توبۃ النصوح کی تدوین اور ڈاکٹر افتخار احمد صدیقی

ڈاکٹرریحانہ کوثر۔ اسسٹنٹ پروفیسر شعبہ اُردو، لاہور کالج برائے خواتین یونیورسٹی لاہور۔

ABSTRACT

Iftekhar Ahmed Siddiqui has edited numerus Urdu classics including Toba-tun Nasuh by Deputy Nazeer Ahmed. This critical article analyzes the degree of objectivity and editing standards that maintained by him during editing of Toba-tun Nasuh. It is discovered that at different passages, Iftekhar do prefer connotations and contexts that are more supportive to his own orientation. Besides, few parts depict minor mistakes that hurt the quality and shows the crack in required care. Arguments are supported with examples form the text, and secondary material also cited to illustrate the errors in popular perception about the work.

Key Words:     Urdu Editing; Urdu Classics; Research and Subjectivity

 

ڈاکٹرافتخار احمد صدیقی نے مولوی نذیر احمد پر تحقیقی کام کرتے ہوئے ان کے کچھ ناول بھی مدون کئے۔ ایسا ہی ایک ناول توبۃ النصوح اس مضمون میں زیر بحث آیا ہے۔ دلائل سے ثابت کیا گیا ہے کہ صدیقی صاحب نے لوازمِ تدوین کو سامنے رکھتے ہوئے اس ناول کو مدون کیا ہے تاہم انھوں نے متن کی تصحیح میں ذاتی ترجیحات کو بھی شامل کیا جو خالص تدوینی نقطہ نظر سے درست نہیں ہے۔

توبۃ النصوح ڈاکٹر افتخار احمد صدیقی کے مدون کام کے سلسلے کا دوسرا کام ہے، اس سے پہلے وہ فسانہ مبتلا از ڈپٹی نذیر احمد کی تدوین کر چکے تھے۔ صدیقی صاحب کا تیسرا تدوینی کام کلیات نظمِ حالی ہے جو دو جلدوں میں بالترتیب ۱۹۶۸  اور ۱۹۷۰ میں شائع ہوا۔ ان کا چوتھا تدوینی کام کلام حکیم (ڈاکٹر خلیفہ عبدالحکیم ) ہے۔ جبکہ پانچواں کام (جواہرِ حالی) کلام حالی کا انتخاب ہے یہ تمام کتب مجلسِ ترقی ادب لاہور کی طرف سے شائع ہوئیں۔ اس مضمون میں صدیقی صاحب کے دوسرے تدوینی کام توبۃ النصوح کا جائزہ لیا جا رہا ہے۔

توبۃ النصوح کی تدوین کے وقت تحقیقی اور تدوینی نقطۂ نظر سے اس کی سبھی اہم اشاعتیں صدیقی صاحب کے پیش نظر تھیں پہلا ایڈیشن ۱۸۷۴  میں آگرہ سے شائع ہوا۔ اس کے بعد مطبع نظامی کانپورسے ۱۸۷۹  میں شائع ہوا۔ مسٹر ایم کیمپسن کا مرتبہ نسخہ لندن سے ۱۸۸۶  میں زیور طباعت سے آراستہ ہوا۔ مطبع نول کشور کانپور سے ۱۸۸۲  اور ۱۸۸۷  میں اور مصنف کی نگرانی میں ۱۸۹۵  ۔ ۱۸۹۴  میں مطبع انصاری دہلی سے طبع ہوااور جید برقی پریس دہلی سے ۱۹۲۸  میں بہ اہتمام مولوی منذر احمد(نبیرۂ مصنف) توبۃ النصوح شائع ہوا۔

صدیقی صاحب نے حتی الامکان کوشش کی کہ اُصول ولوازم تحقیق و تدوین کے تحت توبۃ النصوح کے تمام نسخے فراہم ہو سکیں۔ ''توبۃ النصوح'' کا پہلا ایڈیشن حاصل کرنے کے لیے ڈاکٹر افتخار احمد صدیقی کو خاصی بھاگ دوڑ کرنا پڑی، اس سلسلے میں وہ بھارت کے مختلف شہروں میں گئے ۔اپنے موضوع سے گہری دلچسپی اور موضوع سے متعلق مواد کے بارے میں ٹھوس اور صحیح معلومات ہونے کی وجہ سے صدیقی صاحب نے تہیہ متن کا مرحلہ بخیرو خوبی طے کیا اور پھر سچے محقق و مدون کی طرح مواد کی درجہ بندی کر کے سلیقے سے پیش کرنے میں کامیاب ہوئے۔

توبۃ النصوح کے متن کی ترتیب کے کام کو شروع کرتے وقت صدیقی صاحب کے سامنے صرف وہی نسخے تھے جو انہیں اسلامیہ کالج لاہور اور پنجاب یونیورسٹی لاہور سے مل سکے تاہم وہ آگرہ اور کان پور والے ابتدائی نسخوں کے حصول کے لیے کوشش کرتے رہے۔ اس تلاش میں انہیں ایم۔کیمپسن کا مرتبہ نسخہ مل گیا جو لندن سے ۱۸۸۶  میں شائع ہوا تھا۔ یہ نسخہ اس خوبی کے باوجود کہ یہ ٹائپ میں نہایت اہتمام سے طبع ہوا ہے، ڈاکٹر صدیقی کے نزدیک زیادہ اہم نہیں تھا۔ اس لیے کہ اس میں مرتب نے جگہ جگہ نذیر احمد کے طویل بیانات اور مکالموں کو مختصر کر دیا ہے۔ بہرحال صدیقی صاحب نے تلاش جاری رکھی اور آخر میں انہیں دو اور نسخے دستیاب ہو گئے۔ ایک وہ جو مصنف کی زیرنگرانی ۱۳۱۱ھ بمطابق ۱۸۹۵ ۔۱۸۹۴  میں مطبع انصاری دہلی میں چھپا اور دوسرا وہ جو دہلی سے جید برقی پریس سے مولوی منذر احمد(نبیرۂ نذیر احمد) نے ۱۹۲۸  میں شائع کروایا۔ صدیقی صاحب نے ان دو نسخوں کی دستیابی کے بعد اپنے تیارکردہ متن کا نذیر احمد کی نگرانی میں طبع ہونے والے نسخے سے مقابلہ کر کے اسے دوبارہ درست کیا۔ تاہم آگرہ اور کان پور والے نسخوں کی تلاش ترک نہ کی آخر انہیں رام پور، علی گڑھ اور دہلی کے کتب خانوں سے آگرے سے طبع ہونے والا پہلا ایڈیشن(مطبوعہ ۱۸۷۴ ) مطبع نظامی کانپور والا ایڈیشن(مطبوعہ ۱۸۷۹ ) اور مطبع نول کشور کان پور کے ایڈیشن(مطبوعہ ۱۸۸۲  اور ۱۸۸۷ ) مل گئے۔ ان تمام نسخوں کا مقابلہ کرنے کے بعد وہ اس نتیجہ پر پہنچے کہ کان پور سے طبع ہونے والے نسخے، املا و کتابت کے معمولی فرق کے سوا یکساں ہیں تاہم ان کا متن کئی جگہ طبع اوّل والے نسخے سے قدرے مختلف ہے نیز یہ کہ مطبع انصاری دہلی والا ایڈیشن جسے صدیقی صاحب نے بنیاد بنایا، طبع اوّل کے عین مطابق ہے۔(۱)

