ارداویراف نامہ، معراج ناموں کا    بنیادی ماخذ

ڈاکٹر یوسف حسین۔  اسسٹنٹ پروفیسر، شعبہ فارسی، جامعہ پشاور

ABSTRACT :

In his book Ardaviraf-nameh the Zoroastrian religious leader Ardaviraf fantasized the event of his journey to heavens. This article aims to discover its impact on number of travelogues to heaven in world literature. Among them Mahiudin Ibn-e Arabi's Fatohat-e- Makkiah, the Arabic poet Abul-ula Muari's Resala-tul-ghufran, Allegory Dante's Divine Comedy, Mansoor Hulaj's book of Tawasin, Sanai Ghaznavi's Sairul Ebad, Imam Razi's Sair-ul-Nafs, Allama Iqbal's Javed-nameh, Muhammad Ali Jamalzada's Sahra-e-Mahshar, and Abul Fazal Asterabadi's Naom-nameh are discussed. It is concluded that Ardaviraf-nameh is somewhat the primary source to all these mentioned fantasy travelogues.

Key Words: Fatohat-e- Makkiah; Resala-tul-ghufran; Divine Comedy; Tawasin; Sairul Ebad; Sair-ul-Nafs; Javed-nameh; Sahra-e-Mahshar; Naom-nameh

کلیدی الفاظ:ارداویراف؛ ارداویراف نامہ؛ پارسی ادب؛ معراج نامے؛

ارداویراف نامہ جسکا موضوع خیالی سفرِ معراج ہے ایران قدیم کی ایک ادبی اور مذہبی تاریخی کتاب ہے۔ جو زردشتی روحانی پیشوا ارداویراف  کے روحانی صعودی سماوی سے منسوب ہے۔ کتاب کا متن خط پہلوی میں ہے جو اب متروک ہے۔ اس کتاب کا ترجمہ پہلوی سے سنسکرت، پاژند، فارسی، انگریزی، فرانسیسی اور دیگر یورپی زبانوں میں زیب قرطاس ہوا۔ مشہور اور محققانہ تراجم میں سے مارٹین ھیوگ، بارتلمی ، دھارلہ، ادیب السلطنہ سمیعی، رشید یاسمی اور ڈاکٹر رحیم عفیفی کے تراجم قابل ذکر ہیں۔ ان ادباء ،محققین اور مترجمین نے بزعم خویش اس تاریخی منبع کو مختلف زبانوں میں ترجمہ کیا اور اب  کئی مترجمین کے زبان خامہ سے ترجمہ کے کئی انواع ہمارے سامنے موجود ہیں۔ اس وقت تین تراجم و حواشی انگریزی زبان میں، چار ترجمے فراسیسی زبان میں، چار تراجم و حواشی جرمن زبان میں جبکہ تین تراجم جدید فارسی میں موجود ہیں۔

اس مقالہ میں ارداویراف نامہ کادیگر زبانوں کے مشہور معراج ناموں پر اثرات کا جائزہ لیا جاتا ہے اور یہ پرکھنا ہے کہ سابقہ اور اولین منبع کے طور پر اس فارسی معراج نامہ نے دیگر معراج ناموں کو راستہ دکھایا ہے ۔ نیزمرورِ زمانہ کے شکست و ریخت سے تا بحال محفوظ اس معراج نامے کی نوعیت کو پیش نظر رکھتے ہوئے یہ طے کرنا ہے کہ اس معراج نامہ کا بنیادی مقصد کیا تھا ۔ یہ بھی جانچنا ہے کہ متاخرین نے کس حد تک ارداویراف نامہ کے مشاہدات و تجربات سے استفادہ کیاہے۔   مختلف ادوار میں لکھے گئے معراج ناموں   کے پلاٹ اور تھیم سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ انکا ارداویراف نامہ کے ساتھ کیا قرین مشابہت ہے اور کہاں کہاں پر ارداویراف نامہ میں صو د سماوی کےمشاہدات و تجربات سے استفادہ کیا گیا ہے۔  یہ یقین کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ مختلف  زمان و مکان اورزبانوں  میں لکھے گئے معراج ناموں میں اس قدر قریبی مماثلت اور یک رنگی ظاہر ہے کہ معراج نامے لکھتے وقت قدیمی مآخذ کو سامنے رکھ کر خامہ سرائی کی گئی ہے۔ آیندہ صفحات میں اسی دعوے کے اثبات میں دلائل موجود ہیں۔

