اردو غزل کی تدریس (مسائل ، مشکلات اور امکانات)

ڈاکٹر سہیل احمد،اسسٹنٹ پروفیسر،  شعبہء اردو، جامعہ پشاور

ABSTRACT
Genre of Ghazal as it is flourished in Urdu literature is distinct for its representation of stray thoughts, collective sensibility and symbolism. This features though main reason of its beauty and acceptance, but at same time could be termed as main culprits that hinder its communication. Since in terms of quantity Ghazal is perhaps outnumbers all other genres in Urdu poetry, it is part of all curricula in schools, colleges and in post-graduate courses of Urdu. This short seminar paper is consist of four parts: first two being theoretical in nature that try to review particular issues related to teaching of Urdu literature and; analysis of the objectives cited in the Urdu curricula for teaching Ghazal and its logic. Third part of the paper discuss the practices of teaching Ghazal at Schools and Colleges, and Universities level. The paper ends with general and specific theoretical, as well as practical recommendations.
Key Words: Urdu; Ghazal; Tadrees; Nisab

کلیدی الفاظ : اردو؛ غزل؛ تدریس؛ نصاب
مقالہ کا موضوع اردو غزل کی تدریس (مسائل ، مشکلات اور امکانات) ہے۔ اس میں پس منظر کے طور پر ان مسائل کا تجزیہ کیا گیا ہے جو اردو اور اس کی مختلف اصناف کی تدریس کی راہ میں حائل ہیں۔ انہیں حل کرکے جدید انداز میں نصاب کی تشکیل اور اس میں بہتری لانے کے لیے کچھ سفارشات پیش کی گئی ہیں۔
دوسرا حصہ نصاب میں طے کردہ مقاصد اور ان کی مناسبت سے بحث کرنا ہے۔
تیسرے حصہ میں مختلف درجوں میں غزل کی تدریس کے موجودہ طریقہ کار سے بحث کی گئی ہے اور اس میں بہتری کے امکانات واضح کیے گئے ہیں۔
آخری حصہ نظری اور عملی سفارشات پر مشتمل ہے۔
طریقہ کار:مقالہ میں یہ طریقہ کار اپنایا گیا ہے کہ تدریس اردو بطور خاص غزل کی تدریس پر میسر مواد کا مطالعہ کرکے اسے ذاتی تجربات کی کسوٹی پر پرکھا ہے اور ان دونوں کو پہلو بہ پہلو رکھ کر غزل میں نصاب اور تدریس کے مسائل، مشکلات اور امکانات کو زیر بحث لایا گیا ہے۔ نمونہ کے طور پر خیبر بختونخوا کے نصاب کو پیش نظر رکھا ہے۔
۱۔  اُردو غزل کی تدریس میں حائل مشکلات کی کئی صورتیں بنتی ہیں۔ اس  میں پہلی صورت پس منظر کی کمزوری کی وجہ سے پیدا ہوئی ہے۔ اس کا تعلق صرف غزل کی تدریس سے نہیں تمام اصناف کی تدریس میں ان مشکلات سے سابقہ پڑتا ہے۔
خیبر پختونخواہ کے اُردو (لازمی) نصاب میں غزل جماعت نہم و دہم سے شامل کی گئی ہے۔ اس سے پہلے کے درجوں میں جو نصابی عنوانات در ج کیے گئے ہیں ان کے مقاصد میں بچوں کے اندر زبان بولنے، پڑھنے اور لکھنے کی صلاحیت پیدا کرنا بنیادی حیثیت رکھتے ہیں۔ ( 1)
ابتدائی اور ثانوی درجوں میں زبان دانی کے مقصد کو پیش نظر رکھ کر نصاب کی تشکیل کی گئی ہے۔ لیکن عملی طور پر زبان بولنے، پڑھنے اور لکھنے سے زیادہ توجہ مختلف اسباق پڑھانے پر دی جاتی ہے۔ جس سے بچوں میں زبان بولنے، پڑھنےاور لکھنے کی صلاحیت پیدا نہیں ہوتی۔ ان کی توجہ اسباق اور اس کے سوالات کو یاد کرنے پر مرکوز ہوتی ہے۔ ان درجوں میں یہ تعین نہیں کیا گیا کہ مقصد بچوں کو زبان پڑھانا ہے یا ادب کی تدریس کرنی ہے۔  یہی وجہ ہے کہ طلباء بارہویں جماعت تک اُردو پڑھنے کے باوجود نہ زبان سیکھ سکتے ہیں نہ ادب سے واقفیت حاصل کرسکتے ہیں۔