جب کسی متن کے کئی نسخے دستیاب ہوں تو ترتیب و تصحیح کے وقت ان کی درجہ بندی کرنے کے بعد مختلف روایتوں اور نسخوں کا تقابلی مطالعہ کیا جاتا ہے۔ عام طور پر مرتبین اس مرحلے میں کسی ایک نسخے کو بنیادی نسخہ قرار دے کر دوسرے نسخوں کے اختلافات حاشیہ میں دکھاتے ہیں لیکن بہتر یہ سمجھا گیا ہے کہ کسی نسخے کو بنیاد تو ضرور بنائیں لیکن سختی کے ساتھ اس کی پابندی نہ کریں بلکہ مختلف نسخوں میں سے وہ متن قبول کریں جو زبان اور اسلوب کے اعتبار سے منشائے مصنف سے نزدیک تر ہو۔

ڈاکٹر افتخار احمد صدیقی نے توبۃ النصوح کی تدوین کے وقت اس اصول اور ضابطے کی کیسی اور کتنی پابندی کی ہے، اس کا جائزہ پیش خدمت ہے:

کسی کتاب کے متن کی تصحیح و ترتیب کے لیے جس طرح یہ ضروری بلکہ لازم ہے کہ اس کے مختلف نسخوں کو (اگر وہ موجود ہوں) پیش نظر رکھ کر منشائے مصنف معلوم کیا جائے، لفظوں کی شکل و صورت کا تعین کیا جائے یعنی لفظوں کی وہ صورت جو مصنف کے قلم سے رونما ہوئی۔ جب یہ کام کیا جائے گا تو متعدد مسائل پیدا ہوں گے۔ لہٰذا یہ ضروری ہو گا کہ حواشی میں ایسے ہر لفظ سے متعلق ضروری تفصیلات درج کی جائیں، بہت سے جملوں کی ترتیب اور معنویت بھی وضاحت کی محتاج نظر آئے گی، تب حواشی میں ان سے متعلق وضاحتوں کا پیش کرنا ضروری قرار پائے گا۔

تصحیح و ترتیب متن کے سلسلے میں الفاظ کی شکل و صورت کے تعین اور اس ضمن میں ضروری تشریحات کی کتنی اہمیت ہے، اس کا اندازہ مندرجہ بالا سطور سے ہو سکتا ہے۔ صدیقی صاحب کے مرتبہ متون میں اس طرح کا کام نہ ہونے کے برابر ہے۔

''ایک اور کام جسے تصحیح و ترتیب متن کے وقت بہت اہم سمجھنا چاہیے وہ یہ ہے کہ مشکل لفظوں پر اعراب ضرور لگائے جائیں اضافت کے زیر اور تشدید کا اہتمام کیا جائے، معروف و مجہول آوازوں کے تعین کے لیے علامات سے کام لیا جائے اسی کے ساتھ توقیف نگاری(پنکچوایشن) کا اہتمام بہ طور خاص کیا جائے تاکہ اجزائے جملہ کا ٹھیک ٹھیک تعین ہو سکے اور معنویت روشن ہو۔''(۲)

ڈاکٹر افتخار احمد صدیقی کی مرتبہ ''توبۃ النصوح'' کے مطالعے سے یہ سامنے آتا ہے کہ وہ اپنے مطالعے کی وسعت اور لوازم تدوین کا شعور رکھنے کی بنا پر تہیہ و تالیف متن کے مرحلے بخوبی طے کر لیتے ہیں یعنی کسی کتاب کی تدوین و ترتیب کے لیے جس مواد کی اہمیت اور ضرورت ہوتی ہے، اسے فراہم کر لیتے ہیں۔ فراہم کردہ مواد کی درجہ بندی بھی صحیح طور پر کر لیتے ہیں لیکن اس کے بعد جب اس مواد کی روشنی میں متن کی تصحیح و ترتیب کی نوبت آتی ہے تو معاملہ گڑبڑ ہو جاتا ہے، مثلاً''توبۃ النصوح'' کی تدوین کے لیے انھوں نے جو قدیم نسخے فراہم کیے اُن میں سے مطبع انصاری دہلی سے مصنف کی زیرنگرانی ۱۳۱۱ھ (۱۸۹۵ ۔۱۸۹۴ ) میں اور جید برقی پریس دہلی سے ۱۹۲۸  میں شائع ہونے والے نسخوں کے بارے میں لکھتے ہیں کہ:

''متن کی صحت، حسن کتابت اور اہتمام کتابت کے اعتبار سے ان سے بہتر کوئی نسخہ اب تک میری نظر سے نہیں گزرا۔'' (۳)

مطبع نظامی کانپور کا ایڈیشن مطبوعہ ۱۸۷۹ ، مطبع نول کشور کان پور کے ۱۸۸۲  اور ۱۸۸۷  والے ایڈیشن،آگرے والاپہلا ایڈیشن مطبوعہ ۱۸۷۴ ___ان کے بارے میں صدیقی صاحب فرماتے ہیں:

''کان پور کے چھپے ہوئے نسخے، املا و کتابت کے معمولی فرق کے سوا بالکل یکساں ہیں۔ ان کا متن کئی جگہ طبع اوّل سے قدرے مختلف ہے۔ مطبع انصاری دہلی والا ایڈیشن، طبع اوّل یعنی آگرے والے ایڈیشن کے عین مطابق ہے۔'' (۴)

صدیقی صاحب کے ان بیانات سے مندرجہ ذیل باتیں سامنے آتی ہیں۔

۱۔ آگرے والا پہلا ایڈیشن مطبوعہ ۱۸۷۹  اور مطبع انصاری دہلی والا ایڈیشن (مطبوعہ۹۵۔۱۸۹۴ ) متن کے اعتبار سے یکساں ہیں۔ مؤخر الذکر ایڈیشن، اول الذکر کے عین مطابق ہے، سوائے اس کے کہ طبع اوّل میں اس کا، ان کا، الٹا وغیرہ الفاظ کو پرانے طرز املاپر لکھا گیا ہے یعنی ''اوس کا''، ''اون کا''، ''اولٹا''

۲۔ کان پور میں چھپے ہوئے نسخے مطبع نظامی اور نول کشور والے املا و کتابت کے معمولی فرق کے سوا بالکل یکساں ہیں۔ ان کا متن کئی جگہ طبع اوّل(آگرہ) والے ایڈیشن سے قدرے مختلف ہے۔

اب اصولی طور پر تو یہی ہونا چاہیے تھا کہ صدیقی صاحب طبع اوّل والے آگرہ ایڈیشن کو بنیاد بنا کر متذکرہ بالا دوسرے نسخوں کے اختلافات حواشی میں درج کر دیتے اور تصحیح متن کے لیے بھی انہی نسخوں کو پیش نظر رکھتے لیکن انھوں نے ایسا نہیں کیا بلکہ جو کیا اس کی تفصیل یہ ہے کہ متداول نسخوں میں سے تصحیح متن کے لیے وہ نسخہ چنا جو بقول ان کے بازار میں سب سے زیادہ دیدہ زیب اور صحیح نسخہ ہے اور اس صحیح نسخے کی ''حالت'' خود ان کے اپنے الفاظ میں یہ ہے کہ یہ نسخہ پہلے چھپے ہوئے نسخوں کی اغلاط اور تحریفات کا امانت دار ہونے کے ساتھ ساتھ کتابت کی بے شمار غلطیوں کے بوجھ سے بھی گراں بار ہے اور کچھ ایسی ''کارستانیوں'' کو بھی اپنے دامن میں لیے ہوئے ہے جنھیں سہوکاتب سے منسوب نہیں کیا جا سکتا۔

ڈاکٹر افتخار احمد صدیقی نے تصحیح متن ''توبۃ النصوح'' کے لیے اپنے ''منتخب کردہ صحیح نسخے'' کی اغلاط کو سرسری طور پر پیش کرنے پر ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ اڑھائی صفحات میں ان غلطیوں کی تفصیل بھی بتائی ہے جو صرف ایک باب سے لی گئی ہے___ کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ اچھے بھلے قدیم اور صحیح نسخوں کو چھوڑ کر اغلاط کے متذکرہ بالا پلندے کو لوازم تدوین کے سلسلے کے کس اصول کی ''سربلندی'' کے لیے تصحیح کے کام میں پیش نظر رکھا۔ خیر اگر غلطیوں کی اس پوٹ سے تصحیح متن میں مدد لی ہی گئی ہے تو حواشی میں اس کا کچھ ذکر ہونا چاہیے تھا، لیکن دیکھنے میں یہ آ رہا ہے کہ کسی حاشیے میں بازار کے اس ''صحیح ترین نسخے'' کا کوئی حوالہ نہیں ہے۔ تصحیح متن کے سلسلے میں تو صدیقی صاحب نے کوئی حاشیہ سرے سے لکھا ہی نہیں، اختلافِ نسخ کے سلسلے کے البتہ چند حواشی ہیں جن کی تفصیل حسب ذیل ہے:

۱۔      فصل اوّل میں صفحہ۱۴ پر لفظ ''ننانوے'' کی وضاحت حاشیے میں یوں کی ہے___ ''ابتدائی نسخوں میں یہی لفظ موجود ہے بعد میں اسے بدل کر ''ہیضے'' کر دیا گیا'' (یعنی ''ننانوے کی گرم بازاری سنی'' کی جگہ ''ہیضے کی گرم بازاری سنی'' کر دیا)___ یہاں صدیقی صاحب نے اختلاف نسخ کے لیے حوالہ دینے کا جو انداز اپنایا ہے، وہ مناسب نہیں ہے۔ ''توبۃ النصوح'' کے تمام ابتدائی نسخے بقول ان کے، ان کے پیش نظر تھے۔ لہٰذا کھل کر بتانا چاہیے تھا کہ کون کون سے نسخوں میں ''ننانوے'' کا لفظ ہے۔ ''بعد میں'' کہنا کیا معنی رکھتا ہے؟ ''ہیضے'' کا لفظ ''ننانوے'' کی جگہ کب اور کس نسخے میں وارد ہوا؟ اس کی وضاحت کرنی چاہیے تھی۔

۲۔      صفحہ۵۴ کا حاشیہ نمبر۱۶ بھی اسی طرح کا مبہم ہے جیسا کہ صفحہ۱۴ والا۔ متن میں ایک جملہ ہے___ ''کیا اچھے ہونے کے نفل مانے تھے''___ اس کی وضاحت حاشیے میں یوں کی ہے: ''پرانے نسخوں میں یہ جملہ اس طرح چھپا ہے۔ بعد کے ایڈیشنوں میں اسے یوں بدل دیا گیا۔ ''کیا اچھے ہونے کی نفل مانی تھی''___ یہاں الفاظ ''پرانے نسخوں اور بعد کے ایڈیشنوں''  میں بہت مبہم ہیں۔

