"تلاشِ بہاراں" کے کردارں  میں ناسٹل جیائی  عناصر : ایک مطالعہ

تہمینہ ناز ۔ ریسرچ سکالر ہزارہ یو نی ورسٹی مانسہرہ              ۔

 ڈاکٹر الطاف یوسف زئی۔ اسسٹنٹ پروفیسر ہزارہ یو نی ورسٹی مانسہرہ۔

ABSTRACT
The name of Jamila Hashmi in modern Urdu literary tradition is synonymous with experimentation with narrative structure and plot. Her novel, ‘Talash e Baharan”, won great acclaim owing to its theme and stylistic structure. In this novel some of characters wants to live in past. This nostalgic attitude is studied in this article and for the purpose, psycho-analysis of characters and of the writeris attempted.The novel is a case study in the clash of the Eastern and Western ethos and how the latter is responsible for much of the degradation in contemporary society. Jamila presented in the novel all three major types of nostalgia belonging to time, space and individuals; thus, not only this proves her craft but also her personal yearning for return to past.
 
Key Words: Nostalgia; Nostalgia and Literature; Nostalgia in Urdu Fiction
 

انسانی شعور اور احساس یادش بخیر کی پناہ گاہوں میں انسان کو تب داخل کرتا ہے جب اس کے قوی مضمحل ہو جائیں  یا اچانک کسی دنیاوی یا سماوی آفت کی وجہ سے اس سے اس کا وطن چھوٹ جائے تب انسان یا تو اپنی قوت اور طاقت کا زمانہ یاد کر کے دل پشوری کرتا ہے یا اس خطے کی خوبیاں بار بار بیان کرتا ہے جہاں سے وہ بہت دور آ گیا ہے۔
انسان کے اس احساس کو انگریزی میں “ناسٹلجیا” اور اُردو میں “یاد ماضی” کہا جاتا ہے ۔ اردو ناول کا مطالعہ کیا جائے تو اس انسانی کیفیت کی بازگشت اکثر ناولوں میں ملتی ہے ۔جس میں کہانی کار اپنی کہانی کو کرداروں کے اس نفسیاتی الجھن کی بنیاد پر آگے بڑھاتاہے۔یاد ماضی کے ذکر سے لبریز مختلف ناولوں میں ایک ناول تلاش بہاراںبھی ہے۔جمیلہ ہاشمی کے تخلیق کردہ اس ناول کے پہلے ہی صفحہ پر ناول کا ہیرو خوبرو سوشل ورکر کنول کماری کی یادوں میں غوطہ زن ہے جو اس بات کی غمارزی کرتا ہے کہ اس ناول کی فضا پر یاد ماضی کا سایہ بہت گھنا ہے ۔
“کنول کماری ٹھاکر کو تو میں مدتیں ہوئیں بُھلا بیٹھا تھا کم از کم میں نے دل کو یقین دلانے کی پوری کوشش کی تھی کہ میرے لیے کنول مر چکی ہے پھر بھی کبھی کبھی سالوں جس کوشش میں اپنی پوری قوت صرف کردو ، ماضی کے دھندلکوں میں سے نکل کر دوبول اسے اکارت کر دیتے ہیں ۔ اخباروں میں ادھر اُدھر جب بھی میں نے اس کا نام پڑھا دوسروں کی زبانی اس کا نام سنا ہے میں نے انجان بن کر اس کے نام کو اور اس کی بات کو بھلانا چاہا ہے پھر بھی میں اس کے نام کو نظر انداز نہیں کر سکا۔آج وہ میرے لیے پھر سے زندہ ہوگئی وہ ماضی کے سہارے ستاروں کی چھاؤں تلے رات کی سیاہی میں پھر میرے اتنے ہی قریب آباد ہو گئی ہے جتنی قریب وہ ہمیشہ رہی ہے کیونکہ آج کنول کماری ٹھاکر اس دنیا میں نہیں رہی ۔”(۱)
