فارغ بخاری کے رثائی  مجموعے''آیاتِ زندگی'' کاتحقیقی اور تنقیدی جائزہ

شیربالی شاہ۔ پی ایچ۔ڈی  اسکالر، شعبہ اردو جامعہ پشاور۔

ڈاکٹر بادشاہ منیر بخاری۔ شعبہ اردو، جامعہ پشاور۔

ABSTRACT

Farigh Bukhari [1917-1997] is celebrated literary and cultural figure from Khyber Pakhtunkhwa, Pakistan.  Besides his prose, creative, critical and research works and along with his pro-active political involvements, he has seven books of poetry to his credit. In this article his contribution to Urdu Mersia (elegy) is investigated through analysis of his book "Ayat-e Zindagi". It is discovered that he deviated the theme as well as diction of Mersia. He focused on political aspects and the helplessness of the movement that Imam Hussain lead, which ultimately changed his treatment and diction.
Key Words:     Mersia; Urdu Elegy; Aayat-e Zindagi

خیبر پختون خوا کے شعری اور نثری ادب میں   جوشخصیت ایک مکمل  باب کی حیثیت رکھتی ہے وہ سید احمد شاہ فارغؔ بخاری ہے۔ فارغ بخاری۱۱نومبر ۱۹۱۷ء کو پشاور میں  پیداہوئے اور اِسی شہر میں ۴اپریل۱۹۹۷ء کو فوت ہوئے۔

فارغ بخاری نے صوبہ خیبر پختون خوا کے شعری ادب کو سات شعری مجموعوں  سے نوازا۔ان کی اکثر  شعری اصناف پر تحقیقی و تنقیدی کام ہوچکا ہے لیکن ان کی اردو مرثیہ نگاری تاحال تشنہ تحقیق ہے۔اس مقالہ میں  ان کے جدید اردو مرثیے "آیات زندگی"کا تنقیدی جائزہ لیا جاتا ہے۔

فارغ بخاری کا سب سے پہلا رثائی شعری مجموعہ "آیاتِ زندگی "ہے۔ اس کا سن تصنیف۱۹۴۵ء ہے۔ یہ اَسّی (۸۰) صفحات پر مبنی ہے جسے ملک بک ڈپو لاہور نے شائع کیا ہے۔ یہ ایک طویل جدید اُردو مرثیہ ہے جس کو موضوعات کے اعتبارسے ان سات عنوانات میں  تقسیم کیاگیا ہے:آیاتِ زندگی،تلخ حقائق،دخترانِ ملتِ بیضا کے نام،سادات کرام سے،ذاکروں  سے متعلق،جوانانِ ملت سے،دُعا۔

فارغ بخاری کا لکھا ہوایہ جدیدکربلائی مرثیہ مسدس کی ہیئت میں  ہے۔ اس میں  کل ۱۴۴ بند ہیں ۔ یہ مرثیہ اُس وقت لکھا گیا تھا جس وقت شہیدِ اعظم حضرت امام حسین ؓ کی بے نظیر قربانی کے مقدس نقوش کو اُجاگر کرنے کے سلسلے میں  ہندوستان کے طول و عرض میں  ''تیرہ سو سالہ یادگارِ حُسینی '' کے جلسے بین الاقوامی شہرت اختیار کررہے تھے ۔بقولِ فارغ بخاری:

" آج سےتقریباً چارسال قبل جبکہ عالمِ انسانیت کے بطلِ جلیل حضرت اماحسین ؑ کی تیرہ سو سالہ برسی تمام دنیائے اسلام میں  منائی جارہی تھی۔ اپنے جذبات ِ عقیدت کے اظہار کے طور پر میں  نے بھی ایک نظم لکھنے کا ارادہ کیا۔لیکن یہ چیز میرے تصور میں  بھی نہ تھی کہ یہ نظم اتنی طویل اورمبسوط ہوجائے گی"(۱)