۳۔     صفحہ۹۱ پر ایک جملہ ہے ''میں شطرنج کی نسبت کر گنجفہ کو زیادہ ناپسند کرتا ہوں۔'' ''نسبت کر'' کی وضاحت حاشیے میں یوں کی گئی ہے___ آگرہ اور کان پور کے دونوں ابتدائی ایڈیشنوں میں ''نسبت کر'' لکھا ہوا ہے___ بہ نسبت کی جگہ یہ متروک ترکیب نذیر احمد کے یہاں بھی کم دیکھی گئی ہے۔ اس کتاب میں صرف دو جگہ آئی ہے''___ صدیقی صاحب کا یہ حاشیہ لکھنے کا کیا مقصد ہے؟ کچھ سمجھ میں نہیں آتا۔

''توبۃ النصوح'' کے آگرہ اور کان پور کے ایڈیشنوں میں بھی ''نسبت کر'' ہے۔ پوری کتاب (توبۃ النصوح) میں دو جگہ یہ ترکیب اسی طرح آئی ہے یعنی ''نسبت کر''۔ تو اس سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ نذیر احمد آج کل کی ''بہ نسبت'' کی جگہ ''نسبت کر'' لکھتے تھے۔ لہٰذا یہ کہنا کہ ''نذیر احمدکے یہاں بھی کم دیکھی گئی ہے'' کے کیا معنی ہیں؟ ''کم دیکھی گئی ہے'' کا جملہ تو اس وقت بامعنی ہو گا جب یہ دکھایا جائے گا کہ نذیر احمد کے یہاں مثلاً سو بار لفظ ''بہ نسبت'' یا ''نسبت کر'' کا محل استعمال تھا لیکن انھوں نے صرف دس مرتبہ ''نسبت کر'' استعمال کیا اور نوے مرتبہ ''بہ نسبت'' استعمال کیا۔

۴۔       صفحہ۱۳۴ پر آنے والے لفظ ''مصیبت مند'' کی وضاحت حاشیے میں یوں کی گئی ہے کہ:

پرانے نسخوں میں''مصیبت مند'' لکھا ہوا ہے۔ بعض مرتبین نے مصنف کی اصلاح کرتے ہوئے ''مصیبت زدہ'' بنا دیا ہے___ یہاں بھی وہی صفحہ۵۴ والے حاشیے کی طرح ''پرانے نسخوں'' اور ''بعض مرتبین'' جیسے مبہم الفاظ لکھے ہیں۔ جب سبھی قابل اعتنا بنیادی اور ثانوی ماخذ مرتب کے سامنے (بقول ان کے) موجود ہیں تو متعین طور پر بتانا چاہیے کہ کون کون سے ''پرانے نسخوں'' میں ''مصیبت مند'' ہے اور وہ نسخے کون سے ہیں جہاں ''مصیبت زدہ'' ہے۔

متون(تحریریں) نثری ہوں یا شعری اپنے مصنف کے جذبہ و احساس اور فکر و نظر کے ترجمان ہوتے ہیں۔ لہٰذا اگر انہیں مرتب کرتے وقت ان کی تاریخ تصنیف متعین کر دی جائے تو اس سے مصنف کے ذہنی تغیر اور ارتقا  کو سمجھنے میں بڑی مدد ملتی ہے نیز یہ معلوم کرنا بھی آسان ہو جاتا ہے کہ اس کے جذبہ و احساس یا فکر و خیال کی تعمیر و تشکیل میں کس قسم کے عناصر کارفرما تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ترتیب و تدوین متن کی ذیل میں تاریخِ متن کے تعین کی بڑی اہمیت ہے۔

''توبۃ النصوح'' کی ترتیب کے وقت ان کو اس کا پہلا ایڈیشن مطبوعہ ۱۸۷۴  آگرہ بھی میسر آ گیا اور وہ بھی مصنف کی زیرنگرانی ۱۸۹۵ ۔۱۸۹۴  میں طبع ہوا۔ صدیقی صاحب کے بقول مطبع انصاری دہلی والا ایڈیشن طبع اوّل کی ہوبہو نقل ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ امالے کا خیال نہیں رکھا گیا، طبع اوّل میں قدیم املا و کتابت ہے جب کہ مطبع انصاری والے نسخے میں جدید املا و کتابت کی پیروی کی گئی ہے۔ ''توبۃ النصوح'' کے مندرجہ بالا نسخوں کی مدد سے اس کی پہلی تاریخ طبع و اشاعت تو معلوم ہو گئی لیکن تاریخ تصنیف کے تعین کے لیے صدیقی صاحب نے کوشش نہیں کی۔ بہرحال تاریخ اشاعت سے یہ قیاس کیا جا سکتا ہے کہ یہ ناول اپنی اشاعت کے سال ۱۸۷۴  سے چند سال قبل لکھا جا چکا تھا۔

جیسا کہ معلوم ہے کہ جب کوئی متن مرتب کیا جائے گا تو وہی کچھ ترتیب کے نام پر پیش کیا جائے گا جو متن کے مصنف کا منشا  ہے___ ترتیب و تدوین کی ضرورت کیوں ہوتی ہے؟ اسی لیے نا کہ کسی عہد کے لکھنے والوں کے متون ہر قسم کی کمی بیشی سے پاک ہو کر صحیح اور اصلی شکل و صورت میں سامنے آئیں تاکہ بعد میں آنے والے، اس دور کی زبان کے الفاظ و محاورات و اصطلاحات اور لسانی خصوصیات کو، اس عہد کے تنقیدی شعور کو، تہذیبی احوال کو اور سماجی کوائف وغیرہ کو سمجھ سکیں۔ اگر ترتیب و تدوین کے وقت مرتبین متون میں اصلاح و ترمیم فرمانے لگیں گے تو ان متون کو شائع کرنے کا مقصد ہی فوت ہو جائے گا۔

اسی قسم کا انداز ''توبۃ النصوح'' کی ترتیب کے سلسلے میں نظر آتا ہے۔ صدیقی صاحب '''توبۃ النصوح' کی ترتیب کے سلسلے میں اپنے طریق کار کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

