سانجھی کندھ ۔۔۔۔۔ایک جائزہ

ڈاکٹر عاصمہ غلام رسول۔ اسسٹنٹ پروفیسر، جی سی ویمین یونیورسٹی، فیصل آباد۔

ABSTRACT
This article analyzes short stories of Ghulam Mustafa presented in collections named Sanjhi Kandh. Stories presents rich culture of Punjab, in its current scenes and sensibilities. The style of Ghulam Mustafa is engaging, and language is kept to the possible level of simplicity, that results in fuller communications. Themes of the stories are social problems that are results of social injustice as well as norms and cultural taboos.
 
Key Words: Pnjabi Literature; Punjabi Culture; Punjabi Short Stories
 

ملحفض: پنجابی کی جدید کہانیوں کامجموعہ “سانجھی کندھ”کا تجزیہ کیا ہے۔غلام مصطفی نے اپنی کہانیوں میں پنجاب کی رہتل کی سچی عکاسی کی ہے۔ ان کی تحریر میں پنجابی معاشرے کے کلچر کی بہت عمدہ تصویر کشی کی گئی ہے۔مصنف نے اچھے انداز میں ہمارے دیہاتی زندگی کے مختلف موضوعات کو اپنی کہانیوں کا موضوع بنایا ہے۔
کہانی کو شارٹ سٹوری ، افسانہ جیسے نام ادب میں دیئے گئے ہیں۔ انسان کی فطرت ہے کہ وہ بیتی ہوئی باتوں یا حالات کو سنتا سناتا آیا ہے جب اسے لکھنے کا شعور آیا تو اس نے انہیں لکھنا شروع کر دیا اور ہمیں بہت سی باتیں سوانحی حالات میں لکھی ہوئی ملتی ہیں۔ لیکن جیسے جیسے ترقی ہوتی گئی اسے با قاعدہ صنف کا نام دے دیا گیا ۔ پنجابی زبان میں اس کے آغاز سے قبل اس کی معنی اور تعریف سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ارشاد احمد اپنی لغت میں لکھتے ہیں۔ "کہانی ہڈ بیتی، ہوتی، بیتی، قصہ ،جگ بیتی" (۱) پنجابی اردو لغت میں کہانی کے معنی کچھ یوں بیان ہوتے ہیں۔ "کہانی، سرگزشت، قصہ، افسانہ، داستان، آپ بیتی، جگ بیتی، بحث مباحثہ، جھگڑا، نسبت، بگاتی، منگنی۔” (۲)
فیروز اللغات میں کہانی کے بارے میں درج ہےکہ: کہانی، حکایت، قصہ، داستان، افسانہ و ذکر، بیان، سر گزشت، گزری ہوئی بات۔(۳) بیان کی گئی تعریفوں سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ کہانی، جگ بیتی، افسانہ،قصہ یا داستان وغیرہ کو کہا جاتا ہے پنجاب میں یہ ریت بہت پرانی چلی آرہی ہے کہ جب بچہ سونے لگتا ہے تو اس کی ماں، دادی، نانی یا خالہ وغیرہ پریوں، جنوں یا دیوی دیوتا کی کہانیاں سنایا کرتی تھیں۔ اس وقت کہانی صرف اور صرف تخیلات پر مبنی تھی اس کا حقیقت کے ساتھ کوئی تعلق نہیں تھا۔ کہانی انسان کی زندگی میں اعلیٰ اقدار کی حامل ہے۔ دنیا کے تمام ممالک جہاں علم و فن کو پڑھا اور سمجھا جاتا ہے ان میں کہانی کا رواج بہت قدیم ہے۔ عبدالحمید سرشار کہانی کے بارے میں یوں رقم طراز ہوتے ہیں:
"یونان وچ دیویاں تے دیوتیاں دے دور توں پہلے دیاں کہانیاں موجود نیں۔” (۴)
برصغیر پاک و ہند میں شارٹ سٹوری یا افسانہ انگریز نے متعارف کرایا اور یہ بات بھی مانی جاتی ہے سب سے پہلے یہاں عیسائی مشنریوں نے اپنے مذہب کی تبلیغ کے لیے پنجابی زبان میں کچھ قصے کہانیاں لکھے۔ اسی دوران گور مکھی ٹائپ رائٹر کی ایجاد ہوئی جس کے بعد سکھ پنجابی کہانی کار سامنے آئے۔ کتاب “ سانجھی پیڑ” کے دیباچے میں لکھا ہے:
"انگریزاں دے آون نال ایتھے دے پڑھے لکھے لوکاں نے اوہناں دا ادب پڑھن دی شعوری کوشش کیتی تے اودوں ای نکی کہانی نوں اپنایا گیا”(۵)
ویسے دیکھا جائے تو پنجاب میں لوک ادب موجود رہا ہے اور اب تک اس کے اثرات موجود ہیں۔ چڑیا، طوطا ،مینا، گائے، خرگوش وغیرہ کی کہانیاں بچوں کو سنائی جاتی رہی ہیں۔ لیکن یہ ادب ترقی کرتا کرتا خود بخود کہانی تک نہ آسکا۔ اس پر مغرب کی چھاپ لگنے کے بعد ہی ترقی آئی۔ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی کہانی کی تاریخ کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہتے ہیں:
"پنجابی ول ویکھے تے سانوں ایس دی روپ ریکھا پہلاں پہل لکھی جدید حوالے یا نثر دی کتاب پنجابی بات چیت ۱۸۷۵ء وچ لبھدی اے۔” (۶)
پنجابی زبان میں کہانی لکھنے کا رواج پڑا تو پہلے کہانی کاروں میں لال سنگھ کملا اکالی، گور و بخش کے نام آتے ہیں لیکن پہلا باقاعدہ کہانی کار بھائی ویر سنگھ کو مانا جاتا ہے۔ اس ضمن میں ڈاکٹر شہباز ملک لکھتے ہیں:
" بھائی ویر سنگھ نے وی پنجابی لکھی تے بعض لوک اوہناں نوں ای پہلا کہانی کار مندے نیں۔”(۷)
۲۴۔۱۹۲۳ء میں ہرسدھ پنجابی رسالے “پریتم” اور “پھلواڑی” جاری ہوئے ان میں اس زمانے کی اچھی کہانیاں شائع ہوئیں ڈاکٹر انعام الحق جاوید لکھتے ہیں:
"ہیرا سنگھ درد کا کسان کی آہیں۔ بلونت سنگھ چترتھ کا شپ دی پٹاری، گیانی کبیر سنگھ کنول کا پریت دیا تانگھا، مہر سنگھ کا چنن ہار، موہن سنگھ جوش کا آزادی دے پروانے رام سنگھ کا ست ونڈی، اور کے ایس پنچھی کا پھلواڑیاں مارکیٹ میں آئے۔” (۸)