ارداویراف نامہ کا مصنف جو ویراف یا ارداویراف کے نام سے معروف ہے اور یہ پارسی معبد کا ایک روحانی پیشواء گذرا ہے  اس معراج نامے کا سال تالیف قبل از اسلام بتایا جاتا ہے لیکن تا حال روشن نہیں ہے کہ کس سال میں یہ کتاب لکھی گئی ہے۔ قرائن سے پتہ چلتا ہے کہ ایران باستان میں اسی نام سے مشابہہ کئی دیگر اقسام بھی تاریخی کتب میں موجود ہیں۔ اسی طرح کتاب کے بارے میں بھی قیاس کیا جاتا ہے کہ اسی سے مشابہہ  ایک معراج نامہ ''ارداویراف نامہ ھوگ و وست'' بھی ہے جسکا مصنف نیشاپوریان بتایا جاتا ہے۔ وثوق سے تو نہیں کہا جاسکتا کہ اس معراج نامے کا سال تالیف کیا ہے لیکن پہلوی زبان کے تراجم سے اندازہ ہوتاہے کہ ویراف ساسانی  دور میں گذرا ہے۔  ارداویراف نامہ کا سال تالیف اسی کتاب کے باب اول آیت نمبر 10 میں یوں آیا ہے: "  یہاں تک کہ آذرباد مارسپندان  اچھی طرح بڑھا اور انوشہ روان ( غالباً نوشیروان عادل)  جس نے دینکرد کی روایت پر ایمان لایا  اسکا جنم ہوا" (۱)یہاں انوشہ روان اور دینکرد کے ناموں کا ذکر ہوا ہے۔ انوشہ روان نامی شخص ساسانی دور میں ہو گزرا ہے اور کتاب دینکرد بھی مزدسینا کے عادات اور دینی احکام سے متعلق ہے ۔ یہ کتاب پہلوی زبان میں 9 جلدوں پر مشتمل ہے۔ ڈاکٹر رحیم عفیفی کی تحقیق کے مطابق دینکرد کا پہلا مصنف فرن بغ کے نام سے پہچانا جاتا ہے جو مامون کے دور خلافت ( 198-218 ھ) میں تھا۔ جبکہ برصغیر کے مصنف عبدالحلیم شرر نے اپنے ایک تحقیقی مقالہ میں ارداویراف نامہ کو اردشیر بابکان کے دور سے منسوب کیا ہے(۲)  اور اس وقت ارداویراف نامہ کاجو نسخہ ہمارے پاس موجود ہے اس نسخے کی قدامت ساتویں صدی ہجری ہے جو چودہویں صدی عیسوی کے برابر ہے۔ اس کتاب کا ایک نسخہ  انڈیا کے شہر نوساری میں پارسیوں کے مرکز  میں ایک پارسی موبد کے گھر میں موجود تھا جسکا مشاہدہ عبدالحلیم شرر نے کیا تھا(۳)

مغربی محققین جو پارسی ادبیات پر تحقیق کر رہے تھے انکے لیے بھی یہ کتاب  پہلوی زبان میں ہونے کی وجہ سے مذہبی ، تاریخی اور لسانی اہمیت رکھتی تھی۔ ایڈورڈ براون اس کتاب کے بارے میں کہتا ہے: '' یہ کتاب اس لحاظ سے قابل توجہ ہے کہ سکندر اعظم کے حملے کے بعد ایرانی سماج کے مذہبی اور مادی  حالات اور تیسری صدی عیسوی میں ساسانی ایران کے قومی اور مذہبی احیاء کا تذکرہ ، نیز زرتشتیوں کے آخرت کے بارے میں عقائد کی وضاحت کرتی ہے"(۴) اس سلسلے میں بارتلمی اور ڈبلیو ویسٹ بھی براون کے ہم رائے ہیں۔

