پاکستان میں اردو کا صحافتی و ابلاغیاتی سفر(بلحاظ کتب)

عرفان طارق۔ یم فل سکالر، شعبہ اردو، نیشنل یونیورسٹی آف ماڈرن لینگویجز، اسلام آباد۔

ڈاکٹر نعیم مظہر۔ ایسوسی ایٹ پروفیسر، شعبہ اردو، نیشنل یونیورسٹی آف ماڈرن لینگویجز، اسلام آباد۔

ABSTRACT
This review article attempts to scan the trends, developments and major events in development of Urdu journalism and source material that shaped the Urdu journalism. To achieve this end, individual efforts by prominent journalist, prominent books, and intervention of technology in each major era is analyzed. The review covers more than two hundred years of span, and it is observed that Urdu journalism started with mere reporting and chained in self-censorship is now thriving and covers almost all aspects of human activity. Besides, technological development enabled in early 80’s to process Urdu mechanically and in Nastaliq type face. This resulted in major uplift in esthetics, low-costproduction and speed of work. In present age, due to information technology and electronic media, Urdu journalism is thriving and in need of more effort at capacity building and regulatory compliance.
 
Key Words: Urdu Journalism; Capacity Building in Media; Urdu Media
 

انسانی زندگی میں خبر کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں ہے۔انسان اور حیوان کی اِس کے بغیر بقا و ارتقاء بہت مشکل ہے۔جانوروں کا اپنی باخبری اور حفاظت کے لیے خطرے کے لیے سونگھنا”خبر” ہی تو ہے۔ سماجی حیوان ہونے کے ناطے انسان کا اوّلین فرض اپنی جان و مال کی حفاظت بھی ہے۔اسی مقصد کے لیے وہ ہمیشہ اپنوں اور بیگانوں کے حالات سے باخبر رہنے کی کوشش اور جستجو میں لگا رہتا ہے۔تجسس کا مادہ بھی انسانی فطرت میں شامل ہے۔اسی تجسس کے باعث آدم و خلد کا واقعہ پیش آیا اور آہستہ آہستہ یہی چیز انسانی ترقی اور صحافت کی بنیاد بنی۔یہ چیز انسانی فطرت میں شامل ہے کہ جو کچھ وہ سوچتا ہے اور محسوس کرتا ہے اس میں دوسرے ہم جنسوں کو بھی شریک کرنے کی کوشش کرتا ہے ۔انسان کی اسی فطری خواہش نے “صحافت” کو جنم دیا۔ اسی فطری خواہش نے حکمرانوں کو بھی مجبور کیا کہ وہ حالات سے باخبر رہیں۔اِس مقصد کے لیے سُفرا،ہرکارے،گشتی تاجر،سفری درویش،سیاح،وقائع نگار،اخبار نویس،جاسوس، کبوتر،گھوڑے،اور تیز رفتار جہاز اپنے اپنے وقت اور حالات کے مطابق استعمال ہوتے رہے ہیں ۔لیکن کاغذکی ایجاد کے بعد اس کی نوعیت میں تبدیلی واقع ہوئی جو کہ طباعت کے عمل سے گزرتی ہوئی ٹائپنگ مشین تک جا پہنچی۔ کمپیوٹر ،انٹرنیٹ کی ایجاد سے دنیا گلوبل ویلج میں تبدیل ہوئی تو خبر سے صحافت کا سفر جرنلزم ،میڈیا سے ہوتا ہوا سوشل میڈیا اور ٹچ سکرین تک جا پہنچا۔علاقائی ،ملکی و غیر ملکی پل پل بدلتے ہوئے نئے نئے حالات سے جلد از جلد آگاہی کی انسانی خواہش اور تڑپ نے صحافت کے ارتقائی سفر کو آسان ،خوشگوار اور نتیجہ خیز بنانے میں ہر ممکن مدد فراہم کی۔ صحافت عربی زبان کے لفظ صحف سے ماخوذ ہے جس کے لغوی معنی کتاب،رسالے یا صفحے کے ہیں۔زمانہ قدیم میں صحف یعنی صحیفہ اور صحائف کی اصطلاحیں مقدس تحریروں کے لیے مخصوص تھیں۔قرآن مجیدمیں لفظ صحیفہ آٹھ مقامات پر آیا ہے ۔فرہنگ آصفیہ میں لفظ صحیفہ کے معنی یوں درج ہیں ۔
“ صحیفہ ۔ (ع) اسم مذکر۔کتاب ،رسالہ،پتر،ورق۔لکھا ہواصفحہ،نامہ،مصحف۔” (1)
فن صحافت کی ایک عمدہ کتاب “ایکسپلورنگ جرنلزم”کے امریکی مصنفین رولینڈ ای Roland E اولزلے Wolsely کیمپ بیلCampbel اور لارنس آرLaurnce R نے صحافت کی تعریف ان الفاظ میں کی ہے۔
“ صحافت جدید وسائل و ابلاغ کے ذریعہ عوامی معلومات ،رائے عامہ اور عوامی تفریحات کی باضابطہ اور مستند اشاعت کا فریضہ ادا کرتی ہے ۔

Journalism is the systematic and reliable dissemination of public information, public opinion and public entertainment by modern mass media of Communication."(2)

موجودہ زمانے میں صحافت کی اصطلاح وسیع تر مفہوم میں استعمال کی جاتی ہے۔وہ تمام اجزاء اس میں شامل ہیں جن کی وساطت سے خبریں ،تبصرے اور تجزیے عوام تک پہنچتے ہیں یادنیا میں وقوع پذیر ہونے والے ایسے تمام واقعات جو عوامی دلچسپی کے حامل ہوں یا ایسی سرگرمیاں جو انسانی سوچ اور نفسیا ت پر اثرانداز ہونے کی صلاحیت رکھتی ہوں صحافت کے زمرے میں آتی ہیں۔ملکی سطح پر پاکستان میں جرنلزم کی تعلیم کا آغاز ۱۹۶۰ء میں ہوا۔پنجاب یونیورسٹی میں بی اے اور ایم اے جرنلزم میں جو کتابیں پڑھائی جاتی تھیں وہ تمام غیر ملکی اور انگریزی زبان میں تھیں۔جو اُن ممالک کے معاشرے اور حالات کو مدّنظر رکھ کر لکھی گئی تھیں۔