ABSTRACT
The Islamic culture is innate to the desserts of Arabs, due to the worthy teachings of Muhammad (PBUH). Beliefs, values and norms of Islamic culture were totally different from the traditional Arab culture which was existed since the pre-Islamic era. Therefore, the traditional Arab culture showed great resistance confronting the new Islamic culture. Shahnama-e Islam is an earnest poem by Hafeez Jalandhuri [1900-1982] which reflects the clash of Islamic and Arab culture in an effective way. In this research paper the researcher has discussed the clash of Islamic and Arabic cultures, as it is depicted by Hafeez and its socio-political and economic backdrop is also discussed for provision of proper context.
Key Words: Traditions, Islamic Traditions, Arabic Traditions, Values and Clashes.
دین انسان کے نفس میں موجودمثبت قوتوں کو پروان چڑھانے کے ساتھ ساتھ منفی اور شر پر مبنی قوتوں کو بھی مثبت اقدار کے ایک ایسے نظام میں لپیٹ لیتا ہے کہ ان کی منفیت ختم ہو جاتی ہے اور یوں زندگی نہ صرف اپنے لیے صراط مستقیم کا تعین کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہے بلکہ منزل بھی سامنے رکھ لیتی ہے اور اس کی طرف آگے بڑھنے کا آغاز بھی کر دیتی ہے ۔اسی وجہ سے قرآن کو نعمتِ خداوندی قرار دیا گیاہےکہ وہ راستے اور منزل کا تعین کرکے جادہٓ انسانیت کو بھٹکنے اور غلط راستوں پر ان کی ذہنی و جسمانی توانائی ضائع ہونے سے بچاتا ہے۔معاشرے کی تعمیر کے معاملے میں دین کا ہر ایک قدم تعمیر کی طرف اٹھتا ہے اور اس سلسلے میں خیر ہی اس کا مطمح نظر ہوتا ہے ۔ثقافت کے ضمن میں خیر کی تعریف کرتے ہوئے مارٹن بوبر لکھتے ہیں:
"خیرکے معنی ہیں ایسا سفر جس میں ہر قدم منزلِ مقصود کی طرف اٹھے اور" شر" کے معنی ہیں انسانی ممکنات کا بگولے کا سا رقص ۔دنیا میں انسانی ممکنات کے بغیر کچھ بھی حاصل نہیںکیا جا سکتا ۔لیکن اگر یہی قوتیں ایک خاص سمت کی طرف جانے میں استعمال نہ کی جائیں اور ایک دوسرے میں اُلجھی رہیںتو ہر طرف فساد ہی فساد رونما ہو جاتا ہے۔"(۱)
دین انسانی توانائیوں کو معاشرے کی افادیت اور انسانی فلاح و بہبود کے لیے استعمال کرتا ہے ۔وہ بوقت ضرورت مفاہمت سے بھی کام لیتا ہے اور اگر ضرورت پڑے تو مزاحمت پر بھی اتر آتا ہے ۔اس لیے کہ اس کے سامنے منزل انسانی سماج کو صحت مندانہ ڈھانچے میں ڈھالنا ہوتا ہے یا باالفاظ دیگر اسے سماج کی اصلاح کرنی ہے ، جس کے لیے اقدار کی تشہیر کے ساتھ ساتھ ان رکاوٹوں کو بھی دور کرنا ہے جو ان اقدار کی عملی تعبیر کے راستے میں مزاحم ہوتی ہیں ۔یوں مزاحمت اور اس کے نتیجے میں تصادم سے دینی کلچر کا خمیر اٹھا ہوتا ہے ۔دینی کلچر کی خاصیت ہی یہ ہوتی ہے کہ :
ترجمہ :''حقیقت یہ ہے کہ یہ قرآن وہ راہ دکھاتا ہے جو بالکل سیدھی ہے ۔جو لوگ اسے مان کر بھلے کام کرنے لگتے ہیں انہیں یہ بشارت دیتا ہے کہ ان کے لیے بڑا اجر ہے ۔'' (۲)
عمل خیر کو بنیادی قدر کی حیثیت دے کر دین کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ ان تمام باطل معیارات کے ساتھ نبردآزماہوجائے جو انسان کو عمل خیر کی بجائے شر کی طرف لے جاتی ہیں اور ان کی وجہ سے معاشرہ جیتے جی جہنم میں تبدیل ہوجاتا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ ہرایسی قدر جس کی بنیاد کسی دوسرے انسان کے استحصال پر ہو دین نہ صرف اسے رد کرتا ہے بلکہ انسانی معاشرے سے اس کا خاتمہ کرکے ہی دم لیتا ہے ۔مثلاً دورجاہلیت میں انسان کی فضیلت کا معیا ر اس کا خون،حسب و نسب ،قبیلہ اور زبان سمجھاجاتا تھا ۔یہ منفی اقدار عرب معاشرے میں موجود تھیں۔لہٰذا ہم دیکھتے ہیں کہ اس کی موجودگی سے پورے عرب معاشرے کی وحدت نہ صرف پارہ پارہ تھی بلکہ اس کا امن اور اور سکون بھی قبیلیائی جنگوں کی وجہ سے غارت ہو چکا تھا۔قرآن نے یہ اعلا ن کیا کہ اِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَاللّٰہِ اَتْقَاکُمْ ۔(۳) اور رسو ل اللہﷺنے ارشاد فرمایا :
اِنَّ اَوْلَی النا س بی المتقون من کانواو حیث کانوا۔
مجھ سے قریب وہ لو گ ہیں ، جو متقی ہو ں ، جو بھی ہوں اور جہاں بھی ہو ں ۔(یعنی جنس ووطن ومقام کی قید نہیں )'' (۴)
لہٰذا دین کی رو سے رسول اللہ ﷺ (اسلامی آئیڈیالوجی ) سے قربت خو نی رشتہ کی بنیا د پہ نہیں بلکہ عمل خیر کی بنیا د پہ نصیب ہو تی ہے۔یہ اسلامی تہذیب کی ایسی خصو صیت ہے جس سے اس نے نہ صرف اپنے دو ر کے سب سے بڑے مخالف کلچر کو للکارا تھا بلکہ اس معیا ر کے حوا لے سے وہ آج بھی دنیا کی ہر بڑی سے بڑی تہذیب کے لیے ایک چیلنج کی حیثیت رکھتا ہے ۔حجۃ الوداع کے مو قع پہ یہ کتنا عظیم اعلان ہے ۔
"لا فضل العربی علی عجمی ولالا احمر علی اسود کلکم من آدم و آدم من تراب ۔"
عربی النسل کو عجمی النسل پر اور سرخ رنگ والے کو کالے رنگ والے پر کو ئی برتری حاصل نہیں ۔تم سب آدم کی اولا د ہو اور آدم ؑ کا ما یہ خمیر مٹی ہے ۔"(۵)