ناول کے مرکزی کردار کا بہترین مشغلہ  کنول کماری کے حسن کے گن گانا اور اس کی حسین یادوں میں جائے پناہ تلاش کرنا ہے ۔ لہذا وہ کنول کماری کی ایک ایک یاد کو سینے سے لگائے رکھتا ہے اور وقتاََ فوقتاََان حسین یادوں کو ایک ایک کر کے دل کے صندوق سے نکالتا ہے ان سے کھیلتا ہے ۔ خوش ہوتا ہے اور پھر یادوں کی دنیا کی سیر پر نکل جاتاہے ۔
“اس کی باتوں میں بڑی متانت اور ہنسی میں بڑی مٹھاس تھی اس کی پیشانی پر وہ نور تھا جس کو میں بیان کرنے سے قاصر ہوں جن کو صرف محسوس کیا جا سکتا ہے اور گہری پروقار آواز اس کی کم عمری کے باوجود موثر تھی پھر اس کا لفظوں پر زور دینے اور اپنی بات منوانے کا انداز، فیصلہ کن سی باتیں ، میں اسی پہلی ملاقات ہی میں اس سے متاثر ہوا تھا۔”(۲)
ناول کا ہیرو جو کہ ناول کا “Narrator”یعنی داستان گو ہے ، ایک دفعہ جب اپنے گھر آتا ہے تو گھر کی نوکرانی مونیا علالت کے بعد فوت ہو جاتی ہے اور ناول نگار گھر کی نوکرانی اور گھر کی مالکن کے درمیان خوشگوار تعلقات کو یاد  کر کے اس مری ہوئی عورت کو عقیدت کے پھول پیش کرتا ہے:
“جانے کب سے ہمارے گھر میں تھی پھر جب میں نے آنکھ کھولی ہے اسے رسوئی گھر میں دیکھا ہے اوپر کا کام کرنے کے لیے ایک او رنوکر تھا ۔ مونیا سارا دن رسوئی گھر میں بیٹھی چیخ چیخ کر اسے بتاتی رہتی اسے آواز دیتی رہتی ہوش سنبھالنے کے ساتھ مجھے اس کی آوازیں کبھی کبھار بری لگتی پھر اس کے بعد اور لوگوں کی طرح میں بھی اس سے مانوس ہو گیا سارے گھر میں صبح کی روشنی کے ساتھ پہلے مونیا کی آواز سنائی دیتی اور پھر دن بھر رات بھیگنے تک وہ تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد زور سے بولتی جو بھی نوکر کام کرنے کے لیے آتا ، مونیا کی اس چیخ وپکار سے تنگ آ کر تھوڑے دنوں میں چل دیتا پھر ماتا جی نے کبھی مونیا کو کچھ نہ کہا اس نے کبھی اس کوڈ انٹا نہیں اصل میں ماتا جی او مونیا کا رشتہ کچھ بہنوں کا رشتہ تھا دونوں میں نوکر اور مالک جیسی  اپنائیت سی پیدا ہو گئی تھی دونوں ایک ہی گاؤں کی تھیں مونیا سپیرن تھی اس کی آنکھوں میں مرتے سمے تک جو چمک رہی ہے وہ میں نے صرف کنول کماری ٹھاکر کی آنکھوں میں دیکھی تھی۔”(۳)
گھر کی یادوں کا سلسلہ چل نکلا تو ہیرو کو اپنا پچپن یاد آتا ہے جب کوئی غم اور دکھ نہیں ہے چھوٹی چھوٹی خوشیاں انمول ہیں اور انسان غربت اور امارات کی طبقاتی کش مکش سے آزاد ہے ۔
“مجھے یاد ہے جس دن میرا نتیجہ نکلا ۔ رام دلارے بہت بہت خوش تھا سارے گھر میں گاتا اور ناچتا رہا تھا ۔ مونیا نے کئی بار کہا بھی اب تمہارے ناچنے کے دن نہیں کیا اب تم نچلے بھی بیٹھا کرو، مگر اس کے پاؤں زمین پر نہ پڑتے تھے وہ بڑا خوش تھا اور تب میں نے پہلی بار زندگی میں رام دادا کا ناچ دیکھا جس کو لوگ اہپر ناچ کہتے ہیں ۔”(۴)
اور پھر بچپن سے جڑی مونیا کی یادیں ۔جس میں مونیا کی اماوس آنکھوں سے لیکر اس کی ان تھک ناچ اور رام دلارے کی شکست کا حال ماضی کی اٹکھیلیاں لے لے کر بیان کیا جاتا ہے۔