ڈاکٹر عطش درانی کے مطابق :
"پاکستان میں اردو پرائمری سے انٹرمیڈیٹ تک ایک لازمی مضمون کی حیثیت سے پڑھائی جاتی ہے لیکن اتنے سال اردو پڑھنے کے بعد بھی بہت کم طلبہ و طالبات ایسے نکلتے ہیں جو اردو بولنے، پڑھنے اور لکھنے میں مہارت رکھتے ہوں۔۔۔۔ اسکا مطلب یہ ہوا کہ نصاب اور طریقِ تدریس دونوں میں کوئی نہ کوئی کمی موجود ہے '' ۔ ( 2)
یہ کمی خیبر پختونخواہ کے طالب علموں میں زیادہ شدت سے محسوس کی جاتی ہے۔ تدریس اردو کے موضوع پر لکھی گئی کتابوں میں سب سے زیادہ اس کمی کا تجزیہ کیا گیا ہے۔ ابتدائی اور ثانوی درجات میں اردو تدریس کے چار مقاصد بیان کیے گئے ہیں ۔ بولنا، پڑھنا، لکھنا اور سمجھنا۔ ان مقاصد کو ڈاکٹر فرمان فتح پوری (3) مرزا خلیل بیگ (4) نے بہ تفصیل بیان کیا ہے۔ رشید حسن خان نے زبان سکھانے کے لیے معیاری املاء کی تدوین (5) اور غضنفر علی نے ایک معیاری قاعدہ کی تشکیل  پر زور دیا ہے۔ جس کے ذریعے طلباء کو حروف تہجی کی درست تعداد اور قواعد و املاء کے اصول سکھائے جاسکیں ۔ (6)
ادب میں کسی بھی صنف کی تدریس سے پہلے طلباء و طالبات کا زبان سیکھنا ضروری ہے۔ دوسرا مرحلہ ادب اور اس کے نظام فن و فکر کی تفہیم کا ہے۔ جب تک ایک طالب علم ابتدائی، درمیانی اور ثانوی درجوں میں زبان  اور ادب کے بارے میں  ابتدائی معلومات حاصل نہیں کرتا، ادب کے مزاج اور اس کی بنیادی اصطلاحات کو نہیں سمجھتا۔ اس کے لیے عملی طور پر ادبی اصناف سے متعلق اسباق کو سمجھنا مشکل ہے۔ غزل کی تدریس میں ادب اور اصناف کی تفہیم اور بھی ضروری ہوجاتی ہے۔ غزل کے علامتی نظام، اس کی اشاراتی زبان اور اشعار میں پیش کیے گئے مفہوم کو مخصوص پس منظر کے بغیر نہیں سمجھا جاسکتا۔ لہٰذا ضروری ہے کہ جس طرح ابتدائی اور ثانوی درجوں میں مختلف علوم کی تدریس کی جاتی ہے تاکہ اعلیٰ درجوں میں طلباء  ان میں سے کسی مضمون کا انتخاب کرکے اس میں مہارت حاصل کرسکیں اس طرح ادب کی تدریس بھی ایک علم کے طور پر ہونی چاہیے۔ جمالیات اور ذوق سلیم کی تربیت کے لیے ادب کو مخصوص علم کے طور پر پڑھانا ضروری ہے۔ جس سے اس شعبہ کا وقار بھی بلند ہوگا اور طلباء اسے ایک سنجیدہ علم کے طور پر پڑھنے کی اہلیت پیدا کرسکیں گے۔ اور اس میں دلچسپی بھی لیں گے۔ گویا پہلی منزل زبان کی تدریس کی ہے اور دوسری ادب کی تدریس کی ہے۔ زبان شناسی کا کام ادبی تحریروں سے بھی لیا جاسکتا ہے۔ لیکن وہاں مقصد زبان کی تدریس ہونا چاہیے۔ اس کے بعد ادب کی تدریس کا مرحلہ شروع ہوتا ہے۔
بقول  شمیم حنفی :
'' ثانوی درجات سے آگے ہی وہ منزل آتی ہے جہاں ادب کو ادب کی طرح پڑھایا جانا ممکن ہے۔ اس منزل تک پہنچنے کے بعد ادب کے استاد اور طالب علموں میں مکالمہ کی نوعیت   کوئی بامعنی  شکل اختیار کرتی ہے۔ اور  اسی منزل پر ادب اور غیر ادب یا ادبی زبان اور غیر ادبی زبان کے فرق و امتیاز کی کچھ وجوہات استاد اور طالب علم دونوں کے لیے ضروری ہوجاتی ہیں۔ '' (7)
