فکراقبال کی روشنی میں نوجوان نسل کے لیے شاہین بطور علامت

ڈاکٹر ناصرالدین۔ لیکچرر، ایبٹ آباد یونیورسٹی آف سا  ئنس اینڈ ٹیکنالوجی

ڈاکٹر سلطا ن محمود۔ ایسوسی ایٹ پرو فیسر، ایبٹ آباد یو نیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالو جی

ABSTRACT
Symbolism is one of the significant characteristics of poetry. The characteristics that are attributed to a symbol may or may not be accurate. But a symbol is chosen to represent the qualities which are expressions of the ideals in that culture. Throughout the ages, Eagle had remained a symbol of power, strength, freedom and elegance due to its remarkable strength, large size, nomadic style, striking visage, graceful flight and courage. It cannot be denied that the eagle upholds its magnificence and grandeur even in the modern times.  Iqbal has used the eagle to symbolize the character of young Muslim. He wanted to see these qualities in the lives of young Muslims. There is no doubt that Iqbal has used this symbol in a really inspiring style. This study is an attempt to analyze Iqbal’s poetry in this perspective

نوجوان کسی بھی قوم کا  قیمتی ترین اثاثہ ہوا کرتے ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ تاریخِ انسانی کا سب سے عظیم اور پاکباز انقلاب نبی کریمﷺ کا انقلاب تھااور یہ بھی  حقیقت ہے کہ اس عظیم تبدیلی کو لانے میں نوجوانوں نے بنیادی کردار ادا کیا۔ اقبال کو بھی سب سے زیادہ اُمیدیں نوجوانوں سے ہی وابستہ تھیں۔نوجوانوں کیلیے علامہ نے ہمیشہ شاہین کا استعارہ استعمال کیا ہے۔وہ آرزو رکھتے تھے کہ اُمّتِ مسلمہ کے شاہین صفت نوجوان  اُن کی فکر کو عام کرنے اور نظامِ زندگی کو اُس کے مطابق استوار کرنے کا ذریعہ بنیں۔ بالِ جبریل کے مندرجہ ذیل اشعار  اقبال  کی اس آرزو کی ترجمانی کرتے ہیں:
جوانوں  کو  میری  آہ ِ سحر  کر دے
پھر ان  شاہیں بچوں کو بال و پر دے
خدایا     آرزو    میری  یہی   ہے
مرا   نورِ   بصیرت  عام   کر  دے (۱)
خلیفہ عبدالحکیم کہتے ہیں:"اقبال شاعر بھی ہے اور مفکر بھی۔ وہ حکیم بھی ہے اور کلیم بھی۔ وہ حکیم بھی ہے اور رفر ض شناس بھی ہے، اور تحقیر انسان سے درد مند بھی ۔ اس کے کلام میں فکروذکر ہم آغوش ہیں"(۲)۔ انہوں نے حالی کی طرح شاعری کو مقصدیت کے لیے استعمال کیا تا ہم وہ اپنے کلام میں گل اور بُلبُل کے مضامین کو پامال سمجھ کر اردو شاعری سے نہیں نکالنا چاہتے تھے۔ انھوں نے اپنی فطری شاعری کے لیے پرندوں کی مختلف  خصو صیات کو بہت خوبصورتی سے استعمال کیا ہے۔ اقبال نے نظیر کی طرح سب سے زیادہ پرندوں کو اپنی شاعری میں برتا ہے مثلاً ان کے ہاں کوئل ، بلبل، چکور ، طوطی ، مور ، تیتر ، قمری وغیرہ کا بہت ذکر ملتا ہے ، وہ پروانے کو بھی روشنی کا استعارہ بنا کر پیش کرتے ہیں مگر جو اہمیت ان کے کلام میں شاہین کو حاصل ہے وہ کسی اور پرندے کو نہیں۔ ان کی شاعری میں شاہین ایک ایسا پرندہ ہے جس کی خوبیوں کو اپنا کے آج کا نوجوان اپنے لیےعمل کی راہوں کا تعین کر سکتا ہے۔ علامہ صاحبؒ نے شاہین کے ذکر کے ذریعے مومن کی تمام خصوصیات کی نشاندہی کی ہے۔علامہؒ اپنی شاعری میں شاہین کو بطور استعارہ استعمال کرتے ہیں۔ان کے خیال میں اس پرندے کی تمام خصوصیات  مرد مومن میں یا مسلمان میں موجود ہیں یہ اپنے بلند مقاصد کے حصول کےلئے دنیا سے الگ تھکگ اور بے چین رہتا ہے۔(۳)  
