ضیاء جالندھری کی نظم میں مابعدالطبیعاتی عناصر

ڈاکٹر عجب خان، اسسٹنٹ پروفیسر، گورنمنٹ ڈگری کالج پورن ضلع شانگلہ، خیبرپختونخوا

 ABSTRACT

Zia Jalandhari (1923-2012) famous poet and one of the founders of literary circle Halqa-e Arbabee Zauq besides numerous articles on art and literature had solid contribution of five books in Urdu poetry. In his last book Dam-e Subh [2002] he has given much attention to the metaphysical aspects of life. The article identifies metaphysical themes and their treatment by Zia Jaladhari. In this regard embarking on the issue of being, ultimate stuff of realities, space and time, the subject of predestination he has also given ample space to the topic of death and solitary sojourn of man in perspective of different philosophies and code of ethics are discussed in detail.

Key Words:     Metaphysics, Existence, Ultimate Stuff, Space and Time, Predestination, Death .

 

ضیاء جالندھری کی نظموں کا اگر بنظرعمیق جائزہ لیاجائے تو انھوں نے زیست آدم کے حوالے سے جن حقائق سے پردہ اٹھایاہے ان میں وجود کے اہم مسئلے کے علاوہ وقت اور انسان دونوں کا کردار بڑی اہمیت رکھتاہے۔ اس سلسلے میں انھوں نے ایک باقاعدہ فلسفی یا کسی مکتب فکر کے رکن کی حیثیت سے زندگی کے حوالے سے سوال اٹھانے کی کوشش کی ہے اور نہ دعویٰ۔اس لیے وقاراحمد رضوی جیسے نقادوں نے یہ بھی کہاہے کہ ضیاء جالندھری کی شاعری میں فلسفہ نہیں ہے ۔(۱)  دراصل انھوں نے ان کی ابتدائی دو کتابوں کی بنیا د پر یہ کہاہوگا ورنہ ضیاء  جالندھری کے پانچوں مجموعوں کے جائزے سے یہ پتا لگتا ہے کہ اگرچہ وہ باقاعدہ طور پر ایک فلسفی نہ تھے تاہم ایک عالم ، متفکر ، متجسس اور غم آشنا شاعر ہونے کی بنا پر انھوں نے زیست کے حوالے سے سوچا ضرور ۔ ان کی شاعری میں وجود، فنا ، جبر وقدر ، وقت ، خالق اور مخلوق کے رشتے جیسے موضوعات پر خاطر خواہ اشعار موجود ہیں جن سے اندازہ ہوتا ہے کہ انھوں نے زندگی کا موضوع غورسے سوچا ہے ۔ضیاء جالندھری نے سنجیدہ نظر سے زندگی کے تمام حوالوں ، واسطوں اور رابطوں کو دیکھا ہے ۔ زندگی ایک مسلسل کشمکش اور سربستہ راز کا نام ہے ۔ وجود کی ابتداء ، ارتقاء، اشیاء کے ہونے نہ ہونے کا عقلی جواز اور اعیان و شواہد کی عقلی توجیہہ کے بارے میں وہ مخصوص طرز فکر رکھتے ہیں ۔ انھوں نے انسان اور کائنات نیز انسان اور خالق کے رشتے پر بھی غور کیا ہے ۔وقت کی اہمیت اور حیثیت پر بھی سوال اٹھا ئے ہیں ۔زمان و مکان سے لے کر حقیقت مطلقہ Absolute Reality اور Ultimate Stuff جیسے حقائق پر سوالات اٹھائے اور حیرت کا ا ظہا ر کیا ہے ۔

اکثر جگہ ضیاء جالندھری شک اور یقین کے بیچ پھنسے نظر آتے  ہیں ۔وہ سوال اٹھاتے ہیں کہ آخر میں کس منزل کا راہی ہوں اور کہا ں سے میرے سفر کا آغاز ہوا ہے اور اردگرد موجود اشیاء کی اصل حقیقت کیا ہے ؟ معلوم ہوتا ہے شاعر کو مختلف مکاتب فکر کے فلسفیانہ نظریات اور مذہبی تشریحات نیز عقلی غور و فکر نے حیرت میں ڈالا ہے۔وہ ایک واضح اور صاف راہ متعین کرنے میں مشکل کا شکار ہے ۔ اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں لیا جاسکتا کہ وہ کوئی واضح فلسفہ حیات نہیں رکھتے ۔لیکن ہرعاقل اور زیرک انسان کی طرح جب وہ اشیاء کی عقلی توجیہہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو حیرت و استعجاب کا سامنا کرتے ہیں ۔انھوں نے مختلف نقطہ ہائے نظرمثلا فلسفہ موجودیت (Existentialism ) وغیرہ کے مطالعے کی روشنی اور اپنے عہد کے مسائل اور حسیت کے نتیجے میں اپنے تمام مجموعوں میں مابعدالطبیعیاتی حوالے سے کافی نظمیں تخلیق کی ہیں، جن پر مناسب بحث مطلوب ہے۔

