اردو ڈیجیٹل کتب کا مستقبل: ملک گیر سروے کے نتائج اور تجزیہ

رئیس احمد مغل،پی ایچ ڈی اسکالر، شعبہ اردو، جامعہ پشاور۔پروفیسر ڈاکٹر سلمان علی،  شعبہ اردو، جامعہ پشاور،  اور

پروفیسر ڈاکٹر محمد عابد،پرو وائس چانسلر جامعہ پشاور و پروفیسر شعبہ کمپیوٹر سائنس، جامعہ پشاور۔

 

ABSTRACT

This article is a fragment of nationwide survey conducted in 2015-17 for PhD project "Urdu Digital Kutub" [Urdu Digital Books] registered at Department of Urdu, University of Peshawar, Pakistan. The article consists of opinions of ten types of stakeholders related to book industry and is aimed at predicting the future of digital books in Urdu language. Though diverse in nature, at average the survey shows that majority believes that in terms of numbers of readers, digital books in Urdu language will reach that of paper books in coming one decade; and they are also of the opinion that there is very little prospect of Urdu digital books' business. At end of the article besides analysis of the opinions, recommendations to explore business possibilities are also presented .

Keywords:       Digital Books: Urdu Digital Books; Digital Gap; Digital Literacy; Reading Habits; Pakistan

 

تعارف اور طریق تحقیق:

 شعبہ ء اردو،جامعہ پشاور میں تکمیل پانے والے پی ایچ ڈی مقالے'اردو ڈیجیٹل کتب'میں ایک باب پاکستان میں    پاکستان کے پانچ شہری مراکز[اسلام آباد، پشاور، کراچی ، کوئٹہ، لاہور]؛اور پانچ نسبتاً دیہی مراکز[تربت، چترال،چکوال،خیر پور، کوٹلی] میں ، تین برس [2015-2017]کے عرصے میں، کتاب سے متعلق دس بنیادی گروہوں [   اردو مصنفین اور شعراء؛مؤلفین اورمترجمین ؛تدوین کار اور پروف نگار؛ تزئین کار؛چھاپہ خانے کے مالکان؛ ناشرین کتب؛ تاجران ِکتب ؛ کتاب دار؛سوفٹ وئیر انجینئرز/ ہاؤسز؛ اردو کتب کےقارئین ۔] کے ارکان کی آرا اور تصورات جاننے کے لیے  ملک گیر سروے مکمل کیا گیا۔ سروے میں  1380 افراد سے  ڈیجیٹل کتب اور اردو کتب کے مختلف  پہلوؤ ں پر رائے لی گئی۔ علمِ شماریات (Statistics )  میں مساحت (Survey ) کے لیے بیان کیے گئے مختلف طریقوں میں اس مطالعہ کے لیےSuccessive Independent Samples Studiesطریقہ اختیار کیا گیا۔  اس طریقے کا امتیاز یہ ہے کہ ایک گروہ کے نمائندوں  میں سے بیک وقت مختلف افراد کی رائے لی جاتی ہے، لیکن ایک ہی فرد سے دو مرتبہ رائے نہیں لی جاتی(جوپ جے ہاکس[Hox, J. J .]، اور دیگر،93-95:2017ء)۔ یوں نہ صرف کسی بھی گروہ کی بہتر نمائندگی ممکن ہوتی ہے، بلکہ دیگر عناصر جیسے صنف،وقت، مقام وغیرہ سے معلومات کے معیار پر پڑنے والے فرق میں بھی کمی آتی ہے، اور پوچھے گئے سوالات کا زیادہ قابل اعتبار جواب میسر آتا ہے۔ اس سروے کے نتائج کو زیادہ نمائندہ اور بہتر بنانے کے لیے تمام دس مقامات پر، ہر گروہ سے بیس افراد سے سوالنامہ کے جواب لیے گئے، جن میں خاص طور پر اس بات کا اہتمام کیا گیا کہ جواب دہندہ عمر، جنس، اقتصادی گروہ اور تعلیمی درجہ کے لحاظ سے مختلف ہوں۔  جس گروہ میں ہر مقام پر متعین تعریف یا تعداد میں افراد میسر نہیں آئے، وہاں سروے کے معیار کے برقرار رکھنے کے لیے  کسی بھی فرد سے رائے نہیں لی گئی۔ جیسے سوفٹ وئر ہاوسز او ر انجینئرز کی طے شدہ تعریف  پر مطلوبہ تعداد میں افراد میسر نہ آنے پر سروے کو محض چار شہروں تک محدود رکھا گیا۔

