تفہیم جالب ۔۔جالب بیتی کی روشنی میں

ڈاکٹر ولی محمد ۔ لیکچرار، شعبہ اردو، جامعہ پشاور۔

 ڈاکٹر بادشاہ منیر بخاری۔  ایسوسی ایٹ پروفیسر، شعبہ اردو، جامعہ پشاور

ABSTRACT
Habib Jalib was a great figure of resistance in the last four decades of 20th century against the two Martial laws of Pakistan’s history which were faced by the people of this soil. He was imprisoned several times by Ayub Khan and Zia ul Haq. He was against the dictatorship, the feudal system in Pakistan and great supporter of liberty, democracy and Progressive Writers Movement in Pakistan. Due to his revolutionary thoughts he faced severe problems, but he stood constantly against the exploiters and wrote against them. Jalib Beeti is his Autobiography, and it has a keen importance in history of Urdu prose, not due to its literary qualities but keeping in view this piece of work we can easily understand the personality of Habib Jalib. The grounds for his revolutionary thoughts, the problems he faced , the way he thought, could easily be understood in the light of Jalib Beeti. This research article is an effort to Understand Jalib’s personality in the light of his Autobiography.
 
Key Words: Habib Jalib; Resistance Literature; Politics and Literature

 

آپ بیتی محض گزرے ہوئے واقعات کا معروضی بیان نہیں بلکہ ان واقعات کی روشنی میں شخصیت پر پڑنے والے ان اثرات کا مطالعہ بھی ہے ، جس نے متعلقہ شخصیت کو مخصوص ذہنی تبدیلیوں سے گزارا یا جن حالات و واقعات میں  شخصیت  کے مخصوص رنگ و روپ کو پروان چڑھنے کا موقع ملا۔آپ بیتی زندگی کی  کہانی ضرور ہے ، اس وجہ سے اس میں کہانی پن کا پیدا ہونا فطری امر ہے ، لیکن آپ بیتی کے قارئین داستان ، ناول یا افسانے کی طرح  کی فرضی اور تخیلاتی کہانی میں داخل نہیں ہوتے بلکہ ایک حقیقی اور جاندار زندگی میں داخل اور شامل ہو جاتے  ہیں ۔وہ محض ایک انسان  اور اس کی زندگی کو ہی پڑھنا  اور سمجھنا نہیں چاہتے بلکہ اس کے آئینےمیں پوری روح عصر کا مطالعہ کرنا چاہتے ہیں اور اسی روح عصر میں رہتے بستے ایک بھرپور شخصیت کی نفسیاتی اٹھان کا مطالعہ  کرنا چاہتے ہیں ۔ایسی صورت میں چونکہ حقائق کو جانچنے اور پرکھنے کا حوالہ خود متعلقہ شخصیت بن جاتی ہے ، اس لیے ایسی شخصیت سے ہماری توقعات اور بھی بڑھ جاتی ہیں ۔ایسا ادیب یا شخصیت جو ہمارے لیے بنیادی مآخذ بننے جارہا ہے ، اس کے کندھوں پر ایک بھاری ذمہ داری آن پڑتی ہے ۔اس کی زبان سے نکلا ہوا جملہ تاریخی ، سیاسی اور ادبی دھارے کا رخ کسی غلط سمت بھی موڑ سکتاہے  اور صحیح سمت پر بھی گامزن کرسکتا ہے۔جس کا نقصان  یا فائدہ لا محالہ آنے والی نسلوں کو پہنچتا ہے ۔لہٰذا آپ بیتی نگار کے لیے ریحانہ خانم  کے بقول  تین بنیادی اصولوں  سچائی ، شخصیت اور فن  کو ملحوظ خاطر رکھنا چاہیے  ( ۱)   یوں یہ کہا جاسکتا ہے کہ  کامیاب آپ بیتی میں سچائی روح کی مانند موجود ہوتی ہے ، شخصیت ذہن کی مانند موجود ہوتی ہے اور فن گویا ایک حسین پیرایہ اختیار کرکے جسم کی صورت میں ڈھل جاتاہے ۔
آپ بیتی  متعلقہ شخصیت کے ذہنی ، اخلاقی اور نفسیاتی سفر کا مطالعہ ہے اور مختلف زاویوں سے اس   کے متنوع رنگوں کو پڑھنا ہے ، اس لیے کامیاب آپ بیتی کی  ایک پہچان یہ بھی ہے کہ اسے پڑھنے  کے بعد ہم متعلقہ شخصیت کے ذہنی میلانات ، اخلاقی معیارات ، زندگی کے اقدار  اور اس کی ذاتی و انفرادی مقررات کے متعلق جان چکے ہوں اور یوں ہم پوری ایک شخصیت کا ذائقہ چکھ چکے ہوں ۔اگر آپ بیتی میں  سے خود شخصیت غائب ہوجائے تو وہ تاریخ کی کتاب تو بن جاتی ہے لیکن آپ بیتی نہیں رہتی ۔لہٰذا آپ بیتی اور شخصیت کا چولی دامن کا ساتھ ہے ۔
ہر ایک شخصیت مخصوص حالات اور عصری میلانات کی پیداوار ہوتی ہے ۔اس وجہ سے ایک مخصوص زمانے اور ماحول میں انسان کی شخصیت کی تعمیر کس طرح سے ایک مخصوص قالب میں ہوئی ۔اس کا دکھایا جانا  آپ بیتی میں ضروری ہے( ۲)   تا کہ اس بات کا تعین کرنے میں آسانی ہو کہ متعلقہ شخص نے اپنے گردو پیش کا کتنا اثر قبول کیا ۔ اس کے ذہن ، عقل و شعور، تحت الشعور اور لاشعور کو جن جن محرکات نے متاثر کیا ، اس کا تذکرہ  بھی ضروری ہے ۔دوسرے لفظوں  میں ایک آپ بیتی نگار کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنا ہمزاد بن سکتا ہو۔خود سے ہم کلام ہو سکتا ہواور اپنی تصویر کے کسی ایک رخ سے بھی اسے نفرت نہ ہو ۔بلکہ اس نے ایک سوچی سمجھی معنی خیز زندگی گزاری ہو اور اس میں یہ ہمت ہو کہ وہ اس پر نقادانہ نظر بھی ڈال سکے اور اخلاقانہ بھی اُسے اپنے آپ کو ٹٹولنا ہے ، اپنے ماضی کو بھی جانچنا  ہے اور اپنی زندگی میں پیش آنے والے واقعات کو اپنی ذات کی کسوٹی پر پرکھنا ہے اور ایسا کرتے ہوئے انصاف ، اعتدال اور سچائی کے دامن کو بھی مضبوطی کے ساتھ تھامے رکھنا ہے ۔
کسی آپ بیتی کو غیر معمولی بنانے میں شخصیت کا قداگر چہ معنویت رکھتا ہے لیکن ضرور ی نہیں ہے کہ ہرعظیم شخص کی آپ بیتی بھی عظیم ہو گی ۔یعنی آپ بیتی کی فنی قدرو قیمت کا تعین متعلقہ شخصیت کی عظمت کی شرح کے مطابق نہیں کیا جاسکتا۔بلکہ اس کا انحصار اس بات پر بھی ہے  کہ اس کے موئے قلم میں وہ بے پناہ سحر موجود ہو جو پڑھنے والے کی توجہ اپنی طرف پھیر سکے اور اسے اپنے جمالیاتی اقدار کا اسیر بنا سکے ۔مثلاًقدرت اللہ شہاب حبیب جالب کے مقابلے میں بڑی شخصیت نہیں تھے لیکن اس کے باوجود ان کی لکھی ہوئی آپ بیتی “شہاب نامہ “کو اردو آپ بیتی کی تاریخ میں ایک اہم سنگ میل کی حیثیت حاصل ہے ۔وہ ایک کہانی کار کا ذہن اور تخیل رکھتا تھا اور ان کے ذہن میں یہ صلاحیت موجود تھی کہ آپ بیتی  میں فکشن کی روح سموسکے اور یوں زندگی کو افسانہ اور افسانہ کو زندگی بناسکے ۔یہ خوبی ہمیں حبیب جالب کے ہاں بہت کم دیکھنے کو  ملتی ہے اور اس وجہ سے ان کی آپ بیتی کو فنی اعتبار سےنقصانات بھی کافی پہنچے ہیں ۔
آپ بیتی اپنی زندگی کی کہانی ہے ۔اس کے سنانے کا انداز بالکل خودکلامی جیسا ہو ۔اسی طرح اس میں  نہ تو سیاسی نظریات کو ٹھونسنا چاہیے  اور  نہ  ہی آپ بیتی نگار کو کسی نظریے یا کازکے ساتھ کمٹمنٹ کی بندھن میں جکڑا ہواہونا چاہیے۔آپ بیتی میں ہم ایک انسان کو دیکھنا چاہتے ہیں  لہٰذ اس انسان کو خواہ مخواہ اپنے ارد گرد نظریات ،کسی ازم یا مسلک یا عقیدے کی مقدس دیوار  تعمیر نہیں  کرنی چاہیے ۔ایسی صورت میں ہم ان دیواروں کو  تودیکھ سکیں گے لیکن ان کے پیچھے سانس لیتی ہو ئی شخصیت سے ہماری ملاقات نہیں ہو سکے گی ۔آب بیتی نگار کی کمٹمنٹ اپنی ذات او راپنی شخصیت کے ساتھ ہوتی ہے ۔یہ ممکن ہے کہ نظریہ اور کمٹمنٹ خود بخود شخصیت کی کوکھ سے پیدا ہوتے ہوئےا ور ابھرتے ہوئے محسوس ہوں لیکن ایسا اس صورت میں ہوتا ہے کہ شخصیت نظریہ اور نظریہ شخصیت بن جائے۔ ایسا شاذو نادر ہی ہوتا ہے  ۔ڈاکٹر سید عبداللہ اس حقیقت کو مختلف انداز میں بیان کرتے ہیں ان کے خیال میں  سوانح نگارخارجی موادکی روشنی میں شخصیت کے باطن تک رسائی حاصل کرنے کی کوشش کرتاہے جب کہ اس کے برعکس   آپ بیتی میں مواد اپنی ذات کے اندر سے نکلتا ہے ۔( ۳)