اِن کتابوں کے اردو ترجمے ہوئے اور صحافت کو بی اے کے اختیاری مضمون کے طور پر متعارف کروایا گیا ۔پھر ایم اے جرنلزم ہونے لگا۔رفتہ رفتہ جرنلزم کے موضوع پر مقالے،کتابچے،رسالے،مضامین اور کتابیں لکھی جانے لگیں۔یہ سلسلہ ابھی تک جاری ہے۔ساٹھ کی دہائی کے اواخر میں ۱۹۷۰ء کو پنجاب یونیورسٹی شعبہ صحافت کے لیکچرر مسکین علی حجازی کی کتاب “اداریہ نویسی” کو مرکزی اردو بورڈ لاہور نے شائع کیا۔حصّہ اوّل اور حصّہ دوم میں منقسم یہ کتاب حصّہ اوّل کے پانچ اور حصّہ دوم کے تین ابواب پر مشتمل ہے۔ باب اول میں اداریہ،ادارتی صفحہ کی تعریف ،افتتاحیہ اور ادارتی صفحے کا مقصد اور اہمیت بیان کی گئی ہے۔دوسرے باب میں اداریہ نویسی کے جدید رجحانات ،قدیم و جدید اداریے کا فرق ،جدید رجحانات ،اداریوں کے نقائص کے ساتھ ساتھ اداریوں کی اہمیت میں کمی کے اسباب بھی بتائے گئے ہیں ۔تیسرا باب اداریہ نویسی کے ضروری اوصاف ،مواد کے ماخذ،ادارتی تحریر کے اصول اور بہترین اداریے کی خصوصیات جبکہ چوتھا باب اداریہ کی اقسام بلحاظ موضوع مثلاً خبروں پر مبنی اداریے،خصوصی اداریے،مقامی اداریے،علاقائی ،قومی،بین الاقوامی ،قارئین کی دلچسپی کے حامل اداریے اور بلحاظ اسلوب مثلاًجذباتی ،منطقی اور استدلالی وغیرہ پر مشتمل ہے۔پانچویں باب میں اداریے کی ہیئت ،عنوان،حقائق کا اختصار کے ساتھ بیان ،وضاحت ،فیصلہ،رائے،تجزیہ اور تبصرہ،دلائل ،نتیجہ اور فیصلہ وغیرہ پر بحث کی گئی ہے۔حصّہ دوم کا باب اوّل اُردو اداریہ کا ارتقاء ، مختلف ادوار مثلاً پہلا ،ابتدائی ،دوسرا اور تیسرا دور سے متعلق ہے۔روزانہ اخبارات کے اداریے نیز قیام پاکستان کے بعد کے اداریے پر روشنی ڈالی گئی ہے۔باب دوم اردو کے نامور اور معروف اداریہ نویسوں سے متعلق ہے جن میں سر سید احمد خان ، ظفر علی خان ،مولانا محمد علی جوہر،مولانا ابوالکلام آزاد ، مولانا غلام رسول مہر اور حمید نظامی شامل ہیں۔باب سوم اداریہ نویسی کے اسالیب کے ضمن میں بنیادی نثری اسالیب،دلّی، آگرہ ،لکھنو،مدراس ،پنجاب اور بنارس کے اخبارات کے اسالیب کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ فاضل مصنف اپنی کتاب کے بارے میں پیش لفظ میں یوں رقم طراز ہیں۔
“ پاکستان میں اردو صحافت کی ہمہ گیری ، صحافت کی موجودہ مختلف النوع ضرورتوں کی ترقی ،حصول پاکستان کی جدوجہد میں اردو کے نامور اداریہ نویسوں اور صحافیوں کے کردار ،ملک کی بعض یونیورسٹیوں میں صحافت کی تعلیم و تربیت کے اہتمام اور صحافت کی طر ف بہت سے نوجوانوں کے متوجہ ہونے کاتقاضا ہے کہ اردو میں اداریہ نویسی کے فن پر بھی معلومات مہیاکی جائیں نیز نئی نسل سے تعلق رکھنے والے اخبار نویسوں کو بتایا جائے کہ ماضی میں ہمارے نامور صحافیوں نے اداریہ نویسی میں کیا کار ہائے نمایاں انجام دئیے ہیں۔اور اردو اداریہ کن ارتقائی مراحل سے گزر کر موجودہ صورت حال تک پہنچا ہے۔”اداریہ نویسی” اسی ضرورت کو پورا کرنے کی ایک کوشش ہے۔یہ کتاب بنیادی طور پر طالب علموں اور نو آموز صحافیوں کے لیے لکھی گئی ہے لیکن میں اسے اربابِ نظر اور تجربہ کار اداریہ نویسوں کی خدمت میں اس توقع کے ساتھ پیش کرتا ہوں کہ وہ اس سلسلہ کو آگے بڑھائیں۔”(3)
مسکین علی حجازی کی کتاب صحافتی زبان  ۱۹۷۵ء میں شائع ہوئی۔۱۷۴ صفحات پر مشتمل اس کتاب کو مشہور ادیب اور محقق ڈاکٹر وحید قریشی نے پیش لفظ میں صحافتی زبان پر اوّلین کوشش قرار دیا ہے۔اس سے پہلے صحافت کی تاریخ پر تو کتب دستیاب تھیں مگر فاضل مصنف نے بطورِ فن صحافتی زبان پر قلم اٹھایا ہے۔مصنف نے صحافت اور ادب میں فرق بیان کرتے ہوئے صحافتی زبان ، صحافت اردو کا ارتقاء، ترجمہ ،ترجمہ کے اصول،مترجم کے اوصاف،ا صطلاحات کے ساتھ ساتھ محاورات ،مخصوص الفاظ کا استعمال ،سابقہ ،لاحقہ،زائد الفاظ،خاص ا صطلاحات اور تراجم ،املاء،تفہیم و اختصار ،مترادفات اور رموز و اوقاف کے استعمال کے طریقہ کو احاطہ تحریر میں لایا ہے۔اسی طرح صحافت کی جدید صورتیں اور زبان ، صحافتی زبان میں کن باتوں کا خیال رکھنا چاہیے ، حشو و زوائد،طول کلام ،پیچیدہ اور طویل جملے ،ادق اور غیر مانوس الفاظ ، مفہوم کی ادائیگی میں رکاوٹ ڈالنے والے الفاظ (تعقیدہ،عقدہ،گرہ پڑنا) تعقیدہ لفظی و معنوی کے ساتھ ساتھ تکرار و اعادہ اور مشکل و پیچیدہ تراکیب کے استعمال سے گریز کی تاکید کی ہے۔الغرض صحافتی زبان کے حوالے سے بہت سی مشکل باتوں کو آسان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے۔ستر کی دہائی میں ہی ڈاکٹر عبدالسلام خورشید کی ۳۴ ابواب اور ۳۵۲ صفحات پر مشتمل ضخیم کتاب فن صحافت منظرِعام پر آئی۔کتاب کی اہمیت اور طلب کے پیش نظر ۱۹۷۹ ء میں اس کی اشاعت دوم عمل میں آئی۔کتاب کے ابواب کو مختلف عنوانات صحافت کیا ہے ؟ انٹرویو کا فن ،اداریہ نگاری،کالم نویسی،تبصرہ نگاری،حوالے کی لائبریری ،تصویری صحافت،مجلاتی صحافت،خواتین میدانِ صحافت میں اور بچوں کے لیے اخبارات کے صفحات میں تقسیم کیا گیا ہے۔اسی طرح کئی دوسرے ابواب میں آدابِ صحافت ،آزادی صحافت، قوانینِ صحافت ، اشتہارات ، اخبارات کی طباعت ،ریڈیائی صحافت ،ٹیلی ویژن صحافت اور تعلقات عامہ پر روشنی ڈالی گئی ہے۔فاضل مصنف خبر کسے کہتے ہیں ؟ کے ضمن میں بہت سی تفاصیل کے ذکر اور بحث کے بعد تحریر کرتے ہیں ۔