           اس اقتباس سے مترشح ہوتاہے کہ مذکورہ اردو مرثیہ"آیات ِ زندگی"۱۹۴۵ء سے چار سال قبل یعنی۱۹۴۱ء میں  تخلیق کیاگیا تھا ۔

           مرثیہ کو پڑھتے ہوئے ذہن بار بار اقبال کی"جوابِ شکوہ" نظم کی طرف جاتا ہے کیوں  کہ مرثیہ میں "جوابِ شکوہ" کی مانند مسلمانوں  کو اپنی اندرونی اصلاح پر زور دیا گیا ہے۔ فارغؔ کی یہ نظم (مرثیہ) بھی ایک الہامی نظم ہے ۔

"یہ نظم درحقیقت ایک الہامی کیفیت میں  لکھی گئی ۔۔۔ جب مجھ پر یہ کیفیت طاری ہوگئی تو اس وقت میری حالت کچھ عجیب سیتھی ۔ چار دن میں  اپنے کمرہ سے باہر نہیں  نکل سکا اور چار راتیں  سویا تک نہیں ۔ دماغ میں  ایک طوفان برپا تھا اور اشعار ڈھلے ہوئے چلے آرہے تھے۔ .اس لیے میں  اسے اپنی ''الہامی نظم سمجھتا ہوں "(۲)

           فارغ بخاری کا یہ مرثیہ جدید اُردو مرثیہ ہے۔ اس میں  شہادتِ حسین ؓ اور شہادتِ اہلِ بیت اطہار پر رونے کی بجائے اُن کی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے کی تلقین کی گئی ہے۔ مسلمان جو نواسۂ رسولؐ  کی بے نظیر قربانی کاحقیقی فلسفہ بھول کر پستی کی طرف گام زن تھے اور جو غیر اسلامی رسوم و قیود میں  جکڑے ہوئے تھے ، اُنہیں  راہِ راست پرلانے کی تاکید کی گئی ہے۔اس مرثیہ میں  فارغ اُردو کے جدید مرثیہ نگار جوش ؔ ملیح آبادی کے پیرو کار نظرآتے ہیں  کیوں کہ اس میں  جوشؔ کے مراثی کی طرح عصری مسائل کا تذکرہ اور سماجی آگہی کی لہرجاری و ساری نظرآتی ہے۔ یہ مرثیہ روایتی مرثیے کی بہت سی خوبیوں  سے محروم ہے ۔ اس میں  کردار نگاری ، منظر نگاری ، شخصیت نگاری ، رزم نگاری ، آلاتِ حرب و ضرب اور واقعاتِ کربلا کا سلسلہ وار بیان نہیں  ملتا ۔ اس مرثیہ کے بارے میں  فارغ بخاری خودلکھتے ہیں :

"یہ نظم اصلاحی نقطۂ نظر سے لکھی گئی ہے۔ اس میں  بعض ناگزیر تلخ حقیقتیں  بھی ہیں ۔جنہیں  پڑھ کر بعض بزرگ شاید مجھے ''باغی'' خیال کریں  لیکن میرا مقصود کسی کی ذاتی خوردہ گیری نہیں  بلکہ میں  ان بدعنوانیوں  کے خلاف صدائے احتجاج بلند کررہا ہوں  جن کے باعث ہمارے حقیقی جوہر مِٹ رہے ہیں ۔ میں  تاجرانہ اور رسمی نوحہ خوانی کو خوشنودیٔ امام کا ذریعہ نہیں  سمجھتا۔ میرا ایمان حسین ؓ کی بے بس مظلومی کا قائل نہیں ۔ میرا عقیدہ ہےکہ وہ تاجدارِبحر و بر اگر چاہتا تو اس کے ادنیٰ اشارے پر فرات کی موجیں  بڑھ کر یزید کے لشکر عظیم کو نگل جاتیں  ،لیکن وہاں تو منشائے ایزدی ہی یہ تھا کہ جہاں  شیرِ خدا امام برحق امیر المومنین حضرت علیؓ نے کفار کو بڑے بڑے معرکوں  میں  شکست دے کر دینِ اسلام کا وقار قائم رکھا۔ وہاں  ابن علیؓ بہتّر(۷۲) نفوس کے ساتھ اسلام کی عزت و حرمت کے احیاء کے لیےیزید کے بے پناہ لشکر سے مقابلہ کرتے ہوئے ایسی عدیم النظیر قربانی کا نقشہ پیش کرے جس کی وجہ سے قیامت تک باطل کے مقابل حق کا سر اونچا رہے۔ سید الشہداء بے شک مظلوم تھے لیکن بہادر اور اولوالعزم مظلوم "(۳) 