           جالب بیتی کا مطالعہ ہمیں اس نتیجے تک بآسانی پہنچا سکتا ہے کہ حبیب جالب کی شخصیت پر اس کی اپنی شخصیت کی بجائے  خارجی و معروضی  حالات کا اثر زیادہ ہے ۔جن مشکلات سے وہ گزرے جو مصائب انہوں نے قید و بند میں برداشت کیے ۔ان حالات میں اس کے ارادے ٹوٹ پھوٹ کے عمل سے کیسے گزرے یاانہوں نے ردعمل میں استحکام کے کون سے مراحل طے کئے ، جالب بیتی اس بات پر روشنی ڈالنے میں ناکام رہی ہے ۔یہاں ہمیں وہ نفسیاتی  تصادم دیکھنے کو نہیں ملتا جسے ڈرنکن باؤن نے کسی خود نوشت نگار کا اپنی ذات کے ساتھ تصادم کے نام سے تعبیر کیا ہے ۔(۴)   لہٰذا جالب بیتی  زندگی کے واقعات کو یکجا کرنے کی ایک کوشش تو نظر آتی ہے لیکن ان واقعات کے پس منظر میں ان باتوں  اور تفصیلات کا تذکرہ جالب بیتی سے خارج ہے جو شخصیت کی باطنی پرتیں کھولنے میں مدد دیتا ہے ۔اس میں کوئی شک نہیں کہ حبیب جالب بہادر انسان تھے ۔اور خود ان کے والد اپنے جد اعلی خیرالدین خان کی بہادری کا قصہ سنانے کے بعد کہتے ہیں کہ ہمارے انہی بہادر اور غیرت مند بزرگ کی کوئی انی اکنی میرے بیٹے حبیب جالب میں رہ گئی ہے ۔(۵)   لیکن بہادر انسان بھی انسان ہی ہوتا ہے ۔ انقلابی انسان کی زندگی میں بھی مصلحتوں کی طرف جھکاؤکا رجحان  ،عزم میں تزلزل کے آثار ، خوف کے کالے بادل ،  انسانی جذبات و احساسات اور نظریات  انسان کو یوٹرن لینے کی ترغیب دیتے ہیں  ۔یہ ایک ایسی اٹل حقیقت ہے کہ  ان سے معیار و مقدار کے فرق کے ساتھ ہر کوئی گزرتا ہے ، بعض مقامات پر قدموں میں ڈگمگاہٹ بھی پیدا ہو جاتی ہے ، لیکن شخصیتیں ان پر اپنے فقیرانہ اور قلندرانہ مزاج کی بدولت قابو پالیتی ہیں ۔آپ بیتی میں بھی ایسے نازک مقامات کا تذکرہ دل کھول کر ہونا چاہیے تھا لیکن  حبیب جالب کے ہاں ان کیفیات سے گزرنے  کے آثار جالب بیتی  میں بہت کم دکھائی دیتے ہیں ۔مثلاً ان کے بھائی سعید پرویز ایک واقعہ سناتے ہیں کہ طاہر عباس کی موت کے نویں دن جب  گرفتاری  عمل میں آئی  تو بھائی صاحب بیت الخلا گئے ، ناشتہ کیا ، ان تمام حالا ت سے بے خبر بھابھی دوسرے کمرے میں تعزیت کے لیے آئی ہو ئی خواتین کے ساتھ مصروف تھی اور بھائی  کا واسکٹ اٹھانا اور بیوی بچوں سے ملنے یا ان کی طرف دیکھنے کی بجائے پولیس کے ساتھ چلے جانا ۔ یہ ہمت ، یہ جرأت ، یہ عزم انہی کا حصہ ہے ۔(۶)   یا پھر ایک موقع پر جب پولیس گرفتار کرکے لے جاتی ہے تو حبیب جالب کی نظر تھانے میں اپنی والدہ پر پڑتی ہے ۔سعید پرویز کے خیال میں ایک لمحے تک جالب بھائی کی آنکھوں میں پانی ایک لکیر سی ابھری اور پھر غائب ہو گئی جیسے کوئی طوفان ابھرا ہو اور کسی نے مضبوط ترین بند باندھ دیا ہو۔(۷)   جذبے اور احساس کے ان طوفانوں کو اس کے بھائی نے محسوس کیا ہے لیکن حبیب جالب جالب بیتی میں یہ کیفیات محسوس کرانے میں ناکام رہتے ہیں اور یہ اور اس قسم کے دیگر واقعات کا ذکر کرنا بھی مناسب نہیں سمجھتے ۔
جالب بیتی  میں ان  رنگوں کی کمی قاری کو ایک لمحے کے لیے اچنبھے میں ضرور ڈال دیتی ہے ۔یہ مقامات جو اس کے بھائی کے لیے نازک اور اہم ہیں ، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ خود حبیب جالب کے لیے بطور آپ بیتی نگار  کیوں اہمیت نہیں رکھتے ۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ آپ بیتی میں بھی انہوں نے اپنے آپ کو دشمن اور استحصال گر قوتوں کے سامنے کھڑا کرنے کی کوشش کی ہے ۔حالانکہ آپ بیتی کا انداز یہ نہیں ہونا چاہیے ، ہم شخصیت سے ملنے کے لیے بے تاب ہوتے ہیں اور اس کے دل کی دھڑکنوں میں گھس جانا چاہتے ہیں ۔لیکن حبیب جالب کے شعور اور لاشعور پر ایک ہی دھن ہی سوار ہے کہ وہ اپنے دشمن  سے اپنی کمزوریاں چھپانے کی کوششوں میں مصروف ہیں ۔اس کا نقصان ان کو یہ اٹھانا پڑا ہے کہ وہ  ان مقامات پر اپنے قاری کی نظروں سے بھی اوٹ میں چلے گئے ہیں۔حالانکہ جن مقامات کا تذکرہ ہوا ہے ، جالب بیتی میں ان کا ذکر اسے ان کے شخصی رنگوں سے بھر سکتا تھااور ایسے مواقع پر امید و بیم اورخوف و عزم  کے جن  ملےجلے جذبا ت سے شخصیت کو گزرنا پڑتا ہے ،ان کے متعلق جان کر ایک جیتے جاگتے حبیب جالب سے قارئین کی ملاقات ہوسکتی تھی ،جو بوجودہ ممکن نہ ہو سکی ۔
نفسیاتی اعتبار سے اس کی وجوہات  کئی ایک ہوسکتی ہیں ،مثلاً سب سے بڑی وجہ عہد سز ا کاٹتے ہوئے باطل قوتوں کے خلاف  حرف حق کی زورآزمائی اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی ایک مخصوص ضد اور عزم ہے۔جس نے انہیں فولاد بننے پر مجبور کیاہے ۔دوسری وجہ یہ ہے کہ آپ بیتی لکھتے ہوئے، انہیں اس بات کا بھی احساس ہے کہ اس کے پڑھنے والے اس کے متعلق کیا تاثر قائم کریں گے اور اس بات کا بھی کہ اس کے مخاطب کون ہیں  ۔مثلاً  اپنے ایک انٹرویومیں غزل کے حوالے سے بات کرتے ہوئے  کہتے ہیں کہ میں لوٹوں گا غزل کی طرف ، غزل آتی ہے، مصرعے آتے ہیں مگر اس میں دھیما انداز ہوتاہے، اس میں کاٹ نہیں ۔لوگ کہیں گے تھک گیا، ہار گیا ، بیٹھ گیا۔اس لیے جب تک یہ عہد چل رہاہے میرا یہ لہجہ بھی چلتا  رہے گا(۸) 
یہ ایک حقیقت ہے کہ عہد سزاکاٹتے ہوئے اس کی شاعری بھی ایک  مخصوص قالب میں ڈھلتی چلی گئی  اور اس کی شخصیت بھی ۔یوں مزاحمت کے رنگ میں ڈھلتے ڈھلتے ان کے شعر و شخصیت دونوں  مخصوص چھاپ کے حامل ہیں ، جس کی پرچھائیاں جالب بیتی اور کلیات جالب دونوں  میں نظر آرہی ہیں۔ جالب بیتی میں بالخصوص یہ احساس شدت سے ہوتا ہے کہ یہاں شاعر اپنی کمزوریوں کا ذکر محض اس وجہ سے نہیں کرسکے گا  کہ اس سے جمہوریت دشمن قوتوں کو حوصلہ ملے گا۔
آپ بیتی سے ہم شخصیت شناسی کی جو امیدیں وابستہ کئے رکھتے ہیں ، اس حوالےسے جالب بیتی کا ابتدائی حصہ کافی کارآمد ثابت ہوسکتاہے۔مثلاً اس حصے میں حبیب جالب کی ذہنی تشکیل کے کئی ایک سنگ میل کا تعین ممکن ہے ۔یہ سمجھنے میں مدد ملتی ہے کہ حبیب جالب کی ترقی پسندی کے لیے ذہنی و نفسیاتی بنیادیں کون کون سی تھیں اور ان بنیادوں میں کس طرح غربت عفریت کی مانند منہ کھولے کھڑی تھی ۔یہ ایک ایسی  بلا تھی جس نے حبیب جالب کی شخصیت کو مخصوص سانچے میں ڈھالنے میں اہم کردار کیا ۔حبیب جالب کو اپنے خاندان کی بے پناہ غربت کا شدت سے احساس ہے ۔ایک ایسی غربت جس نے بچپن ہی سے حبیب جالب کو  مزدور ی پر آمادہ کیا تھا۔اور وہ اپنی  نابینا نانی کے ساتھ گلی گلی گھوم کر ازاربند بیچنے پر مجبور تھے۔نیز ان  کے ارد گرد کی فضا بھی غربت کی سخت لپیٹ میں تھی ۔کچا مکان تھا۔جس کا ذکر کرتے ہوئے جالب لکھتے ہیں :
"میرے شعور نے جب ذرا آنکھ کھولی تو میں ایک کچے گھر میں تھا۔میرے ارد گرد غربت اور افلاس کی فضا تھی ۔وہ کچا مکان جو بارشوں میں اکثرٹپکتا رہتا تھامیری والدہ اس کی لیپاپوتی میں لگی رہتی تھی ۔"(۹)
مکان کا حال یہ تھا  اور گھر کی آمد ن کا یہ  کہ والد کی حیثیت بھی ایک مزدور سے بڑھ کر نہیں تھی ۔وہ  جوتوں پر جفت سازی کا کام کرتے تھے۔ان کی محنت و مشقت کو بھی جالب نے بڑی شدت کے ساتھ محسوس کیا ہے ۔لکھتے ہیں :
"میرے والد جفت سازتھے ۔ان کا سامان میرے ذہن میں ہمیشہ بکھرا رہتاہے ۔وہ جوتوں پر کلابتوکا کام کرتے تھے ۔وہ بہت باریک کام ہو تاتھا۔"(۱۰)
