داستانیں اور سائنسی ایجادات: ایک تقابلی جائزہ

ڈاکٹر فرزانہ کوکب۔   اسسٹنٹ پروفیسر، شعبہ اُردو، بہاء الدین زکریا یونیورسٹی، ملتان۔

ABSTRACT:
According to the definite narrative of tale, the story is based on anxiety, illusion and events. In which fantastisch and metaphysics are the important and basic elements. But with the passage of time, amazing development and innovation in contemporary science and technology, all the events and objects that seemed to be false, fascinating and propaganda; it has been proven to be quite possible. In this context, some events and objects have been analyzed and competed through research and arguments. In this result, the opinion has been established that the story writer would have been somewhat familiar with the initial form of all these scientific inventions and all this was not merely false & fascinating. Therefore, the partial change in the tale narrative is inevitable.
Key Words: Tale, Tale narrative, Science, technology, science inventions
 

ملخص:

داستان کی مروجہ تعریف کی رو سے داستان ایک من گھڑت اور خیالی واقعات پر مبنی قصہ ہے، جس میں محیر العقول اور ما بعد الطبیعاتی عناصر اہم اور بنیادی جزو کے طور پر پیش کئے جاتے ہیں۔ لیکن گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ اور عصر حاضر میں سائنس اور ٹیکنالوجی کی حیرت انگیز ترقی اور ایجادات نے ان تمام واقعات و اشیاء کو جو جھوٹی، خیالی اور من گھڑت لگتی تھیں بہت حد تک ممکن ثابت کر دکھایا ہے۔ اس تناظر میں زیر نظر مضمون میں تحقیقی اور استدلالی انداز سے چند واقعات و اشیاء کا تجزیہ و تقابل کیا گیا ہے۔ جس کے نتیجے میں یہ رائے قائم کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ داستان گو کسی نہ کسی حد تک ان تمام سائنسی ایجادات کی ابتدائی شکلوں سے کسی نہ کسی حد تک واقف رہا ہو گا اور یہ سب محض من گھڑت اور خیالی نہ تھا۔ لہٰذا داستان کی مروجہ تعریف میں مکمل نہ سہی جزوی تبدیلی ناگزیر ہے۔

قصے کہانیاں اور داستانیں شروع سے ہی انسانی دلچسپی کا محور رہیں ہیں۔ کیونکہ داستانیں عقل کو نہ سہی تخیل کو ضرور اپنی گرفت میں لیتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ قِصہ سننا اور سنانا ہمیشہ سے انسان کا محبوب مشغلہ رہا ہے اور کسی نہ کسی صورت میں تقریباً ہر ملک اور قوم میں موجود رہا ہے۔

ڈاکٹر سید وقار عظیم کے مطابق:

''کہانی سے انسان کی دلچسپی اور اس مشغلے سے اس کا لگاؤ اس کی اجتماعی زندگی کی ایسی حقیقت ہے جسے تاریخ کی سنجیدگی اور اس کے فکر کی منطق نے بھی پورے وثوق کے ساتھ تسلیم کیا ہے۔''(۱)

اگرچہ تحریر کا فن تقریباً چار ہزار سال اور قبل مسیح میں یقیناًموجود میں آچکا تھا۔ (۲) مصر کا قدیم رسم الخط ''آثار مقدس'' اور سمیریائی میخی خط اسی زمانہ کے ہیں۔ لیکن پھر بھی کون جانے ہماری بعض لوک کہانیاں پانچ دس ہزار قبل موجود میں آچکی ہوں جبکہ ہماری دسترس تو ان کہانیوں تک ہے جو ضبطِ تحریر میں آچکی ہیں۔

بہرحال داستانوں کو سنایا جانا ہمیشہ سے مقبول اور پسندیدہ رہا ہے بالخصوص اسلامی ممالک اور ہندوستان میں تویہ باقاعدہ فن ہوگیا جسے اہلِ کمال نے پیشہ کے طور پر اختیار کیا۔ ڈاکٹر گیان چند جین اپنی قابلِ قدر تحقیقی و تنقیدی کتاب ''اردو کی نثری داستانیں'' میں جہاں داستان ''باغ و بہار''، ''فسانہ عجائب''، ''رانی کیتکی کی کہانی''، سمیت دیگر داستانوں کا تحقیقی و تنقیدی جائزہ لیا ہے وہیں عربی اور فارسی قصوں کو اردو افسانہ کے مورث اعلیٰ قرار دیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ تقریباً تمام ناقدین نے داستان گوئی کی معراج ''داستان امیر حمزہ'' کو قرار دیا ہے۔ جو فارسی سے ہی ترجمہ شدہ ہے۔(۳)

