فارسی کلام غالب کے منظوم اردو تراجم۔۔۔ایک مطالعہ

ڈاکٹر علی کاوسی نژاد،اسسٹنٹ پروفیسر، فیکلٹی آف لینگوئجز اینڈ لٹریچر، اردو ڈپارٹمنٹ، یونیورسٹی آف تہران۔

ABSTRACT
Asadullah Khan Ghalib (1797-1869) is considered as one of the most important cultural figure of early seventeenth centaury in British India. He enriched Urdu as well as Persian literature through his poetry, letters and persona. This article is consisting of comparison between his Persian poetry and its Urdu translations. After many examples it is concluded that though there are numerous translations of Ghalib, as he deserves for his eminence, but many of them failed to maintain quality consistently in their works. It is suggested that collection of all best translated pieces, an anthology could be better effort to present Ghalib in Urdu. It is also concluded that poetic translation, specially of a poet of Ghalib stature and complex style, is ongoing process; and study of previous translations could enlighten better methods and expression for new translations.
 
Key Words: Ghalib; Translations of Ghalib; Urdu Translation; Urdu Poetic Translations
 

غالب کی فارسی شاعری کی اہمیت کے پیش نظر کئی مترجمین اور ادیبوں نے ان کے فارسی اشعار کو اردو کا جامہ پہنایا۔ بعض مترجمین نے ان کے فارسی اشعار کی تشریح و توضیح بھی کی ہے۔ چند فارسی اشعار کی شرح سب سے پہلے مولانا حالی نے اپنی کتاب “یادگارِ غالب” میں کی اور تشریح کے علاوہ میرزا غالب کی فارسی شاعری کا عہد مغلیہ کے دوسرے فارسی گو شعرا کے ساتھ موازنہ بھی کیا۔
برصغیر پاک و ہند میں بہت سے ادیب اور شاعر غالب کے گرویدہ رہے اور انھوں نے شوق اور لگن سے غالب کی فارسی شاعری کو اردو میں منتقل کرنے کا بیڑا اٹھایا۔ ان مترجمین میں معروف ادبی شخصیات شامل ہیں جنھیں نہ صرف غالب کی فارسی شاعری سے دلی لگاؤ ہے بلکہ وہ خود بھی شاعر ہیں اور منظوم ترجمے جیسے مشکل فن کے تقاضوں سے رمز آشنا ہیں۔ ہمیں معلوم ہے کہ اچھا مترجم وہ ہوتا ہے جو مفہوم کو ایک زبان سے دوسری زبان میں اچھی طرح سے منتقل کر سکے اور منظوم ترجمے کی باریکیوں سے بھی واقف ہو۔
اہم بات یہ ہے کہ مترجم کو بیک وقت دونوں زبانوں پر عبور حاصل ہونا چاہیے، اس کے علاوہ وہ تہذیبی اور ثقافتی اقدار اور روایات سے بخوبی واقف ہو۔ غالب کی فارسی شاعری کے بہت سے اردو تراجم اور شروح کتابی صورت میں موجود ہیں۔ مزید یہ کہ مختلف کتابوں اور رسائل میں کئی ادیبوں نے جزوی طور پر غالب کے فارسی اشعار کی تشریح و توضیح کی ہے۔ اب یہاں اس امر کی ضرورت ہے کہ ہم ان تمام منظوم تراجم کا زمانی ترتیب سے مطالعہ کریں تاکہ ہم پر یہ امر واضح ہو سکے کہ اردو میں فارسی کلام غالب کے کتنے منظوم تراجم موجود ہیں اور کس کس دور میں کن کن ادیبوں اور شاعروں نے اس مشکل وادی میں قدم رکھا ہے۔ نیز ان میں سے کتنے لوگ ایسے ہیں جو سلامت روی سے اس راستے سے کامیاب گزرے ہیں۔
ابر گہر بار__ مترجم؛ رفیق خاور
یہ غالب کی معروف ومشہور فارسی مثنوی “ابر گہر بار” کا اردو ترجمہ ہے جو معروف شاعر، ادیب، نقاد، ڈرامانگار اور لغت نویس رفیق خاور نے کیا۔ یہ ترجمہ پہلی بار رائٹرز بیورو کراچی سے غالب کی صد سالہ برسی کے موقع پر سنہ ۱۹۶۹ء میں شائع ہوا۔ رفیق خاور کو اردو، انگریزی، پنجابی، فارسی ،عربی، سندھی اور بنگالی زبانوں پر عبور حاصل تھا۔ انھوں نے نہ صرف مرزا غالب کی مثنوی ابر گہر بار کو اردو کا منظوم جامہ پہنایا بلکہ اقبال کی فارسی شاعری کو بھی اردو کے سانچے میں ڈھالا۔ رفیق خاور اردو اور فارسی کے شاعر تھے اس لیے انھیں منظوم ترجمے کی باریکیوں سے بھی واقفیت حاصل تھی۔ ابرگہر بار کا یہ ترجمہ دو حصوں پر مشتمل ہے اور اس کے کل ۱۴۶ صفحات ہیں۔ پہلے حصے میں رفیق خاور نے پوری مثنوی کے تمام اجزائے ترکیبی کا اردو منظوم ترجمہ کیا ہے جو کہ ۵۹ صفحات پر مشتمل ہے۔ ترجمے سے پہلے غالب کا فارسی دیباچہ اردو ترجمے کے ساتھ پیش کیا گیا ہے اور ترجمے کے بعد تین صفحات میں “صحیح نامہ” کا اہتمام کیا گیا ہے۔ دوسرے حصے میں رفیق خاور نے “سخنھای گفتنی‘ ‘ کے نام سے مثنوی کے مختلف پہلوؤں پر سیر حاصل بحث کی ہے۔ یہ حصہ زیادہ تر تنقیدی اور تجزیاتی مطالعے پر مشتمل ہے۔ مثنوی کے تمام اجزاے ترکیبی پر بحث کرتے ہوئے رفیق خاور نے کوشش کی ہے کہ غالب کی فارسی شاعری کا فارسی کے بڑے بڑے اور نامور شعرا کے ساتھ موازنہ اور تقابل کر سکیں۔ رفیق خاورؔ نے اس حصے میں غالب کی فارسی شاعری کا نظامی، فردوسی، سعدی، عرفی اور دوسرے شعرا کے ساتھ
تقابلی مطالعہ کیا ہے۔ رفیق خاور نے ایک مقام پر ذکر کیا ہے کہ ترجمے کی بحر نے “سحرالبیان” کا رنگ و آہنگ پیدا کر دیا ہے۔
ترجمہ مکمل ہونے سے پہلے اس ترجمے کے منتخب حصے مختلف رسائل، جیسے تخلیق، ماہِ نو اور دی وائس آف اسلام میں شائع ہوئے اور کتاب شائع ہونے کے بعد بھی اس کے بعض حصے “قرآن الھدی” میں اشاعت پذیر ہوئے۔(۱)
شش جہات غالب __مترجم؛ چوہدری نبی احمد باجوہ:
چوہدری نبی احمد باجوہ نے اپنے ترجمے کا انتساب اپنے استاد محمد حیات صاحب جویا ہیڈ ماسٹر ریٹائرڈ ضلع لال پور کے نام کیا ہے۔ چوہدری نبی احمد باجوہ اسسٹنٹ سیکرٹری صوبائی اسمبلی لاہور کی حیثیت سے ریٹائر ہوئے، اس سے قبل وہ فوڈ کنٹرولر و کلیمز کے عہدے پر فائز رہے اور کچھ عرصے کے لیے عارضی طور پر دیا ل سنگھ کالج میں فلسفے کے استاد رہے۔ وہ ایم۔اے۔او کالج میں انگریزی بھی پڑھاتے تھے۔ چوہدری نبی احمد باجوہ کو غالب کی فارسی شاعری سے بہت دلچسپی تھی۔ چنانچہ وہ ۱۹۵۰ء سے لے کر ۱۹۶۰ء تک فارسی اشعار کے اردو ترجمے کرتے رہے، انھوں نے اپنا مسودہ آغا صادق پرنسپل گورنمنٹ کالج کوئٹہ کو دکھایا کیونکہ اس وقت نبی احمد کوئٹہ میں ڈسٹرکٹ فوڈ کنٹرولر کے عہدے پر فائز تھے، آغا صادق نے مسودہ دیکھ لیا اور نبی احمد کو فنی اصول بتائے اور ان کی حوصلہ افزائی کی۔ تراجم کی تصحیح اور نوک پلک سنوارنے میں پروفیسر مرزا احمد منور گورنمنٹ کالج لاہور نیز وقتاً فوقتاً سید عابد علی عابد نے نبی احمد کی مدد کی۔ اس کے علاوہ ڈاکٹر محمد باقر نے بھی ان کا مسودہ دیکھا اور مطبوعہ غزلوں میں ایک آدھ ترمیم کی۔ جیسا کہ چوہدری نبی احمد نے بھی ذکر کیا ہے، مولانا صلاح الدین احمد “ادبی دنیا” کے ایڈیٹر نے اس رسالے کے آخری شمارے میں مرزا غالب کی چار غزلیں نبی احمد کے ترجمے کے ساتھ شامل اشاعت کیں۔ (۲)
چوہدری نبی احمد نے “احوال واقعی” کی ذیل میں لکھا ہے کہ انھوں نے غالب کے دو ہزار فارسی اشعار کا اردو میں منظوم ترجمہ کیا ہے اور مرزا غالب کے چھے اصنافِ شعری کو اردو کے پیکر میں ڈھالنے کا ذکر کیا ہے۔قصائد، غزلیات، قطعات، مثنویات، رباعیات اور ترکیب بند۔ نبی احمد باجوہ نے اپنی ایک اردو نظم میں جو اس ترجمے کے مقدمے میں شامل ہے، اس موضوع کی طرف اشارہ کیا ہے۔
شش جہات فن غالب ہیں یہ شش اصنافِ شعرمثنوی ، قطعہ، قصیدہ و غزل ترکیب بند
ہیں رباعی ڈال کر چھے پورے اصنافِ سخنجن پہ ہے کلیاتِ غالب مشتمل اے ارجمند
شش جہاتِ معنی غالب ہے ، مضمران میں ہیہے طلسم معنی ان میں موجزن اور نقشبند
کیف و کم میں درجہ اوّل قصائد کو ملادوسرے درجے پہ غالب کی غزل ہے بہر مند
شعر غالب میں ہے درجے تیسرے پر مثنویدے چکے ہیں قولِ فیصل ناقدانِ ہوش مند
ناقدِ اوّل تھا حالیِ گھر سنجِ سعیدآخری نقاد حضرتِ مہر والا و بلند
ہے مگر مقبول تر اصنافِ غالب میں غزلاور پھر مشہور تر قطعات کے اشعار چند(۳)
البتہ یہ بات ذہن میں رہے کہ جو ترجمہ میرے پیش نظر ہے۔ اس میں اشعار کی تعداد دو ہزار نہیں اور اس ایڈیشن میں غالب کے فارسی قصائد اور رباعیات کے تراجم شامل اشاعت نہیں ہیں اور جو فہرست پیش کی گئی ہے۔ اس میں کہیں قصائد اور رباعیات کا ذکر بھی نہیں ہے۔اس ترجمے میں صفدر جعفری، ڈاکٹر محمد باقر، پروفیسر حمید احمد خان اور مالک رام کے خطوط بنام نبی احمد باجوہ موجود ہیں اور وہ پیش لفظ بھی شامل کیا گیا ہے جسے مولانا صلاح لدین احمد نے “ادبی دنیا” کے ایڈیٹر چار غزلوں کے اردو تراجم پر لکھا تھا، اس میں صلاح الدین احمد نے چوہدری نبی احمد باجوہ کو بڑی داد دی ہے۔
اس ترجمے کی نوعیت کچھ یوں ہے کہ ایک صفحے پر غالب کی فارسی غزل یا نظم دی گئی ہے اور اس کے بالکل سامنے نبی احمد باجوہ کا منظوم ترجمہ پیش کیا گیا ہے، جس سے ترجمے کی کیفیت آسانی سے سامنے آگئی ہے اور قاری بہ آسانی اصل شعر کا منظوم ترجمے کے ساتھ موازنہ کر سکتا ہے۔ نیز مفہوم واضح طور پر ذہن نشین ہو جاتا ہے۔ نبی احمد باجوہ نے اپنے ترجمے میں بعض مقامات پر حواشی کا التزام کیا ہے لیکن فارسی قصائد اور رباعیات کے اردو تراجم کے حوالے سے کوئی وضاحت نہیں ملتی جس کے ذریعے ہم ان تراجم تک رسائی حاصل کر سکیں، یہ بات قرینِ قیاس ہے کہ یہ حصہ طباعت اور اشاعت کے زیور سے محروم رہ گیا ہو۔ علاوہ ازیں اس ترجمے میں غالب کے منتخب فارسی اشعار کے منظوم تراجم موجود ہیں، مثال کے طور پر مثنوی “ابر گہر بار” کا پورا ترجمہ موجود نہیں ہے بلکہ ہر صنفِ شعری کے منتخب اشعار ہی اہمیت اور ضرورت کے پیش نظر اردو کے سانچے میں ڈھالے گئے ہیں۔
چراغِ دیر کا منظوم اردو ترجمہ__ مترجم؛ اختر حسن
اس ترجمے میں اندرا دیوی دھن راج گیر نے اختر حسن کا تعارف پیش کیا ہے اور انھیں ترقی پسند تحریک کے بانیوں میں شمار کیا ہے۔ جنھوں نے اپنے اصول اور نظریات کی خاطر قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں۔ اختر حسن بنیادی طور پر شاعر ہیں۔ اس کے علاوہ ان کے تنقیدی مضامین مختلف رسالوں میں شایع ہوئے اور صحافت سے ان کا تعلق رہا۔ مختلف محکموں اور اداروں کے رکن رہے۔ اس ترجمے کے آخر میں اختر حسن کا سوانحی خاکہ درج کیا گیا ہے۔ جناب مالک رام نے “پیش گفتار” میں مثنوی چراغ دیر کے حوالے سے وضاحت پیش کی ہے۔ اختر حسن نے اس ترجمے میں “تماشاے گلشن، تمناے چیدن” کے عنوان سے بڑے خوبصورت اور تحقیقی انداز میں غالب کے سفر کلکتہ اور ان کی خاندانی پنشن کے حوالے سے ان کی تگ و دو اور محنت و مشقت کا بے مثال خاکہ پیش کیاہے۔ اس کے علاوہ انھوں نے غالب کے اس سفر کی تمام جزئیات کو سامنے لاتے ہوئے سمندر کو کوزے میں بند کیا ہے اور بڑے مدلل انداز میں غالب کی شخصیت اور ان کی فارسی شاعری کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالی ہے۔ اس مقدمے میں اختصار اور جامعیت نظر آتی ہے جس سے قاری کو مرزا غالب کے اس سفر کے متعلق ایک مختصر اور جامع مرقع نظر آتا ہے۔ غالب اپنے اس سفر میں کونسے شہروں سے گزرے اور کن کن شخصیات سے ان کی ملاقات ہوئی۔ یہ تمام تفصیلات اس مقدمے میں ہمیں مل جاتی ہیں۔ اختر حسن نے “چراغِ دیر” کے علاوہ مثنوی “آشتی نامہ” یا “باد مخالف” کا ذکر بھی کیا ہے اور اس ادبی معرکے کی طرف ہماری توجہ مرتکز کی ہے جس میں غالب کی فارسی شاعری پر کڑی تنقید کی گئی اور غالب نے اپنی تظلم خواہی کے لیے ایرانی سفیر کا حوالہ دے کر اپنی فارسی دانی کا ثبوت فراہم کیا، ہمیں یہ مقدمہ پڑھ کر اس سفر کی تمام جھلکیاں نظر آتی ہیں۔
اختر حسن کی “چراغِ دیر” کا اردو ترجمہ ستتر (۷۷) اشعار پر مشتمل ہے۔ ترجمے کے لیے کلیات نظم غالب کا کونسا ایڈیشن ان کے پیش نظر رہا اس کے بارے میں ہمیں کوئی وضاحت نہیں ملتی۔ راقم الحروف نے کلیاتِ نظم فارسی مرتبہ مرتضیٰ فاضل لکھنوی کو بہ نظر غائر دیکھا۔ اس کلیات میں موجود مثنوی چراغ دیر کے اشعار کی تعداد ایک سو آٹھ (۱۰۸) ہے، اس کے علاوہ ڈاکٹر حنیف نقوی نے بھی چراغِ دیر کا ایک منظوم اور جامع ترجمہ کیا جس میں اشعار کی تعداد ۱۱۲ ہے۔ یہاں ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ اختر حسن کا منظوم ترجمہ نہ صرف ناقص ہے بلکہ اس میں تمام اشعار کے تراجم بھی نہیں ملتے۔
مثنوی چراغ دیر (منظوم اردو ترجمہ) __مترجم؛ حنیف نقوی:
محمد انصار اللہ نے اپنی کتاب “غالب ببلیو گرافی” میں چراغ دیر کے تین منظوم تراجم کی فہرست دی ہے، ان میں سے ایک منظوم ترجمہ ڈاکٹر حنیف نقوی کا ہے لیکن سنہ اشاعت کا کوئی ذکر موجود نہیں ہے اور دوسرا منظوم ترجمہ مسلم الحریری کا ہے جو بنارس سے ۱۹۶۹ء میں شائع ہوا ہے۔ یہ ترجمہ فی الحال میری دسترس میں نہیں ہے لیکن ڈاکٹر حنیف نقوی کا منظوم ترجمہ جناب خلیق انجم کی “غالب کا سفر کلکتہ اور کلکتے کا ادبی معرکہ” میں درج ہے۔ خلیق انجم، حنیف نقوی کے ترجمے کے بارے میں یوں لکھتے ہیں:
“میری نظر میں ڈاکٹر حنیف نقوی کا منظوم ترجمہ بہترین ہے، ڈاکٹر حنیف نقوی کے ترجمے میں ایسی شگفتگی، تازگی اور روانی ہے کہ اس میں تخلیقی شان پیدا ہو گئی ہے۔ اس لیے میں نے اس کتاب میں ڈاکٹر حنیف نقوی کے اردو منظوم ترجمے کے اشعار پیش کیے ہیں اور پوری مثنوی بھی نقل کی ہے، حنیف صاحب کا شکر گزار ہوں جنھوں نے مجھے مثنوی کا اپنا ترجمہ نقل کرنے کی تحریری اجازت دی۔”(۴)
ہم کلام (فارسی رباعیات غالب کا ترجمہ)__ مترجم؛ صبا اکبر آبادی:
“ہم کلام” فارسی رباعیات غالب کا منظوم ترجمہ ہے، یہ ترجمہ صبا اکبر آبادی معروف شاعر، ادیب اور مترجم کا ہے جو ایک سو بیس (۱۲۰) صفحات پر مشتمل ہے اور اس ترجمے میں غالب کی ایک سو چار (۱۰۴) رباعیوں کا اردو ترجمہ کیا گیا ہے۔ فارسی رباعیوں کی فہرست دی گئی ہے۔ اس ترجمے پر مجنوں گورکھپوری نے پیش لفظ لکھا ہے اور صبا اکبر آبادی کے ترجمے کے بارے میں بھی اظہارِ خیال کیا ہے، وہ لکھتے ہیں:
“جب میں نے صبا صاحب کے یہ ترجمے دیکھے تو مجھ پر یہ کھلا کہ یہ ترجمے اتنے اعلیٰ درجے کے ہیں کہ ان سے بہتر ترجمہ نہیں ہو سکتا، فارسی کو ہٹا دیں تو یہ ایک اعلیٰ سطح کی تخلیق ہے۔ ترجمے کو درجۂ کمال کی تخلیق بنا دینا معمولی کام نہیں ہے۔ اس کے لیے صبا صاحب جیسے ہی بڑے فنکار کی ضرورت ہوتی ہے، صبا صاحب کی رباعی اپنے آغاز سے انجام تک یوں چلتی، جس طرح ہوا کا جھونکا چلتا ہے کیونکہ رباعی کی بحر میں لچک در لچک ہوتی ہے۔” (۵)
صبا اکبر آبادی نے غالب کی فارسی رباعیات کے ضمن میں ایک مقدمہ تحریر کیا ہے جس میں انھوں نے غالب کو دیگر فارسی گو شعرا کی صف میں شامل کیا ہے اور ان کی فارسی شاعری کی داد دی ہے۔ صبا اکبر آبادی نے یہ ترجمہ ۱۹۲۸ء میں شروع کیا اور تقریباً دس سال بھر یعنی ۱۹۳۹ء میں یہ ترجمہ پایۂ تکمیل تک پہنچا، مختلف مصروفیات کے باعث یہ ترجمہ آخرکار ۱۹۸۶ء میں بختیار اکیڈمی سے شائع ہوا۔ صبا نے یہ خواہش ظاہر کی ہے کہ انھیں غالب کی دیگر شعری اصناف ترجمہ کرنے میں خاص دلچسپی ہے، دلچسپ بات یہ ہے کہ صبا اکبر آبادی آگرے میں پیدا ہوئے جو کہ مرزا غالب کی جائے پیدائش ہے۔ صبا اکبر آبادی، غالب کی فارسی رباعیات پر بات کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
“مرزا نے اس صنف میں بھی اپنی انفرادیت کو برقرار رکھا ہے، ہر رباعی چست، مرصع اور زور بیان کی آئینہ دار ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے دور کی تاریخ کا آئینہ نظر آتی ہے۔ اگر کوئی چاہے تو ان کی مدد سے خود غالب کی سوانح عمری مرتب کر سکتا ہے ان کے خاندان کا اندازہ لگا سکتا ہے، سالِ ولات معلوم کر سکتا ہے، ان کے احباب اور شاگردوں کے حال سے آگاہی مل سکتی ہے۔ اپنے ہم عصر شعراکے بارے میں ان کے خیالات کا تجزیہ کیا جا سکتا ہے، ان کے عقائد پر روشنی پڑ سکتی ہے۔ شرط یہ ہے کہ رباعیوں کو ایک ترتیبِ خاص سے مرتب کیا جائے۔ یہ کام میں نے اہل ذوق کے لیے چھوڑ دیا ہے کہ وہ جس طرح چاہیں ان سے استفادہ کریں۔ یہ عرض کرنا بھی بعید از حقیقت نہیں ہوگا کہ بعض بعض رباعیوں کے ترجمے میں مجھے اپنے عجز کا شدت سے احساس ہوا ہے۔ بہرحال غالب شناسوں کے لیے جو فارسی سے ناواقف ہیں یہ ترجمہ کسی حد تک ممد و معاون ثابت ہو سکتا ہے۔” (۶)
جیسا کہ صبا اکبر آبادی نے بیان کیا ہے غالب کی فارسی رباعیات کی مدد سے ان کی سوانح عمری تیار کی جا سکتی ہے کیونکہ ان رباعیات میں غالب کی زندگی اور ان کے دوست احباب اور شاگردوں کے بارے میں ہمیں معلومات ملتی ہیں۔ اس ترجمے کی نوعیت اس طرح کی ہے کہ فارسی رباعی دی گئی ہے اور اس کی ذیل میں منظوم ترجمہ پیش کیا گیا ہے جس سے ترجمے کا بیک وقت اصل متن کے ساتھ موازنہ اور تقابل کیا جا سکتا ہے۔ یہاں ایک اور بات کی طرف آپ کی توجہ مبذول کرنا چاہتا ہوں کہ محمد انصار اللہ نے اپنی کتاب “غالب ببلیو گرافی” میں غالب کی فارسی رباعیات کے ایک اور ترجمے کا حوالہ دیا ہے جو کہ سید امیر حسن نوازنی کا ہے جس میں انھوں نے غالب کی مکمل رباعیات مع اردو ترجمہ پیش کی ہیں، یہ ترجمہ ادارۂ فروغ اردو، لکھنؤ سے ۱۹۶۸ء میں شائع ہو چکا ہے لیکن افسوس کی بات ہے کہ یہ ترجمہ راقم الحروف کی دسترس سے باہر ہے اس لیے اس ترجمے پر اظہارِ خیال نہیں کیا جا سکتا۔(۷)
غالب کی فارسی غزلوں سے انتخاب ترجموں کے ساتھ__ مترجم؛ افتخار احمد عدنی ،انگریزی ترجمہ: رالف رسل:
اس سے پہلے کہ ہم مذکورہ ترجمے کے بارے میں بات کریں افتخار احمد عدنی کی ادبی زندگی اور غالب شناسی سے ان کی دلچسپی پر نظر ڈالیں گے۔ ۱۹۹۵ء اور ۱۹۹۸ء میں عدنی صاحب کی دو کتابیں “غالب شناسی کے کرشمے” اور “غالب کی فارسی غزلوں سے انتخاب ترجموں کے ساتھ” شائع ہوئیں۔ ان کی کتاب “غالب نقش ہائے رنگ رنگ” جو فارسی غزلیات غالب کے منظوم تراجم پر مشتمل ہے ۲۰۰۵ء میں پاکستان رائٹرز کو آپریٹو سوسائٹی لاہور سے شائع ہوئی۔ افتخار احمد عدنی ۹؍اکتوبر۲۰۰۴ء کو قضائے الٰہی سے فوت ہوئے۔ (۸)