ان کے سامان کا ان کے  ذہن کی دنیا میں بکھر ےرہنا اس بات کی علامت ہے کہ انہیں والد کی سخت محنت اور اس کے باوجود کسمپرسی کی زندگی کا شدت سے احساس تھا۔بچپن کے حالات و واقعات ذہن پر نقش ہوجاتے ہیں۔ اس لیے کسی انسان کی شخصیت کی تعمیر میں بچپن  کافی زیادہ اہمیت رکھتا ہے ۔ بچپن ہی سے غربت و افلاس اور بھوک کا فضاؤں میں منڈلاتے پھرنا ایک ایسی تلخ حقیقت تھی جو  ان کی شخصیت میں  معاشی ناہمواریوں کے خلاف تلخی کا احساس شدت سے بیدار کرتی چلی گئی اور اسی ایک حقیقت نے ان کے شعری اور سیاسی قبلے کے تعین کو آسان اور ممکن بنایا۔ وہ گرد وپیش میں موجود معاشی اونچ   نیچ  کو ابتدا ہی سے محسوس کرتے تھے ،اس لیے کہ ایک ایسے ماحول میں کہ جب معاشی حالت کچھ یوں ہوکہ  پیٹ بھر کر کھانا نصیب نہ ہو اور اکثر چڑی میوہ پر ہی گزارہ ہو ۔چڑی میوہ کس قسم کا کھانا تھا۔ جالب صاحب وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
"سوکھی مرچیں پسی ہوئی، نمک اور پانی ملالیا ۔۔۔اسے “چڑی میوہ “کہتے تھے ۔اسی مکسچر سے روٹی بھگو بھگو کر میں کھالیا کرتا تھا۔زندگی یوں بڑے دکھوں اور عسرتوں میں گزری ہے ۔اس کی یادیں اب تک میں محو نہیں کرسکا ہوں ۔اس لیے بھوک و ننگ و افلاس سے مجھے سخت نفرت ہے۔اس وقت مجھے پتہ نہیں تھا کہ اس کا علاج کیاہے لیکن اس کا دکھ ضرور رہا اور یہی دکھ میرے اشعار میں ڈھلتا گیا۔”(۱۱)
کھانے کی تو یہ حالت تھی ۔بچپن میں انسان کی چھوٹی موٹی خواہشات ہوتی ہیں ۔جالب بیتی میں ان تما م ملیا میٹ ہوتی ہوئی آرزوؤں کا ذکر کیا جاتا جو بچپن میں محض غربت کی نذر ہوگئی ہیں  تو اس سے حبیب جالب کی ایک کامیاب ذہنی تصویر بن سکتی تھی ۔لیکن اس مقام سے بھی جالب بیتی میں بڑی تیزی کے ساتھ گزرنے کی کوشش کی گئی ہے ۔اس کی ایک  وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ انسان نفسیاتی طورپر تلخ تجربوں کا زیادہ ذکرکرنا اچھا تصور نہیں کرتا ۔وہ تلخ یادیں ، ان کا تذکرہ اور پھر حقیقت پسندانہ تجزیہ جالب کی شخصیت کی کئی ایک پرتیں کھولنے میں مدد دے سکتا تھا۔بہر حال ان کی طرف کچھ اشارے ضرور کیے گئے ہیں ۔مثلاً  لکھتے ہیں :
"میں نے جس غریب گھرانے میں آنکھ کھولی تو مسائل ہی مسائل تھے ۔مجھے یاد ہے کہ جنگل میں لکڑیا ں چننے جایا کرتے تھے ۔مکئی کٹ جانے کے بعد کھیتوں میں ہل چلتا تھا تو مکئی کی جڑیں (مڈھ )رہ جاتی تھی ۔انہیں ایک جگہ اکٹھا کر لیا جاتا تھااور پھر وہ جلانے کے کام آتی تھیں ۔ہر سال ایک جوڑا کپڑوں کا ملتا تھااور بطور عید ی ایک آنہ ، عید پر ملنے والے جوڑے ہی میں پورا سال گزار دیتے تھے اور غربت کی انتہاتھی۔ دیہاتوں میں ویسے بھی لوگوں کے پاس پیسے نہیں ہوتے ،معاملات زندگی کچھ یوں چلتے کہ جوتا بن گیا تو کچھ اناج مل گیا یا کسی صاحب استطاعت نے کچھ پیسے دے دئیے بس یہی سب کچھ ہمارا بھی ذریعہ معاش تھا۔”(۱۲)
اس کے علاوہ ''یا کسی صاحب استطاعت نے پیسے دے دئے ''کو بھی جالب صاحب نے ذریعہ معاش قرار دیا ہے ۔ان کی مزدوری میں بھی مزدوری کی بجائے  لوگوں کی طرف سے  ترحم کے عنصر کا عمل دخل زیادہ تھا ۔جب وہ نانی کے ساتھ ازار بند وغیرہ بیچنے کے لیے گلی گلی گھوما کرتے تھے تو جالب صاحب اعتراف کرتے ہیں کہ لوگ ان  کی نانی سے بے انتہابڑھاپے اور بینائی کے نہ ہونے کی وجہ سے ازراہ ترحم  یہ چیزیں خریدتے تھے ۔غربت اور غربت کے تلخ احساس کو جالب صاحب نے عمر کے اس حصے میں بھی محسوس کیا ہے جس سے یہ اندازہ لگانا کچھ مشکل نہیں کہ حبیب جالب کی زندگی میں اس بلا کی حیثیت اور اہمیت کیا تھی ۔یہ چیزیں ان کے حساس  طبیعت کی نشاندہی بھی کرتی تھیں اور اسی سوچ نے ان کے ذہن میں ترقی پسندی کے بیج بھی بو دیے جو دیکھتے ہی دیکھتے تناور درختوں میں تبدیل ہو گئے ۔
جیسا کہ خود جالب صاحب نے تسلیم کیا ہے بچپن میں غربت کے حل کی کوئی سبیل نظر نہ آتی تھی لیکن اس کے باوجود یہ دکھ میرے اشعار میں ڈھلتا چلا گیاہے ۔اسی طرح جاگیردرانہ نظام اپنی تمام تر منفیت کے ساتھ موجود تھا اور وہ ذہنی طورپر اس کا شکار ہو رہے تھے ، لیکن جاگیردار کیوں موجود ہیں اور اس لعنت کا خاتمہ کیسے ممکن ہے ؟غربت کے خاتمے کی مانند یہ مسئلہ بھی بڑا گمبھیر تھا۔اس دور کا ہندوستانی معاشرہ جاگیردارانہ نظام کی  لپیٹ میں تھا ۔غربت کا شدید اور تلخ احساس بھی جاگیردارانہ نظام کے خلاف ذہن میں فضا قائم کرنے کے لیے کافی تھا۔لیکن حبیب جالب کے ہاں  جاگیردارانہ نظام  سے نفرت محض اس دور کے ادبی فیشن کے نتیجے میں سامنے نہیں آئی تھی بلکہ خود ان کے ذاتی مشاہدے اور تجربے سے پھوٹی تھی۔انہوں نے جاگیرداروں کو کافی قریب سے دیکھا تھا ۔اپنے ایک انٹرویو میں بتاتے ہیں :
"جاگیرداروں کے دیوان خانے ہوا کرتے تھے ۔چونکہ تھانے ہوتے نہیں تھے اس لیے سارے فیصلے وہ کر لیتے تھے۔ دیوان خانے پر سلام کے لیے نہ جاتے تو ناراض ہو جاتے تھے ان کے جبر کا نقش ذہن پر اب تک قائم ہے ۔وہ نفرت چلی آرہی ہے اس قسم کی باتیں میرے ذہن میں تھیں ، یہ ساری باتیں مل ملاکر شعر میں ڈھل گئیں۔  اگر میں شاعری نہ کرتا تو کوئی اور کام کرتا لیکن کرتا اسی قسم کا کام جاگیر داری کے خلاف " (۱۳)
ایسی فضاؤں میں پرورش پانے والا شاعر حبیب جالب ہی بن سکتا تھاان کے ذہن میں ڈکٹیٹر شپ سے جو شدید نفرت موجود ہے اور جمہوریت  اور جمہوری اقدار کے ساتھ  جو شدید محبت ہے اس کی بنیاد ی وجہ بھی یہی ہے۔ کہ ایک فردِ واحدکے ہاتھ میں جب لوگوں کی تقدیر آتی ہے ، تو کس قسم کے مسائل جنم لیتے ہیں ۔
حبیب جالب کی شخصیت کا ایک انتہائی اہم گوشہ موسیقی کے ساتھ ان کے مزاج کی گہری ہم آہنگی بھی ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ ان کے ترنم نے ان کی نظموں کو چار چاند لگا دئے تھے اور ان کے اشعار کے مٹھاس میں اضافہ کیا تھالیکن اگر مشاعروں میں ترنم سے پڑھے جانے کو نظر انداز بھی کر دیا جائے تو یہ حقیقت کھل کر آتی ہے کہ جالب کی شاعری ایک مخصوص قسم کے ترنم اور نغمگی کی حامل ہے ۔ان کا لہجہ اول تا آخر ترنم میں ڈوبا ہوا ہے۔ نغمگی اور موسیقیت کی بین السطور موجودگی نے ان کے لہجے اور اسلوب میں مٹھاس اور رنگینی بھردی  ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ آواز اور اس کے اتارچڑھاؤ کے نتیجے میں پیدا ہونے والے جادو کے اثر سے جالب صاحب خوب اچھی طرح واقف تھے ۔وہ بچپن ہی سے آواز کے جادو کے اسیر نظر آتے ہیں ۔بھائی کی ملازمت کی وجہ سے بچپن ایسے کوارٹرز میں گزرا جہاں بنگالی رہا کرتے تھے ۔جن کے ہاں موسیقی کلچر کا حصہ ہے ۔حبیب جالب  خود بھی اچھی آوازکے مالک تھے ۔اس وجہ سے  ان کے بقول وہ  مجھے بھی ان محفلوں میں شامل کر لیا کرتے تھے ۔ ) ۱۴ (   جالب کے بقول یہ اسی زمانے کی بات ہے کہ خورشید کا ایک گیت “پنچھی باورا چاند سے پریت لگائے “مجھے بہت اچھا لگتاتھااور میں اسے اسی طرح گنگنالیا کرتا تھااور بنگالی خواتین مجھ سے  یہ گیت سنا کرتی تھیں ۔ ) ۱۵ (
اس حوالے سے انہوں نے ایک بنگالی خاتون کا بالخصوص ذکر کیا ہے ۔وہ کہتے ہیں کہ یہ عورت جس کا نام مائی ولایتاں تھا ، ہمارے ساتھ والے کوارٹر میں  رہتی تھی ۔لانبا قد۔سفید ساڑھی نیلی دھاری ۔کھڑاؤں پہنتی تھی ۔ان کا سرخ رنگ تھا اور بے پناہ اچھی آواز تھی اور میں اپنی والدہ کے منع کرنے کے باوجود گھنٹوں تک وہیں بیٹھا رہتا تھا۔ ) ۱۶) بنگالیوں کے ہاں  گیتوں کے ساتھ رقص کو بھی جالب صاحب دیکھتے تھے ۔وہ ذکر کرتے ہیں کہ بینر جی کی ایک لڑکی تھی اس کا بھائی ہارمونیم بجاتا تھا۔وہ رقص کرتی تھی ۔اس کا نام مجھے یاد نہیں ۔ان کی شکلیں بھی میرے ذہن میں واضح نہیں ہیں لیکن میرے مزاج میں حسن پرستی شامل تھی۔ ) ۱۷ (