اس کے علاوہ چرن سنگھ سہیچ، گوربخش سنگھ، نانک سنگھ کے نام مشہور ہیں۔ سکھوں کے علاوہ جو پنجابی زبان کے شاہ مکھی رسم الخط میں سب سے پہلا نام آتا ہے وہ فیصل آباد کے جوشو افضل دین کا ہے انہوں نے ۱۹۲۸ء میں رسالہ “دربار” جاری کیا۔ اس رسالے میں کپور سنگھ، ہرکشن لال، اور اظہر حیدر بھی شاہ مکھی یا فارسی رسم الخط میں لکھنے والے شامل ہوئے پھر یہ کام اور آگے بڑھا تو فضل شاہ، رشید احمد گجراتی، میراں بخش منہاس، تاج دین تاج، محمد رفیع، ریاض انور خورشید عالم اور بہت سے نام ملتے ہیں۔ پاکستان بننے کے بعد کہانی لکھنے کا کام رک سا گیا کیوں کہ زیادہ تر لکھاری بھارت چلے گئے۔
روزنامہ “آغاز” لاہور نے ۱۹۴۸ء میں ایک پنجابی ایڈیشن جاری کیا جس میں سجاد حیدر کی کہانی چھپی۔۱۹۵۱ء میں ڈاکٹر فقیر محمد فقیر نے رسالہ “پنجابی” کے نام سے جاری کیا جس میں کہانی لکھنے والوں کا سمندر اُمڈ آیا۔ جن میں عبدالمجید سالک، صوفی تبسم، مجید لہوری، اکبر لاہوری، جوشو افضل الدین، چودھری محمد اکبر خاں، صادق قریشی، سہیل یزدانی، نور کاشمیری وغیرہ کے نام سامنے آئے۔ ۱۹۶۰ء کے بعد پنجابی کہانی کا عروج شروع ہوا اور بہت سارے اردو لکھنے والوں نے بھی ماں بولی کو ترجیح دی۔
افضل احسن رندھاوا، نواز، احمد ندیم قاسمی، نواز، شریف کنجاہی، اکمل علیمی، رشیدہ سلیم سمیں، نجیب اسلم، شگفتہ پروین، آصف رانا،محمد آصف خاں وغیرہ کے نام شفقت تنویر مرزا اور راجا رسالو ترجمہ کاروں کے روپ میں سامنے آئے۔پھر یہ دور چلتا رہا اور ان میں چودھری حنیف باوا، ناصر بلوچ، پروین ملک، غلام مصطفی بسمل، اقتدار واجد، محمد سلیم بھٹی، احمد شہباز خاور، جمیل احمد پال، کہکشاں کنول، عاشق رحیل، اقبال قیصر، خالد فرحاد، دھاری وال، دلشادٹوانہ، اقبال صلاح الدین، غلام حسین ساجد ، ملک مہر علی، علی اختروغیرہ اور اب باقاعدہ طور پر غلام مصطفی اپنی کتاب “سانجھی کندھ” کے ساتھ شامل ہو چکا ہے۔
کسی بھی زبان کے ساتھ محبت کا ثبوت یہی ہوتا ہے کہ اس میں ادب تخلیق کیا جائے اور اس کا پرچار کیا جائے یہاں ہماری مراد پنجابی زبان سے ہے۔ پنجاب کی اس زبان کو اچھا لکھنے والوں کی ہمیشہ ضرورت رہی ہے۔ دیکھنے میں آتا ہے کہ اردو زبان کے نامورلکھنے والے بھی اپنی ماں بولی کے ساتھ جُڑے رہے ہیں اور اس کے ادب میں اپنا کچھ نہ کچھ حصہ ڈالتے رہے ہیں ۔ ان بڑے ناموں میں سے اشفاق احمد مرحوم، منیر نیازی، شریف کنجاہی، انور مسعود، ڈاکٹر انعام الحق جاوید اور بہت سے نام لیے جا سکتے ہیں۔
