتاز احمد خاں ڈاکٹر تین ناولوں کا مثلث آدرش کی آسیری اور نثارعزیز،  س۔ن ۱۳

اوپر جائیں  |   پرنٹ کیجئےِ
انگریزی ورژن ای میل چیک کریں مرکزی صحفہ پرنٹ پسندیدہ سائٹ بنائیں رابطہ کیجئے www.shahzadahmad.com www.shahzadahmad.com