“۱:خبر ہر اس چیز کو کہتے ہیں جس کے بارے میں قارئین کچھ جاننے کے خواہشمند ہوں۔۲: جس چیز کو بھی لوگ پڑھنا چاہتے ہیں وہ خبر ہے بشرطیکہ اس سے خوش ذوقی اور ہتک عزت کے قانون کی خلاف ورزی نہ ہو۔۳:ہر وہ چیز جس کے بارے میں لوگ باتیں کرتے ہیں وہ خبر ہے اور جتنی زیادہ بحث ہو اُتنی ہی زیادہ اُس خبرکی اہمیت ہوگی ۔ واقعات ،ایجادات ،اختراعات اور آراء کے بارے میں صحیح اور عین وقت پر دی ہوئی معلومات خبر کی حیثیت رکھتی ہیں۔واقعات ،اُن کے اسباب اور اُن کے نتائج خبر کا موضوع بنتے ہیں۔عمومی انسانی دلچسپی کی حامل تمام حالیہ سرگرمیاں خبر کا درجہ رکھتی ہیں اور بہتریں خبر وہ ہے جس میں قارئین کی اکثریت دلچسپی لیتی ہے۔جس خبر سے چند لوگوں کو دلچسپی ہو وہ خبر ہے اور بہترین خبر وہ ہے جس میں زیادہ سے زیادہ افراد ،زیادہ سے زیادہ دلچسپی لیتے ہیں۔”(4)
۱۹۸۰ء میں فن خبر نویسی (رپورٹنگ) کے نام سے اے آر خالد کی کتاب شائع ہوئی۔جو کہ ۱۴ ابواب اور ۱۴۴ صفحات پر مشتمل تھی۔اے آر خالد پنجاب یونیورسٹی میں شعبہ صحافت کے اسٹنٹ پروفیسر ہیں۔ پہلے ابواب میں خبر کیا ہے ؟ خبر کے لوازم، خبر کیسے لکھی جائے ؟ خبری فیچر اور خبروں کے حصول کے ذرائع پر سیر حاصل بحث کی گئی ہے۔رپورٹنگ کے حوالے سے مختلف اقسام مثلاََجرائم کی خبریں،عدالتی رپورٹنگ ،کھیلوں کی خبر یں ،حادثات کی خبریں ،تقاریر ،جلسے ،جلوس کی رپورٹنگ ،سیاسی رپورٹنگ اور پارلیمانی رپورٹنگ پر مکمل رہنمائی فراہم کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ایک مکمل باب انٹرویو کے فن کے بارے میں لکھا گیا ہے ۔ ۱۹۸۳ء میں شفیق جالندھری کی کتاب فیچر نگاری کے نام سے شائع ہوئی۔۵۰۰ صفحات پر مشتمل اس کتاب کو حصّہ اوّل اور حصّہ دوم میں تقسیم کیا گیا ہے۔ حصّہ اوّل میں تعارف،فیچر کیا ہے ؟ اہمیت ،دوسری تحریروں سے فرق کے ساتھ ساتھ فیچر کی اقسام، فیچر نگار کے اوصاف،موضوع کا انتخاب ،مواد کا حصول،تصاویر،خاکوں اور نقشوں کے انتخاب کا جائزہ لیا گیا ہے۔حصّہ دوم میں اردو فیچر نگاری کا جائزہ لیاگیاہے۔ابوالکلام کے جرائد،نیرنگ خیال کے ساتھ ساتھ قیام پاکستان کے بعد لیل و نہار ،ریڈیو فیچر،کوہستان،قندیل،امروز،ندائے ملّت،نوائے وقت اور جنگ اخبارِجہاں کا جائزہ پیش کیا گیا ہے۔ دوسری تحریروں سے فرق بیان کرتے ہوئے خبر اور فیچر،کالم اور فیچر،کوہستان،قندیل،امروز،ندائے ملّت،نوائے وقت اور جنگ اخبارِجہاں کا جائزہ پیش کیا گیا ہے۔ دوسری تحریروں سے فرق بیان کرتے ہوئے خبر اور فیچر،کالم اور فیچر،مضمون اور فیچر ،اداریہ اور فیچر ،افسانہ اور فیچر اور رپورتاژ و فیچر میں فرق واضح کیا گیا ہے۔ فیچر کیا ہے ؟ کے ذیل میں فاضل مصنف رقمطراز ہیں:
“فیچر انگریزی صحافت سے اردو میں آیا ۔ لفظ فیچر کے لُغوی معنی ہیں صورت،شکل،ہیئت ،وضع قطع، خدوخال،چہرہ مہرہ،اور خصوصیت ۔دنیائے صحافت میں فیچر کا لفظ ایسی تحریروں کے لیے مستعمل ہے جو اخبارات کی عام بے رنگ اور پھیکی تحریروں کے بر عکس ڈرامائی اور افسانوی انداز میں لکھی جائیں۔جن میں قارئین کی دلچسپی کو فوقیت دی جائے۔تمام حقائق اور مواد ہلکے پھلکے پیرائے میں پیش کیا جائے۔تحریر خشک اور بوجھل نہ ہونے پائے۔خبر،مضمون اور اداریے کے بر عکس فیچر کی تحریر میں ادبی چاشنی اور شگفتگی کے ذریعے دلچسپی اور کشش و گیرائی پیدا کی جاتی ہے۔اور زیادہ سے زیادہ تصاویر کے ذریعے تمام مواد کی تزئین و آرائش کا اہتمام کیا جاتا ہے۔”(5)
۱۹۸۵ء میں مولانا ظفر علی خان بحیثیت صحافی کے نام سے ڈاکٹر حسنین زیدی کی ۲۵۶ صفحات پر مشتمل کتاب شائع ہوئی۔انھوں نے برصغیر کی ابتدائی صحافت،اردو صحافت اور ۱۸۵۷ء کے بعد برصغیر کی صحافتی صورتحال کا جائزہ لیا ہے۔انھوں نے اخبار سائنٹفک سوسائٹی علی گڑھ ۱۸۶۳ء اخبار انجمن پنجاب لاہور ۱۸۶۳ء مرقع تہذیب لکھنو ۱۸۷۳ء ریاض الاخبار سیتا پور ۱۸۷۴ء اور اودھ پنچ لکھنو ۱۸۷۵ء کے ساتھ ساتھ ہفتہ وار اخبارات مہذب لکھنو،رفیقِ ہند،پیسہ اخبار اور وکیل امرتسر کا تذکرہ کیا ہے۔بتایا گیا ہے کہ ہفتہ وار ’زمیندار‘ مولانا ظفر علی خان کے والد مولوی سراج الدین نے ۱۹۰۳ء کو جاری کیا ۔ مولوی صاحب کے انتقال کے بعد ۹ نومبر ۱۹۰۹ء کو ظفر علی خان نے ادارت سنبھالی اور جب تک زندہ رہے ،تکالیف،مالی نقصان اور مصیبتوں کے باوجود شائع کرتے رہے۔۱۵ اکتوبر ۱۹۱۱ء کو یہ روزنامہ کر دیا گیا ۔جنوری ۱۹۵۳ء میں اپنی خدمات سے متعلق مضامین پر مبنی دیدہ زیب اور با تصویر گولڈن جوبلی نمبر شائع کیا۔