غلام مصطفی نے ادب کی طرف اپنی طالب علمی کے دور میں ہی رجوع کیا اس نے پہلی کہانی ۲۰۱۲ء میں لکھی اس کے بعد وہ کچھ نہ کچھ پنجابی زبان میں لکھ کر مختلف رسائل میں شائع کرواتا رہا یہی نہیں اس نے اس شوق کو فرض کی طرح سمجھا اور اپنی شائع شدہ اور نئی کہانیوں کو یکجا کر کے ایک مجموعہ کی شکل میں سنگری پبلشرز، فیصل آباد سے۲۰۱۷ء میں ہی شائع کروایا۔ اس پنجابی کہانیوں کے مجموعے کا نام “سانجھی کندھ” ہے اس کا دیباچہ “احمد شہباز خاور” اور فلیپ علی اختر نے لکھا ہے۔ یہ دونوں بھی فیصل آباد میں پنجابی زبان و ادب کا قیمتی سرمایا ہیں۔ شاعر، ادیب، کہانی کار اور ناول نگار ہیں۔ ان دونوں کی رائے سے یہ کتاب اور بھی کامیاب نظر آتی ہے۔
اس کتاب کی ساری کہانیاں اُن تصاویر کی مانند ہیں جن کو دیکھتے ہی پنجاب، یہاں کا معاشرہ، رہن سہن اور روز مرہ کے واقعات سامنے آجاتے ہیں یا یوں کہیے کہ اس کو پڑھ کر یوں لگتا ہےکہ جیتے جاگتے پنجاب کی تصویر ہماری آنکھوں کے سامنے ہے۔
کہانی “ویہڑا” کو پڑھ کر لگتا ہے کہ اگر انسان چاہے تو بہت سارے ایسے رشتے جن کے ٹوٹنے کا اندیشہ رہتا ہے۔ انہیں بھی اپنی عقل و دانش کو استعمال میں لا کر سیدھی راہ پر لا سکتا ہے:
"بالاں دی سانبھ سنبھال تاں اک ماں ای کر سکدی سی۔ اوہنوں اوہدے لگدیاں تے ذیشان ورگے یاراں بیلیاں وی آکھیا پئی اوہنوں بھل جا۔ہن اوہ پرت کے نہیں آون لگی۔اوس اپنا آپ گوا لیا اے۔ پر ندیم اوہنوں بھلن لئی تیار نہیں سی۔ اڑدیاں اڑدیاں خبراں سن پئی اوہنے اوس منڈے نال ویاہ دا فیصلہ کر لیا اے۔” (۹)
ہمارے ملک کے نوجوان دبئی، سعودیہ اور بہت سے ایسے ممالک میں محنت مزدوری کی غرض سے جاتے ہیں کچھ کے نصیب تو بدل جاتے ہیں مگر کچھ وہاں حادثات کا شکار ہو جاتے ہیں کہانی “ مل دی موت” بھی کچھ ایسے ہی موضوع پر لکھی گئی ہے وہاں کیا ہوا آپ بھی دیکھیں:
"شہزاد نوں اوتھے دے قانون موجب سزا سنائی گئی، عربی سارا ضرم شہزاد تے پا کے خود نکل گیا، شہزاد دے ماں ، بہن تے پیو اج وی اوہدی اڈیک وچ نیں، پیو چاچے مشتاق ہٹی والے دے دن وچ کوئی دس پھیرے ماردا اے، تے پچھدا اے،میرے پتر دا فون آیا کہ نہیں" (۱۰)
کہانی “کھڈونا” تو پڑھ کر قاری کا دھیان فوراً موت کی طرف جاتا ہے کہ چاہے “سو ورھیاں وی جیونا، آخر ہو سی کھیہ۔”
"اج چاچا بالاں نال نہیں سگوں قدرت اوہدے نال کھیڈ رہی سی”۔ (۱۱)
کہانی “ست دیہاڑے”، دو نوجوان “عمران” اور “سہیل” کی ہے جس میں “سہیل” ایک پیر کی خلافت کے لیے اپنا آپ گنوا لیتا ہے۔ اس میں ہمارے سماج کی سچائی سے پردہ اٹھایا گیا ہے کہ آج کا نوجوان بغیر محنت کے شارٹ کٹ کے ذریعے سب کچھ حاصل کرنا چاہتا ہے:
"اوہ حیاتی دے اوہ ست دیہاڑے بھل چکیا سی ، جیہڑے اوہنے بابا جی کول گزارے یاں، اوہناں ست دناں دی اک وی گل اوہنوں ہن یاد نہیں پئی اوس رات قبر اُتے کیہ ہویا سی۔ مردہ باہر آگیا سی یاں اوہنے بس ہتھ باہر کڈھے سن۔”(۱۲)