حسن پرستی کے یہ دونوں حوالے ان کی غزلوں اور گیتوں میں بآسانی محسوس کیے جاسکتے ہیں ۔اگر چہ صورت کا حوالہ ان کی شاعری میں ان کے انقلابی افکار اور اس کے لیے دل میں موجود شدید تڑپ کی وجہ سے دبتا چلا گیا ہے ، لیکن آواز کا جادو ان کی شاعری میں سر چڑھ کر بولتا ہے ۔ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے یہ شاعری گانے کے لیے لکھی گئی ہے ۔مائی ولایتاں کے ترنم کو ہم نے سنا نہیں ہے۔لیکن آواز کے اتارچڑھاؤ سے پیدا ہونے والا جادو جالب کی شاعری میں روح کی مانند موجود ہے ۔خود ان کے بقول  :
"مائی ولایتاں کی آواز میں اتنا جادو تھا (حالانکہ وہ ضعیف العمر تھی )کہ میرے کانوں اب تک رس گھول رہی ہے ۔میں اس کو بھلا نہیں سکا۔”(۱۸)
یہ آواز ان کے تخلیقی سرچشموں میں شامل ہوگئی ہے ۔اور اس کے ساتھ ساتھ کچھ اور میٹھی اور ترنم میں ڈوبی ہوئی آواز یں بھی ۔جس سے حبیب جالب کے ترنم کی تشکیل ہوئی ہے ۔
جالب کی شخصیت کا ایک اور گوشہ جو جالب بیتی کی روشنی میں نکھر کر سامنے آتا ہے ، وہ ان کا احساس ذمہ داری ہے ۔سکول سے چھٹیوں کے دنوں میں ریڈیو میں نظمیں پڑھنا اور پانچ روپے کما کر گھر لے آنااور یوں اپنے خاندان  کے ساتھ عملی تعاون کرنا(۱۹)    ان کے ذہنی بلوغت کی نشاندہی کر تاہے ۔غربت انسان کو شروع ہی دن سے احساس ذمہ داری کی زنجیروں میں جکڑ لیتا ہے ۔اسم قسم کے بچے وقت سے پہلے ہی جوان ہو جاتے ہیں ۔یوں وہ کسی حد تک اپنے والدین  کا ہاتھ تو بٹا دیتے ہیں ، لیکن ان کی زندگی میں ایک خلا ضرور رہ جاتی ہے ۔وہ زندگی سے لذت کشید کرنے میں ناکام رہتے ہیں ۔معاشی مسائل حبیب جالب کی تمام زندگی پر آسیب کی مانند چھائے ہوئے نظر آتے ہیں۔  اس کا نتیجہ یہ ہے کہ اس آپ بیتی میں ہماری ملاقات ایک بچے سے تو ضرور ہوجاتی ہے ،لیکن اس کا بچپن ہم سے بدستور مستور رہتاہے ۔اس قسم کے مسائل میں پلے بڑھے لوگوں کے سامنے زندگی ایک تلخ تجربہ بن جاتی ہے ۔جینا عذاب بن جاتا ہے ۔وہ خود تسلیم کرتے ہیں :
"ان سب چیزوں کے ساتھ فراغت، بے فکری  یا جسے مسرت اور اطمینا ن کہتے ہیں  وہ لہر زندگی میں نہیں آئی ۔اضطراب ، بے چینی اور بے کیفی زندگی پر مسلط رہے۔ اخراجات کا پورانہ ہو نا ہی اصل مسئلہ تھا۔”(۲۰)
جالب بیتی میں ہماری ملاقات حبیب جالب کے روپ میں  ایک ایسے  مزدور جوان سے ہوجاتی ہے ، جس کے اوپر ذمہ داریوں کا بہت بڑا بوجھ ہے لیکن ایک ایسے جوان سے نہیں ہوتی ، جو رومان کی دنیا میں سانس لے رہا ہو۔جالب بیتی میں جس جوان اور جس شاعر کا ذکر ہے اس کی زندگی پندرہ یا سترہ معاشقوں سے خالی ہے ۔وہ  اپنے ایک انٹرویو میں خود اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ عشق کے لیے روپوں کی ضرورت ہوتی ہے اور کیش بک کے ہندسے ہمیشہ میرے رقیب رہے ۔   جس طرح کی زندگی گزاری اس میں دیکھنے کا تو گنہگار ہوا مگر اس سے آگے بڑھنے کا حوصلہ نہیں ہو ا۔(۲۱)
جہاں تک دیکھنے کا تعلق ہے اس کا بھی جالب بیتی میں کہیں خصوصی  تذکرہ نہیں ہے ۔ایک مقام پر ناروے میں رونما ہونے والے ایک واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں  کہ وہاں ایک حسین لڑکی نے مجھے روک کر پوچھا کہ آپ سگریٹ پیتے ہیں ۔میں نے جواب دیا نہیں پیتا ۔میرا جی چاہا یہ حسین لڑکی مجھ سے سوال ہی کرتی رہے اور میں جواب دیتا رہوں ۔میری طبیعت ٹھیک نہیں تھی جس کے باعث میں نے سگریٹ چھوڑ دئے تھے ۔اس لڑکی کو بہت حیرت ہوئی کہ میں سگریٹ نہیں پیتا ۔وہ ایک حسین چہرہ تھا۔ڈیموکریٹک ملکوں کی فضا کا بھی حسن ہوتاہے ۔جولوگوں کے چہروں سے عیاں ہوتاہے ۔(۲۲)  لیکن اس واقعے سے بھی صاف عیاں ہے کہ جالب صاحب اس  لڑکی کے حسن کی کمیت و کیفیت کا اندازہ سیاسی عینک سے لگا رہے ہیں ۔حسن دیکھ کر بھی  جمہوریت اور اس کے مثبت اثرات کی طرف ذہن  کا منتقل ہوجا نا اس بات کی علامت ہے کہ ان کے لیے حسن سے بڑھ کر نظریا ت زیادہ اہمیت رکھتے ہیں ۔جو زندگی کے ہر رنگ کو دیکھ کر  ان کے دل میں خلش  پیداکرتے رہتے ہیں ۔
حبیب جالب یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ بوالہوسی ان کا شعار نہیں رہا ۔لیکن ساتھ ساتھ یہ بتاتے ہیں کہ اس سے آپ یہ نہ سمجھیں کہ میں مافوق البشر بننے کی کوشش کررہا ہوں ۔طبیعت یہی تھی کہ اگر ہم نے کسی سے عرض مدعا کردیا تو پتہ نہیں اس کا کیا جواب مل جائے ؟کوئی ناراض نہ ہو جائے۔کوئی خفا نہ ہو جائے ۔(۲۳)   ان کی شخصیت کا یہ پہلو واضح کرتا ہے کہ وہ کتنی حساس طبیعت کے مالک تھے ۔وہ ایک اعلی ٰ ظرف کے مالک تھے اور انہیں شدت سے احساس تھا  کہ ان کی زبان سے نکلا ہوا کوئی جملہ کسی کی دل آزاری کا باعث نہ بنے ۔اسی وجہ سے ان کی زبان تہذیب و شائستگی کے دائرے میں رہی۔ تہذیب و شائستگی کا یہ عنصر ان کی شخصیت میں کئی ایک حوالوں سے موجود ہے ۔وہ ایک فرمانبردار بیٹے رہے ، اتنے فرمانبردار کہ ان کی والدہ عمر کے اس حصے میں ان کی پٹائی کر سکتی تھی ، جب حبیب جالب کی شادی ہو چکی تھی ۔ وہ ایک  ذمہ دار بھائی بھی  رہے ہیں ۔انہیں دامن پر داغ شراب تو برداشت ہے ، اور اس کا ذکر اپنی آپ بیتی میں انہوں نے برملا کیا ہے ، لیکن اس کے علاوہ کسی اور داغ کو شاید وہ برداشت نہیں کرسکتے ۔ان کے بھائی لکھتے ہیں کہ انہوں  نے ایک مرتبہ لائل پور کا واقعہ سنایا کہ  میں صبح سویرے کہیں جا رہا تھا تو ایک لڑکی کے ہاتھوں میں پکڑی کتابیں نیچے گر گئیں۔وہ بے سدھ مجھے دیکھ رہی تھیں ۔میں نے اس کی کتابیں اٹھائیں اور کہا کہ بی بی ۔سیدھے کالج جایا کرتے ہیں ۔(۲۴)  ایسے خوبصورت اور وجیہہ انسان کی زندگی میں ایسے واقعات آجاتے ہیں لیکن ایسے مواقع پر ایسا جملہ بہت کم زبانوں سے نکل سکتاہے ۔اس لیے کہ اس کا تعلق کردار کی پختگی سے ہوتا ہے۔جالب بیتی میں مشتاق احمد یوسفی کی تحریر کا حوالہ دے کر حبیب جالب  لکھتے ہیں کہ ان کے بقول:
"حبیب جالب یہاں(لندن ) آیا ، وہ کوئی ایسی بات کوئی ایسا نقش چھوڑ کے نہیں گیا جس سے اس کی عزت میں کمی واقع ہو ئی ہو ۔وہ نہایت ادب کے ساتھ گھروں میں رہا ، خواتین کا احترام ملحوظ خاطر رکھا ۔اب شاعر ہونے کا یہ مطلب تو نہیں ہے کہ آپ تہذیب و شائستگی کا خیال نہ کریں آپ پر کوئی حدود و قیود نہیں ہیں۔”(۲۵)
جالب بیتی کی روشنی میں حبیب جالب کی زندگی کے ایک اور رخ کا تعین بھی ممکن ہے ۔ایک انسان نے چاہے کتنی ہی غربت میں آنکھ کیوں نہ کھولی ہو اور وہ شاعر بھی ہو تو ناممکن ہے کہ ابتدائے جوانی میں اس  کاذہن  رومان کی طرف نہ جائے ۔لیکن حبیب جالب  نے جس دور میں آنکھ کھولی اور جن حالات سے گزرے ایسی صورت میں ان کی زندگی میں رومانوں کا جنم لینا کسی حد تک ناممکن بھی تھا۔اس لیے کہ ابتدائے جوانی ہی میں ان کا رشتہ اپنی زمین اور اپنے کلچر سے کٹ گیا تھا۔تقسیم ایک ایسا سانحہ تھا جس نے بہت سے جیتے جاگتے دلوں کو کھنڈر میں تبدیل کر کے رکھ دیا۔لوگوں کی انفرادی زندگی میں مسائل کا وہ طوفان اٹھا جس نے عشق کے چکروں کی طرف توجہ دینے کا موقع ہی نہیں دیا ۔مسائل کس نوعیت کے تھے ، حبیب جالب کی زبانی سنئیے ۔