''زیرنظر نسخے میں علامات اوقاف، پیراگرافوں کی تقسیم، امالے کی رعایت، جدید طریق املا و کتابت کی پیروی، غرض ہر لحاظ سے مجلس ترقی ادب کی مطبوعات کا معیار قائم رکھنے کی کوشش کی گئی ہے___ خیال آیا کہ (توبۃ النصوح) ہر فصل کی ابتدا میں جو عبارتیں بہ طور عنوان ہیں انہیں حذف کر دیا جائے کہ یہ داستانی اسلوب، جدید کہانیوں کو زیب نہیں دیتا۔ نیز بعض فصلوں کی (بالخصوص فصل دہم کی جو طویل اور گوناں گوں واقعات پر مشتمل ہے) نئے سرے سے تحدید و تعین کی جائے لیکن۔۔۔۔۔''(۵)

مذکورہ بالا عبارت کو پڑھنے کے بعد ہم یہ محسوس کرتے ہیں کہ صدیقی صاحب کی اپنی ہی کہی ہوئی بات ان کے ذہن سے نکل گئی۔ آپ کی پسند و ناپسند کچھ بھی ہو مرتب متن میں ایک حرف کی کمی بیشی کا اختیار نہیں۔

"متن میں اصلاح و ترمیم کا حق تو بہرحال کسی کو نہیں پہنچتا خواہ مرتب مصنف کا بیٹا یا پوتا ہی کیوں نہ ہو"(۶)

یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ صدیقی صاحب نے توبۃ النصوح کو اپنے ذاتی مطالعہ کے لئے مرتب کیا ہے یا عام لوگوں کے لئے؟ ظاہر ہے کہ عام لوگوں کے لئے مرتب کیا ہے اور مجلس ترقی ادب لاہور سے اس کا معاوضہ بھی پایا ہے۔ ایک کتاب جو عوام کے لئے طبع و شائع کی جا رہی ہے اسے اس کا مرتب اپنے ذوق کے مطابق قطع و برید کے ساتھ مرتب کر رہا ہے، ''منشائے مصنف'' کا گلا گھونٹ رہا ہے اور اس کے ساتھ یہ بات بھی تسلیم کرتا ہے کہ متن میں کمی بیشی کا حق کسی کو حاصل نہیں ہے۔

صدیقی صاحب کی اصلاح دینے کی یہ عادت ان کے ساتھ ایسی لگی ہوئی تھی کہ ان کے اولین تدوینی کام (فسانۂ مبتلا مطبوعہ ۱۹۶۲ ) میں بھی کارفرما نظر آتی ہے اور ۱۹۷۱  میں جب وہ اس سلسلے کا آخری کام کر رہے تھے تب بھی پوری ''آب و تاب'' کے ساتھ جلوہ فگن نظر آتی ہے۔

''مقدمہ'' میں مرتب کو اپنے ماخذ کا تعارف واضح طور پر کرانا چاہیے اور یہ بھی بتانا چاہیے کہ اپنے متن کی بنیاد اس نے کس نسخے کو بنایا ہے؟ اور کیوں بنایا ہے؟ یعنی اس نسخہ کی خصوصیات مناسب تفصیل کے ساتھ بیان کرنی چاہئیں اور متن کی تصحیح اور اختلافِ نسخ کے لیے جن نسخوں کو سامنے رکھا ہو ان کے بارے میں ضروری گفتگو کرنی چاہیے۔ یہ سب باتیں تنقیدِ متن کے ذیل میں آتی ہیں۔

کوئی مرتب جب کسی نسخے کو اپنے متن کی بنیاد بناتا ہے تو مناسب تفصیل کے ساتھ اس کی وجوہات بیان کرتا ہے مثلاً رشید حسن خاں نے مثنوی سحرالبیان کی ترتیب و تدوین میں فورٹ ولیم کالج کے مطبوعہ نسخے کو بنیاد بنایا ہے اور اس کی وجوہ اپنے مقدمے میں عنوان ''طریق کار'' کے تحت ص۱۲۶ پر مختصراً سات آٹھ سطروں میں اور اس سے پہلے نسخے کے تعارف کے سلسلے میں ساڑھے چھ صفحات میں (ص۱۲۶ تا ۱۳۲) میں اور اس سے پہلے ص۷۱ سے ۷۶ تک ضمناً بیان کی ہیں۔( ۷)

ڈاکٹر محمد حسن نے ''دیوانِ آبرو'' مرتب کر کے پہلی مرتبہ ۱۹۶۳  میں شائع کرایا۔ اس کا تیسرا ایڈیشن ۱۹۹۰  میں ترقی اردو بیورو نئی دہلی نے شائع کیا۔ دیوانِ آبرو کی ترتیب و تدوین کے وقت ڈاکٹر محمد حسن کے پیش نظر جو نسخے تھے اور جس نسخے کو انھوں نے بنیاد بنایا، اس کی تفصیلات انھوں نے اپنے مرتبہ ''دیوانِ آبرو'' کے صفحات۴۰ تا ۴۵ میں بیان کی ہیں۔ طوالت کے خوف سے اس سلسلے کی مزید مثالیں پیش کرنے سے احتراز کیا جاتا ہے۔ بہرحال کہنا یہ ہے کہ ہمارے صدیقی صاحب اس معاملے میں بہت جزرس واقع ہوئے ہیں۔ وہ نہ تو اپنے مآخذ کے بارے میں کھل کر بات کرتے ہیں اور نہ یہ بتاتے ہیں کہ اپنے متن کی ترتیب میں انھوں نے کس نسخے کو بنیاد بنایا ہے اور اگر بتا دیں ''تو کیوں بنایا'' کی وضاحت نہیں کرتے۔

اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اصل چیز وہ خیالات ہیں جنھیں مصنف نے پیش کرنا چاہا تھا مگر الفاظ کے بغیر وہ خیالات معرض اظہار میں نہیں آ سکتے تھے۔ اس بنا پر تدوین میں بنیادی اہمیت الفاظ کی ہے، جو واحد وسیلۂ اظہار ہوتے ہیں۔ الفاظ مرتب صورت میں خیال کی تصویرکشی کرتے ہیں۔ اس لیے یہ ضروری ہے کہ ممکن حد تک ان کی وہی شکل اور وہی ترتیب ہمارے سامنے ہو جس کو مصنف نے ادائے خیال کے لیے اختیار کیا تھا لیکن اس کے ساتھ یہ بھی لازم ہے کہ:

''تدوین متن میں متن کو منشائے مصنف کے مطابق پیش کر دینا ہی کافی نہیں ہوتا بلکہ یہ بھی ضروری ہوتا ہے کہ اسے اس طرح پیش کیا جائے کہ اس کی قرأت اور تفہیم میں مشکل پیش نہ آئے۔ اس کے لیے حواشی میں ضروری وضاحتیں کرنا مرتب کا فرض ہوتا ہے۔ مختصر حواشی کو متن کے صفحے کے نیچے اور طویل حواشی کو متن کے آخر میں ضمیمے یا ضمیموں کی شکل میں شامل کرنا چاہیے۔''(۸)

صدیقی صاحب اعتراف کرتے ہیں کہ:

''نذیر احمد دہلی کی بیگماتی اور عوامی زبان محاورات و امثال کے بادشاہ ہیں اور اس کے ساتھ ہی وہ ''لغت ہائے حجازی'' کے قارون بھی ہیں۔ کہیں کہیں ثقیل اور کرخت الفاظ استعمال کر جاتے ہیں۔۔۔۔ ان کی تحریر میں ثقیل اور غریب الفاظ بے حد کھٹکتے ہیں۔''(۹)

اس اعتراف و احساس کے باوجود کہ نذیر احمد عربی ، فارسی الفاظ و محاورات، دہلی کا روزمرہ اور محاورہ، بیگمات کی زبان، آیات و اقوال کا استعمال اور علمی اصطلاحات کا استعمال بے دھڑک کرتے ہیں۔ صدیقی صاحب ان کی تشریح و توضیح کے خصوصی اہتمام کی ضرورت سے بے نیاز ہیں ۔ مثلاً

''توبۃ النصوح'' مرتبہ ڈاکٹر افتخار احمد صدیقی کے ص۱۲ کے حاشیے میں ''پہلی ہی کلی'' کی وضاحت یوں کی گئی ہے___ ''پہلی ہی قے میں___ اردو میں کلی کے معنی تو ظاہر ہیں، عربی میں اس کے معنی مجموعی ہیں جس کے بالمقابل جزئی کا لفظ آتا ہے''___ میرے خیال میں تو لفظ ''کلی'' کی یہ تشریح بچگانہ ہے۔ اس کے ساتھ ڈاکٹر صاحب کا یہ فرمانا کہ اردو میں کلی کے معنی تو ظاہر ہیں، کیا معنی رکھتا ہے؟ اور پھر اردو اور عربی کا امتیاز پیدا کرنا؟ اردو میں عربی، فارسی، ہندی اور دوسری زبانوں کے ہزاروں الفاظ شامل ہیں۔ یہ الفاظ کہیں اپنی اصل زبان والی شکل و صورت اور معنی و مفہوم کے ساتھ لیے گئے ہیں اور اکثر اصل املا اور معنی میں تبدیلی کے ساتھ اردو میں جذب کیے گئے ہیں جو اب اردو ہی کے ہو کر رہ گئے ہیں۔ ایسے الفاظ کی تشریح کرتے وقت یہ تو بتا دیا جائے گا کہ ان کی اصل کیا ہے لیکن تشریح کا ایسا انداز اختیار نہیں کیا جائے گا جو صدیقی صاحب نے اپنایا ہے۔ اب لفظ ''کلی'' ہی کو لیجیے اس کے معنی یہ بھی ہیں:

''کسی رقیق چیز، پانی وغیرہ کو منہ میں لے کر اگل دینا۔ غرغرہ۔ نیز وہ دوا جس سے غرغرہ کرتے ہیں اور قے اور تمام، کل، پورا بھی اس کے معنی ہیں اور اگر ک کے نیچے زیر ڈال دیں تو اس کے معنی کیل یا کھونٹی ہو جائیں گے___ اور اگر ل کی تشدید نہ ہو اور ک پر زبر ڈال دیں تو معنی ہوں گے بن کھلا یا ادھ کھلا غنچہ۔ نیز کرتے، غرارے وغیرہ کا گھیر بڑھانے کے لیے آڑی تراش کا جوڑ۔۔۔۔۔ تر کیا ہوا چونا بھی ''کَلِی'' کہلاتا ہے جسے دیواروں پر رنگ کرنے کے لیے لگاتے ہیں جسے قلعی کرنا کہتے ہیں۔''(۱۰)

یہ لفظ ''کلی'' کے مختلف معانی ہیں۔ زیر، زبر اور تشدید کے فرق کے ساتھ معنی کچھ کے کچھ ہو گئے ہیں۔ شاید ہی کوئی لفظ ہو گا جو ایک ہی معنی رکھتا ہو، ایک لفظ کے مختلف معنی ہو سکتے ہیں۔ عبارت کے سیاق و سباق کو دیکھ کر یہ معلوم کرنا پڑتا ہے کہ وہ لفظ کن معنوں میں استعمال ہوا ہے۔ یہ بات میں ہرگز نہیں کہہ رہی کہ صدیقی صاحب الفاظ کے معانی کے بارے میں ان حقائق سے بے خبر ہیں بلکہ یوں لگتا ہے کہ یہ کام ان کے ذوق کا نہیں ہے، اسی لیے وہ توجہ اور انہماک سے نہیں کر پاتے۔

''توبۃ النصوح'' ہی کے صفحہ۱۳ پر حاشیہ میں ''جاں بحق تسلیم کرنا'' کے معنی کے سلسلے میں لکھتے ہیں۔ (اپنی جان خدا کے حوالے کرنا) یعنی مرنا کا مخفف ہے''___یہ حاشیہ لکھتے وقت صدیقی صاحب نہ جانے کس الجھن میں تھے ورنہ ''جاں بحق تسلیم کرنا'' کو مرنا کا مخفف نہ کہتے۔ مخفف کے معنی ہیں___ تخفیف کیا گیا، گھٹایا گیا، کم کیا گیا۔ اب دیکھیں کہ ''جاں بحق تسلیم کرنا'' چار لفظ ہیں اور ''مرنا'' ایک لفظ ہے۔ قطع نظر اس کے، مخفف میں اصل لفظ سے ایک دو لفظ کم کر کے اسے کم کیا جاتا ہے، یکسر کوئی نیا لفظ نہیں بنا لیا جاتا۔