زبان  اور ادب کی تدریس کے بعد ادبی اصناف کی باقاعدہ تدریس کا سلسلہ شروع ہونا چاہیے اور تدریس کو بامعنی بنانے کے لیے ادبی اصناف کا نصاب خاص اصولوں کی روشنی میں ترتیب دیا جائے۔  جس میں اصناف ، ان کے مزاج اور معیار و رفتار کا تعارف ضروری ہے۔ نصاب اس طرح مرتب کیا جائے جو موجودہ عہد اور اس کے مسائل سے زیادہ مطابقت رکھتا ہو۔ طلباء کی ذہنی سطح کے مطابق ہو تاکہ طلبا اس میں  دلچسپی لے سکیں۔ ادب اور خاص طور پر غزل کے  صرف ایسے نمونے نہ دیے جائیں جو عشق سے متعلق ہو، بلکہ  ان میں زندگی کے رنگا رنگ پہلووں  کی نمائندگی کی صلاحیت موجود ہو۔
غزل کے تدریسی مقاصد میں زبان شناسی کے ساتھ ساتھ جمالیاتی احساس اور جمالیاتی ذوق پیدا کرنا، شعری ذوق کی تربیت کرنا، طلباء کو غزل کے مزاج سے آشنا کرنا اور شاعروں کی فنی عظمت سے آگاہ کرنا شامل ہیں۔ انہیں مدنظر رکھتے ہوئے نصاب کو اس طرح مرتب کیا جائے کہ مطلوبہ اہداف حاصل ہوسکیں۔
۲۔ (الف) سکول اور کالج کی سطح پر اردو غزل کا نصاب: خیبر پختونخواہ کے اُردو نصاب میں غزل کی تدریس کا سلسلہ جماعت نہم سے شروع ہوتا ہے۔ نہم اور دہم کے نصاب میں بعض کلاسکی شعراء اور بعض جدید شعراء کی غزلیں  شامل ہیں۔ مقاصدتدریس  میں اصناف کا تعارف کروانا، ان پر تنقید اور طلباء میں تخلیقی صلاحیتیں پیدا کرنا۔ (8) ادب کی رفتار اور معیار سے روشناس کرانا، زبان اور اسکی خصوصیات کو سمجھنا (9) پڑھنے، لکھنے اور بولنے کی صلاحیت پیدا کرنا(10) شامل ہیں۔ ان مقاصد کے حصول کے لیے غزل کا جو نصاب مرتب کیا گیا ہے اس میں آتش، غالب، بہادر شاہ ظفر ، حسرت موہانی، جگر مراد آبادی، فراق گورکھپوری اور ادا جعفری کی دو دو غزلیں نصاب میں شامل کی گئی ہیں۔ ابتداء میں غزل کا تعارف، غزل اور نظم میں فرق  ایک مضمون کے ذریعے بتایا گیا ہے جو ناکافی ہے۔ ہر شاعر کے مختصر تعارف کے بعد اس کی غزلیں درج کی گئی ہیں ۔ اس نصاب سے غزل کی ابتداء و ارتقاء کا اندازہ نہیں ہوتا۔ زبان شناسی معلم کے تدریسی طریقہ کار کا ثمر ہے۔ جو ایک اچھے معلم کے ذریعے حاصل کیا جاسکتا ہے۔ لیکن غزل کی تدریس میں کچھ اور مقاصد کو پیش نظر رکھنا بھی ضروری ہے۔ جس میں غزل کی زبان اور ہیت سے واقفیت حاصل کرنا ، جمالیاتی احساس کو متحرک کرنا، شائستگی اور اخلاقیات کے اوصاف پیدا کرنا شامل ہے۔ جماعت نہم و دہم کے نصاب میں غزل کے ارتقائی سفر کی کچھ کڑیاں کم ہیں۔ اردو غزل کی ابتداء دکن سے ہوئی۔ ولی دکنی دکن کی روایت کا اہم نمائندہ ہے۔ اس کے بعد غزل کا دوسرا دور دبستان دہلی سے متعلق ہے جس کے اہم شعراء میں  میر اور دردکے نام آتے ہیں۔ ولی دکنی کو نظر انداز کیا گیا ، جبکہ میر اور درد کو  گیارہویں جماعت کے نصاب میں شامل کیا گیا  ہے۔ اس نصاب میں قدیم شعراء کے ساتھ جدید شعراء کو بھی شامل کیا گیا  جو ایک مستحسن قدم ہے۔ جس پر تدریس غزل پر کام کرنے والے اکثر محققین نے زور دیا ہے۔ وہ کمی جو پرانے نصاب میں تھی اُسے پورا کیا گیا ہے۔ غزل کے نصاب کی تشکیل میں تکرار سے بچنا چاہیے۔نیا نصاب مرتب کرتے وقت   ایسی غزلوں کا انتخاب کرنا چاہیے جو اس سے پہلے نصاب میں شامل  نہیں تھیں اور جو  غزل کے فن اور شاعر کی عظمت کو بیان کرنے کی اہلیت رکھتی ہوں۔ اس نصاب میں موضوعاتی تنوع کا خیال نہیں رکھا گیا۔ جذبہ عشق کو زیادہ اہمیت دی گئی۔ حالانکہ اردو غزل مخصوص اسلوب میں زندگی کے رنگا رنگ موضوعات  کو پیش کرتی ہے۔