لہٰذ ا عرب کے قبائل بھی جب لڑتے جھگڑتے تھے تو یہ نہیں دیکھتے تھے کہ حق پر کو ن اورباطل پر کون ہے ؟اور آج بھی اگر ملکو ں کے درمیا ن تنا زعات جنم لیتے ہیں تو یہ نہیں دیکھا جا تا کہ غلطی کس ملک کی ہے ؟ ریا ستی پیمانے پہ تقوٰی کا خون کو ن سا ملک کر رہا ہے ۔عرب معاشرے میں بھی ہر نزاع میں حق پر طا قتور قبیلہ ہوا کرتا تھا اور آج بھی حق پر اس قوم کو سمجھا جاتاہے جس کے پاس قوت ہےاورہر ایک قوم سے تعلق رکھنے وا لے فرد کا فیصلہ حق اور باطل کے ایک ہی معیا ر کوسامنے رکھتا ہے کہ میری قوم ہی حق پر اور متصا دم قوم باطل پر ہے ۔لیکن اسلام نے اپنے حیا ت بخش اقدار کے عملی نفاذ سے پورے عرب معاشرہ کو اس جہنم سے نکالا ۔مشہور ماہرِ عمرانیات سوردکن لکھتے ہیں:
"منفی قدریں جلد یا بدیرخود ان کو فنا کر دیتی ہیں جنہوں نے انہیں سینے سے لگا رکھا ہے ۔ثقافت یا کلچر اس وقت انسا نیت کا اثاثہ بن سکتی ہے جب اس کی مثبت قدریں زندگی کو آگے بڑھاتی ہیں۔منفی قوتیں خود زندگی کو تباہ کر دیتی ہیں۔خود اس کے وجود کو کھا جاتی ہیں۔"(۶)
یوں اسلام نے پورے عرب معاشرے کو اپنی ہی لگائی ہوئی آگ میں جلنے بھسنے سے بچایا ہے ۔یہ کلچر اتنا انقلابی تھا کہ اس نے زندگی کے منفی اقدار کے ساتھ نظریاتی اور عملی دونوں اعتبار سے ایک کامیاب جنگ لڑی ۔اور اس وقت تک سکون کا سانس نہیں لیا جب تک اس نے انسانی معاشرے سے انسانیت کُش اقدار کا خاتمہ نہیں کیا ۔ یو ں ایک ایسے دو ر میں کہ جب قبیلہ پر ستی عربی کلچر میں ایک اسا سی قدر کی حیثیت سے مو جو د تھی ۔ایسے میں انسا نی مسا وات و اخوت کا نعرہ بلند کرناکو ئی معمولی با ت نہ تھی۔اسی قسم کے تو انا اقدار کسی کلچرکو زندہ کلچر بنا دیتے ہیں ۔لہٰذا زندہ کلچر کی یہ ایک خاصیت ہوتی ہے کہ اس میں زیا دہ سے زیا دہ انسا نوں کو اپنی طرف راغب کرنے کا ساما ن مو جو د ہو تا ہے ۔ڈاکٹر جمیل جالبی کے خیال میں :
"زندہ ثقافت (کلچر)کسی ایک فرد ،جماعت ،یا طبقے کی ملکیت نہیں ہوتی بلکہ سارے معاشرے کی ملکیت ہوتی ہے جس میںعوام و خواص ،امیر و غریب ،ادنیٰ و اعلیٰ سب شامل ہوتے ہیں۔"(۷)
زندہ ثقافت کی بنیادی خوبی یہ ہوتی ہے کہ وہ انسانوں کے مابین تفریق،عدم مساوات اور طبقات کی قائل نہیں ہوتی۔ بلکہ دل کو دل سے، اور ذہن کو ذہن سے جوڑتی ہے، وحدتِ انسانیت ہی اس کے سامنے واحد منزل ہوتی ہے۔ جس کی طرف اس کا ہر ایک قدم اٹھتا ہے۔ خلیفہ عبدالحکیم کے خیال میں:
"حقیقی تہذیب توحیدِ انسانیت کے جذبے ہی سے پیدا ہو سکتی ہے ۔اگر انسان قوم ،نسل و رنگ و زبان ،اور رسم و رواج کے اختلاف کو باہمی خصومت کا سبب بنائے رکھیں تو انسان ذہنی لحاظ سے موحد ہو سکتے ہیں اور نہ ہی انسانوں کے روابط میں وحدت آفرینی کر سکتے ہیں۔"(۸)
یوں ہر وہ قدر جو انسانوں کی وحدت کو توڑنے یا عدم مساوات پیدا کرنے کی آرزومندی کا اظہار کرے ،زندہ کلچر کی روح کے خلاف ہے ۔اس لیے کہ جو کلچر مخصوص معاشرے میں ظلم ،جبر،ناانصافی اور عدم مساوات کا خاتمہ نہیں کرسکتا وہ زیادہ سے زیادہ انسانوںکی توجہ اپنی طرف کیسے کھینچ سکتا ہے؟عدم مساوات ،ظلم ،جبر اور ناانصافی کی جڑیں معاشرے میں اس وقت مضبوط ہوتی ہیں جب وہ معاشرہ اور اس سے تعلق رکھنے والا ہر فرد اپنے ذاتی یا قومی مفاد کی خاطر دوسروں کا گلا گھونٹنے کو اپنی زندگی کا مطمح نظر بنا لیتاہے۔ لہٰذاکلچر کی دو ہی قسمیں ہو سکتی ہیں ۔
۱۔ذاتی مفادات کی بنیاد پہ وجود میں آنے والا کلچر(جس کا لازمی نتیجہ دوسروںکا سلب و نہب اوراستحصال ہوتاہے)
۲۔ذاتی مفادات سے بالاتر ہو کر وجود میں آنے والا کلچر (جس کا لازمی نتیجہ ایثار، قربانی ، اخوت اور وحدت جیسے اقدار کافروغ ہوتاہے)
اسلامی کلچر انسان کو ذاتی مفادات سے بالاتر ہو کر سوچنے اور عمل کرنے کی دعوت دیتا ہے۔ لہٰذا تقو ٰی کی سرحدیں ہی وہیں سے شروع ہوتی ہیں جہاںپر انسان اپنے مفاد کو دوسروں کے لیے قربان کرنے پہ آمادہ ہو جاتا ہے۔راشڈل کہتا ہے :
"مثالی نہجِ زندگی یہ ہے کہ میں کسی دوسرے کے بہبود کے لیے کچھ کروںاور اس میں اپنی منفعت محسوس کروں اور وہ میری بہبود کے لیے کچھ کرے اور اس میں اپنی بھلائی دیکھے۔ بس یہ ہے حقیقی مثالی زندگی ۔"(۹)
کانٹ اس حوالے سے لکھتا ہے:
"تم ایک ایسے معاشرے کے فرد بن جاوٓجس میںہر فردوسرے افراد کے مفاد کی قیمت اپنے مفاد کی قیمت کے برابر سمجھتا ہے۔"(۱۰)
اس مقا م پہ اسلا می تا ریخ کے ایک اہم اقدام پہ بھی سو چتے چلے جا یئے ۔ہجر ت کے بعد مدینہ میں نو وارد مہا جرین معاشی حوالوں سے عملی مسائل سے دو چار تھے ۔آنحضرت ﷺ نے اس مسئلہ کو جس حسن و خوبی سے حل کیا تاریخ میں اس کی مثا ل ڈھو نڈنی مشکل ہے ۔اورآپ محسو س کریں گے کہ مہاجرین و انصا ر دونوں اخلا ق کے کس بلند مقا م پر کھڑے ہیں۔مثلاًانصا ر نے پیش کش کی کہ ان سے ان کی نصف زمینیں لے کر مہا جرین میں تقسیم کر دی جا ئیں ۔مکی مہا جرین نے اس پیش کش کو مسترد کر دیا اور کہا "آپ لو گ اپنی زمینیں ایک طے شدہ شرح پر ہمیں کرایے پر دے دیں(۱۱)
اپنی جا ئیدا دیں یو ں کسی کے حوا لے کرنا ایثا ر کا کتنا بڑا مظا ہرہ ہے ۔راشڈل اور کا نٹ کی باتیں محض خا لی خو لی باتیں ہیں لیکن رسول اللہ ﷺ نے مدینہ میں جس معاشرے کی بنیا د ڈا لی وہ ان خا لی خو لی باتو ں سے بھی ایک بلند تر معیا ر پیش کر رہا ہے ۔مثلا ً
