جمشید نواز نایابؔ کی شاعرانہ انفرادیت

فہد جمال(پی ایچ۔ڈی اردو اسکالر) شعبہ اردوجامعہ پشاور۔

ڈاکٹر روبینہ شاہین۔ شعبہ اردو ، جامعہ پشاور

ABSTRACT

This article attempts to define inimitable features of Urdu poetry by Jamshed Nawaz Nayab [1959-2006]. Having in-depth study of the Western philosophy Nayab is greatly influenced by thoughts and themes presented in that canon. However, the originality of Nayab is found in his treatment of themes, the very product of his personality and culture. His bravery, spontaneity and brevity are qualities that give his poetry unique appeal for readers. The article in detailed discussed the degree of impact of the Western philosophers, along documentation of all those original deviations and contribution of his own.

Key Words: Urdu Poetry; Urdu Ghazal; Western Philosophy and Urdu.

 

بیسویں صدی کی آخری  دو دہائیوں میں صوبہ خیبر پختون خوا کے جنوبی اضلاع میں احمد فرازؔ ، غلام محمدقاصرؔ ، مقبول عامرؔ او ر سعید احمد اخترؔ جیسے سر بر آوردہ شعرا  کی موجودگی میں اپنی عالمگیر فکر اور اپنے پختہ فن کے باعث  اپنی شناخت اور پہچان کرانے والوں  میں جمشید نوا ز نایاب ؔ(۱۹۵۹ ۔۲۰۰۶ ) کا نام بھی حیثیت کا حامل  ہے۔

جمشیدنواز نایابؔ پیشے کے اعتبار سے معلم تھے۔ گومل یونیورسٹی سے اردو اور پولیٹکل سائنس میں ایم  اے کرنے کے دوران وہ نہ صرف  سقراط ، افلاطون ، روسو اور مارکس جیسے عظیم مفکرین کے سیاسی اور معاشی نظریات سے آگاہ ہوئے بلکہ انھیں یہ بھی جاننے کا موقع ملا کہ اپنے انقلابی نظریات کو عوام کے دلوں کی دھڑکن بنانے کا مؤثر ذریعہ ادب  ہے۔ چنانچہ پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک اور اس کے خیبر پختون خوا جیسے پسماندہ صوبے کو اپنے  ترقی پسند انقلابی  تصورات کی روشنی میں ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کےلیے انہوں نے اپنے نثر اور شاعری کو وسیلۂ اظہا ر بنایا۔ زیرِ نظر مقالے میں جمشیدنواز نایابؔ کی شاعری کی اسی انفرادیت کا کھوج لگانے کی سعی کی جائے گی ۔ پہلے جمشیدنواز نایابؔ کی غزل کا جائز ہ لیا جاتا ہے۔

جس عظیم فلسفی نے جمشید نواز نایابؔ کو شدت سے متاثر کیا وہ سقراط تھا۔ جمشید نواز نایابؔ کو سقراط کی آزادی  اظہار  ، غیر جانبدارانہ تنقید ، روشن ضمیری اور جرات و بےباکی پسند تھی ا س لیے انھوں نے سقراط کی ا ن کرداری صفات کو غزلوں میں فنکارانہ انداز میں پیش کیا۔

جمشیدنواز نایابؔ کی غزل ان کی خو د اعتمادی ، خطر پسندی اور دلیرانہ لہجے کی امین ہے۔ ان کے خیال میں خطرات سے دوچار ہونے اور مشکلات سے نبرد آزما ہونے سے انسان کا عزم او ر حوصلہ بڑھتا ہے۔ 

نایابؔ جب سرمایہ دار طبقے سے انتقام لینے  کی بات کرتے ہیں  تو ان کے لہجے کی خود اعتمادی اوردلیری عروج پر دکھائی دیتی ہے اور تمام خطرات کو بالائے طاق رکھ کر دشمن کوللکارتے چلے جاتے ہیں اور یہ سارا کچھ انھیں سقراط نے سیکھایا۔

ہمارے تیر کا چلنا بھی دیکھ اے ظالم

اب اپنے دل کامچلنا بھی دیکھ اے ظالم

تجھے غرور تھا گر موسمِ موافق کا

تو اب کے رُت کا بدلنا بھی دیکھ اے ظالم(۱)

نایاب  ؔ،سقراط کی زندہ ضمیری سے بے حد متاثر ہیں ۔ اُن کے خیال میں اگر انسان کا ضمیر زندہ ہو تو وہ معاشرے کو روشنی سے منور کرسکتا ہے۔ آندھی کتنی ہی تند و تیز کیوں نہ ہو ۔ انسان کے اندر اگر اعتماد ہو تو وہ زمانے کےطنز کی پروا کیے بغیر اپنے ضمیر کا دیا روشن رکھ سکتا ہے:

کم نہیں زندہ ضمیری کا یہ انعام کہ ہم

روشن آندھی میں بھی سرِ راہ دِیا رکھتے ہیں(۲)