''توبۃ النصوح'' کے صفحہ۱۵ پر نارجیل دریائی، بادیان، تمرہندی کے الفاظ آئے ہیں۔ حواشی یا فرہنگ میں کہیں ان کی وضاحت نہیں کی گئی۔ ص۱۶ پر ایک جملہ ہے ''دیکھتے ہیں تو جنازہ جامع مسجد کے صحن میں رکھا ہے'' اس جملے پر حاشیہ چڑھا کر لکھتے ہیں ''دہلی میں شاہ جہان کی بنائی ہوئی مشہور مسجد'' یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ صدیقی صاحب نے متعین طور پر کیسے کہہ دیا کہ یہاں مسجد سے شاہ جہان والی مسجد ہی مراد ہے، دہلی کی کوئی جامع مسجد ہو سکتی ہے، اس سے قطع نظر اس وضاحت کی ضرورت ہی کیا تھی۔ اول تو یہ وضاحت ہی مشکوک ہے۔ چلیے درست بھی ہو تو متن کی تفہیم میں یہ کیا مدد کرتی ہے؟ ظاہر ہے کچھ بھی نہیں۔ اگر ایسا ہے تو حاشیہ لکھنے کا مقصد؟ یہ تو وہی بات ہوئی کہ:

ع خط لکھیں گے گرچہ مطلب کچھ نہ ہو

متن اور متعلقاتِ متن کی تفہیم کے لیے متن کے ساتھ کچھ اضافے ضروری ہوتے ہیں ماقبل متن بھی، متن کے ساتھ بھی اور مابعد متن بھی۔ ان میں ایک تو مقدمہ ہے جو متن سے پہلے شاملِ کتاب ہوتا ہے اگرچہ عام طور پر اسے لکھا جاتا ہے متن کی تدوین مکمل ہونے کے بعد اور ان ضمیموں کے مکمل ہونے کے بعد جو متن کے آخر میں شامل کتاب ہوتے ہیں۔ (مقدمہ) میں عام طور پر مصنف کے ضروری حالات ہوتے ہیں۔ اس متن کے انتساب کی اور زمانۂ تصنیف کی بحث ہوتی ہے اور اگر مصنف نے متن پر نظرثانی کی ہے (ایک بار یا کئی بار) تو اس کی تفصیلات ہوتی ہیں۔ مختلف خطی اور مطبوعہ نسخوں کا (اگر خطی یا مطبوعہ نسخے موجود ہوں) مکمل تعارف شامل کیا جاتا ہے۔ زبان اور بیان سے بھی بحث کی جاتی ہے اور دوسرے مسائل کا بیان بھی ہو سکتا ہے۔۔۔۔ مختصراً یہ کہا جا سکتا ہے کہ ایسی بحثیں جن کے بغیر اس متن کے متعلقہ مسائل کو معلوم نہ کیا جا سکتا ہو اور اس متن کی تفہیم کے لیے وہ ضروری ہوں، ایسی سب بحثوں کو شامل مقدمہ ہونا چاہیے۔ البتہ یہ کہنا ضروری ہے کہ مفصل تنقیدی بحثوں کو شاملِ مقدمہ نہیں ہونا چاہیے۔ مجملاً کہا جا سکتا ہے اور بعض اہم خصوصیات کی نشاندہی کی جا سکتی ہے۔۔۔۔۔ مفصل تنقیدی جائزے سے سب سے بڑا نقصان یہ ہوتا ہے کہ تدوین سے حقیقی تعلق رکھنے والے مسائل زیربحث نہیں آ پاتے۔( ۱۱)

''تہےۂ متن سے لے کر تعلیقاتِ متن تک ایک مدون کو جن مراحل سے گزرنا پڑتا ہے یعنی متعلقہ متن کو موضوع بنانے کے سبب سے شروع ہو کر استعمال میں لائے جانے والے نسخوں کے تعارف تک (تدوین کے تمام مراحل کی تفصیلات) بیان کی جاتی ہیں۔'' (۱۲)

''مقدمہ'' کے مقتضیات و منہیات کے سلسلے کی مذکورہ چیزوں کو ذہن میں رکھتے ہوئے توبۃ النصوح کا مقدمہ دیکھیں تو یہ صورت سامنے آتی ہے کہ توبۃ النصوح میں مقدمہ تو ہے لیکن اس میں متن سے متعلقہ مسائل پر دو حرفی گفتگو ہی ہے۔ مقدمہ کا آغاز توبۃ النصوح کی فنی حیثیت سے اُردو ناول میں اولیت پر بحث سے ہوتا ہے اور پھر ایک ''تمہیدی'' تقریر ہے جس میں اُردو ناول کے مختلف ادوار پر بحث کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر تاثیر مرحوم اور ڈاکٹر احسن فاروقی کے حوالے سے توبۃ النصوح کو اُردو کا پہلا ناول قرار دیے جانے پر بحث کی ہے۔ اس کے بعد نذیر احمد کی قصہ گوئی کی فنی قدروقیمت متعین کرنے کے حوالے سے گفتگو شامل ہے اور ناول کو داستان سے کون سی چیزیں امتیاز بخشتی ہیں، ان کو واضح کیا ہے اور ساتھ ہی ساتھ توبۃ النصوح کے فنی مقام کو متعین کرنے کے لیے معیار مقرر کیا ہے۔

آگے چل کر صدیقی صاحب نے نذیر احمد کے ناولوں میں لکھنوی معاشرت کی عکاسی پر بحث کی ہے اور نذیر احمد کے ناولوں کے موضوعات، حقیقت نگاری، مقصدیت، کردار نگاری اور ان پر اعتراضات کی توجیہات پیش کی ہیں اور اس دور میں مسلمانوں کی اپنی حالت، معاشرے کی تہذیبی اور اخلاقی اقدار کا مذہب سے تعلق، مسلمانوں کے اخلاقی زوال، مسلمانوں کی حکومت و اقتدار کی بساط الٹنے اور سلاطین کے معمولات زندگی پر روشنی ڈالی ہے۔