افتخار احمد عدنی کی پہلی کتاب جو غالب شناسی کے باب میں سامنے آئی وہ “غالب شناسی کے کرشمے” ہے جس کی اشاعت اپریل ۱۹۹۵ء میں لاہور سے پاکستان رائٹرز کو آپریٹو سوسائٹی کے زیر اہتمام ہوئی۔ یہ کتاب دوسری مرتبہ مذکورہ ادارے سے اگست ۲۰۰۷ء میں سامنے آئی۔ اس کتاب پر افتخار احمد عدنی نے “پس نوشت” لکھا ہے۔ کتاب دو حصوں پر مشتمل ہے، پہلا حصہ غالب شناسی کے کرشمے اور دوسر احصہ “غالب شناسی کی جھلکیاں” دونوں حصوں میں افتخار احمد عدنی نے غالب کے فارسی اور اردو اشعار کی تشریح کی ہے اور جہاں فارسی غزلیات کی شرح لکھی ہے اس کی ذیل میں ان فارسی غزلیات کا منظوم ترجمہ بھی کیا ہے۔
افتخار احمد عدنی نے اس کتاب میں زیادہ تر تنقیدی مضامین شامل کیے ہیں، اس کے علاوہ انھوں نے غالب کی اہم فارسی غزلوں کی بھی تشریح و توضیح کی ہے اور آخر میں ان غزلوں کو اپنی تخلیقی صلاحیت کی مدد سے اردو کا جامہ پہنایا ہے۔ انھوں نے آخری مضمون میں “صبا اکبر آبادی کا ایک شعر غالب کی زمین میں” کے عنوان سے صبا اکبر آبادی کی فارسی رباعیات غالب کے اردو ترجمے پر بحث کی ہے لیکن اس تبصرے میں افتخار احمد عدنی نے طنزیہ انداز میں ترجمے پر بحث کی ہے اور غالب کی فارسی رباعیات کی اہمیت اور افادیت کو کمزور دکھانے کی کوشش کی ہے اور صبا اکبر آبادی کے ترجمے پر نکتہ چینی کی ہے۔ دراصل افتخار احمد عدنی نے فارسی غزلیات کے علاوہ غالب کے دوسرے اصنافِ شعری کو چنداں درخور اعتنا نہیں سمجھا حالانکہ صبا اکبر آبادی نے فارسی رباعیات غالب کی اہمیت اور افادیت کے پیش نظر ان کا منظوم اردو ترجمہ کیا ہے۔ غالب شناسی کے باب میں یہ افتخار احمد عدنی پہلی کتاب ہے جس میں تنقیدی مضامین کے علاوہ فارسی غزلیات غالب کے اردو ترجمے موجود ہیں۔
مذکورہ ترجمے کے مقدمے میں افتخار احمد عدنی نے اس مشترکہ کام کے حوالے سے وضاحت کی ہے۔ انجمن ترقی اردو پاکستان نے ۱۹۹۴ء میں باباے اردو یادگاری خطبہ کے لیے رالف رسل کو مدعو کیا، رالف رسل جناب جمیل الدین عالی کے گھر ٹھہرے، اس دوران افتخار احمد عدنی کی رالف رسل سے جمیل الدین عالی کے گھر میں کئی ملاقاتیں ہوئیں۔ جمیل الدین عالی نے اسی اثنا میں یہ مشورہ دیا کہ فارسی غزلیات غالب کے اردو اور انگریزی تراجم یکجا شائع کیے جائیں۔ افتخار احمد عدنی اور رالف رسل کے مشترکہ تراجم تقریباً ڈھائی سو اشعار پر مشتمل تھے۔ اس لیے فیصلہ ہوا ہے کہ ڈھائی سو اشعار پر مشتمل یہ ترجمہ یوں شائع ہو جائے کہ فارسی غزل اور اس کا منظوم اردو ترجمہ ایک صفحے پر ہوں اور اس کا نثری انگریزی ترجمہ الگ صفحے پر درج ہو چونکہ رالف رسل نے انگریزی قارئین کی سہولت کے پیش نظر توضیحی نوٹ بھی شامل کیے تھے۔ اس ترجمے کی اشاعت میں تاخیر ہوئی لیکن اس کا ایک مثبت پہلو یہ نکلا کہ افتخار احمد عدنی نے مزید غالب کی چند دیگر غزلوں کو اردو کے پیکر میں ڈھالا اور اس کتاب میں تقریباً پونے چار سو غزلیں اردو اور انگریزی ترجمے کے ساتھ شامل ہوئیں۔
اس ترجمے میں رالف رسل کا انگریزی مقدمہ بھی شامل ہے جس میں وہ خود اس بات کے معترف ہیں کہ ۱۹۶۹ء سے انھوں نے خورشید الاسلام کے ساتھ غالب کی اردو اور فارسی غزلوں کا انگریزی ترجمہ کیا ہے۔ خورشید الاسلام نے غالب کی اردو، فارسی غزلیں انتخاب کیں اور رالف رسل نے ان غزلیات کا انگریزی ترجمہ کیا، جہاں ترجمے میں انھیں دشواری محسوس ہوئی تو خورشید الاسلام غزلیات کی توضیح و تشریح کرتے تھے اور رالف رسل آسانی سے ان کا ترجمہ انگریزی زبان میں کرتے تھے۔
رالف رسل نے خورشید الاسلام کے ساتھ غالب کے سوانح، خطوط اور غزلیات پر کام کیا۔ اس سلسلے میں ان کی مشترکہ کاوش Ghalib: Life and Letters پہلی مرتبہ ۱۹۶۹ء میں آکسفورڈ یونیورسٹی پریس سے شائع ہوئی، یہ کتاب دوبارہ ۱۹۹۱ء اور ۱۹۹۴ء میں آکسفورڈ یونیورسٹی پریس انڈیا سے شائع ہوئی۔ رالف رسل کی یہ کتاب Ghalib: Life Letter and Ghazals کے عنوان سے آکسفورڈ یونیورسٹی پریس انڈیا سے ۲۰۰۳ء میں شائع ہوئی۔ اس کے علاوہ رالف رسل کی ایک اور کتاب جس میں غالب کی فارسی اور اردو غزلیات کے انگریزی تراجم موجود ہیں۔ The Seaing Eye: Selection from the urdu and persianGhzals of Ghalib کے نام سے انجمن ترقی اردو ، پاکستان سے ۱۹۹۹ء میں شائع ہوئی۔
افتخار احمد عدنی اور رالف رسل کا ترجمہ اپنی نوعیت کے اعتبار سے بہت اہم ہے چونکہ اس میں مشرق اور مغرب کے مترجمین کی ترجمے میں صلاحیت اور استعداد بیک وقت سامنے آتی ہے۔ البتہ یہ بات ذہن میں رہے کہ افتخار احمد عدنی نے اپنے مقدمے میں یہ بھی ذکر کیا ہے کہ ان کی فارسی زبان سے واقفیت واجبی سی ہے اور وہ کبھی قادر نہیں ہیں کہ غالب کی اردو غزلوں کا فارسی ترجمہ کریں۔ اس لیے انھوں نے اپنی تمام تر توجہ فارسی غزلوں کے اردو ترجمے پر مرکوز رکھی ہے۔ ظاہر ہے کہ غالب کی اردو غزلیات کو صرف وہی شخص فارسی کے پیکر میں ڈھال سکتا ہے جس کی ان دونوں زبانوں پر مضبوط گرفت ہو اور منظوم ترجمے میں اس نے مہارت اور استعداد بہم پہنچائی ہو۔
غالب نقش ہاے رنگ رنگ __مترجم؛ افتخار احمد عدنی:
اس ترجمے کی کمپوزنگ افتخار احمد عدنی کی زندگی میں شروع ہوئی، لیکن موت نے انھیں مہلت نہیں دی اور یہ ترجمہ پہلی مرتبہ ۲۰۰۵ء میں رائٹرز کوآپریٹو سوسائٹی کی طرف سے شائع ہوا۔ اس ترجمے میں پروفیسر آفاق صدیقی نے “عدنی صاحب کی غالب شناسی” کے عنوان سے افتخار احمد عدنی کی غالب شناسی اور ان کی ادبی زندگی پر نظر ڈالی ہے اور آخر میں انھوں نے عدنی کی “نقش ہاے رنگ رنگ” کے بارے میں اظہار خیال کیا ہے اور یہ فیصلہ قارئین پر چھوڑا ہے کہ انھیں خود محسوس ہوگا کہ عدنی کے ترجمے میں کتنی برجستگی، روانی اور موزونیت موجود ہے اور انھوں نے کس حد تک ترجمے کا حق ادا کیا ہے۔
ترجمہ یوں ہے کہ الگ صفحے پر پوری فارسی غزل درج ہے اور اس کے بالکل سامنے اگلے صفحے پر اردو منظوم ترجمہ پیش کیا گیا ہے۔ ترجمہ غالب کی معروف غزل جو ان کی کلیات میں پہلی غزل شمار کی جاتی ہے سے شروع ہوتا ہے، بعض فارسی غزلیات کے صرف دو تین اشعار کے تراجم موجود ہیں، اس انتخاب میں افتخار احمد عدنی نے اپنی پسند اور اہمیت کی بنا پر غزلیات کا اردو منظوم ترجمہ کیا ہے۔ اس ترجمے میں غالب کی اس فارسی غزل کا اردو ترجمہ بھی شامل ہے جسے غالب نے حافظ کی غزل کی پیروی میں کہا۔
غزلیات فارسی غالب (منظوم اردو ترجمہ) __مترجم؛ڈاکٹر خالد حمید:
ڈاکٹر خالد حمید کا یہ منظوم اردو ترجمہ پہلی مرتبہ ۲۰۰۰ء میں بزم علم و فن پاکستان سے شائع ہوا۔ اس کے مقدمے میں خالد حمید نے ذکر کیا ہے کہ اس ترجمے میں غالب کی قریباً ساڑھے تین سو فارسی غزلوں میں سے پونے تین سو کا اردو منظوم ترجمہ کیا گیا ہے، انھوں نے خود بھی ذکر کیا ہے کہ اس ترجمے میں ضرور خامیاں نظر آئیں گی۔ جب ڈاکٹر خالد حمید کو غالب کی فارسی غزلیات کو اردو کے سانچے میں ڈھالنے کے ضمن میں دقت پیش آئی تو ان کے بہنوئی ڈاکٹر انیس الرحمٰن کو ان کی مجبوری کا احساس ہوا اور انھوں نے ازراہ کرم صوفی غلام مصطفی تبسم کی شرح پیش کی اور یوں خالد حمید کی راہ ہموار ہوئی۔ البتہ یہ بات ذہن میں رہے کہ خالد حمید نے فارسی غزلیات غالب کے اردو منظوم ترجمے کے باب میں اپنے عجز و ناتوانی کا اظہار کیا ہے۔
تسلیم احمد تصور مدیر سہ ماہی سورج نے ۲۰۰۷ء میں ڈاکٹر خالد حمید شیداؔ نمبر نکلا جس میں خالد حمید کے سوانح، منظوم تراجم اور ان کی غزلیات اس شمارے میں شامل اشاعت ہیں، اس میں کئی ادیبوں اور دانشوروں نے خالد حمید شیدا کی ترجمہ نگاری کے حوالے سے اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے جن ادیبوں اور دانشوروں نے خالد حمید کی ترجمہ نگاری اور اردو شاعری پر بحث کی ہے ان میں ڈاکٹر رشید امجد، محسن بھوپالی، ڈاکٹر محمد علی صدیقی، پروفیسر شریف کنجاہی، ڈاکٹر انوار احمد، ڈاکٹر ضیاء الحسن، ڈاکٹر قرۃ العین طاہرہ اور سلمان صدیقی شامل ہیں۔ اس شمارے میں خاندانِ شیدائی کی تصاویر بھی شامل ہیں۔
سہ ماہی سورج، جلد نمبر ۳۵، شمارہ۳۔۴ میں غزلیات امیر خسرو، غزلیات حافظ شیراز، غزلیاتِ اقبال، غزلیات غالب کے منظوم اردو تراجم شامل اشاعت ہیں جنھیں خالد حمید شیداؔ نے اپنی شعری صلاحیت اور قابلیت سے اردو کے پیکر میں ڈھالا ہے۔ مذکورہ شمارے میں خالد حمید کے غیر مطبوعہ مجموعۂ کلام “شامِ غریب” پر ڈاکٹر ناہید قاسمی نے بحث کی ہے اور خالد حمید کی شاعری اور ان کی غزل نگاری کی خصوصیات بیان کی ہیں۔ اس ضمن میں ان کی غزلیات کا تنقیدی جائزہ پیش کیا ہے۔ ڈاکٹر ناہید قاسمی ڈاکٹر خالد حمید کے اشعار پر بات کرتے ہوئے لکھتی ہیں:
“ڈاکٹر خالد حمید شیدا سے اپنے اشعار کی نوک پلک سنوارنے میں کہیں کہیں کوتاہی بھی ہوئی ہے اس طرح کچھ کمیاں رہ گئی ہیں۔ مثلاً ویسے تو انتخابِ الفاظ کے سلسلے میں جدید اردو غزل کی طرف سے کوئی خاص پابندی نہیں ہے لیکن ان کے استعمال میں کشش ضرور ہونا چاہیے۔۔۔۔ پھر غزلوں میں کہیں کہیں مزاحیہ انداز اور سنجیدگی کا مغلوبہ عجیب سی صورتِ حال سامنے لاتا ہے جس سے تغزل مجروح ہوتا محسوس ہوتا ہے۔” (۹)
خالد حمید شیداؔ پیشے کے اعتبار سے میڈیکل ڈاکٹر ہیں اور ان کی رہائش امریکا میں ہے اور کافی عرصے سے امریکا میں رہائش پذیر ہیں۔ “عرض شیدائی” کے ضمن میں انھوں نے لکھا ہے کہ ان کی پیدائش ۱۹۲۹ء میں کوچہ چیلان دہلی میں چماروں کے کٹھڑے میں ہوئی۔ وہاں ان کی ابتدائی تعلیم اینگلو عربک اسکول میں ہوئی۔ تقسیم پاک و ہند کے بعد ان کا خاندان انڈیا چھوڑ کے پاکستان میں مقیم ہوا۔ خالد حمید نے ۱۹۵۳ء میں کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج لاہور سے میڈیکل ڈاکٹر کی ڈگری حاصل کی اور ۱۹۵۷ء میں تلاش معاش کے لیے امریکا کا رخ کیا۔ وہ دس سال کینیڈا میں بھی رہے اور آج کل ہوسٹن ٹیکساس میں مقیم ہیں۔ انھوں نے فارسی اسکول میں پڑھی تھی اور فارسی شعر و ادب کی باقاعدہ تعلیم حاصل نہیں کی۔ انھیں بچپن سے حافظ سے لگاؤ تھا، اس لیے انھوں نے غزلیات فارسی حافظ کا اردو منظوم ترجمہ کیا اور جمیل الدین عالی کی فرمائش پر غالب کی فارسی غزلیات اور جناب اسلم فرخی کے کہنے پر امیر خسرو کی فارسی غزلیات کا اردو منظوم ترجمہ کیا۔ خالد حمید نے اقبال کی فارسی غزلیات کو بھی اردو کے سانچے میں ڈھالا(۱۰)
کتب میں شامل متفرق منظوم تراجم:
مرزا غالب، نتالیا پری گارینا__ مترجم ، محمداسا مہ فاروقی:
محمد اسامہ فاروقی نے ڈاکٹر نتالیا پری گارینا کی کتاب “مرزا غالب” کو روسی زبان سے اردو میں ترجمہ کیا اور ۱۹۹۸ء مکتبۂ دانیال کراچی سے شائع کیا۔ نتالیا پری گارینا روسی ادیب اور محقق نے اقبال اور غالب اور ایرانی شعرا پر کتابیں لکھی ہیں، جیسا کہ اسامہ فاروقی نے کتاب کے مقدمے میں لکھا پری گارینا کو فارسی اور اردو پر دسترس حاصل ہے، نتالیا پری گارینا کو سنہ ۱۹۶۷ء میں “محمد اقبال کی فلسفیانہ غنائی شاعری کے چند پہلو (بہ حوالہ پیام مشرق) پر پی ایچ۔ڈی کی ڈگری عطا کی گئی۔ اسامہ فاروقی نے اس مقدمے میں نتالیا پری گرنیا کی تصانیف کے سوانح اورتحقیقی مضامین پر نظر ڈالی ہے۔ انھوں نے اپنی کتاب “مرزا غالب” میں غالب کی فارسی شاعری کا تحقیقی و تنقیدی جائزہ پیش کیا ہے۔ اس کتاب میں مرزا غالب کی اہم فارسی شعری تصانیف خاص طور پر ان کی فارسی مثنویوں کا تفصیلی جائزہ لیا گیا ہے۔ نتالیا پری گارینا نے مرزا غالب کی مثنویوں پر اپنے تنقیدی خیالات کے اظہار کے ضمن میں فارسی اشعار کے حوالے بھی درج کیے ہیں۔ ان مثنویوں میں چراغ دیر، تقریظ آئین اکبری، ابر گہربار اور غالب کی دوسری شعری تصانیف کے منتخب اشعار موجود ہیں۔ البتہ یہ بات ذہن میں رہے کہ کتاب میں متفرق فارسی اشعار بھی موجود ہیں، جہاں جہاں غالب کی مثنویوں کے منتخب اشعار موجود ہیں ان کے ساتھ مضطرؔ مجاز کا منظوم اردو ترجمہ دیا گیا ہے۔ مضطر مجاز نے ۱۹۹۶ء میں علامہ اقبال کی پیام مشرق کا اردو منظوم ترجمہ کیا جو کہ اقبال اکیڈمی، حیدرآباد سے چھپا۔ محمد اسامہ فاروقی نے اپنے ترجمے کے مقدمے میں مضطر مجاز کے ان منظوم تراجم کی وضاحت پیش نہیں کی، صرف کتاب کے اندر منظوم تراجم کی ذیل میں مضطر مجاز کا حوالہ دیا گیا ہے۔
فارسی کلامِ غالب کے منظوم اردو تراجم ۔۔۔ تنقیدی مطالعہ
غزلیات:
`غالب کی فارسی غزلیات تعداد میں غالب کے دوسرے اصنافِ شعری کے مقابلے میں زیادہ ہیں اور بہت سے مضامین ان غزلیات میں رقم کیے گئے ہیں، اس کے علاوہ غالب نے اپنے متقدمین اور ایرانی شعرا کی زمینوں میں بھی غزلیں لکھی ہیں، ان فارسی غزلیات کی اہمیت کے پیش نظر اردو میں ان کے تین اہم منظوم تراجم موجود ہیں۔ یہاں ہم ان تراجم کا تنقیدی جائزہ پیش کریں گے تاکہ ہم پر واضح ہو سکے کہ مترجمین نے کس حد تک غالب کی غزلیات کی کیفیت اور حالت کو برقرار رکھتے ہوئے انھیں اردو زبان کا جامہ پہنایا ہے۔
شش جہاتِ غالب __مترجم؛ نبی احمد باجوہ:
نبی احمد باجوہ نے غالب کی منتخب غزلیات کا اردو ترجمہ کیا ہے، انھوں نے ان فارسی غزلیات کے ترجمے میں کوشش کی ہے کہ فارسی غزل کی کیفیت کو برقرار رکھیں انھوں نے اپنے ترجمے میں فارسی الفاظ اور تراکیب کو بھی محفوظ کیا ہے، یہ وہ الفاظ اور تراکیب ہیں جو اردو شاعری میں بھی رائج ہیں، بعض مقامات پر نبی احمد باجوہ نے پورے فارسی شعر کو اپنے ترجمے میں منتقل کیا ہے لیکن جہاں الفاظ کے ترجمے میں مطلب بہتر طریقے سے ذہن نشین کرانے کی ضرورت پیش آتی ہے وہاں انھوں نے اردو کی شعری روایت کے مطابق ترجمہ کیا ہے۔ مجموعی طور پر دیکھا جائے تو ان کے منظوم ترجمے پر فارسیت کا غلبہ ہے۔ منظوم ترجمے کی خود اپنی کچھ پابندیاں ہیں مثلاً، قافیہ و ردیف اور اوزان و بحور کا خیال رکھنا بے حد ضروری ہے ان کے ساتھ ساتھ روانی و سلاست کا بھی پورا خیال رکھنا چاہیے۔ بعض مقامات پر کچھ اشعار ترجمے سے رہ گئے ہیں جبکہ کچھ ایسے مقامات بھی ہیں جہاں نبی احمد باجوہ سے شعر غلط پڑھنے کے باعث غلطیاں سرزد ہوئی ہیں۔ ایک فارسی شعر کے ترجمے میں یہ غلطی واضح طور پر مشہور ہے:
غالب بریدم از ہمہ خواہم کہ زین سپسغالب تو سب سے کٹ چکا اب اس سپاس میں
کنجی گزنم و بپرستم خدای راگوشے میں بیٹھ یاد کیا کر خدا کو تو (۱۱)
اس شعر کے ترجمے میں نبی احمد باجوہ نے “کہ زین سپس” کا غلط ترجمہ کیا ہے اس کا مطلب ہے “اس کے بعد” لیکن انھوں نے “اب اس سپاس میں” ترجمہ کیا ہے اور یوں ان سے غلطی سرزد ہوئی ہے۔
یہاں تک ہم یہ کہ سکتے ہیں کہ بعض ایسی غلطیوں کی اصل وجہ یہ ہوتی ہے کہ مترجم الفاظ بغور نہیں پڑھتے اور ان کے معانی و مفاہیم تک پہنچنے میں محنت نہیں کرتے ورنہ اس طرح کے الفاظ کے معانی سمجھنا کچھ مشکل نہیں۔ نبی احمد باجوہ نے غالب کی اہم فارسی غزلیات کو اپنے منظوم ترجمے میں شامل کیا ہے، البتہ مجھے ایک دو اور خامیاں اس ترجمے میں محسوس ہوئیں اور وہ یہ ہیں کہ بعض مقامات پر ایک مصرع یا ایک شعر محذوف ہے لیکن اس کا ترجمہ درج ہے یا اس کے برعکس فارسی شعر درج کیا گیا ہے لیکن اس کا اردو ترجمہ موجود نہیں ہے۔ نبی احمد باجوہ کا ترجمہ منتخب غزلیات پر مشتمل ہے، اس ترجمے کی ایک خوبی یہ ہے کہ فارسی اشعار بھی تراجم کے ساتھ موجود ہیں جس کے باعث تقابلی جائزے میں آسانی محسوس ہوتی ہے۔
غالب نقش ہاے رنگ رنگ__ مترجم؛ افتخار احمد عدنی:
افتخار احمد عدنی نے فارسی غزلیات غالب کا ایک عمدہ منظوم ترجمہ پیش کیا ہے، ان کا یہ ترجمہ زیادہ مفہومی ترجمہ ہے۔ ان کا ترجمہ نہایت دلچسپ ہے مترجم نے غزل کی کیفیت برقرار رکھی ہے اور اکثر مقامات پر غالب کے الفاظ اور تراکیب شعری کو بعینہٖ منتقل کرنے کی سرتوڑ کوشش کی ہے، تاکہ غزل کی کیفیت اور لطیف پیرائے کو ٹھیس نہ پہنچے، یہاں ہمیں محسوس ہوتا ہے کہ مترجم اشعار اور ان کے مفاہیم میں غوطہ زن ہے، تمام الفاظ اور تراکیب کے معنوی رشتوں سے واقف ہے، شعری ہیئت میں ڈھالے گئے الفاظ کی ترتیب اور سلاست صاف نظر آتی ہے۔ افتخار احمد عدنی کے ترجمے میں غزل اور ماورائی کیفیت برقرار رہتی ہے اور شاعر کے جذبات اور احساسات لڑی میں پروئے گئے ہیں، عدنی کے اس منظوم ترجمے کے بارے میں پروفیسر آفاق صدیقی یوں رطب اللسان ہیں:
“.... قارئین خود ہی فیصلہ کریں گے کہ عدنی صاحب نے کتنی برجستگی، روانی اور موزونیت سے ترجمے کا حق ادا کیا ہے، اس طرح کہ ترجمہ لفظی نہیں بلکہ معنوی ہے، نثری ترجمہ تو آسان ہوتا ہے۔ اشعار کا اشعار کی صورت میں ترجمہ کرنا اور وہ بھی پوری غزل کا ..... ذرا سوچیے یہ دشوار کام مترجم نے کتنی مہارت اور دلجمعی سے کیا ہوگا کہ محاسنِ شعری برقرار ہیں اور جو بات غالب نے فارسی میں کہی ہے وہ اپنے مفہوم کو اردو میں عمدگی سے واضح کر سکے۔” (۱۲)
اس ترجمے میں روانی اور موزونیت برقرار رہتی ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ عدنی نے ممکنہ حد تک فارسی تراکیب کو اپنی اصلی شکل میں اردو میں منتقل کیا ہے، اس کے علاوہ انھوں نے کوشش کی ہے کہ ترجمے میں فارسی غزل کے قافیہ و ردیف کو بعینہٖ برقرار رکھیں، بطور نمونہ ایک غزل کے چند اشعار عدنی کے منظوم ترجمہ کے ساتھ ملاحظہ ہوں۔ (۱۳)
شدم سپاس گزارِ خود از شکایت شوقکہ یار کے دلِ بے غم میں ہے سرایت شوق
زہی زمن بدل بی غمش سرایت شوقیہ رنگ لائی ہے دیکھو مری شکایت شوق
بہ بزمِ بادہ گریبان کشو دنش بنگروہ بزم ہے میں گریباں کو کھولنا اس کا
خوشا بہانۂ مستی ، خوشا رعایتِ شوقزہی بہانۂ مستی ، خوشا رعایتِ شوق