سروے میں ایک کثیر الامکانی سوال یہ بھی شامل کیا گیا تھا کہ 'آپ کی رائے میں کتنے برس میں اردو ڈیجیٹل کتب کے قارئین کی تعداد، کاغذ پر شائع ہونے والی کتب کے قارئین کے برابر ہوجائے گی؟'۔ اس سوال کے امکانی جوابات میں  جواب دہندہ کو 'دس برس، بیس برس، پچاس برس، کبھی نہیں' کے امکانات میں سے کسی ایک کے انتخاب کا کہا گیا ۔اس کا مقصد بیک وقت متعلقہ گروہوں کی رائے، اندازے اور ڈیجیٹل امور سے واقفیت کو جانچنا تھا۔ ذیل میں اس سوال کے  سروے میں شامل تمام گروہوں سےملنے والے جوابات اور ان کا تجزیہ پیش کیا جارہا ہے۔زیادہ سے زیادہ نتائج اور رجحانات  کے ابلاغ کی غرض سے سروے میں شامل ہر گروہ کے انفرادی اعداد و شمار حذف کردیے گئے ہیں ، لیکن ہر سوال کا تجزیہ شامل رکھا گیا ہے۔

ادیبوں اور شاعروں کی جانب سے ، اسلام آباد، پشاور، کراچی، کوٹلی ، کوئٹہ اور لاہور کے  جواب دہندگان نے اس امکان کو قطعاً رد کردیا ہے کہ اردوڈیجیٹل کتب کبھی بھی  کاغذی کتب کے برابر حلقہ قارئین نہیں حاصل کرپائیں گی۔ اس کے ساتھ ساتھ،یہ خیال رکھنے والے افراد کی شرح کہ پاکستان میں اردوڈیجیٹل کتب کبھی بھی کاغذی کتب کے برابر نہ آسکیں گی ،سوائے تربت کے کسی جگہ بھی 5 فیصد سے زائد نہیں۔ تربت میں یہ شرح 55 فیصد ہے، جو باقی کسی بھی جگہ دیے گئے جوابات سے بہت زیادہ ہے۔

محض دس برس کے عرصے میں یہ فاصلہ ختم ہونے پر یقین رکھنے والوں کی تعداد بھی اچھی خاصی ہے۔  کراچی اور لاہور میں 95 فیصد کاخیال ہے کہ ایک عشرے میں یہ فاصلہ ختم ہوجائے گا جب کہ پشاورکے 90 فیصد اور اسلام آباد کے 75 فیصد جواب دہندہ اس کا یقین رکھتے ہیں۔

اردو میں ڈیجیٹل کتاب کبھی بھی کاغذ کی کتاب کے برابر حلقہ قارئین نہیں حاصل کرپائے گی، اس رائے کو مجموعی طور پر بھاری اکثریت سے رد کیا گیا ہے۔ تربت میں 15 فیصد اور کوئٹہ میں 5 فیصد کے سوا، کسی علاقے میں اس کی شرح صفر فیصد سے زائد نہیں۔ اس کے برعکس، صرف دس برس میں ایسا ممکن ہے، اس امکان سے متفق افراد کی کم ترین شرح بھی 40 فیصد ہے۔ بلحاظ مجموعی، جواب دہندوں کی غالب اکثریت کا خیال ہے کہ یہ ہدف دس سال میں عبور ہوگا، اس کے بعد بلحاظ شرح ، زیادہ تر کا خیال ہے کہ بیس برس میں اردو میں ڈیجیٹل کتب یکساں حلقہ قارئین رکھتی ہوں گی۔

اس ہدف کے لیے پچاس برس تک کی مدت کا اندازہ لگانے والے افراد ،گو تعداد میں تھوڑے ہیں، لیکن سوائے لاہور کے ہر جگہ اس رائے کو منتخب کیا گیا ہے۔ وہ جواب دہندہ جن کی رائے میں پچاس برس میں اردو ڈیجیٹل کتب ، کاغذ پر شائع ہونے والی کتب کے برابر حلقہ قارئین حاصل کر پائے گی، ان کی اوسط  شرح 7 فیصد ہے۔