وجود کاتصور:

ضیاء جالندھری کے مطابق تمام موجودات ، کائنات اور خود انسان بھی قادر مطلق کی تخلیق ہے ۔خالق اور کائنات کے حوالے سے ضیاء جالندھری کا تصور مسلم فلاسفہ سے مختلف نہیں ہے ۔ حمید نسیم لکھتے ہیں۔

''ضیاء جالندھری نے اسلامی ما بعد الطبیعیات اور تصوف کی بڑی روایت سے پورا استفا دہ کیا ہے۔ اسلامی تصوف و الٰہیات کے ساتھ ساتھ ضیاء نے قدیم بھارت کے رشیوں ،منیوں کے افکار و نظریات نیز جدید افکار مثلاً مغربی وجودیت کا بھی بنظر غائر مطالعہ کیا ہے ۔وہ اپنشدلکھنے والوں کے برہمن وجو د کی اساس مطلق کے اس نظریہ سے بھی آگاہ ہے کہ برہمن ما ورا ئے وجود بھی ہے اور وجود میں ساری بھی'' ( ۲)

انھوں نے مختصر اور طویل دونوں قسم کی نظموں میں وجود کا مسئلہ اُٹھایا ہے۔مثلاً نظم چاک جو کہ مئی ۱۹۸۷میں تخلیق ہوئی ،کاموضوع تخلیق کائنات ہے ۔اس نظم کے تین حصے ہیں ۔حصہ اول میں بتایا گیاہے کہ سب کچھ اسی ایک خالق نے بنایا ہے ،جب کہ دوسرے حصے میں یہ بتایا گیا ہے کہ بنانے کے بعد سب کچھ وہ بگا ڑ بھی رہا ہے اور تیسرے حصے میں یہ نتیجہ اخذ کیا گیاہے کہ کسی بھی چیز سے ایسی وابستگی نہیں رکھنی چاہیے کہ چلے جانے پر بندہ برداشت کی ہمت اور قوت نہ رکھ سکے اس لیے کہ ہر چیز عارضی اور بے وقعت ہے ۔ شاعر نظم کے پہلے حصے میں سخن سرا ہے :

وہ ازل سے اپنے عظیم چاک پہ

ممکنات کے انکشاف میں محو ہے

فلک و زمین ، مہ وآفتاب و نجوم کہنہ کرشمے اسی کے کمال کے

ابھی اس کی جدت بے پناہ کو طرح نو کی تلاش ہے

ابھی عرش وفرش کے ناشنیدہ شمائل اسی کی نظر میں ہیں

ابھی ماورائے خیال وفکر مسائل اس کی نظر میں ہیں (۳)

خالق کائنات اپنی تخلیقات کو بناتا سنوارتا ،نئے نئے رنگ دیتا اور پھر انھیں مٹاتا ہے ۔ اسی حصے میں شاعر نے چند سوالات اٹھائے ہیں۔ مثلا یہ کہ کائنات ایک ہے اور مخلوق بھی اصل میں ایک ہے تو پھر یہ امتیازات کیوں ہیں ؟ دنیامیں محرومیاں، دکھ درداورخوف کاکیوں غلبہ ہے،اگرخالق کائنات حسین چیزوں کی تخلیق پرقادرہے توپھردنیامیں بدصورتی اوربے کاری کیوں ہے،نیزیہ بھی کہ کیافنکارازل اپنے صنع یانقوش سے مطمئن نہیں ہے؟

پھٹی پرانی شکلوں والے

یہ اپاہج یہ معذور ضعیف

یہ ٹوٹے پھوٹے کھلونے بھی

اسی خاک سے آئے ہیں کہ نہیں

کل جن کی حیات تھی برق آسا

پیوند خس وخاشاک ہوئے

جنھیں دیکھ کے آنکھیں روشن تھیں

پنہاں پس پردہ خاک ہوئے

و ہ نقش گر کامل ہے تو پھر

جونقش جمیل بناتاہے

جودرددلوں میں جگاتاہے

اسے غارت کیوں کردیتاہے

فنکارازل کوکیااپنے کسی نقش پہ اطمینان نہیں ؟( ۴)

حمیدنسیم اس نظم کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ اس کاموضوع انجانی حقیقتوں کوجاننے کی ابدی خواہش ہے۔صرف انجانی ہی نہیں وہ بھی جوپیکرمحدودجان بھی نہیں سکتا کہ محدودلامحدودکااحاطہ نہیں کرسکتا،اسے جان نہیں سکتا فلسفہ بھی یہاں آکرخاموش ہوجاتاہے۔( ۵)

جبروقدر:    (Predestination )

جبروقدرتمام مذاہب اورفلسفہ کااہم موضوع ہے جبرکے بارے میں مودودی فرماتے ہیں:

''دہریوں کی ایک قلیل جماعت کوچھوڑکرفلاسفہ کی عظیم اکثریت نے جبر کا پہلو اختیار کیا ہے۔قدمامیں انکسماندر(Anaximander ) افلاطون(Plato )اوراکثررواقیہ(Stoics ) مذہب جبرکے حامی تھے ۔فلاسفہ اسلام کی عظیم اکثریت نے بھی اس مذہب کی حمایت کی ہے"(۶)