عبد الرحمٰن ابن عوفؓ جس انصا ری کے بھا ئی بنا دیئے گئے تھے اس نے ان سے کہا کہ میری دو بیویا ں ہیں ان میں سے ایک منتخب کر لیجئے۔میں اسے طلا ق دے دو ں گا تا کہ تم اس سے شا دی کر سکو۔(۱۲)اپنی دو بیو یو ں میں اپنے انصاری کی پسند پہ ایک بیوی کو طلا ق دینے کی پیشکش کا نٹ اور راشڈل کی ان باتو ں سے بھی بلند تر ایثارکا معیا ر پیش کرتا ہے جو محض یو ٹو پیا ئی مز ا ج رکھتی ہیں اور زیا دہ سے زیا دہ ان کے تخیل کی پیداوار کہلا ئی جا سکتی ہیں۔اس کے برعکس مدنی معاشرے سے لی گئی یہ مثا ل نظری نہیں بلکہ عملی ہے ۔کسمپرسی کے با و جو د مکی مہاجرین کا جذبہ خو د دا ری بھی قابل تحسین ہے کہ وہ اس قسم کی پیشکش کا جو ا ب احسان مندی کے سا تھ دیتے رہتے تھے (۱۳) اور جو ں جوں وہ اس نئے ما حو ل میں معاشی طور پر سنبھلتے چلے گئے تو جتنا ان سے ممکن ہو سکا انہو ں نے انصا ر کی وہ جائیدادیں ان کو واپس کر دیں ۔(۱۴)
اسلا می معاشرہ کے اندر اسلامی اقدار کی وجہ سے ایک ایسی فضا جنم لیتی ہے جس کی وجہ سے انسان شیطانی صفا ت چھوڑ کر ملکو تی صفا ت کاحا مل بننے لگتا ہے ۔بشر طیکہ خلوصِ نیت موجو د ہو۔یوں تہذیب کی کو ئی تعریف متعین کیے بغیر بھی تہذیب کی ایک اعلیٰ سطح مو جو د ہو تی ہے ۔شہزا د احمد فرائیڈ کے حوا لے سے لکھتے ہیں :
"تہذیب سے فرائیڈ کی مراد وہ تمام صورتیں ہیں جو انسان کو حیوانی حالت سے بلند تر کرتی ہیں ۔اور یہ بتاتی ہیں کہ انسان وحشی حیوانوں سے کس طرح ممتازہے۔"(۱۵)
بلکہ تہذیب کی سرحد ہی وہا ں سے شروع ہو تی ہے جہا ں پہ انسانو ں کا ایک گروہ ان تما م باتوں کو اپنا نا شروع کر دیتا ہے جس کی وجہ سے اسے انسان کہلایا جا نا چاہیئے اور جن باتو ں کی توقع ہم حیوانو ں سے نہیں رکھ سکتے۔ یوں پورے کا پورا معاشرہ اس وقت تہذیب کے دائرے میں داخل ہو گا جہاں پہ انفرادی سطح پر ایسے اعما ل کاظہو ر ہو نا شروع ہو جا ئے جس کی توقع انسانوں ہی سے رکھی جا سکے ۔اور ایسے اعما ل کے ظہو ر کا سلسلہ رک جا ئے جس کی توقع انسانوں سے نہ رکھی جاسکے ۔اس معیار کے مطابق دیکھا جائے تو اعلیٰ تہذیب پسند و ناپسند اور آرزومندی کے معاملے میں اعلیٰ معیار کو سامنے رکھتی ہے ۔
جہاں تک اسلامی تہذیب کا تعلق ہے تو وہ اعلیٰ انسانی اقدار اور مقررات کو ثقافتی ہدف کے طور پر سامنے رکھتی ہے ۔اس پر عمل پیرا بھی ہوتی ہے ، انسانی آزادی پر یقین رکھتے ہوئے اس کا پرچار بھی کرتی ہے اور اگر استحصالی اور باطل قوتیں دلیل کی بجائے قوت کے استعمال کی طرف آجائیں تو ہر ایک محاذ پر ان کا ڈٹ کر مقابلہ کیا جائے۔ یوں یہ تہذیب صرف انسانی جذبات کی ترجمان نہیں ہوتی بلکہ ان کا احتساب بھی کرتی ہے اور انہیں خود احتسابی کے عمل سے بھی گزارتی ہے ۔
شاہنامہ اسلام میں اسلامی تہذیب کے پیروکاروں کی خود احتسابی اور احتساب دونوں کی روح کارفرما نظر آتی ہے ۔یوں تو شاہنامہ اسلام میں قدم بہ قدم اسلامی تہذیب اور عربی تہذیب کے تصادم کا سلسلہ موجود ہے ۔لیکن شاہنامہ میں مذکور بعض واقعات اور ان میں بیان کردہ جزئیات ایسی ہیں جہاں اسلامی تہذیب و ثقافت کے منفرد اقدار اور مقررات عربی تہذیب کے نمائندہ اقدار کے ساتھ متصادم نظر آتے ہیں ۔اس سلسلے میں حضرت زید اور حضرت حبیب کی شہادت کا واقعہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے ۔جنہیں ایک تبلیغی مہم کے بہانے دھوکے سے گرفتار کیا گیا تھا۔دھوکے سے گرفتاری کے اس واقعے میں عربی تہذیب کی کئی ایک منفی اقدار بیک وقت کا م کر رہی ہیں ۔۱۔بنو لحیان کے قتل کا بدلہ ۲۔دھو کہ دہی اور فریب ۳۔زرپرستی اور اس جذبے کے تحت صحا بہ ؓ کو بیچ دینا ۔ خبیب ؓ کے ہاتھوں میدانِ بدر میں حارث قتل ہوا تھا ۔لہٰذا حارث کے بیٹوں نے اسے مہنگے داموں خریدا ۔
پسر اس کے بہت خوش تھے کہ پایا انتقام اپنا لگانے آئے تھے منڈی میں اس سودے پہ دام اپنا
خبیب ؓ و زید آخر بک گئے بازارِ مکہ میں کیا لے جا کے ان کو قید ان اشرارِ مکہ نے (۱۶)
ان کے قتل کر دینے کا فیصلہ ہوا ۔تاریخ مقرر کی گئی۔منادی کرا دی گئی کہ قتل کا تماشا دیکھنے کے لیے ،بچے ،بڑے ،عورتیں اور بوڑھے سب آجائیں ۔بلکہ وہ لوگ جن کا کوئی عزیز مسلمانوں نے مارا ہے ۔بدلہ لینے کے لیے قتل گا ہ میں آجائے۔تاکید کی گئی کہ جس کا بدلہ ہو ہتھیار ضرور لے آئے تا کہ ہوس نہ رہے۔(۱۷)حرم کے حدود کے باہر تیغم میں یہ قتل گاہ قرار دی گئی ۔یہاں صبح سے میلا لگا ہوا تھا ۔اکثر لوگ ہتھیا ر سجا کر آئے(۱۸)۔بعض بڑے آدمی زیور پہن کر آئے تا کہ قومی شان انتقام کے دن قائم رہے ۔جنگی لباس ،زرہیں اور خود پہننے والے نمایاں تھے ۔جس وقت یہ لوگ میدان میں لائے گئے۔میدان میں ہلچل مچ گئی ۔لوگ چاروں طرف سے ہنگامہ کرتے اور شور مچاتے ہوئے دوڑے ۔ (۱۹)
بندھے تھے پشت پر ہاتھ ان کے پیروں میں تھیں زنجیریں نظر آتی تھیں دو آزادیٔ فطرت کی تصویریں
یہ اک اللہ کے بندے یہ دو احرار دو قید ی یہ اک توحید کے پابند دو مختار دو قیدی
قدم مقتل کے راہی عرش پیما تھے دماغ ان کے نجانے کیا نظر میں تھا کہ دل تھے باغ باغ ان کے(۲۰)
"قریش کے انبوہ نے ان کو دیکھا تو مضحکہ کرنے لگے ۔بعض نے بعض کو ان پر دھکا دیا ۔اور بعض نے خاک اڑائی ۔ "(۲۱)