“وہ مونیا جس کی آنکھوں کی سیاہی اماوس کی راتوں سے بھی کالی تھی اس رات وہ مونیا مر گئی جس نے گاؤں والوں کی لاج رکھنے کی خاطر اپنے مرے ہوئے پتی کی یاد کو پیچھے چھوڑ کر رام دلارے کو ہرانے کے لیے سہیلیوں کے مجبور کرنے پر تین گھنٹے ان تھک ناچ سے رام دلارے کو ہرا دیا تھا”۔(۵)
ناول کا “Narrator”پھر اس کردار کنول کماری ٹھاکر کی یادوں میں کھو جاتا ہے جس سے اسے یکطرفہ اور لا حاصل محبت تھی ۔ جس کی ایک ایک ادا کو دل پر اس نے لکھ ڈالا تھا۔
“پھاٹک سے اندر داخل ہوتے ہوئے سب سے پہلے مجھے وہی نظر آئی گلاب کی کیاریوں کو پانی دے رہی تھی ۔ ساڑھی کا پلو کمر میں اُڑ سے ہوئے ، فوارہ ہاتھ میں پکڑے وہ پانی کی دھار گلاب پر ڈال رہی تھی ۔ پتوں پر پانی شبنم کے قطروں کی طرح لرز رہا تھا اور وہ بہت محویت سے آہستہ آہستہ اپنی ساڑھی بچاتی چل رہی تھی اس کی پشت میری طرف تھی ۔ لمبی چوٹی سیاہ ناگن کی طرھ لٹک رہی تھی اور اس شام مجھے احساس ہوا کہ وہ شان جو عام عورتوں میں ناپید تھی کنول کی شخصیت کا ایک اعلی جزو تھی۔”(۶)
ایک دن جب ناول کا مرکزی کردار اور اس کی بیٹی بینا بے تکلف باتیں کر رہے تھے اور بینا کے منہ سے اچانک کنول کماری ٹھاکر کا نام سن کر مرکزی کردار پھر یادوں کی اتھاہ کہرائی میں ڈوب جاتا ہے ۔لحظہ بھر غوطہ زنی کے بعد نکل آتا ہے ۔یہاں ناسٹل جیائی کیفیت ملاحظہ کیجیے:
“کنول کماری ٹھاکر کا نام بتا کر مجھے یوں معلوم ہوا کہ ایک طلسم تھا جو ٹوٹ گیا ایک خواب تھا جس پر میں جاگتے ہوئے بھی یقین کرتا رہا تھا اور اب بیداری میں اس خواب کے سائے بھی میرے دماغ سے مٹ گئے تھے۔ کنول اپنی ساڑھی کا پلو اپنے گرد لپیٹتی ہوئی باتیں کرتے ہوئے مسکراتے ہوئے اپنے لاپرواہ انداز کے ساتھ مجھے یاد آرہی تھی”(۷)
ناول کا ہیرو عورت پرست ہے خواہ یہ عورت ماں ہو ، محبوبہ ہو، بیوی ہو ،دوست ہو یا بیٹی اس کی یادوں کا محور عورت ہی ہے اور جب وہ ناسٹلجیائی دوروں سے دوچار ہوتا ہے تو اس کی یادوں کا مرکز بھی عورت ہی ہوتی ہے۔ اس کیفیت کو ناقدین شخصی ناسٹل جیا کہتے ہیں۔اس نفسیاتی عمل میں وہ   ماں کو اس انداز میں یاد کرتا ہے۔
“ماں کو میں نے سفید بے داغ ساڑھی کے علاوہ کبھی کوئی رنگین کپڑا پہنے نہیں دیکھا ۔ میں اوپر چلا جاتا ماں کے گر داپنے کھلونے پھیلائے کھیلتا رہتا مگر ماں مجھے کبھی منع نہ کرتی ۔”(۸)
اس کی ذہنی دنیا میں یادوں کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع ہو جاتا بچپن کی یادیں ، کھلونوں کی یادیں ، چھوٹی چھوٹی شرارتیں ، جو وہ اور بہن مل کر کرتے نہ سمجھ میں آنے والی باتیں رونا دھونا ، لڑنا جھگڑنا ، آزادی جس طرف منہ اٹھا ئے چل دیے ۔ عجیب بے خبری اور بے نیازی اب صرف خواب اور یادیں  تھیں جس سے نکلنا اس کے لیے ناممکن ہو گیا تھا۔