بہرحال قضاوقدرکے مسئلے کاسمجھ لینا آسان نہیں ۔یہ سوال کہ خداوندعالم کی سلطنت کادستوراساسی کیاہے؟خداکے علم اوراس کی معلومات ،خداکی قدرت اوراس کی مقدرات اور خداکے ارادے اوراس کے مرادات کے درمیان کس قسم کاعلاقہ ہے؟خداکاحکم کیامعنی رکھتاہے؟کس طرح وہ اس کی مخلوق میں نافذہوتاہے اورمخلوقات کے مختلف مراتب میں اس کے احکام کی تنفیذکن ضوابط کے تحت ہوتی ہے۔کیاانسان اپنے ارادے میں خودمختارہے یاوہ پہلے سے منصوبہ شدہ سکیم کاایک حصہ، ایک کرداریامحض ایک ایکٹر ہے ؟کیااس کی تقدیر پہلے سے مقررہے ؟کیااس کی کامیابی ،ناکامی ،گرنا،ابھرنا،بگڑنا،سدھرنا، راحت ،تکلیف سب کچھ کسی اورطاقت کے فیصلے کانتیجہ ہے؟اگرایساہے توکیاوہ مجبورمحض ہے؟کیاوہ محض کٹھ پتلی اوربنی بنائی سکیم کوعمل میں لانے کے لیے ایک آلہ کے علاوہ کچھ بھی نہیں؟ ۷؂ ہرذی ہوش انسان کی طرح ان سوالات نے ضیاء جالندھری کے دل کے دروازے پربھی دستک دی ہے۔

مختلف نظموں میں شاعرنے جبروقدرکے حوالے سے اپنے افکاریاسوالات کااظہارکیاہے جن سے معلوم ہوتاہے کہ فنااوروقت کی طرح بلکہ ان سے بھی زیادہ شاعرکو دنیامیں جبروقدرکے معاملے نے الجھایااورمتفکرکیاہے۔ایک حساس شاعرکی حیثیت سے اورایک حساس دورمیں جینے نے اسے مختلف فلسفہ ہائے حیات کی طرف رجوع کرنے اورسوچنے پرمجبورکیاہے۔مثلاً نظم ہابیل میں شاعرنے یہ سوال اٹھایاہے کہ یہ نظام کیاواقعی ایک جبرمسلسل کاشکارہے؟کیا انسان کی جبلت میں ظلم ازل سے ہی اس کامقدرہے؟کیاخالق نے قابیل کی رسم جاری رکھنے کاحکم دیاہے؟

اورقابیل سے ارشادکیاتھاتونے

خون ہابیل کی ان ذروں سے بوآتی ہے

پھیل کراب وہی بوسارے جہاں پرہے محیط

کیایہ بوتاابدمیرامقدرہوگی

کیاتیرے اذن سے قابیل کی خوقائم ہے

کیایہ خو تا ابدمیرامقدرہوگی( ۸)

اپنی نوعیت کی ایک بڑی نظم "ہم"میں بھی ضیاء جالندھری نے حیرت ،آگہی،کرب اورپھرامیدکی چارسطحیں ابھاری ہیں(۹)  شاعرکے مطابق دنیاشطرنج کی بساط ہے اورانسان اس شاطرزمانے کے ہاتھ میں بے بس مہرہ ہے۔انسان کواس کائنات کی ابتدااور انتہاکاکچھ علم نہیں ۔کائنات میں کسی کے ہونے یانہ ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔انسان بلکہ کسی کابھی اس قضاوقدرسے مفرنہیں۔

شاعرکے مطابق انسان جبرکاشکارہے ،دنیامیں اس کااختیارنہ ہونے کے برابرہے۔انسان اپنی تخلیق ،جائے پیدائش،رنگ ونسل وغیرہ میں چناؤ کامعمولی حق بھی نہیں رکھتا؛اس کااختیارنہیں کہ وہ کب ،کہاں اورکس حیثیت کے لوگوں میں پیداہو۔

بچھی ہوئی ہے بساط کب سے

زمانہ شاطرہے اورہم

اس بساط کے زشت وخوب خانوں میں

دست نادیدہ کے اشاروں پہ چل رہے ہیں

بچھی ہوئی ہے بساط ازل سے

بچھی ہوئی ہے بساط جس کی نہ ابتداہے نہ انتہا ہے

بساط بے جنبش اوربے حس ہے

اپنے مہروں سے لاتعلق ہے

اس کواس سے غرض نہیں ہے

کہ کون جیتاہے

اورکس نے شکست پائی (۱۰)

شاعراس فکریانظریہ کابھی انکاری نظرآتاہے کہ انسانی ارادے کی بھی کوئی وقعت یااہمیت ہے؟کیوں کہ انسانی ارادہ بھی تو کسی اورکے ارادے کازائیدہ ہے۔اس لئے شاعررقمطرازہے:

ہم ایسے مہرے

جنھیں ارادے دیے گئے ہیں

پہ جن کی توفیق پہ حدیں ہیں( ۱۱)

پیدائش کے لحاظ سے بے اختیاری کوضیاء جالندھری ان الفاظ میں پیش کرتے ہیں:

یہ پھول کواختیارکب تھا

کہ کونسی شاخ پہ کھلے

کون کنج میں مسکرائے

اورکن فضاؤں میں خوشبوئیں بکھیرے (۱۲)

نظم پروازمیں بھی جبروقدرکے فلسفے کوبیان کیاگیاہے۔شاعرکے مطابق انسان خوابوں کی دنیامیں رہتاہے۔لازم نہیں کہ یہ خواب شرمندۂ تعبیربھی ہوں ،کیوں کہ انسان تقدیرکے آگے بے بس ہے ۔کوئی بھی قسمت کے لکھے سے معمولی آگے پیچھے نہیں جاسکتا۔

توپتنگ ہے کسی طفل کا

کہ فلک مآب عقاب ہے

تری ڈورہے کسی ہاتھ میں

کہ اڑان تیراخواب ہے (۱۳)

"ہم"کی طرح اس نظم میں بھی شاعرنے انسانی زیست کے حوالے سے اس تلخ حقیقت سے پردہ اٹھایاہے کہ کسی فردواحدکے ہونے نہ ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا،اس کارخانہ بود ونبود میں اوراس چکرمیں کسی انسان کی زندگی چندہی لمحوں کاحساب ہے جس پراختیارتوبڑی بات ہے اس کا معمولی پتا بھی انسان کومعلوم نہیں ۔

یہ کرشمہ بودونبودکا

کئی حادثات میں حادثہ

یہ گزرتے لمحوں کاسلسلہ

توہواتوکیانہ ہواتوکیا (۱۴)

آگے نظم"بے خبر"ہے جس میں شاعرلکھتے ہیں کہ انسان اپنے ،نیزپوری کائنات کے سربستہ حقائق سے بالکل لا علم ہے۔وہ اپنی مادی ترقی یاعقلی مکاتب فکرپرنازاں نہ ہوکیوں کہ وہ اس تیرہ شبی میں ایک بے بس بلکہ اندھے راہروکے سواکچھ بھی نہیں۔

کہتے ہیں :

عجب بے خبرہے

کن روشنیوں سے لولگائے

اس تیرہ شبی میں دربدرہے

آنکھوں کے دریچے وانہیں لیکن

منظرپہچانتے نہیں ہیں

جاں تخم فناسے پھوٹتی ہے

کیایہ بھی وہ جانتے نہیں ہیں (۱۵)

شاعرنے اگرچہ جبرکے حوالے سے بہت ساری نظمیں لکھی ہیں لیکن حمیدنسیم کے مطابق وہ جبریہ فرقے سے متفق نہیں۔ وہ ان انسانی ممکنات سے باخبراورخوش دل ہے جو کبھی کبھی ناممکن کوممکن بنادیتے ہیں۔ (۱۶)

وزیرآغاکے الفاظ میں :

''ضیاء جالندھری کی نظم "ہم"میں جبرکی ایک اورصورت یہ ابھری ہے کہ شطرنج کے مہرے محض خودکارنہیں ہیں بلکہ اپنے اندرتبدیلی کے امکانات بھی رکھتے ہیں ۔ضیاء نے اس نکتے کومحض چھوکرچھوڑدیاہے۔انھوں نے ایک Gapچھوڑاہے اوریہ اچھی بات ہے کیونکہ شاعری ایک بیان نہیں ہے اس کی اصل خوبی اس کے Gaps میں ہے جنہیں پرکرتے ہوئے قاری خودبھی تخلیق کانظارہ کرتاہے''۔(۱۷)

راقم الحروف کے مطابق اکثرناقدین نے ضیاء کی شاعری میں محبت اورامیدکے ذکر،جس پراکثران کی بڑی نظمیں ختم ہوتی ہیں،پرآکرٹھوکرکھائی ہے اورضیاء کوقدریہ سوچ کاحامل قراردیاہے ۔حالانکہ انھوں نے وقت کے جبرکابرملاذکراوراعتراف کیاہے۔ تاہم ان کے مطابق محبت ،امیداور نیک خواہشات رکھنے سے یہ جبر کافی حد تک بر داشت کئے جانے کے قابل بنایا جا سکتا ہے لیکن اس سے چھٹکارا کسی طور ممکن نہیں۔ ضیاء نے وقت کے جبراوراس کی کارستانی کوہرلحاظ سے ایک تلخ حقیقت ماناہے۔

تصورزماں:

دیگر عوامل کی طرح ضیاء جالندھری کی شاعری میں وقت بھی ایک اہم عامل کے طورپر موجودہے۔انھوں نے وقت کی مختلف سطحیں سامنے لائی ہیں اوراکثرنظموں میں وقت ایک بے رحم اورتلخ حقیقت کے طور پر سامنے آتاہے۔حمیدنسیم کے مطابق:

"The hurtful awareness that man is a victim of passing time led the budding poet to ponder the various scales of time, time that is the nights and days of earthly existence and its seasons which lead to death and nothingness, time that is cosmic and pure time that is absolute. As is the case of all thinking men and true creative artists time has been Zia's hell and his purgatory.(18)

ضیاء جالندھری کے مطابق وقت مطلق یاساکن میں انجمادہے، وہاں کوئی حرکت نہیں بلکہ بے رحمی اورسردمہری ہے۔ان کے مطابق ساری کائنات حتیٰ کہ " Serial time " (کائناتی وقت)بھی وقت مطلق کے حصار میں ہے۔یہاں وجوداورفنامیں کوئی فرق نہیں ۔

ابتدائی دومجموعوں میں وقت ضیاء کاجہنم ہے اوراس عالم ناپائدارمیں وہ خوابوں میں پناہ لے کرزندگی گزارنے کی کوشش کررہے ہیں ۔ ) ۱۹) ضیاء جالندی نے فلسفۂ وقت کے وسیلے سے زندگی کی بات کی ہے۔زندگی آتے جاتے لمحوں کی مرہون منت ہے ،کوئی بھی لمحہ ہمیشہ نہیں رہتا۔تعمیروتخریب کاسلسلہ جاری ہے ۔ کبھی بہارآتی ہے تو کبھی خزان،وقت ہمیشہ موجودرہتاہے لیکن ہرلحظہ تغیرکاعمل جاری رہتاہے۔ (۲۰)

وہ لمحہ جوامکان کی حد میں ہے موجودہے

وہ لمحہ جو تھااب بھی موجودہے

وہ لمحہ جوآئے گاموجودہے

ہراک بیج میں کتنے گلزارخوابیدہ ہیں

لہوکی ہراک بوند میں کتنی نسلوں کے ارمان پوشیدہ ہیں

کوئی رفتہ کی یادہو

کوئی خواب پروازہو

کوئی خوف افتادہو

سبھی روپ اسی ایک لمحے کے ہیں

جو موجودہے

وہ لمحہ جوآتاہے جاتاہے لیکن گزرتانہیں

اسی ایک لمحے کی پیہم بدلتی ہوئی ہئیتوں میں روانی ۔۔۔حیات

ازل سے ابدتک رواں ہے حیات

نہیں موت کچھ بھی نہیں :موت بھی زندگی کاہی اک روپ ہے(۲۱)

وقت مطلق کے بالعکس کائناتی وقت (Serial time )جہاں جمودکے مقابلے میں تغیروتبدل ہے لیکن اس کے بارے میں انسان کوبھی کوئی علم نہیں ہوتا۔خودانسان کاجسم کہنگی اورضعف کابھیانک نقشہ پیش کرنے لگتاہے اوراس پرفناکے بادل منڈلانے لگتے ہیں جب کہ اسے احساس تک نہیں ہوتا۔اس بارے میں نظم "تسلسل"میں ضیاء یوں سخن سراہے:

بزم خواہش کے نوواردو

تم نہیں جانتے

کیسے آہستہ آہستہ جسموں کے اندر،رگوں تک

پہنچتے ہیں پت جھڑ کے ہاتھ

کیسے سرماکی شام

ڈھانپ لیتی ہے کہرے کی چادر میں منظرتمام

کیسے گزری ہوئی زندگی

دستکیں دیتی ہے دل پر

مگرجب پکاریں تودم خوردہ رویا ء کے مانند

دوری کی سرحدکے اس پارآتی نہیں

کیسے بچھڑے ہوئے دوستوں کا خیال

دھندلی آنکھوں میں رہتاہے

روکے ہوئے آنسوؤں کی مثال( ۲۲)

نظم جادۂ جاوداں"میں شاعروقت کاتصورکچھ یوں پیش کرتے ہیں:

گزشتنی ہے سحربھی شب بھی

گزشتنی ہیں بسنت،برسات،پوس،پت جھڑ

رتوں کے یہ سارے قافلے اورساعتوں کے یہ سب مسافر

ہواؤں کے ساتھ آتے جاتے رہیں گے یونہی

مگریہ تکرارآمدورفت اک تسلی جوہوتوہواورکچھ نہیں ہے

کہ وقت توایک جادۂ نارساکے مانندجاوداں ہے (۲۳)