سقراط نے اپنے دور کے سیاسی رہنماؤں پرکھل کر تنقید کی ہے ان کا کہنا تھا کہ یہ سیاسی رہنما چرب زبانی اور مکاری سے کام لے کر عوام کو اپنے ہی فائدے کے لیے استعما ل کرتے ہیں۔ نایابؔ یہاں پر بھی سقراط کے ہم نوا بن کر اپنی غزلوں میں ایسےرہنماؤ ں پر کھل کر تنقید کرتے ہیں جو سیدھے سادے اور بھولے بھالے عوام کو مختلف حیلے بہانوں سے ورغلا کر اور سبز با غ دکھا کر اقتدار تک پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جمشید نواز نایابؔ کے الفاظ میں یہ وہ لوگ ہیں جن پر عوام اعتماد کرتی ہے۔ لیکن وہ وقت آنے پر انہیں دغا دے جاتے ہیں:

پھر بھی نایابؔ لٹیروں پہ بھروسا ہے ہمیں

گرچہ لوٹا ہے ہر ایک رہنما نے ہم کو(۳)

محفوظ کوئی گل نہ تھا گلچیں کے ہاتھ سے

کہنے کو تو چمن کے نگہبان تھے بہت(۴)

سقراط کے علاوہ جمشید نواز نایابؔ نے روسو اور مارکس کے سیاسی ، سماجی اور انقلابی نظریات سے بھی متاثر ہو کر لکھا اور اس بات کو اپنی غزلوں میں تمام تر شعری نزاکتوں کے ساتھ بیان کیا ہے۔ وہ اپنی غزلوںمیں استحصالی قوتوں کی غارت گری کا احساس دلاتے ہیں۔ استحصالی طبقہ مظلوم طبقے کی زبان بندی کی کوشش کرتا ہے لیکن اہلِ ستم کی زبان بندی کسی طرح بھی ممکن  نہیں ہوتی۔ وہ جب بھی عوام پر اظہار ِحق کی پابندی عائد کرتے ہیں تو عوام اظہار کے کئی طریقے ایجاد کرلیتے ہیں۔

نایابؔ مارکس اور روسو کے ہم نوا اور ہم خیال بن کر عوام کو خوابِ گراں سے جگا کر  انقلابی غیظ و غضب پر اکساتے ہیں اور جبر و استحصا ل کے نظام کو توڑ پھوڑ کر رکھ دینے کی بات کرتے ہیں:

اگر تاریکیوں کی برملا تردید ہو جائے

تو روشن کیا عجب یارو کوئی خورشید ہو جائے

ہمیں ہیں کربلاؤں سے گریزاں ورنہ ممکن ہے

کہ ہم اہلِ محرم کی بھی اک دن عید ہو جائے(۵)

کسے خبر وہ فقط حادثے نہیں ہوتے

وہ حادثے جو نئے انقلاب لاتے ہیں(۶)

یہ کہا جاسکتا ہے کہ جمشید نواز نایابؔ کی غزل اپنے ترقی پسند خیالات، انقلابی تصورات ، انسان دوست منشور اور طبقاتی شعور کے باعث منفرد حیثیت کی حامل ہے ۔ یہ موضوعات اس خطے کے مذکورہ شعرا  کے ہاں بھی کسی نہ کسی صورت میں دیکھے جاسکتے ہیں لیکن ان میں جو تکمیلی شان ، وضاحتی ربط اور شدت  ِ احساس پایا جاتا ہے وہ دیگر شعرا  کے ہاں مفقود ہے ۔ اب آتے ہیں جمشیدنواز نایابؔ کی نظم نگاری کی طرف۔

غریبوں کی حمایت کرنا ، مزدوروں کو سراہنا ، سرمایہ داروں کی مخالفت کرنا شہنشاہیت اور استبدادیت کے خلاف آواز اٹھانا ، روسو ازم اور مارکس ازم کے بڑے بڑے موضوعات ہیں۔ دیکھا جائے تو ان تمام موضوعات پر جمشید نواز نایابؔ نے طبع آزمائی کی ہے۔ ان کی منظومات میں اشتراکی نظریات کی فراوانی نظر آتی ہے ۔ ان کی نظر جب اپنی ذات سے ہٹتی ہے تو انھیں پورا معاشرہ درد میں مبتلا نظر آتا ہے۔ اپنی نظم " یومِ مزدور" میں نایابؔ مزدوروں کی جرات اور ہمت کو سلام پیش کرتے ہیں لیکن درپردہ یہاں کے قوانین اور منصفین  پر بھی چوٹ کرتے ہیں۔

جمشیدنواز نایابؔ" یومِ مزدور" کو تمام تہواروں سے بالا تر سمجھتے ہیں ان کے نزدیک یہ اتنا عظیم دن ہے کہ جس کی رفعت تک کوئی دوسرا تہوار نہیں پہنچ سکتا یہی وہ دن ہے جس میں مزدوروں کو سلام پیش کیا جاتا ہے۔ مزدور کے نام سے جس رسم کا آغاز ہوا ہے اس میں انسان کے خوابوں کی تعبیر پنہاں ہے۔ اسی رسم سے ایک دن ظلمت کے پہاڑ ٹوٹ جائیں گے ۔ وہ لکھتے ہیں:

ہاں مگر وقت نے ہر مسندِ منصف پہ ابھی

قاتلوں اور لٹیروں کو بٹھا رکھا ہے

حق طلب کرنے کو انصاف طلب کرنے کو

جن کے قانون نے ایک جرم بنا رکھا ہے(۷)

نایابؔ کے نزدیک اس جہانِ رنگ و بو کی رونق اور دلوں کی آبادی غریب کی ہمدردی سے ہے۔ غریب اور مزدور کی محبت اور مشقت کی وجہ سے دنیاکا نظام چل رہا ہے ۔ اپنی مختصر نظم " اے غم ِ عشق اے غمِ دوراں" میں نایابؔ کہتے ہیں:

اے غمِ عشق اے غمِ دوراں!

تم نہ ہوتے تو تھا جہاں ویراں

تم سے رونق دلوں ، دماغوں کی

تم سے روشن ہیں زیست کے ایواں(۸)

جمشیدنوازنایابؔ کے ہاں نظموں میں اشتراکی استقلال پورے عروج پر نظر آتا ہے۔ نایابؔ کہتے ہیں کہ اشتراکیوں نے جس راستے پر چلنے کا اعادہ کیا ہے وہ انتہائی پُر خار ہے لیکن یہ بھی ایک معجزہ ہے کہ کچھ دیے آندھیوںمیں بھی جلتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم اس راستے کے اکیلے راہی نہیں ہم سے پہلے بھی ایسے راہی گزرے ہیں جنہوں نے حق اور سچائی کی خاطر اپنی جانوں کے نذرانے پیش کئے ۔نظم " کوئی کشش تو۔۔۔" میں لکھتے ہیں:

گواہ رہے ہیں سدا تازہ نقشِ پا اس میں

یہ رہگذر کبھی ویران نہیں رہی اب تک

ہزاروں سرمدؔ و سقراط اس کی دولت ہیں

یہ رہگذر تہی داماں نہیں رہی اب تک

تھکن سے چُور ، پر ایک عزم ، اک وقار کے ساتھ

دلوں میں اپنے تمنائے امتحان لیے

 

عجب نہیں کہ یہیں زندگی کے دیوانے

سروں سے اپنے گزرتے ہیں ایک مان لیے(۹)

مختصر یہ کہ غزلیات کی طرح جمشید نواز نایابؔ کی منظومات میں بھی سقرا ط ، افلاطون ، روسو اور مارکس کے انسان دوست اور انقلابی تصورات کا عکس پوری تابانی کے ساتھ دیکھا جاسکتا ہے۔جمشید نواز نایاب ؔ کا فنی کمال یہ ہے کہ انھوں نے اپنی شاعری کو ترقی پسند تحریک کا منشور نہیں بننے دیا۔ بلکہ اس تحریک کی صحت مند اقدار کو فنی اہتمام اور شعری نزاکتوں کے ساتھ پیش کیا ہے۔ یہ دوہری خوبی اور کمال جمشیدنواز نایابؔ کی انفرادیت ٹھہرتا ہے اسی انفرادیت کے بل بوتے پر وہ صوبہ خیبر پختون خوا کے شعری ادب میں ایک اہم اور نمایاں مقام پانے کے حق دار ہیں۔

 


 

حوالہ جات

۱)      جمشید نواز نایاب، جانِ غزل ، نیو کلاسیک پبلشرز نوشہرہ ، ۲۰۰۰ ، ص، ۲۶
۲)     ایضاً ، گونج اٹھی جب خاموشی ، فکشن ہاؤس لاہور ، ۲۰۰۳  ، ص: ۴۱
۳)     ایضاً ، ارمغانِ غزل ، گومل آرٹ پریس ، ڈیرہ اسماعیل خان ،۲۰۰۰ ،ص: ۹۶
۴)     ایضاً ، ص: ۷۹
۵)     ایضاً ،زخم ِ گویا ، فکشن ہاؤس لاہور،۲۰۰۵ ، ص:۲۶
۶)     ایضاً ، وہ اشک جو گوہر بن نہ سکے ، نیو کلاسیک پبلشرز نوشہرہ،۲۰۰۰ ، ص:۷۲
۷)      ایضاً ،زخم ِ گویا ،  ص: ۱۴۱
۸)      ایضاً ،  وہ اشک جو گوہر بن نہ سکے ، ص: ۲۲۳
۹)       ایضاً ،  

 

 

 

اوپر جائیں  |   پرنٹ کیجئےِ
انگریزی ورژن ای میل چیک کریں مرکزی صحفہ پرنٹ پسندیدہ سائٹ بنائیں رابطہ کیجئے www.shahzadahmad.com www.shahzadahmad.com