دوسرے شعر کے دوسرے مصرع میں مترجم نے “خوشا” کے بجائے “زہی” کا لفظ رکھ دیا ہے اور دوسرے وہی الفاظ ہیں جو اصل شعر میں موجود ہیں۔
عدنی کے اس منظوم ترجمے کی خصوصیت یہ ہے کہ ایک فارسی لفظ کے بدلنے سے فارسی غزل، اردو زبان میں منتقل ہو چکی ہے اور بعض ایسے مصرع ہمیں اس منظوم ترجمے میں ضرور ملیں گے جن کے ترجمے میں کوئی تبدیلی نظر نہیں آتی بلکہ ایک آدھ لفظ ترجمہ ہو چکا ہے۔ منظوم ترجمہ اور غزل کی روایت کی خلاف ورزی بھی عدنی کے ترجمے میں ہمیں نظر آتی ہے اور وہ یہ ہے کہ ایک غزل کے بعض اشعار کے قوافی و ردیف دوسرے اشعار سے مختلف ہیں، یہ تبدیلی اشعار کے مفہوم کو بہتر صورت میں ادا کرنے کے لیے کی گئی ہے۔ یہ طریقہ غزل کی ہیئتی روایت کے خلاف ہے لیکن مفہوم کے بیان کرنے میں مترجم نے ایسا کرنے میں اپنی آسانی محسوس کی ہے: (۱۴)
تاجرِ شوق بدان روبہ تجارت نرودطبعِ عشاق کبھی سوئے تجارت نہ گئی
کہ رہ انجامد و سرمایہ بغاوت نرودزندگی کیا جو تری رہ میں اکارت نہ گئی
چہ نوسیم بہ تو درنامہ کز انبوھی غمکیا لکھوں نامہ کہ اندوہ زمانہ کے سبب
نیست ممکن کہ روانی ز عبارت نرودوہ روانی کی جھلک میری عبارت میں نہیں
از حیا گیر نہ از جور ، گر آن مایۂ نازکشتۂ تیغِ ستم سے نہیں غافل دلبر
کشتۂ تیغ ستم را بزیارت نرودہے حیا مانع اسے عذر عیادت میں نہیں