 گیارہویں  اور بارہویں جماعت کی (اردو لازمی) میں بھی غزلیات شامل ہیں۔ اس کے تدریسی مقاصد میں زبان کے ردو بدل کے ذریعے انہی مقاصد کو دہرا یا گیا ہے۔ جو نویں اور دسویں کے نصاب میں درج ہیں۔ اس نصاب کی خوبی یہ ہے کہ اس میں جدید غزل گو شعراء کی نمائندگی بڑھا دی گئی ہے۔ البتہ نویں سے بارہویں جماعت تک کے نصاب میں تسلسل  کی کمی کا احساس ہوتا ہے۔ کلاسیکی غزل کی طرف دوبارہ رجوع کیا گیا ہے۔ غالب کو دوبارہ  نصاب میں شامل کیا گیا ہے۔ بارہویں جماعت میں اقبال کو بھی غزل گو کی حیثیت سے شامل کیا گیا ہے ۔ جن کا زمانہ ادا جعفری سے قدیم ہے۔ البتہ جدید شعراء کی نمائندگی میں اضافہ اور موضوعاتی تنوع کو پیش نظر رکھنا اس نصاب کی خوبیاں ہیں۔
گیارہویں اور بارہویں جماعت کے لیے اردو ادب (اختیاری) کا جو نصاب ترتیب دیا گیا ہے اس کے حصہ غزل میں ان خامیوں پر قابو پایا گیا ہے۔ کلاسیکی اور جدید غزل کی تقسیم میں بتدریج ارتقاء کو مدنظر رکھا ہے لیکن اس میں اور اردو لازمی کے نصاب میں تکرار کا احساس ہوتا ہے۔ دوسری کمی یہ  ہے کہ اس مقام پر بھی غزل کے تعارف ، ہئیت اور ارتقاء کے موضوع پر  کوئی   مضمون شامل  نہیں کیا گیا۔
(ب) جامعات میں اردو نصاب : بی اے سال سوم کے نصاب میں غزل کا حصہ موجود ہے۔ اس میں مقاصد نصاب الگ دستاویز کی صورت میں درج نہیں کیے گئے ۔ لیکن عرض مرتب میں ان مقاصد کے بارے میں کچھ اشارے دیے گئے ہیں ۔ اس میں طالب علموں میں ادب کا صحیح ذوق پیدا کرنے اور ایم اے اردو کے موجودہ نصاب سے مربوط کرنے جیسے مقاصد موجود ہیں۔ (11)
سال سوم کے نصاب میں بہت سی خوبیاں دکھائی دیتی ہیں اردو غزل کا تعارف اور ارتقاء پیش کرنے کے ساتھ ساتھ غزل کے بارے میں منتخب اصطلاحات کا تعارف بھی مضمون کی صورت میں موجود ہے ۔ صنف غزل کے تعارف اور غزل گو شعراء کے فن کے تنقیدی مطالعہ کو پرچہ کا حصہ بنادیاگیا ہے۔ غزل گو شعراء کے انتخاب میں غزل کے ارتقائی سفر اور قدیم و جدید غزل گو شعراء کی مناسب نمائندگی کا لحاظ رکھا گیا ہے۔ ڈاکٹر حمد حامد نے سال سوم کے نصاب کو تدریسی مقاصد کی روشنی میں پرکھتے ہوئے اسے بہترین نصاب قرار دیا ہے۔ جس میں جمالیاتی اور اخلاقی اقدار کی تربیت کا لحاظ رکھا گیا ہے۔ اور غزل کے فکری ارتقاء اور زمانی تغیرات کو بھی واضح کیا گیا ہے۔ اور قدیم و جدید غزل کے امتیازات سے روشناس کرایا گیا ہے۔ (12) لیکن اس نصاب میں بعض خامیاں موجود ہیں جدید تر غزل کا تعارف پیش  نہیں کیا گیا۔ جدید شعراء کی نمائندگی بھی کم ہے۔ اس نصاب کو ایم اے  اردو کے نصاب  سے مربوط کرنے کا دعویٰ کیا گیا ہے  مگر یہ نصاب مربوط ہونے کی بجائے تکرار کی خامی رکھتا ہے۔ ایم-اے اردو سال اول کے پرچہ غزل میں اقبال کے علاوہ تمام وہ شاعر موجود ہیں جو سال سوم کے حصہ غزل میں شامل ہیں۔ ضروری تھا کہ تسلسل قائم رکھنے کے لیے بی –اے کے نصاب میں شعراء کی تعداد میں یا تو کمی کی جاتی یا ایم-اے کے نصاب  میں جدید اور جدید تر ان غزل گو شعراء کو شامل کیا جاتا جو بی –اے کے نصاب میں شامل  نہیں ہیں ۔ بی-اے سال سوم کی کتاب خیابان اردو میں غزلیات کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ اسے مقررہ وقت میں پڑھانا تقریباً ناممکن ہے۔