           مرثیہ کا آغاز" آیاتِ زندگی" کے عنوان سے ہواہے۔ اس عنوان کے تحت پہلے نو بند وقت کے تصور پر مبنی ہیں  جن میں  یہ بتایا گیا ہے کہ وقت مردوں  کو پھل دیتا ہے اور ناتواں  و کمزورلاشوں  کو پاوں  سے کچل دیتا ہے یہ سخت کوشوں  کو درسِ عمل دیتا ہے اورکمزور و نخیف جانوں  کو مسل دیتا ہے۔ اِس پر اگر کوئی قابو پاسکتا ہے تو وہ سربلند اور زور آور ہے۔ وقت کسی مظلوم کی آہ و بکا پر نہیں  کڑھتا اور نہ ہی کسی کی خوں  فشاں  روداد کو سننے کا روا دار ہے ۔ اس کی آنکھوں  میں  اگر کوئی آنکھیں  ڈال سکتا ہے تو وہ جی دار اور طاقت ورہے۔ وقت کا کارواں  اپاہجوں  اور ناتوانوں  کے لیے ہرگزنہیں  رُکتا۔ یہ خودجوان ہے اور عملی جوانوں  کا دلدادہ ہے ۔ انہیں  بوڑھی ہڈیوں  سے چڑ ہے اس لیےیہ انہیں  چباتا ہوا آگے بڑھتا ہے ۔ وقت کیوں  نہیں  ٹھہرتا ۔ فارغ کی زبانی سنیے:

آشنائے جوہرِ مردانگی رہتا ہے یہ
راز اپنا  صاحبِ کردار سے کہتا ہے  یہ
ہر قدم پر گرچہ لاکھوں  ٹھوکریں سہتا ہے یہ
سیلِ بے ہنگام بن کر رات دن بہتا ہےیہ
سنگریزوں  کو بہا لیتاہے پانی کی طرح
کوہساروں پر یہ چڑھتا ہے جوانی کی طرح(۴)

           اس تمہید کے بعد فارغؔ اپنے اصل مقصد کی طرف آتے ہیں  اور کہتے ہیں  کہ اے مسلمانو! جب تم خود اپنے کو بے بس و بےکس کہہ رہے ہو تو زمانہ کیوں  تمہارا ساتھ دے ۔ جب تم ہر قدم پر آہ و فریاد کرتے ہو تو وقت کیوں  کر تمہارا ہمراہ بنے۔اگلے بندوں  میں  فارغؔ نے مغربی اقوام  سے اپنے دور کے مسلمانوں  کا موازنہ کیا ہے جس میں  مسلمانوں  کو اُن کی کسالت پسندی اور غلامانہ ذہنیت کی بناء پر نہایت نچلا دکھایا ہے۔

شوکت و شانِ امارت غیرکے قبضے میں  ہے
ثروت ِدنیا  و  دولت  غیر  کے  قبضے  میں   ہے
سب تمہاری جاہ و حشمت غیر کے قبضے میں  ہے
غیرت و ناموس و عزت غیر کے قبضے میں  ہے
دمغلامی شہِ والا کا کیوں  بھرتے ہو تم
مسلکِ شبیرؓ کو بدنام کیوں  کرتے ہو تم(۵)