“ ماں نے ہمسائے کے ساتھ کسی اور کے گھر بھیج دیا۔ دوپہر تک ہم کھلونوں سے کھیلتے رہے ۔پھرتے رہے ، پھر بڑی ماں کے پاس جاؤں گی کہہ کر دنیارونے لگی تھی اور پھر روتے روتے کسی عورت کے کندھے سے لگی سو گئی ۔ رات کو ہم واپس آئے تو گھر میں ہولناک اداسی تھی بڑی ماں بالکنی میں بیٹھی اس طرح چپ تھی مانو جسے وہاں سے ہلی نہ ہو  او پھر تیسرے دن بڑی ماں بھی مر گئی۔دنیا اور میں اور قریب آ گئے وہ میرے کھلونوں کو بڑے شوق سے دیکھتی ہم دونوں خوشی سے پھدکتے ، ننھے پرندوں کی طرح خوش رہتے ، رسوئی میں گھس کر دنیاکو تنگ کرتے اور وہ ہماری عورتوں میں گھر ی ہوئی باتیں کرتی ماں کو آوازیں دیتی ، ہم بھاگ جاتے اور رام دلارے کے پاس کنوئیں کے منڈ پر بیٹھ جاتے اور اسے بڑی روٹیاں پکاتے دیکھا کرتے ۔ ان دنوں شام کو رام دلارے کے مضبو ط کندھوں پر بیٹھ کر سیر کو جاتے ہوئے بڑا مزا آتا نہر کے پانی میں بھنور پڑتے ہم کناروں سے چھوٹے چھوٹے پتھر اُٹھا کر پانی میں ڈالتے اور بھنوروں کے ساتھ پتھروں سے پیدا شدہ چکروں کو بہتے دیکھا کرتے اور گھر آتے ہوئے رام دلارے ہمیں کہانیاں سنایا کرتا ۔دنیا کےگھنگھریالے بال ہوا میں اڑتے”(۹)
اور پھر بچپن کا حسین مشغلہ ، جن ، پریوں ، بھوتوں کی باتیں قصے کہانیاں ، معصوم حیرتیں ، اور سوچ ، خود تراشی ہوئی تصور اتی تخیلاتی دنیا اور اس دنیا میں اُڑتے ہوئے چھوٹے چھوٹے بچپن ۔یہاں مصنفہ زمانی ناسٹل جیا کی زبردست تصویر کشی کرتی ہے۔
“تمہارے سینگ کہاں ہیں ؟ تمہارے تو دانت بھی بڑے نہیں ہیں ۔تم جن نہیں ہو سکتے۔  ارے دنیا دیدی میں نے سینگ اُتار کر رکھے ہوئے ہیں اور دانت بھی جب تم بڑی ہو جاؤگی تم کو جن بن کر بتاؤں گا۔  سچ مچ وہ اپنے ننھے ہاتھوں کو مارے خوشی کے ملنے لگتی۔بڑا مزہ آئے گا ناںرام دادا جب تم جن بنو گے۔ پھر میں تم سے ذرا بھی نہیں ڈروں گی۔”(۱۰)
اسی ناول میں Narratorکا ایک ایسا جملہ جس میں ناسٹلجیا کا ایک جہاں آباد ہے جس میں بچپن کا ماتم ہے جس کے پیچھے  یادوں کا ایک طوفان ہے بظاہر تو یہ ایک چھوٹا سا جملہ ہے لیکن کردار کے تمام نفسیاتی دکھوں کا احاطہ کرتا ہے ۔
“دنیا کی چیخ و پکار
ماں کی باتیں
اور رام دادا کی کہانیاں
سنتے سنتے بچپن بیت گیا۔”(۱۱)
ناول کا مرکزی کردار  تلاش بہاراں میں بُری طرح پرانی یادوں سے چمٹا ہوتاہے جب آدمی اکیلا ہو جاتا ہے۔ اس کے جذبات وا حساسات کو سمجھنے والے دور پیچھے رہ جاتے ہیں اور جو باقی تھے وہ بھی ایک ایک کر کے جدا ہو جاتے ہیں تب انسان اپنی یادوں کی پٹاری کھولتا ہے اور اس پٹاری سے ایک ایک تجربہ نکالتا ہے اور کچھ بنانے کی کوشش کرتا ہے ۔یہاں انسانوں کے ایک نفسیاتی عمل کی طرف مصنفہ کا اشارہ کتنا بلیغ ہے۔
“گھروندے بنانا اور خواب دیکھنے کی عادتیں انسان میں بہت پرانی ہیں بچپن میں ریت کے گھروندے بناتا انسان بڑھاپے تک ریت کے گھروندوں میں دلچسپی لیتا ہے ۔”(۱۲)
ناسٹلجیا کی کیفیت جب انسان پر طاری ہوتی ہے تو پھر حال کتنا ہی جاذب اور رنگین کیوں نہ ہو انسان ماضی کو ہی پوجتا چلا جاتا ہے وہ صرف ایک ہی بت کے سامنے بیٹھتا ہے اس کو بوجتا ہے اور اسی کی مالا جپتا ہے۔ایک اور بلیغ جملہ ملاحظہ ہو۔