یہ امر قابل توجہ   ہے کہ اقبال نے اُمّتِ مسلمہ کے نوجوانوں کے لیے شاہین کا استعارہ کیوں استعمال کیا ہے؟  ڈاکٹر جاوید اقبال  کہتے     ہیں  کہ اس کی وجہ شاہین کی پانچ نمایاں خصوصیات ہیں ۔ اقبال امّت کے نوجوانوں میں یہ صفّات دیکھنے کے آرزومند تھے۔پہلی یہ کہ شاہین بلند پرواز ہے۔ دوسری یہ کہ تیز نگاہ  ہے۔تیسری یہ کہ خلوت  پسند ہے۔خدا بھی اکیلا ہے اور خلوت تخلیقی صلاحیت کےلیے  اہم صفت ہے۔چوتھی یہ کہ وہ  کسی اور کے ہاتھ کا مارا ہوا شکار نہیں کھاتا۔  پانچویں یہ کہ وہ آشیانہ نہیں بناتا۔(۴)
اقبال نے شاہین کی ہر اس خوبی کو اپنی شاعری میں بیان کیا ہے جو فی الحقیقت مرد مومن کی خوبی ہونی چاہیے۔ اقبال نے اسلامی افکار اور ان کے مفہوم کو صحیح سمجھنے میں ذرا بھی کوتاہی نہیں کی۔ اقبال کے ہاں شاہین کی تشبیہہ محض شاعرانہ نہیں ہے ۔در حقیقت شاہین  میں اسلامی فقر کی تمام خوبیاں پائی جاتی ہیں جن کا اقبال نے اپنی شاعری میں ذکر کیا ہے۔ مثلاََ ایک مسلمان مرد مومن میں حد درجہ خوداری اور غیرت مندی پائی جاتی ہے وہ اقبال کے شاہین میں بھی پائی جاتی ہے اس لئے وہ مرغ  کے ساتھ دانہ نہیں چگتا جو دوسروں کے احسان کے باعث ملتا ہے۔نہ ہی وہ چکو روں کی طرح زمین پر پڑے دانہ دنکا  کی تلاش میں نیچی پرواز کرتا ہے۔  اقبال فرماتے ہیں:
یہ پورب ، یہ پچھم چکوروں کی دنیا
مرا     نیلگوں  آسمان   بیکرانہ  
پرندوں کی دنیا کا درویش ہوں میں
کہ شاہیں بناتا   نہیں   آشیانہ  (۵)
علامہؒ فرماتے ہیں کہ شاہیں کی زندگی ایک درویش کی سی ہے جس کا اپنا کوئی مسکن نہیں ہوتا بلکہ جہاں جگہ مل جائے وہیں بسیرا کر لیتا ہے۔اسی طرح شاہیں بھی اپنے لیے گھونسلہ نہیں بناتا ۔اور اپنی زندگی اپنے فرائض   کی انجام دہی میں صرف کرنے میں لگا رہتا ہے۔ علامہ صاحبؒ  مسلمان نوجوانوں  کو شاہیں صفت دیکھنا چاہتے ہیں جو کہ ایک جگہ مسکن بنا کر براجمان ہونا پسند نہیں کرتا،اسی طرح مرد مسلماں کو بھی اس فانی دنیا پر مغرور نہیں ہونا چاہیے۔دائمی اور ابدی زندگی تو آخرت کی ہے اس کے لئے تیار ہونا چاہیے۔ علامہؒ فرماتے ہیں کہ شاہیں کی زندگی ایک درویش کی سی ہے جس کا اپنا کوئی مسکن نہیں ہوتا بلکہ جہاں جگہ مل جائے وہیں بسیرا کر لیتا ہے۔اسی طرح شاہین بھی اپنے لیے گھونسلہ نہیں بناتا ۔اور اپنی زندگی اپنے مقاصد  کی انجام دہی میں صرف کرنے میں لگا رہتا ہے۔ بالِ جبریل  کا درج ذیل شعر شا ہین کی اسی صفت کی عکاسی کرتا  ہے:
گزر  اوقات  کر لیتا  ہے  یہ کوہ  و  بیاں میں
کہ شاہیں کے لئے ذلّت ہے کارِ آشیاں بندی (۶)  
اقبال نوجوانوں کو خاکبازی اور ذلت سے چھڑانے کے لیے ان کی روحِ خوابیدہ کو بیدار کرنا چاہتے تھے تا کہ ان میں الوالعزمی اور بلند نظری پیدا ہو جائے اور وہ آسمان کے ستاروں کی طرح اونچے اور روشن نظر آئیں۔ شاہین بلند فضاؤں میں اڑتا ہےاسی وجہ سے اس کی فطرت بھی بلندو بالا ہے۔اور یہ بلندی بھی اسی کا مقدر بنتی ہے جو خود کو زمین کی پستیوں سے نکال سکے۔ اقبال کو شاہین کی بلند پروازی اس لیے پسند ہے کہ یہ اس کے عزائم کو نئے نئے امکانات سے روشناس کرتی ہے۔ اسی طرح مرد درویش کی بلند ہمتی اور مقاصد آفرینی کائنات کے نئے نئے گوشوں کو اس کے سامنے لاتی ہے، اور اسے اعلیٰ سے اعلیٰ ہدف کو تسخیر کرنے کی ترغیب دیتی ہے۔