داستان سے مراد طویل، من گھڑت قصہ اور خیالی باتیں ہیں۔ داستان میں طوالت بنیادی اصول اور ترکیبی عنصر کے طور پر اہمیت کی حامل ہے۔ سو اس اصول کے پیش نظر داستان گو قصہ گوئی کے دوران بہت سے واقعات فی الفور بھی شامل کرتا جاتا ہے جو من گھڑت ہوتے اور اسی وقت ذہن و خیال میں در آتے۔ ایسے واقعات میں بوالعجبی اور مبالغہ آرائی کی کارفرمائی کو ایک لازمہ ہی قرار دیا جانا چاہیے۔ ان واقعات میں سے بیشتر قرین قیاس قرار پاتے تھے جبکہ چند واقعات بہرحال بعید از قیاس کے زمرے میں ہی آتے تھے۔ کچھ ایسی ہی صورت حال داستانوں کے ایک اور اہم ترکیبی عنصر یعنی مابعد الطبیعاتی اور مافوق الفطرت عناصر کے ضمن میں بھی درپیش ہوتی تھی۔

ان واقعات کی نشاندہی کی جائے تو ایسے عناصر اور واقعات بالعموم داستانوں میں ایک لازمی عنصر کے طور پر ہمیں مل جاتے ہیں۔ جن، دیو، پریاں، اڑنے والے قالین، سلیمانی سرمہ، مہلک ہتھیار، جادوگر، جادوگرنیاں، تنتر منتر، شیشے کے گلوب جن میں ساری دنیا نظر آتی تھی۔ کچھ الفاظ یا کوئی جملہ بول کر کھلتے اور بند ہوجانے والے دروازے، اڑنے والے جادوئی قالین وغیرہ۔

ڈاکٹر سید وقار عظیم لکھتے ہیں:

''داستانوں پر سب سے بڑا اعتراض یہ ہے کہ ان کی تعمیر و تشکیل سرے سے غیر فطری عناصر سے ہوئی ہے۔ جن، دیو، پریاں، جادوگر، سحر، اسم اعظم، اسم تسخیر، لوح، نقش، قلب ماہیت۔۔۔۔ نئے زمانے کا نقاد ان سب چیزوں کو غیر فطری کہتا ہے۔ اور اسی بنیاد پر داستانوں پر ''سوختی دردیدنی'' ہونے کا حکم لگاتا ہے۔''(۴)

ناقدین کے تمام اعتراضات اپنی جگہ ضرور درست ہونگے لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ مافوق الفطرت عناصر، جن، دیو، بھوت، پریاں اور دیگر مابعد الطبیعات ہیئتوں اور ایک روحانی دنیا کے وجود کو کم و بیش تمام مذاہب اور معاشروں میں تسلیم کیا جاتاہے۔ ان کو ہر خطے اور ملک کے باسیوں نے اپنی خطے کی زبان کے مطابق نام دئیے ہیں۔ آج کے جدید ترین اور سائنس و ٹیکنالوجی کے دور میں جدید سائنسی آلات کی مدد سے ان مافوق الفطرت عناصر اور اس غیر مادی اور غیر مجسم دنیا کا کھوج لگانے کی باقاعدہ سائنسی انداز سے مسلسل کوششیں جاری ہیں۔ نہ صرف یہ کہ ٹیلی ویژن پر مختلف چینلز اس نوعیت کے پروگرام نشر کرتے ہیں بلکہ اس حوالے سے تحریری مواد پرنٹ اور سوشل میڈیا پر خاص مقدار میں موجود ہے۔ اسی طرح جادو ٹونا، تنتر منتر، جادوگر اور جادوگرنیاں قدیم ازمنہ اور تہذیبوں میں موجود رہے ہیں۔ بالخصوص سولہویں صدی میں مغرب اور مشرق میں عورتوں کے جادوگرنیاں ہونے کا الزام لگا کر جلا کر مارنا اور سرعام پھانسی لگانا بہت کربناک بلکہ خوفناک حقیقتیں ہیں۔(۵)