انہیں دیکھا تو یک دم میں پڑی تضحیکِ بازاری ہنسی ، ٹھٹھا ،تمسخر ،طعن،آوازے ،دلآزاری(۲۲)
اس منظر میں بھی عربی تہذیب شیطانیت کا ایک مجسم نمونہ بن کر نگا ہو ں کے سا منے آگئی ہے۔ان کے ہاں سنگدلی اپنی انتہاوٓں تک پہنچی ہوئی ہے ۔انسانی رویّے اپناوقار کھو چکے ہیں ۔قتل ہونے والوں کے ساتھ اتنے انسانیت سوز مظاہر شاید ہی کہیں دیکھنے کو ملیں ۔عربی تہذیب کی کوکھ میں موجو د تشدد کے پیچھے ان کے "ثار" کا بھی عمل دخل موجود ہے۔لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ تہذیب اپنی تمام تر منفیت کے ساتھ اس مقام تک پہنچی ہے ،جو انسانی ضمیر کو جھنجھوڑ کے رکھ دیتی ہے ۔مثلاًان بے رحموں نے انہیں صلیب پر لٹکا لیا اور نیزہ والوں سے کہا کہ نیزوں کی انی سے ان کے جسموں کے ایک ایک حصے پر چرکے لگائیں (۲۳) اور ستم بالائے ستم یہ کہ چھوٹے چھوٹے بچوں کے ہاتھ میں نیزے دیے گئے ۔اور بڑوں نے انکے ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں سے سہارا دے کر وار کروائے (۲۴) بچو ں کے ہاتھ میں نیزے دینا اور ان کے ہا تھو ں سے وار کروا نے کا عمل تو انسا نی قبل از تاریخ دور میں بھی دیکھنے کو نہ ملاہوگا۔ لیکن اس میلے میں شریک کسی آدمی کا مجال ہے کہ اس کا ضمیر بیدار ہو ۔حالانکہ رسول اللہ ﷺ غزوئہ بدر کے بعدقیدیوں کے ساتھ حسنِ سلوک کی صورت میں کتنی صحت مند روایا ت چھوڑ گئے تھے ۔پھر اسلامی تہذیب کے توانا ہونے کا احساس اس سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ یہاں ہر کوئی جان کا نذرانہ دینے کو تیا ر ہے ۔جان کا نذرانہ دینے والوں کی ایک بہت بڑی تعداد بھی اس بات کے ثبوت کے لیے کافی ہے کہ اس تہذیب میں صداقت کا کس قدر سامان موجود تھا؟تہذیبِ مخالف کے پروردہ لوگوں کا طرزِ عمل آپ دیکھ چکے۔اب ذرا اسلامی روایات کے پروردہ انسانوں کا طرزِ عمل دیکھیے کہ وہ حسنِ عمل کے کس مقامِ بلند پر کھڑے ہیں۔آٹھ صحابہ ؓ لڑتے لڑتے شہید ہو گئے ہیں اور دو نے گرفتاری دے دی ہے ۔گرفتاری دے دینا کوئی معیوب بات نہیں تھی ۔ ظاہر ہے کہ انہوں نے ترغیب دی تھی کہ ہم تمہارے ذریعے روپیہ لینا چاہتے ہیں۔ان کے ذہن میں یہ بات شاید بیٹھ گئی ہو کہ وہ ان کی رہائی کے بدلے رسول اللہ ﷺ سے روپیہ مانگیں گے۔اس کا مطلب یہ نہیں تھا کہ یہ دونوں موت سے ڈر رہے تھے بلکہ اس کی بنیادی وجہ یہ تھی :
ہے کبھی جاں اور کبھی تسلیم ِجاں ہے زندگی
اسلامی تہذیب نے پہلی مرتبہ فرد کو یہ احساس دلانے کی کوشش کی تھی کہ انسانی زندگی میں حق اور صداقت کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔ جس کی خاطر اگر ضرورت پڑے تو جان کا نذرانہ بھی پیش کیا جا سکتاہے ۔اور اگر حق کا تقاضا یہ ہو کہ جان بچانی ضروری ہے تاکہ حق کا بول بالا کرنے کے لیے افرادی قوت موجود ہو ۔تو اس صورت میں جان بچانی بھی عین شہادت بن جاتی ہے ۔خبیبؓ اور زید ؓ یا دیگر صحابہ ؓ جیسے لوگ طبعی طور پر تو آسانی سے پیدا ہوتے ہیں لیکن تربیت کے ذریعے سے ان کی از سرِ نو پیدائش بڑا مشکل کام ہوتا ہے ۔اس کے لیے تربیت دینے والی شخصیت شب و روزاپنا خونِ جگر پیتی ہے۔تب کہیں جا کے کردار کا ایک نخلِ بلند سر سبز ہوتا ہے ۔تب کہیں جا کے یہ کیفیت نظر آتی ہے :
خدا جانے محبت کے یہ کیا اسرار ہوتے ہیں جو سر سجدوں میں گرتے ہیںوہ زیبِ دار ہوتے ہیں
بڑھایا مرتبہ کردار کا گفتار کے اوپر کہ واعظ برسرِ منبر ہیں ،عاشق دار کے اوپر(۲۵)
گفتار کے غازی تو بہت سے موجود ہوتے ہیں لیکن کردار کے غازی بڑی مشکلوں سے پیدا ہوتے ہیں۔ جنہیں اس بات کا احسا س ہو کہ ان کی زندگی کی قدر و قیمت کیا ہے ؟ لہٰذا وہ کوئی ایسی بے وقوفانہ حرکت کر ہی نہیں سکتے جس سے یہ متاعِ گراں بہا یوں ہی ضائع ہو جائے ۔لیکن جب تمام آپشن ختم ہو جائیں تو وہ موت کو ایسے سینے سے لگا لیں کہ جب حضرت خبیبؓ سے "پوچھا گیا کہ کوئی آرزو بیا ن کرو ۔حضرت خبیب ؓنے کہا کہ صرف دو رکعت نفل نماز پڑھنے کی مہلت درکا ر ہے ۔"(۲۶) اجازت ملی تو:
" حضرت خبیب ؓ نے بہت جلد نماز ادا کر لی اور کہا جی چا ہتا تھا کہ میرے سجدے ذرا طولانی ہوتے لیکن شاید تم سمجھتے کہ موت سے ڈرتا ہےاس لیے میں نے نماز مختصر کر دی ۔"(۲۷)
شجاعت اور ایثار اور شہادت وہ تین بنیادی ستون ہیں جو کسی بھی تہذیب کا مغز ہونے چاہیئیں اور اس کا عملی مظاہرہ آپ دیکھ رہے ہیں۔ انسانی تاریخ میں بہت سے لوگ دار پہ کھینچے گئے،لیکن کیا ایک بھی ایسا جملہ کہیں پہ موجود ہے ۔ ایسا اگر صرف یہا ں کہیں نظر آرہا رہے تو سوال پھر بہر حال موجود ہے کہ ایسا صرف آپﷺ کے صحابہؓ کے ہا ں ہی کیوں نظر آتا ہے ؟
جب وہ استرا بھیج چکی تو اسے اندیشہ ہوا کہ اگر قیدی اس کے ننھے سے بچے ہی کو مار ڈالے۔پیٹ پکڑے ہوئے دوڑی (۳۰) آکر دیکھا تو حضرت زیدؓ نے بچے کو زانو پر بٹھا رکھاتھا اور اس سے میٹھی میٹھی باتیں کر رہے تھے۔ سر تھپک رہے تھے اور بچہ بھی بڑے شوق سے سنتا اور توتلے پن سے جوا ب دیتا تھا ۔عورت حیران ہو کر بولی ۔تم تو عجیب آدمی ہو کیا تمہیں معلوم ہے مجھے کس فکر نے ہلکان کر دیا تھا ۔مجھے اندیشہ تھا کہ تم نے اپنی جان کے بدلے اس بچے کی جان لے لی ہو گی۔کیونکہ ایک کا بدلہ ایک ہوتا ہے ۔حضرت زیدؓ نے کہا:
''مائی پناہ بخدا ۔کیا میں مسلمان نہیں ہوں ۔کیا مسلمان کسی معصوم کی جا ن بھی لے سکتا ہے ؟"(۳۱)
حضرت زیدؓ نے مزید کہاکہ '' ہم مسلماں ہیں اور مسلمان کبھی غدّاری نہیں کرتا ۔'' (۳۲)
یہ طفلِ بے گنہ ،معصوم مخلوقِ خدا بچہ یہ پیارا بھولا بھالا ،سیدھا سادہ بے ریا بچہ
میں اس کی جان لوں کیا شیر چیتا بھیڑیا ہوں میں میں انساں ہوں،مسلماں ہوں،محبِِ مصطفیٰؐ ہوں میں
مسلماں اورخونخواری کرے یہ ہو نہیں سکتا خدا کا بندہ غدّاری کرے یہ ہو نہیں سکتا(۳۳)
پہلے سے بتایا جا چکا ہے کہ وہ حضرت زید ؓ اور حضرت خبیب ؓ کے ساتھ کیا سلوک کرنے والے ہیں ۔ہم دیکھتے ہیں کہ ان کو مارنے کے لیے انتہائی اذیت کوش طریقہ چن لیا گیا اور بتایا گیا کہ نیزے کی انیوں سے چرکے لگا کے ان کو آہستہ آہستہ مارا جائے ۔بچوں کے ہاتھوں میں نیزے دیے گئے اور ا س اہم کا م میں حصہ لینے کے لیے ان کے ہاتھوں کو پکڑ کے وار کروائے گئے ۔لیکن آپ نے حضرت زید ؓ کا بچے کے ساتھ طرزِ عمل دیکھا ۔وہ اگر چاہتے تو ا س کی ماں کے آنے سے قبل اس کا خاتمہ کر سکتے تھے۔لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا اس لیے کہ دینِ اسلا م جب رزم میں بچوں ،عورتوں ،اور بوڑھوں پہ وار کرنے سے روکتا ہے تواس کا کوئی پیروکا ر بزم میں ایسی کوئی حرکت کیسے کر سکتا ہے ؟اس کے مقابلے میں عربی تہذیب کے مزاج کا اندازہ عورت کی اپنے بچے کے لیے سراسیمگی سے لگایا جا سکتا ہے ا س کا خوف عربی تہذیب کے مزا ج کے مطابق بالکل بجا ہے اور اس کا کہا ہوا ایک جملہ عربی تہذیب کے اس بھیانک رخ کی نقاب کشائی کرتا ہے۔جب وہ کہتی ہے کہ ایک کا بدلہ ایک ہوتا ہے ۔مرد کے مقابلے میں ایک معصوم اور بے گناہ بچہ کیسے ایک دوسرے کے نعم البدل ہو سکتے ہیں؟اسلامی اقدار تو اس بات کی بھی شدت سے متقاضی ہوتے ہیں کہ گناہگار مرد کے مقابلے میں بے گناہ مرد کی زندگی بھی نہ چھین لی جائے۔چہ جا ئیکہ ایک مرد کے مقابلے میں ایک معصوم بچہ ۔زیدؓ اس عورت کو اسلامی اقدار میں کتنا گندھا ہوا جواب دیتے ہیں کہ کیا کوئی مسلمان کسی معصوم کی بھی جان لے سکتا ہے ؟اس سوال کے اندر جواب نفی کی جس شدت سے موجود ہے یہی توحقانیت کا وہ سرچشمہ ہے جو اسلامی تہذیب کی جڑ بھی ہے ،تنا بھی اور پھل بھی ۔یہی صداقتیں اور ان پر ایمانِ کامل آپﷺ کے صحابہؓ کے دلوں کو ایسی آزمائشوں میں بھی طمانیتوں سے بھر دیتا ہے ۔ یہی وجہ تھی کہ زیدؓ اور خبیب ؓ قتل گاہ میں ایسے ہشاش بشاش ملے کہ کفار حیرت زدہ رہ گئے ۔ (۳۴)
''اگر تم اسلام سے توبہ کر لو،تو ہم تمہیں آزاد کر دیں گے ۔اور مال و دولت بھی دیں گے اگر نہ مانوگے تو تمہاری موت یقینی ہے ۔'' (۳۵)
لیکن حضرت خبیبؓ جواب میں کہتے ہیں
اگر قارون کی دولت زمانے بھر کا مال و زر ہمیں اسلام کے بدلے ملے ہم تھوک دیں اس پر
دوروزہ اور فانی عزت و اقبال کیا شے ہے یہ زر یہ زندگانی اور جاہ و مال کیا شے ہے
محمدؐ سے نہ پلٹیں گے ملے ہم کو خدائی بھی بغیر اسلام کے ہم کو جہنم ہے رہائی بھی(۳۶)
اسلام کو زندگی کے لیے سانس سے بھی زیادہ ضروری خیال کرنا ۔۔۔۔کسی نظریے کے ساتھ اتنی قلبی وابستگی انسانی تاریخ میں شاذ ہی کہیں نظر آتی ہو؟ یہ رسول اللہﷺ کی بہت بڑی کامیابی ہے کہ انہوں نے اسلامی آئیڈیالوجی اپنے پیروکاروں کے قلوب میں اتاری تھی ۔یہ ان کے رگ رگ میں کس طرح رچ بس گئی تھی اس کا اندازہ اس مقام پہ بھی بخوبی لگایا جا سکتا ہے ۔جب خبیبؓ بن عدی نیزوں کی انیوں سے لگنے والے زخموں سے چور چور تھے ۔ابو سفیان اسے اسلام سے پھر جانے اور محمد ﷺ کی رفاقت سے انکار کرنے کے بدلے میں چھوڑنے ، علاج کرنے اور دولت سے مالامال کرنے کی پیشکش کرتاہے ۔(۳۷)خبیب ؓ نے جواب دیا:
"ابو سفیان اگر تجھے اندازہ ہوتا کہ دوزخ کی آگ کیا چیز ہے ۔جو کافروں کے لیے مقدر ہے ۔تو تو یہ نہ کہتا۔ مسلمان ہونے کے بعد کافر ہو جانا ممکن نہیں ہے۔"(۳۸)
اس مقام پہ حضرت خبیبؓ کی زبان سے فی البدیہہ یہ اشعار نکلتے ہیں ۔جن کاترجمہ حسبِ ذیل ہے ۔
"یہ گروہ در گروہ میرے چاروں طرف جمع ہو گئے ہیں اور انہوں نے اور بہت سی جماعتوں کو بلا لیا ہے۔ یہ سب میرے دشمن اور عداوت ظاہر کرنے والے ہیں اور میں اس مہلک جگہ بندھا ہوا ہوں۔انہوں نے اپنی عورتوں کو بھی جمع کر لیا ہے ۔اور مجھے ایک اونچی اور مضبوط لکڑی کے پاس لے آئے ہیں۔ کہتے ہیں کفر اختیا ر کرتاکہ آزادی مل جائے ۔مگر اس سے تو موت میرے لیے بہت آسان ہے۔میں دشمن کے سامنے نہ عاجزی کروں گا نہ رووٓں گا، نہ چلاوٓں گا، میں جانتا ہوں کہ میں اللہ کی طرف جارہا ہوں ۔ میں تو لپٹ جانے والی آگ کے خون چوسنے سے حذر کرتا ہوں ۔ عرشِ عظیم کے مالک نے مجھ سے خدمت چاہی ۔شکیبائی کے لیے فرمایا اب انہوں نے مار پیٹ سے میرا گوشت کُوٹ کُوٹ کر دیا ہے ۔مجھے ان سے امید نہیں۔اپنی بے چارگی،بے وطنی کی فریاد اور ان کے ارادوں کی فریاد خدا سے کرتا ہوں ۔بخدا جب میں اسلام پر جان دے رہا ہوں ۔تو مجھے پروا نہیں کہ راہِ خدا میں کس پہلو پر موت آتی ہے،خداکی ذات اگر چاہے تووہ میرے گوشت کے ایک ایک ٹکڑے کو برکت عطا فرمائے گا''(۳۹)