درج ذیل شعر  میں کتنی خوبصورتی سے اقبال نے اس حقیقت کا اظہار کیا ہے ۔
عقابی روح جب بیدار ہوتی ہے جوانوں میں
نظر آتی ہے ان کو اپنی منزل آسمانوں  میں (۷)
اقبال نے شاہین کے استعارے کے ذریعے نوجوان نسل کو یہ پیغام دیا ہے کہ وہ ہمیشہ نڈر و پرعزم رہیں اور انتھک جدہ جہد کی راہ اپنا ئیں:
شاہیں کبھی پرواز سے تھک کر نہیں ِگرتا
پُردم  ہے  اگر  تُو تو  نہیں خطرہ  اُفتاد (۸)
یہ اپنی پرواز سے کبھی بھی نہیں تھکتا بلکہ بلند سے بلند تر پرواز کر کے دلی سکون حاصل کرتا رہتا ہے۔یہ اپنے مقاصد عظیم رکھتا ہے۔ اقبال کی شاعری نے جذبات کو فکر کا درجہ دیا ہے اور فکر کو جذبات کا آب و رنگ بخشا ہے۔ اقبال کا فلسفیانہ کلام ان کی مخصوص اصطلاحات ، موزوں اشارات اور علمی و ادبی تلمیحات سے بھرا ہوا ہے۔ اس میں اسلامی اور مغربی فلسفہ کی اصطلاحات ، آیات قُرانی ، احادیث ، مشاہیر حکما اور علمائے سلف کے اقوال جا بجا استعمال ہوئے ہیں اور کئی علمی مسائل کے حوالے اور اشارات پائے جاتے ہیں۔   مسلمانوں کا عروج ان کی شاعری کا محور  ہے۔ اس مقصد کے لیے انہوں نے مختلف تصورات پیش کیے جن میں خودی کو بہت اہمیت حاصل ہے۔ اقبال کے فلسفے میں خودی بے خودی، وطن دوستی ، عقل و عشق ، تصور مردِ مومن ، تصور شاہین وغیرہ بہت خوبصورتی سے پیش کیے۔ اقبال کا اہم موضوع عظمتِ آدم کا تصور ہے۔ وہ اس فلسفے کے ذریعے یاد دلاتے ہیں کہ دنیا میں انسان کو اللہ تعالیٰ نے اپنا نائب بنا کر بھیجا ہے اور اس کےذمہ تسخیر فطرت اور تسخیر کائنات کا اہم فریضہ ہے ۔ اقبال کی فکر کےسوتے قرآن مجید ، مثنوی مولٰنا روم اور تاریخ اسلام سے پھوٹتے نظر آتے ہیں۔ کلام اقبال میں اقبال کا تصور شاہین اپنی بلندیوں کو چھوتا نظر آتا ہے۔ جس طرح شاہین اونچائی کی طرف اڑتا نظر آتا ہے اسی طرح اقبال کی فکر بھی بلند پروازی سے لبریز ہے:
نوا پیرا ہو اے بلبل کہ ہو تیرے ترنّم سے
کبوتر کے تنِ نازک میں شاہین کا جگر پیدا (۹)
شاہین کی گوناگوں صفات جو اسلامی تعلیم اور فکر کے لیے ضروری ہیں اقبال کو بہت پسند آئیں۔ ان کا ذکر انھوں نے جا بجا کیا ہے جیسے فقر ، درویشی اور خلوت پسندی۔ وہ شاہین کی آزاد طبع ، بے نیازی ، بے باکی اور بلند پروازی کو اس لیے پسند کرتے ہیں کہ یہ صفات مومن کی شان گردانی جاتی ہیں۔ اقبال کو شاہین کی تیز نگاہی بھی پسند ہے اس لیے کہ یہ مرد مومن کی بصیرت کی علامت ہے۔ اسی طرح شاہین کی سخت کوشی کی صفت بھی اقبال کو بہت محبوب ہے۔ اور اپنی قوم کے جوانوں میں وہ اس خوبی کو دیکھنے کے خواہاں ہیں۔ دیگر صفات میں قوت و توانائی ، حریت ، تجسس وغیرہ کا ذکر اقبال نے شاہین کے حوالے سے اپنے کلام میں خوب کیا ہے۔ اقبال کے نزدیک آزادی کے عالم میں ہی شاہین کیلئے تجسس ممکن ہے اور تجسس ہی انسانوں کے اندر نئے نئے محرکات اور انکشافات کا ذریعہ ہے جس کے اندر تجسس نہیں وہ علم نہیں سیکھ سکتا۔ تجسس کے بغیر غلامانہ ذہنیت انسان کو کمزور بنا دیتی ہے۔ وہ پر تجسس نگاہوں کو اتنی اہمیت دیتے ہیں جتنی چیتے کےجگر کو۔ ان کے نزدیک یورپی علوم ہمارے لیے اتنی اہمیت کے حامل نہیں جتنا تجسس ہونا ہے۔ کیونکہ اس کے بغیر ہم تخلیقی صلاحیتوں سے محروم رہیں گے۔ یہ تجسس حصول علم کے لیے بھی ضروری ہے اور حصول قوت کیلئے بھی۔ مرد مومن کو شاہین کی طرح دوربین اور پر تجسس ہونا چاہیے کہ اس کے ذریعے وہ کائنات کے سربستہ رازوں سے پردہ ہٹا سکتا ہے۔اقبال یہ سمجھتے ہیں کہ انسان کی عزت ، عروج اوربقاء کے لیے علم و فن سےزیادہ  جرأت اورجستجو اہم ہیں۔اس حقیقت کے اظہار کے لیے اقبال چیتے کا  جگر اور  شاہین کا تجسس کے استعارے استعمال کرتے ہیں:
چیتے کا  جگر چاہیے،   شاہین کا تجسس
جی سکتے ہیں بے روشنی دانش وفرہنگ (۱۰)
شاہین کی زندگی  عزم و ہمت سے عبارت ہے۔  اپنی  خصو صیات کے لحاظ سے یہ دوسرے پرندوں سے بہت مختلف ہےیہ ہوا میں اپنے شکار کو زندہ پکڑتا ہے۔اس کی تیز نگاہ کبھی بھی دھوکہ نہیں کھاتی اور اپنے بچوں کو بھی اس قابل بناتا ہے کہ وہ مصائب کا مقابلہ کر سکیں۔ اس کی عمر 70 سال تک ہو سکتی ہے۔لیکن اسے عمر کی اس حد تک پہنچنے کے لئےسخت فیصلہ لینا پڑتا ہے۔جب اس کی عمر 40 سال ہو جاتی ہے تو اس کے لچکدار پنجے اس قابل نہیں رہتے کہ وہ مزید شکار کر کے اپنا پیٹ بھر سکے۔اس کی لمبی اور نوک دار چونچ مڑ جاتی ہے۔اور بڑھاپا نمودار ہونا شروع ہو جاتا ہے اس کے پربھاری ہو جاتے ہیں اور اس کے پنکھ جسم کو بھاری کر دیتے ہیں جس سے اس کو اڑنے میں دشواری پیش آتی ہے۔ اس کے بعد شاہین کے پاس دو راستے باقی رہ جاتے ہیں یا تو وہ مرنے کا انتظار کرے یا پھر اپنی زندگی میں تبدیلی لانے کے لئے ایک تکلیف دہ عمل سے گزرے اس عمل کے لئے شاہین کھردری چٹانوں والے علاقوں کا رخ کرتا ہے۔ان چٹانوں پہ اپنی چونچ اس وقت تک رگڑتا ہے جب تک وہ اکھڑ نہیں جاتی اور پھر وہ نئی چونچ کے آنے کا انتظار کرتا ہے۔(۱۱) اقبال مسلم نوجوان کو شاہین سے تعبیر کرکے اس کو اس کے اصل مقام و مرتبہ سے آگاہ کرتے ہیں۔ یا جا رہا ہے کہ اپنے کی جا رہی ہے۔ وہ  مسلم نوجوانوں  کو شاہین کی طرح سخت کوش زندگی اپنانے ،عیش پرستی سے گریز کرنےاور بلند تر مقام کی طرف اپنا سفر جاری رکھنے کی تلقین کرتے ہیں:
نہیں  تیرا نشیمن قصرِ سلطانی کے گنبد پر
تو شاہیں ہے بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں میں (۱۲)
حقیقت یہ ہے کہ اقبال کو نوجوانوں سے توقعات نسبتاً زیادہ تھیں۔ اگرچہ عمر کی پختگی   تدبر اور فراست عطا کرتی ہے لیکن سودوزیاں کا شعور پختگی فکر میں اتنا گہرا ہوتا ہے کہ اکثر جذبہ عمل اس پریشانی میں مردہ ہو جاتا ہے۔ اس کے بر عکس  جوانی اگرچہ تجربے اور تدبر سے کم و بیش تہی دست  ہوتی ہے لیکن ذوق عمل کی بے پناہ قوتیں اپنے اندر مخفی  رکھتی ہے۔  یہی خصوصیات اقبال اپنے شاہین میں دیکھتا ہے جو خوددارو غیرت مندہے ، اوروں کے ہاتھ کا مارا ہوا شکار نہیں کھاتا ، درویش  صفت اور بےتعلق ہے کہ آشیانہ نہیں بناتا جیسے جوان بوڑھوں کے مقابلے میں زندگی کے معاملات میں سود و زیاں سے زیادہ بے تعلق ہوتا ہے  اور کچھ کرنے کی صلاحیت و جذبہ رکھتا ہے۔
پہاڑوں کی بلندیاں  شاہین کی فطرت کے عین مطابق ہیں۔اس کا پہاڑوں پر بسیرا اس کی آزادی اور وسیع نظری کی علامت ہیں۔جب کہ کسی بادشاہ کے دربار کی چھت پر اس کا بسیرا کرنا غلامی کی علامت ہے۔