جیسا کہ آپ نے دیکھا اس غزل کے اشعار کے منظوم ترجمے میں تبدیلی نظر آتی ہے، مترجم مفہوم کو بہتر انداز میں پیش کرنے کے لیے دوسرے مصرع کو پہلے مصرع پر ترجیح دیتا ہے، یوں ردیف و قافیہ الگ اختیار کرنا پڑتا ہے اور غزل کی ہیئت بدلتے کی صورت پیش آتی ہے، اگرچہ یہ طریقہ منظوم ترجمے میں زیادہ مستحسن اور قابل قبول نہیں لیکن بعض مقامات پر اس سے مفر ممکن نہیں۔ افتخار احمد عدنی نے ترجمے میں غالب کی غزلوں کے قوافی و ردیف کی پیروی میں ترجمہ کیا ہے اور ان کا یہ ترجمہ غالب کے فارسی اشعار اور ان کے اسلوب سے رنگ پکڑتا ہے۔ غالب نے خود بھی اپنی غزلیات میں معروف و مشہور فارسی شعرا کی پیروی کی ہے۔
عدنی معانی و مفاہیم منتقل کرنے میں بہت حدتک کامیاب رہے ہیں، ایک فارسی شعر کے مفہوم بیان کرنے میں قاصر رہ جاتے ہیں: (۱۵)
آہ از تنک پیرا ہنی کافزون شدش تر دامنی
تا خوی برون داد از حیا ، گردید عریان در بغل

شرم و حیا میں ڈوب کر بھیگے جب اس کا پیرہن
عریانی اپنی دیکھ کر ، وہ آچھپے آغوش میں