شعبہ اردو، جامعہ پشاور کے ایم-اے  اردو کے نصاب میں شامل پرچے میں غزل کے  تدریسی مقاصد کی کوئی وضاحت ، نصاب میں یا مرتب کردہ کتاب انتخاب غزل میں نہیں کی گئی۔ البتہ نصاب میں موجود عنوانات دیکھ کر اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اس کا مقصد غزل کے فن اور اس کے ارتقاء ، مختلف غزل گو شعراء کے فن و فکر سے آگاہ کرنا اور ان کے حقیقی مقام سے متعارف کرا نا ہے۔ لیکن ایک تو یہ نصاب تکرار کے عمل سے  دوچار ہے۔ اس میں غزل کے فن، ہئیت اور ارتقاء پر کوئی جامع مضمون موجود نہیں ہے۔ جدید شعراء کی نمائندگی کم ہے۔ فائزہ افتخار ملک نے مجموعی طور پر ایم-اے اردو کے نصاب میں یہ کمی محسوس کی ہے اور اپنے مضمون میں جدید ادب بلکہ معاصر ادب کی شمولیت کے کم ہونے کا شکوہ کیا ہے (13)
اردو غزل کے نصابات کا اگر ابتداء سے جائزہ لیا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ ان میں تسلسل کم اور تکرار زیادہ ہے ۔ جدید غزل گو شعراء سے طالب علم کا تعارف کم ہوتا ہے۔ ایک صنف کی حیثیت سے غزل کا  بھر پور تعارف بھی  نہیں ہوتا۔
بی –ایس اردو کا نظام خیبر پختونخواہ کے اکثر کالجوں اور جامعات میں نافذ ہوچکا ہے۔ اردو ادب اور اردو غزل کی تدریس میں جن مشکلات کا تجزیہ پچھلی سطور میں کیا گیا ہے ان کا ازالہ بی-ایس اردو کے نصاب کے ذریعے ممکن ہے۔ اس میں اردو زبان کے قواعد ، املاء اور عروض کے موضوعات مختلف پرچوں میں شامل ہیں۔ انھیں اگر پہلے سمسٹر کا حصہ بنا دیا جائے اور اس کے ساتھ ساتھ ادب کے تعارف کا ایک پرچہ بھی شامل کردیا جائے تو ادب کی تدریس کی راہ میں حائل مشکلات کو کسی حد تک دور کیا جاسکتا ہے۔ بی-ایس اردو کے نصاب میں غزل گو شعراء کے تعارف اور قدیم و جدید غزل کی نمایندگی کو ایک مناسب حد تک ممکن بنایا گیا ہے۔ ان پرچوں میں تکرار کی خامی موجود ہے۔ لیکن پچھلے نصابات کی نسبت تسلسل موجود ہے اور غزل کا تعارف طالب علموں سے اپنی مبادیات کے ساتھ ہوجاتا ہے۔
ایم فل اور پی ایچ ڈی  کے نصابات میں تدریسی مقاصد کا واضح طور پر تعین نہیں کیا گیا۔ مقصد صرف ادب کے مختلف  شعبوں  میں تحقیق کو قرار دیا گیا ہے۔ یہ اعلیٰ درجہ ہے یہاں مقاصد کا تعین ضروری ہے۔ غزل  پر کس طرح تحقیق کی جائے۔ کن تحقیقی اصولوں کو مد نظر رکھا جائے اور غزل پر کن کن زاویوں سے تحقیق ہونی چاہیے۔ ان مقاصد کو سامنے رکھ کر اردو غزل میں تحقیق  کے حوالے سے مختلف  نصاب مرتب کیے جاسکتے ہیں۔ شعبہ اردو، جامعہ پشاور میں ایم-ایس اردو اور پی-ایچ-ڈی اردو کا جو نصاب مروج ہے جو ہائیر ایجوکیشن کمیشن کا مجوزہ نصاب ہے اس میں غزل کے عنوان سے کوئی کورس  شامل نہیں کیا گیا ۔
کسی بھی صنف کی تدریس کے لیے اور اس کے اصل مقام سے روشناس کرانے کے لیے ایک معیاری نصاب کی ضرورت ہوتی ہے۔ ایسا نصاب جو جدید عہد کے تقاضوں کے مطابق ہو اور مختلف درجوں میں رائج نصاب کے درمیان ہم آہنگی بھی ضروری ہے۔ مزید یہ کہ نصاب  طلباء کی دلچسپی اور ذہنی صلاحیت کو مدنظر رکھ کر بنایا گیا ہو۔  اس طرح کے نصاب سے  بہترتدریسی اہداف حاصل کیے جاسکتے ہیں اور بہتر نتائج برآمد ہوسکتے ہیں۔
اس وقت خیبر پختونخواہ کے تعلیمی اداروں میں مختلف درجوں میں جو اردو غزل کا نصاب رائج ہے اسے سامنے رکھ کر ہر  درجہ کی تدریس کا طریقہ کار اور اس میں بہتری لانے کے امکانات پر تیسرے حصے میں غور کیا جاتا ہے۔
۳۔ (الف) اسکول اور کالج کی سطح پر اردو غزل کی تدریس، اس سطح پر تدریس کا مقصد طلباء کو زبان سکھانا اور اس کے اسرار و رموز سے واقف کرنا ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ زبان دانی پر زور دیا جائے۔ غزلوں کی تعداد کم رکھی جائے اور غزلوں کی تدریس کے ذریعے زبان اور اس کی باریکیوں سے روشناس کرایا جائے۔