"دُلے دا گھوڑا” دلاور حسین عرف دلہ اور اس کے گھوڑے کی ہے جانور کے ساتھ پیار اور اس کا ایک دن مر جانا “دنیا فانی ہے” کا سبق سکھاتی ہے۔ پالتو جانوروں سے پیار اور ان کی وفاداری اسی کہانی کا موضوع دکھائی دیتی ہے:
“دلہ گھوڑے کول نمو جھانا بیٹھا رہندا تے کدی کدی غصے وچ آکے آکھدا “ اوہ نمبر دارا تیرا ککھ نہ رہوے توں میرے گھوڑے نوں تویت پا دتے نیں تیرے گھر نوں اگ لگ جائے تیرے سارے ڈنگر سڑ جاون۔ توں میرے گھوڑے نوں تویت پا دتے نیں۔ “ (۱۳)
“انٹر ویو” ایک ایسی کہانی ہے جس میں قسمت کا دروازہ کھلتا ہے تو تمام غم دوسرے دروازے سے باہر چلے جاتے ہیں اس کہانی میں نو جوان کی نیک نیتی اسے کامیابی تک لے جاتی ہے:
“ باؤ نے فائل کھول کے دیکھی تے اوہدے بلیاں تے ہاسہ آگیا۔ اوہنے آکھیا، پتر توں سمجھ توں انٹر ویو وچوں پاس ہو گیا ایں۔ تیری نوکری پکی ہو گئی اے۔ مینوں وی ایسے بندے دی لوڑ سی جیہڑا اپنی غلطی خوشی نال من لوے۔” (۱۴)
کہانی “ اللہ یاد تے بیڑا پار” میں ہمیں خدا کو ہر وقت یاد رکھنے کا درس ملتا ہے۔ انسان خدا کو بھلا کر کوئی بھی سکون حاصل نہیں کر سکتا کامیابی کا راز خدا کی یاد میں چھپا ہے:
“اپنی ساری گل اوہناں نوں دسی تے اوہناں رب سوہنے اگے دعا کیتی تے رانو نوں نماز، قرآن پڑھن دی تلقین کیتی ، رانو نے بزرگ دی گل پلے بن لئی ، سیانے آکھدے نیں “ اللہ یاد تے بیڑا پار” گھر وچ سکون رہنا شروع ہو گیا۔” (۱۵)
“سانجھی کندھ” میں مکان میں کی ہوئی دیوار دلوں میں دیوار ثابت ہوتی ہے اور آہستہ آہستہ یہ دیوار ہمیں گھروں کے ساتھ ساتھ بڑوں کو بھی بانٹنے پر مجبور کر دیتی ہے:
“ بابے نوں اپنی گواچی بھوئیں تے دولت دوبارہ ملن تے رتی جناں وی چاء نہیں سی کیوں جے اوہ ایس ویلے محتاجی دی حیاتی گزار رہیا سی۔” (۱۶)
“چٹھی دی اڈیک” میں اپنا گاؤں چھوڑ کر شہر آئے اکبر کے حالات سے ایک بات یا دآتی ہے کہ بعض اوقات لوگ نصیب بدلنے کے لئے دھوکے کا شکار بن جاتے ہیں:
“دو ورھے لنگھ گئے کوئی چٹھی نہ اپڑی اکبر بیری نوں یاد کر دیاں روندا تے آکھدا اوہ کیہڑا ماڑا ویلا سی جد میں اپنے بھرا تے اپنے ماں پیو دی نشانی نوں چھڈیا، جیہدی چھانویں میں تے میرا نکا ویر کھیڈ کے جوان ہوئے ساں پر ہن ویلا لنگھ چکا سی۔” (۱۷)
“حیاتی دا پندھ” میں بتایا گیا ہے کہ زندگی چلتے رہنے کا نام ہے حادثہ چھوٹا ہو یا بڑا خدا کی رضا سمجھ کر آگے بڑھنا چاہیے:
“ وسیم دیاں اکھاں وچ ہنجو سن، کیوں جے ایہو جہی ہونی اوہدے نال وی واہری سی تے ایہہ اوہی ٹرین سی جینے ہور وی کئی گھر اجاڑے سن۔” (۱۸)