عدنی مطلب و مفہوم کو بہتر انداز سے بیان کر سکتے تھے لیکن وہ اس مفہوم تک رسائی حاصل نہ کر سکے۔ صوفی غلام مصطفی تبسم نے اپنی “شرح غزلیات غالب (فارسی)” میں اس شعر کا اصل مفہوم ومعنی بیان کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
“لغت: ’تنک پیراہنی ھا” ہلکے پھلکے یا مختصر لباس میں ہونا..... ’تردامنی: تر دامن ہونے کی حالت ۔.... ’خوے” پسینا۔ اس کے ہلکے اور مختصر لباس سے اس کی تردامنی اور بھی بڑھ گئی، ابھی حیا سے پسینا آیا ہی تھا کہ ادھر آغوش میں آ کر اس کا بدن عریاں ہو گیا۔” (۱۶)
افتخار احمد عدنی نے غالب کی بعض غزلوں کے چند اشعار کا ترجمہ کیا ہے اور جبکہ بعض اشعار کے ترجمے سے گریز کیا ہے، اس منتخب اشعار کے ترجمے میں ان کی کوشش یہ ہے کہ غالب کی معروف غزلیات کا ترجمہ کریں خاص طور پر ان غزلیات کا جو کہ حافظؔ ، نظیریؔ ، ظہوریؔ اور دیگر شعرا کی پیروری میں لکھی گئیں یا وہ غزلیات جن میں عشق و محبت، غم و اندوہ، انانیت، حمد و نعت، وحدت الوجودی، فلسفہ کے مضامین نظر آتے ہیں۔
غزلیات فارسی غالب__ مترجم؛ خالد حمید شیداؔ :
خالد حمید شیدا نے حافظؔ ، امیر خسروؔ ، غالبؔ اور اقبالؔ کی غزلیات کا منظوم ترجمہ کیا ہے۔ غالب کی فارسی غزلیات کے ترجمے میں خالد حمید شیداؔ کے پیش نظر صوفی غلام مصطفی تبسم کی شرح غزلیات فارسی کی دو جلدیں رہی ہیں۔ اگر ان کے منظوم ترجمے کا بغور مطالعہ کیا جائے تو ہمیں واضح طور پر یہ بات معلوم ہو گی کہ انھوں نے صوفی مصطفی تبسم کی شرح کو منظوم اردو پیرائے میں لانے کی کوشش کی ہے۔ ہر چند فارسی شاعری کے اکثرالفاظ اور تراکیب اردو میں بھی مستعمل ہیں لیکن جہاں خالد حمید کو فارسی شعر سمجھنے میں دقت پیش آئی ہے وہاں انھوں نے صوفی غلام مصطفی تبسم کی شرح سے بہت کچھ اخذ و استفادہ کیا ہے، کیوں کہ خالد حمید نے اشعار کے معانی و مفاہیم منتقل کرنے کی کوشش کی ہے اور جو مفاہیم تبسم کی شرح میں موجود ہیں وہی مفاہیم ان کے منظوم ترجمے میں وارد ہوئے ہیں۔ اس کے علاوہ خالد حمید نے ایک فارسی غزل کے ترجمے میں صوفی غلام مصطفی تبسم کے منظوم ترجمے کو بھی شامل کیا ہے۔ اس مشہور و معروف غزل کا مطلع صوفی تبسم کے منظوم ترجمے کے ساتھ دیکھیے۔ (۱۷)
دود سوائے تتق بست ، آسمان نامید مشدود افسونِ نظر تھا ، آسمان کہنا پڑا
دیدہ برخوابِ پریشان زد ، جہان نامید مشاک پریشاں خواب دیکھا اور جہاں کہنا پڑا

خالد حمید کے منظوم ترجمے میں صوفی غلام تبسم کی شرح کی جھلکیاں نمایاں طور پر نظر آتی ہیں، اس ترجمے کی دوسری خصوصیت یہ ہے کہ مترجم نے بعض فارسی مصرعے بعینہٖ منتقل کیے ہیں، یہ طریقہ نبی احمد باجوہ اور افتخار احمد عدنی کے یہاں ہمیں نظر آتا ہے، لیکن خالد حمید نے بعض غزلوں کے ترجمے میں وہی فارسی الفاظ بعینہٖ منتقل کیے ہیں جو اردو کی شعری روایت کے خلاف ہے جس سے اردو دان طبقے کو اس فارسی زدہ ترجمے کے پڑھنے میں دقت پیش آئے گی۔ لہٰذا خالد حمید نے نہ صرف منظوم ترجمے کی روایت کی خلاف ورزی کی ہے بلکہ اپنے ترجمے میں مشکل فارسی الفاظ استعمال کرکے اپنے ترجمے کو ادق اور مشکل بنا دیا ہے۔ غالبؔ نے حافظؔ کی معروف غزل کی پیروی میں غزل کہی ہے۔ اس کے منظوم ترجمے میں فارسیت کا غلبہ نظر آتا ہے۔ (۱۸)
بہ جنگ باج ستانان شاخساری رابہ جنگ ، باج ستاناں شاخساری کو
تہی سبد زدرِ گلستان بگردانیمتہی سبدز درِ گلستان بگرد انیم
بہ صلح بال فشانانِ صبحگاہی رابہ صلح ، بال فشانان صبحگاہی کو
زشاخسار سوی آشیان بگردانیمز شاخسار ہوئے آشیاں بگردانیم

خالد حمید شیداؔ کا یہ طریقہ مستحسن نہیں سمجھا جاتا اور ان کے ترجمے میں ایسے شعروں کی کثرت ہے جو من و عن فارسی سے اردو میں منتقل ہو چکے ہیں اور سوائے ایک دو لفظ کے دوسرے الفاظ فارسی ہیں۔ مذکورہ بالا غزل کا افتخار احمد عدنی نے بھی منظوم ترجمہ کیا ہے۔ عدنی نے نہ صرف ردیف و قافیہ بدل دیا ہے بلکہ تمام اشعار کے معانی و مفاہیم اپنے منظوم ترجمے میں بیان کیے ہیں، انھوں نے موزونیت اور روانی بھی اپنے ترجمے میں برقرار رکھی ہے۔ اب افتخار احمد عدنی کا منظوم ترجمہ ملاحظہ ہو۔ (۱۹)
جو صبح آتے ہیں چننے کو پھول شاخوں سےانھیں چمن سے یونہی خالی ہاتھ بھجوا دیں
جو پھڑ پھڑاتے ہیں پر اپنے صبح شاخوں پرکسی بہانے انھیں آشیاں میں پہنچا دیں

خالد حمید شیداؔ نے اکثر ترجموں میں بحر وہی قائم رکھی ہے جو شاعر نے اختیار کی ہے۔ انھوں نے ردیف کا ترجمہ کیا ہے جب کہ قافیہ خود شاعر کا قائم رہتا ہے۔ خالد حمید کا یہ ترجمہ آزاد اور مفہومی ترجمے کے زمرے میں آتا ہے۔ مترجم نے صوفی غلام مصطفی تبسم کی شرح میں موجود مفاہیم اور معانی کو منتقل کرنے کی کوشش کی ہے۔ اگر مجموعی طور پر خالد حمید شیداؔ اور افتخار احمد عدنی کے منظوم تراجم کا تقابلی جائزہ لیا جائے تو افتخار احمد عدنی کا ترجمہ کئی جہات سے خالد حمید شیداؔ کے ترجمے سے کافی بہتر ہے۔ چوں کہ افتخار احمد عدنی کے ترجمے سے صاف محسوس ہوتا ہے کہ وہ نہ صرف اردو اور فارسی دونوں زبانوں کے روایتی اور تہذیبی پس منظر سے بہتر طور پر واقف ہیں بلکہ ان کا مطالعہ بھی گہرا ہے، غزلیات کے ترجمے میں جہاں تک ممکن ہو سکا عدنی نے متبادل الفاظ اور تراکیب میں جستجو کی ہے جس کے باعث مفاہیم بڑی روانی اور سلاست سے شعری پیکر میں ڈھل گئے ہیں، ان کا ترجمہ تخلیقی نوعیت دکھائی دیتا ہے، خالد حمید کے ترجمے میں وہ روانی اور موزونیت جو ہونی چاہیے ہمیں محسوس نہیں ہوتی جب کہ کہیں کہیں ترجمے میں ابہام اور پیچیدگی بھی نظر آتی ہے، البتہ یہ بات ذہن میں رہے کہ خالد حمید شیداؔ نے اکثر غزلیات کا اردو منظوم ترجمہ کیا ہے لیکن افتخار احمد عدنی نے صرف منتخب فارسی غزلیات کے ترجمے پر ہی اکتفا کیا ہے۔ خالد حمید کے اس ترجمے کے بارے میں ڈاکٹر انوار احمد یوں لکھتے ہیں:
“ڈاکٹر خالد حمید شیدا کے ان تراجم میں بعض مواقع ایسے ہیں جہاں ان کی سخن فہمی اور نکتہ شناسی قابل داد ہے تاہم کہیں کہیں ان سے محبت کرنے والے آزردہ بھی ہو سکتے ہیں، ہر چند انھوں نے کوشش کی ہے کہ بسااوقات ترجمہ کرتے ہوئے اسی فیصد یا اس سے بھی زیادہ وہ اردو ترجمے میں مصرع کو دہرائیں، تاہم جہاں انھیں کامیابی ہوئی وہاں یہ ترجمہ تخلیقی ترجمے کا لطف دیتا ہے۔” (۲۰ )
مثنویات: 
ابرگہر بار کے منظوم تراجم کا تنقیدی مطالعہ:
غالب کی فارسی مثنویوں میں “ابر گہربار” بڑی اہمیت کی حامل ہے۔ یہ مثنوی مختلف اجزاے ترکیبی پر مشتمل ہے اور غالب کی سب سے طویل مثنوی شمار کی جاتی ہے جس میں غالب نے رزمیہ بحر اختیار کی ہے اور نظامی گنجوی اور فردوسی کی پیروی میں نظم کی ہے، لیکن یہ مثنوی مکمل نہ ہو سکی اور غالب کی خواہش ادھوری رہ گئی۔ 
ابرِ گہر بار __مترجم؛ رفیق خاور
اس مثنوی کی اہمیت کے پیش نظر رفیق خاور پہلے وہ مترجم ہیں جنھوں نے مثنوی ابر گہر بار کا منظوم ترجمہ ۱۹۶۹ء میں پیش کیا۔ اس ترجمے کے علاوہ نبی احمد بخش کی “شش جہات غالب” میں بھی اس مثنوی کے منتخب اشعار کے تراجم ملتے ہیں، رفیق خاور نے اپنے ترجمے میں مذکورہ مثنوی کے مختلف اجزاے ترکیبی کے عنوانات قائم کیے ہیں لیکن کچھ ایسے اشعار بھی ہیں کہ “مناجات” والے حصے میں شامل ہونا چاہیے تھے لیکن یہ مثنوی کے ابتدائی حصے میں شامل ہوئے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ جس نسخے سے رفیق خاور نے استفادہ کیا ہو، اس میں اشعار کی ترتیب اسی طرح کی تھی۔ رفیق خاور نے مذکورہ مثنوی کے آخر میں “صحیح نامہ” کا اہتمام کیا ہے اور اس میں اپنے ترجمے کی غلطیوں کا ایک طرح سے ازالہ کیا ہے۔ یہ زیادہ تر طباعت کی غلطیاں ہیں اور ایک مقام پر چند اشعار ترجمے سے رہ گئے ہیں جن کا ترجمہ دیا گیا ہے۔
رفیق خاور نے اپنے ترجمے میں بڑی حد تک کوشش کی ہے کہ فارسی مثنوی کا ٹھیٹھ اردو زبان میں ترجمہ کریں اور بعض ایسے مقامات پر یہ صورت نظر اتی ہے کہ مترجم شاعر کے الفاظ اور تراکیب کو بعینہٖ اپنے ترجمے میں استعمال کرتے ہیں۔ رفیق خاور نے اپنے تجزیاتی مطالعے میں اپنے ترجمے کی خصوصیات بیان کی ہیں،اپنے ترجمے کے حوالے سے وہ لکھتے ہیں:
“اصل مثنوی کی ابتدا میں وضع کچھ ایسی ہے کہ اس ترجمے میں تحویل کے لیے کوئی خاص حکمت عملی درکار ہے۔ عبارت دوسری زبان سے پیوند نہیں کھاتی اور ایک کا بہاؤ مشکل سے دوسری میں ڈھلتا ہے۔ لہٰذا تمام الفاظ کو بدلنے کی ضرورت پیش آتی ہے۔ جیسے خود شاعر کی طرح نئے سرے سے سوچا جا رہا ہو۔ یہ کیفیت اس ترجمے میں آخر تک برقرار رکھنے کی کوشش کی گئی ہے۔ سوائے بعض مقامات کے جہاں زبان یا بیان کی کوئی ایسی پیچیدگی تھی جس سے مفر کی کوئی صورت نہ تھی اور اصل عبارت کو طوعاً و کرھاً باقی رکھنا پڑا۔ لیکن اس طرح کہ اس کا سلسلۂ کلام پر زیادہ اثر نہ پڑے۔ بالاکثر عبارتیں یکساں ہیں۔ اور ان کی انشائیہ قدر برابر ہے جس سے زیاں تھا نہ سود تھا کی کیفیت دکھائی دیتی ہے”(۲۱)
رفیق خاور خود اس بات کے معترف ہیں کہ بعض مقامات پر ترجمے کی بحر نے مثنوی سحرالبیان کا رنگ پکڑ لیا ہے اور وہی کیفیت اور حالت ہمیں دکھائی دیتی ہے۔ اس ترجمے میں بعض اشعار چند شعروں کی صورت میں ترجمہ ہو چکے ہیں اور مترجم نے ایک شعر کا ترجمہ تین اشعار میں کیا ہے:
زھوشنگ ہوشانِ کاؤس کوسبسی بردر خانہ در خاکبوس (۲۲) ترجمہ:
کئی تاجدار اور کئی پادشاہکئی جم حشم اور کئی کج کلاہ
وہ دانا کہ شرمائیں ہوشنگ کودکھائی اگر ہوش و فرہنگ کو
سلاطین ذی شان والا مقامتھے اس قصر عالی کے ادنیٰ غلام (۲۳)