اقبال کی نظم و نثر میں حریت و آزادی کو بڑی اہمیت حاصل ہے اور یہ صفت بھی ان کو شاہین میں نظر آتی ہے۔ کیونکہ وہ ہمیشہ آزاد فضاؤں میں محو پرواز ہوتا ہے۔پرواز کی بلندی اور وسعت  کے باعث ، حیات کی ایک اور بڑی قدر شاہین میں پائی جاتی ہے وہ ہے آزادی۔ شاہین کی وسعت پرواز یا اس کی نشوونما محض آزادی کی حالت میں ممکن ہے۔ ورنہ غلامی میں شاہین کبوترسے بھی زیادہ بزدل بن جائیگاکیونکہ غلامی آنکھوں کو بصیرت سے محروم ،  افکار کو اندھا  اور جذبہ عمل کو منجمدکر دیتی ہے۔ اقبال ضربِ کلیم کی نظم 'مدرسہ' میں کہتے ہیں کہ اگرچہ مغربی نظامِ تعلیم عالمِ اسلام کے نوجوانوں میں غلامانہ سوچ کو پروان چڑھا رہا ہے ، تاہم دیدہ شاہیں   اس کو فطرت نے عطا کیا ہے:
فیض فطرت  نے  تجھے دیدہ شاہیں بخشا
جس میں رکھ دی ہے غلامی نے نگاہ خفاش (۱۳)
اقبال کہتے ہیں کہ اے مسلمان نوجوان،اللہ نے تجھے دیدہ شاہین عطا فرمایا تھا لیکن انگریزوں نےتجھے اپنا غلام بنا کر تیرے ساتھ یہ سلوک کیا کہ دیدہ شاہیں تو تجھ سے چھین لیا اور اس کی جگہ چمگادڑ کی آنکھیں تجھے دیں تا کہ تو آفتاب کی روشنی کو دیکھ ہی نہ سکے۔پس اے نوجواں تو سب کام چھوڑ کر انگریزوں سے مقابلہ کی قوت اپنے اندر پیدا کرتا کہ تو اپنی اصلی آنکھیں دشمن ملت کو دیکھا سکے۔
اے جان پدر نہیں ہے ممکن
شاہیں  سے تدرو  کی  غلامی (۱۴)
اس شعر میں علامہؒ اپنی بیٹے جاوید اقبال سے مخاطب ہو کر کہتے ہیں کہ شاہیں ایک آزاد عادات کا مالک ہے وہ کسی دوسرے کی غلامی کو پسند نہیں کرتا بلکہ ہمت اور بہادری سے آگے بڑھ کر اپنی منزل تک پہنچ جاتا ہے۔ اقبال یہ سمجھتے تھے کہ آزادی فکر  و عمل کے لیے آزاد فطرت افراد کی صحبت اہم ہے۔وگرنہ شاہین بھی اپنی آزادانہ سوچ کو فراموش کر دیتا ہے۔ اسی تناظر  میں  جب اقبال ہندوستان کے مسلمانوں کی غلامانہ ذہنیت کو دیکھتے ہیں تو بے ساختہ کہہ اُٹھتے ہیں:
وہ فریب خوردہ شاہیں کہ پلا ہو کرگسوں میں
اُسے  کیا  خبر  کہ کیا  ہے  رہ و رسمِ شاہبازی  (۱۵)
اقبال کا شاہین کم ہمت پرندوں کی صحبت سے پرہیز کر کے خلوت میں رہتا ہے۔کرگسوں کی صحبت میں پلا ہوا شاہین راہ رسم و شاہبازی سے بیگانہ ہوتا ہے۔ شاہین کی صحبت  زاغ میں تو بلند پروازی نہیں لاتی مگر شاہین کو خراب کر دیتی ہے ۔
ہوئی  نہ  زاغ  میں  پیدا  بلند پروازی
خراب کر گئی شاہیں بچے کو صحبتِ زاغ (۱۶)
اقبال کے نزدیک دانستہ  ضعیفی چاہے بدن کی ہو یا عزم و ہمت کی،  سب سے بڑ اجرم ہے اور اس کی سزا مرگ مفاجات ہے۔ بالِ جبریل میں وہ عربی زبان کے مشہو ر شاعر ابوالعلا معرّی کا ایک واقعہ بیان کرتے ہیں۔شاعر کے سامنے جب ایک بھونا ہوا تیتر لایا جاتا ہے تو وہ اُسے مخا طب کر کے کہتا  ہے:
افسوس،  صد افسوس  کہ   شاہیں   نہ   بنا  تو
سمجھے  نہ تری آنکھ نے فطرت کے اشارات
تقدیر کے قاضی کا یہ فتویٰ ہے  ازل  سے
ہے  جرم  ضعیفی  کی سزا مرگ مفاجات (۱۷)
یہاں شاہین کا استعارہ استعمال کرکے  علامہ  مسلمان نوجوان سے شکوہ کررہے ہیں کہ فطرت کے سارے کمالات واشارات دیکھنے کےلیےتو شاہین کی طرح نہ بن سکا اور وہ جوہر اور خوبیاں اپنے اندر نہ پیدا کر سکا جو ایک شاہین کے اندر ہوتی ہیں۔توُ بلند ہمتی،خودداری اور بلند پروازی جیسی تمام صفات سے عاری ہے۔فطرت کے سارے کمالات و اشارات دیکھنے کے باوجود اپنے اندر شاہیں کی طرح نہ بن سکا۔اور نہ ہی اس کی خوبیاں  اور جوہر اپنے اندر لا سکا۔