"جب آدمی ہجرت کرکے آیا ہو۔زخم نقل مکانی اس کے دل نے کھایا ہوتو روایتی عشق اسے کہاں سوجھتا ہے ۔ہمیں تو ایک دن کھانا نہیں ملتا تھا۔چائے نہیں ملتی تھی۔ ہماری جوانی جاگتے ہوئے اور بھوک کاٹتے ہوئے اسی طرح گزر گئی۔ اک عرصے تک خود کو ایڈجسٹ نہیں کر سکے ۔جوانی تقسیم کی نذر ہوگئی ۔"(۲۶)
جوانی تقسیم کھا گئی ،امنگیں اجنبیت کی فضاؤں کی نذر ہو گئیں ۔خواہشات کو غربت اور افلاس نے آدبوچا۔ان سب نے مل ایک ایسے شاعر کو جنم دیاکہ جن کے ہاں عصر کی چیخ دوسری تمام آوازوں پر بھاری ہے ۔اور جن کی شخصیت رومان پرور فضاؤں میں خلاقانہ اڑنے کی بجائے زمین سے قوت اور توانائی حاصل کرتی رہتی ہے ۔ وہ  ایک ایسے شاعر ہیں ، جن کے چاہنے والے اس دور میں اور آج بھی کافی زیادہ تعداد میں موجود ہیں اور وہ پرکشش مردانہ وجاہت کے بھی حامل تھے ،  لیکن ان سب کے باوجود ان کا کوئی سکینڈل سامنے نہیں آیا ۔وہ جدید سوچ رکھنے والے روایتی قسم کے مرد تھے۔شادی بھی پسند کی نہیں ہوئی بلکہ یوں سمجھ لیجئے کہ زندگی کا محض ایک واقعہ تھاجو والدین کی مرضی سے چچازاد بیٹی کے ساتھ ہوئی ۔وہ اس کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ہم جو بڑے ترقی پسند بنتے تھے ہم نے بھی والدین کی مرضی کے سامنے سرجھکا دیا۔شادی غریبانہ ہی تھی دوچار دس لوگ تھے (۲۷)۔   ایسے گھرانوں میں شادیاں پسند کی بجائے دوسروں کی مرضی سے ہوتی ہیں ۔اس لیے کہ زمانہ ایسے شخص کی پسند کو کوئی اہمیت نہیں دیتا جس کی تجوری ہیروں اور جواہرات سے خالی ہو ۔انہیں اپنی شادی کے غریبانہ انداز سے ہونے کا بھی شدت کے ساتھ  احساس ہے اور اس کی انہوں نے بڑی موثر تصویر کشی بھی  کی ہے ۔ان  کے بقول  ایک دری سی بچھی ہوئی تھی ۔ایسا لگتا تھا جیسے کسی سوئم پر لوگ آئے ہوئے ہیں (۲۸) ۔
غربت کے اس عالم میں نہ تو شادی سے قبل کسی رومانوی محبت کے متعلق سوچا جاسکتا تھا اور نہ ہی شادی کے بعد سوچا جا سکتا تھا۔اس لیے کہ چیک بک کے ہندسے  آڑے آجاتے تھے ۔جالب بیتی کو پڑھتے ہوئے یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے جالب کے ذہن بلکہ لاشعور میں  محبت انگڑائیاں لے رہی تھی ۔حسن پرستانہ مزاج نے اپنے لیے ایک صورت کا انتخاب ضرور کر لیا تھا۔اور یہ بھی احساس ہوتا ہے کہ اس محبت یا انتخاب کو انہوں نے خوب اچھی طرح سے اپنے دل میں چھپانے کی کوشش کی ہے ۔اس کا ثبوت یہ ہے کہ ان کی شاعری میں رومان کی ایک دبیز لہر موجود ہے ، جو اگر حقیقت کا شاخسانہ نہیں تومکمل طورپر ان  کے تخیل کی دین بھی نہیں ۔بلکہ اس میں سلگتے ہوئے احساس کی ایک لہر کا احساس ہوتا ہے۔ساتھ ساتھ یہ بھی محسوس ہوتا ہے کہ  انہوں نے بروقت بلکہ قبل از وقت اس کا گلاگھونٹنے کی کوشش کی ہے ۔ایسا معلوم ہوتا ہے کہ  جب بھی اور جہاں کہیں بھی اس محبت یا خواہش نے سراٹھانے کی کوشش کی تو  انہوں نے اس انہونی بات سے اپنی توجہ ہٹائی ہے ۔لکھتے ہیں :
"ہو سکتاہے میں نے چاہا بھی ہو کہ میری وہاں شادی ہوجائے ۔یہی مفلوک الحالی ، غربت اور افلاس کی وجہ سے نہیں ہو پائی ۔لیکن اس کو میں نے مسئلہ نہیں بنایا ۔میرا وہ مسئلہ نہیں ہے ۔ٹھیک ہے نہیں ہوا نہ سہی ۔جب میں نے حقوق انسانی سے عشق کیا ۔اس عشق سے بڑا عشق کوئی نہیں لگا۔آزادی انساں اور آزادی بشر کے لیے جو میرے دل میں سوز و گداز اور تڑپ بیدار ہوئی اسی کی وجہ سے میں نے یہ تمام صعوبتیں جھیلی ہیں ۔یہ عشق مجھے تمام عشقوں سےعظیم تر لگا"(۲۹) ہو سکتا ہے میں نے چاہا بھی ہو “قسم کے جملے اس بات کی شہادت فراہم کر رہے ہیں کہ انہوں نے ضرور چاہا ہوگا ورنہ وہ اس کا تذکرہ ہی نہ کرتے ۔لیکن وہ اس راز کو راز ہی رکھنے پر تلے ہو ئے ہیں  اور  ان کی تہذیبی شائستگی اور رکھ رکھا و ٔ کا نتیجہ ہی ہو سکتاہے ۔حبیب جالب” جالب بیتی “میں ایک مقام پر لکھتے ہیں کہ بچپن ہی سے میری طبیعت میں ایک حسن پسندی تھی ۔اس زمانے میں  اگر کہیں خوبصورت عورت نظرآتی تو میرا دل فوراً اس کی طرف مائل ہو جاتا۔گاؤں ہی سے حسن پسندی میرے مزاج کا حصہ بن گئی تھی (۳۰)  حسن پرستی کی یہ حس بے شک حالات کی نذر ہوچکی ہے ، اور نظریات کے ساتھ عشق میں حلول کر گئی ہے ۔لیکن ابتدائے نوجوانی میں کون کون سے چہروں کو دیکھ کر اس کی دھڑکن تیز ہوا کرتی تھی  اور اس حوالے سے حسن کی کون کون سی دیویاں انہیں اپنی طرف مائل کرنے کاباعث بنی تھیں ۔ان سوالات کے جوابات بھی شاید ہمیں مل جاتے لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ان سے شعوری طور پر احتراز کرنے کی کوشش کی گئی ہے ۔ان کے سامنے جوش کی “یادوں کی برات “تجربے کے طور پر موجود ہے۔جوش وارداتِ عشقیہ چسکے لے لے کر سنانے لگے اور حبیب جالب جذبات کی ا ن انگڑائیوں کو بھی فراموش کر گئے جو ان کی آپ بیتی کو ایک لطیف جمالیاتی کیف سے دوچار کر سکتی تھیں ۔ خود حبیب جالب کے ایک بیان سے اس بات کی طرف اشارہ ملتا ہے کہ  جیسے وہ جوش کی یادوں کی برات سے شعوری طورپر دور بھاگنے کی کوشش کر رہے ہوں ۔وہ یہ نہیں چاہتے کہ ان کی آپ بیتی سترہ اٹھارہ عشقیہ وارداتوں کی نذر ہوجائے اور لوگ انہیں محض اس حوالے سے یاد رکھیں۔جوش کی فطرت اور مزاج اور جالب کی فطرت اور مزاج میں ایک بنیادی فرق ہے اور وہ فرق حالات و واقعات اور سماجی و خاندانی پس منظر کے نتیجے میں پیدا ہوا ہے۔جوش نے نوابانہ شان و شوکت میں جنم لیا تھا۔جبکہ حبیب جالب ایک مزدور کے گھر پیدا ہوئے تھے اور خود بھی  سکول کے زمانے سے ہی جب سکول سے چھٹیاں ہوتی تھیں تو  کریٹ بنانے والی فیکٹری میں چالیس روپے ماہوار پر کام کرتے تھے(۳۱)    ایسے حالات میں دل لگا کر سترہ اور اٹھارہ عشقیہ وارداتوں کے لیے فرصت ہی کب تھی ۔اور ایک غریب نوجوان کو ایسی اور اتنی توجہ کیسے مل سکتی تھی ؟کہ حسینائیں بھی ان کے قدموں میں اپنی جوانیاں  نچھاور کرتی چلی جائیں ۔
حقو ق انسانی کے ساتھ محبت جالب کی شاعری میں رومانوی محبت کا نعم البدل ہے ۔جذبات کے حوالے سے یہ ڈائیورژن بہت زیادہ ضروری ہوتا ہے اور کردار کی عظمت کی نشاندہی کرتا ہے ۔اسے صحیح معنوں میں جذبات کی تطہیر وتہذیب کا عمل قرار دیا جاسکتا ہے ۔جذبات کی یہ تطہیر و تہذیب  ادیب اور بالخصوص انقلابی  ادیب کے لیے  ضروری بھی ہے ۔اس لیے کہ تخلیق بہر حال   اڈ کی پیداوار نہیں بلکہ ایغو کی پیداوار ہے ۔نظریات اور اصولوں کے ساتھ عشق انقلابی ادیب  کے دل میں نت نئی امنگیں جگانے کا باعث بنتا ہے ۔اسی عشق  کی بدولت ،جسے صداقت کے ساتھ عشق سے تعبیر کیا جاسکتا ہے ، نے جالب کو عظمت کی بلندیوں سے ہمکنا ر کیا اور ان کی ذات میں خود اعتمادی ، تمکنت  اور وقار کی ایک ایسی رو دوڑا دی  کہ ان کے فن کے اسیر کو لامحالہ ان کی شخصیت کا اسیر بھی بننا پڑتا ہے ۔