کتاب کی بنیاد ایک خواب پر ہے جو زردشتی دینی شخصیت ارداویراف عالم رویاء میں دیگر عوالم کی سیر کے لیے نکلتا ہے۔ دوسری دنیا کے مکافات ، سزا و جزا اور حالات کی چشم دید روداد بیان کرتا ہے۔ تاریخ سے واضح ہے کہ اس قسم کے خواب مختلف ادیان اور مذاہب  کے ادبیات میں موجود ہیں۔ دانیال نبی کے خواب کے قصے تو زبان زد عام ہیں جو عہد نامہ عتیق کے ایک اہم حصے کو تشکیل دیتا ہے۔ سب سے پہلا مورخ جو عالم رویا ء کی طرف اشارہ کرتا ہے یونانی مورخ ہرودت ہے جو پروکونیز شہر میں اریستا کے خواب پر بحث کرتا ہے۔ افلاطون نے اپنی کتاب جمہوریت میں ایک  ارمنی ''ار'' میدان جنگ میں مرے ہوئے سپاہی کے خواب کا ذکر کرتا ہے۔ جو کئی دن بعد زندہ ہوتا ہے اور اگلی دنیا کا قصہ دنیا والوں کو سنا دیتا ہے۔ پلو تارک نے پہلی صدی عیسوی میں تسپسیوس کے خواب اور مشاہدات کا تذکرہ کیا ہے۔ یونانی شاعری کے شروعات میں ہر شاعر عوالم دیگر کی سیر کا تذکرہ کرتے نظر آتے ہیں۔ یونانی میتھالوجی اور اساطیری ادب میں ''تلماکوس'' کا سفرِ دوزخ جسکا ذکرہومر کی کتاب ''اوڈیسی'' میں آیا ہے اور یہ رزمیہ شاعری میں ہےسفر  نوعیت کے لحاظ سےمعراج  کا تذکرہ ہے۔ یہودیوں کے ''یوشع بن لوی'' کا خیالی سفرِ افلاک  بھی یہودیوں کے کلاسیکی ادبیات میں موجود ہے۔ اسی طرح یہودیوں کے ''ایلیا''، حزقیال اور خاص طور پر اشعیاء نبی کے سفرِ سماوی عہد نامہ عتیق کے مختلف رسالوں میں نظر آتے ہیں۔

اسلام میں بھی رویاء کا مسئلہ بعض جگہوں پہ وحی اور الہام کے مترادف بیان ہوا ہے۔ اس دین کے چند دینی پیشوا خاص طور پر عرفاء اور صوفیا نے اسکو مکاشفہ اور واقعہ کی صورت میں بیان کیا ہے۔فارسی زبان میں جو خواب نامے تا حال لکھے گئے ان پر کافی مباحث موجود ہیں۔ فضل استر آبادی جو فرقہ حروفیہ، نومیہ اور بکتاشیہ کے بانی ہیں  انکے بیشتر مکاشفات نوم نامہ اور جاویدان نامہ کبیر میں درج ہیں۔ جاویدان نامہ کبیر استرآبادی کا ایک قسم کا معراج نامہ ہے جس میں وہ عوالم بالا کے سفر کی روداد تفصیل سے بیان کرتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ علامہ اقبال نے اپنی کتاب جاوید نامہ کا نام اپنے بیٹے جاوید کے نام پر رکھا ہے اور اخیر میں ''خطاب بہ جاوید'' نظم میں نوجوان نسل سے مخاطب ہوئے لیکن یہ بھی امکان ہے کہ اقبال کا جاوید نامہ بھی موضوع کے لحاظ سے  معراج نامہ ہی ہو اور غالب امکان ہے کہ اقبال نے بھی جاوید نامہ کا نام حروفیان مسلک کی کتاب جاویدان نامہ سے مستعار لیا ہو کیونکہ دونوں کتابوں کا ایک ہی موضوع ہے۔ علی اکبر دہخدا نے نوم نامہ استرآبادی اور فرقہء حروفیہ پر مفصل بحث کی ہے۔(۵)