اقبال یہ سمجھتے تھے کہ شاہیں ایک ایسا پرندہ ہے جو کہ آزادی پسند ہے۔اور دوسرے چھوٹے پرندوں سے ممتاز ہے۔اس کی عادات میں بھوکا پن نہیں۔وہ ہمہ وقت بلند مقاصد کی انجام دہی میں سرگرم عمل رہتا ہے:
حمام و کبوتر کا بھوکا نہیں میں
کہ ہے زندگی باز کی زاہدانہ
جھپٹنا،پلٹنا پلٹ کر جھپٹنا
لہو گرم رکھنے کا ہے اک بہانہ(۱۸)
علامہؒ توقع  رکھتے تھے کی مسلمان اساتذہ طلبہ میں حقیقی  اسلامی روح کی ترویج کی کوشش کریں اور  ان میں اسلام کی سربلندی کی جدوجہد کا جذبہ پیدا کریں۔وہ ایسے اساتذہ سے گلہ کر رہے ہیں جو اپنے بچوں کو اسلامی تہذیب و تمدن کی تعلیم نہیں دیتے بلکہ ان میں غلامانہ سوچ کو فروغ دے  رہے ہیں۔
شکایت ہے مجھے یا رب  خداوندان مکتب سے
سبق شاہین بچوں کو دے رہے ہیں خاک بازی کا(۱۹)
اقبالؒ فرماتے ہیں کہ ہمارے اسلاف تو بغیر اسلحہ کے یا بہت کم سازوساماں کے باوجود بڑے بڑے کفار کے لشکر جرار سے نبرد آزما ہوتے تھے اور کامیاب و کامران ہو کر واپس ہوتے تھے۔جیسے ستارے شام کی سرخی اور دن کی قربانی کے بعد چمکتے ہوئے نمودار ہوتے ہیں۔اور آسماں دنیا پر سب کو اچھے لگتے ہیں۔مگر یہ معلوم ہونا چاہیے کہ ایسا   دن کی قربانی کے بعد ممکن ہوا ہے۔جس کی دلیل شام کی سرخی ہے۔قربانی کے بعد کامرانی نصیب ہوتی ہے۔
عقابی شان سے جھپٹے تھے جو،بے بال وپر نکلے    
ستارے شام کے خون شفق میں ڈوب کر نکلے(۲۰)
شاہین کی سخت کوشی کی صفت  اقبال کو بہت پسندہے۔ اور وہ اپنی قوم کے نوجوانوں میں سخت کوشی کی  خوبی کو دیکھنے کے خواہاں ہیں تا کہ وہ زندگی کی دشواریوں اور مشکلات کو خاطر میں لائے بغیر اپنے نصب العین تک پہنچنے کی کوشش کریں۔ ایک بوڑھا عقاب اپنے بچوں کو وہ نصیحت کرتا ہے جو اقبال اپنی قوم کے نوجوانوں کو کرنا چاہتے ہیں۔ علامہ ؒفرماتے ہیں کہ تجربہ کار اور جہاں دیدہ عقاب شاہیں  بچے سے کہہ رہا تھا کہ تیرے بڑے بڑے پروں سے بلند و بالا آسماں کی پرواز بڑی آسانی سے ہو سکتی ہے۔ جوانی تو اپنے ہی گرم لہو میں جلنے کا نام ہے۔ زندگی کی کامیابی و کامرانی سخت کوشی اور  جہد مسلسل میں مضمر ہے۔
بچہٍٍّ  شاہیں  سے  کہتا  تھا  عقاب  سالخورد
اے ترے شہپر پہ آساں رفعت چرخ بریں
ہے شباب  اپنے  لہو کی آگ میں جلنے کا نام
سخت کو شی   سے   ہے  تلخ  زندگانی  انگبیں
جو  کبوتر  پر جھپٹنے  میں  مزا ہے  اے پسر!
وہ مزا شاید کبوتر کے لہو میں بھی نہیں  (۲۱)
علامہ اقبالؒ فرماتے ہیں کہ شاہیں اس دنیا کی فضاؤں میں رہ کر اپنا رزق تلاش کرتا ہے۔اور اپنی بھوک پیاس بھی اس دنیا کی پستی سے بلند رہ کر ہی مٹاتا ہے۔ علامہ صاحب فرماتے ہیں کہ ایک مومن کو بھی چاہیے کہ وہ خود کو زمین کی پستیوں سے نکال کر بلندیوں کی طرف گامزن ہو۔اپنی سوچ بلند رکھے اور آسمان کی اونچائی کو دیکھ کر اپنی منزل کا تعین کرے۔
کیا میں نے اس خاک داں سے کنارا           
جہاں رزق کا نام ہے آب و دانہ (۲۲)
چونکہ شاہین دوسرے پرندوں کے مقابلے میں زیادہ توانا اور زیادہ طاقتور ہے اس لیے اقبال کو اس کی یہ صفت بہت پسند ہے۔  اقبال  قوتِ حیات کے قدر دان ہیں۔ لیکن انہیں اس کا شدید احساس ہے کہ قوت کو حق بجانب ٹھہرانے کے لیے اخلاقی نظم و ضبط کا پابند کرنا ہوگا۔ جاوید نامہ میں  کہتے ہیں کہ ایک مرد مسلماں کو اپنی نگاہ بلندیوں کی طرف رکھنی چاہیے اس کے عزائم بلند اور ارادے پختہ ہونے چاہیں۔جس طرح شاہیں اپنی پرواز سے نہ گھبراتا ہے اور نہ ہی کبھی تھکتا ہے اسی طرح ایک مرد مسلماں کو بھی ہمت و بہادری سے کام لینا چاہیے۔