مصنف نے اداریے ،اہم مضامین کے ساتھ ساتھ منظومات ،تبصرے اور علمی مضامین کی تفصیلات اور مندرجات بھی پیش کیے ہیں۔ظفر علی خان اکابر و معاصرین کی نظر میں، عنوان کے تحت علامہ اقبال،علامہ سید سلیمان ندوی،مولانا غلام رسول مہر،عبدالمجید سالک،آل احمد سرور،مولانا الطاف حسین حالی ،حکیم احمد شجاع ،ڈاکٹر سید عبداللہ اور مولانا شبلی کی رائے شامل ہے۔۱۹۸۷ء میں راحت سہیل کی تصنیف ’اردو اداریہ کا ارتقاء‘ کے نام سے سامنے آئی۔۳۰۸ صفحات پر مشتمل اس کتاب کے ابتدائی ابواب اداریہ کیا ہے ؟ سیاسی و سماجی پسِ منظر اور اردو صحافت کے ارتقاء سے متعلق ہیں۔پھر انھوں نے اردو کی ترویج میں فورٹ ولیم کالج کی خدمات کا ذکر کیا ہے اور پہلے دور کے اداریے کے نمایاں نقوش کے ساتھ ساتھ اداریے کے دوسرے ،تیسرے اور چوتھے ادوار کا جائزہ لیا ہے۔مشہور اخبارات اور معروف صحافیوں کے ذیل میں مولانا ابوالکلام اور الہلال کے اداریے، مولانا ظفر علی خان اور زمیندار کے اداریے، مولانا محمد علی جوہراور ہمدرد و خلافت کے اداریے، مولانا غلام رسول مہر اور انقلاب کے اداریے اور حمید نظامی و نوائے وقت کے اداریے کاتجزیہ پیش کیا ہے۔اس طرح جدید دور کے اداریے اور نمایاں نقوش کے بارے میں بتایا ہے۔۱۹۸۸ء میں ہی ایم ایس ناز کی کتاب اخبار نویسی کی مختصر ترین تاریخ (۵۷۱ ق م تا ۱۹۴۷ء تک) شائع ہوئی۔اپنے نام مختصر ترین کے بر عکس ۲۲ ابواب اور ۳۲۸ صفحات کی حامل ایک ضخیم کتاب ہے ۔اِس کتاب میں تاریخ صحافت کے گمشدہ اوراق کو سامنے لایا گیا ہے۔اخبار نویسی اسلام سے پہلے اور بعد میں ،سلاطین ہند اور قلمی روزنامچے ،فنِ طباعت کا ارتقا ، مطبوعہ اخبارات کا دور اور صحافت عہد بہ عہد کا تفصیلی جائزہ لیا گیا ہے۔صحافت کے حوالے سے مختلف علاقوں ،شہروں اور علاقائی زبانوں کے اخبارات گجراتی،مرہٹی،پنجابی کا ذکر کیاگیا ہے۔باب ۹ ۔انگریزی اخبار نویسی باب ۱۰۔فارسی کے مشہو ر اخبارات باب ۱۱۔ اردو اخبارات باب ۱۲۔ آگرہ ،مدراس اور لکھنو کی صحافت باب۱۴  جنگ آزادی اور ہندو مسلم اخبارات ،سنسرشپ (قانونِ زبان بندی) ، انگریزی اخبارات کی مسلم دشمنی اور پریس ایکٹ باب ۱۵۔ مزاحیہ اخبار نویسی باب ۱۶۔ صحافت ۱۸۵۷ء کے بعد اور باب ۱۷۔ انیسویں صدی کے اہم اخبارات سے متعلق ہے۔باب ۱۸۔ روزناموں کے دور سے متعلق ہے۔اِنھوں نے اردو گائیڈ کو پہلا روزنامہ قرار دیا ہے ۔لکھتے ہیں :
“۱۸۵۷ء تک برصغیر کی صحافت ماہوار رسائل،پندرہ روزہ اور ہفت روزہ اخبارات تک محدود رہی۔بیشتر اخبارات و رسایل ہفت روزہ تھے۔اور اُن سے کچھ کم سہ روزہ یا وہ جو ہفتے میں تین بار شائع ہوتے تھے۔پھر ۱۸۷۴ء میں اودھ اخبار کا اجراء ہوا۔اُسے پسندیدہ نظروں سے دیکھا گیا ۔بعض محققین اسے اردو کا پہلا روزنامہ گردانتے ہیں مگر یہ درست نہیں ۔ یہ شرف در حقیقت کلکتہ کے اردو گائیڈ کو حاصل ہے ۔جس کے مہتمم عزیز الباری تھے۔انھوں نے۱۸۵۸ء میں اردو گائیڈ جاری کیا۔مولوی کبیرالدین احمد اس کے مدیر تھے۔گو اُن کی مادری زبان بنگلہ تھی تاہم وہ اردوپر بھی کامل دسترس رکھتے تھے ۔بنگلہ اور اردو کے علاوہ انھیں انگریزی ،فارسی اور عربی زبانوں کا گہرا علم تھا۔” (6)
انھوں نے مختلف روزناموں کا تذکرہ کیا ہے مثلاََ روزنامچہ پنجاب ،رہبرِ ہند،شام وصال اور نسیم صبح،قیصر الاخبار ہند،روزنامچہ لکھنو ،حدیقہ روزگار ،اتحاد ،روزنامچہ ملک ،روزانہ مشیر دکن،سفیر دکن ،اور انیس بہار وغیرہ بیسواں باب صحافت کے دورِ انقلاب کے نام سے ہے۔وہ بیسویں صدی کے آغاز کو دورِ انقلاب قراردیتے ہیں۔مختلف اخبارات زمیندار،سیاست،بندے ماترم،الہلال،کامریڈ،ہمدرد، انقلاب اور احسان کے ساتھ ساتھ علمی و ادبی جرائد مخزن ،اردوئے معلی ،کشمیر میگزین ،دکن ریویواور پنجاب ریویو کا جائزہ پیش کیا گیا ہے۔عورتوں کے رسائل اخبار النساء تہذیب،نسواں اور عصمت کا ذکر کیا گیا ہے۔اور بچوں کے اخبارات و رسائل پھول،پریم اور نونہال کا تفصیلی جائزہ لیا گیا ہے۔الغرض تاریخ صحافت کے حوالے سے جہان یہ کتاب معلومات کا ذخیرہ ہے وہیں ایک مستند حوالہ کی حیثیت بھی رکھتی ہے۔
۱۹۸۹ء میں ڈاکٹر مسکین علی حجازی کی کتاب پاکستان و ہندمسلم صحافت کی مختصر ترین تاریخ شائع ہوئی۔اس کے سات ابواب اور پچانوے صفحات ہیں۔مسلم صحافت کے تعارف کے بعد مختلف ادوار مثلاََء۱۸۵۷ تک مسلم صحافت ، جنگ آزادی کے بعد مسلم صحافت ،جنگجو یانہ صحافت (ظفر علی خان،محمد علی جوہر ،ابوالکلام آزاد) اور مسلم صحافت پہلی جنگ عظیم کے بعد کا جائزہ لیا گیا ہے۔اسی کے ساتھ ساتھ تحریک پاکستان میں مسلم صحافت کے کردار اور اردو کے فروغ میں مسلم صحافت کے کردار کا تجزیہ کیا گیا ہے۔فاضل مصنف وجہ تالیف یوں لکھتے ہیں:
“پاکستان کے تناظر میں یہ مطالعہ اہم ہو جاتا ہے کہ قیام پاکستان سے قبل صحافت کی دنیا میں مسلمانوں کی کیا حیثیت تھی؟ مسلم صحافت نے کیا کردار ادا کیا ؟ اور قیام پاکستان کے بعد صحافت کون سے مراحل سے کس طرح گزری؟ کسی اور ملک کے تناظر میں ایسا مطالعہ یکسر غیر ضروری یا غیر متعلقہ ہو سکتا ہے جیساکہ پاکستان کے تناظر میں غیر مسلم صحافت کا مطالعہ بے محل ہے۔دوسرے ترقی پذیر ملکوں کی طرح پاکستان میں بھی صحافت اور ابلاغیات کے شعبوں کی تعدادبڑھ رہی ہے اور پہلے سے موجود شعبوں میں توسیع ہو رہی ہے۔ان شعبوں کے طلبہ کی بالخصوص اور عام شہریوں کی بالعموم ضرورت یہ ہے کہ وہ اس سرزمین میں مسلم صحافت کے ماضی و حال سے آگاہ ہوں۔اس موضوع پر بھی بہت سی کتابوں کی ضرورت ہے ۔کچھ کتابیں موجودبھی ہیں ۔مفصل مطالعہ کے لیے وہ کتابیں مفید ہیں لیکن ایک عملی ضرورت یہ بھی ہے کہ مسلم صحافت کے بارے میں مختصر کتابیں بھی موجود ہوں۔یہ کتاب اسی عملی ضرورت کے پیش نظرلکھی گئی ہے۔”(8)
۱۹۹۰ء ہی میں مسکین حجازی کی ایک اور کتاب پاکستان میں ابلاغیات (ترقی اور مسائل)کے نام سے شائع ہوئی۔چودہ ابواب میں منقسم اس کتاب کے صفحات کی تعداد ۱۵۸ ہے۔اِنھوں نے اس کتاب میں پاکستان میں مطبوعہ صحافت کے ساتھ ساتھ پاکستان میں ریڈیائی نشریات کا نظام ،صحافت میں ترجمہ کے مسائل،اردو میں ترسیل خبر کا مسئلہ اور آزادی صحافت کے مسئلے کا جائزہ لیا ہے۔اسی طرح نظریاتی مملکت میں ذرائع ابلاغ کی ذمہ داریاں ،قومی یکجہتی اور ذرائع ابلاغ ،صحافت اور سیاست کا جائزہ بھی لیا گیا ہے۔ترجمہ کے مسائل کے ذیل میں مرکزی نظام کے فقدان کو اہم مسئلہ قرار دیتے ہوئے ملک میں اصطلاح سازی اور ان کی معیار بندی کے مرکزی نظام کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے لکھتے ہیں :
“مرکزی نظام سے مراد ایسا نظام ہے جس کے تحت تمام نئے ناموں اور اصطلاحات کے موزوں تراجم تیار ہو کر ابلاغ عامہ کے اداروں میں پہنچ جائیں اور تمام اخبارات میں اپنے تراجم استعمال ہوں۔اس وقت صورت یہ ہے کہ ایک اخبار میں Space Module کا ترجمہ خلائی گاڑی چھپتا ہے ۔دوسرے میں قمری گاڑی، تیسرے میں چاند گاڑی اور چوتھے میں مہتاب پر چلنے والی گاڑی شائع ہوتا ہے۔نومبر ۱۹۸۵ء کے پہلے ہفتے کے دوران بعض ارود اخبارات میں انگریزی ناموں اور اصطلاحات کے جو تراجم ہوئے ان میں سے چند ذیل میں دئیے گئے ہیں۔وطن دشمن (ملک دشمن،خلاف ملک،خلاف وطن) مجاہد (مجاہد آزادی،حریت پسند،آزادی پسند،حریت کش) راسخ العقیدہ (اصل پسند،بنیاد پرست) موافق رویہ(سازگار رویہ،موافق رجحان،موافق طرز عمل)" (۸)
اور ۱۹۹۲ء ہی میں اردو صحافت کی نادرتاریخ کے نام سے طاہر مسعود کی تصنیف شائع ہوئی۔یہ کتاب ایک تاریخی اور تحقیقی مآخذ کا مقدمہ و حواشی ہے۔فہرست اخبارات ہند کے نام سے پیسہ اخبار لاہور کے ایڈیٹر مولوی محبوب عالم نے ۱۹۰۴ء میں ہندوستانی اخبارات کی فہرست مرتب کی تھی۔۶۴۰ اخبارات کی فہرست میں ۱۴۸ اخبارات اردوکے بھی شامل تھے۔دیگرزبانوں میں انگریزی، ہندی، بنگالی، عربی، فارسی، گجراتی، مرہٹی، تلیگو اور مراٹھی وغیرہ کے اخبارات سے متعلق ابتدائی نوعیت کی معلومات ملتی ہیں۔ہر زبان کے اخبار کا تعارف ،سن اشاعت،قیمت ،اغراض و مقاصداوربندش وغیرہ کا ذکر کیا گیا ہے۔مصنف نے فہرست اخباراتِ ہند کو مرتب کیا اور اس پر حواشی میں اخبارات سے متعلق تمام ممکنہ حاصل معلومات کو درج کیا ہے۔کسی اخبار کے مالک ،ایڈیٹر کے حالات اگر مل سکے ہیں تو درج کیے گئے ہیں ۔الغرض اخبار سے متعلق حاصل شدہ معلومات بہم پہنچانے کی کوشش کی گئی ہے۔جن اخبارات سے متعلق معلومات نہ مل سکیں یا اصل فائل تک رسائی نہ ہو سکی تو اُن کو گمشدہ اخبارات کے عنوان کے تحت بطور ضمیمہ کتاب کے آخر میں درج کر دیا گیا ہے۔اِن اخبارات کی تعداد ۴۲ ہے۔
سال۱۹۹۵ء میں صحافت سے متعلق دو کتب شائع ہوئیں ۔پہلی کتاب اسلام کا قانونِ صحافت(قرآن اور سیرت النبیﷺ کی روشنی میں)ڈاکٹر لیاقت علی خان نیازی نے لکھی۔تیرہ ابواب اور ۲۷۱ صفحات کی حامل اس کتاب میں صحافت کا اسلامی تناظر میں جائزہ لیا گیا ہے۔مختلف ابواب کے عنوانات درج ذیل ہیں ۔ ۱۔ صحافت کی تعریف ۲۔اسلام میں صحافت کا تصور۳۔قرآنِ حکیم اور صحافت کے اصول مثلاََجھوٹی افواہ،فحاشی سے گریز ۴۔ اسلامی صحافت کے خدوخال (ضابطہ اخلاق)،امربا لمعروف و نہی عن المنکر ،سچائی،احتساب،کردار سازی ،تبلیغ،قومی یکجہتی ۵۔حضور اکرمﷺ کے دور مبارک میں صحافت ،تبلیغ اور ابلاغ کا مفہوم ،تبلیغی خطوط،خواتین میں تبلیغ ،اسلام سے قبل صحافت بطور ذریعہ ابلاغ مثلاََ شعروشاعری،میلے اور بازار،خطبے ،وصیتیں،تجارتی سفر،قرآن حکیم بطور پہلی مرتب اور مدون کتاب ،ابلاغ کاکام بذریعہ حفاظ،کتابت،شاعری،رسل و رسائل ،تجارت ،مسجد،ازواج مطہرات،خطبہ الوداع ۶۔خلافت راشدہ کے دور میں آزادی رائے ۷ ۔الیکٹرانک میڈیا ۸ فحاشی کی روک تھام کے لیے قوانین ۹۔ سماجی برائیاں اور ہماری صحافت ۱۱۔ پاکستانی معاشرے پر ثقافتی یلغار اور تعلیمات رسولﷺ کی روشنی میں اس کا حل۔ الغرض اس کتاب میں اسلامی تعلیمات کی روشنی میں صحافت کے مختلف پہلوؤں کا جائزہ لیا گیا ہے۔