           فارغؔ آگے جا کر کہتے ہیں  کہ غیر،آسمانوں  کی خبر لانے والا ہے۔ ان کی سطوت ، وسعتِ افلاک کو چھونے والی ہے اور تم خوابِ خرگوش میں  ڈوبے ہوئے ہو۔ اُٹھو اور اپنے آپ کو پہچانو ورنہ زمانہ لوحِ ہستی سے تمہارا نام و نشان تک مٹادے گا۔ اے مسلمانو! اُٹھو اور محکومی کی ساری زنجیریں  توڑ ڈالو ۔ اُٹھو ! اگر جینا ہے تو عظمت و حشمت سے جیو ، جس طرح اہل ِ بیت اطہار جیتے تھے ۔ اُٹھو اور حضرت شبیرؓ کے کارناموں  کو ٹٹولو ، اُن کو پڑھو اوراُن کے احکامات پر من و عن عمل شروع کرو۔

بزم آرائی کو چھوڑو ، رزم آرائی کرو
ناز پیمائی تو کی ، اب تیغ پیمائی کرو
پھر سے احکامِ رسالتؐ کی پذیرائی کرو
پھر ذرا اسلام کے در پر جبیں  سائی کرو
پھر ذرا توحید کے پیغام کی عزت کرو
پھر ذرا شبیرؓ کے احکام کی عزت کرو(۶)

           ''آیاتِ زندگی '' کا دوسرا حصہ ''تلخ حقائق '' کے عنوان سے ہے جو ۴۹ بندوں  پر مشتمل ہے اور اس مرثیہ کا طویل حصہ ہے۔ اِس  میں  فارغ نے شہیدانِ کربلاپر ماہِ محرم میں  کیے جانے والے ماتم کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ اِس  کے آغاز میں  وہ اہل تشیع سے مخاطب ہو کر کہتے ہیں  کہ ماہِ محرم واقعی ماتم سے ہے اور تمہارے ہی دم سے کربلاکا حادثہ زندہ و پائندہ ہے۔ تمہارا ماہِ محرم میں  عزاداری کرنا واقعی قابل ِستائش ہے ۔۔۔ اگلے چند بندوں  میں  حضرت امام حسین ؓ کی عظمت کو موضوعِ سخن بنایا ہے اور پھر اہلِ تشیع کے ماہِ محرم میں  کی جانے والی عزاداری پر تنقید کی ہے۔ یہاں  پر دوبند ملاحظہ ہوں :

صرف رونے ہی سے لیکن کام چل سکتا نہیں
مسلکِ اسلام گریہ سے سنبھل سکتا نہیں
آنسوؤں  سے منظرِ خونیں  بدل سکتا نہیں
جو حسینی فرض عائد ہے وہ ٹل سکتا نہیں
دل میں  سوچو مومنانِ صاحبِ عقل سلیم
صرف ماتم ہی نہیں  ہے مقصدِ ذبحِ عظیم(۷)

           اس کے بعد فارغ ؔنے حضرت امام حسین ؓ کی سیرت نگاری چند بندوں   میں  پیش کی ہے جس میں  امام حسین ؓ کو ضیغموں  کا پیش  امام ، سبط شاہِ خیر الانام ، پیشوائے خاص و عام اور رہنمائے انس و جان جیسے القابات سے ملقب کیا ہے۔ سیرت نگاری کا ایک نمونہ ملاحظہ کریں :

وہ امام دوسرا وہ خالقِ صبر و شکیب
وہ طرحداری وہ سطوت وہ شجاعت و نہیب
وہ وفا و ہمت و عظمت کا نقشِ دل فریب
وہ سرافرازی کی زینت سربلندی کا وہ زیب
سرفروشوں  کی جماعت کا وہ دلدادہ حسینؓ
عزم و استقلال کی دنیاکا شہزادہ حسینؓ(۸)