بقول ڈاکٹر عطش درانی :
"ضروری یہ ہے کہ جو بھی کچھ پڑھا یا جائے اس سے اُن کی اردو کی استعداد بہتر ہونی چاہیے۔ زبان کی تدریس پر زور دیتے ہوئے کسی بھی قسم کی نثر یا نظم پڑھائی جائے اس کا مقصد یہ ہونا چاہیے کہ آج کی اردو بہتر طور پر سیکھ سکیں '' ۔ (14)
ڈاکٹر عطش درانی نے '' اردو تدرسیات'' میں یہ مشورہ دیا ہے کہ کم از کم میٹرک کی سطح  تک تدریس زبان کے مقاصد پر توجہ دی جائے اور اسی مقصد کے تحت ادب پڑھا یا جائے۔ اس سطح پر ضروری ہے کہ طلباء  کو زبان سکھائی جائے۔ ان کا تلفظ درست کیا جائے۔ املاء کی مشق کراتی جائے۔ غضنفر علی نے تلفظ کی تدریس کے طریقہ کار پر بحث کی ہے اور آوازوں کی شناخت کے ذریعے تلفظ کی تدریس کے مختلف چارٹ بنائے  ہیں(15) جس سے تلفظ درست کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔
زبیدہ حبیب نے تدریس غزل کے  مختلف مراحل ''تمہیدی گفتگو '' ، '' اعلان سبق''، ''متن سبق'' ، '' معلم اور متعلم کی بلند خوانی'' ، '' تلفظ کی مشق'' ، ''اخذ معنی'' اور '' اشعار کا تفصیلی جائزہ'' پیش کیے ہیں (16)  محمد حسن (17)اور ڈاکٹر فرمان فتح پوری (18) نے ان مراحل پر بحث کرتے ہوئے ''اعادہ سبق'' پر زیادہ زور دیا ہے جس کا مقصد یہ جائزہ لینا ہے کہ تفہیم کا عمل مکمل ہوا ہے کہ نہیں۔
بارہویں جماعت تک تدریس غزل کا مقصد شاعر اور شاعری کی اہمیت واضح کرنا، غزل کی ہئیت ، اسکی زبان ، مزاج اور فکری نظام کا ابتدائی تعارف کرنا، غزل کی فضا ء کو زیر بحث لانا، شاعر کی زندگی اور فن کا تعارف کرنا، اشعار کو صحت اور روانی کے ساتھ پڑھنا اور پڑھانا شعری ذوق کی تربیت کرنا، شعر کے مفہوم اور فنی نزاکتوں سے آگاہ کرکے شعری ذوق کی تربیت کرنا ہے۔ لیکن درست تلفظ، آہنگ اور وزن کے ساتھ شعر پڑھنے کی صلاحیت پیدا کرنا، شعری ذوق اور ادب و شعر سے دلچسپی پیدا کرنا خصوصی مقاصد میں شامل ہیں۔ ان مقاصد کے حصول میں بقول زبیدہ حبیب بنیادی کردار معلم ادا کرسکتا ہے۔ معلم کے لیے ضروری ہے کہ وہ درست انداز میں شعر پڑھنے، اس سے لطف لینے کی صلاحیت رکھتا ہو اور شعر کے لطیف پہلووں پر اس کی نظر ہو (19)
ایف –اے تک تدریس غزل سے انہی مقاصد کا حصول مطلوب ہے اس میں فرق اتنا ہے کہ میٹرک تک زبان دانی پر زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے اور اگلے درجوں میں زبان شناسی کے ساتھ ساتھ غزل کے فن، اسلوب ، اسکے فکری نظام کو سمجھانے اور تفہیم کی قوت کو بڑھانے کی ضرورت ہے۔
(ب) جامعات میں اردو  تدریس، بی-ایس اردو اور بی –اے میں اردو کو ایک اختیاری مضمون کی حیثیت سے منتخب کیا جاتا ہے۔ اس لیے ان سطحوں پر تدریس  کے لیے معلم کاادب کا مزاج داں ہونا ضروری ہے۔ اسے غزل کی ہئیت ، فن ، اس کے علامتی نظام اور فکر کے بیان کے طریقہ کار سے واقف ہونا چاہیے۔ تاکہ وہ غزل کی تدریس زیادہ وسعت کے ساتھ کرسکے اور اسکے فنی و فکری نظام کی مختلف جہتوں کو واضح کرسکے۔ طلباء کے ذوق سلیم کی تربیت کرکے ان کی ادبی و شعری ذوق کی آبیاری کرسکے۔
ایم-اے کی سطح پر اردو غزل کی تدریس مزید گہرائی اور وسعت کا مطالبہ کرتی ہے۔ اس سطح پر غزل  کی ہئیت اورفنی وفکری عناصر کو زیادہ بصیرت افروزی اور تخلیقی قوت کے ساتھ اجاگر کرنا ضروری ہے۔ شعراء کے حقیقی مقام و مرتبہ اور فنی عظمتوں سے روشناس کرانا معلم کی ذمہ داری ہے۔