داستان بظاہر تو خیالات اور واقعات کو عقلی جواز اور منطقی توجیہات کے بغیر پیش کرنے کا نام ہے۔ جبکہ سائنسی علوم کی رو سے ہر واقعہ کو پیش کرنے اور پرکھنے کے لیے مصروفیت، عقلی توجیہہ اور منطقی دلیل بنیادی شرط ہے۔ اس سارے تناظر میں جب داستانوں کو پڑھا جائے یا پرکھا جائے تو بلاشبہ یہ ایک ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ جب یہ داستانیں سنائی جاتی تھیں۔ اس وقت عام سامع غیر تعلیم یافتہ یا کم تعلیم یافتہ ہونے کے باعث غالباً ان واقعات کی عقلی اور سائنسی توجیہہ کی استعداد نہ رکھتا تھا۔

ڈاکٹر گیان چند جین لکھتے ہیں:

''کارخانہ کائنات کے مشینی پہلو کے بارے میں انسان کو سخت غلط فہمی ہوئی۔ وہ علت و نتیجہ کے سائنسی اصول سے واقف نہ تھا۔ وہ کسی بھی بے ربط واقعے کو دوسرے واقعے کا سبب مان لیتا تھا۔''(۶)

لیکن ہمارا داستان گو جو لفظوں اور جملوں کو پوری مہارت، توازن اور تناسب سے برت کر ایک طویل داستان سنانے اور لکھنے کے فن سے مکمل بہرہ مند تھا اس سے متعلق یہ قیاس کرنا کہ وہ دنیا میں وقوع پذیر ہونے والے سائنسی ارتقاء اور ایجادات سے متعلق قطعی طور پر نابلد رہا ہوگا۔ ہر گزر درست قرار نہیں دیا جاسکتا۔

بلاشبہ آج یورپ اور مغرب سائنسی علوم، ایجادات اور دریافتوں کے اعتبار سے مسلم امہ سے صدیوں آگے نکل چکے ہیں لیکن یہ بھی ایک تاریخی حقیقت ہے کہ آٹھویں صدی سے لیکر بارہویں صدی تک کے دور کو یورپ کا ''ازمنہ تاریک'' (Darkages ) کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ اہلِ یورپ کے لئے یہ علمی لحاظ سے تاریک اور جمود کا دور تھا۔ جبکہ اسی دور میں عرب اور غیرعرب مسلمان سائنسدان سائنس کے میدان میں اپنے عروج کی انتہاؤں کو چھو رہے تھے۔ مسلمان اس دور میں ترقی یافتہ ہے اور یورپ پسماندہ۔

آج جب ہم دورِ حاضر کے مغربی سائنسدانوں کا موازنہ آٹھویں سے بارہویں صدی پر محیط دور کے مسلم سائنسدانوں سے کریں تو یہ حقیقت روز روشن کی طرح عیاں ہوجاتی ہے کہ اس دور میں اگرچہ سائنسی ایجادات کی تعداد کم تھی لیکن مسلم سائنسدان سائنس کے میدان میں یورپی اور مغربی سائنس دانوں سے بہت آگے تھے۔(۷) آج یورپ مسلم سائنس دانوں کی ایجادات اور دریافتوں کا سہرا مختلف حیلوں، بہانوں، جھوٹے دعووں اور پروپیگنڈوں کے ذریعہ اپنے سر باندھتا ہے لیکن اگر ہم اسلام کے عہدِ زریں خلافت راشدہ سے لیکر مسلمانوں کے عروج کے روبہ زوال ہونے تک کے ادوار پر نظر ڈالیں تو اس بات سے انکار ناممکن ہے کہ اگر دنیا خصوصاً مغربی دنیا تعصب اور تنگ نظری کی عینک اتار کر حقیقت پسندی اور حق شناسی کی نگاہ سے دیکھیں تو مسلم سائنس دانوں کے سائنسی کمالات انہیں محوِ حیرت کردینے کے لیے کافی ہیں۔