۱۹۹۷ء میں ڈاکٹر مسکین علی حجازی کی ضخیم کتاب پنجاب میں اردو صحافت کی تاریخ شائع ہوئی۔اس کے اٹھارہ ابواب اور ۴۶۱ صفحات ہیں۔باب اوّل میں پنجاب کا تعارف ،تاریخی پسِ منظر ،وجہ تسمیہ،پاکستانی پنجاب،بھارتی پنجاب ،اسلامی عہد،سلاطین کا عہد،سکھ دورِ حکومت اور انگریز حکومت میں پنجاب کے حالات و واقعات بیان کیے گئے ہیں۔اگلے باب میں پنجاب میں صحافت ، پنجابی زبان ، پنجابی ادب ، پنجابی صحافت ،انگریزی صحافت اور اردو صحافت کا جائزہ لیتے ہوئے کوہ نور کو پنجاب کا پہلا اردو اخبار قرار دیا ہے۔۱۸۵۸ء تا ۱۹۰۰ء تک کے اہم اخبارات و جرائد کا جائزہ لینے کے ساتھ ساتھ۱۹۰۰ ء تا۱۹۱۴ء تک کے جرائد مثلاََمخزن،مخزن کے معاصرین ،مخزن کی علمی و ادبی خدمات،ہمالہ،پنجاب ریویو،کشمیری میگزین ،ستارہ صبح اور آزادی کاذکر کیاگیا ہے۔ اسی طرح روزانہ صحافت کے ضمن میں مسلمانوں کے اخبارات سیاست،انقلاب،احرار،حریت،مساوات،احسان،مجاہد ،پاسبان اور ہندوؤں کے اخبارات پرتاب،بندے ماترم ،کیسری،ملاپ،ویر بھارت کا تجزیہ اور نمایاں خصوصیات کوواضح کیا گیا ہے۔۱۹۴۷ء تا ۱۹۳۹ء تک پنجاب کے شہروں سے شائع ہونے والے اخبارات و جرائد کی تعداد بلحاظ لسان و کیفیت بیان کرتے ہوئے نوائے وقت اور معاصرین کا تحریک پاکستان میں کردار واضح کیا گیا ہے۔پنجاب میں اردو صحافت کے ساتھ ساتھ ڈائجسٹ صحافت اردو،سیارہ،پاک،تلاش،آئینہ،ایشیا،حکایت کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ایک باب پنجاب میں نسوانی صحافت سے متعلق ہے ۔ مشہور اخبارات و رسائل کے طور پر زیب النساء ،حرم،بتول،نئی صدی ،چلمن اور حنا کا تجزیہ کیا گیا ہے۔پنجاب میں علمی و ادبی صحافت کے باب میں معارف اسلام،شکرگنج،طلوع اسلام،فیض الاسلام،ضیائے حرم،تحریک جدید،تعلیم القرآن اور خدام الدین کاجائزہ لیاگیا ہے۔بچوں کے رسائل کے باب میں تعلیم و تربیت،ماہنامہ کھلونا،کہکشاں،نوبہار،بچوں کا باغ وغیرہ کو موضوع بحث بنایا گیا ہے۔پنجاب میں پیشہ ورانہ صحافت،تعلقات عامہ،زرعی رسائل،الیکٹرانک صحافت کو بھی زیرِ بحث لایا گیا ہے۔دیکھا جائے تو اس کتاب میں پنجاب کی صحافتی تاریخ کے حوالے سے ہر پہلو اور زاویے سے صحافتی کام کا جائزہ لیا گیا ہے۔ اگلے سال ۱۹۹۹ء میں کنور محمد دلشاد کی کتاب ذرائع ابلاغ اور تحقیقی طریقے شائع ہوئی۔پندرہ ابواب اور ۴۸۹ صفحات کی حامل اس کتاب کے مصنف پاکستان الیکشن کمیشن کے صوبائی الیکشن کمشنر بلوچستان ہیں۔ ابلاغ عامہ کا تعارف، ابلاغ میں رکاوٹ،معاشرہ میں ذرائع ابلاغ کے اثرات،اثر پذیری اور اثرو نفوذ پر بحث کے بعد رائے عامہ ،رائے عامہ کے ذرائع ، رائے عامہ کی اہمیت ، اسلام اور مغرب میں رائے عامہ کا احترام اور ابلاغ عامہ کا اسلامی نظریہ بیان کیا گیا ہے۔پروپیگنڈ ہ کو نفسیاتی جنگ قرار دیتے ہوئے پروپیگنڈہ کے اصول،افواہ کی بنیادی نفسیات ،ابلاغ عامہ اور نفسیات،برین واشنگ ،پاکستانی سیاست اور پروپیگنڈہ پر روشنی ڈالی گئی ہے۔اسی طرح پاکستان میں ابلاغ عامہ ،قومی یکجہتی اور ذرائع ابلاغ ،ابلاغ عامہ اور تحقیق،تحقیق کی اہمیت ، مراحل،طریقہ کاراور انتخابات میں ابلاغ عامہ کی اہمیت و کردار کا جائزہ لیا گیا ہے۔انٹر نیٹ کو انسانی تہذیب کی عظیم ترین ایجاد قرار دیتے ہوئے دنیا کے گلوبل ویلج میں تبدیل ہونے،نیٹ کی رفتار ،ذاتی سے ہٹ کر ،کاروباری،فوجی،فلاحی ،تعلیمی اور کمرشل استعمال،الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا میں نیٹ کے استعمال کو واضح کیا ہے۔ریڈیو ،ٹی وی کے بعد انٹرنیٹ کی سہولت کی مختصر تاریخ ،ای میل،ای شاپنگ کے فوائد و نقصانات کاذکر کیا ہے۔ملکی سلامتی کے حوالے سے غلط استعمال ہونے ،تخریب کار عناصر کے ہاتھ لگ جانے ،فرقہ واریت اور انتہا پسندی کے فروغ میں کردار پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔سال ۲۰۰۰ء میں تعارف ابلاغ عامہ،صیغہ مطبوعاتی ابلاغ ،شعبہ ابلاغ عامہ جامعہ کراچی نے شائع کی۔۴۰۷ صفحات اور ۱۶ مضامین پر مبنی اس کتاب کو پروفیسر متین الرحمٰن مرتضیٰ نے مرتب کیا ہے۔اس کتاب میں موضوع کی مناسبت سے ابلاغ عامہ کے تمام ذرائع(کتب،اخبارات،رسائل و جرائد،ریڈیو،ٹی وی،فلم،کمپیوٹر اور انٹرنیٹ) کی تاریخ،موجودہ پاکستانی ذرائع ابلاغ اور ان کی حقیقی صورتحال پر روشنی ڈالی گئی ہے۔سات ابواب پاکستانی پروفیسرز اور ڈاکٹرز نے لکھے ہیں جبکہ باقی مختلف معروف و مشہور مغربی لکھاریوں کے ہیں۔موضوعات میں ابلاغ ،اقسام،کتابیں،قدیم ترین ذرائع ابلاغ ،اخبارات،معاشرہ کے لیے اوّلین ذریعہ ابلاغ ،اردو کی جرائدی صحافت کا ارتقاء،پاکستان میں ریڈیو کا ارتقاء،فلم اور ٹیلی و یژن کی تاریخ،پاکستان کی فلمی صنعت تاریخ و ارتقاء، ابلاغ عامہ کے سماج پر اثرات،تعلقات عامہ اور پاکستان میں تعلقات عامہ،کمپیوٹر اور انٹرنیٹ جیسے اہم موضوعات کا احاطہ کیا گیا ہے۔ ابلاغ عامہ کے حوالے سے یہ ایک بہترین تعارفی کتاب ہے۔جس میں ابلاغ عامہ سے متعلق تفصیلی مباحث موجود ہیں۔