           اس کے بعد ''دخترانِ ملتِ بیضا'' کے عنوان سے اس مرثیہ کا تیسر احصہ شروع ہوتا ہے جس میں  انیس (۱۹) بند ہیں ۔ مرثیہ کے اِس حصہ میں  فارغؔ نے  دخترانِ ملتِ بیضا کو حضرت زینبؓ ، حضرت کلثومؓ اور حضرت زہراؓ کے نقشِ قدم پر چلنے کی تلقین  اور تہذیبِ مغرب سے دُور رہنے کی تنبیہ کی ہے ۔ مرثیہ کا یہ حصہ زیادہ تر خواتینِ کربلا اور دخترانِ ملت بیضا کے درمیان موازنے کی صورت میں  ہے۔  فارغ کا اصل مقصد ان کے درمیان موازنہ نہیں  بلکہ دخترانِ ملتِ بیضا کی اصلاح مراد ہے اور انہیں  خواتین  کربلا جیسا بنانے کے وہ متمنی ہیں  ۔ یہاں  صرف ایک بند پراکتفا کیا جاتا ہے۔

پُر فن و پرکار تم ، شرم و حیا ان کا لباس
تم غنا پر مر رہی ہو ، فقر تھا اُن کا اساس
تم کو بدہضمی موافق اور فاقہ اُن کو راس
تم کو غیروں  کا سہارا ، اُن کو تھی اللہ کی آس
تم نے تو کوئی چلن بھی اُن کا سیکھا ہی نہیں
عترتِ اطہار کا تم میں  سلیقہ ہی نہیں (۹)

آخری دو بندوں  میں  سیرت ِ بتولؓ پر فارغؔ نے  دو ٹوک محاکمہ کیا ہے،جو معنوی حوالے سے جاندار و شاندار ہے۔ایک بندملاحظہ ہو:

جس کے نیک اطوار نے غیروں  سے حاصل کی خراج
جس کی رحمانہ عنایت نے لیادشمن سے باج
صبر جس کی مملکت تھی اور رضا تھی جس کا تاج
ڈھل چکا تھا معرفت کے سانچے میں  جس کا مزاج
جس کی فطرت پر صداقت کا دریچہ باز تھا
جس کی عفت اور عصمت پر خدا کو ناز تھا(۱۰)

اس مرثیہ کا چوتھا حصہ ''سادات کرام سے '' کے عنوان سے ہےجس میں ۱۲ بند ہیں ۔ ان میں  فارغ بخاری نے اپنے دور کے ساداتِ کرام سے بڑے تلخ لہجے میں  خطاب کیا ہے۔ اِس حصہ کا پہلابند یہ ہے:

سامنےآئے ذرا اولادِ ابنِ بو تراب
صاحبِ توقیر، عظمت آفریں، رفعت مآب
رہنمائے دینِ برحق، واقف اُم الکتاب
یعنی ساداتِ اولوالعزماں  سے ہے میرا خطاب
ذہنِ ناقص، مضمحل افکار، فرسودہ دماغ
تم ہو کیاذی جاہ، معصومینؑ کے چشم و چراغ(۱۱)

           اس آغاز کے بعد فارغ بخاری نے شہیدان کربلا اورساداتِ کرام کا موازنہ کیاہے جن میں  ساداتِ کرام پر کافی چوٹیں  کی ہیں ۔ مرثیہ کے اِس حصہ کی طرف سید ضیاء جعفری نے ان الفاظ میں  اشارہ کیا ہے :

''فارغؔ نے جن بنیادی کمزوریوں  کی جانب قوم کی توجہ منعطف کرنے کی کوشش کی ہے وہ بدرجۂ اتم ہم میں  موجود ہیں ۔ ہمارے علماء ، سادات کرام ، ذاکرین ، جوانانِ ملّت اور محدرات بنیادی طور پر انہی بیماریوں  کا شکار ہیں ۔'' (۱۲)