بار تلمی نے اپنی کتاب ارداویراف نامہ کی تمہیدی بحث میں دیگر مذاہب خاص طور پر مسیحیت میں سفر رویا پر سیر حاصل بحث کی ہے۔ بارہویں صدی عیسوی میں  پیرس میں سن پیٹرس کے خواب، تیرہویں صدی عیسوی میں سینٹ پاول کے خواب جس میں جہنم کی سیر کا واقعہ ہے قابل ذکر ہیں۔  قرآن مجید میں واقعہ معراج نبوی بھی اسلامی روایات کا ایک اہم حوالہ ہے ۔ اسکے بعد عرفاء کے سرخیل محی الدین ابن عربی نے فتوحات مکیہ میں سفر معراج کا ذکر کیا جسکے تتبع میں بعد میں عربی کے نابینا  اور ملحد شاعر ابوالعلاء معری  نے اپنی کتاب رسالۃ الغفران میں روایائی سفر کا تذکرہ کرتا ہے لیکن وہ اس کتاب میں لکھتا ہے کہ  اس نے یہ سفر نامہ اپنے ایک دوست ( ابن قارح) جو حلب کا باسی تھا ، کے خط کے جواب میں  972  ء اور 1030ء کی درمیانی مدت میں لکھا ہے۔ معراج ناموں کے تسلسل کو جاری رکھتے ہوئے حسین بن منصور الحلاج نے بھی کتاب الطواسین میں ایسے ہی رویائی سفر کا ذکر کیا ہے۔ اسکے بعد غزنہ میں فارسی کے شاعر سنائی غزنوی نے سیرالعباد المعاد لکھی جس میں انہوں نے دیگر عوالم میں انسانی روح کے سفر اور کیفیات کا تفصیلی ذکر کیا۔ اسکے بعد الرازی نے رسالہ سیر النفس میں بھی اسی موضوع سے ملتے جلتے سفر کوبیان کیا ۔  اسکے بعد اطالوی مصنف اور شاعر الیگری دانتے نے ''ڈیوائن کمیڈی" کے عنوان سے تین حصوں پر مشتمل ایک خیالی سفر نامہ منظوم کیا جس کی پہلی کتاب میں عالم برزخ  یا اعراف (پیراگوٹری) ، دوسری کتاب میں دوزخ  یا جہنم(انفرنیو) جبکہ تیسری کتابہی  بہشت  یا جنت(پیراڈایز) کی سیر کی روداد لکھی۔ مصری مصنف عمر فروخ نے ابوالعلاء معریٰ کے فلسفیانہ عقائد پر لکھی گئی کتاب میں دانتے کے طربیہ یزدانی کے منبع کو معراج رسول(ص) بتاتا ہے۔ (۶)

لگتا ہے کہ عمر فروخ کو فارسی شاعر حکیم سنائی کی کتاب سیر العباد الی لمعاد کے بارے میں علم نہیں تھا اور اس نے یورپی محقق پروفیسر نیکلسن کی تحقیقات کا بھی مطالعہ نہیں کیا  ورنہ طربیہ یزدانی کے بنیادی مآخذ میں سے ایک سنائی کی سیر العباد الی لمعاد بھی ہے۔ عمر فروخ چونکہ فارسی مصنف نہیں اس لیے فارسی معراج ناموں کے منابع سے بے خبر تھا۔ دانتے نے کئی معراج ناموں سے استفادہ کیا ہے۔ اسکی دلیل یہ ہے کہ جنت اور دوزخ میں جن مقامات کا تذکرہ کرتا ہے ان میں سے بیشتر کی مشابہت اسلامی معراج ناموں سے ہے۔ دانتے نے اسلامی منابع سے استفادہ ضرور کیا ہے لیکن بعض مسلمان دانشور اور مصنفین دانتے کی تصنیف کو ادبی سرقہ تصور کرتے ہیں اگرچہ اسلامی معراج ناموں میں اسقدر صراحت اور تفصیل موجود نہیں جو دانتے کے طربیہ یزدانی کے تینوں حصوں میں مذکور ہیں۔ اگر دانتے کی تصنیف ادبی سرقہ بھی ہو تو دانتے وہ زیرک اور سیانا سارق ہے جس نے بڑی مہارت اور کمال فن سے اپنی کتاب کو جاذب اور موثر بنا یا ہے اور ایک بسیط شرح کے ساتھ دوزخ، برزخ اور بہشت کا تفصیلی نقشہ کھینچا ہے۔  مجتبیٰ مینوی دانتے کے سرقہ کے بارے میں لکھتا ہے کہ محض مسلمان مصنفین یہ الزام نہیں لگاتے بلکہ سپین کے نامی عالم پروفسیر آسین نے بھی طربیہ یزدانی پر جامع کتاب لکھ کر اسکے واقعات کو مسلمانوں کی روایات، احادیث اور ادبیات سے جوڑ دیا ہے اور تمام جزئیات کا عالمانہ تجزیہ کیا ہے۔ اسی طرح فرانسیسی مستشرق بلوشہ  نے دانتے کے بیشتر سفر کی روداد اور مشاہدات کو ارداویراف نامہ کے فر گرد (آیات)  سے جوڑ دیا ہے۔(۷)