مسلم سائنسدانوں نے ایسی ایجادات کی بنیاد ڈالی جن کے بغیر آج کی جدید سائنس دنیا کا تصور بھی محال ہے۔ اگر مسلم سائنس دانوں کو آج کی جدید سائنسی دنیا کا سرخیل اور بانی کہا جائے تو کسی بھی طرح غلط نہیں ٹھہرایا جاسکتا۔ اس سارے تناظر میں داستانوں میں پیش کئے جانے والے کچھ محیر العقول واقعات کا جائزہ لیا جاسکتا ہے جن کو اب تک محض خیالی اور من گھڑت کہا جاتا رہا ہے۔ لیکن مسلم سائنسدانوں کی حیرت انگیز سائنسی ایجادات اور عصر حاضر میں یورپ اور مغرب کی دنگ کردینے والی سائنسی ترقی کے تناظر میں مذکورہ واقعات کی بھی کچھ نہ کچھ سائنسی، منطقی اور عقلی توجیہہ پیش کی جاسکتی ہے۔

اس ضمن میں کچھ مثالیں تو بلاجھجک پیش کی جاسکتی ہیں۔ داستانوں میں جادوگروں کے جادو کے زور سے آسمان پر مختلف رنگوں کے ابر کے ٹکڑے نمودار ہوجاتے ہیں۔ جن سے کبھی تیر و خنجر اور کبھی زہریلی گیس اور آگ برستی ہے۔

سائنسی ایجادات میں ہوائی جہاز اور بالخصوص جنگی جہاز، لڑاکا طیاروں سے یہی کام لیا جاتا ہے۔ ہوائی جہاز کی ایجاد کے ضمن میں اگر تاریخ کا جائزہ لیں تو امریکہ کے رائٹ برادرز کی ۱۹۰۳ء میں خود ساختہ ہوائی جہاز کی پہلی کامیاب پرواز سے تقریباً ایک ہزار سال قبل اندلس کے ایک مسلم آسٹرونام، موسیقار اور انجینئر عباس ابن فرناس نے سب سے پہلے ہوا میں اڑنے کی کوشش کی۔

''دنیا میں سب سے پہلا ہوائی جہاز اسلامی سپین کے مسلمان سائنسدان ''عباس ابن فرناس'' نے نویں صدی میں ایجاد کیا اور اسے اڑانے میں کامیاب ٹھہرا۔ اس نے اپنے جہاز کے دائیں بائیں بڑے بڑے پَر بھی لگائے تھے۔ جو جہاز اور اس کا بوجھ اتھائے دور تک چلے گئے۔ تاہم جہاز کی لینڈنگ ٹھیک طرح نہ کرسکنے کی بنا پر اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھا۔''(۸)

''گلائڈر سے ملتی جلتی فضائی مشین اس نے ریشم اور عقاب کے پروں سے تیار کی تھی اور وہ لگ بھگ دس منٹ ہوا میں اڑتا رہا۔''(۹)

اس سارے تناظر میں داستان گوئیوں کا پروں کی مدد سے اڑنے والے جنوں، دیووں اور پریوں کے قصے سنانا کوئی حیرت کی بات نہیں ہونی چاہیے۔ اس طرح داستانوں میں اڑنے والے قالینوں اور موجودہ دور کے ڈرون طیاروں (بغیر پائلٹ کے چلنے والے) میں بھی کسی نہ کسی حد تک مماثلت کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔

اسی طرح داستانوں میں ''شیشے کا گلوب'' ہوتا ہے جس میں جادوگر اور جادوگرنیاں نہ صرف اپنے جادوئی محل کی طرف آنے والے اشخاص کو دیکھ لیتے تھے بلکہ دنیا کے کسی بھی حصے کو اس شیشے کے گلوب میں دیکھا جا سکتا تھا۔ آج کے جدید ٹیکنالوجی کے دور میں کیمرے، ٹیلی ویژن، کمپیوٹر، سمارٹ فونز، اور سی سی ٹی وی CCTV کیمروں کے مہر العقول کمالات کو پیش نظر رکھا جائے تو یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ علم بصریات دنیا کی سب سے پہلی اور شاہکار تصنیف ''کتاب المناظر'' ابن الہشیم نے لکھی۔(۱۰)

اس نے لینسLens کی میگنی فائنگ Magnifying پاور کی بھی تشریح کی۔ابن الہیثم کی معرکتہ آرا کتاب "On optics " آج اپنے لاطینی ترجمہ کے ذریعہ زندہ ہے۔ انہوں نے تاریخ میں پہلی مرتبہ Lenses کی Magnificying Power کو دریافت کیا۔(۱۱)