“ہیر” آج کل کی کہانی ہے کہ نوجوان لڑکے لڑکیاں کیسے ایک دوسرے کے پیار میں پھنس جاتے ہیں اور پھر دھوکے کا شکار ہو جاتے ہیں جس سے پوری زندگی تباہ ہو جاتی ہے:
“ جے کوئی ہونی واپری وی سی تاں گھر دا پتہ کیوں غلط دسیا سی ساڈے رانجھے اوس رانجھے وانگ ہمت تاں کیتی پر اگوں ہیر نوں کوئی کیدو ٹکر گیا سی؟ یا فیر اوہ ہیر ہے ای نہیں سی۔ “ (۱۹)
کہانی “ چلاکی” میں چوروں کے ذہین اور چالاک ہونے کا بتایا گیا ہے کہ کیسے آج کل ہمارے سامنے کھڑا انسان ہمیں لوٹ لیتا ہے اور ہم کچھ بھی نہیں کر پاتے:
“اوہ ٹرائی لین گیا تے مڑ کے نہ آیا تے ہن کرمو فراڈ دے کیس وچ حوالات وچ بند اے تے موٹر سائیکل دی ٹرائی لین جان والا پتہ نہیں کتھے کجھ ہور ٹرائی کر رہیا ہونا اے۔ “ (۲۰)
“پردیس” ایک ایسی کہانی ہے جس میں بیرونِ ملک کی سنی سنائی جنت دیکھنے اور وہاں کی عیش و عشرت کمانے کی لالچ جیل میں لے جاتی ہے:
“دبئی اپڑے تاں تنویر مینوں اک تھاں بٹھا کے ۵منٹ داآکھ کے پرانہہ ٹر گیا، کافی چر لنگھ گیا اوہ نہ پرتیا۔مینوں پلس والیاں آن گھیریا۔” (۲۱)
“چھاپ” میں بتایا گیا ہے کہ بعض اوقات ہم جس چیز کو بہت مہنگی سمجھتے ہیں اور سنبھال کے رکھتے ہیں اکثر وہ کوڑیوں بھاؤ بکتی ہے پر خدا مہربان ہو تو مشکلیں آسانی میں بدل جاتی ہیں:
“ سنیارے نے چھاپ دا وزن کیتا اپنا حساب کتاب جیہا لایا چھاپ نوں ویکھ کے آکھیا” ایہہ ۱۲ ہزار دی ہو جائے گی۔” اہونے فوراً آکھیا “ بس تسیں پیسے دے دیو” سنیارے نے ۱۰ ہزار گن کے دتا۔ اوہ جاون لگی تاں اوس آکھیا “ بھین جی! تسیں ایہہ چھاپ وی لے جاؤ تے پیسے وی ایہدے اتے بس سونے دا پانی پھریا ہویا اے۔ اج تائیں کوئی وی غریب کسے وڈی لوڑ توں بنا سونا ویچن نہیں آیا۔” (۲۲)
“ابا جی “ میں والدین کی قربانیوں کو خراجِ تحسین پیش کیا دکھائی دیتا ہے:
“مینوں فوراً لگا پئی اوہ مارکیٹ ای گئے ہونے نیں میں اوس پرچی تے لکھے پتے تے پہنچا تاں اوہ دکان دار نوں پہلی قسط تے موٹر سائیکل لیجاون دی التجا کردے پئے سن۔” (۲۳)
“دو پُتر کشمیر دے” میں اپنی مٹی سے محبت اور کشمیر کے موجودہ حالات کو موضوع بنایا گیا ہے۔دو پتر کشمیر دے میں کشمیری جوانوں کی کہانی بیان ہوئی جو اپنی دھرتی کے لیے شہید ہو جاتے ہیں:
“اگلی تھاں اپڑے تاں فوجیاں دی وڈی نفری موجود سی اوہناں سمجھیا پئی ساڈے ای ساتھی نیں۔ اوہناں کول جا کے اوہناں لا گے کھڑے ہو ئے ۷۰ دے لاگے بھارتی فوجی مارے۔ گولیاں کھا ندے گئے تے اوہناں نو واصل جہنم کردے گئے۔” (۲۴)
“چڑھیا سو تے لتھا بھو “ میں ہمارے سماج کے موجود مسائل سے پردہ اٹھایا گیا ہے:
“اوہنے ہولی ہولی ساری دولت تے قبضہ کر لیا تے مڑکیس بنا کے جیل بجھوا دیتا۔ میں جیل کٹ کے واپس آون دی کیتی۔” (۲۵)
“نکی عید” میں بتایا گیا ہے کہ بعض اوقات ہماری چھوٹی سی سمجھ داری بھی کتنی سود مند ثابت ہو جاتی ہے:
“جیس تھاں تے ایہہ ڈگا اوتھے پہلاں توں ہوئے ایکسیڈینٹ پاروں کسے کار دی سکرین ٹٹی پئی سی، جیہدیاں کرچاں ایہدے جسے وچ کھب گئیاں سن۔” (۲۶)
کہانی” بارڈر” میں انڈیا اور پاکستان کا بارڈر پار کر کے آئی ہوئی ایک لڑکی کی کہانی بیان ہوئی ہے اور ان دونوں ممالک کے سفارتی تعلقات کو موضوع بتایا گیا ہے: “ پاکستانی فوجی غیرت مند ہونے نیں اوہ کسے دی دھی بھین نوں اپنی سمجھن والے جنے نیں۔ اسیں ایہہ ساری گل پاکستانی سرکار تائیں اپڑا دتی اے۔ ہن مسلے نوں اوہ ای نبیڑن گے۔” (۲۷)
کتاب کا اسلوب نہایت سادہ اورلفظوں کا انتخاب بھی بڑا معیاری ہے۔ دلچسپی کا عنصر نمایاں ہے پڑھتے وقت ذرا بھی بوریت کا احساس نہیں ہوتا ایسی تکنیک استعمال کی گئی ہے کہ کہانی ۵ سے ۷ منٹ میں با آسانی پڑھی جا سکتی ہے۔


حوالہ جات

۱۔ ارشاد احمد، اردو پنجابی لغت، لاہور: مرکزی اردو بورڈ، ۱۹۷۴ء، ص۹۴۹
۲۔ تنویر بخاری، پنجابی اردو لغت، لاہور:اردو سائنس بورڈ، ۱۹۸۹ء ص ۱۱۸۶
۳۔ فیروز اللغات، لاہور: فیروز نثر، ۱۹۸۳ء، ص۱۰۴۹
۴۔ عبدالحمید سرشار، ڈاکٹر، ادبی چھلاں، لاہور: عزیز پبلشرز،۱۹۹۲ء، ص ۲۴
۵۔ فیاض مگھیانہ، مرتب،سانجھی پیڑ، لاہور: سانجھ پبلشرز، ۲۰۰۹،ص۱۰
۶۔ شہباز ملک، ڈاکٹر، گویڑ، لاہور: تاج بکڈپو، ۱۹۸۵ء، ص۲۰۸
۷۔ سعید بھٹا، مرتب، سانجھ سرت، لاہور: اے۔ایچ پبلشرز، ۱۹۹۷ء، ص۱۸۸
۸۔ انعام الحق جاوید،ڈاکٹر، پنجابی ادب دی مختصر تاریخ، لاہور: تاج بک ڈپو، س ن ص۴۸
۹۔ غلام مصطفی ،سانجھی کندھ،فیصل آباد:سنگری پبلشرز،ص۲۱
۱۰۔ ایضاً، ۲۷                   ۱۱۔ ایضاً،۳۱                     ۱۲۔ ایضاً،۳۶          
۱۳۔ ایضاً،۴۰،۳۹               ۱۴۔ ایضاً،۴۳                   ۱۵۔ ایضاً،۴۷،۴۶
۱۶۔ ایضاً،۵۲                    ۱۷۔ ایضاً،۵۸                   ۱۸۔ ایضاً،۶۱
۱۹۔ ایضاً،۶۶                    ۲۰۔ ایضاً،۷۰،۶۹               ۲۱۔ ایضاً،۷۴
۲۲۔ ایضاً،۷۸                  ۲۳۔ ایضاً،۸۳                  ۲۴۔ ایضاً،۸۶
۲۵۔ ایضاً،۹۱                    ۲۶۔ ایضاً،۹۶                   ۲۷۔ ایضاً،۱۰۰

 


اوپر جائیں  |   پرنٹ کیجئےِ
انگریزی ورژن ای میل چیک کریں مرکزی صحفہ پرنٹ پسندیدہ سائٹ بنائیں رابطہ کیجئے www.shahzadahmad.com www.shahzadahmad.com