ہر قسم کی اذیت ان صحابہ ؓ کو دینی روا رکھی گئی تھی۔ دیکھیے حضرت خبیب ؓکو اس موقع پہ عورتوں کی موجودگی کس قدرذہنی اذیت کا باعث بن رہی ہے ۔عورتیں بھی ہنسی اور ٹھٹھا اڑانے کے لیے جمع کی گئی ہیں۔ کفارنے مارپیٹ سے ان کا گوشت کُوٹ کوٹ کر دیا ہے ۔ان کے جسم سے گوشت کے ٹکڑے علیحدہ کیے گئے ہیں اور اس حالت میں ان کی ایمانی قوت کو آزمانے کے لیے اسے مختلف قسم کی ترغیبات دی جا رہی ہیں ۔کفر کے بدلے میں ملنے والی آزادی پر وہ موت کو ترجیح دیتے اور ان میں اتنی ہمت ہے کہ وہ دشمن کے سامنے روئے بغیر ان انسانیت سوز مظالم کو سہہ سکی۔استغنا کا یہ عالم کہ انسانوں سے اپنے مصائب کا شکوہ تک کرنے کے لیے بھی تیار نہیں ۔لہٰذااس جاں گداز مرحلے پر آسانی سے عربی تہذیب اور اسلامی تہذیب کے تصادم کی نوعیت کو سمجھا جا سکتا ہےاور یہ بھی ملاحظہ کرنا کچھ مشکل نہیں کہ اسلامی تہذیب اس حیوانی تہذ یب سے کس حسن کارانہ انداز سے نمٹ رہی ہے۔لیکن اس کے ساتھ "Compromise " کرنے کے مقابلے میں وہ موت کو ترجیح دینے کو تیا ر ہے ۔ایمانی قوت کا باطل کے ساتھ مقابلہ ایک اور جذبۂ محرکہ ہے جو مسلمانوں کو بڑی سے بڑی قربانی کے لیے تیا ر کر رہا ہے ۔
پانچویں وجہ رسول اللہ ﷺ سے اٹوٹ محبت ہے۔ صحابہ ؓنے رسو ل اللہ ﷺ کو اپنے آپ سے بھی بڑھ کر چاہا ہے ۔مثلاً ا س موقع پہ بھی جب ابو سفیان حضرت زیدؓ سے پو چھتا ہے کہ " سچ کہہ کیا تیرا دل نہیں چاہتا ۔کہ تو اپنے گھر میں ہوتا اور آج تیری جگہ محمدﷺ ہوتے ۔حضرت زید ﷺ نے کہا معاذاللہ میں تو یہ بھی نہیں چاہتا کہ پائے محمدﷺ میں کانٹا بھی چبھ جائے" (۴۰)ابوسفیان نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ تم نے محمد ﷺ کے ساتھیوں کو دیکھا۔وہ محمد ﷺ سے جتنی محبت رکھتے ہیں اس کی مثال نہیں ملتی (۴۱) ا س محبت نے کفارِ مکہ کو کئی مواقع پر ورطۂ حیرت میں ڈا ل دیا تھا ۔عشق رسول ﷺ بھی اسلامی کلچر کی ایک اہم قدر ہے۔
اس قسم کے انسانیت سوز مظاہر انسانی تاریخ میں دیکھنے کو ملتے ہیں ۔یہ کوئی حیران کن بات نہیں بلکہ حیران کن پہلو ان دو صحابہ ؓ کاطرزِ عمل ہے جس کی مثا ل ڈھو نڈنا یقینا ً مشکل ہے ۔سوال یہ ہے کہ آخر ان کا قصور کیا تھا ؟ اس موقع پر حفیظ کا قلم فکری حوالے سے جولانی دکھانے لگتا ہے ۔ان کی خطائیں کیا تھیں ؟حفیظ کی زبانی سنیئے اور ساتھ اسلامی تہذیب کے چند چیدہ چیدہ اقدار کا تعین بھی کرتے جائیے ۔
۱۔خطا یہ تھی کہ یہ اللہ کو واحد سمجھتے تھے زمین و آسمان کے شاہ کو واحد سمجھتے تھے
۲۔خطا یہ تھی کہ یہ قرآن پر ایمان لائے تھے قوانینِ صداقت ان کی جان و دل پہ چھائے تھے
۳۔خطا یہ تھی کہ یہ انصاف کا احساس کرتے تھے یتیموں اور بیوائوں کے حق کا پاس کرتے تھے
۴۔خطا یہ تھی کہ رکھتے تھے یہ مزدوروں سے ہمدردی انہیں بھاتی نہ تھی نامرد اہلِ زر کی نامردی
۵۔خطا یہ تھی غلاموں کی رہائی ان کا مقصد تھا یہ فرمانِ الٰہی تھا،یہ ارشادِ محمدﷺ تھا
۶۔خطا یہ تھی انہیں مطلوب تھی انساںکی آزادی بسانا چاہتے تھے اک نئی آزاد آبادی
۷۔خطا یہ تھی نہیں تھا ناز ان کو زور و طاقت پر کہ وحشی پن کو یہ محمول کرتے تھے حماقت پر
۸۔خطا یہ تھی کہ امن و صلح نصب العین تھا ان کا زمانے بھر کی بے چینی سے دل بے چین تھا ان کا
۹۔خطا یہ تھی یہ مظلوموں کے مجبوروں کے حامی تھے عدوئے جبرِ سرمایہ تھے ،مزدوروں کے حامی تھے
۱۰۔خطا یہ تھی کہ یہ ڈھارس بندھاتے تھے ضعیفوں کی بساطِ ارض کو بستی بناتے تھے شریفوں کی
۱۱۔بڑی بھاری خطائیں تھیں یہ باطل کی نگاہوں میں کہ ان سے زلزلہ آتا تھا شاہی بارگاہوں میں (۴۲)
آئیے ذرا اس مقام پر اقدار کا استخراج کریں ۔ تا کہ اسلامی تہذیب کے خد و خال کچھ زیادہ ہی حسن کارانہ انداز سے نکھرے اور اُبھرے ہوئے سامنے آجائیں ۔اشعار کی ترتیب سے ہی سے یہ اقدار لکھتے جاتے ہیں ۔
۱۔ خدائے واحد پر ایمان ۔زمین پہ بھی ایک خدا اور آسمانوں پر بھی ایک خدا کی حکمرانی پر یقین اسلامی تہذیب کی اساس ہے ۔لہٰذا اس بنیاد پر جو معاشرہ پیدا ہوتا ہے وہ تمام باطل خداوٓ ں کے خلاف لڑنے مرنے پہ آمادہ ہوتا ہے ۔
۲۔ قرآنی دستور ِحیات پر یقینِ کامل ۔کہ اس میں مذکور تمام قوانین و اقدار برحق ہیں۔قوانین کے سامنے سر جھکانا اور اقدار کو اپنی زندگی میں اس طرح حلول کرناکہ قرآن کا قاری چلتا پھرتا قرآن نظر آنے لگے ۔آپ اوپر دو نمونے عملی بنیادوں پہ دیکھ چکے ہیں ۔یہ دونوں صحابی ؓ دورانِ قید راتوں کو قرآن کی تلاوت کرتے تھے ۔ (۴۳)اور قید سے لے کے دار تک ان کا ایک ایک عمل قرآنی تعلیمات کا ایک زندہ و پائندہ اورعملی ثبوت تھا ۔کو ئی بھی ترغیب انہیں مصلحت پہ مائل نہ کر سکی۔ابوسفیان نے اسلام کے بدلے جاں بخشی ،آزادی ،اور مال دولت کی یقین دہانی کرائی۔ لیکن اسے شاید اندازہ نہیں تھاکہ ایمان کی ابتدا ہی اس معاہدے سے ہوتی ہے :
اِ نَّ اللّٰہَ اشْتَرٰی مِنَ الْمُؤْ مِنِیْنَ اَنْفُسَھُمْ وَ اَمْوَالَھُمْ بِاَنَّ لَھُمُ الْجَنّتَ (۴۴)
ترجمہ :"حقیقت یہ ہے کہ اللہ نے مومنوں سے ان کے نفس اور ان کے مال جنت کے بدلے خرید لیے ہیں ۔"(۴۵)
اور اس کا عملی ثبوت ان دو صحابہؓ کے ہاں بھی دیکھنے کو ملتا ہے انہوں نے آزادی کی پیشکش ٹھکراکر جان تو قربان کردی لیکن اسلام سے پیچھے ہٹنے پہ آمادہ نہیں ہوئے ۔
۳۔ تیسر ی قدر عدل و انصاف کا پاس رکھ کے یتیموں ،عورتوں ،بچوں اور بیواوٓں کے حقوق کا خیال رکھنا ۔