مذکورہ بالا معاشرتی رویوں کو واضح کرنے کے بعد توبۃ النصوح میں سچی دین داری، نیکی اور شرافت کی فروزاں شمعیں سامنے لائے ہیں۔ آگے چل کر صدیقی صاحب نے شمالی ہند میں نئے علوم کی روشنی پھیلانے کے حوالے سے دہلی کالج، دہلی کالج کے اساتذہ اور اس کالج سے نکلنے والے اخبارات اور نذیر احمد کے ان حالات و واقعات سے مستفیض ہونے پر گفتگو کی ہے اور توبۃ النصوح میں نصوح کے کردار کو اس پس منظر میں دیکھنے کی کوشش کی ہے، اسی طرح توبۃالنصوح کے باقی کرداروں پر روشنی ڈالی ہے۔ اس کے بعد نذیر احمد کی مکالمہ نگاری، پلاٹ، نذیر احمد کے ناولوں میں مذہبی معاشرت، نذیر احمد کے فن کے کمزور پہلوؤں پر گفتگو کرنے کے بعدان کی تحریر کے اصلی جوہر بھی تلاش کیے ہیں۔ اور توبۃ النصوح کو اُردو ناول کے ابتدائی دور کی قابل قدر تخلیق قرار دیا ہے۔

توبۃ النصوح کا مقدمہ ۶۸ صفحات پر محیط ہے۔ اس طویل مقدمے میں صدیقی صاحب نے تنقید کے سلسلے کی تقریباً ہر شے پر بحث کی ہے، نہیں ہے تو تدوین و ترتیب کے بارے میں کوئی گفتگو نہیں ہے۔ البتہ مقدمہ سے پہلے پیش لفظ میں ضرور بتایا ہے کہ متن کی تصحیح کے لئے جس نسخہ کو استعمال کیا گیا، وہ بازار میں سب سے زیادہ دیدہ زیب اور صحیح نسخہ ہے''

اور اس کے بعد اپنے مرتبہ ایڈیشن کے بارے میں اطلاعات دی ہے جس کا حاصل یہ نظر آتا ہے کہ زیر نظر نسخہ میں علامات اوقاف، پیراگراف بندی اور امالے کی رعایت کو ملحوظ رکھا گیا ہے۔ نیز ہر فصل کی ابتدا  میں جو عبارتیں بہ طور عنوان درج تھیں انہیں حذف کر دیا گیا ہے

صدیقی صاحب نے ڈاکٹر محمد صادق کے حوالے سے ''توبۃ النصوح'' کے قصے کے ماخذ کے بارے میں گفتگو کی گئی ہے۔ اس گفتگو سے اندازہ ہوتا ہے کہ ڈاکٹر افتخار احمد صدیقی نے ''توبۃ النصوح'' کا ماخذ ڈی فو کا انگریزی ناول ''دی فیملی انسٹرکٹر'' خود نہیں دیکھا ورنہ شاید وہ دونوں ناولوں کے تفصیلی موازنے کے ''اخذ و اضافے'' کی کچھ وضاحت کرتے۔

مذکورہ بالا بحث کو سمیٹتے ہوئے ہم یہ کہنے میں حق بجانب ہوں گے کہ صدیقی صاحب نے تدوین کے اصول و لوازم کو سامنے رکھتے ہوئے توبۃ النصوح کو مدون کیا ہے تاہم انھوں نے متن کی تصحیح میں ذاتی ترجیحات کو بھی شامل کیا ہے جو خالص تدوینی نقطہ نظر سے درست نہیں ہے۔

 


 

حواشی

۱۔       افتخار احمد صدیقی، ڈاکٹر(مرتبہ)، توبۃ النصوح، لاہور، مجلسِ ترقی ادب، طبع دوم، ۱۹۹۴ ، ص:۶
۲۔      رشید حسن خاں(مرتبہ)، باغ و بہار، لاہور: نقوش، ۱۹۹۲ ، ص ۱۷،۱۸(مقدمہ)
۳۔      افتخار احمد صدیقی، ڈاکٹر(مرتبہ)، توبۃ النصوح، ص:۸
۴۔      ایضاً، ص:۸
۵۔      ایضاً، ص۱۱ (پیش لفظ)
۶۔      ایضاً، ص:۲۰۱
۷۔      رشید حسن خاں(مرتبہ)، سحرالبیان، دہلی، انجمن ترقی اردو ہند، ۲۰۰۰ ، ص:۷۱ تا۷۴ اور ص:۱۲۶ تا ۱۳۲
۸۔      رشید حسن خاں، تدوین ،تحقیق، روایت، دہلی، اے۔ایس۔پرنٹرز، ۱۹۹۶ ، ص:۶۳
۹۔      افتخار احمد صدیقی، ڈاکٹر، (مرتبہ) توبۃ النصوح، ص: ۴۵، ۴۶ (مقدمہ)
۱۰۔     شان الحق حقی، فرہنگ تلفظ، اسلام آباد، مقتدرہ قومی زبان، ۲۰۰۲ ، ص:۷۶۶،۷۶۸؛ نیز وارث شاہ سرہندی، علمی اردو لغت(جامع)، لاہور، علمی کتاب خانہ، ۱۹۸۷ ،
۱۱۔      رشید حسن خاں، تدوین ، تحقیق، روایت، ص: ۶۹، ۷۰
۱۲۔     مظہر محمود شیرانی، ڈاکٹر، حافظ محمود شیرانی اور ان کی علمی و ادبی خدمات(جلد اوّل)، لاہور: مجلس ترقی ادب، ۱۹۹۳ ، ص:۴۹۹

 

اوپر جائیں  |   پرنٹ کیجئےِ
انگریزی ورژن ای میل چیک کریں مرکزی صحفہ پرنٹ پسندیدہ سائٹ بنائیں رابطہ کیجئے www.shahzadahmad.com www.shahzadahmad.com