تو شاہیں ہے، پرواز ہے کام تیرا
تیرے سامنے آسماں اور بھی ہیں
اسی روز و شب میں الجھ کر نہ رہ جا         
کہ تیرے زمان و مکاں اور بھی ہیں  (۲۳)
علامہؒ مرد مسلماں سے یہ کہہ رہے ہیں کہ وہ ہر وقت سوچ میں ہی نہ ڈوبا رہے بلکہ اپنی سوچ و فکر کو مضبوط بنائے اور آگے بڑھے۔کیونکہ اس کے مقاصد بہت ہیں اور منزلیں بھی بہت ہیں جو اس نے طے کرنی ہیں۔  علامہؒ فرماتے ہیں کہ شاہیں کی طرح اس قدر بلند پرواز ہو جاؤ کہ اپنے مقصد کو آسماں کی رفعتوں سے پا لو۔
اقبال کی شاعری سے جہد و عمل، ایقان و عرفان اور خودی جیسے لاتعداد اسباق اخذ کئے جا سکتے ہیں، یہی اسباق اقبال کی شاعری کو کسی ایک زمانے تک محدود نہیں ہونے دیتے بلکہ اسے ہر دور کی شاعری بناتے ہیں، جن پر عمل کر کے آج کا مسلمان نہ صرف دین و دنیا سنوار سکتا ہے بلکہ ملک و قوم کی ترقی اور مسلم امت کی شیرازہ بندی کے لئے بھی گراں قدر خدمات انجام دے سکتا ہے ۔ شاید یہی وجہ ہے کہ علامہ اقبال اپنی شاعری میں بھی نہایت دردمندی سے دعا کرتے نظر آتے ہیں کہ ان کا پیغام عام ہو جائے اور جوانوں کو اس پیغام پر عمل کی توفیق بھی بارگاہِ الٰہی سے عنایت ہو۔
میانِ شاخساراں صحبت ِمرغِ چمن کب تک!
تیرے بازو میں ہے پروازِ شاہینِ کہستانی (۲۴)
علامہ صاحؒب فرماتے ہیں کہ شاہین کی صفات جب نوجوانوں میں پیدا ہو جائیں تو وہ بلندیوں او رفعتوں تک پہنچ جائیں،  اپنے مقاصد کو حاصل کر لیں اور ہر مصیبت کا ڈٹ کر مقابلہ کر سکیں۔ اسی طرح زبورِ عجم میں کہتے ہیں:
گرچہ شاہیں خردبر سر پروازے ہست
اندریں بادیہ پنہاں قدر اندازے ہست(۲۵)
اقبال ؒ فرماتے ہیں  کہ عقل کا شاہیں پرواز کے لیے تیار ہے مگر اس بیا باں میں تیز پرواز  ی بھی عقل کے شکار کے لیے پوشیدہ ہے۔مزید ایک جگہ فرماتے ہیں کہ:
بجلال تو کہ دردل دگر آرزو ندارم
بجز ایں دعا کہ بخشی بکبوتراں عقابی (۲۶)
علامہ اقبال کی شاعری اقوام مسلم کے لیے بالعموم اور مسلمانان ہند کے لیے بالخصوص ایک صور اسرافیل کا درجہ رکھتی ہے۔ اقبال کے تصور شاہین میں ان تمام صفات کا ذکر ملتا ہے جو کہ مرد مومن یا مردِ درویش میں پائی جاتی ہیں۔ اقبال کی دوربین نظروں نے دیکھ لیا تھا کہ جو انقلاب مغرب سے اٹھ کر مشرق کی طرف امڈ رہے تھے ان میں بُلبل نفس قومیں زندہ نہیں رہ سکتیں صرف شاہین صفت بلند بال پرندے ہی ان انقلابوں سے بچ نکلیں گے۔ اس لیے  علامہ صاحب نو جوانوں مخاطب ہیں کہ وہ اپنے اندر عقاب جیسی ہمت پیدا کریں۔اپنے اندر دوسروں کا  خوف نہ رکھیں۔بلکہ اپنی بلند منزل کا تعین کر کے اس کی طرف گامزن رہیں۔علامہ اقبالؒ اپنے  اس شعر میں اپنے رب سے دعا کر رہے ہیں کہ : تیرے جلال کی قسم ہے کہ میرے دل میں کوئی اور آرزو نہیں کہ،سوائے اس کے کہ کبوتروں  یعنی دورِحاضر کے مسلمان نوجوانوں کو عقابی شان عطا فرما دے۔
اقبال سمجھتے تھے کہ اپنی روایات کے تحفظ اور غلط روایات کو حقارت سے ٹھکرانے کا جذبہ اس وقت تک پیدا نہیں ہو سکتا جب تک نوجوان کی خودی صورت فولاد نہ ہو جائے۔خودی خود کو پہچاننے کا نام ہے اور جب انسان خود سے واقف ہوتا ہے تو معرفت الٰہی کے دروازے اس پر کھل جاتے ہیں۔تو وہ پھر صحرا ذرہ بن جاتا ہے،قظرہ ہو تو دریا بن جاتا ہے،کرن ہو تو آفتاب کی تابش کو سمیٹ لیتا ہے۔پھر وہ موجوں کی طرح گیت نہیں گاتا بلکہ طوفاں کی طرح  ہنگامہ برپا کر دیتا ہے۔خودی اور خود شناسی ہی تو ہے جس سے قطرہ خود کو سمندر میں گم نہیں کرتا بلکہ صدف میں داخل ہو کر سمندروں کی تہہ میں پہنچ کر موتی بن جاتا ہے۔