           باقی بندوں  میں  فارغؔ ،سادات کرام سے مخاطب ہو کر کہتے ہیں  کہ تم آزارِ غلامی کو چاہنے والے ہو، تم محکومی کا دل سے احترام کرتے ہو، تم ابن غلا م ابن غلام ابن غلا م ہو ۔ جبکہ شہیدانِ کربلا موت کو غلامی پر ترجیح دینے والے تھے :

قوم کے بے آبرو ٹکڑوں   پہ رہتے ہو مگن
ڈھانکتے ہو بیکسوں  کے چیتھڑوں  سے اپنا تن
چھینتے ہو گر رسائی ہو تو مُردوں  سے کفن
پھر بھی لیکن تم کو اپنی ذات پہ ہے حسنِ ظن
حیف ہے سمجھا نہ کچھ اسلاف کی اوقات کو
خاک میں  تم نے ملایا عظمتِ سادات کو(۱۳)

فارغ ؔ نے اِس حصہ میں  خصوصاً اور بقیہ حصوں  میں  عموماً اس طرح کا لہجہ اپنانےکی طرف یوں  اشارہ کیا ہے:

'' مجھے اطمینان ہے کہ قوم کا بالغ ِ نظر طبقہ اس نظم کی حقیقی روح کو سمجھتے ہوئے ضرور ان کمزوریوں  کو دور کرنے کی کوشش کرے گا ، جن کی وجہ سے آج ہم نکبت کے عمیق گڑھوں  میں  دھنسے جارہے ہیں ۔''(۱۴)

           اس مرثیہ کا پانچواں  حصہ '' ذاکروں  سے متعلق '' کے عنوان سے ہے جس میں  ذاکرینِ اہلِ بیت پر کڑی تنقید کی ہے ۔یہ حصہ نو(۹)بندوں  پر مبنی ہے۔پہلے چار بندوں  میں  ذاکرین پر تنقید ہے اور باقی پانچ بندوں  میں  اُن ذاکرین کو جو فارغؔ کے مطابق ''گنتی کے ہیں '' کے کردار کوسراہا ہے۔

علم سے بہرہ ہیں  لیکن بے عمل جاہل ہیں یہ
پستیوں  کی روح میں  تحت الثریٰ کے دل ہیں یہ
طلبِ زر کے واسطے ہر بات کے قائل ہیں یہ
تم سے سچ کہتا ہوں  مشقِ دار کے قابل ہیں یہ
زرگری کے واسطے ان کی ہے یہ سب ہاؤ ہو
بیچتے پھرتے ہیں  مجلس میں  شہیدوں  کا لہو(۱۵)

مرثیہ کا چھٹا حصہ ''جوانانِ ملّت سے ''کے عنوان سے۲۷ بندوں  پرمشتمل ہے جس میں  فارغؔ نے جوانانِ ملّت کے بناؤ سنگار، زنانہ حرکتوں  اور مغربی تہذیب کی بے جا تقلید پر خوب چوٹیں  کی ہیں ۔ایک بند ملاحظہ ہو :

گیسوئے مشکیں  سے شانے کو جدا کرنے نہ پاؤ
اہتمامِ خاص سے کرتے رہو ہر دم بناؤ
دیکھ غصے میں  نہ بے دردی سے ہونٹوں  کو چباؤ
طیش  میں   آکر نہ  تم  یوں آستینوں کو چڑھاؤ
گوری باہیں  دیکھ کر اغیار کو غش آ نہ جائے
تم کو جانِ من کہیں   اپنی نظر ہی کھا نہ جائے(۱۶)

           اِس  طنز کے بعد فارغؔ ، حضرت امام حسین ؓ کے لہجے میں  جوانانِ ملت سے یوں  مخاطب ہوئے ہیں :

نوجوانو! پوچھتی ہے تم سے یہ روحِ امام
کیوں  چلے آتے ہو نسلاً بعد نسلاً تم غلام
کر رہے ہو دل سے تم محکومیت کا احترام
میرے مذہب میں  تو غیروں  کی غلامی ہے حرام
ہو کے میرے نام لیواغیر کے محکوم ہو
ایک میں  مظلوم تھا اور ایک تم مظلوم ہو(۱۷)