۴۔ چوتھی قدر یہ کہ معاشرے میں سرمایہ کی بجائے محنت کی قدر ہونی چاہئیے اس لیے اسلامی تہذیب مزدوروں کے ساتھ ہمدردی بھی رکھتی ہے۔یہ تہذیب حق اور صداقت کی بنیادوں پر اپنی عمارت کھڑی کرتی ہے اور ایسی صورت میں یہ ناممکن ہے کہ وہ سرمایہ دارانہ قوتوں کی ہمدردی حاصل کرنے کے لیے ایسا ماحول پیدا کرنے یا اسے تقویت پہنچانے کی کوشش کرے جس میں محنت کرنے والے غریب لوگ تمام زندگی ذلتوں میں گزارنے پہ مجبور ہوں۔لہٰذا اسلامی تہذیب سرمایہ دارانہ نظام کے ساتھ متصادم ہوتی ہے ۔حفیظ جالندھری کے بقول
"اسلام کو بہت سی لڑائیاں ایسی لڑنا پڑیں جن کا سبب سرمایہ داروں کی لُوٹ کھسوٹ کو روکنا اور مقروضوں ،مزدوروں اور کام کاج کرکے زندگی بسر کرنے والوں کے لیے آسانیاں پیداکرنا تھا ۔سود خواروںنے ایک ایسا نظام بنا رکھا تھاجس سے صرف چند آدمی قوی ہو گئے تھے ۔باقی برباد زندگی بسر کرنے اور غلامی کرنے پر مجبور تھے اور ا س سودخواری کے نظام میں بنی اسرائیل سب سے آگے آگے تھے ۔"(۴۶)
۵۔ پانچویں قدر غلامی کا خاتمہ تھا۔ خدا کا حکم بھی یہی تھا اور رسول اللہ ﷺ کا فرمان بھی یہی اور یہی قربانیاں بعد میں کیا رنگ لائیں ۔اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ سفارت کے لیے بھیجے جا نے والے مختلف وفود میں حبشی بھی مسلمانوںکی قیا دت کر تے نظر آتے ہیں ۔
''فلپ حتی اپنی تاریخِ عرب (ص ۱۶۲)میں لکھتا ہے کہ بازنطینی والی ٔ مصر (کائرس ۔عربی مقو قس)یہ دیکھ کر دنگ رہ گیا کہ شرا ئط صلح کے لیے مسلمانوں کا جو وفد آیا ، اس کا رئیس ایک حبشی تھا ۔مملو ک کی بادشا ہیاں اسلامی تاریخ کے مشہور ابواب ہیں ۔جس کی تفصیل کی یہا ں ضرورت نہیں ۔'' (۴۷)
۶۔ چھٹی قدر ایک آزاد اسلامی ریاست کا قیام تھا تاکہ انسان کو صحیح معنوں میں آزادی میسر آسکے ۔ ایک ایسے معاشرے میں جہاں پہ باطل کلچر کا غلبہ ہو ۔اس میں اسلامی تہذیب کی بقاکے لیے کی جانے والی انفرادی کوششیں بہت کم اپنا رنگ لاتی ہیں ۔ سو فیصد کوششوں کا نتیجہ دس فیصد سے بھی کم ہوتا ہے۔اس کے برعکس جب ریاست قائم ہو جاتی ہے تودس فیصد کوششیں بھی بڑی حد تک ثمر بار ہونا شروع ہو جاتی ہیں۔دراصل تہذیب کا معاملہ اس کیفیت سے کچھ زیادہ مختلف نہیں جو شاعر پہ نظم لکھنے سے پہلے طاری ہوتا ہے۔وہ کیفیت طاری نہ ہو تو شعوری کوششیں ایک کمزور نظم کی تخلیق کر سکتی ہیں یا بعض صورتوں میں وہ بھی مشکل ہوتا ہے۔فضاتیار ہو جائے توایک عظیم نظم کی تخلیق ممکن ہے ۔اسلامی ریاست کی آزاد فضائیں ان تمام ممکنات کو عمل میں لانے میں معاون بنتی ہیں جو دینِ اسلام میں پوشیدہ ہیںیا پھر دوسرے لفظوں میں قرآنی دستورِحیات میں پوشیدہ ہیں ۔اس وجہ سے جس طرح قرآن کے امکانات لامحدود ہیں ۔اسی طرح اسلامی تہذیب کے امکانا ت بھی لامحدود ہوتے ہیں ۔انسانی آزادی اسلامی تہذیب کا وہ خواب ہوتا ہے جس کے لیے وہ ہجرت سے لے کرجہاد تک کا انتہائی اقدام بھی اُٹھا سکتی ہے۔نئی آزاد آبادی بسانا کتنی خوبصورت ترکیب ہے ۔اسلامی تہذیب کی سب سے بڑی علامت یہ ہوتی ہے کہ وہ باطل کے سا تھ مرکب (Compound )کی صورت میں رہ ہی نہیں سکتی۔آمیزے (Mixture )کی صورت میں کسی وقت تک کام چل سکتا ہے ،لیکن اس صورت میں بھی مسلسل تصادم عمل میں آتا رہتا ہے۔مکہ کی تیرہ سالہ زندگی کی مسلسل کشاکش اس بات کے ثبوت کے لیے کافی ہے۔یہ تہذیب اس وقت تک چین سے نہیں بیٹھی ۔جب تک کہ اسے مجبوراً ہجرت نہ کرنی پڑی ۔اس نئی آزاد آبادی کی اہمیت اس قدر تھی کہ جب کوئی اسلام قبول کرنے کے لیے مدینہ آتا تو آپ ﷺ اس سے مدینہ میں قیام اختیار کرنے کی بیعت لیتے تھے ۔اس لیے اسلام صرف کلمہ پڑھنے کا نام نہیں ہوتا ۔کہ کلمہ پڑھو اور بغیر کوئی مسلسل اور مکمل اثر لیے ہوئے واپس پلٹ جاوٓاور محض کلمہ گو کی حیثیت سے مرو اور فلاح پاوٓ۔اگر فلاح صرف اس طرح ممکن ہوتی ۔تو اس قسم کی انفرادی اور بے ضرر فلاح مسلمان مکہ میں رہ کر بھی حاصل کر سکتے تھے ۔ہجرت کی کیا ضرورت تھی ؟ہجرت اسلامی طرز ِ زندگی کی ایک ایسی قدر ہے جس کی نظیر تاریخ اسلام کے علا وہ اور کہیں نہیں ملتی ۔ہجرت زمین سے انسان کا ہر ایک رشتہ کا ٹ دیتی ہے اور اسے ایک آئیڈیالو جی کے ساتھ ہم آہنگ کر کے اسے کسی خا ص جغرافیہ تک محدود نہیں رہنے دیتی ۔کلچر کی وہ مروجہ تعریفیں جن کی بنیاد پہ کلچر ایک خا ص ، زمینی اور جغرافیا ئی شے قرار دیا جا تا ہے۔اسلام ان تما م نظریا ت پر تصورِ ہجرت کے ذریعے مضبوط ضرب لگا تا ہے ۔یہ آئیڈیا لو جی ہی تھی جس کی بنیا د پہ مکہ رسول اللہ ﷺ کا آبائی شہر ہوتے ہوئے بھی ''مدینۃ النبی ﷺ''نہیں کہلایا اور یثرب کو رسول اللہ ﷺ کا آبائی شہر نہ ہونے کے باوجود یہ اعزاز حاصل ہوا۔ہجرت ایک ایسی حرکی قدر ہے جو ہر منجمد کلچر کے لیے موت کے پیغام سے کم نہیں ۔
۷۔ ساتویں قدر فقرِ غیور ہے ۔مسلمان اگر چہ کمزور نہیں تھے بلکہ طاقتور تھے اور اپنے دور کی عسکری قوتوں کے مقابلے کی تاب رکھتے تھے لیکن اس کے باوجود مغرور نہیں تھے ۔مغروروں کے غرور کو خاک میں ملانے والا خود کبھی مغرور نہ ہو۔کیا اس سے بڑھ کے بھی کوئی توانا قدر ہو سکتی ہے ۔