وہ خود بھی عزت نفس اور خودداری کے حوالے سے کوئی سمجھوتہ کرنے کے لیے تیار نہیں اور جب خود اعتمادی کی یہ لہر انہیں کسی دوسرے انسان اور بالخصوص کسی فنکار کے ہاں نظر آتی ہے ، تو ان کی مسرت میں اضافے کا باعث بنتی ہے(۳۲)    عزت نفس اور خودداری کے اسی احساس نے ان کے کردار میں فولادی استحکام پیداکرنے کی کوشش کی ہے ۔انہیں اس بات کا  احساس ہے کہ ان کی سوچ صداقت پر مبنی ہے اور اس لیے اہم ہے۔یہی وجہ تھی کہ زندگی میں بہت سے موڑ ایسے آئے ، جہاں پر ان کا قلم بڑی آسانی کے ساتھ ڈگمگا سکتا تھا۔لیکن صداقت کے ساتھ بے لوث محبت اور خودداری گویا ان کی فطر ت میں جذب ہو کر ان کی شخصیت کا اٹوٹ انگ بن چکی تھی۔مسائل ہر ایک انسان کے ہوتے ہیں ۔پیسہ ہر ایک انسان کی ضرورت ہے ۔ حبیب جالب کا معاملہ اس حوالے سے مختلف ہے۔ انہوں نے پیسوں کے انبار ٹھکرا دیے لیکن سچائی پر کوئی سمجھوتہ کرنے کے لیے تیار نہیں ہوئے ۔ مجاہد بریلوی اپنے انٹرویو میں  پوچھتے ہیں کہ ایک مخصوص نہج کی زندگی آپ نے گزاری ہے ، تو کہیں افسوس یا ندامت کا احساس تو نہیں ہوتا۔جواب میں جالب صاحب کہتے ہیں کہ مجھ سے زیادہ میرے بچوں کو ہوتاہے ۔ہمارے ساتھی دنیا میں کیا کیا کرگئے مگر میں بچوں سے کہتاہوں کہ عزت بھی کوئی چیز ہوتی ہے ۔میری ان باتوں سے وہ اس وقت بہل جاتے ہیں اور میرا کام ہو جاتا ہے(۳۳)   یہ عزت نفس جس کی بنیادوں میں صداقت کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں ، جالب صاحب کو بہت زیادہ عزیز ہے۔نیز یہ کہ  جس پر وہ  کسی بھی قیمت پر مصلحت کے لیے تیار نہیں ہیں ۔مثلاً ضیا ء الحق نے چودھری شجاعت حسین کے ذریعے پانچ لاکھ روپے بھجوائے تھے لیکن جالب صاحب نے ایک آمر کی طرف سے اس خطیر رقم کو ٹھکرا دیا(۳۴)  چودھری شجاعت حسین کے والد نے بھی جالب صاحب کو   ماڈرن فلور ملز کے ویلفئیر آفیسر کا عہدہ پیش کیا تھا اور کہا تھا”پانچ ہزار روپیہ آپ ہر مہینے تنخواہ لے جایا کرنا اور آپ صرف دستخط کرنے ہی آیا کریں ۔”(۳۵)  لیکن جالب صاحب نے انکار کیا تھا۔اسی طرح بینظر نے اپنے عہد میں پچاس ہزار روپے جمہوریت کی خدمات کے اعتراف کے طور پردینے کا اعلان کیا لیکن جالب صاحب  نے کہہ دیا کہ میں یہ ایوارڈ نہیں لیتا۔(۳۶)  نیشنل بک فاؤنڈیشن کی طرف سے ایک لاکھ روپے اور گولڈ میڈل دوستوں کے مشورے سے  اس لیے لیا کہ انہوں نے کہا کہ یہ آپ کو آپ کی کتابوں پر انعام دیا جارہا ہے۔ نیشنل بک فاؤنڈیشن دے رہا ہے اور منتخب وزیر اعظم یہ ایوارڈ دیں گی۔آپ نے تو ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف بھی نظمیں لکھی ہیں۔”یوں ان کے کہنے کا احترام کرکے انعام لے لیا ۔(۳۷)  جس کے متعلق چودھری شجاعت حسین نے قومی اسمبلی کے کیفیٹیریا میں  کہا “میں اس کے پاس پانچ لاکھ روپے لے کر گیا تھا۔وہ حبیب جالب نے قبول نہیں کئے ۔میں حیران ہوں کہ بینظیر بھٹو سے ایک لاکھ روپے اس نے کیسے لے لئے لیکن لکھے گا وہ اپنی مرضی سے ہی "(۳۸)
ان کی رائے کا آخری جملہ اس بات کے ثبوت کے لیے کافی ہے کہ نیشنل بک فاونڈیشن کی طرف سے انعام کی وصولی کے بدلے میں منہ بند رکھنے کا کوئی حوالہ نہیں تھا۔اس لیے کہ جالب صاحب اپنی مرضی سے لکھتے تھے اور اپنا قلم کسی بھی قیمت پر بیچنے کے لیے تیار نہیں تھے ۔مقدمے ، قید و بند کی صعوبتیں ، ذلتیں ، لاٹھی چارج ان کے قلم سے ظلمت کو ضیا نہ لکھوا سکیں ۔
ان کی شخصیت کا یہ سحرکارانہ زاویہ ضرور ہے ۔آزادی ، بغاوت ، حق اور صداقت کی دیوی کے سائے میں ان کی شخصیت پرکشش بھی بن گئی ہے اور قابل احترام بھی ۔ان کا یہ رنگ بھی ان کے خاندانی پس منظرسے ابھرا ہے۔ان کے والد تصوف سے وابستہ تھے ۔اس لیے توکل اور استغنا گویا ان کی گٹھی میں پڑ اتھا ۔حرف حق کہنے کی قوت تصوف کے سلسلے کی دین بھی ہو سکتی ہے اور خاندانی روایات کا ثمر بھی ۔وہ اپنے جد اعلیٰ میاں خیرالدین خان کی بہادری اور بےباکی کی داستانوں سے نہ صرف باخبر ہیں بلکہ بڑے ہی فخر کے ساتھ انگریزوں کے ساتھ ان کی ہونے والی لڑائی اور بے مثل بہادری کا ذکرجالب بیتی میں کرتے ہیں اور حبیب جالب کے والد نے بھی اس کا ذکر کیا ہے۔ حبیب جالب کے والد کے بقول  ان ہی بہادر بزرگوں کی کوئی انی اکنی حبیب جالب میں بھی رہ گئی ہے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ غاصب قوتوں کے خلاف ڈٹ جانے کا حوصلہ ان کے خون میں شامل تھا۔
جالب صاحب نے جالب بیتی میں وہ تمام باتیں بھی نقل کی ہیں ، جن سے بین السطور خودستائی کا پہلو نکلتا ہے۔ایسے مقاما ت پر  اس کے بھائی کے اس بیان کی تردید ہوجاتی ہے کہ انہوں نے خود ستائی سے بچنے کی کوشش کی ہے اور اس وجہ سے بہت سی باتیں اور واقعات کے بیان سے گریز اختیار کیاہے۔ حبیب جالب اپنی شاعری اور اپنے مشن کی خاطر دی جانے والی قربانیاں اپنی زبان سے بھی سنانے کی کوشش کرتے ہیں اور موقع ملے تو کسی دوسرے شخص کی زبان سے نکلاہوا جملہ بڑے اعتماد کے ساتھ کوٹ کرتےہیں ۔مثلاً نواب آف کالاباغ کے حوالے سے ایک واقعے کا ذکر کہ جب  وہ معطل ہوکر گھر چلے گئے تو ایک دن اپنی مونچھوں پر ہاتھ پھیرتے ہوئے مسکر ادئیے ۔ایک شخص نے وجہ پوچھی  تو کہا :
"مجھے وہ ایک شاعر حبیب جالب یاد آگیا ۔اسے میں نے جیل میں رکھا ۔بہت پکڑ دھکڑ کی ۔اس کی کوئی جائیداد زمین ہو تی تو میں چھین لیتا مگر میں اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکا۔ وہ مسلسل میرے خلاف لکھتا ہی رہا وہ مجھ سے نہیں ڈرا۔میں اس کی عزت کرتا ہوں" (۳۹)
خود ستائی کو ئی ایسی  منفی چیز بھی  نہیں ہے  جو ہر حالت میں قابل مذمت ہو ، اگر یہ سچائی اور صداقت کے دائرے کے اندر ہے تو پھر اس کا ذکر ضروری بھی ہے ۔اس لیے کہ اپنی زندگی کے حوالے سےآپ بیتی نگار سے بڑھ کر کوئی نہیں جانتا اگر وہ محض خودستائی کے خوف سے واقعات اور حالات کا ذکر نہیں کرے گا جو اس کی شخصیت کی تفہیم کے لیے ضروری ہیں تو پھر آپ بیتی  لکھنے کا فائدہ کیاہے ؟کوئی بھی  آپ بیتی ایسی نہیں ہوگی جو خود ستائی کے پہلو سے مکمل طور پر خالی ہو  ۔جالب بیتی میں ایسی جائز اور معتدل  خود ستائی کی کئی ایک مثالیں ملتی ہیں ۔حبیب جالب جیسے لوگ جو محض صداقت کی خاطر اپنی زندگی کا سکھ اور خوشیاں نچھاور کردیتے ہیں ، محض ضمیر کی آواز پر لبیک کرتے ہوئے ایسا کرتے ہیں ۔وہ یہ ضرور چاہتے ہیں اور توقع بھی رکھتے ہیں کہ جس مشن کی خاطر انہوں نے دولت کے انبار ٹھکرا دئیے ، کم ازکم اس مشن کے حوالے سے ان کی بے لوث خدمتوں کی سراہنا کی جائے ۔آپ بیتی میں ایسے واقعات کا تذکرہ ضروری بھی ہے ۔اس لیے کہ ان کی زندگی کی پوری عمارت جس بنیاد پر کھڑی ہے ، اس بنیادکو سمجھنا ضروری ہے اور اس وجہ سے اس کا تذکرہ بھی ضروری ہے ۔اس لیے کہ یہی چند رائے اور چند الفاظ ہی ایک صداقت پرست شخص کی زندگی کی کل جمع پونجی ہوا کرتی ہے ۔
حبیب جالب نے جالب بیتی میں جن جن مقامات پر ایسے دعوے یا باتیں کی ہیں جن سے خود ستائی کا کوئی پہلو سامنے آتا ہے تو ان کا بھی  مختصراً  تجزیہ ضروری ہے ۔یہ تمام دعاوی حقائق پر مبنی ہیں ۔انہیں اس بات کا شدت سے احساس ہےاور وہ  اس بات پر فخر بھی کرتے ہیں کہ وہ عوامی شاعر ہیں۔لہٰذا جالب بیتی میں عوام میں اپنی محبوبیت کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ ایک محفل کا کیا تذکرہ کریں ۔جہاں بھی جاتے تھے ۔سارا شہر امڈ آتا تھا۔کوئی یادداشت نہیں رکھی (۴۰)   اسی طرح ایوب مرزا کی تصنیف “ہم کہ ٹھہرے اجنبی “کی تصنیف کا حوالہ دیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ فیض صاحب نے ایوب مرزا سے کہا تھا کہ پنجابی کے عوامی شاعر وارث شاہ اور بلھے شاہ ہیں جبکہ ارد وکے عوامی شاعر حبیب جالب ہیں ۔ایوب مرزا کی یہ بات بھی جالب صاحب نے نقل کی ہے:
"ولی دکنی سے لے کر فیض تک کسی شاعر کو اتنے سامعین نہیں ملے جس قدر حبیب جالب کوسننے کے لیے  ملے ہیں"(۴۱)