ایم –اے کی سطح تک تدریس کا عمل مکمل ہوتا ہے اور اس سے اگلے درجوں (ایم-فل اور پی-ایچ-ڈی) میں غزل کی تحقیق کا سوال سامنے آتا ہے اس سطح پر غزل کا تحقیقی انداز میں تجزیہ کرنا، غزل کے  نفسیاتی، سیاسی، معاشی ، معاشرتی اور تہذیبی پہلووں کا جائزہ لینا تحقیقی مقاصد میں شامل ہے۔ اس درجے پر غزل کی تشریح کے بجائے اس کی تفہیم اور عہد بہ عہد تغیرات کا تجزیہ کیا جاتا ہے اور مختلف سوالات اٹھائے جاتے ہیں۔ جو غزل کی انفرادیت، مقام و مرتبہ متعین کرنے میں مددگار ثابت ہوتے ہیں۔  اس سطح پر ضروری ہے کہ غزل  میں تحقیق کے نئے امکانات تلاش کیے جائیں اور سابقہ ادوار میں ہونے والی تحقیق کے معیار اور مقام کا تعین کیا جائے۔
اس مقالہ میں اردو غزل کی تدریس میں حائل جن مشکلات اور مسائل کا جائزہ لیا گیا اور جن امکانات کو پیش کیا گیا ہے انہیں سامنے رکھ کر تدریس غزل کو بہتر بنانے کے لیے کچھ تجاویز اور سفارشات مرتب کی گئی ہیں جنہیں ترتیب کے ساتھ پیش کیا جارہا ہے۔

سفارشات :

  1. ابتدائی اور ثانوی درجوں تک طلباء میں اولاً زبان کی مہارت پیدا کی جائے۔ تاکہ وہ اردو بولنے، پڑھنے اور لکھنے کے قابل ہوسکیں۔
  2. زبان شناسی کے بعد ادب کی تدریس بحیثیت ایک علم کے کی جائے۔ طلباء کو ادب کی مبادیات سمجھائی جائیں۔ ادب کی تدریس کے لیے ادبی تخلیقات کے نمونے بطور مثال نصاب میں شامل کیے جاسکتے ہیں۔ لیکن مقصد ادب کی تدریس ہونا چاہیے۔ اسباق کی تشریح اور توضیح نہیں ہونا چاہییے۔ زبان و ادب کی تدریس کا سلسلہ میٹرک تک جاری رکھا جائے۔
  3. ایف –اے کی سطح سے باقاعدہ ادبی اصناف کی تدریس کا سلسلہ شروع کیا جائے۔ غزل کی تدریس کا بنیادی مقصد زبان دانی، وزن کا شعور اور شعر خوانی کا ہنر پیدا کرنا ہونا چاہیے۔ اس سطح پرنصاب میں غزلوں کی تعداد  کم رکھی جائے اور ایسی غزلیں نصاب میں شامل کی جائیں جو طلباء کی ذھنی سطح کے مطابق ہو ںاور طلباء ان میں دلچسپی لے سکیں اور یہ ان کے شعری ذوق کی تربیت کرسکیں۔
  4. بی-اے اور ایم-اے کی سطح پر غزل کی تدریس کا مقصد غزل کے فن، اس کی ہئیت ، فکر اور ارتقائی مراحل سے واقفیت پیدا کرنا ہو۔ ان سطحوں پر ایسا نصاب مرتب کیا جائے جو باہم مربوط ہو اور تکرار کی خامی اس میں نہ ہو۔ اس سطح پر تدریس کا مقصد غزل اور غزل گو شعراء کے مقام و مرتبہ سے طلباء کو روشناس کرانا ہے۔ اس لیے غزلوں کی تعداد کم رکھی جائے اور زیادہ توجہ غزل کے فن اور غزل گو شعراء کے فنی و فکری کمالات پر دی جائے۔
  5. ایم-فل اور پی –ایچ-ڈی کی سطح پر غزل کی تدریس کا مقصد غزل کا تحقیقی انداز میں تجزیہ کرنا اور پچھلے ادوار میں غزل پر ہونی والی تحقیق کے معیار اور مقام کا جائزہ لینا ہونا چاہیے۔ اس سطح پر ایسے کورسز متعارف کرائیں جائیں جو ان مقاصد کے حصول میں ممد و معاون ثابت ہوسکیں۔ نیز غزل کی تحقیق میں نئے امکانات کو تلاش کرسکیں۔
  6. ادب اور اسکی مختلف اصناف کی تدریس کے لیے ایسا معیار ی نصاب مرتب کیا جائے جو مختلف درجات کے درمیان ہم آہنگی رکھتا ہو۔جس میں مختلف اصناف کے تخلیقی نمونوں کی تدریس اصناف ادب کی روشنی میں کی جائے۔
  7. ہر درجہ کا نصاب اور تدریسی طریقہ کار خاص مقاصد کے ماتحت مرتب کیا جائے اور مطلوبہ اہداف حاصل کرنے کی کوشش کی جائے ۔ تدریسی مقاصد اور اہداف کی تفصیل اساتذہ کرام کو مہیا کی جائے تاکہ مقاصد کے حصول میں وہ اپنا کردار ادا کرسکیں۔

 