حمید شاہد کے مطابق ضیاء کے ہاں وقت ایک ڈھب اورڈھنگ سے نہیں چلتابلکہ تینوں زمانے حال میں موجودہیں ۔ضیاء کی نظموں کاشاعروقت ''سرشام ''کی ابتدائی نظم کی شکل میں دیکھناچاہتاہے البتہ یہ ناممکنات میں سے ہے ۔ اس لئے ضیاء کے لیے یہ سوال اہم ہوگیاہے کہ آخرانسان وقت کے اس جبرسے کیوں بندھاہواہےاورجب رات ہی کوآدمی کامقدرہوناہے تواس پرزندگی کی سرمگیں صبح کامنظر کیوں کھولاگیاہے اس پرروشنی دوپہرمیں کیوں مہربان رہتی ہے اوراس پرافق سے لالی کیوں برستی ہے۔ ۲۴ ؂ اسی حقیقت کووزیرآغا  بھی سامنے لائے  ہیں ضیاء جالندھری کے ہاں انسان وقت کی بے رحمی کاشکارہے وہ بساط ساکت کامہرہ ہے۔ اس بساط ساکت یعنی وقت مطلق کواس بات سے کوئی غرض نہیں کہ اس پرنمودارہونے اورپھرغائب ہوجانے والے چہروں میں سے کون جیتااورکون ہارا۔ (۲۵)

ضیاء جالندھری ایک اورنظم ''وقت کاتب ہے ''میں وقت کی ناسازی اورکارستانیوں کاعرفان حاصل ہونے کے بعداپنی دلی کیفیت کاذکرکچھ یوں کرتے ہیں:

وقت کاتب ہے تومسطرچہرے

جب سے تحریرشناسی مری تقدیرہوئی

وہ معنی پس الفاظ نظرآتے ہیں

جن کوپہچان کے دل ڈرتاہے

اورہرچہرے سے

ایک ہی چہرہ ابھرآتاہے

جومراچہرہ ہے

اورامروزکاآیئنہ یہ کہتاہے کہ دیکھ

آدمی زادے تری عمرکی شام آپہنچی

سرپہ اب رات اُترآئی ہے۔ (۲۶)

ایک اورجگہ وقت کی کارستانی کاذکرکرتے ہوئے کہتے ہیں:

روزوشب صبح وشام آتے جاتے رہیں گے

جوہوتارہاہے وہ ہوتارہے گا

بہاراں زمستاں میں تبدیلی ہوتی رہے گی

ہراحساس،ہردردسے بے تعلق

بدلتی ہوئی رت کے ان دیکھے یخ ہاتھ

آہستہ آہستہ

سرسبزپیڑوں ،شگفتہ گلوں کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ (۲۷)

شیرازفضل دادکے مطابق ضیاء جالندھری کے ہاں وقت ایک دائمی اوراٹل حقیقت ہے۔حوادث زمانہ درحقیقت وقت کااظہارہیں۔زندگی مسلسل نئے روپ میں جلوہ گرہوتی ہے۔پرانے نشاں مٹتے ہیں اورنئے بنتے ہیں،انسان وقت کی قیدمیں ہے ۔

ارادے تمنائیں سانچے بدلتے رہے

یہ تخریب وتعمیرکے سلسلے

ازل سے ابدتک رواں ہے حیات

مگروہ عمارات کہنہ کہاں کھوگئیں

وہ جن میں ملی تھی میری آرزو

وہ جن سے میری زیست وابستہ ہے (۲۸)

موت اور فنا:

موت جو کہ ایک انتہائی بھیانک اورپُردرد تاہم ناگزیرحقیقت ہے کے بارے میں ضیاء جالندھری اپنے کلام میں جابجامختلف پیرائیوں میں اظہارخیال کرتے ہیں۔

وزیرآغاکہتے ہیں :

"ضیاء جالندھری کی نظم میں موت سے سمجھوتہ کرنے کی آرزوابھری ہے۔وہ موت سے فراراختیارکرکے ماضی کی یادوں میں پناہ لیناچاہتاہے،تاہم یہاں بھی مایوس ہوکروہ موت کوقبول کرتاہے،کیوں کہ انہیں احساس ہے کہ موت سے مفرنہیں ، جلدیابدیرموت ہرشے کوابدی نیندسلادیتی ہے۔ان کے مطابق موت تسلسل حیات کاایک نقطہ ہے۔یہ وہ برف زارہے کہ جب سورج کی حدت سے پگھلتاہے تواس کے نیچے سے ایک نئی زندگی پھوٹ کرنکل آتی ہے۔تاہم ضیاء نے داخلی دباؤکے تحت موت کواپنایاہے" (۲۹)

ضیاء جالندھری کے مطابق موت اگرچہ بظاہرایک زندگی کانقطۂ اختتام ہے اسی وقت یہ دوبارہ زندگی کے شروع ہونے کانقطۂ آغازبھی ہے،یہ ایک cycle ) (چکرہے جوچل رہاہے،اس کامطلب ہرگزیہ نہیں کہ وہ مذہبی نقطہ نظرسے موت کی تشریح کررہے ہیں،اُن کے مطابق:

موت انجام بھی آغازبھی ہے

وقت تخریب بھی تعمیربھی ہے

زندگی دائم وقائم بھی ہے تبدیلی وتغیربھی ہے

خامشی وقفۂ آوازبھی ہے (۳۰)

اس حقیقت کووہ ایک اورنظم "چاک"کے تیسرے حصے میں نسبتاًزیادہ وضاحت کے ساتھ کچھ یوں بیان کرتے ہیں :