           آگے بڑھ کر فارغ، جوانانِ ملّت کو حضرت امام حسین ؓ کا دامن مضبوطی سے تھامنے اور ملّت اسلام کو زندہ کرنے کی تلقین اِن الفاظ میں  کرتا ہے :

تھام لو ہاں  تھام لو پھر بڑھ کے دامانِ حسین ؑ
دل میں  پھر پیدا کرو وہ زورِ ایمانِ حسین ؑ
سرفروشانہ بڑھو اے سرفروشانِ حسینؑ
بزدلانہ خو ہے تو دین غلامانِ حسینؑ
تم کو اپنے فرض کا احساس ہونا چاہیے
نسبتِ شبیرؑکا کچھ پاس ہونا چاہیے (۱۸)

            اس حصہ کے آخری بند جوانانِ ملّت کو خواب سے بیدار کرنے، غیروں  سے نبرد آزما ہونے اور آزادی حاصل کرنے کی تلقین سے مملو ہیں ۔ یاد رہے یہ مرثیہ لکھتے وقت برصغیر انگریزی غلامی کے دور سے گزررہاتھا۔

           اِ س مرثیہ کا آخری اور ساتواں  حصہ '' دعا'' کے عنوان سے ہے اور سات بندوں  پر مبنی ہے۔ ان سات بندوں  میں  فارغؔ ،اللہ تعالیٰ سے دست بہ دعا ہیں  کہ اے اللہ ! ہم سب کو حضرت امام حسین ؓ اور اہلِ بیت اطہار کے نقشِ قدم پر چلنے والا بنا۔ دعا کا پہلا بند یہ ہے:

سیلِ امواجِ یم تو حید کے جویا حسینؓ
نا خدائے کشتیٔ اسلام کے رویا حسینؓ
پیکرِ دینِ محمدؐ کے لبِ گویا حسینؓ
پھر جہاں  بھر میں  ہمارا غلغلہ ہو یا حسین ؓ
تیری نسبت کے تقدس کا ہمیں  احساس ہو
پھر ہماری قوم میں  پیدا کوئی عباسؓ ہو     (۱۹)

مرثیہ کے اس آخری حصہ ( دعا ) میں  فارغؔ جس درد اور سوز کے ساتھ دست بہ دعا ہوئے ہیں  اس کے تناظر میں  سید ضیاء جعفری کی یہ رائے قرینِ حقیقت معلوم ہوتی ہے:

"نظم کو پڑھتے ہوئے واقعییہی محسوس ہوتا ہے کہ شاعر جن واقعات کی نقاب کشائی کررہا ہے وہ دل سے اُٹھے ہوئے جذبات ہیں  جو دلوں  پر چھا رہے ہیں  اور پڑھنے والا یہی محسوس کرتا ہے کہ فارغؔ میرے دِل کی ترجمانی کررہا ہے۔"(۲۰)

معنوی طور پر فارغؔ بخاری نے اس مرثیہ میں  اہلِ بیت اور خاص طور پرحضرت امام حسین ؓ اور اُن کے انصار و اصحاب و محذرات کی سیرت کی روشنی میں  قوم کو پیغام دینے کی کوشش کی ہے۔ یہ مرثیہ قدیم کلاسیکی مرثیہ کی مسدس ہیئت میں  ہے۔ اس کا ہر بند چھ مصرعوں  پرمشتمل ہے اور ہر بند کے پہلے چار مصرع باہم مقفیٰ و مردف اور آخری دو مصرعے آپس میں  ہم قافیہ وہم ردیف ہیں  ۔ علم بیان اورصنائع بدائع جو شاعری کی جان ہیں  اس مرثیہ کے زیور ہیں ۔ اس میں  اگر ایک طرف تشبیہات و استعارات کی بوقلموں  مثالیں  موجودہیں  تو دوسری طرف محاکات اور مراعاۃ النظیروغیرہ کی مثالیں  بھی خوب ہیں ۔ اِس میں  نشتریت اور چونکا دینے والا خطیبانہ انداز اپنے عروج پر ہے۔  ذیل میں  مرثیہ سے ایک مثال ملاحظہ ہو ،جس میں  الفاظ و تراکیب کا طنطنہ باندھاگیا ہے:

سیلِ امواجِ یمِ توحید کے جویا حسینؓ
نا خدائے کشتیٔ اسلام کے رویا حسینؓ
پیکرِ دینِ محمدؐ کے لبِ گویاحسینؓ
پھر جہاں  بھر میں  ہمارا غلغلہ ہو یا حسینؓ
تیری نسبت کے تقدس کا ہمیں  احساس ہو
پھر ہماری قوم میں  پیدا کوئی عباسؑ  ہو(۲۱)

المختصر فارغؔ بخاری کا یہ مرثیہ صوبہ خیبر پختون خوا میں  لکھے گئے کربلائی مرثیوں میں اردو کاپہلا  جدید کربلائی مرثیہ ہے۔ اس مرثیہ میں  فارغ نے حضرت امام حسین ؓ کی مظلومی و بیکسی پر رونے کی بجائے اُن کے مِشن کی کس مپرسی پر آنسو بہائے ہیں  ۔ اس میں  فارغ بخاری ایک شاعر سے زیادہ ایک مبلغ اورواعظ دکھائی دیتے ہیں  ۔ اس  مرثیہ میں  وہ قوم میں  اُس روح کے متلاشی ہیں جو اصحاب و انصارِ حسینؓ میں  کارفرما تھی ۔ یہ مرثیہ فن اور فکر دونوں  لحاظ سے صوبہ خیبر پختونخوا میں  لکھے گئے تمام کربلائی مرثیوں  میں  غایت درجے کا حامل ہے۔


 

حوالہ جات

۱۔      فارغ بخاری ، آیاتِ زندگی ، ملک بک ڈپو لاہور ، ۱۹۴۵ء ،ص: ۱۱
۲۔     ایضاً        ص: ۱۱۔۱۲           ۳۔       ایضاً       ص: ۱۲
۴۔     ایضاً        ص: ۲۹              ۵۔       ایضاً       ص: ۳۱
۶۔     ایضاً        ص: ۳۱              ۷۔       ایضاً       ص: ۳۹
۸۔     ایضاً        ص: ۴۳             ۹۔        ایضاً       ص:۵۰
۱۰۔    ایضاً        ص: ۵۸             ۱۱۔       ایضاً       ص: ۵۹
۱۲۔    ضیاء جعفری ،پیش لفظ ،، مشمولہ آیاتِ زندگی ، فارغ بخاری ، ص: ۱۹
۱۳۔    فارغ بخاری ، آیاتِ زندگی ، ملک بک ڈپو لاہور ، ۱۹۴۵ء ،ص: ۶۱
۱۴۔    فارغ بخاری، گفتنی ،مشمولہ آیاتِ زندگی ، ص: ۱۲
۱۵۔    ایضاً        ص: ۶۴
۱۶۔    ایضا        ص: ۶۹
۱۷۔    ایضاً        ص: ۷۰
۱۸۔    ایضاً        ص: ۷۲
۱۹۔    ایضاً        ص: ۷۸
۲۰۔   ضیاء جعفری، پیش لفظ ، مشمولہ آیاتِ زندگی ، ص: ۱۹
۲۱۔    فارغ بخاری ، آیاتِ زندگی ، ملک بک ڈپو لاہور ، ۱۹۴۵ء،ص: ۸۷

 

اوپر جائیں  |   پرنٹ کیجئےِ
انگریزی ورژن ای میل چیک کریں مرکزی صحفہ پرنٹ پسندیدہ سائٹ بنائیں رابطہ کیجئے www.shahzadahmad.com www.shahzadahmad.com