اقبال شاہین کے استعارے کے ذریعے مسلم نوجوانوں میں اسلامی فقر ، خوداری اور غیرت مندی کے  معنی ذہن نشین کرانا چاہتے ہیں۔ وہ سمجھتے تھے کہ عزت اور سربلندی کے ساتھ جینے کے لیے شاہین کی صفّات پیدا کرنا ضروری ہیں:
بر ہنہ سر ہے تو عزمِ بلند پیدا کر
یہاں فقط سرِ شاہین کے واسطے ہے کلاہ (۲۷)
علامہ صاحبؒ ایک مسلماں نوجوان کو شاہیں سے تعبیر کرتے ہوئے اس کو اس کا اصل مقام و مرتبہ بتانا  چاہ رہے ہیں کہ وہ زمین کی پستیوں سےباہر نکلے، ملک و ملت کی ترقی میں ہر وقت کوشاں رہے، اپنے حقوق و فرائض کو سمجھے اور انھیں پورا کرے۔اقبال  اپنی شاعری کے ذریعے سے اس ملک کی نوجواں نسل کو سبق دے رہے ہیں کہ وہ ہمت و طاقت سے کام لے،اپنے مقاصد کو سمجھے اور انھیں پورا کرے۔کسی بھی مشکل کے آگے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن جائے اور مصائب کا ڈٹ کر مقابلہ  کرے،اپنے آپ کو پستیوں میں سے نکال کر بلندیوں کی طرف محو پرواز ہو اور اپنی منزل آسماں کی بلندیوں کو رکھے۔


 

حوالہ جات

۱۔          محمد اقبال، علامہ۔  کلّیاتِ اقبال، لاہور: اقبال اکادمی پاکستان، ۲۰۰۴، ص ۴۱۱
۲۔       خلیفہ عبد الحکیم،  ڈاکٹر ۔ فکر اقبال ، لاہور: بزم اقبال ، ۱۹۵۸
۳۔         وحید عشرت۔ اقبالیات کے سو سال،لاہور: اقبال اکادمی،۱۹۸۹،ص ۹
۴۔       https://www.youtube.com/watch?v=8IKGdumSsV4, Accessed on December 19, 2017 .
۵۔         کلّیاتِ اقبال،  ص ۴۹۵
۶۔          کلّیاتِ اقبال(بالِ جبریل)،  ص ۳۵۳
۷۔         کلّیاتِ اقبال(بالِ جبریل)،  ص ۴۴۷
۸۔         کلّیاتِ اقبال(ضربِ کلیم)،  ص ۵۸۶
۹۔          کلّیاتِ اقبال(بانگِ درا)،  ص ۲۹۹
۱۰۔        کلّیاتِ اقبال(بالِ جبریل)،  ص ۷۷
۱۱۔       https://www.youtube.com/watch?v=Yh64CVM6cuk ,Accessed on December 21, 2017 .
۱۲۔        کلّیاتِ اقبال(بالِ جبریل)،  ص ۴۴۸
۱۳۔        کلّیاتِ اقبال(ضربِ کلیم )،  ص ۵۹۶
۱۴۔        خواجہ عبدالحمید عرفانی،  ضربِ کلیم و شرح احوالِ اقبال، لاہور: اقبال  اکادمی،  ص ۸۳
۱۵۔        کلّیاتِ اقبال (بالِ جبریل)،  ص ۳۵۵
۱۶۔         کلّیاتِ اقبال (بالِ جبریل)،  ص ۴۴۳
۱۷۔        کلّیاتِ اقبال(بالِ جبریل)،  ص ۴۸۷
۱۸۔        کلّیاتِ اقبال(بالِ جبریل)،  ص ۴۹۵
۱۹۔         بختیار حسین صدیقی،اقبالیات جلد ۵۴ ،لاہور:اقبال اکادمی پاکستان،ص ۷۳
۲۰۔        کلّیاتِ اقبال(بانگِ درا) ،ص ۳۰۲
۲۱۔        کلّیاتِ اقبال(بالِ جبریل)،  ص۴۴۸
۲۲۔        کلّیاتِ اقبال(بالِ جبریل)،  ص ۴۹۵
۲۳۔        علامہ  محمد اقبالؒ،جادید نامہ،مکتبہ دانیال،ص ۸
۲۴۔         کلّیاتِ اقبال(بانگِ درا) ،ص ۳۰۰
۲۵۔        علامہ محمد اقبالؒ،،زبور عجم، کراچی : مکتبہ فریدی ،۱۹۲۷،ص ۲۰
۲۶۔        علامہ محمد اقبالؒ،،زبور عجم، کراچی : مکتبہ فریدی ،۱۹۲۷،ص ۵۶
۲۷۔       کلّیاتِ اقبال(بالِ جبریل)،  ص ۳۷۸

اوپر جائیں  |   پرنٹ کیجئےِ
انگریزی ورژن ای میل چیک کریں مرکزی صحفہ پرنٹ پسندیدہ سائٹ بنائیں رابطہ کیجئے www.shahzadahmad.com www.shahzadahmad.com