اسی طرح کی اور مثالیں اس منظوم ترجمے میں ہمیں نظر آتی ہیں۔ اس ترجمے یں اسلوب سادہ، رواں اور دلچسپ ہے اور روزمیہ بحر کی کیفیت کو برقرار رکھتے ہوئے قاری کی دلچسپی برابر قائم رہتی ہے، ترجمہ پڑھتے ہوئے کوئی تھکاوٹ محسوس نہیں ہوتی، اس سے یہ بات ذہن نشین ہوتی ہے کہ مترجم ترجمے کی تمام باریکیوں اور نزاکتوں سے رمز آشنا ہے اور شعری ہیئت اور اسلوب کو برقرار رکھنے کی صلاحیت بھی رکھتا ہے۔ اس ترجمے کی جتنی داد دی جائے کم ہے۔ مترجم نے ایک نادر اور انمول خزانے کو اردو کے پیکر میں ڈھالا ہے کہ رہتی دنیا تک اس کی مثال ملنا مشکل ہے۔ رفیق خاور ترجمے میں محنت اور مشقت سے اپنی شعری صلاحیتوں کا لوہا منوایا ہے اور ایک زندہ جاوید اثر چھورا ہے۔
(ii شش جہاتِ غالب __مترجم؛ نبی احمد باجوہ:
نبی احمد باجوہ نے پوری مثنوی کا اردو منظوم ترجمہ نہیں کیا بلکہ مثنوی کے ابتدائی حصوں حمد، مناجات، حکایت اور مغنی نامہ سے منتخب اشعار کو اردو کے پیرائے میں ڈھالا ہے، نبی احمد باجوہ کے ترجمے کی ایک ممتاز خصوصیت یہ ہے کہ فارسی اشعار بھی ترجمے میں شامل ہیں۔ اس لیے قاری بخوبی اصل اشعار کا منظوم ترجمے کے ساتھ موازنہ کر سکتا ہے۔ نبی احمد باجوہ نے بڑی حد تک کوشش کی ہے کہ غالب کی مثنوی کی سلاست، روانی اور شعری کیفیت کو برقرار رکھتے ہوئے ترجمہ کریں لیکن جو لطف اور دلچسپی ہمیں رفیق خاور کے ترجمے میں محسوس ہوتی ہے۔ وہ نبی احمد باجوہ کے ترجمے میں کم ہی دکھائی دیتی ہے۔ انھوں نے بھی رفیق خاور کی طرح بعض مقامات پر اصل اشعار کے ترجمے سے اجتناب کیا ہے اور اصل الفاظ کو بعینہٖ اپنے ترجمے میں شامل کیا ہے۔ ایک مقام پر جب میں نے اصل اشعار کو ترجمے کے ساتھ ملا کر دیکھا تو ترجمہ اصل سے مطابقت نہیں رکھتا۔ (۲۴)
نگاہی بہ بازی گہ روزگارکہاں سے ہوا جلوہ گر روزگار
ز بازی گرانش یکی نوبہاریہ ٹوٹا کہاں سے طلسمِ بہار
کہ چون سیمیا در نمود آوردہم افلاک کو کس طرح شق کریں
اثرھا ز بالا فرود آوردنہ اس کے احاطے کا دم بھر سکیں
کشاید ھوا پرنیان بنفشگروہ اک تلاش گہر میں لگا
شود شاخِ گل ، کاویانی درفشزمین کو شب و روز ہے کھودتا

دراصل بات یہ ہے کہ مذکورہ بالا فارسی اشعار ترجمے سے رہ گئے ہیں اور جن اشعار کا ترجمہ شامل کیا گیا ہے وہ اشعار نبی احمد باجوہ کے ترجمے میں مفقود ہیں۔ میں نے جب کلیات غالب فارسی مرتبہ سید مرتضیٰ فاضل لکھنوی سے رجوع کیا تو اصل اشعار مجھے ملے اور ان اشعار کا ترجمہ اوپر پیش کیا گیا ہے یعنی جو ترجمہ اوپر آیا ہے وہ ان اشعار کا اردو منظوم ترجمہ ہے۔(۲۵)
بیندش کاین روزگار از کجاستنمود طلسم بہار از کجاست
بہ نیروی نُہ چرخ برھم زدننشاید ز دانست او دم زدن
گروھی ببند گہر یافتنفروبستہ دل در زمین کافتن

دونوں تراجم کو بہ نظر غائر پڑھنے سے پتا چلتا ہے کہ نبی احمد باجوہ شاعر کے اصل مطلب و مدعا تک پہنچے سے قاصر ہیں اور غلط راستے پر گامزن ہیں، “غالب اور فلسفۂ غم” کے زیر عنوان نبی احمد باجوہ نے فارسی اشعار کا منظوم ترجمہ کیا۔ غالب اپنی مثنویوں میں زیادہ مشکل اور دقیق الفاظ استعمال نہیں کرتے لیکن اِکا دُکا ایسے الفاظ مثنویوں میں ہمیں نظر آتے ہیں۔ نبی احمد باجوہ سے فارسی اشعار پڑھنے میں غلطی سرزد ہوئی ہے۔ چنانچہ انھوں نے ایک شعر کو غلط پڑھ کر اس کا یوں ترجمہ کیا ہے: (۲۶)
چہ گوید زبان آوری بی نواکہے کیا زبان آور بے نوا
چہ آید زہیلاج بی کر ندابھلا بہرے گونگے کی کیا ہو ندا

اس شعر کا رفیق خاور نے صحیح منظوم ترجمہ کیا ہے اور شاعر کے مدعا اور مطلب کو خوبصورت انداز میں بیان کیا ہے۔ یہاں اصل فارسی شعر رفیق خاور کے ترجمے کے ساتھ ملاحظہ ہو۔ (۲۷)
چہ گوید زبان آور بی نواچہ آید زھیلاج بی کدخدا
ترجمہ: کہے کیا کوئی شاعر بے نواکرے کیا کوئی بیوہ بے آسر (۲۸)
ڈاکٹر حمد حسن حائری نے “سومنات خیال” میں غالب کے فارسی قصائد میں مشکل الفاظ کے معانی درج کیے ہیں۔ اس کے علاوہ فرہنگ دہخدا میں بھی “ہیلاج” کی وضاحت بھی ملتی ہے۔ ہیلاج کا لفظ اصل میں ہندی یا یونانی ہے اور اس کے معنی ہیں “آبِ حیات” نجوم کی اصطلاحات میں “ہیلاج” جسم اور کا لبد کے معنوں میں آتا ہے اور اسے “کدبانو” (گھریلو خاتون) بھی کہتے ہیں اور “کدخدا” وہ ستارہ ہے جو “ہیلاج” کی جگہ پر قبضہ کر لے اور روح کے معنوں میں آتا ہے ایک طرح سے ہیلاج “ماں” اور کدخدا “باپ” کے معنوں میں استعمال ہوتے ہیں۔ (۲۹)
ڈاکٹر محمد حسن حائری کے توضیحی الفاظ اور معانی کے بعد ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ رفیق خاور نےالفاظ کے اصل معانی تک رسائی حاصل کرنے کے لیے بڑی محنت کی ہے اور ان الفاظ کو ٹھیٹھ اردو میں ترجمہ کیا ہے۔ اگرچہ ترجمے میں طباعت کی غلطیاں موجود ہیں تاہم وہ اپنے ترجمے میں بڑی حد تک کامیاب نظر آتے ہیں۔
بعض مقامات پر دونوں مترجمین کے تراجم میں یکسانیت نظر آتی ہے۔ اس کی اصلی وجہ ہو سکتی ہے کہ فارسی اور اردو شعری روایت میں ایسے الفاظ اور تراکیب ملتی ہیں جو دونوں زبانوں میں مستعمل ہیں اور مترجم اصل شعر کو بعینہٖ دوسری زبان میں داخل کرتا ہے اور ضرورتِ شعری کے باعث دوسرا مصرع جب منظوم کرتا ہے تو پہلے مصرع کی مناسب سے ردیف اور قافیہ ایسا اختیار کرتا ہے کہ مصرع موزوں ہوگا۔ دوسرے مترجم کے ذہن میں بھی یہی خیال آتا ہے اور اسے فی الفور نظم کے پیرائے میں لاکر دونوں تراجم کے اسلوب اور ہیئت میں یکسانیت آتی ہے۔
ابر گہر بار کو منظوم ترجمہ کرنے میں اولیت رفیق خاور کو حاصل ہے اور انھوں نے غالب کے اشعار میں موجود کیفیات، حالات، جذبات کو بڑے خوبصورت انداز میں اردو میں منتقل کیا ہے۔  بعض مقامات پر رفیق خاور نے ایک شعر کا چند اشعار میں ترجمہ کیا ہے تاکہ مطلب کا حق ادا ہو جائے، نبی احمد باجوہ کے ترجمے کی حیثیت ثانوی ہے کیونکہ انھوں نے پوری مثنوی کا ترجمہ نہیں کیا اور اہمیت و ضرورت کے پیش نظر بعض حصوں کا منظوم ترجمہ کیا ہے، البتہ یہ بات ذہن میں رہے کہ چوہدری نبی احمد باجوہ نے پوری کوشش کی ہے کہ مثنوی میں موجود کیفیات و حالات کو اردو کے پیرائے میں منتقل کریں اور ان کے ترجمے میں بھی ہمیں روانی، سلاست نظر آتی ہے، تاہم بعض مقامات پر ہمیں اشعار کے ترجمے میں سقم نظر آتا ہے، جسے ہم نظر انداز نہیں کر سکتے۔ رفیق خاور کے منظوم ترجمے میں ہمیں زیادہ کشش اور موسیقیت نظر آتی ہے اور الفاظ و تراکیب ایک لطیف پیرائے میں بہتے ہوئے نظر آتے ہیں، ترجمے کو اصل فارسی اشعار سے ملا کر پڑھنے سے وہی کیفیت زیادہ محسوس ہوتی ہے لیکن رفیق خاور نے اپنے ترجمے میں اصل اشعار درج کرنے سے اجتناب کیا ہے اور پہلے حصے میں وہ اشعار شامل کیے ہیں جو “مناجات” والے حصے میں شامل ہونے چاہیے تھے، مجھے اس بات پر حیرت ہوئی اور میرا یہ خیال ہے کہ ممکن ہے انھوں نے جس ایڈیشن سے استفادہ کیا ہو اس میں اشعار کی ترتیب یوں ہو گی کیوں کہ “صحیح نامہ” میں اس موضوع کے حوالے سے ہمیں کوئی وضاحت نہیں ملتی۔ اس ترجمے کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ ترجمے کے بعد رفیق خاور نے اس فارسی مثنوی کا تجزیاتی مطالعہ پیش کیا ہے جو اپنی نوعیت کے اعتبار سے نہایت مفید اور علم افروز ہے۔

چراغِ دیر کے منظوم تراجم کا تنقیدی مطالعہ:
غالب جب سفر کلکتہ پر روانہ ہوئے، دورانِ سفر انھیں بنارس شہر میں قیام کرنے کا موقع ملا، ان کی صحت جو پہلے کافی خراب ہو چکی تھی اس میں بہتری کے آثار نمایاں ہوئے اور اصل امراض میں افاقہ حاصل ہوا۔ اس شہر کی مہ جبینوں نے غالب کے دل و دماغ پر اثر چھوڑا اور بنارس کی آب و ہوا انھیں بہت راس آئی، غالب نے اپنے تاثرات اور احساسات کو مثنوی کی شکل میں رقم کیا اور مثنوی کا نام “چراغِ دیر” رکھا۔ یہ مثنوی ان کی ذاتی کیفیات و حالات کی بھرپور عکاسی کرتی ہے، اس مثنوی کے کئی لوگوں نے منظوم اور منثور تراجم پیش کیے۔ ان میں سے حنیف نقوی ، اختر حسن، نبی احمد باجوہ اور مضطر مجاز کے منظوم تراجم سر فہرست ہیں۔ یہاں ان منظوم تراجم کا تنقیدی جائزہ پیش کریں گے۔

  1. حنیف نقوی نے اپنے ترجمے میں چھوٹی بحر اختیار کی ہے اور ترجمے میں ہمیں موزونیت اور روانی محسوس ہوتی ہے۔ بعض مقامات پر ایک شعر چند اشعار کی صورت میں ترجمہ ہوا ہے۔ اس لیے ترجمے میں طوالت نظر آتی ہے، لیکن مطلب و مدعا بڑے لطیف پیرائے میں سامنے آتا ہے۔ جو کیف و وجد ہمیں غالب کے فارسی اشعار میں محسوس ہوتا ہے وہ حنیف نقوی کے ترجمے میں بھی نظر آتا ہے۔ بعض مقامات پر مترجم نے اصل فارسی الفاظ و تراکیب کو اپنے منظوم ترجمے میں لا کر ترجمے کا لطف دوبالا کیا ہے، دراصل منظوم ترجمے میں جو بات سب سے اہم ہے وہ یہ ہے کہ شعر کو اس انداز سے منتقل کیا جائے جس میں کیفیت اور تاثر برابر قائم رہے اور یہ کام وہی شخص کر سکتا ہے جو منظوم ترجمے کی نزاکتوں اور لطافتوں سے پوری طرح واقف ہو۔ ہمیں حنیف نقوی کے ترجمے میں ایک بہاؤ اور شعری تسلسل محسوس ہوتا ہوا نظر آتا ہے۔

(ii )    اختر حسن نے بھی مثنوی “چراغِ دیر” کا منظوم ترجمہ کیا ہے۔ یہ ترجمہ مختصر اور جامع ہے، انھوں نے فارسی اشعار کو بھی اپنے ترجمے میں شامل کیا ہے۔ اختر حسن نے طویل بحر اختیار کی ہے لیکن اس ترجمے میں ہمیں خامیاں نظر آتی ہیں، مثال کے طور پر فارسی اشعار کے ترجمے میں وہ مدعا اور مطلب کو پوری طرح سے منتقل کرنے میں قاصر ہیں۔ ایک شعر، ترجمے کے ساتھ ملاحظ ہو۔ (۳۰)
پریشان تر از زلفم داستانیستپریشاں ہے مثالِ زلفِ برہم داستاں میری
بدعویٰ ، ہر سرِ مویم زبانیستدلوں کو چیر کر رکھ دے فغاں خونچکاں میری

حنیف نقوی نے اپنے ترجمے میں مختصر الفاظ کی شکل میں ترجمے کا حق ادا کیا ہے اور معانی و مفاہیم پوری طرح اردو کے پیکر میں ڈھل گئے ہیں۔
حکایت یہ برہم مثلِ گیسومرے دعوے پہ شاہد ہر بنِ مو (۳۱)