دانتے اور ارداویراف کے سفر معراج میں اگرچہ متنوع اختلافات موجود ہیں لیکن ایک قدرِ مشترک جو دونوں معراج ناموں میں نظر آتا ہے وہ مذہبی زندگی کی اہمیت و افادیت کو اجاگر کرنا ہے۔ اس سلسلے میں نیک لوگوں کی خوش نصیبی اور منصف حکمرانوں کی فتح یابی دونوں میں یکساں جلوہ گر ہے۔ دانتے وجود مطلق کے دیدار سے متعلق کتاب ''بہشت'' میں لکھتا ہے کہ میں نے خدائی جوہر کو انتہائی نورانی  اور تابناک نقطہ میں دیکھا۔ (۸) ویراف کہتا ہے  '' میں نے جلوہ دیکھا، جسم نہیں دیکھا اور ساتھ آواز بھی سنائی دی'' (۹) علامہ اقبال بھی سفر معراج میں نظم ''ندائے جمال'' اور '' افتادن تجلی جمال'' میں نور کا مشاہدہ اور غیبی صدا سننے کی طرف اشارے کرتے ہیں۔

ناگہان دیدم جہانِ خویش را

آن زمین و آسمان خویش را

غرق در نورِ شفق گوں دیدمش

سرُخ مانند طبرخون دیدمش

زان تجلی ہا کہ در جانم شکست

چون کلیم اللہ فتادم جلوہ مست(۱۰)

دانتے کی دوزخ ارداویراف کی دوزخ کے مشابہہ ہے۔ بہشت کے مناظر اور وہاں پہ موجود ہستیوں میں اسامیوں کا اختلاف ضرور ہے لیکن طبقہ بندی یکساں نظر آتاہے۔ یہی طبقہ بندی ہمیں رسالۃ الغفران ، جاوید نامہ اور شریعتی کی کتاب ہبوط در کویر میں یکساں نظر آتی ہے۔دانتے کا پُل چینتو اور اسلامی روایات پُل ِ صراط بھی ارداویراف کے چینود پل کے مشابہ ہے جو تیغ سے زیادہ تیز دھار  اور بال سے بھی زیادہ باریک ہے۔ جنت میں نیک اور پارساووں کی موجودگی اور جہنم کے ویل میں شیطان اور شیطان  صفت اشخاص کی موجودگی بھی ارداویراف سے مشابہت رکھتی ہے۔ گفتار نیک، پندار نیک و کردار نیک (دین زردشت کے تین بنیادی اصول) والے بہشت میں جلوہ گر ہیں اور اہریمن کے پجاری  چکاد دائتی (جہنم) میں عذاب سہہ رہے ہیں۔ ہر ایک معراج نامہ میں مصنفین نے اپنے دور کے جابر، ظالم، بدکردار اور ناپسندیدہ شخصیات کو جہنم میں اور اپنے دل پسند اشخاص کو جنت میں  دکھایاہے۔ علامہ اقبال ہندوستان کے غداروں کو قلزم خونیں میں اور معتبر اشخاص کو بہشت میں دکھاتا ہے  ۔ یہی عکس ہمیں جمالزادہ کے صحرائے محشر میں بھی یکساں نظر آتاہے(۱۱)

دانتے کے طربیہ یزدانی میں بیشتر اہلِ جنت کا تعلق مسیحیوں سے ہے جبکہ معریٰ کے رسالۃ الغفران میں معتبر مسیحی شخصیات اور پاپ کو جہنم میں دکھایا گیا ہے۔معریٰ کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ وہ عیسائی تھے لیکن رسالۃ الغفران کی دوزخ میں عیسائی پیشواؤں اور پاپ کو بھی  سرنگوں دیکھایا ہے  (۱۲) جو اس دعوے کی تردید ہے۔   اسی طرح معری نے دور جاہلیت کے شعرا  کو بہشت میں  افلاطون، سقراط اور ارسطو کے ساتھ دیکھایا ہے۔