بیسویں صدی کی آخری دہائی کی طر ح اکیسویں صدی کی پہلی دہائی میں بھی فن صحافت اور تاریخ صحافت پر بہت زیادہ تصنیفات سامنے آئیں۔ سال ۲۰۰۲ء میں ڈاکٹر طاہر مسعود کی کتاب اردوصحافت انیسویں صدی میں شائع ہوئی۔۱۲۳۰ صفحات کی حامل اس ضخیم کتاب کے آخری ۴۰ صفحات پر انیسویں صدی کے اہم اخبارات کے عکس دیئے گئے ہیں۔چودہ ابواب میں منقسم یہ کتاب برعظیم میں خبر نویسی کے ارتقاء پر بحث کرتی ہے۔قدیم ہندوستان ،سلاطین،مغلیہ دور،اردوصحافت سے قبل مطبوعہ صحافت کی روایت،اٹھارہویں صدی کی صحافت ،صحافت کی ترقی اور آزادی صحافت جیسے موضوعات پر روشنی ڈالی گئی ہے۔فارسی صحافت کو اردو صحافت کا پیش رو قرار دیتے ہوئے اردو صحافت کا آغازوارتقاء اور مختلف ادوار مثلاً ۱۸۵۷ تک اور بعد میں اردو صحافت کے بارے میں بتایا گیا ہے۔اگلے ابواب میں سرسید احمد خان اور مقصدی صحافت ،سیاسی و سماجی صحافت ،ریاستی صحافت ،مذہبی صحافت ،ذولسانی صحافت ،طنزومزاحیہ صحافت اور روزنامہ صحافت جیسے موضوعات کو احاطہ تحریر میں لایا گیا ہے۔ضمیمہ جات میں فہرست اخبارات دی گئی ہے۔جس کواردو،ریاستی،سیاسی و سماجی،مذہبی،طنزیہ،تعلیمی،قانونی،پیشہ ورانہ، خواتین، تجارتی،اور طبی صحافت میں تقسیم کیا گیاہے۔ہر اخبار کا نام ،مقام اجراء،سال اجراء، دورانیہ، مالک، مدیر، مہتمم،مطبع،قیمت اور ضخامت بتائی گئی ہے۔اِسی سال ۲۰۰۲ء میں ڈاکٹر ایاز محمد اور راحیلہ جمیل کی مشترکہ کاوش صحافتی ضابطہ اخلاق اور قرآن حکیم کی تعلیمات سامنے آئی۔۱۴۴ صفحات کی حامل یہ کتاب مختلف نقطہ ہائے نظر کے حامل ممالک کے صحافتی ضابطہ اخلاق کے بارے میں بتاتی ہے۔صحافت ،اس کی اہمیت و مقاصد بتانے کے بعد پاکستان میں رائج صحافتی ضابطہ اخلاق ،صحافت کا اسلامی ضابطہ اخلاق ،اور وابستگان صحافت اور ان کے ضابطہ اخلاق کو زیر بحث لایا گیا ہے۔فاضل مصنف صحافت کے اسلامی ضابطہ اخلاق کے ضِمن میں قرآن مجیدکی روشنی میں درج ذیل بنیادی اصول بیان کرتے ہیں:
“۱۔شہادت نہ چھپانا ۲۔حق گوئی اور صداقت ۳۔بامقصد تحریر۴۔تحریف کی ممانعت۵۔حکمت و دانائی۶۔ریاکاری اور دکھاوے سے پرہیز۷۔عدل و انصاف۸۔اکثریت کی پسندمعیار حق نہیں۹۔بلاتحقیق کچھ نہ لکھنا ۱۰۔چڑانے سے پرہیز ۱۱۔مذاق اڑانے سے پرہیز ۱۲۔دل آزاری سے اجتناب(تذلیل آدمیت اور تذلیل گروہیہ سے اجتناب) ۱۳۔بیان کی پاکیزگی ۱۴۔پردہ پوشی کا حکم۱۵۔حمایت و مخالفت ۱۶۔نیکی میں تعاون اور برائی میں عدم تعاون۱۷۔ایمان و ضمیر کا سودا نہ کرنا۱۸۔بہترین انسدادی تدابیر ۱۹۔اعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ۲۰۔کھوج اور کرید سے گریز۲۱۔مظلوم ،ظالم کے ظلم کو بیان کر سکتا ہے ۲۲۔حلم طبعی اور درگذر کرنا ۲۳۔نرم گفتگو ۲۴۔اظہار خیال میں شائستگی ۲۵۔خدا کی بجائے حاکم کی خوشنودی سے اجتناب۲۶۔ امربالمعروف و نہی عن المنکر۲۷۔نجی زندگی کا تحفظ۲۸۔خواتین کے معاملے میں خصوصی احتیاط۲۹۔خوفِ خدا۳۰۔ایمانداری ۳۱۔فرقہ بندی اور تعصب سے پرہیز ۳۲۔راز کی حفاظت۳۳۔ حسن سلوک “ (9)
۲۰۰۳ء میں اردو صحافت کے ۱۵۰ سال (۱۸۵۷ء تا حال) شائع ہوئی۔انیس ابواب اور ۳۳۶ صفحات کی اس کتاب کو ڈاکٹر رشید احمد گوریجہ نے تحریر کیا ہے۔پہلے باب میں صحافت کی تعریف،اقسام،ابلاغیات ، فن اور تاریخ کے بارے میں بتایا گیا ہے۔اگلے ابواب آزادی صحافت،ماضی کے اہم اخبارات اور صحافی،تحریک پاکستان اور اردو صحافت قیام پاکستان سے پہلے اور بعد میں اردو صحافت کی ترقی،مسائل ،رجحانات اور اہم قومی روزناموں سے متعلق ہیں۔باب ۸ ۔خبر،خبر کے عناصر،مآخذ ۹۔فیچر و اداریہ نگاری،تعریف،اقسام اور خصوصیات ۱۰۔کالم اور باب ۱۱۔طباعت کی مروّجہ اقسام پر مبنی ہے۔اگلے ابواب میں آزادی صحافت ،قانون صحافت،صحافت اور ضابطہ اخلاق،مجلاتی صحافت فن،تاریخ،مسائل،ڈائجسٹ کی مقبولیت کی وجوہات،صحافت کے موضوعات ،انٹرویو کا فن ،ترجمہ نگاری کا فن ،ذرائع ابلاغ اور اُن کی اہمیت کو موضوعِ بحث بنایا گیا ہے۔۲۰۰۸ء میں ڈاکٹر عبدالسلام خورشید کی کتاب صحافت پاکستان و ہند میں شائع ہوئی۔۲۷۲ صفحات پر مشتمل یہ کتاب ۴۰ عنوانات میں منقسم ہے۔ڈاکٹر عبدالسلام خورشیدمشہور صحافی،کالم نگار اور مدیر عبدالمجید سالک کے فرزند ہیں ۔اور صحافتی تحقیق و تدریس کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔اخبار نویسی کا آغاز ،طباعت،انگریزی صحافت کی ابتداء اور جام جہاں نما و مرآۃالاخبار کے کردار پر روشنی ڈالی گئی ہے۔اگلے ابواب میں قانون اور صحافت ،۱۸۵۷ء کا انقلاب،سرسید احمد خان کا دور ،روزناموں کی ابتداء ،بیسویں صدی کا آغاز،جنگ عظیم اوّل اور صحافتی قوانین کا جائزہ لیا گیا ہے۔ اُس دور کے مشہور اخبارات اور صحافیوں کی ضِمن میں ابوالکلام آزاد،ظفر علی خان ،محمد علی جوہر ،زمیندار،ہمدرد،انقلاب اور احسان کا تذکرہ کیا گیا ہے۲۰۱۶ء ہی میں اکمل شہزاد گھمن کی کتاب میڈیا منڈی(پرنٹ میڈیا کے گوشے)کے نام سے شائع ہوئی۔ابواب سات اور صفحات کی تعداد ۳۲۸ ہے۔اِنھوں نے پاکستانی پرنٹ میڈیا کی تاریخ انٹرویوز کی صورت میں سامنے لانے کی کوشش کی ہے۔ہر صحافی،کالم نگار اور ایڈیٹر سے مل اور معلومات حاصل کیں۔نوائے وقت عارف نظامی اور مجید نظامی،پاکستان میں پاکستان سردار خان نیازی و مجیب الرحمن شامی،ایکسپریس کی بات عباس اطہر،خبریں کی خبر ضیا شاہد کے عنوانات کے تحت مختلف اخبارات کے مدیران کا تعارف اور خیالات پیش کیے ہیں ۔کالم اور کالم نگاری کے باب میں حسن نثار،عطاالحق قاسمی،جاوید چوہدری،عرفان صدیقی،اوریا مقبول جان ،نذیر ناجی و دیگر کا ذکر کیا گیا ہے۔انگریزی صحافت کے ذیل میں انگریزی اخبارات ڈان،دی نیشن،پاکستان ٹوڈے،جنگ نامہ،پاکستان آبزرورجبکہ اردو صحافت کے ذیل میں اردو اخبارات نوائے وقت ،دنیا،نئی بات،جنگ،پاکستان،دن،اوصاف،جناح اوراساس کا جائزہ لیا گیا ہے۔اسی طرح پاکستانی زبانیں ،صوبے اور پرنٹ میڈیا کا جائزہ لیا گیا ہے۔
درج بالا کتب کے مختصر جائزے سے جو صورتحال سامنے آئی ہے وہ تیسری دنیا کے ترقی پذیر ملک پاکستان کے لیے حوصلہ افزاء اور اطمینان بخش ہے۔اردو زبان میں پاکستان کے اندر قابلِ قدر صحافتی و ابلاغیاتی ذخیرہ موجود ہے۔پاکستانی جامعات کے اندر بی اے،ایم اے،ایم فِل اور پی ایچ ڈی کی سطح پر صحافت و ابلاغ کی تعلیم و تدریس ہو رہی ہے جبکہ عملی طور پر جرنلزم کے شعبے سے وابستہ افراد کی کثیر تعداد شعبہ صحافت کے پرنٹ اور الیکٹرانک ہر دو شعبوں میں خدمات سر انجام دے رہی ہے۔ایک بات جس کی طرف زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ صحافتی مواد کے مطالعے سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ قدیم صحافت ،پرانی تاریخ کا تذکرہ تو ملتا ہے،نظری باتیں تو ملتی ہیں مگر عملی مشقیں نہ ہونے کے برابر یا بہت کم ہیں۔اکثر کتابوں میں اکیسویں صدی سے پہلے کی صحافت اور جرنلزم کا طریقہ کار بتایا گیا ہے۔جبکہ اکیسویں صدی میں ملک پاکستان میں کیبل نیٹ ورک کے آغاز سے نئے نئے چینل وجود میں آئے۔اخبارات نے جہاں اپنے چینل کا آغاز کیا وہیں چینلز نے اپنے اخبارات جاری کیے۔الیکٹرانک میڈیا کے طوفان آنے کے بعد ماہر اور پیشہ ور صحافیوں کی تعداد کم پڑنے لگی ہے۔اکیسویں صدی کے آغاز سے ہی اخبارات کا سارا کام کمپیوٹرائزڈ ہو چکا ہے جبکہ صحافتی کتب پڑھنے کے بعد طلبہ و طالبات جب عملی میدان میں آتے ہیں تو حیران رہ جاتے ہیں کہ جو کچھ پڑھا تھا وہ قدیم طریقہ کا ر تھا۔مثلاََ صحافتی کتب میں لکھا ہوا ہے کہ اخبار کی پیسٹنگ ٹریسنگ ٹیبل پر کی جاتی ہے جبکہ عملی طور پر اخبار کی پیسٹنگ کمپیوٹر پر ہوتی ہے۔اسی طرح دیگر بہت سے کام اور مراحل میں جدید ٹیکنالوجی کی مدد لی جارہی ہے۔اکیسویں صدی میں بدلتے ہوئے حالات کے تناظر میں ضرورت اس امر کی ہے کہ جدید ٹیکنالوجی کے استعمال کو مدنظر رکھتے ہوئے جدید انداز اور دلچسپ اسلوب میں صحافتی کتب لکھی جائیں۔قدیم اسلوب اورپرانی معلومات کی بجائے جدت اور عملی طریقہ کار کو سامنے رکھا جائے۔وہ معلومات بہم پہنچائی جائیں جن کا وجود بھی ہو اور عملی ثبوت بھی۔تاکہ میدان صحافت میں قدم رکھنے والے افراد کی مختلف پہلوؤں اور درست سمت میں رہنمائی کی جا سکے۔اسی صورت میں گلوبل ویلج میں اردو کا ابلاغیاتی سفر کامیابی سے جاری رہ سکتاہے۔اردوبولنے ،پڑھنے،سننے،لکھنے اور سمجھنے والے بہتر سے بہتر انداز میں ذرائع ابلاغ سے استفادہ کر سکتے ہیں۔

حوالہ جات

۱۔          سید احمد علی دھلوی مولوی مرتبہ فرہنگ آصفیہ،جلد سوم چہارم،سنگ میل پبلی کیشنز لاہور،۲۰۰۲ء ص۲۱۵
2. Wolsely, Roland E, Campbell, Laurnce R,. Exploring Journalism, Prentice Hall, Englood cliffs. NJ 1957.P-3
۳۔         مسکین علی حجازی ،اداریہ نویسی مرکزی اردو بورڈ لاہور،۱۹۷۰ء ص ب
۴۔         عبدالسلام خورشید،ڈاکٹر فن صحافت مکتبہ کارواں کچہری روڈ لاہور ۱۹۷۹ء اشاع دوم ص۳۴
۵۔         شفیق جالندھری،فیچرنگاری علمی کتب خانہ اردو بازار لاہور ،۱۹۸۳ء ص۱۷
۶۔         ایم ایس ناز اخبار نویسی کی مختصر ترین تاریخ (۵۷۱ ق م تا ۱۹۴۷ء تک) سنگ میل پبلی کیشنز لاہور،۱۹۸۸ء ص۲۴۸
۷۔          مسکین علی حجازی ڈاکٹر، پاکستان و ہندمسلم صحافت کی مختصر ترین تاریخ ،سنگ میل پبلی کیشنز لاہور،۱۹۸۹ء ص۱۰
۸۔          مسکین حجازی ،پاکستان میں ابلاغیات (ترقی اور مسائل)سنگ میل پبلی کیشنز لاہور،۱۹۹۰ء ص۵۳
۹۔           ایاز محمد ڈاکٹرو راحیلہ جمیل ، صحافتی ضابطہ اخلاق اور قرآن حکیم کی تعلیمات،نگارشات پبلشرز ٹمپل روڈ لاہور،۲۰۰۲ء ص ۴۵

اوپر جائیں  |   پرنٹ کیجئےِ
انگریزی ورژن ای میل چیک کریں مرکزی صحفہ پرنٹ پسندیدہ سائٹ بنائیں رابطہ کیجئے www.shahzadahmad.com www.shahzadahmad.com