آدمی زادے کسی رنگ،کسی نقش کاپابندنہ ہو

زیست ٹھہراہواجوہڑ نہیں مواج ورواں دریاہے

توہے اک ٹھہرے ہوئے پل میں طلب گاردوام

یہ دوام اصل میں ہے بے حسی مرگ کانام

آدمی زادے ترے رشتے ہیں بادل کی طرح

گھرکے آتے ہیں برستے ہیں گزرجاتے ہیں

یوں بھی ہوتاہے کہ کچھ دیرٹھہرجاتے ہیں

توکسی رشتے کسی ابرکاپابندنہ ہو

توکہ ہے،ٹوٹے کھلونوں کے لیے گریہ کناں

دیکھ یہ خاک کے پیکرتوفقط شکل بدل لیتے ہیں

انہی ٹوٹے ہوئے بیکار کھلونوں کی یہ مٹی پھرسے

زیست کے چلتے ہوئے چاک کے کام آتی ہے۔ (۳۱)

ایک اورجگہ وقت اورموت کے ذکرکی ذیل میں کہتے ہیں:

ازل سے ابدتک رواں ہے حیات

نہیں کچھ بھی نہیں موت بھی زندگی کاہی اک روپ ہے۔ (۳۲)

تصورموت پر حمیدنسیم کہتے ہیں:

"ضیا کی شاعری میں موت ایک ناگزیرصداقت ہے۔ عالم وجودمیں ہرلمحہ خودکودہرانے والی صداقت لیکن زندگی کامسلسل اپنی تجدیدکرنا،بے خلل ظہورہونابھی توایک نہایت خوب صورت نہایت دلاآویزمعجزہ ہے جوہشت پہلوہیرے جیسی آب وتاب رکھتاہے کہ تاریک رات میں بھی دمکتاہے"(۳۳)

موت اورفناکے حولے سے اوربھی بہت ساری نظمیں پیش کی جاسکتی ہیں البتہ یہاں اس سلسلے میں نظم '' اب جاناہے''کاکچھ حصہ پیش کرنامناسب معلوم ہوتاہے۔یہ نظم ۲۰۰۰ء میں اس وقت لکھی گئی جب شاعربوڑھااوربیمارہوچکاتھااورمحسوس کرنے لگاتھاکہ رخت سفرباندھ کرجانے کاوقت بہت قریب آچکاہے شاعر کے  الفاظ میں:

اب جاناہے

اب رخت سفرتیارہویاتیارنہ ہو

اب جاناہے

جوقرض ہے سرپہ چکاناہے

اب جاناہے

جومہلت تھی وہ ختم ہوئی

جومدت تھی وہ بیت چکی

جب حکم ملے چل دیناہے

نہیں عذرانکار کی جاکوئی

اس آنے میں اس جانے میں

وہ کون ہے جولاچارنہ ہو

اب جاناہے

جوقرض ہے سرپہ چکاناہے

اب جاناہے

جولمحے اپنے لگتے تھے

وہ اپنے کب تھے پرائے تھے

وہ شوروہ جوش وہ ہنگامے

سب آتے جاتے سائے تھے

اب خواب بھی آنکھ چراتے ہیں

جیسے ہم سے سروکارنہ ہو

اب جاناہے۔۔۔۔ (۳۴)

الغرض ضیاء جالندھری نے مختصرنظموں مثلاً''برکھا'' اور''آخرکار'' اورطویل نظموں مثلاً'' ساملی'' وغیرہ میں بھی اس کاتذکرہ کیاہے۔ضیاء کے مطابق زندگی بہاروخزان ، رنج وراحت،غم اورخوشی کاایک پُردرد،حسین البتہ انتہائی عارضی امتزاج ہے۔

خوشی ہو یاغم ہو ایک احساس ہے ہراحساس زندگی ہے

یہ زندگی آتے جاتے لمحوں کاغیرہموارسلسلہ ہے

ابھی جوایک لمحہ روئے گل پرجوچمک رہاتھاوہ اب کہاں ہے

ابھی جواک لمحہ دردبن کردھڑک رہاتھاوہ اب کہاں ہے

کبھی توغم ہے کبھی خوشی ہے

خوشی ہویاغم ہوزندگی ہے (۳۵)

ضیاء جالندھری نے خودکودلاسادینے کی غرض سے مذکورہ بالا جیسے اشعارلکھ کر موت اورفناکی گھمبیرتااوردہشت کم کرنے کی کوشش کی ہے ۔یہ وہ مقام ہے جہاں وہ زندگی کورجائی نظرسے دیکھنے والے شاعردکھائی دیتے ہیں لیکن جیساکہ پہلے کہاگیاموت اور وقت کاجبرمانتے ہوئے وہ انسان کوانھیں برداشت کرنے کی ہمت پیداکرنے کادرس دیتے ہیں اورظاہربات ہے کہ یہ نیک خواہشات ،امیداورحسین خواب بُننے کے بغیرناممکن ہے۔

 


 