اسی طرح دستور سننے کے بعد حسین شہید سہروردی کا  یہ جملہ  کہ ہم نہیں جانتے کہ آپ کتنے بڑے شاعر ہیں لیکن ہم آپ سے یہ کہتے ہیں کہ آپ بڑے بہادر شاعر ہیں ۔(۴۲)
یہ آراء ایسی ہیں جس سے حبیب جالب کی شخصیت اور شاعری کو سمجھنے کا کوئی  گوشہ سامنے آجاتاہے ۔اور یہ باتیں حقیقت کے مطابق بھی ہیں۔مثلاً حبیب جالب کو عوام کے ساتھ محبت تھی اور ان کی یہ خواہش تھی کہ وہ شاعر عوام کی حیثیت سے پہچانے جائیں ۔جہاں تک بہادر شاعر ہونے کا تعلق ہے تو وہ بھی حقیقت کے عین مطابق ہے۔ اس لیے کہ اپنے دور کی دو طویل اورخطرناک مارشل لاؤں کے خلاف ڈٹ جانے والے شاعر کو بہادر شاعر کہے بغیر اور کوئی چارہ نہیں ہے ۔ہاں بعض مقامات پر ان کی یہ باتیں کہ مجھے فخر ہے کہ چراغ حسن حسرت جیسے قادر الکلام شاعر اور عظیم صحافی نے مجھے یہ عزت دی کہ میرا کلام فرمائش کر کے سنا اور مجھے داد سےنواز ا۔اسی لیے میں نئے دور کے نئے نقادوں کی چنداں پروا نہیں کرتا کیونکہ مستند شعرا نے مجھے داددی ہے ۔(۴۳)  اگر چہ یہاں بھی ذات کے ساتھ الفت کی بو بآسانی محسوس ہوتی ہے لیکن اس کے باوجود ان کے بیانات حقیقت کے عین مطابق ہیں۔
وہ  یہ محسوس کرتے ہیں کہ عوام تک ان کی آواز محض ان کے کلام کے زور سے پہنچی ہے ۔اور کلام میں زور کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ اس کی زیریں سطح پر صداقت اور خلوص کی شمعیں روشن تھیں ۔جس کی وجہ سے ان کے اشعار میں ایک جادوئی اثر پیدا ہوچکا تھا۔انہیں اپنی آواز پر حد درجہ اعتماد تھا اور انہیں احساس تھا کہ عوام کے دلوں تک ان کی شاعری کو پہنچنے کے لیے میڈیا کی بیساکھیوں کی ضرورت نہیں تھی ۔اسی میڈیا نے تو اس کی آواز کو کوئی اہمیت نہیں دی تھی ۔حبیب جالب کو میڈیا کے اس دوغلے پن کا شدت سے احساس ہے ۔یہی وجہ ہے کہ دور ایوبی ختم ہو نے کے بعد ایک مشاعرے کی دعوت ملی تو مشاعرے کے آرگنائز ر کو بلایا اور لوگوں سے پوچھا کہ کیا تم تک میری آواز ٹیلی وژن اور ریڈیو کے ذریعے پہنچی ہے تو انہوں نے کہا کہ نہیں ۔حبیب جالب نے نفرت و حقارت سے ریڈیو ٹی وی کے مائیکروفونز کی طرف دیکھا اور کہا “تو ہٹاؤ ان حقوں کو " (۴۴)
اسی طرح انہیں یہ بھی احساس ہے کہ ان کے کلام میں زور صداقت کی وجہ سے ہے ۔یہ وہ اصول ہے جس پر انہوں نے کبھی کوئی سمجھوتہ نہیں کیا ۔مثلاً ایک مشاعرے میں کچھ مزاحیہ شاعروں کے بعد جب حبیب جالب کی باری آئی تو انہوں نے منتظمین کے منع کرنے کے باوجود نظم دستوریہ کہہ کر سنادی کہ مائیک کی تلوار میرے ہاتھ میں ہے ، آج میں آمریت کو لہولہان کرکے چھوڑوں گا(۴۵)  چلتے چلتے ایک بزرگ نے کہا کہ یہ موقع نہیں تھا ایسی نظم پڑھنے کا ، تو جالب نے اسے جواب میں کہا  کہ میں موقع پرست نہیں ہوں (۴۶)
اسی موقع پرستی کی بنیا د پر اس کے ہم عصر بہت آگے نکل گئے ۔مثلاً حفیظ جالندھری وغیرہ ایوب خان کے مشیر بھی بن گئے لیکن جالب ڈٹے رہے ۔ان کی شاعری کے آگے خوف اور تحریص کے جالے بنے گئے لیکن جالب نے اس کی کوئی پروا نہیں کی ۔اس لیے کہ انہیں اپنی نظریاتی زندگی زیادہ عزیز رہی (۴۷)   انہیں  زمین ، لائسنس ، اور روپیہ پیسہ کی لالچ دی گئی اور کہا گیا کہ  آپ مادرملت (جو ایوب خان کے خلاف الیکشن میں کھڑی تھیں )کا دست و بازو نہ بنیں ان کو چھوڑ دیں اور نہ ہی ہمارے حق میں لکھیں آپ ہسپتال میں داخل ہو جائیں اور بیماری کا بہانہ کردیں۔ آپ کی عزت نفس بھی مجروح نہیں ہوگی ۔(۴۸)  لیکن آپ ماننے کے لیے تیار نہیں ہوئے ۔وہ خود تسلیم کرتے ہیں کہ  اندھیرے کو اندھیرا اور ظلم کو ظلم کہنے میں جان بھی جاسکتی ہے لیکن ہم نے اس راہ سے پیچھے ہٹنا گوارا نہیں کیا(۴۹)   انہوں نے نہ تو تخلیق پر “خوف کا سایہ “پڑنے دیا (۵۰)   اور نہ ہی لالچ میں آکر سچائی کو جھوٹ سے آلودہ کرنے کی کوشش کی ۔جرأ ت اور بے باکی اس حد تک کہ بھٹوکی فرمائش کے باوجود ان کے حوالے سے  لکھی ہوئی نظم سنانے سے انکار کر دیا۔
حبیب جالب جیسی شخصیتیں نسل و خون اور ملت کی تفریق و تقسیم کے کلیوں سے ماورا ہوتی ہیں ۔حبیب جالب کے ہاں انسان دوستی کا حوالہ ان کی شاعری میں بھی نظرآتا ہے  اور جالب بیتی میں بھی اس کے نقوش مل جاتے ہیں ۔ ان کی شاعری تمام محکوم و مجبور قوموں کے لیے ہے ۔انہوں نے آمریت کی مخالفت کی اور جمہوریت اور آزادی کے لیے اپنی تمام تر تخلیقی توانائیاں ان نقطوں پر مرکوز کرنے کی کوشش کی  ۔و ہ کسی بھی دائرے میں محبوس نہیں تھے۔ ہاں انسانی آزادی ، مساوات، جبر کی مخالفت ، معاشی انصاف کی حمایت ۔۔۔یہ تمام نکات ایسے ہیں جن کے اردو گرد ان کی شخصیت اور شاعری ہالے کی مانند بسیرا کئے ہوئے نظرآتی ہیں ۔جالب بیتی میں انسانیت دوستی اورمذہبی تعصب سے بیزاری کا عنصر بھی نمایاں ہے اور کچھ ایسے واقعات بھی ہیں جن سے حبیب جالب کی مذہبی رواداری کا پہلو سامنے آتاہے ۔انہیں انسان اور انسانیت دوسری تمام چیزوں کے مقابلے میں زیادہ عزیز ہیں ۔ اصغر لودھراں کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ میں ان کو ایک زمانے سے ہندو سمجھتا تھا۔ایک دفعہ ہم فلم دیکھنے جارہے تھے۔ راستے میں اس نے مجھ سے پوچھا کہ “اگر میں یہ بتادوں کہ میں مسلمان ہوں ؟”میں نے جواب دیا ایسی کوئی بات نہیں۔ تم ہندو بھی ہوتے تو ہمارے دوست ہوتے۔(۵۱)
جالب بیتی میں جالب کی شخصیت کے کئی ایک پہلو ایسے ہیں جو تشنہ رہ چکے ہیں ۔مثلاً جاگیردارانہ نظام سے نفرت کی وجوہات کا ذکر انہوں نے اپنے ایک انٹرویو میں کیا ہے  جس کا حوالہ اوپر دیا جا چکا ہے اور ساتھ ساتھ جالب بیتی میں بھی جب وہ غربت کا ذکر کرتے ہیں کہ ان دنوں اس کے حل کا پتہ نہیں تھا لیکن یہ ایک بنیادی مسئلے کے طور پر موجود تھا۔تو یہ واقعات او ریہ باتیں جالب بیتی کی زینت بننی چاہئیے تھیں ۔تا کہ جالب بیتی ان کی شخصیت کے متنوع رنگوں کا ایک خوبصورت گلدستہ بن جاتی ۔مثلاً جالب بیتی  میں وہ اس بات کا بھی حوالہ دے سکتے تھے جس کا حوالہ ان کے والد صاحب نےدیا ہے کہ سکول میں اکثر ایسا ہوتاکہ ہمارے بچے پاس ہوجاتے اور بڑے بڑوں کے بچے فیل ہو جاتے اور پھر بڑوں کے بچے فیل ہونے پراپنی تذلیل کا بدلہ یوں لیتے کہ وہ مل کر مشتاق اور حبیب کو مارتے ۔(۵۲) اس نوع کے واقعات لازمی طورپر بچوں کے دل و دماغ پر اثرانداز ہوتے ہیں اور ان اثرات کا اچھا اندازہ خود مصنف ہی لگا سکتا تھا۔اسی طرح جالب بیتی میں انہوں نے یہ تو بتایا ہے کہ سکول کے زمانے میں کس طرح ایک لفظ جملوں میں استعمال کرنے کے لیے دیا گیا اور اس سے شعر بن گیا۔جس سے پتہ چلتا ہے کہ شاعرانہ صلاحیتیں حبیب جالب میں فطری اور وہبی تھیں۔ لیکن یہ نہیں بتایا گیا کہ شعری ذوق کی آبیاری میں ان کے بڑے بھائی نے بھی اہم کردار ادا کیاہے ۔مشتاق مبارک خود بھی اچھے شاعر تھے اور مشاعروں میں اپنے ساتھ حبیب جالب کو لے جایا کرتے تھے(۵۳)