جواب دہندوں کا یہ گروہ چوں کہ براہ راست مارکیٹ اور انڈسٹری سے تعلق رکھتا ہے، اس لیے یہاں جدید ٹیکنالوجی کے استعمال اوراس کے رجحان پر وہ رائے سامنے آئی ہے جو اس وقت ہمارے اداروں میں پائی جاتی ہے۔ بہت واضح شرح اس حق میں ہے کہ اگلے دس برس میں اردو ڈیجیٹل کتب کا حلقہ قارئین ، کاغذ پر شائع ہونے والی کتب کے برابر ہوجائے گا۔ اس میں جو سب سے کم شرح سامنے آئی ہے وہ لاہور سے ہے، جو75فیصد ہے۔ اس کے بالکل متضادرائے سے، کہ ایسا کبھی بھی نہ ہوسکے گا، سوائے کراچی کے ایک فرد کے، پورے پاکستان میں اُس سے کسی نے اتفاق نہ کیا۔

ظاہر ہے کہ یہ سوال کسی قابل تصدیق اعداد و شمار کے بجائے، ہر جواب دہندہ کی ذاتی رائے اور اندازے کا عکس ہے۔ اس لیے سب سے حیران کن امر یہ مایوسی ہے کہ اردو کتب کبھی بھی عالمی معیار کی  نہیں ہوسکتیں۔  کراچی میں اس کی شرح 15 فیصد ہے تو لاہور میں اس سے بھی دگنی شرح کے جواب دہندہ اس پر متفق ہیں۔ چوں کہ یہ سروے محض محدود تحقیقی سوال کا جواب معلوم کرنے کے لیے ہے، اس لیے وجوہات کا تعین نہ کیا جاسکا۔ مثبت پہلو اس سوال کے جواب میں یہ سامنے آیا کہ جواب دہندہ کی اکثریت کے خیال میں یہ فرق بہت سے بہت بیس برس میں دور ہوجائے گا۔

یہ سوال سروے میں شریک تمام گروہوں کے سوالنامے میں شامل ہے، تاہم اس گروہ میں اس کا جواب کسی ایک رجحان کی نمائندگی نہیں کر رہا۔  ہر شہر کے جواب دہندہ مختلف شرح سے مختلف آراء کے حامی ہیں۔ لاہور میں 25 فیصد کا خیال ہے کہ ڈیجیٹل کتب کے قارئین کبھی بھی کاغذی کتب کے برابر تعداد نہیں حاصل کر پائیں گے تو کراچی میں اس کے بالکل الٹ یہ شرح صفر فیصد ہے۔ اس طرح اسلامآباد میں دس برس میں یہ حد عبور کرنے کی رائے دینے والوں کی شرح 5 فیصد ہے تو کراچی میں یہ شرح 40 فیصد تک ہے۔ غالباً آراء میں اتنا تفاوت سوال کا متعلقہ گروہ کے شعبہ مہارت سے متعلق نہ ہونا ہے

ناشرین کی اکثریت کا خیال ہے کہ اردو میں ڈیجیٹل کتب اگر کبھی کاغذ پر شائع ہونے والی کتب کے برابر حلقہ قارئین حاصل کرپائے گی تو اس میں بیس سے پچاس برس کا عرصہ لگے گا۔

 اسلام آباد میں 2کراچی میں 1جب کہ کوئٹہ میں 3ناشرین کا خیال یہ بھی ہے کہ ایسا کبھی نہیں ہو پائے گا۔ جب کہ کوٹلی کے95 فیصدناشرین  نے اس کا اظہار کیا ہے کہ یہ برابری اگلے دس برس میں ممکن ہوجائے گی۔

کسی بھی تحقیقی ادارے یا مطالعات کی عدم موجودگی میں ، تاجران ِکتب کی جانب سے اس سوا ل کا جواب ظاہر ہے کہ ان کے ذاتی اندازے پر مبنی ہے۔  تاہم دیگر گروہوں کے برعکس اس سوا ل کے جواب میں کسی بھی واضح رجحان کی نشاندہی ممکن نہیں۔ 

مختلف مقامات پر یکسر مختلف شرح سے سوالنامے کے جواب موصول ہوئے ہیں، اس لیے یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اس سوال کے جواب میں کتب کی فروخت سے متعلق افراد نے ، براہ راست ڈیجیٹل کتب کی فروخت کا تجربہ نہ ہونے کی وجہ سے، ماہرانہ اندازے کے بجائے ، بے دھڑک اندازے (Wild Guess ) سے کام لیاہے۔