حوالہ جات

۱۔       رضوی، وقاراحمد، ڈاکٹر۔تاریخ جدیداردو غزل،اسلام آباد، نیشنل بک فاؤنڈیشن، ۲۰۰۰ ، ص، ۸۴۰
۲۔     حمید نسیم ۔ پانچ جدید شاعر، لاہور ، دارالشعور، ۲۰۱۵، ص ۲۲۷
۳۔     اکرام اعظم۔ دم صبح ، The Breath of Dawn ،اسلام آباد، دی مارگلہ وائس، ۲۰۰۳،ص ۱۴۹
۴۔     ضیاء جالندھری۔ محولہ بالا،ص ۲۹۷
۵۔     حمید نسیم ۔ محولہ بالا،ص ۲۲۸
۶۔     ابوالاعلیٰ مودودی، سید۔ مسئلہ جبروقدر، لاہور، اسلامک پبلی کیشنز، اپریل ۲۰۰۴  ، ص ۲۵
۷۔     ابوالاعلیٰ مودودی، سید۔ مسئلہ جبروقدر، لاہور، اسلامک پبلی کیشنز، اپریل ۲۰۰۴  ، ص ۲۷، ۲۸
۸۔     ضیاء جالندھری۔ کلیات ضیاء، اسلام آباد، ٹیلی میگ،۲۰۰۷، ص ۲۳۹
۹۔     شبیر حسین ۔  ضیاء جالندھری کی لمبی نظم ہم ، اسلام آباد ، نوٹ بک ۲۶نومبر ۱۹۹۱،
۱۰۔    ضیاء جالندھری۔ محولہ بالا، ص ۳۰۲
۱۱۔     ضیاء جالندھری۔محولہ بالا، ص ۳۰۴
۱۲۔    ضیاء جالندھری۔محولہ بالا،ص ۳۰۶
۱۳۔    ضیاء جالندھری۔محولہ بالا،ص ۳۳۳
۱۴۔     ضیاء جالندھری ۔ محولہ بالا،ص ۳۳۴
۱۵۔    ضیاء جالندھری ۔محولہ بالا،ص ۳۳۵
۱۶۔    حمید نسیم۔  محولہ بالا،ص ۲۴۲
۱۷۔    وزیر آغا، ڈاکٹر۔ تاثرات ، مشمولہ اوراق، لاہور، جلد ۲۶، شمارہ ۱۲، دسمبر ۱۹۹۱، ص، ۴
۱۸۔    حمید نسیم ۔ دیباچہ ، مشمولہ ، The Grey voidازسلیم گیلانی ، اسلام آباد ، نیشنل بک فاؤنڈیشن ۱۹۹۳، ص۳
۱۹۔    حمید نسیم۔ پانچ جدید شاعر، ص ۲۲۲
۲۰۔   شیراز فضل داد۔  ضیاء جالندھری کی شاعری میں معاشرتی عناصر،مقالہ برائے ایم فل، اسلام آباد، بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی، ۲۰۱۱، ص ، ۳۴۸
۲۱۔    ضیاء جالندھری۔ محولہ بالا،ص ۱۳۶
۲۲۔   ضیاء جالندھری۔ محولہ بالا ،ص ۳۳۹
۲۳۔   ضیاء جالندھری۔محولہ بالا ،ص ۱۹۱
۲۴۔   محمد حمیدشاہد۔ ضیاء جالندھری کی شاعری میں وقت اور زندگی کا تناظر، مشمولہ ، اردوافسانہ اور اس کی تنقید، (ای بک ) اسلام آباد
۲۵۔   وزیرآغا ، ڈاکٹر۔ تاثرات، محولہ بالا ، ص، ۳
۲۶۔    ضیاء جالندھری۔ محولہ بالا،ص ۲۲۶
۲۷۔   ضیاء جالندھری۔ محولہ بالا،ص ۴۳۷
۲۸۔   شیراز فضل داد ۔ محولہ بالا،ص ۴۹
۲۹۔    وزیر آغا، ڈاکٹر۔ اردوشاعری کا مزاج، لاہور، مجلس ترقی ا دب، ۲۰۰۸، ص ۳۸۲
۳۰۔   ضیاء جالندھری۔ محولہ بالا،ص ۱۶۰
۳۱ ۔    ضیاء جالندھری۔محولہ بالا،ص ۳۰۰
۳۲۔   سلیم گیلانی۔ The Grey Void محولہ بالا ؛ص ۱۱۰
۳۳۔   حمید نسیم۔ محولہ بالا ،ص ۲۲۹
۳۴۔   ضیا ء جالندھری۔ محولہ بالا،ص ۴۳۹
۳۵۔   انور جمال ، پروفیسر۔ ادبی اصطلاحات ، اسلام آباد، نیشنل بک فاؤنڈیشن،۲۰۱۲، ص ۱۴
اوپر جائیں  |   پرنٹ کیجئےِ
انگریزی ورژن ای میل چیک کریں مرکزی صحفہ پرنٹ پسندیدہ سائٹ بنائیں رابطہ کیجئے www.shahzadahmad.com www.shahzadahmad.com