حنیف نقوی کے منظوم ترجمے کے مقابلے میں اختر حسن کا ترجمہ ماند پڑتا ہے کیوں کہ مترجم بعض اشعار کے ترجمے میں قاصر اور بے بس ہیں اور اصل مطلب و مدعا کو کچھ سے کچھ بناتے ہیں۔ جس طرح کی لطافت اور موسیقیت حنیف نقوی کے ترجمے میں ہمیں نظر آتی ہے وہ اختر حسن کے ترجمے میں مفقود ہے۔ حنیف نقوی کے ترجمے کی سب سے خوبی اس کی جامعیت اور اختصار ہے، کم از کم الفاظ میں فارسی شعر کو اس انداز سے اردو کے پیکر میں ڈھالتے ہیں کہ مطلب و مدعا پوری طرح خود ہی بولنے لگتا ہے۔ 
(iii ) ان تراجم کے علاوہ جس طرح پہلے بھی ذکر آیا ہے نبی احمد باجوہ نے بھی “چراغِ دیر” کے نصف حصے کا ترجمہ کیا ہے۔ انھوں نے اپنے ترجمے میں فارسی الفاظ و تراکیب کو بعینہٖ منتقل کیا ہے تاکہ مثنوی کا تاثر قائم رہے، یوں کہنا چاہیے کہ انھوں نے تمام الفاظ کے ترجمے سے یوں دوری اختیار کی ہے کہ بعض اشعار پورے طور پر بعینہٖ منتقل ہو چکے ہیں۔ البتہ ان کا یہ طریقہ معقول اور پسندیدہ ہے چوں کہ وہی الفاظ اور تراکیب اردو شاعری میں بھی مستعمل ہیں۔ لیکن بعض صورتوں میں اگر بعینہٖ الفاظ منتقل کیے جائیں تو اس سے قاری کو بھی شعر سمجھنے میں دقت پیش آتی ہے، مجموعی طور پر اگر دیکھا جائے تو نبی احمد باجوہ کے ترجمے پر فارسیت کا غلبہ مشہود ہے۔ ان تینوں تراجم میں سے حنیف نقوی کے ترجمے کو اوّلیت حاصل ہے، اس کے بعد نبی احمد باجوہ کے ترجمے کو ثانوی حیثیت حاصل ہے چوں کہ اس میں مترجم نے مفہوم کے سمجھانے میں کہیں پیچیدگی اور ابہام کا راستہ اختیار نہیں کیا اور ان کے ترجمے کی بحر میں روانی اور بہاؤ بھی قائم ہے۔ اختر حسن کے ترجمے میں خامیاں نظر آتی ہیں اور ان کے ترجمے کو پڑھتے ہوئے اصل مثنوی کی سی کیفیت بھی محسوس نہیں ہوتی۔
(iv ) مضطر مجاز کا ترجمہ مختصر ہے اور چند اشعار کے ترجمے پر مشتمل ہے اس لیے دوسرے تراجم کے مقابلے میں ثانوی حیثیت کا حامل ہے اور اسے درخورِ اعتنا نہیں سمجھا جاتا۔ 
تقریظ آئین اکبری کے منظوم تراجم ۔۔۔۔ تنقیدی مطالعہ:
جب سرسید احمد خاں نے آئین اکبری کی تدوین کی، ان کی خواہش تھی کہ مرزا غالب کتاب کی تقریظ لکھیں، غالب نے ایک فارسی تقریظ لکھی جس میں آئین اکبری کی تدوین کی خدمت کی اور سرسید احمد خاں کے اس تدوینی کام کو عبث اور بے کار قرر دیا۔ سرسید نے غالب کی فارسی تقریظ کتاب میں شامل نہیں کی۔ اس مثنوی میں مرزا غالب نے انگریز سرکار اور مغرب کی تخلیقی صلاحیتوں کی بھرپور تعریف کی۔ 
(i ) اس مثنوی کا ایک منظوم ترجمہ نبی احمد باجوہ نے کیا ہے جس میں تقریباً تمام اشعار کے اردو تراجم موجود ہیں اور ان کا اسلوب سادہ اور رواں ہے۔
(ii ) اس منظوم ترجمے کے علاوہ مضطر مجاز نے مذکورہ مثنوی کے اشعار کا منظوم ترجمہ کر دیا ہے جو نتالیاپری گارینا کی کتاب “غالب” میں شامل ہے۔ مضطر مجاز تقریظ آئین اکبری کے ان اشعار کو منظوم پیرائے میں لائے ہیں جن میں مرزا غالب نے سرسید احمد خاں کے تدوینی کام پر اعتراض کیا ہے اور انھیں طنز کا نشانہ بنایا ہے۔ جب دونوں مترجمین کے تراجم کو غور سے پڑھیں تو ایک شعر کے ترجمے میں ہمیں ابہام نظر آتا ہے۔
طرزِ تحریرش اگر گوئی خوش ستطرز تحریر اللہ اللہ خوب ہے
کی فزون از ہرچہ میجوئی خوش ستنور سے جو کچھ بھی دیکھا خوب ہے (۳۲)

مضطر مجاز غالب کے اصل مفہوم کو بیان کرنے سے قاصر ہیں، نبی احمد باجوہ بھی مضطر مجاز کی طرح اس شعر کے اصل مفہوم تک نہ پہنچ سکے اور ان سے بھی غلطی سرزد ہوئی وہ یوں ترجمہ کرتے ہیں:
طرزِ تحریر اس کی کہیے گر ہے خوبمانیے گر اس کی خوبی کا وجوب (۳۳)

اس شعر کا اصل مطلب یہ ہے کہ اگر اس کا طرزِ تحریرعمدہ ہے تو کیا اس  اعلیٰ فن پارے سے بھی بہتر ہوگا یعنی اس سے اچھا فن پارہ نہیں ملے گا؟
میرے خیال سے اس طرح کی غلطیاں تب رونما ہوتی ہیں جب مترجم یا تو شعر کو غلط پڑھتا ہے یا پھر وہ شعر کے الفاظ و تراکیب کے اصل معانی پر غور نہیں کرتا غالب کے شعر میں بھی تھوڑی سی پیچیدگی موجود ہے۔

رباعیات:
ہم کلام (فارسی رباعیات غالب کا ترجمہ)__مترجم؛ صبا اکبر آبادی:
صبا کبر آبادی کا یہ منظوم ترجمہ اہمیت کا حامل ہے کیونکہ انھوں نے غالب کی تمام رباعیات کا منظوم ترجمہ پیش کیا ہے۔ بعض رباعیات کے دو منظوم ترجمے پیش کیے ہیں۔ “ہم کلام” فارسی رباعیات غالب کا ایک منفرد منظوم ترجمہ ہے۔ اس منظوم ترجمے میں صبا اکبر آبادی نے کوشش کی ہے کہ غالب کی رباعیات کو اردو کے سانچے میں ڈھالیں لیکن بعض مقامات پر صبا اکبر آبادی نے غالب کی رباعیات کے اصل مفاہیم تک رسائی حاصل نہیں کی اور ان سے غلطیاں سرزد ہوئی ہیں۔ بعض ایسے مقامات بھی ہیں جن میں مترجم سے غالب کی اصل رباعی کی قرأت میں غلطی ہوئی اور انھوں نے اشعار کے غلط معانی و مفاہیم منتقل کیے ہیں۔ اس کے علاوہ بعض رباعیات میں صبا اکبر آبادی نے بعض الفاظ کے مفاہیم سمجھنے میں ٹھوکریں کھائی ہیں، مثال کے طور پر جس رباعی میں غالب نے اپنے حسب نسب کا ذکر کیا ہے، صبا نے لفظ “زادشم” کا ترجمہ “تیغ دو دم” کیا ہے۔ “زادشم” دراصل افراسیاب کے جد امجد کا نام ہے اور غالب نے اپنے فارسی اشعار میں اپنا شجرہ نامہ افراسیاب اور “زادشم” تک بتایا ہے۔ غالب کی فارسی رباعی، صبا اکبر آبادی کے منظوم ترجمے کے ساتھ دیکھیے:(۳۴)
غالب بہ گہر زدودۂ زادشممغالب یہ نسب نامہ مرا تیغ دو دم
زان رو بہ صفائی دم تیغست دمم تلوار کی دھار ہے نفس سے مرے کم
چون رفت سپہبدی زدم چنگ بہ شعراب شاعری ہے سپہ گری کے بدلے
شد تیرِ شکستۂ نیاکان قلممٹوٹے ہوئے نیزوں کو بنایا ہے قلم

اس ترجمے میں ایسے بہت سے شعر ہیں جن کے اصل مفاہیم تک موصوف مترجم نے رسائی حاصل نہیں کی۔ ان رباعیات کے مختلف پہلوؤں پر خلیفہ عبدالحکیم نے اپنی شرح “افکار غالب” میں بحث کی ہے اور غالب کے افکار اور خیالات کی اچھی وضاحت کی ہے۔ ایک رباعی میں صبا اکبر آبادی نے شعر کے ترجمے میں پورا حق ادا نہیں کیا ہے اور خلیفہ عبدالحکیم نے اس کی نہایت خوبصورت انداز میں وضاحت کی ہے:
ہر چند زشت و ناسزائیم ہمہحالانکہ خراب و ناسزا ہیں ہم سب
در عہدۂ رحمت خدائیم ہمہہاں طالبِ رحمتِ خدا ہیں ہم سب
در جلوہ دہد چنانکہ مائیم ہمہتو جلوہ نما ہو ، ہم ہیں جیسے بھی ہیں
شائستہ نفت و بوریائیم ہمہشائستہ خاک و بوریا ہیں ہم سب (۳۵)

ہر چند ہم سب انسانوں میں نکوہیدہ اور ناپسندیدہ خصائص اور صفات موجود ہیں لیکن رحمت حق تعالیٰ کی وجہ سے یہ سب انسان معاف کیے جاتے ہیں اور دنیا میں اللہ کی رحمتیں ہم سب لوگوں پر برستی رہتی ہیں۔ دوسرے مصرع میں غالب کہتا ہے کہ اگر تمام لوگ ہمارے پوشیدہ اور مخفی گوشوں سے آشنائی حاصل کریں اور ہماری طبیعت لوگوں پر عیاں ہو جائے اور حق تعالیٰ کے حضور میں بے نقاب ہو جائیں تو اس وقت ہم اس لائق ہیں کہ ہمارے نصیب میں تیل اور چٹائی ہو۔ چٹائی میں جب آتش گیر مادہ جذب ہو جائے تو اس میں آگ لگ جاتی ہے۔ یعنی ہم سب شرم کے مارے اس لائق ہیں کہ جل جائیں اور ہم فنا ہو جائیں۔ صبا اکبر آبادی نے دوسرے شعر کو جیسا اس کا حق بنتا تھا ترجمہ نہیں کیا ہے بلکہ مفہوم اور مطلب سمجھانے میں وہ ایک طرح سے بے بس ہیں۔
ایک اور رباعی میں صبا اکبر آبادی نے لفظ “کلاوہ” کے لفظی معنی کوغلط سمجھا ہے اس لیے پورے مصرع کو غلط ترجمہ کیا ہے۔ “کلاوہ” کا لفظی مطلب ہے لُچھّا اور رباعی میں غالب نے اسے دھاگے کے لچھے کے معنوں میں استعمال کیا ہے لیکن صبا اکبر آبادی نے کچھ اور ترجمہ کیا ہے۔ (۳۶)
ہستم زمی امید سرمست و بس استامید کی مے کا کیف کچھ کم بھی نہیں
دارم سیر این کلاوہ در دست و بس استسر پر جو نہیں تاج تو سرخم بھی نہیں
گر ارزش لطف و گرمی نیست مباشحق دارِ کرم ہوں یہ توقع ہے بہت
استحقاق ترحمی ہست و بس استکب رحم کریں گے مجھے یہ غم بھی نہیں

رباعی کے پہلے شعر کا مطلب یہ ہے کہ مجھے مے اور شراب سے سرمستی اور خوشی حاصل ہے اور جب تک میرے لیے مے سرمستی کا باعث ہے تو یہ میرے لیے کافی ہے۔ دوسرے مصرع کا لفظی مطلب ہے “جب تک میرے ہاتھوں میں اس دھاگے کا لچھا ہے” ، یہاں صبا اکبر آبادی نے کچھ اور مطلب بیان کیا ہے جو اصل شعر کے معنی و مفہوم سے میل نہیں کھاتا۔ مترجم نے اصل معانی و مفاہیم تک رسائی حاصل نہیں کی۔ اس طرح کی اور غلطیاں اس منظوم ترجمے میں موجود ہیں۔ مجموعی طور پر صبا کا یہ منظوم ترجمہ ایک مفہومی اور معنائی ترجمہ ہے جو مطلب مترجم کے ذہن میں آیا اسے منظوم پیرائے میں بیان کیا، الفاظ کے لفظی اور لغوی معانی کی طرف توجہ نہ رہی بلکہ یہ ترجمہ مترجم کی تخلیقی صلاحیتوں کا ایک ایسا نمونہ ہے جس میں انھوں نے کوشش کی ہے کہ غالب جیسی کیفیت برقرار رکھیں۔ اگر اس منظوم ترجمے کا خلیفہ عبدالحکیم کی رباعیات غالب کی مختصر اور منتخب شرح سے موازنہ کریں تو خلیفہ عبدالحکیم کی شرح کئی جہات سے اس سے بہتر ہے اور ان کی حکیمانہ شرح میں ہر رباعی اپنی اصل شکل میں جلوہ گر ہے۔ درحقیقت خلیفہ عبدالحکیم نے رباعیات کا تنقیدی جائزہ بھی پیش کیا ہے۔ صبا اکبر آبادی سے جتنی غلطیاں صادر ہوئی ہیں، خلیفہ عبدالحکیم نے اپنی شرح میں ان کا ایک طرح سے ازالہ کیا ہے اور شاعر کے اصل مدعا اور مطلب ذہن نشین کیا ہے۔ انھوں نے اپنی فلسفیانہ ذہانت کے ذریعے غالب کے اصل خیالات اور جذبات تک رسائی حاصل کی ہے۔