اس سوال کے جوابات کے تجزیہ سے پہلے یہ نکتہ اہم ہے کہ کتاب دار کے لیے لفظ 'قاری' سے مراد وہ لوگ ہوتے ہیں جو کتاب خانے آکر ُاس کے وسائل سے کتب خانے  میں یا گھر لے جاکر استفادہ کرتے ہیں۔ یعنی کتاب داروں کے ہاں اس سوال کا مفہوم یہ نہ تھا کہ کاغذ پر شائع شدہ ان کے کتب خانے میں موجود اور اپنے اپنے گھروں میں لیپ ٹاپ، کمپیوٹر یا دیگر ڈیجیٹل آلات پر قارئین کا موازنہ کیا جائے۔ بلکہ انھوں نے کتاب خانے میں موجود ڈیجیٹل متن اور کتاب خانے میں موجود کاغذ پر شائع ہونے والے متون کے ممکنہ شرح استفادہ پر اپنا تخمینہ پیش کیا ہے۔ اس لیے دیگر گروہوں کے اس حوالے سے دیے گئے جوابات سے ہٹ کر، یہ اعداد و شمار ڈیجیٹل متن پر ایک ماہرانہ اندازہ کے طور پر استعمال میں لائے جاسکتے ہیں۔

کتاب داروں کی اکثریت اس پر متفق ہے کہ اگلےایک عشرے میں ڈیجیٹل متن کے قارئین کاغذ پر کتب سے استفادہ کرنے والے قارئین کے برابر ہوں گے۔  اس کی کم ترین شرح بھی 65 فیصد کی بلند شرح تک پہنچتی ہے۔  دوسری طرف، اس کے بالکل الٹ، پورے پاکستان میں صرف ایک جواب دہندہ نے اس رائے کا اظہار کیا ہے کہ ایسا کبھی نہیں ہونے پائے گا، اور پچاس برس تک کے عرصے کا تخمینہ پیش کرنے والے کتاب داروں کی  بلند ترین شرح 20 فیصد ہے۔کتاب داروں کا اس امر پر اتفاق نظر آتا ہے کہ اردو میں ڈیجیٹل متن سے یکساں شرحِ استفادہ ایک عشرے یا بہت سے بہت دو عشرے کی بات ہے۔ اس بلند شرح کی وجہ کتاب داروں کی تربیت، دیگر زبانوں میں ڈیجیٹل متون سے استفادہ کے رجحانات اور ملک میں ڈیجیٹل آلات کے استعمال کے رجحانات  سے براہ راست  تعلق اور تجربات ہوسکتے ہیں۔

ماہرین کی غالب اکثریت کی رائے یہ ہے کہ اردو میں ڈیجیٹل کتب ، صارفین اور قارئین کے اعتبار سے زیادہ سے زیادہ دس برس میں کاغذ پر کتب سے استفادہ کرنے والوں کے برابر ہوجائے گی۔ علاوہ ازیں ، کسی بھی ماہر نے 'پچاس برس' اور 'کبھی نہیں' کو منتخب نہیں کیا۔  وہ ماہرین جن کے خیال میں یہ حد بیس برس میں عبور ہوگی ان کی تعداد اسلام آباد میں ایک جب کہ لاہو ر میں تین ہے۔ اس کی وجہ شائد ان ماہرین کا دنیا میں تیزی سے بدلتے ہوئے ڈیجیٹائزیشن کے رجحان کا مشاہدہ ہے۔

اردو ڈیجیٹل کتب کبھی بھی کاغذ پر شائع ہونے والی کتب کے برابر حلقہ قارئین حاصل نہیں کر پائیں گی، اس امکانی جواب کو اگرچہ تربت میں بہت زیادہ بلند شرح  یعنی 30 فیصد سے منتخب کیا گیا، لیکن پشاور،چترال،کراچی ، کوئٹہ اور لاہور میں بھی ایک ایک جواب دہندہ نے اس امکان کو درست قرار دیا ہے۔ اس کے برعکس، اگلے دس برس میں اردو ڈیجیٹل کتب کے قارئین ، کاغذ پر شائع ہونے والی کتب کی برابر تعداد میں ہوں گے، اس امکان کو بھی سب سے کم شرح (5 فیصد) تربت میں دی گئی، لیکن اس کے سوا، اور کسی جگہ یہ شرح 30 فیصد سے کم نہیں۔ لاہور میں اس کی بلند ترین شرح 80 فیصد ہے، جب کہ کوٹلی میں 70 فیصد اور اسلام آباد میں 60 فیصد افراد نے اس امکان کو زیادہ قرین قیاس سمجھا ہے۔  بیس برس اور پچاس برس میں یہ امکان ظاہر کرنے والوں کی تعداد55 فیصد سے 5 فیصد کے درمیان ہے۔