حوالہ جات :

(1)        قومی نصاب برائے اردو لازمی، پہلی تا بارہویں جماعت۔ ص 5
(2)        ڈاکٹر عطش درانی، اردو تدریسیات۔ ص 51
(3)        ڈاکٹر فرمان فتح پوری، تدریس اردو۔ ص 132-33
(4)        مرزا خلیل احمد بیگ ،اردو بہ طور غیر مادری زبان اور اس کا نصاب، مشمولہ دہلی کے اسکولوں میں اردو نصاب کے مسائل ۔ ص 175
(5)        رشید حسن خان، نصابی کتابوں میں املاء ، رموز اوقاف کا مسئلہ مشمولہ دہلی کے اسکولوں میں اردو نصاب کے مسائل ۔ ص 35-29
(6)        غضنفر علی، زبان و ادب کی تدریس۔ ص 32-17
(7)        شمیم حنفی ، اردو نصابوں میں جدید ادیبوں اور شاعروں کی نمائندگی کے مسائل، مشمولہ دہلی کے اسکولوں میں اردو نصاب کے مسائل ۔ ص 43-42
(8)        قومی نصاب برائے اردو (لازمی) ۔ ص -6
(9)        ایضاً   ص -10
(10)      ایضاً  ص 31
(11)      خیابان اردو (سال سوم) مرتبہ ڈاکٹر صابر کلوروی۔ ص 6
(12)      ڈاکٹر محمد حامد، خیبر پختونخواہ میں بی-اے سطح کا اردو نصاب ، تنقیدی جائزہ، مشمولہ خیابان، بہار 2016، شمارہ 34، ص 72-171
(13)      فائزہ افتخار ملک، جامعات میں اردو نصاب ایک طالب علم کی نظر میں۔ اخبار اردو، جنوری 2013، ص 89
(14)      ڈاکٹر عطش درانی ، اردو تدریسیات۔ ص 53
(15)      غضنفر علی، زبان و ادب کی تدریس۔ ص 109-73
(16)      زبیدہ حبیب، تدریس اردو۔ ص 56-52
(17)      محمد حسن، ادبیات شناسی۔ صص 85-77
(18)      ڈاکٹر فرمان فتح پوری، تدریس اردو ۔ صص 46-241
(19)      زبیدہ حبیب، تدریس اردو۔ صص 42-41

کتابیات :

(الف) نصابی کتب :
 - اردو لازمی برائے جماعت نہم۔ خیبر پختونخواہ ٹیکسٹ بک بورڈ پشاور ۔ بمطابق قومی نصاب 2006
- اردو لازمی برائے جماعت دہم ۔ خیبر پختونخواہ ٹیکسٹ بک بورڈ پشاور ۔ بمطابق قومی نصاب 2006
- اردو لازمی ۔ گیارہویں جماعت کے لیے۔ خیبر پختونخواہ ٹیکسٹ بک بورڈ پشاور ۔ بمطابق قومی نصاب 2006
- اردو لازمی۔ بارہویں جماعت کے لیے۔ خیبر پختونخواہ ٹیکسٹ بک بورڈ پشاور ۔ بمطابق قومی نصاب 2006
-قومی نصاب برائے اردو لازمی پہلی تا بارہویں جماعت ۔ وزارت تعلیم ۔ حکومت پاکستان 2006
- قومی نصاب برائے اردو اختیاری۔ گیارہویں ، بارہویں جماعت کے لیے۔ وزارت تعلیم حکومت پاکستان 2009
- خیابان اردو (سال سوم) شعبہ اردو جامعہ پشاور
۔ انتخاب غزل، (ایم اے سال اول) شعبہ اردو جامعہ پشاور 2003
- جدید نصاب برائے ایم-اے اردو پشاور یونیورسٹی 2007
مجوزہ نصاب ایم –ایس ، پی-ایچ-ڈی اردو، شعبہ اردو، جامعہ پشاور
)ب) تنقیدی و تحقیقی کتب :
زبیدہ حبیب۔ تدریس اردو، گرین بکس کراچی۔ 2016
صدیق الرحمان قدوانی، (مرتبہ) دہلی کے اسکولوں میں اردو نصاب کے مسائل۔ اردو اکادمی دہلی۔ 1987
عطش درانی، ڈاکٹر، اردو تدریسیات، اردو سائنس بورڈ لاہور۔ 2007
غضنفر علی، زبان و ادب کی تدریس، گرین بکس کراچی ۔ 2016
فرمان فتح پوری، ڈاکٹر، تدریس اردو، مقتدرہ قومی زبان، پاکستان 1986
 - حمد حسن، ادبیات شناسی، ترقی اردو بیورو، نئی دہلی 2000
(ج) رسائل :
-   اخبار اردو، اسلام آباد، جلد 31، شمارہ  1،جنوری 2013
خیابان ششماہی تحقیقی مجلہ۔ شعبہ اردو، جامعہ پشاور، بہار 2016 ، شمارہ نمبر 34

اوپر جائیں  |   پرنٹ کیجئےِ
انگریزی ورژن ای میل چیک کریں مرکزی صحفہ پرنٹ پسندیدہ سائٹ بنائیں رابطہ کیجئے www.shahzadahmad.com www.shahzadahmad.com