“ماضی کی یادیں اتنی زبردست ہوتی ہیں کہ حال کے روغن کو پاش پاش کر دیتی ہیں ۔”(۱۳)
اس ناول کے داستان گو کو ایک اور کردار شوبھا سے ملنے کا اتفاق ہوتا ہے جو کہ ایک ناکام عاشق ہے اور حال کی رنگینیوں میں کھو کر خود کو مصروف رکھنے کی ناکام کوشش کرتی ہے لیکن اس کے اندر کا شکست خوردہ انسان بار بار سر اُٹھاتا ہے ۔کہانی میں  کہانی کار اور شوبھا کے بیچ خط و کتابت کا ایک سلسلہ جاری ہوتا ہے اور ایک خط میں شوبھا اپنے بچپن کے اچانک نکلنے اور ڈولی میں بیٹھنے کی یادیں شئیر کرتی ہے ۔
“سال کیسے نکل جاتے ہیں اور میں وہ نہیں ہوں جو برسوں پہلے کواڑ پکڑ کر یوں کھڑی ہو گئی تھی ۔ گویا میری زندگی وہی تھی میکے کے گھر میں مجھے رکھنے کی ساری طاقت اس کے ساتھ بندھی تھی پھر ماں نے کواڑ میرے ہاتھوں سے چھڑا لیا اور گلے مل کر مجھے ڈولی میں سوار کرتے ہوئے چیخ پڑی تھی اس کی وہ چیخ آج بھی میرے کانوں میں گونجتی ہے ایسی چیخ جو زندگی کا سرمایہ اپنے ہاتھوں سے دوسرے کے حوالے کرنے پر ایک بے بس عورت کے منہ سے نکلی تھی۔ زندگی تو تب ہی بیت گئی تھی جب میں نے میکے کے گھر کے آنگن سے باہر جھانکا تھا۔ جب میرے پاؤں میں گھنگھرو بجے تھے جب ڈھولک پر تھاپ بڑی تھی اور سکھیوں نے آنے والے باہر کا خیر مقدم کرنے کے لیے وداع کے گیت گائے تھے ۔ چھوٹے سے گھر میں اندر باہر کتنی رونق تھی ۔ مہمانوں کی، آنے والوں کی، بدھائی دینے والوں کی ، ایک تانتا سا بندھا رہتا تھا ۔ ان دنوں رکھو میری ساڑھی کا آنچل پکڑ کر کہتا۔تو تم اندر کیوں بیٹھی ہو تم باہر کیوں نہیں چلتی  اب بھی کبھی میں اس کے ننھے ہاتھوں کی مضبوطی یاد کرتی ہوں تو کانپ جاتی ہوں ۔ کاش رکھو ذرا بڑا ہوتا” (۱۴)
آگے مزید یا دوں کی راکھ کر ید کر ید کر وہ لکھتی ہے :
“ اس رات نتھ جھک جھک کر میرے سےلگی ہونٹوں کو چومتی رہی۔ ٹخنوں پر بندھی پائل کے گھنگرو بجتے رہے ۔ وہی ایک زندہ رات جب زمین پر چلنے والی نرم ہواؤں نے آسمان پر چمکتے ستاروں کو بلندی پر جا کر چھو لیا تھا۔ وہی رات جب آکاش کی روشنیاں اکٹھی ہر کر میرے دل میں اتر آئی تھیں وہ رات جب ڈولی میں سوئی نائن خراٹوں کے ساز پر میرے خیال ناچ رہے تھے ۔ اور پہلی رات کا چاند بسنت رات کے ساتھ آسمان پر تیر رہا تھا کوئل کی کوک نے اس رات دل میں بڑی ہلچل مچا دی تھی۔ستارے دور دور تک پھیلے تھے اور انی چولی پر لگے اندھیرے میں چمکتے ستاروں کو دیکھ کر مجھے لاج آرہی تھی۔”(۱۵)
انسان جب ڈھلتی عمر کا شکار ہو جاتا ہے تو پھر اس کی یادیں اس کے زخم بن جاتی ہیں اور ان زخموں کی دوا بھی یادیں ہی ہوتی ہیں یادوں میں کھو کر یہ انسان زخموں کو کریدتا بھی ہے اور خود یادوں سے ہر وقت اس کی مرہم پٹی بھی کرتا ہے ۔ کچھ ایسا ہی مسئلہ تلاش بہاراںکے مرکزی کردار کے ساتھ بھی ہے