اس گروہ میں ہر عمر، جنس اور تعلیمی معیار کے افراد کو شامل کرنے کی کوشش کی گئی۔  اس لیے ملنے والے جوابات بھی ذاتی اندازے ہونے کے ساتھ ساتھ ، محض موجودہ صورت حال کو سامنے رکھتے ہوئے، مقامی تجربات  پر مشتمل ہے۔  اس محدودات کو سامنے رکھیں، تو اس سوال کے امکانی جوابات سے یہ نکات سامنے آتے ہیں کہ اردو ڈیجیٹل کتب کو نہ صرف قارئین کی وسیع تر تعداد قبول کرچکی ہے، بلکہ اس کے فروغ اور مستقبل کے بارے میں بھی شکوک کا شکار نہیں۔ اردو کتب کے ڈیجیٹل فروغ کے حوالے سے یہ صور ت حال بہت حوصلہ افزا ہے کہ ، کتاب کی طباعت کی آخری کڑی، قارئین نہ صرف ڈیجیٹل صورت میں کتاب کی اہمیت تسلیم کرتے ہیں، بلکہ اس کے مستقبل کے بارے میں بھی ، موجودہ ترقی کو پیش نظر رکھتے ہوئے، یہ اندازہ پیش کر رہے ہیں کہ اگلے دس سے بیس برس میں یہ وسیع تر حلقہ قارئین تک پہنچ چکی ہوگی۔

عمومی نتائج اور مجموعی تجزیہ:

اس سروے کے رجحانات یہ واضح کرتے ہیں کہ بالعموم پاکستانی معاشرے میں اردو متن کی ڈیجیٹل صورت سے عام تعارف موجود ہے،تاہم اس کے امکانات پر اختلافات پائے جاتے ہیں اور اوسط شرح کو مد نظر رکھا جائے تو ،جواب دہندگان کی رائے میں، آئندہ دس برس میںاردو متن کے قارئین کی تعداد ، کاغذ پر شائع ہونے والی کتب کے برابر ہونے کا امکان ہے۔

تاہم ان نتائج کے عملی اطلاق کے لیے چند بنیادی محدودات کا لحاظ رکھا جانا لازم ہے۔ اُن میں سب سے اولین یہ حقیقت ہے کہ پاکستان میں کاغذ پر شائع ہونے والی کتب اور ڈیجیٹل کتب، دونوں کے حوالے سے کوئی اعداد و شمار دستیاب نہیں۔  سروے آف پاکستان، پاکستان نیشنل لائبریری اور نیشنل بک فاؤنڈیشن جیسے متعلقہ اداروں میں کتاب کے موضوعات، تعداد اور عادات مطالعہ سے متعلق اعداد و شمار کی جمع آوری اور ان کی اشاعت کا کوئی نظام موجود نہیں ہے۔ اس لیے سروے میں شامل افراد کی آراء کو اندازے، مشاہدے اور قیاس پر تعبیر کیا جاسکتا ہے۔

علاوہ ازیں،یہ تحقیقی مقالہ وسیع تر خزینہ معلومات (Dataset )   کے محض ایک پہلو پر اور مقداری کے بجائے توضیحی انداز میں روشنی ڈال رہا ہے۔ جواب دہندگان کی عمر، تعلیم، صنف اور سکونت  اور متعلقہ شعبہ میں تجربہ کے فرق  کے ساتھ ساتھ نتائج پر اس امر کا بھی اثر پڑنا لازم ہے کہ سروے ایک ہی وقت میں  مکمل کیے  جانے کے بجائے تین برس کے طویل عرصے میں مکمل کیا گیا۔  ان محدودات کو پیش نظر رکھتے ہوئے، ان نتائج کو حتمی کے بجائے نمایندہ رجحانات قرار دینا مناسب ہے۔