اسی طرح بچپن میں مہر منشی کا حبیب  جالب کو ادبی کتابیں دیتے رہنا جس کی وجہ سے جالب صاحب  کو ادبی فیض حاصل کرنے کا موقع مل گیا تھا( ۵۴) ان تمام باتوں کا حبیب جالب کی زبان سے تذکرہ جالب صاحب  کی شخصیت کو سمجھنے میں کافی کارآمد ثابت ہو سکتا تھامثلاً حبیب جالب کے والد کے بقول میرا یہ بیٹا باقی اولاد سے مختلف تھا اور دوسری بات یہ کہ اپنے ہونے کا احساس دلانا اس کی جبلت میں شامل تھا۔(۵۵)  لیکن جالب بیتی میں خود جالب کی زبانی اس قسم کی باتوں کا کوئی  تذکرہ موجودنہیں ہے ۔اسی طرح بحیثیت شوہر اتنا ذکر تو موجود ہے کہ اس نے اپنی بیوی کو اپنے کہنے کے مطابق زندگی گزارنے کا عادی بنادیا ہے ۔(۵۶)  لیکن ایسا کرنے کے لیے اسے اور اس کی بیوی کو جذبات کے کن مد و جزر سے گزرنا پڑا ہے ، جالب بیتی ان کے تذکرے سے خالی ہے ۔بحیثیت بیٹے وہ ایک فرمانبردار بیٹا رہے ہیں۔ان کے والد کے بقول  اس کی ماں آج بھی غصے میں آجائے تو اس کی پٹائی کر دیتی ہے۔(۵۷)   بچپن میں مار پٹائی کے حوالے سے اس کے والد نے لکھا ہے کہ نابینا نانی خفا ہوتیں کہ تم دونوں ماں باپ نہیں ہو بلکہ قصائی ہو ۔تم دونوں اسے مارتے ہو ۔تو پھر وہ کیا کرے ۔آخر وہ تم موذیوں سے جان بچا کر بھاگ جاتاہے ۔( ۵۸)    لیکن اپنی ماں کے احترام کے حوالے سے کچھ واقعات اور باتوں کے تذکرے سے جالب بیتی خالی ہے ۔ان کے والد کے بقول جب ہم نے شاعری کے حوالے سے سنا کہ جالب شاعری کرنے لگا ہے تو ہماری امیدیں خاک میں مل گئیں اور ہم نےاس کے ساتھ سختی شروع کی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ جالب گھر سے غائب رہنے لگا۔(۵۹)  جالب بیتی کے صفحات ان باتوں کے ذکر سے بھی خالی ہیں۔بحیثیت بھائی بھی انہوں نے ذمہ داری کا ثبوت دیا ۔مثلاً اکلوتی بہن رشیدہ کی شادی کی اسی فیصد ذمہ داریاں حبیب نے تن تنہا پوری کیں۔سعید کی تعلیمی ذمہ داریاں بھی پوری کیں اور اسے نوکری بھی دلوادی(۶۰)  خود حبیب جالب کے بھائی تسلیم کرتے ہیں کہ رشیدہ کی شادی کی فکر انہیں حد سے زیادہ تھی اور وہ ایک ایک پیسہ احتیاط سے استعمال کرتے تھے اور جو کماتے تھے ، اپنی والدہ کے حوالے کر دیتے تھے۔فلم پروڈیوسرز  سے اس نے انہی دنوں دو گنا اور تین گنا معاوضہ طلب کیا اور انہوں نے دے دیا۔لیکن معاشی تنگی اور احساس ذمہ داری کے درمیان ایک حساس شاعر کے دل پر کیا بیتی ہے ، جالب بیتی میں  اس کا بھی  تذکرہ موجود نہیں  ہے ۔اس قسم  کی باتوں سے گریز کی وجہ حبیب جالب کے بھائی سعید پرویز  کے خیال میں یہ بھی ہوسکتی ہے  کہ اس سے خودستائی کا پہلو نکلتا تھا(۶۱)   لیکن ان باتوں سے گریز نے حبیب جالب کی  شخصیت کے کئی ایک توانا رنگ  بھی ہماری نظروں سے چھپا دیے ہیں اور سب سے بڑی بات یہ کہ جالب بیتی میں بہت جلد وہ اپنی ذات سے توجہ ہٹا کر ہم عصر شعرا، ادبا اور سیاسی شخصیات پر قلم اٹھا لیتے ہیں ۔جس کی وجہ سے آپ بیتی میں خاکوں کا رنگ ابھرتا ہے ۔لیکن خاکوں میں خود حبیب جالب کی شخصیت کہیں کھو جاتی ہے اور جالب بیتی کی اوپری سطح سے غائب ہو جاتی ہے ، اور پھر اس کے بعد بوقت ضرورت سر اٹھاتی رہتی ہے۔آپ بیتی میں خود آپ بیتی نگار کی اپنی شخصیت اولین توجہ کی حامل ہو تی ہے ،جب وہ ثانوی حیثیت اختیار کر تی ہے ، تو آپ بیتی پرتاریخ کا رنگ حاوی ہو نے لگتا ہے ، جو آپ بیتی کی روح کے منافی ہے ، اس لیے کہ آپ بیتی بہر حال آپ بیتی نگار کی شخصیت کے اتار چڑھاؤ کی کہانی ہے ۔


حوالہ جات :

۱۔ ریحانہ خانم ، آپ بیتی کیا ہے ، مشمولہ، نقوش ، آپ بیتی نمبر،شمارہ نمبر ۱۰۰، ادارہ فروغ اردو ، لاہور، س۔ن۔ص، ۸۹
۲۔ ایضاً،ص، ۹۰
۳۔ عبداللہ ، سید ، ڈاکٹر، آپ بیتی ، مشمولہ  ، نقوش ،آپ بیتی نمبر، شمارہ نمبر ۱۰۰، ادارہ فروغ اردو ، لاہور، س۔ن۔ص، ۶۲
۴۔ وہاج الدین علوی ، اردو خودنوشت فن اور تجزیہ ،شعبہ اردو جامعہ ملیہ اسلامیہ ، نئی دہلی ۲۵، ۱۹۸۹ء۔ص، ۳۶
۵۔ عنایت اللہ ، میرا بیٹا میرا حبیب ، مشمولہ ، حبیب جالب ۔گھر کی گواہی ،مرتب، سعید پرویز، مکتبہ دانیال ، کراچی ، ۱۹۹۴، ص، ۲۴
۶۔ سعید پرویز ، میرا بھائی ، میرا باپ ، مشمولہ ،  جریدہ عالمی اردو ادب ، حبیب جالب نمبر ،جلد ۹ ، ۶کرشن نگر دہلی ، ۱۹۹۴ء ،ص، ۱۸۱
۷۔ ایضاً،ص، ۱۸۲
۸۔ جعفرا حمد ، سید، جالب کا ایک یادگار انٹرویو ،مشمولہ ،  جریدہ عالمی اردو ادب ، حبیب جالب نمبر ،جلد ۹ ، ۶کرشن نگر دہلی ، ۱۹۹۴ء ،ص، ۱۷۰
۹۔ حبیب جالب ، جالب بیتی ،طاہر سنز پبلشرز ، اردو بازار ، لاہور، مئی ۲۰۱۳ء۔ ص، ۲۴
۱۰۔ ایضاً، ص، ۲۵                ۱۱۔ ایضاً، ص، ۲۸                 ۱۲۔ ایضاً، ص، ۲۷
۱۳۔ جعفرا حمد ، سید، جالب کا ایک یادگار انٹرویو ،مشمولہ ،  جریدہ عالمی اردو ادب ، حبیب جالب نمبر ،جلد ۹ ، ۶کرشن نگر دہلی ، ۱۹۹۴ء ،ص، ۱۶۶، ۱۶۷
۱۴۔ ایضاً، ص، ۱۷۸
۱۵۔ حبیب جالب ، جالب بیتی ،طاہر سنز پبلشرز ، اردو بازار ، لاہور، مئی ۲۰۱۳ء۔ص، ۳۰۲
۱۶۔ ایضاً، ص، ۲۹۹    ۱۷۔ ایضاً، ص، ۳۰۰   ۱۸۔ ایضاً، ص، ۲۹      ۱۹۔ ایضاً، ص، ۳۲     ۲۰۔ ایضاً، ص، ۳۲
۲۱۔ جعفرا حمد ، سید، جالب کا ایک یادگار انٹرویو ،مشمولہ ،  جریدہ عالمی اردو ادب ، حبیب جالب نمبر ،جلد ۹ ، ۶کرشن نگر دہلی ، ۱۹۹۴ء ،ص، ۱۶۵
۲۲۔ حبیب جالب ، جالب بیتی ،طاہر سنز پبلشرز ، اردو بازار ، لاہور، مئی ۲۰۱۳ء۔ ص، ۳۴۴
۲۳۔ ایضاً، ص، ۳۰۰
۲۴۔ سعید پرویز، میرا بھائی  میرا جالب،مشمولہ ، حبیب جالب ۔گھر کی گواہی ،مرتب، سعید پرویز، مکتبہ دانیال ، کراچی ، ۱۹۹۴،ص، ۱۷۵
۲۵۔ حبیب جالب ، جالب بیتی ،طاہر سنز پبلشرز ، اردو بازار ، لاہور، مئی ۲۰۱۳ء۔ ص،۳۴۰
۲۶۔ ایضاً، ص، ۳۰۱              ۲۷۔ ایضاً، ص، ۴۳               ۲۸۔ ایضاً، ص، ۳۰۷     ۲۹۔ ایضاً، ص، ۳۰۱
۳۰۔ ایضاً، ص، ۲۹۹              ۳۱۔ ایضاً، ص، ۳۰۲              ۳۲۔ ایضاً، ص، ۳۲۵
۳۳۔ جعفرا حمد ، سید، جالب کا ایک یادگار انٹرویو ،مشمولہ ،  جریدہ عالمی اردو ادب ، حبیب جالب نمبر ،جلد ۹ ، ۶کرشن نگر دہلی ، ۱۹۹۴ء ،ص، ۱۷۰
۳۴۔ حبیب جالب ، جالب بیتی ،طاہر سنز پبلشرز ، اردو بازار ، لاہور، مئی ۲۰۱۳ء۔ص، ۲۳۷
۳۵۔ ایضاً، ص، ۲۳۶              ۳۶۔ ایضاً، ص، ۲۳۷             ۳۷۔ ایضاً، ص، ۲۳۷     ۳۸۔ ایضاً، ص، ۲۳۸
۳۹۔ ایضاً، ص، ۱۴۸              ۴۰۔ ایضاً، ص، ۳۴۸              ۴۱۔ ایضاً، ص، ۲۴۴      ۴۲۔ ایضاً، ص، ۵۸
۴۳۔ ایضاً، ص، ۲۲۶
۴۴۔ سعید پرویز، میرا بھائی  میرا جالب،مشمولہ ، حبیب جالب ۔گھر کی گواہی ،مرتب، سعید پرویز، مکتبہ دانیال ، کراچی ، ۱۹۹۴،ص، ۱۸۶
۴۵۔ حبیب جالب ، جالب بیتی ،طاہر سنز پبلشرز ، اردو بازار ، لاہور، مئی ۲۰۱۳ء۔ص،۵۹
۴۶۔ ایضاً، ص، ۶۰               ۴۷۔ ایضاً، ص، ۲۸۴ 
۴۸۔ ایضاً، ص، ۷۳                ۴۹۔ ایضاً، ص،۶۳
۵۰۔ ایضاً، ص، ۲۲۷              ۵۱۔ ایضاً، ص،۲۵۸
۵۲۔ عنایت اللہ ، میرا بیٹا میرا حبیب ، مشمولہ ، حبیب جالب ۔گھر کی گواہی ،مرتب، سعید پرویز، مکتبہ دانیال ، کراچی ، ۱۹۹۴، ص، ۴۵
۵۳۔ ایضاً ،ص، ۵۹     ۵۴۔ ایضاً ،ص، ۵۹     ۵۵۔ ایضاً،ص، ۹۱
۵۶۔ حبیب جالب ، جالب بیتی ،طاہر سنز پبلشرز ، اردو بازار ، لاہور، مئی ۲۰۱۳ء۔ص، ۲۳۷
۵۷۔ عنایت اللہ ، میرا بیٹا میرا حبیب ، مشمولہ ، حبیب جالب ۔گھر کی گواہی ،مرتب، سعید پرویز، مکتبہ دانیال ، کراچی ، ۱۹۹۴، ص، ۹۱
۵۸۔ حبیب جالب ، جالب بیتی ،طاہر سنز پبلشرز ، اردو بازار ، لاہور، مئی ۲۰۱۳ء۔ص، ۸۰
۵۹۔ عنایت اللہ ، میرا بیٹا میرا حبیب ، مشمولہ ، حبیب جالب ۔گھر کی گواہی ،مرتب، سعید پرویز، مکتبہ دانیال ، کراچی ، ۱۹۹۴، ص، ۸۰
۶۰۔ ایضاً،ص، ۹۲               
۶۱۔سعید پرویز ، حبیب جالب ۔گھر کی گواہی ،مرتب، سعید پرویز، مکتبہ دانیال ، کراچی ، ۱۹۹۴،ص، ۱۸

اوپر جائیں  |   پرنٹ کیجئےِ
انگریزی ورژن ای میل چیک کریں مرکزی صحفہ پرنٹ پسندیدہ سائٹ بنائیں رابطہ کیجئے www.shahzadahmad.com www.shahzadahmad.com