“وہ لمحاتی قید سے آزاد ہو کر دکھ اس بڑے چکر میں گھومتے کبھی کبھار پھر دل سے آ ٹکراتے ہیں تب ماضی کی یاد اتنا بے قرار کرتی ہے کہ دکھ کا وجود سب وقتوں سے زیادہ اور قریب لگتا ہے میں “دنیا” کے دکھ اس کی موت کے ماتم کو تقریباََ مندمل زخم کی طرح سمجھ بیٹھا تھا ہسپتال کے قریب گزرتے ہوئے مجھے جب پہلے پہل وہ کمرہ دکھائی پڑتا جس میں دینا نے اپنی زندگی کی آخری سانس پورے کیے تو میں منہ موڑ لیتا تھا۔ پگلا انسان دکھوں اور یادوں سے منہ موڑ کر سوچتا ہے وہ ہمیں چھوڑ جاتے ہیں ۔”(۱۶)
ناول میں پہلی بار کہانی بیان کرنے والا اپنی زندگی کے دکھوں سے نکل کر باہر کی دنیا کو دیکھتا ہے اور اس کے ارد گرد جو تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں وہ تبدیلیاں اور نیا زمانہ ترقی کے نام پر اس کی اُکتاہٹ اور اکیلے پن میں اضافہ کر رہا ہے ۔
پہلے جو چیزیں راحت اور سکون کا سامان بنتی تھیں ۔ رفتہ رفتہ ناپید ہوتی جا رہی ہیں اور وہ اس ترقی کے سیلاب کے سامنے اکیلا کھڑا پچھلے زمانے کو یاد کر رہا ہے ۔ وہ زمانہ جو سست رفتار تھا اوروہ اس کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چل رہا تھا لیکن اب جب وہ دو قدم چلتا ہے تو دنیا اس سے بہت آگے نکل چکی ہوتی ہے اور وہ راستے کے کنارے بیٹھ کر گئے دنوں کا ماتم کرنے لگتا ہے ۔
“باہر ستاروں کی چمک کے مقابلے میں آسمان سیاہ تھا ۔ سڑک کے کنارنے دونوں کوٹھیوں میں ریڈیو گونج رہے تھے ۔ آج سے چند سال پہلے ملک میں اس قدر ریڈیو نہ تھے بہت لوگ موسیقی کی طرف متوجہ تھے اب گانے کے لیے کون ریاض کرتا اچھا فن تو رخصت ہو رہا ہے پہلے لوگ فنکاروں کی قدر کرتے تھے ۔ بڑے بڑے استادوں کو دور دور سے مدعو کیاجاتا تھا اور پھر کبھی کبھی سرور کی محفلیں برپا ہوتی تھیں تو ان کو ایک نادر تحفہ سمجھا جاتا تھا۔ اب ریڈیو کی سوئی گھماؤ اور بہتر سے بہتر فنکار کے ریکارڈ سن لو آج کل کالوں کے ذریعے دنیا ترقی کر رہی ہے کسی شے پر بھی محنت کی ضرورت نہیں ۔ زندگی ایک دم کیسی آسان ہو گئی ہے ہم مغرب کے احسان سے کس طرح باہر آ سکتے ہیں مغرب نے ہم کو اپنی چیزوں سے نفرت کرنا سکھایا ہے اپنی چیز تھی ہی کون سی پرانی روایتیں ، پرانے رواج ، پرانی قدریں اور گھسی پٹی فرسودہ راہوں پر کون سفر کرتا رہے نئے اُفق سے واقف ہو کر پرانے اندھیاروں کی طرف کون جاتا ہے پھر بھی ہمارے ملک میں کئی بے وقوف ابھی باقی ہیں ۔ ریڈیو اب زندگی کا مشغلہ بن گیا ہے ۔ مگر پھر بھی فن کے نام لیوا ابھی زندہ ہیں ۔ سازوں میں سسکتی ہوئی جان باقی ہے رواجوں میں کہیں کہیں زندگی ہے اور پھر اگر ہم بڑے شہروں سے دیہاتوں کی طرف سفر کر جائیں تو ہم اپنے آپ سے اور قریب ہو جاتے ہیں ۔ گاؤں کی گلیوں میں اکتارہ لیے فقیر اور جوگی گاتے ہوئے مل جاتے ہیں ۔ آسمان پر ہوائی جہاز سفر کر رہا ہے اور میلوں تک سوئی ہوئی دھرتی پر صرف رہٹ کی روں روں سنائی دیتی ہے ۔ ہر طرف سبزہ ہے اور مدہوش زمین اپنے حسن کے بوجھ سے خود ہی دوہری ہوتی جاتی ہے ۔ گاؤں کی گوریاں اب بھی پیتل کے کا سے لیے بنگھٹ پر اکٹھی ہوتی ہیں اپنی نارنجی ، عنابی ساڑھیوں کو متناسب جسموں کے گرد لپیٹتی اب بھی کھیتوں کی طرف جانے والی پگڈنڈیوں پر نظر آ جاتی ہے ۔ مجھے شہروں میں گہما گہمی سے نفرت ہے ۔ مجھے آسانیوں سے نفرت ہے کاش کوئی ہمارا پرانا دیس واپس لادے ہمیں قافلوں اور کاروانوں کی رینگتی ہوئی پیاری سی زندگی واپس کر دے ہمارے سازوں کی زبانیں ہمیں واپس کر دے ہمیں ہمارا اصل پھر سے مل جائے اے کاش۔”(۱۷)