اس بحث کا ماحصل یہ ہے کہ مشرق اور مغرب میں جتنے بھی معراج نامے لکھے گئے انکا بنیادی منبع ارداویراف نامہ ہی ثابت ہوتا ہے۔  تمام معراج ناموں میں مصنفین نے اپنے مشاہدات میں اپنے من پسند افراد کو بہشت میں اور اپنے عہد کے بد دیانت لوگوں کو جہنم میں دکھایا ہے اور اس سے اہم بات یہ کہ برزخ اور بہشت کے درمیان پُل کے نام اور کیفیت میں اس قدر قریبی مشابہت سے اندازہ ہوتا ہے کہ اصل منبع سے کس قدر استفادہ کیا گیا ہے۔ قدامت کے لحاظ سے چونکہ اس وقت  ارداویراف نامہ سب سے قدیم معراج نامہ مانا جاتا ہے اور اس میں مذکور بیشتر واقعات و مشاہدات یکسانیت کے ساتھ دیگر مصنفین کے معراج ناموں میں جوں کے توں نظر آتے ہیں اسلیے یقین پختہ ہوجا تا ہے کہ ان تمام مصنفین کے مطالعے سے یہ کتاب ضرور گزری ہے۔ صعود سماوی کے مشاہدات میں قرین  مشابہت اور یکسانیت نیز ناموں میں یکسانیت اس بات کی دلیل ہے کہ ارداویراف نامہ سےایک بنیادی منبع کے طور پر شعوری طور پر استفادہ ہوا ہے۔ گرچہ تمام معراج ناموں کے کسی بھی راوی نے اس بنیادی ماخذ کا حوالہ تک نہیں دیا ہے ۔

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

منابع و حوالہ جات:

۱۔      ارداویراف، ارداویراف نامہ، ترجمہ از متن پہلوی ڈاکٹر رحیم عفیفی، چاپ خانہ مشہد یونیورسٹی پریس، مہرماہ 1372 ھ ش،ص23
۲۔      شرر، عبدالحلیم، مجلہ دلگداز نمبر5، جلد 15، موضوع ''معراج'' سال تالیف مئی 1913 ، چاپ لکھنوو، انڈیا، ص 18
۳۔     ایضاً ، ص 20
۴۔      براون، ایڈورڈ، تاریخ ادبیات فارسی (لیٹرری ہسٹری آف پرشیا) ، ترجمہ علی پاشا صالح، جلد اول ، چاپ دوم ( بی جا) ص162
۵۔      دہخدا، علی اکبر، لغت نامہ، جلد ششم ، موسسہ انتشارات دانشگاہ تہران، چاپ دوم 1377 ہجری شمسی، صفحات 8880 تا 8892
۶۔      فروخ، عمر، عقائد فلسفی ابوالعلاء ، فیلسوف معرہ، ترجمہ حسین خدیوجم، انتشارات فیروزہ تہران، چاپ اول 1381ھ ش، ص 299
۷۔      مینوی، مجتبٰی ، پانزدہ گفتار، انتشارات دانشگاہ تہران، بیتا، ص 27-32-34
۸۔      دانتے، الیگری، طربیہ یزدانی (بہشت)، فارسی ترجمہ  شجاع الدین شفا، چاپ خانہ بیست و پنجم شہریور، امیر کبیر تہران، چاپ چہارم 1375 ھ ش،آیت 28
۹۔      ارداویراف، ارداویراف نامہ، ترجمہ از متن پہلوی ڈاکٹر رحیم عفیفی، چاپ خانہ مشہد یونیورسٹی پریس، مہرماہ 1372 ھ ش،فرگرد 101
۱۰۔     اقبال، محمد،  جاوید نامہ،شیخ غلام علی اینڈ سنز، طبع یازدہم 1986  ، (افتادن تجلی جمال) ص۔ 195
۱۱۔      جمالزادہ، سید محمد علی، صحرای محشر، چاپ خرمی تہران، چاپ دوم بیتا، ص 168
۱۲۔     فروخ، عمر، عقائد فلسفی ابوالعلاء ، فیلسوف معرہ، ترجمہ حسین خدیوجم، انتشارات فیروزہ تہران، چاپ اول 1381ھ ش، ص 310
اوپر جائیں  |   پرنٹ کیجئےِ
انگریزی ورژن ای میل چیک کریں مرکزی صحفہ پرنٹ پسندیدہ سائٹ بنائیں رابطہ کیجئے www.shahzadahmad.com www.shahzadahmad.com