حاصلِ مطالعہ اور سفارشات:

پاکستان میں مطالعہ کے فروغ، خواندگی میں اضافہ اور اہلیت افزائی(Capacity Building )  کے لیے کتاب کی صنعت کا استحکام لازم ہے۔ اس سمت میں اولین شرط قابل اعتبار اعداد و شمار کا حصول ہے۔ پاکستان بھر سے ، عمر، جنس ، تعلیمی مدارج اور جغرافیائی تنوع کے  حوالے سے موجودہ عادات مطالعہ اور رجحانات کا علم ہونے سے ہی کتاب سے متعلق تمام شعبے اور صنعتی ادارے مستقبل کے لیے بہتر منصوبہ بندی کے اہل ہوں گے۔ اس ضمن میں ماضی میں نیشنل بک کونسل چند بنیادی اہمیت کے سروے کراچکی ہےجن میں بچوں کی عادات مطالعہ پر کرایا جانے والا سروے عالمی سطح پر سراہا گیا(انیس خورشید:1976ء)۔ یہ ادارہ اب نیشل بک فاؤنڈیشن میں ضم ہوچکا ہے، اس لیے بنیادی ذمہ داری اب نیشنل بک فاؤنڈیشن کی ہے کہ وہ کتب سے متعلق تمام حکومتی، غیر حکومتی اور بین الاقوامی اداروں کے ساتھ مل کر پاکستان میں عادات مطالعہ پر قابل اعتبار اعداد و شمار کی جمع آوری اور اشاعت یقینی بنائے۔

دنیا بھر میں کمزور معیشت کے حامل معاشرے ڈیجیٹل خواندگی اور ڈیجیٹل امکانات سے پوری طرح استفادہ کےاہل نہیں (راجر کارٹیئر:2004ء)۔اسی سروے کے دیگر سوالات اور اس مقالہ کے لیے تحقیق کے دوران یہ واضح ہوا کہ پاکستان میںڈیجیٹل کتب کے تجارتی امکانات کو کم کرنے والے تین بڑے عوامل: معاشی بدحالی، کاپی رائٹ کی خلاف ورزی، اور بجلی کا نہ ہونا ہے۔ یہ تینوں عوامل طویل مدتی حل کے متقاضی ہیں،تاہم ان تینوں مشکلات کا ایک فوری حل ایسا موجود ہے جس سے اردو میں ڈیجیٹل کتب کی تجارتی سطح پر تیاری اور فروخت ممکن ہے۔  تجارتی ادارے اور سوفٹ وئری ہاؤس ،دیگر متعلق اداروں کے تعاون سےصرف کتب خانے کے نظام کو مستحکم کرکے ان تینوں مزاحمتوں کے باوجود ،فوری طور پر اردو میں تجارتی سطح پر ڈیجیٹل کتب کی فروخت یقینی بناسکتے ہیں۔

اعلیٰ تعلیمی اداروں اور ہر تحصیل کی سطح پر ایک کتب خانے کو ڈیجیٹل وسائل مہیا کرکےفرد کی سطح پر قوت خرید کی کمی کے مسئلےاور بجلی کے نہ ہونے کی مشکل سے نکلا جاسکتا ہے  ۔علاوہ ازیں کتب خانوں کے قابل بھروسہ نظام کے قیام سے کاپی رائٹ کے خلاف ورزی بھی روکی جاسکتی ہے اور تجارتی اداروں کے لیے ان کی مطبوعات  کے لیے یقینی فروخت کی کم سے کم تعداد کا تعین بھی ممکن ہوگا۔

 

حوالہ جات:

Chartier, R. (2004). Languages, books, and reading from the printed word to the digital text. Critical Inquiry, 31(1), 133-152 .

Hox, J. J., Moerbeek, M., & van de Schoot, R. (2017).Multilevel analysis: Techniques and applications. Routledge .

Khurshid, Anis. (1976) What Children Read. National Book Council, Pakistan .

 

اوپر جائیں  |   پرنٹ کیجئےِ
انگریزی ورژن ای میل چیک کریں مرکزی صحفہ پرنٹ پسندیدہ سائٹ بنائیں رابطہ کیجئے www.shahzadahmad.com www.shahzadahmad.com