دکھ ، اکیلے پن ، نئے معاشرے میں تنہائی سے نجات کے لیے وہ ہر قیمت چکانے کو تیار ہیں لیکن اب چیزیں نہیں آنے والی وہ پانی پُل کے نیچے سے بہت پہلے گزر چکا ہے اور وہ اب صرف اس کے لیے تڑپ سکتا ہے وہ چیزیں ان کے لیے حسین ہیں لیکن نئی نسل کے لیے فرسودہ اور دقیانوسی ہیں ۔
تنہائی اور اگلے زمانے کا دکھ جب حد سے بڑھتا ہے تو داستان گو کو اپنا آپ بھی ایک فرسودہ اور بے کار چیز نظر آتا ہے اور کبھی کبھی ان سوچوں میں وہ کہتا ہے کہ پتہ نہیں زمانہ بدل رہا ہے کہ ہم بدل رہے ہیں اور جیت آخر میں کسی کی ہو گی   ہمار ی یا زمانے کی۔
“زندگی ایک ناؤ ہے جس پر راتیں لہروں کی طرح گزرتی ہیں ہماری زندگی میں دائرے ہیں لہریں ہیں ، بہاؤ ہیں ، چاہے کچھ بھی ہو موت ہو یا حیات ہو، مرنا ہو یا جینا ، راتیں گزر جاتی ہیں ، جانے کب سے کتنے زمانوں سے چپ چاپ، خاموش ، اداس طوفانی راتیں یوں ہی گزرتی آئی ہیں ۔ آسمان دھات کا نیلا خول بالکل ساکن ان گزرنے والی راتوں کو ہمارے سر پر گراتا ہے۔ وقت کبھی نہیں تھمتا۔
اور میں آج بھی سوچتا ہوں وہ رات جب میں اور ڈون وارٹن من موہن کے ساتھ بائی جی کے گھر گئے تھے ۔ کتنی پیچھے رہ گئی ہے بہنے والی ناؤ آگے جار ہی ہے ۔اور لہریں بھی تو آگے ہی آگے بہہ رہی ہیں۔ کیا وہ رات پیچھے ہے یا ہم ؟
کبھی کبھار تو ایسا لگتا ہے جیسے زمانہ نہیں ہم گزر رہے ہیں اور آج تاریکی میں مجھے لگ رہا ہے جیسے ایک گزر ہوا زمانہ ہوں بہتا ہوا وقت ہوں ۔ جب وہ لوگ اپنے پاس نہ رہیں جو اپنے تھے تو وقت تھم جاتا ہے ہم گزرتے ہیں اور پھر بھی میں یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ اصل بات کیا ہے ، کون پار اترتا ہے ۔ زمانہ یا ہم ۔”(۱۸)
کہانی کا رجب رادھے کرشن کے قلعہ نما گھر میں داخل ہوتا ہے تو ایک لمحے کے لیے وہ پچپن کی کہانیوں والی طلسماتی دنیا میں پہنچ جاتا ہے اور کہتاہے ۔
“میرے دماغ میں طلسمی قلعوں اور پریوں کے خواب گھوم گئے ۔ ایسی کہانیاں جو ہم نے بچپن میں اپنی دادی اماں اور پھر اس کے بعد رام دلارے کے کندھوں پر سیر کو جاتے اور آتے سمے سنی تھیں ۔ جن میں رام دلارے خود ہی ہیرو ہوتا تھا اور خود ہی ہیرو کی تلوار کا شکار”(۱۹)
بچپن گاؤں کی یادیں ۔ چھوٹے چھوٹے واقعات جو گاؤں کے ان پڑھ معاشرے کا روز کا معمول ہوتا ہے انہی واقعات پر گاؤں کی زندگی چلتی پھرتی نظر آتی ہے تلاش بہاراں کا مرکزی کردار اپنی یادوں کو انمول موتیوں کی طرح اپنے بغلی جیب میں چھپائے رکھا اور جب نئے زمانے کے وہ سانچے جن میں وہ خود نہیں ڈھل سکتا تو پرانے سانچے نکالتا ہے جن میں وہ خود کو ڈھلا محسوس کرتا ہے اور خود کو مطمئن کرنے کی کوشش کرتا ہے ۔ گاؤں کی گلیاں ، کھیت ، پگڈنڈیاں ، گندے نالے ، کچے گھر ، روشن دن ،خاموش راتیں ، جس میں دولت کی آمیزش نہیں جس میں آگے بڑھنے  کا مقابلہ نہیں ہے جو دکھاوے اور ریا کے ناسور سے نابلد ہیں ان  حسین یادوں کے بارے میں کہتا ہے