آج کے دور میں جدید سائنسی ٹیکنالوجی گوگل Google عینک کی ایجاد کی منزل تک پہنچ گئی ہے۔ اب گوگل عینک کی کرامات کو پیش نظر رکھا جائے تو داستانوں میں سلیمانی سرمہ کی کرامات کو پیش نظر رکھا جائے تو داستانوں میں سلیمانی سرمہ کی کرامات کا جواز از خود پیدا ہو جاتا ہے۔ دنیا میں سب سے پہلا کیمرہ یعنی پن ہول کیمرہ (Pin Hole Camera ) بھی ابن الہیثم کی ہی قابل فخر ایجاد ہے۔

بہت عجیب اور ناقابل یقین لگتا تھا کچھ عرصے پہلے تک علی بابا چالیس چور کی داستان سنتے ہوئے کہ جب علی بابا کہتا ، کھل جا سم سم اور دروازہ کھل جاتا۔ علی بابا کہتا بند ہو جا سم سم ، اور دروازہ بند ہوجاتا۔

آج کے دور میں موبائلز اور کمپیوٹر وغیرہ میں Password کے ساتھ ساتھ voice lockاور voice unlock بھی اسی نوعیت کے مقاصد کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔ جبکہ Voice message وغیرہ تو آج بالکل عام سی بات ہے۔

اسی طرح داستانوں میں شیشہ کے گلوب میں دوسرے فریق کو دیکھ کر اس سے گفتگو کرنے کا ذکر بھی ملتا ہے۔ جادو اور تنتر منتر کے زور سے بنا ایک پرندہ بھی داستانوں میں پایا جاتا ہے جو لمحوں میں ہزاروں میل کا فاصلہ طے کر کے دور دراز کی خبریں لے کر آتا ہے۔ سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی کی وجہ سے ٹیلی فونز، وائر لیس اور پھر دور حاضر میں سکائپ منیجر، وٹس ایپ وغیرہ۔ پر Video calls نے اس کو بھی ممکن کر دکھایا۔

داستانوں میں جادوگر آگ کے بنے ہوئے جادوئی گولے پھینک کر مکمل تباہی و بربادی پھیلا دیتے تھے۔ داستانوں میں یہ سب کچھ عجیب اور ناقابل یقین لگتا تھا لیکن دستی بم ریمورٹ کنڑول بم، ایٹم بم، اور ان کے ذریعے پھیلنے والی تباہی و بربادی ایک ہولناک حقیقت بن کر آج کی دنیا میں موجود ہے۔ بارود کی ایجاد میں با ترتیب چین اور یورپ کے نام دیئے جاتے ہیں۔ اگرچہ چینیوں نے سلفر گن پاؤڈر ایجاد کیا تھا اور اسے آتش بازی کے لیے استعمال کرتے تھے۔ مگر یہ عرب تھے جنہوں نے اس میں پوٹاشیم نائٹریٹ شامل کر کے اسے فوری مقاصد کے لیے استعمال کیا ۔ جبکہ پندرھویں صدی میں راکٹ اور تار پیڈو ایجاد کیا۔ جس سے وہ دشمنوں کے بحری جہازوں کو نشانہ بناتے تھے۔(۱۲)

اس ضمن میں غلام علی اخضر بھی اپنے مضمون میں لکھتے ہیں:

''میر فتح علی شیرازی ایک ایسی بندوق کے موجد ہیں۔ جس کو چلانے سے بارہ فائرنگ ایک ساتھ ہوتے تھے۔ اس کے متعلق ایک شہرت یافتہ فرانسیسی مورخ لیبان کا قول ہے کہ من جملہ عربوں کی ایجادات میں بندوق و بارود ایک بڑی ایجاد ہے۔''(۱۳)

کنگ سعود یونیورسٹی ریاض، سعودی عربیہ میں کی گئی ایک تحقیق کے مطابق:

''مسلمانوں نے قلعہ شکن ہتھیار منجنیق ایجاد کیا جو مضبوط اور ناقابل تسخیر سمجھے جانے والے قلعوں اور برجوں کو چند لمحوں میں ملبے کا ڈھیر بنا دیتا تھا۔ اس زمانے میں مسلمانوں کا یہ عظیم ہتھیار تھا۔ دور جدید میزائلیں اور توپیں اسی منجنیق کی ارتقائی شکلیں ہیں۔''(۱۴)