قطعات:
غالب کے فارسی قطعات کا ایک منظوم ترجمہ نبی احمد باجوہ نے “شش جہات غالب” میں کیا ہے۔ یہ فارسی قطعات کا ایک منتخب منظوم ترجمہ ہے، نبی احمد باجوہ نے فارسی قطعات کے انتخاب میں تاریخی قطعات کو نظر انداز کیا ہے اور غالب کے ان قطعات کو اردو میں ترجمہ کیا ہے جو کسی خاص واقعے یا حادثے کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ ان قطعات میں نہ صرف مرزا غالب نے اپنے حریفوں پر بھی طنز کیا ہے بلکہ ان کا وہ مشہور فارسی قطعہ بھی شامل ہے جس میں انھوں نے کھلے انداز میں شیخ ابراہیم ذوقؔ پر طنز کیا ہے۔
(i ) نبی احمد باجوہ نے فارسی قطعات کے ترجمے میں بڑی مہارت سے کام لیا ہے اور نفسِ مضمون سے اپنی پوری واقفیت کا ثبوت فراہم کیا ہے۔ غالب کے فارسی قطعات کے اس منظوم ترجمے میں غالب کے حسب نسب، ان کے ہم عصر شاعر ابراہیم ذوق سے عصری چشمک، غالب کے عصری حالات و واقعات بخوبی نمودار ہیں۔ قطعات کے ترجمے میں نبی احمد باجوہ نے ردیف اور قوافی کا التزام رکھا ہے اور صحیح انداز میں یہ قطعات اردو کی وادی میں منتقل کیے ہیں۔ 
(ii ) نبی احمد باجوہ کے علاوہ شاید کسی نے بھی ان قطعات کے منظوم ترجمے کی طرف توجہ نہیں دی۔ البتہ نتالیاپری گارینا کی کتاب “غالب” کے اردو ترجمے میں مضطر مجاز نے دو ایک قطعات کے منتخب اشعار کا منظوم ترجمہ کیا ہے اور ان میں سے ایک وہ قطعہ ہے جو غالب نے شیخ ابراہیم ذوق کے جواب میں لکھا اور اس میں اپنی شاعرانہ تعلی کا بھرپور اظہار کیا۔ مضطر مجاز نے تمام فارسی قطعے کا منظوم ترجمہ نہیں کیا بلکہ منتخب شعروں کے ترجمے پر اکتفا کیا۔ اس مختصر ترجمے میں مضطر مجاز نے صحیح پیرائے میں فارسی اشعار کو منتقل کیا ہے اور ردیف و قوافی کا خوب انتظام کیا ہے۔
غالب کے مشہور “زندان نامہ” کا منظوم ترجمہ ۔۔۔۔ تنقیدی مطالعہ:
غالب نے اپنے ترکیب بند “زندان نامہ” میں قید خانے میں اپنے تاثرات اور جذبات کو شعر کے پیرائے میں نظم کیا ہے۔ نبی احمد باجوہ کے بقول یہ نظم سو سال تک غالب کی کلیاتِ نظم (فارسی) میں شامل نہ ہو سکی۔ تاریخی لحاظ سے یہ نظم غالب کی زندگی کا ایک اہم موڑ ہے اور شاعر نے کھلے انداز میں اپنی بے بسی اور لاچاری کا اظہار بڑے دردناک لہجے میں کیا ہے، اس وقت مصطفی خاں شیفتہؔ (حسرتیؔ ) ان کے مخلص شاگردوں اور احباب میں تھے اور انھوں نے مرزا غالب کی دلجوئی کی۔
نبی احمد باجوہ نے اس ترکیب بند کا منظوم اردو ترجمہ کیا ہے لیکن ان کے ترجمے پر فارسیت کا زیادہ غلبہ نمایاں نظر آتا ہے۔ بعض مصرع بعینہٖ منتقل ہو چکے ہیں جس کے نتیجے میں منظوم ترجمے میں اردو شاعری کی روایت کی کمی محسوس ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر یہ شعر ملاحظہ ہو:
یار دیرینہ قدم رنجہ مفرما کاین جاآن نگنجد کہ تو درکوبی و من باز کنم
یار دیرینہ قدم رنجہ نفر ما کہ یہاںیوں نہیں کہ تری دستک پہ میں درباز کروں (۳۷)

“یاردیرینہ قدم رنجہ نفرما” اور “درباز کردن” سو فیصد فارسی ہیں اور ان میں اردو زبان و ادب کی روایت ہمیں نظر نہیں آتی۔ مترجم اس نظم کے ترجمے میں ردیف و قوافی کے التزام کے جال میں پھنسا ہے اور ہر شعر کے آخر میں بعینہٖ قافیہ منتقل کرتا ہے اور ردیف و قافیہ ترجمہ کرکے اس شعر کی ہیئت بدلنے کی کوشش میں ہے لسانی لحاظ سے دیکھا جائے یہ ترجمہ جو نبی احمد باجوہ نے کیا ہے اس پر فارسی الفاظ اور فارسی شاعری کی روایت حاکم ہے اور ترجمہ دوسری زبان کی شعری روایت کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ ایک شعر کے ترجمے میں نبی احمد باجوہ سے بھی غلطی صادر ہوئی ہے لیکن یہ حیرت کی بات ہے کہ حواشی میں الفاظ کے معانی صحیح درج ہیں جبکہ منظوم ترجمے میں شعر غلط ترجمہ ہوا ہے۔ 
چون من آیم بہ شما شکوۂ گردون نار واستزین سپس ژاژ مخایید کہ من می آیم

ترجمہ: تم میں شامل ہوا میں شکوہ فلک کا چھوڑواس تشکر میں نہ گھبراؤ کہ میں آتا ہوں (۳۸)پ
زین سپس : اس کے بعد ژاژ خائیدن : بیہودہ گوئی ۔ یا وہ سرائی
نبی احمد باجوہ “زین سپس” کا ترجمہ “اس تشکر میں” اور “ژاژ خائیدن” کا “نہ گھبراؤ” میں کیا ہے جو غلط ہے اور یہاں ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ “شش جہات غالب” کے منظوم ترجمے اور اس میں مندرج حواشی میں ہم آہنگی موجود نہیں ہے او ر قوّی احتمال یہ ہے کہ کسی اور شخص نے اس ترجمے پر حواشی کا التزام کیا ہو۔
(iii ) مضطر مجاز نے بھی اس ترکیب بند کے بنداوّل اور سوّم کے منتخب اشعار کا اردو ترجمہ کیا ہے، مضطر مجاز کا منظوم ترجمہ، نبی احمد باجوہ کے ترجمے سے ہمیں بہتر نظر آتا ہے، انھوں نے بھی اپنے منظوم ترجمے میں ردیف و قوافی کا التزام رکھا ہے۔ مضطر مجاز کے ترجمے کا حسن یہ ہے کہ ان کا ترجمہ با محاورہ ہے اور جو لطف ان کے ترجمے میں ہمیں محسوس ہوتا ہے وہ نبی احمد باجوہ کے ترجمے میں کمتر ہوگا۔ ایک شعر کا ترجمہ ملاحظ ہو: (۳۹)
ہلہ دزدانِ گرفتار! وفا نیست بہ شہرآؤ اے چور اچّکو! کہ وفا جگ میں نہیں
خویشتن را بہ شما ہمدم و ہمراز کنماب میں اپنا ہی تمھیں ہم دم و ہم راز کروں

اگر مضطر مجاز اس پوری نظم کا ترجمہ کر لیتے تو بے شک ان کا ترجمہ بغایت عمدہ ہوتا اور نظم میں موجود کیفیات و جذبات نمایاں طورپر ابھرتے۔

حوالہ جات

۱) عبدالرؤف۔ رفیق خاور: احوال و آثار۔ مقالہ براے پی ایچ۔ڈی اردو، پنجاب یونیورسٹی لاہور: ۲۰۰۴ء۔ ص۴۴۲
۲) چوہدری نبی احمد باجوہ۔ “احوال واقعی” ۔ مشمولہ، شش جہات غالب۔ لاہور: آل پاکستان اسلامک ایجوکیشن کانگرس، ۱۹۷۲ء
۳) ایضاً ۔ گزارش مؤلف
۴) خلیق انجم۔ غالب کا سفر کلکتہ اور کلکتے کا ادبی معرکہ۔ نئی دہلی: غالب انسٹی ٹیوٹ، ۲۰۰۵ء۔ ص۵۵
۵) مجنوں گورکھپوری۔ “پیش لفظ”۔ مشمولہ، ہم کلام۔ صبا اکبر آبادی۔ کراچی: بختیار اکیڈمی، ۱۹۸۶ء
۶) صبا اکبر آبادی۔ ہم کلام۔ کراچی: بختیار اکیڈمی، ۱۹۸۶ء۔ ص۱۷
۷) محمد انصار اللہ۔ غالب ببلیو گرافی۔ نئی دہلی: غالب انسٹی ٹیوٹ، ۱۹۹۸ء۔ ص۱۹۶
۸) افتخار احمد عدنی۔ “فلیپ” ۔ غالب نقش ہاے رنگ رنگ۔ لاہور: پاکستان رائٹرز کو آپریٹو سوسائٹی، ۲۰۰۵ء
۹) ڈاکٹر ناہید قاسمی ۔ “خالد حمید شیدا کی غزل” ۔ مشمولہ، سہ ماہی سورج۔ لاہور: جلد نمبر۳۵، شمارہ۳۔۴، ۲۰۰۷ء۔ ص۶۰۱۔۶۰۲
۱۰) خالد حمید شیدا۔ “عرض شیدائی” ۔ مشمولہ، سہ ماہی سورج۔ لاہور: جلد ۳۵، شمارہ۳۔۴، ۲۰۰۷ء۔ ص۲۷۔۲۸
۱۱) نبی احمد باجوہ۔ شش جہات غالب۔ لاہور: آل پاکستان اسلامک ایجوکیشن کانگریس، ۱۹۷۲ء۔ ص۲۴۔۲۵
۱۲) آفاق صدیقی۔ “عدنی صاحب کی غالب شناسی” ۔ مشمولہ، نقش ہاے رنگ رنگ۔ افتخار احمد عدنی۔ لاہور: پاکستان رائٹرز کو آپریٹو سوسائٹی، ۲۰۰۵ء۔ ص۶
۱۳) افتخار احمد عدنی۔ نقش ہاے رنگ رنگ۔ ص۱۲۶۔۱۲۷
۱۴) ایضاً ۔ ص۹۶۔۹۷           ۱۵) ایضاً ۔ ص۱۳۰۔۱۳۱
۱۶) صوفی غلام مصطفی تبسم۔ شرح غزلیاتِ غالب (فارسی)۔ جلد دوّم۔ لاہور: پیکجز لمیٹد، ۱۹۸۱ء۔ ص۴۶۸
۱۷) ایضاً ۔ ص۳۷۹
۱۸) خالد حمید شیدا۔ غزلیات فارسی غالب (منظوم اردو ترجمہ)۔ اسلام آباد: بزم علم و فن پاکستان، ۲۰۰۰ء۔ ص۳۷۵
۱۹) افتخار احمد عدنی۔ نقش ہاے رنگ رنگ۔ ص۱۴۳
۲۰) ڈاکٹر انوار احمد۔ “اجتماعی یادداشت کے سر چشمے تک رسائی کی ایک کاوش” ۔ مشمولہ، سہ ماہی سورج۔ جلد۳۵، شمارہ۳۔۴، ۲۰۰۷ء۔ ص۶۱
۲۱) رفیق خاور۔ ابرگہر بار (اردو ترجمہ)۔ کراچی: رائٹرز بیورو، ۱۹۶۹ء۔ ص۱۴۱
۲۲) مرزا اسد اللہ غالب۔ کلیاتِ غالب فارسی۔ جلد اوّل۔ مرتبہ؛ سید مرتضیٰ حسین فاضل لکھنوی۔ لاہور: مجلس ترقی ادب، ۲۰۱۱ء۔ ص۳۶۳
۲۳) رفیق خاور۔ ابرگہر بار (اردو ترجمہ)۔ ص۳۳
۲۴) نبی احمد باجوہ۔ شش جہات غالب (مثنویات)۔ لاہور: آلِ پاکستان اسلامک ایجوکیشن کانگریس، ۱۹۷۲ء۔ ص۲۶۔۲۷
۲۵) مرزا اسد اللہ خان غالب۔ کلیاتِ غالب فارسی۔ جلد اوّل۔ مرتبہ؛ سید مرتضیٰ فاضل لکھنوی۔ ص۳۲۱
۲۶) نبی احمد باجوہ۔ شش جہات غالب (مثنویات)۔ ص۸۴
۲۷) مرزا اسد اللہ خان غالب۔ کلیاتِ غالب فارسی۔ جلد اوّل۔ مرتبہ؛ سید مرتضیٰ فاضل لکھنوی۔ ص۳۹۹
۲۸) رفیق خاور۔ ابر گہر بار (اردو ترجمہ)۔ کراچی: رائٹرز بیورو، ۱۹۶۹ء۔ ص۵۰
۲۹) دکتر محمد حسن حائری۔ سومنات خیال۔ (قصیدہ ھای فارسی غالب دہلوی)، تہران: مؤسسہ انتشارات امیر کبیر، ۱۳۸۱ھ ش۔ ص۳۳۱
۳۰) اختر حسن۔ چراغِ دیر۔ حیدرآباد: انڈین لینگویجز فورم، ۱۹۷۴ء۔ ص۴۶۔۴۷
۳۱) حنیف نقوی۔ چراغِ دیر۔ مشمولہ، غالب کا سفر کلکتہ اور کلکتے کا ادبی معرکہ  مرتبہ؛ خلیق انجم،  نئی دہلی: غالب  ص۶۴
۳۲) مضطر مجاز۔ “تقریظ آئین اکبری”۔ مشمولہ، غالب۔ نتالیا پری گارینا۔ کراچی: مکتبۂ دانیال، ۱۹۹۸ء۔ ص۳۰۱
۳۳) نبی احمد باجوہ۔ شش جہات غالب (مثنویات)۔ ص۲۳۔۲۴
۳۴) صبا اکبر آبادی۔ ہم کلام۔ کراچی: بختیار اکیڈمی، ۱۹۸۶ء۔ ص۱۸
۳۵) ایضاً ۔ ص۲۱               ۳۶) ایضاً ۔ ص۹۶
۳۷) نبی احمد باجوہ۔ شش جہات غالب (مثنویات)۔ ص۴۱
۳۸) ایضاً ۔ ص۴۴۔۴۵
۳۹) مضطر مجاز۔ “زندان نامہ”۔ مشمولہ، غالب۔ نتالیا پری گارینا۔ کراچی: مکتبۂ دانیال، ۱۹۹۸ء۔ ص۲۸۳


اوپر جائیں  |   پرنٹ کیجئےِ
انگریزی ورژن ای میل چیک کریں مرکزی صحفہ پرنٹ پسندیدہ سائٹ بنائیں رابطہ کیجئے www.shahzadahmad.com www.shahzadahmad.com