“مجھے آج اپنے بچپن کا ایک واقعہ یاد آ رہا ہے گلی محلوں میں جھگڑا بھی ہو جاتا ہے اور پھر یہ گلی محلے اگر گاؤں کے ہوں اور معاملہ عزت کا ہو تو عورت کو دل بڑھانے کے لیے مرد کے پس منظر میں کام کرنا پڑتا ہے ان دنوں میں ننھیال گیا ہوا تھا۔ گاؤں کی زندگی میں سب طرف سکون ہوتا ہے درختوں کی چوٹیوں پر آسمان ہوتا ہے اپنے خواب دیکھتا ہوا پگڈنڈیوں ہوئی ہوئی اڑتی ہوئی راہ گزار وں کی خاک میں چھپی ہوئی ، ریت ، پانی ، میلوں تک پھیلے ہوئے کھیت ، مویشیوں کے گلے میں پڑی گھنٹیوں کی ٹنٹنائیں او نیم خوا بیدہ شا میں میرے ساتھ دنیا بھی تھی ۔ زمین گاؤں والوں کی دولت ہے دولت پر کبھی کبھار لے دے بھی مچتی ہے ۔ ہمارے گھر کے قریب دو خاندانوں میں جھگڑا ہو گیا دونوں طرف سے آدمی لٹھ لے کر نکل آئے میں بھی تماشا دیکھ رہا تھا ۔ میں بہت چھوٹا ہوں پر مجھے پھر بھی یاد ہے کہ عورت اپنے بھائی کو لمبا بانس پکڑاتے ہوئے کہہ رہی ہے تیزی سے نکل جاؤیہ مرد کی شان نہیں کہ وہ گھر میں بند رہے ۔ یہ لفظ میری یاد میں جم کر رہ گئے ہیں اور میں سوچتا ہوں ہماری تمام تر فتوحات عورت کی محتاج ہیں اور زندگی کی تمام تر مشکلات پر ہم عورت کی وجہ سے قابو پا سکتے ہیں ۔ اس کا یادکیا ہوا ایک بول، ایک بات، زندگی کے میدان میں سرشار رکھتی ہے اور ہم رکاوٹوں کی پرواہ کیے بغیر تیزی سے بڑھتے ہیں ۔”(۲۰)
کنول کماری کی یادوں سے شروع ہونے والے اس ناول میں یاد ماضی کی فوقیت مسلمہ ہے ۔جمیلہ ہاشمی نے اس پورے ناول میں ماضی کی یادوں کے سہارے کہانی کو آگے بڑھا یاہے ۔ بے مزہ حال سے تنگ مرکزی کردار کو بار بار خوش کن ماضی میں جھانکنا پڑتا ہے جو کہ فاصلے پر ہونے کی وجہ سے اس کے لیے کشش رکھتا ہے۔ جمیلہ ہاشمی نے اپنے کرداروں میں زمانی ، زمینی اور شخصی تینوں طرح کی ناسٹلجیائی کیفیات کو اُبھارکر انسانی  نفسیات کو پیش کر نے میں وہ بڑی حد تک کامیاب دکھائی دیتی ہیں۔

حوالہ جات

۱۔        جمیلہ ہاشمی ، تلاش بہاراں ، سنگ میل لاہور، ۲۰۱۱،        ص ۵
۲۔       ایضاً ص ۷
۳۔       ایضاً ص ۱۹
۴۔       ایضاً ص ۲۱
۵۔       ایضاً ص ۲۳
۶۔        ایضاً ص۳۶
۷۔       ایضاً ص ۵۰
۸۔       ایضاً ص ۶۳
۹۔        ایضاً ص ۶۵
۱۰۔      ایضاً ص ۶۵
۱۱۔       ایضاً ص ۶۵
۱۲۔      ایضاً ص ۶۳
۱۳۔      ایضاً ص ۱۰۴
۱۴۔      ایضاً ص ۱۰۹
۱۵۔      ایضاً ص ۱۱۰
۱۶۔       ایضاً ص ۱۲۶
۱۷۔      ایضاً ص ۱۸۵
۱۸۔      ایضاً ص ۲۱۵
۱۹۔       ایضاً ص ۲۲۷
۲۰۔      ایضاً ص ۲۹۴۔ ۲۹۳

اوپر جائیں  |   پرنٹ کیجئےِ
انگریزی ورژن ای میل چیک کریں مرکزی صحفہ پرنٹ پسندیدہ سائٹ بنائیں رابطہ کیجئے www.shahzadahmad.com www.shahzadahmad.com