مذکورہ بالا تمام محیر العقول واقعات سے بھرپور مثالیں ہمیں داستانوں میں باآسانی مل جاتی ہیں۔ جنہیں ایک دو دہائی قبل تک محیر العقول، خیالی اور من گھڑت قصوں میں شمار کیا جاتاتھا۔ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اور بالخصوص دور حاضر  میں سائنس اور ٹیکنالوجی کی حیرت انگیز ترقی کی بدولت ان نا ممکنات کا ممکنات میں تبدیل ہونا کوئی اچھنبے کی بات نہیں رہی اور یہ بھی  کہنا بے جانہ ہو گا کہ داستان گو سائنس کی ابتدائی ایجادات اور دریافتوں سے یقیناًکسی نہ کسی طور اور کسی نہ کسی حد تک ضرور واقف رہے ہونگے۔ داستانوں میں مذکورہ واقعات اور چیزوں کو محض داستان گو یوں کے ذہن کی کارستانی، خیالی، من گھڑت، اور مبالغہ آمیز باتیں قرار دینا کم از کم آج کے سائنس اور ٹیکنالوجی کے دور میں درست قرار نہیں دیا جا سکتا۔ بلکہ یہ کہنا بھی بے جانہ ہو گا کہ ''داستان'' کی مروجہ تعریف یعنی خیالی، جھوٹا اور من گھڑت قصہ میں مکمل نہیں تو کم از کم جزوی اور موجودہ سائنسی دور سے مماثلت اور مطابقت رکھنے والی ایک نئی تعریف متعین کر لینی چاہیے۔


 

حوالہ جات

۱۔      داستان سے افسانے تک از وقار عظیم، طاہر بک ایجنسی، دہلی، جون ۷۲، ص۵
۲۔      تفصیل کے ملاحظہ کیجئے:  ''فنِ تحریر کی تاریخ''، محمد اسحاق صدیقی، انجمن ترقی اردو(ہند)، علی گڑھ، بار اول، ۱۹۶۲ء
۳۔      تفصیل کے ملاحظہ کیجئے:  گیان چند جین، ڈاکٹر، ''اردو کی نثری داستانیں''، پہلا اکادمی ایڈیشن، اترپردیش اردو اکادمی، لکھنو، ۱۹۸۷ء
۴۔      ہماری داستانیں، ڈاکٹر سید وقار عظیم، بار اول، ستمبر ۱۹۸۰ء، سوتیوالان، نئی دہلی، ص۲۳، ۲۴
۵۔      ملاحظہ فرمائیے: Witchcraft in Shakespeare's England Carole Levin- 15 March 2016 ۔ https://www.bl.uk
۶۔     گیان چند جین، ڈاکٹر، ''اردو کی نثری داستانیں''، ص۱۷
۷۔      تفصیل کے ملاحظہ کیجئے: نامور مسلم سائنسدان، حمید عسکری، مجلس ترقی ادب، لاہور، ۳۰جون ۲۰۱۶ء؛ مسلمان اور سائنس، پرویز امیر علی ہود بھائی، مشعل بکس، لاہور، ۲۰۰۹ء
۸۔      ''اسلام اور جدید سائنس''، پروفیسر ڈاکٹر طاہر القادری، منہاج القرآن پبلی کیشنز، لاہور، اشاعت اول، مئی ۲۰۰۱ء، ص۱۸۵۔
۹۔     http://www.dawnnews-tv/news تفصیل کے لیے دیکھئے: Dictionary of Science Biography, Vol-1, Page 5
۱۰۔    نامور مسلم سائنسدان ، حمید عسکری، مجلس ترقی ادب، لاہور، سوم، اگست، ۲۰۰۸ء،ص۲۳۵
۱۱۔      اسلام اور جدید سائنس، ص۹۱
۱۲۔    https://www.dawnnews.tv
۱۳۔     Avadhnama.com. December 13, 2018
۱۴۔    افضل ضیاء شہزاد https://taleemizavia.com.pk. November 28, 2017
 
اوپر جائیں  |   پرنٹ کیجئےِ
انگریزی ورژن ای میل چیک کریں مرکزی صحفہ پرنٹ پسندیدہ سائٹ بنائیں رابطہ کیجئے www.shahzadahmad.com www.shahzadahmad.com