۸۔ اسلامی تہذیب پہلی مرتبہ انسان کو مقامِ آدمیت سے اوپر اٹھا کر مقامِ انسانیت میں داخل کر دیتی ہے ۔یہ تہذیب ہی اپنے پیروکاروں کو یہ احساس دلاتی ہے کہ کائنات میں ان کا مقام کیاہے؟ ان کی ذمہ داریاں کیاہیں ؟ اور ان کے فرائض کیا ہیں؟جب انسان کو اپنی ذمہ داریوں کا ادراک ہونے لگتا ہے تو ان کے دن کا چین اور راتوں کی نیند حرام ہو جاتی ہے۔پہلی مرتبہ وہ دوسرے لوگوں کے اعمال کے لیے بھی اپنے آپ کو خدا کے سامنے جوابدہ پاتے ہیں ۔یہ غم مسلسل ان کو دیمک کی طرح کھائے جاتا ہے کہ دنیا میں امن کی بہاریں نجانے کب لوٹ آئیںگی ۔یہ تہذیب اور اس کے پیروکار اپنے سامنے نصب العین ہی امن ،صلح اور آشتی رکھتے ہیں ۔لہٰذا اسلامی تہذیب کی یہ ایک اور توانا قدر ہے۔یہ قدر وہ تہذیب ہی اپنے سامنے رکھ سکتی ہے جس کی فطرت ،ارادے اور مقاصد نیک ،صالح اور تعمیری ہوں ۔
۹۔ یہاں چوتھے قدر کو پھر دہرایا گیا ہے اور وہ سرمایہ دارانہ نظام سے عداوت اور مزدوروں کی حمایت ہے ۔یہ تہذیب اس سردارانہ جبر کے خلاف تھی ۔جو انفرادی اور اجتماعی دونوں سطح پر مجبوروں،غلاموں اور مزدوروں کی لوٹ کھسوٹ میں ہمہ تن مصروف تھی۔اسی وجہ سے تو اس نے اس طبقے کی ہمدردیاں حاصل کی تھیں ۔بقول حفیظ جالندھری :
''قریش تمام عرب پر مذہبی حکومت کرتے اور کعبہ کی وجہ سے ہمسائیگانِ خدا بلکہ آل اللہ یعنی خاندانِ الٰہی کہلاتے تھے ۔دوسرے قبائل کی مخالفت کا سبب یہ تھا کہ تمام قبائل کی وجہ معاش لوٹ مار اور غارت گری تھی اور اسلام اس سے نہ صرف قولاً بلکہ عملاً روکتا تھا ۔اس لیے وہ جانتے تھے کہ اگر اسلام قائم ہو گیا تو ہمارے ذرائعِ معاش بند ہو جائیں گے ۔'' (۴۸)
لہٰذا کہا جا سکتا ہے کہ ہر قسم کا معاشی اور مذہبی جبر و استحصال اسلامی تہذیب کی رو سے حرام ہے اور اسلامی تہذیب اس قسم کے جبر کے خلاف اٹھے بغیر چین سے نہیں بیٹھ سکتی ۔مذہبی اور معاشی جبرو استحصال کے خلاف اعلانِ جنگ اسلامی تہذیب کی ایک توانا قدر ہے۔
۱۰۔ بے سہاروں کو بے سہارا نہ چھوڑنا اور ان کو ہر وقت یہ ڈھارس بندھانا کہ وہ اب تنِ تنہا نہیں بلکہ ایک پوری جماعت یا پوری ریاست ان کے شانہ بشانہ کھڑی ہے ۔اسلامی تہذیب کی نویں توانا قدر گردانی جا سکتی ہے ۔
۱۱۔ دسویں شعر میں دسویں قدر کا ذکر بھی ہوا ہے اور وہ یہ کہ اس جماعت کا مقصد یہ بھی تھا کہ وہ زمین کی تقدیر بدلنا چاہتے تھے۔ عربی تہذیب کے علم برداروں نے زمیں کو ایک بساط میں تبدیل کر دیا تھا ۔جہاں پر چالاک اور شاطر لوگوں کے لیے ہی زندہ رہنے کی گنجائش باقی رہ گئی تھی ۔جہاں پر شرافت کا کوئی نام و نشان تک بھی نہیں تھا اور کمزوروں اور سادہ مزاج لوگوں کے لیے زندگی کی راہیں مسدود ہو گئی تھیں ۔لیکن اسلامی تہذیب ایسے حالات میں ہاتھ پہ ہاتھ دھر ے اچھے دنوں کے انتظار میں نہیں بیٹھ جایا کرتی بلکہ سرگرمِ کارزار ہوجاتی ہے۔اور یہ ٹھان لیتی ہے کہ اس نے زمین کو اپنے اقدار میں ڈھالنا ہے۔لہٰذا یہ اسلامی تہذیب کی دسویں قدر شمار کی جاسکتی ہے ۔
۱۲ ۔ گیارہویں قدر گویا ان اقدار کا ایک طرح سے نچوڑ ہے ۔ان اقدار کی پاسداری ہی وہ بڑی اور نا قابلِ معافی خطائیں تھیں جس کی وجہ سے حضرت زیدؓ اور حضرت خبیبؓ کو اذیت ناک موت کی صورت میں اتنی بھاری قیمت چکانی پڑی۔لیکن مخالفین کو اندازہ تھا کہ ان اقدار کے عملی نفاذ کا مطلب نہ صرف یہ ہوگا کہ عرب سے سردارانہ نظام کا خاتمہ ہو جائے گا بلکہ ا س سے خطۂ ارض پہ موجود ہر شاہی بارگاہ میں قیامت خیز زلزلہ آ جائے گا ۔ان اقدار کے عملی نفاذ سے سرمایہ داری ،جاگیرداری ،سودخوار ی اور شہنشاہیت جیسی لعنتیں انسانی معاشرے سے ختم ہو جانی تھیں ۔ان کا وجود ہی رگِ مردم شکاری کے لیے مہلک تھا ۔عربی تہذیب کی یہ تمام تر درندگی اپنے آپ کو اسلامی تہذیب کے ہاتھوں ہلاکت سے بچانے کی آخری کو شش تھی ۔اسلامی تہذیب کے علمبردار کس قسم کے لوگ تھے۔حفیظ کے بقول :
یہ بندے تھے نظامِ شہریاری کے لیے خطرہ اجارہ داری و جاگیر داری کے لیے خطرہ
نظام ان کا نظامِ سود خواری کے لیے مہلک وجود ان کا رگِ مردم شکاری کے لیے مہلک(۴۹)
یوں دیکھا جا ئے تو شا ہنا مہ میں عربی تہذیب اور اسلامی تہذیب کی مادی سطح پر تصادم کی بجائے عینی سطح پر تصا دم موجو د ہے ۔اسلا می تہذیب ایک ایسی تہذیب سے متصا د م ہو نے کے لیے میدان میں اتری تھی جس میں نشو و نما اور ارتقا کے تما م امکا نا ت مسدودہو گئے تھے ۔ہر ایسی تہذیب جس میں نشو و نما اور ارتقا کا سلسلہ رک جا ئے جب کسی توانا تہذیب سے متصا دم ہو تی ہے تو اس کا انداز متحملا نہ ہو نے کی بجائے انتہا پسندا نہ ہو ا کرتا ہے۔عربی تہذیب اسلامی تہذیب کا راستہ روکنے اور اسے اپنے اوپر حا وی ہو نے سے باز کے لیے طاقت و قوت کا اندھا دھند استعما ل کر رہی تھی جس کا نتیجہ جنگو ں کا وہ طویل سلسلہ ہے جس میں سے تین بنیا دی جنگو ں کے تذکرے سے شا ہنا مۂ اسلام متعلق ہے۔عربی تہذیب آبا و ٔ اجداد سے میرا ث میں پا نے والا راستہ اور منزل اپنے سامنے رکھے ہو ئے تھی اور جو بات جس طرح سے متوارث چلی آرہی تھی اسے بعینہٖ قبول کرنے کے اصول پر کا ربند تھی جب کہ اس کے برعکس اسلامی تہذیب وحی کی روشنی میں ایسی ہر بات رد اور مسترد کررہی تھی جو اسلامی اقدارمثلاً احترامِ انسانیت،انسانی آزادی اور مساوات جیسے بنیادی اور حیات آور اقدار سے متصادم ہو ۔